پورس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
راجا پرشوتم عرف پورس
King Porushotam Gurjara(Porus)
340–317 قبل مسیح
پیدائشگجرات
وفات317 قبل مسیح
پنجاب کا علاقے
مذہبہندو مت

'' راجا پورس گجر گوت پوڑ یا پواڑ سے تھا کچھ لوگ اسے راجپوت کہتے ہیں حالاں کہ اس دور میں راجپوت نام لفظ تک نہیں تھا۔ جموں کا وہ تاریخی ہیرو جس نے سکندر یونانی اور اُسکے لشکر کو شکست فاش دی اور سکندر یونانی جو پوری دُنیا پر حکومت قائم کرنے کی ہوس لیے تُرکی عراق افغانستان ایران کو تباہ برباد کرنے کے بعد ہندوستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ یہ جنگ اُسکی زندگی کی آخری جنگ ثابت ہوئی سکندر کو دھول چٹا کر راجا پورس صرف جموں ہی نہیں پورے ہندوستان میں رہتی دُنیا تک امر ہو گیا۔

سکندر اور پورس کی کشمکش کو اسلامی تناظر ميں ایک معتزلی رہبانی ٹکراو قرار دیا جائے گا جس کا نقطئہ سواء تفسیر زمخشری جنھوں نے نکاح نہ کیا

سکندر کی پیش قدمی[ترمیم]

326 ق م میں سکندر ٹیکسلہ میں کچھ عرصہ آرام کرنے بعد مئی کے مہینے میں درٰیائے جہلم کے کنارے پہنچا دریائے جہلم کے پار راجا پورس کی حکومت تھی۔ پورس نے سکندر کی اطاعت قبول نہیں کی اور اس نے مقابلے کی تیاریاں شروع کی ۔ راجا پورس کی فوجوں کی تعداد پچاس ہزار تھی اور دریا کے دوسرے کنارے صف آرستہ تھی ۔ راجا پورس کی فوج میں دو سو ہاتھی ، تین سو رتھ ، چار ہزار سوار اور تیس ہزار پیادے تھے ۔ پورس کی کوشش تھی کہ یونانی دریا پار نہیں کریں ۔ سکندر کو پورس کے جنگی ہاتھیوں سے خطرہ تھا ۔ مگر اسے ہاتھیوں کے مقابلے میں اپنے گھڑ سواروں پر اعتماد تھا ۔ سکندر کی فوج کے لیے دریا عبور کرنا آسان نہیں تھا کیوں کہ دریا چڑھا ہوا تھا ۔ دریا کو عبور کرنے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ اکتوبر نومبر تک انتظار کیا جائے جب کہ پانی کا زور ٹوٹ جائے اور دریا میں پانی کم ہوجائے ۔ مگر سکندر اتنا انٹظار نہیں کرسکتا تھا اس لیے اس نے آیرین((یونانی مورخ) کے الفاظ میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ راستہ چرائے گا ۔ لیکن یہ فیصلہ اُسکی زندگی کا سب سے غلط فیصلہ ثابت ہوا۔اور اُسے آپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

حملہ[ترمیم]

یونانی فوج کا پڑاو کھیوڑہ کے پہاڑی سلسلہ نمک کے قریب دریائے جہلم کے کنارے تھا۔ سکندر نے راجا پورس کو دھوکا دینے کے لیے اعلان کرا دیا کہ وہ پانی کے اترنے کا انتظار کرے گا اور دشمن کو دھوکا دنے کے اس نے فوج کو گرد و نواع آبادی میں لوٹ مار اور سامان رسد جمع کرنے کے لیے روانہ کیا ۔ دوسری طرف اس کی کشتیوں کا بیڑا اِدھر اُدھر چکر لگا کر کسی پایاب مقام تلاش کر رہا تھا کہ وہاں سے دریا کو عبور کیا جائے ۔ ان کارروائیوں میں چھ سات ہفتے بیت گئے ۔ اسی اثنا میں برسات کا آغاز ہو گیا اور طغیانی بڑھ گئی ۔ یونانی بیڑے نے تلاش اور جستجو کے بعد دریا کو عبور کرنے کی جگہ فوج کے پڑاوَ سے سولہ میل آگے چنی ۔ سکندر نے فوراً اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا ۔ آرین کے الفاظ میں اس نے بے انتہا احتیاط کے ساتھ دلیری برتی ۔ سکندر نے پانچ ہزار آدمی کیمپ کی حفاظت کے لیے چھوڑے اور گیارہ یا بارہ ہزار فوج کے ساتھ جس میں پیادے اور سوار دونوں شامل تھے اپنے ساتھ لیے اور رات کے وقت روانہ ہوا ۔ سکندر کے روانہ ہوتے ہیں طوفان آیا اور بارش شروع ہو گئی جس سے یونانی فوج کو دریا عبور کرنے میں شدید مشکلات ہوئیں اور بیشتر سپاہی گھوڑے اور حربی آلات دریا کی سرکش موجیں بہا لے گئیں۔ سکندر بمشکل آدھی فوج لیے کنارے پُہنچا۔ پورس کو اطلاع ملی تو وہ خُود مُقابلے پر آآیا۔پنجابی لشکر تیس ہزار پیادے 2000 ہزار سوار اور 120 ہاتھی رتھوں پر مُشتمل تھا۔ موجود پاکستان میں مونگ (منڈی بہاؤالدین) کے مقام پر میدانِ جنگ سجا۔

پورس کی فتح[ترمیم]

پورس نے اس اثنا میں جنگی حکمت علمی کے تحت بہتر جگہ پر اپنی پوزیشن سنبھالی ۔ سکندر بھی فوج کے ساتھ میدان میں آیا مگر اس کی فوجوں کو ناہموار علاقہ میں جگہ ملی ۔ پنجابی لشکر میں موجود ہاتھیوں نے یونانی حملہ آوروں پر ہیبت طاری کر دی۔ ہاتھیوں کی جنگ کا سکندر اور اُسکی فوج کو کوئی تجربہ نا تھا۔ کئی سو یونانی تو ہاتھیوں کے پاوں تلے روندے گئے۔

پورس جو ساڑھے چھ فٹ قد کا اونچا مظبوط اور توانا آدمی تھا انتہائ مضبوط اعصاب اور جنگی حکمتِ عملی کا ماہر بھی ثابت ہوا۔ اور پورس کی بہادری پورے ہند میں مشہور ہو گئی۔ دورانِ جنگ ایک پنجابی جنگجو کیشر وریاہ کا برچھا سکندر کو جا لگا۔ اور وہ زخمی ہو گیا۔ سکندر کے زخمی ہونے پر یونانی فوج کی ہمت جواب دے گئی۔ اور انھوں نے جنگ روکنے کی درخواست کر دی۔

قابل غور نکات ۔[ترمیم]

یونانی مورخین نے بعض جگہ سکندر کو فاتح لکھا اور کہا کہ پورس نے گرفتار ہونے پر سکندر کو کہا کہ "میرے ساتھ ویسا سلوک کیا جائے جیسا ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ کے ساتھ کرتا ہے"۔ لیکن جب ہم تاریخ کا مُطالعہ کریں تو یہ پتا چلتا ہے کہ اول تو سکندر بادشاہ نے ایران تُرکی اور افغانستان کے بادشاہوں کو قتل اور رعایا کو غلام بنا لیا تھا۔ اور یہی سلوک سکندر ہی نہیں بلکہ ہر فاتح بادشاہ مفتوح بادشاہ سے کرتا آیا ہے۔ کہ اُسے قتل کروادے ماسوائے فتح مکہ کے ۔ "جہاں رسول اللہ نے مکہ والوں کی معافی کا اعلان کیااور مال و اسباب کو ہاتھ کو تک نا لگایا۔" لیکن سکندر تو ظالم او مُلک گیری کی ہوس میں مبتلا تھا پھر تو یہ ناممکن ار محض مفروضہ ہے۔ دوم: راجا پورس اس جنگ کے چالیس سال بعد تک نا صرف زندہ رہا بلکہ پنجاب کا حاکم بھی رہا اور اُسکے بعد اُسکی نسل بھی حاکم رہی اور سلطنت کی سرحدوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر سکندر یونانی کی زندگی کی یہ آخری جنگ تھی اور اس جنگ کے چند دن بعد ہی اُسکی موت ہوگئ۔سکندر کی موت کے ساتھ ہی یونانی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ یونانی سپہ سالاروں میں خانہ جنگی شروع ہوگئ اور وہ سب علاقہ بشمول ایران افغانستان تُرکی جو سکندر نے فتح کیا تھا۔ چند ماہ کے اندر ہی یونان کی مرکزی حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا۔

پورس کی سلطنت[ترمیم]

سکندر یونانی سے جنگ میں راجا پورس کا بڑا بیٹا راجا امر شہید ہو گیا۔ شہزادے کی موت پر چند درباریوں نے راجا پورس سے افسوس کا اظہار کیا تو مہاراجا نے وہ تاریخی جملہ کہا کہ پوٹھوہار کی حفاظت کے لیے لڑنے والا ہر سپاہی میرا بیٹا ہے۔  مورخین لکھتے ہیں کہ یونانی فوج کی پسپائ کے بعد جنوب مغرب میں یونانیوں کے زیرقبضہ تینتیس شہر بھی راجا پورس کی ریاست میں شامل ہو گئے۔

حقیقت[ترمیم]

بعض یونانی مورخین نے تاریخ میں خُورد بُرد کرتے ہوئے یونانی قوم اور سکندر یونانی کو تین مُلک فتح کرنے پر ہی سکندر اعظم بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مگر یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہے۔ کہ سکندر اس جنگ کے بعد کبھی کسی جنگ میں نظر نا آیا۔ نا ہی وہ پنجاب فتح کرسکا۔

ماخذ[ترمیم]

تاریخ ہند ۔ اسٹورٹ الفسٹن

قدیم تاریخ ہند ، وی اے سمتھ