اقبال کا تصور تعلیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اردو میں تعلیم کا لفظ، دو خاص معنوں میں مستعمل ہے ایک اصطلاحی دوسر ے غیر اصطلاحی، غیر اصطلاحی مفہوم میں تعلیم کا لفظ واحد اور جمع دونوں صورتوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور آدرش، پیغام، درسِ حیات، ارشادات، ہدایات اور نصائح کے معنی دیتا ہے۔ جیسے آنحضرت کی تعلیم یا تعلیمات، حضرت عیسیٰ کی تعلیم یا تعلیمات اور شری کرشن کی تعلیمات، کے فقروں میں، لیکن اصطلاحی معنوں میں تعلیم سے وہ شعبہ مراد لیا جاتا ہے جس میں خاص عمر کے بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی اور جسمانی نشو و نما، تخیلی و تخلیقی قوتوں کی تربیت و تہذیب، سماجی عوامل و محرکات، نظم و نسق مدرسہ، اساتذہ، طریقہ تدریس، نصاب، معیار تعلیم، تاریخ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور اس طرح کے دوسرے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔

علامہ اقبال کے تعلیمی تصورات یا فلسفہ تعلیم کے متعلق کتب و مقالات کی شکل میں اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے کہیں زیادہ تعلیم کے عام مفہوم کوسامنے رکھاگیا ہے۔ یعنی جو کچھ لکھا گیا ہے اس میں درس و تدریس، تعلیم یا طلبہ و مدارس کے توسط سے پیدا ہونے والے مسائل سے بحث کرنے کی بجائے عام طور پر وہی باتیں کہی گئی ہیں جواقبال کے فکرو فن یا فلسفہ خودی و بے خودی یا تصور فرد و جماعت کے حوالے سے، ان کو ایک بزرگ مفکر یا عظیم شاعر ثابت کرنے کے لیے کہی جاتی ہیں، حالانکہ ان باتوں کا تعلق، تعلیم کے اصطلاحی مفہوم سے نہیں بلکہ تعلیم کے اس عام مفہوم سے ہے جس کے دائرے میں ہر بزرگ اور صاحبِ نظر فلسفی یا شاعر کا پیغام درس حیات آ جاتا ہے۔

مانا کہ اقبال کے تصور ِ تعلیم کے ضمن میں ایسا کرنا بعض وجوہ سے ناگزیر ہے اور اقبال کے مقاصد ِتعلیم کے تعین کے سلسلے میں ان کے فلسفہ خودی و بے خودی یا فلسفہ حیات کو بہرحال سامنے رکھنا پرتا ہے۔ لیکن اقبال کے عام فلسفہ حیات کو اصطلاحی معنوں میں تعلیم یا فلسفہ تعلیم سے تعبیر کرنا یا محض ان دلائل کی بنیاد پر انھیں ایک عظیم مفکر تعلیم یا ماہر تعلیم کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا۔ اس لیے کہ بقول قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی،

” اقبال نہ تو فن ِ تعلیم کے ماہر تھے نہ انھوں نے اس فن کی تحصیل کی تھی، نہ اس موضوع پر انھوں نے کوئی کتاب لکھی بجز اس کے کہ کچھ مدت تک بحیثیت پروفیسر کالج میں درس دیتے رہے کوئی مستقل تعلیمی فلسفہ انھوں نے نہیں پیش کیا۔ “

با ایں ہمہ، اقبال کے تعلیمی افکار سے کلیتاً صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے تعلیم کی فنی اور عملی صورتوں پر غور کیا ہے مسائل تعلیم کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ اپنے فلسفہ حیات میں مناسب جگہ دی ہے۔ تعلیم کے عام معنی و اثرات پر روشنی ڈالی ہے اس کے ڈھانچے اغراض اور معیار کو موضوع گفتگو بنایا ہے اور اپنے عہد کے نظام ِ تعلیم پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے۔ مدرسہ، طلبہ، اساتذہ اور نصاب، سب پر اظہار خیال کیا ہے صرف مشرق نہیں، مغرب کے فلسفہ تعلیم اور نظام ِ کار کو بھی سامنے رکھا ہے۔ دونوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ کیا ہے ان کے درمیان حد ِ فاضل کھینچی ہے۔ خرابیوں اور خوبیوں کا جائزہ لیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ زندگی کو کامیاب طریقے سے برتنے اور اس کی مزاحمتوں پر قابو پالینے کے لیے کس قسم کی تعلیم اور نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔

افراد اور اقوام کی زندگی میں تعلیم و تربیت کو وہ بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ افراد کی ساری زندگی کی عمارت اسی بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے اور اقوام اپنے تعلیمی فلسفہ کے ذریعہ ہی اپنے نصب العین، مقاصد ِ حیات، تہذیب و تمدن اور اخلاق و معاشرت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے قومی زندگی کے اسی اہم پہلو پر گہرا غور و خوص کیا ہے۔ اور اپنے افکار کے ذریعہ ایسی راہ متعین کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک زندہ اور جاندار قوم کی تخلیق کا باعث بن سکے۔

ابتداءمیں تو اقبال نے قوم کے تعلیمی پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ خاص طور پر اپنی شاعری کے پہلے اور دوسرے دور میں اس موضوع پر انھوں نے کچھ نہیں لکھا البتہ آخر میں انھوں نے اس قومی پہلو کو بھر پور اہمیت دی۔ اور ” ضرب کلیم‘ میں تو ”تعلیم و تربیت“ کا ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی جابجا ایسے اشعار ملتے ہیں۔ جن میں صحیح تعلیم اور اس کے مقاصد کی نشان دہی کی گئی ہے۔ بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ،

” اقبال نے تعلیم کے عملی پہلوئوں پر کچھ زیاد ہ نہیں لکھا مگر ان کے افکار سے ایک تصور تعلیم ضرور پیدا ہوتا ہے۔ جس کو اگر مرتب کر لیاجائے تو اس پر ایک مدرسہ تعلیم کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ “

مروج نظام ہائے تعلیم[ترمیم]

اقبال کے زمانے میں دو نظام تعلیم ملک میں پہلو بہ پہلو رائج تھے ایک تو قدیم دینی نظامِ تعلیم تھا جو مذہبی مدارس میں رائج تھا۔ یہ صدیوں سے ایک ہی ڈگر پر چلا آ رہا تھا۔ وقت کے تقاضوں نے اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی تھی اور اس کے باوجود اسے اپنی جگہ مکمل سمجھا جاتا تھا۔ دوسرا نظام حکمران انگریز قوم کا رائج کردہ تھا جو لارڈ میکالے کے فکر کی پیداوار تھا اس کا مقصد نوجوانوں کو حصول ِ علم میں مدد دینے۔ انتظامی مشینر ی کے کل پرزے ڈھانچے کے علاوہ ایسی نسل تیار کرنا تھا جو ذہناً اپنے ملک و قوم کی بجائے حکمران قوم سے وابستہ ہو۔

ان دو نوں نظاموں میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو ملک اور قوم کی امنگوں اور مقاصد کی ترجمانی کرنے کی اہمیت رکھتا ہو۔ چنانچہ اقبال نے ان پر بھر پور تنقید کی ہے

قدیم دینی مدارس کی جامد تعلیم[ترمیم]

اقبال نے دیکھا تھا کہ قدیم دینی مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم جس طریقہ سے دی جاتی ہے۔ وہ طلباءکو ارکانِ اسلام اور فقہی مسائل سے تو آگاہ کر دیتی ہے لیکن وہ دین کی روح سے آشنا نہیں ہوتے، مشاہدہ کائنات اور تسخیر کائنات کے مضامین کا ان کے نصاب سے کوئی تعلق نہیں ہے ان مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ زندگی کے گوناگوں مسائل کو سمجھنے اور انھیں حل کرنے کی صلاحیت سے عاری رہتے ہیں۔ اور بدلتے ہوئے زمانہ کے تقاضوں کا جواب نہیں دے سکتے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نظام تعلیم نے کئی بڑے علما بھی پیدا کیے جنھوں نے دینِ حق کو زندہ رکھنے کی خدمت انجام دی لیکن ان مدرسوں کے تربیت یافتہ زیادہ تر لوگ وہی تھے جنہیں ”ملا“ کہا جاتا ہے۔ اور جن کی خصوصیات میں تنگ نظری، تعصب، جہالت اور رجعت پسندی نمایاں رہی ہیں۔ اقبال نے ”بال جبریل “ میں ایک نظم ”مُلا“ انہی کو پیش نظر رکھ کر لکھی ہے۔

میں بھی حاضر تھا وہاں ضبط سخن کر نہ سکا
حق سے جب حضر ت مُلا کو ملا حکم ِ بہشت
عرض کی میں نے الہٰی میری تقصیر معاف
خوش نہ آئیں گے اسے حور و شراب و لب کشت

مُلا سے اقبال اس لیے بیزار ہیں کہ اس کے پاس دین ہے دین کی حرارت نہیں، وہ دین کی روح سے بے گانہ ہو گیا ہے۔ اس کی نماز، روزہ، سب رسمی بن گئے ہیں اور حیات کے ان اعلیٰ مقاصد تک اس کی پہنچ نہیں رہی جو دین کا نصب العین ہیں، اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ

تیری نماز میں باقی جلال ہے نہ جمال
تیری اذان میں نہیں ہے مری سحر کا پیام

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیاہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

اقبال کو دینی عالموں سے جو توقع ہے اور ان کے علم کا جو تقاضا ہے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کی اصلاح اور صحیح تعلیم و تربیت ہے اسی لیے وہ تما م تر مایوسی کے باوجود دعوت دیتے ہیں،

اللہ رکھے تیرے جوانوں کو سلامت
دی ان کو سبق خود شکنی خود نگر ی کا

جدید انگریزی مدارس کی گمراہ کن تعلیم[ترمیم]

قدیم دینی مدارس کی جامد، بے روح اور زمانہ کے تقاضوں سے نا آشنا تعلیم کے ساتھ اقبال جدید انگریزی تعلیم سے بھی نالاں تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیم سراسر مادیت پر مبنی تھی اور دین و مذہب سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی نظر میں یہ نظامِ تعلیم دین کے خلاف ایک بہت بڑی سازش تھی جوانوں کو اعلیٰ اسلامی اقدار سے محروم کر رہی تھی۔ یہ تعلیم ضرورت سے زیادہ تعقل زدہ تھی اس نے الحاد اور بے دینی پھیلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جسے اقبال نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

اور یہ اہلِ کلیسا کا نظام ِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

اقبال رسمی اور جامد تعلیم سے اس قدر نالاں نہیں جتنے جدید مغربی تعلیم سے ہیں۔ مغربی تعلیم کے بارے میں وہ بہت تلخ ہیں اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

مذہب سے بیزاری[ترمیم]

مغربی تعلیم کی بنیاد ہی مادیت پر ستی ہے وہ عقل پرستی، تن پروری، تعیش و آرام کی دلدادگی کا سبق دیتی ہے اس سے مسلمان نوجوانوں کے عقائد متزلزل ہو جاتے ہیں مغربی تہذیب کی اندھی تقلید ان سے ان کا نصب العین چھین لیتی ہے اور انھیں اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتی ہے یہ بے دینی اور الحاد انھیں احساس ِ کمتری میں مبتلا کر دیتی ہے اور ان شاہیں بچوں کو خاکبازی کا سبق دے کر انھیں توحید کے نظریہ سے دور لے جاتی ہے۔

گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا لاالہ الا اللہ

شکایت ہے مجھے یا رب خُداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

ترے صوفے ہیں افرنگی، ترے قالین ایرانی
لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

بے مقصدیت[ترمیم]

مغربی تعلیم کی روح بلند مقاصد سے خالی ہے اس کا نصب االعین صرف معاش کا حصول ہے اور یہ نوجوانوں کو پیٹ کا غلام بنا کر اسے دنیاوی لذتوں میں اُلجھا دیتی ہے اس طر ح بلند مقاصد سے وہ بالکل عاری ہو جاتے ہیں۔

وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں
جس علم کا حاصل ہو جہاں ِ میں دو کفِ جو

عصر حاضر ملک الموت ہے تیرا جس نے
قبض کی روح تری، دے کے تجھے فکر معاش
فیض فطر ت نے تجھے دیدہ شاہیں بخشا
جس میں رکھ دی ہے غلامی نے نگاہِ خفاش

احساس کمتری[ترمیم]

مغربی تعلیم نوجوانوں کو اپنی قومی تاریخ و روایات سے بیگانہ کرکے مغربی طرز معاشرت رفتار و گرفتا ر اور طرزِ حیات کا دلدادہ بنا دیتی ہے۔ اور مغرب کے جھوٹے معیار، جھوٹے نظریات اور جھوٹی اقدار کی چمک دمک ان کی نگاہوں کو خیر ہ کر دیتی ہے اس طرح وہ اپنی فطری حریت، دلیری، شجاعت اور بلند پروازی کو چھوڑ کر ایک احساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مغرب کی بھونڈی تقلید کی کوشش میں وہ مغرب کی خرابیوں کو اپنا لیتے ہیں اور خوبیوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔

یہ بتانِ عصر ِ حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش ِ آزرانہ

امومیت کی موت[ترمیم]

مغربی تعلیم کا ایک بہت بڑا لمیہ یہ ہے اس نے عورت کو جذبہ امومیت سے بیگانہ کر دیا ہے۔ عورت اس فرض سے جان چرانے لگی ہے جونئی نسل کی تخلیق اور تعلیم و تربیت کی صورت میں قدرت نے اس کے سپرد کیا تھا یہ گویا قومی خود کشی کے مترادف ہے۔

جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت

استادوں کی گمراہی[ترمیم]

مغربی تعلیم نے تدریس کی ذمہ داری جن لوگوں کے سپرد کی ہے وہ خود بے راہ ہیں۔ وہ نہ ان علوم پر گہری نظر رکھتے ہیں جو وہ پڑھاتے ہیں اور نہ تعلیم کے حقیقی مقاصد سے آشنا ہیں اور جسے خود راہ کی خبر نہ ہوگی وہ دوسرے کی رہنمائی کیونکر کر سکتا ہے اقبال نے ”ضرب کلیم “ میں اساتذہ کے عنوان سے لکھا ہے۔

مقصد ہو اگر تربیت لعل و بدخشاں
بے سودہے بھٹکے ہوئے خورشید کا پرتو
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار
کیا مدرسہ، کیا مدرسہ والوں کی تگ و دو
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

مختصر یہ کہ مغربی نظام تعلیم اقبال کی نظر میں سرتاپا بے مقصد اور لغو ہے اور قوم کے لیے زہر ِ ہلاہل کا اثر رکھتی ہے اس سے نوجوانوں کی تما م تر صلاحیتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ اور قوم اپنی راہ سے یکسر بھٹک جاتی ہے۔

اقبال کا فلسفہ تعلیم[ترمیم]

مروجہ دینی اور مغربی نظامہائے تعلیم کو ردکرنے کے بعد اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں کے لیے ایک ایسے نظامِ تعلیم کے خواہاں ہوتے ہیں جو ان کی خودی کی تربیت کر سکے ان کا فلسفہ تعلیم ان کے فلسفہ خودی کے تابع ہے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ”طیف اقبال “ نے اس سلسلہ میں کہا ہے،

” اقبال نے اپنے نظریہ تعلیم میں طریق کار کا سلسلہ تربیت خودی پر مبنی کیا ہے خودی کی تربیت کے لیے ایک ایسانظام درکار ہے جس میں کلیت پائی جائے جس میں حواس کی تربیت، وجدان اور جذبے کی تربیت کا پہلو بھی ہو اور ان روحانی رشتوں کا احساس بھی جو نفس ِ انسانی میں قدرت کی طرف سے پائے جاتے ہیں تربیت خودی کے اس نظام کو اقبال نے ”اسرار خودی“ اور ”رموزبے خودی“ میں اچھی طرح بیان کیا ہے۔ “

اس طرح اقبال ایسی تعلیم کے حق میں ہیں جو خودی کی تربیت کرے اور اسے استحکام بخشے اور جو تعلیم ایسا نہ کر سکے وہ ان کے نزدیک نہ صرف بیکار ہے بلکہ نقصان دہ

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر

خودی ہو علم سے محکم تو غیر ت جبریل
خودی ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل

ایسی تعلیم جو اقبال کے اس معیار پر پوری اُترنے والی ہو وہ کیا ہو سکتی ہے اس سلسلہ میں اقبال نے خواجہ غلام حسین کے نام اپنے ایک ”خط“ میں وضاحت کی ہے۔

” علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار حواس پر ہے عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے ۔“

علم کے دو ذریعے[ترمیم]

علم کے حصول کے دوذریعے ہیں ایک علم وہ ہے جو عقل اور حواس کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے اور دوسرا وہ جس کی بنیاد ایمان اور وجدان پر ہے۔ اقبال کے نزدیک یہ دونوں باہم متصادم نہیں ہیں۔ بلکہ ان دونوں کا ارتباط ضروری ہے۔

جوہر میں ہو لاالہ تو کیا خوف
تعلیم ہو گو فرنگیانہ

تعلیم کا مقصد[ترمیم]

اقبال کے نزدیک دینی تعلیم بھی اتنی ہی ضروری ہے جس قدر دنیاوی تعلیم اور پھر دونوں کے درمیان گہرا ربط اور تعلق بھی لازمی ہے محض دینی یا صرف دنیاوی تعلیم اپنی جگہ کافی نہیں اور نہ انھیں علاحدہ رکھ کر بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے۔ اُن کے نزدیک تعلیم کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ وہ انسان کی قلب ماہیت اور روحانی اصلاح کرکے اس کے اندر حفظِ خودی کی خوبیاں پیدا کر دے۔ اسے توحید، علم، عشق، بلند ہمتی، سخت کوشی، پاک دامنی، فقر، رواداری اور درویشی قناعت جیسی صفات سے آراستہ کرکے ایک مثالی انسان بنا دے۔

علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسبابِ تقویم خودی است

فیضانِ نظر[ترمیم]

انسانیت کے بلند منصب کے لیے ضروری ،کتابی علوم کے علاوہ بزرگوں اور ان کے فیضانِ نظر کی تاثیر ہی وہ چیز ہے جو انسان کے قلب و نظر کی پرورش اور روشنی کے لیے لازمی چیز ہے اس کے بغیر مکتب کی تعلیم عموماً نا مکمل اور بے فائدہ رہتی ہے۔ او ر صاحب ِ قلب و نظر بزرگوں کی ایک نگاہ بعض اوقات ایسا کام کر جاتی ہے جو مدتوں کی مکتبی تعلیم بھی نہیں کر سکتی۔

یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی!

تعلیمی مضامین[ترمیم]

اقبال تعلیمی مضامین کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور اس کے نظام تعلیم کے خصوصیات یہ ہے کہ اس میں کلیت پائی جاتی ہے۔ مادے کو بھی روحانیت کو بھی، خدا کو بھی، انسان کو بھی اور نیچر کو بھی وہ سب چیزوں کو اپنی جگہ اہمیت دیتے ہیں۔

دینی علوم اور سائنسی علوم[ترمیم]

اقبال کے نزدیک دین اور سائنس دو الگ الگ مضمون نہیں بلکہ ایک ہی مضمون کے دو حصے ہیں کیوں کہ قران نے بار بار مسلمانوں کو مطالعہ کائنات اور تسخیر فطرت کی دعوت دی ہے اقبال کے خیا ل میں دینی علوم، خدا، کائنات اور انسان تینوں کے مجموعی تشخص پر مشتمل ہیں اور انھیں الگ الگ نہیں کیا جا سکتا اسی تصور کے زیر اثر اقبال نے ایک ایسے نظام ِ تعلیم کاخاکہ پیش کیا ہے جس میں دین، سائنس اور حکمت کو ایک واحد مضمون کی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔

فلسفیانہ علوم[ترمیم]

اقبال حکمت و فلسفہ کے باب میں ایک طرف سائنسی فلسفیوں کے ہم خیال ہیں جو فلسفے کے تصورات کو سائنس کے تجربات و انکشافات سے ہم آہنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف عینی ( آئیڈیا لسٹ ) فلسفیوں کے ہم رائے ہیں جو علم کے مقابلہ میں محض تعقل کو کافی نہیں سمجھتے اور ایک برتر سر چشمہ علم کی ضروت کو ناگزیر خیال کرتے ہیں یہی نقطہ نظر خالص سائنسی طریق کار کے متعلق ہے۔

تاریخ و روایات[ترمیم]

اقبال نے تاریخ و روایت یا روایات کو اپنے تصور ِ تعلیم میں خاص جگہ دی ہے۔ تاریخ انسانی کردار کی تعمیر، ملت کی تنظیم اور حقائق کے انکشاف کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ا قبال کی نظر میں جو قومیں اپنی تاریخ و روایات سے بیگانہ رہتی ہیں۔ وہ اپنی ہستی گو گم کر بیٹھتی ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال نے ادبیات و فنونِ لطیفہ پر ”ضرب کلیم “ میں ایک علاحدہ عنوان قائم کرکے کھل کر اظہار ِ خیال کیا ہے۔ وہ ان تمام فنون کو اپنے فلسفہ خود ی کے تابع گردانتے ہیں ان کے نزدیک وہی فن درست ہے جو قوتِ حیات کی ترجمانی کرے اور خودی کی نشو و نما میں ممدو معاون ثابت ہو۔

حاصل کلام[ترمیم]

آخر تمام بحث کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اقبال کی نظر میں تعلیم کا حقیقی مقصد انسانی سیرت و کردار کی تعمیر کرکے اس کی تسخیر ِ حیات کی صلاحیت کو تقویت پہنچانا ہے اور اس کے ساتھ ہی خدا، کائنات اور انسان کو ایک کلی نظام کی حیثیت سے دیکھنا ہے۔ چنانچہ محض مادی یا محض روحانی تعلیم کو مقصود ٹھہرا لینا درست نہیں، روح اور مادہ کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور تعلیم کا فرض ہے کہ تن اور من دونوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھے اور جسمانی اور روحانی تقاضوں کو یکساں اہمیت دے اس کے ساتھ ہی تعلیم کا مقصد انسان کو تسخیر کائنات کے لیے تیار کرنا بھی ہے اور اسے ایسے سانچے میں ڈھالنا بھی کہ وہ خود کو مفید شہری بنا کر صالح معاشرے کو وجود میں لانے میں مدد دے اور تعلیم کا آخری اور بڑا مقصد خودی کی تقویت اور استحکام ہے۔

جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے

سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کا م دنیا کی امامت کا