غلامی کی اقسام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

Pastor Sheldon Emry اپنی ایک تحریر Billions for Bankers—Debts for the People میں لکھتے ہیں کہ قوموں کی غلامی تین طرح کی ہوتی ہے۔

  • کسی قوم کو غلام بنانے کا سب سے کارگر طریقہ جنگ رہا ہے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ ناکام ہو جاتا ہے کیونکہ لوگ اپنے آقاوں سے نفرت کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی انھیں مار بھگاتے ہیں۔ ایسی حکمرانی میں فوجی اخراجات بہت زہادہ ہوتے ہیں۔
  • حکمرانی کا دوسرا طریقہ مذہب ہے جہاں لوگوں کو قائل کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ معبود یا پیر کی خوشنودی کے لیے خرچ کریں۔ اس طریقے میں فوجی اخراجات نہیں ہوتے لیکن اس طریقے میں کمزوری یہ ہے کہ کوئی فوجی طاقت اسے اکھاڑ پھینک سکتی ہے یا کوئی فلاسفر لوگوں کو گمراہ کر سکتا ہے۔
  • غلام بنانے کا تیسرا طریقہ معاشی حکمرانی ہے۔ اس میں بظاہر کوئی زبردستی نہیں کی جاتی اور لوگوں کو غلامی کا احساس نہیں ہوتا۔ ان سے ٹیکس یا سود قانونی طریقے سے وصول کیا جاتا ہے اور لوگ یقین رکھتے ہیں کہ اس رقم سے ان کی اپنی بہتری اور حفاظت کے کام کیے جائیں گے۔ ان کے آقا ان کے لیڈر اور محافظ بن جاتے ہیں۔ یہ طریقہ اگرچہ سست رفتار ہے مگر دیرپا ہوتا ہے۔ لوگوں پر نہ مذہبی پابندی ہوتی ہے نہ سفر کرنے کی اور نہ ہی آزادی خیال کی۔ وہ الیکشن میں چناو کی بھی آزادی رکھتے ہیں۔ انھیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ انھیں غلام بنایا جا چکا ہے اور ان ہی کے اپنے لوگ عوام کی دولت آقاوں تک منتقل کرتے ہیں۔

غلامی کا چکر[ترمیم]

Alexander Fraser Tytler سے یہ بیان اکثر منسوب کیا جاتاہے: دنیا کی بڑی تہذیبوں کی اوسط عمر دو سو سال رہی ہے۔ ایسی ہر قوم چند مخصوص مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے غلامی سے مذہبی عقائد تک۔ پھر مذہبی عقائد سے عزم اور حوصلے تک۔ پھر عزم اور حوصلے کے سہارے آزادی حاصل کرنے تک۔ پھر آزادی سے خوش حالی اور پھر خوش حالی سے خودغرضی تک۔ خودغرضی لا تعلقی کا سبب بنتی ہے اور جس سے قوم بے حس ہو جاتی ہے۔ بے حسی انحصار لاتی ہے اور انحصار دوبارہ غلامی تک پہنچا دیتا ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

بیرونی ربط[ترمیم]