میڈم باوری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میڈم باوری
انگریزیMadam Bureau
ہدایت کارنذرالاسلام
پروڈیوسرایس اے گل
تحریرناصر ادیب
ستارے
راویشیخ سلطان احمد
موسیقیایم اشرف
ایم ارشد
سنیماگرافیوقار بخاری
عبدالغنی
ایڈیٹرمحمد سرور
پروڈکشن
کمپنی
تقسیم کارایورنیو پکچرز
تاریخ نمائش
دورانیہ
2:31:58 دقیقہ
ملک پاکستان
زبانپنجابی
بجٹروپیہ 21 ملین (US$200,000)
باکس آفسروپیہ 28 کروڑ (US$2.6 ملین)

میڈم باوری (انگریزی: Madam Bawri) ڈبل ورژن اردو / پنجابی میں فلم کا آغاز کیا۔ اس فلم كو 7 مئی، 1989ء كو ریلیز ہوئى۔ پاکستانی اس فلم کا کریکٹر ایکشن اور جرائم فلموں کے بارے میں فلم کی تکمیل کی گی ہیں۔ یہ فلم باکس آفس میں ہٹ ہوئی تھی اور کراچی کے بمبینو سنیما میں اس کی دو ڈھائی ماہ تک کامیاب نمائش ہوئی تھی اور یہی فلم کراچی میں ہٹ ہوئی تھی۔ اس فلم کے ڈائریکٹر نذرالاسلام تھے۔ پروڈیوسر ایس اے گل تھے۔ کہانی ناصر ادیب نے لکھی تھی اور موسیقی ایم اشرف اور ایم ارشد نے بنائی تھی۔ اس فلم میں نیلی، جاوید شیخ، سلطان راہی، منور سعید اور رنگیلا وغیرہ تھے۔

سٹوری[ترمیم]

ناصر ادیب نے بھی 1988 میں اپنی ٹوپی سے ایک نیا خرگوش نکالا یعنی میڈم باوری کے نام سے ایک فلم۔ پاکستان میں یہ ضیا الحق کا دور تھا جب آرٹ اور کلچر کے خلاف ایک غیر علانیہ سی جنگ جاری تھی۔ رقص اور پاپ میوزک پر باقاعدہ پابندی عائد تھی۔ تھیٹر، ٹیلی ویژن اور فلم پر سخت ترین سنسر نافذ تھا۔ شراب نوشی، جُوا، ریس اور طوائفوں کے مناظر دکھانا ممنوع تھا۔ کسی شادی شدہ مرد یا عورت کا کہیں اور معاشقہ نہیں دکھایا جا سکتا تھا۔ فلمی مناظر میں اُس وقت ایک مضحکہ خیز صورتِ حال پیش آتی جب چھٹے ہوئے بدمعاش اپنے خفیہ تہ خانے کے اندرعیش و عشرت میں ڈُوبے دکھائے جاتے لیکن ساقی کے فرائض انجام دینے والی خاتون اُن کے گلاسوں میں شراب کی جگہ کوکا کولا اُنڈیل رہی ہوتی۔ ان تمام تر پابندیوں کے باوجود ناصر ادیب نے 1988 میں‘میڈم باوری’ کے نام سے ایک ایکشن فلم بنائی۔ اس فلم کا عالمی شہرت یافتہ ناول ‘مادام بواری’ سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن ناصر ادیب نے ہر طرح کے سنسر قوانین کو چیلنج کرتے ہوئے اس کہانی میں ایسا مصالحہ بھر دیا تھا کہ یہ گستاوفلابئیر کے کلاسیکی ناول سے بھی زیادہ متنازع بن گئی تھی۔

1988 میں ریلیز ہونے والی یہ فلم مکمل طور پر ایک مصالحہ فلم تھی۔ ناصر ادیب کی کہانی ایک ایسی نادار عورت کے گرد گھومتی ہے جو بھوک، غُربت، ارد گرد کے لوگوں کی جِنسی ہوس، پولیس کے ظلم و ستم اور عدالتی نظام کے کھوکھلے پن سے تنگ آ کر بغاوت پر اُتر آتی ہے اور موقع ملنے پر سب سے گِن گِن کے بدلے لیتی ہے۔ اس فلم میں لڑائی مار کُٹائی کے مناظر سے لے کر منشیات کی سمگلنگ، بلیک میلنگ، ریپ، جیل سے فرار، اصلی اور نقلی پولیس مقابلے اور تھانے کچہری سے لے کر ہسپتال اور پاگل خانے تک ہر وہ لوکیشن اور سچویشن موجود تھی جو ایک ایکشن فلم کو کامیابی کی ضمانت بخشتی ہے۔

اداکار[ترمیم]

ساؤنڈ ٹریک[ترمیم]

فلم کی موسیقی ایم اشرف نے ترتیب دی، فلم کے نغمات خواجہ پرویز، وارث لدھیانوی اور مسرور انور نے گیت لکھے۔ فلم کی لسٹ ریکارڈنگ میں شامل ادریس بھٹی، ظہور احمد انھوں نے گیتوں کی بہترین ریکارڈنگ کی اور نورجہاں، اے نیّر نے گیت گائے۔ ساؤنڈ ٹریک کو پلاننٹ لولی ووڈ نے لولی ووڈ کے 100 بہترین ساؤنڈ ٹری میں شامل کیا ہے۔

نمبر.عنوانپردہ پش گلوکاراںطوالت
1."میرا روپ سہناں اے تیری جوانی دا سارا شہر دیوانہ اے"نورجہاں5:21
2."راں جا اج دی رات سویرے ٹوڑ جاویں"نورجہاں4:31
3."اک مٹیار پہلی پہلی وار قربان ہوئیں سونیا"نورجہاں3:44
4."جا آج توں تو میرا ہویا دلدار سونیا"نورجہاں4:44
5."کڑی پتلی پتنگ کڑی کچ دی"نورجہاں، اے نیّر4:21
6."میں آں میڈم باوری، میں آں میڈم باوری"نورجہاں4:57
کل طوالت:26:47

بیرونی روابط[ترمیم]