غلام بنانے کے طریقے

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کرنل ڈین کے مطابق کسی طاقتور قوم کو بغیر جنگ کیے غلام بنانے کے کچھ مخصوص طریقے ہوتے ہیں۔ ایسی قوم کو بیرونی حملوں سے نہیں بلکہ اندرونی سازشوں سے توڑا جا سکتا ہے۔ اس طرح نہ تو خون خرابا ہوتا ہے نہ جائیدادوں کا نقصان۔ بس یہ طریقہ سست اور صبر آزما ہوتا ہے۔
کسی قوم کو بغیر جنگ کے غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کے ذہن کنٹرول کیے جائیں۔ جب تک کسی انسان کا ذہن آزاد ہو گا وہ غلامی کو قبول نہیں کرے گا۔ اگر کوئی عوام کا زندگی کے بارے میں نظریہ اور اقدار اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتا ہے تو وہ عوام کی سمت بھی کنٹرول کر سکتا ہے اور انھیں بڑی آسانی سے غلامی یا تباہی کی طرف بھی دھکیل سکتا ہے۔

قوم کے ستون[ترمیم]

کوئی بھی قوم چند مخصوص ستونوں پر قائم ہوتی ہے اور غلام بنانے کے لیے ان ستونوں کو توڑنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ اس طرح ممکن ہے۔

حقیقت کا علم[ترمیم]

میڈیا کو کنٹرول کر کے عوام کو کسی بھی واقعہ کی غلط رپورٹنگ دی جاتی ہے۔ رنگ آمیزی کے ساتھ جھوٹ کو اس قدر دوہرایا جاتا ہے کہ لوگ اسے ہی سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
میڈیا کی مدد سے معاشرے میں عدم رواداری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اختلافات کو ہوا دے کر ایک دوسرے کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے۔ قومی اور اخلاقی قدروں کو چیلینج کیا جاتا ہے۔ یہ کام اس وقت اور بھی آسان ہو جاتا ہے جب لوگوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ، بے فکر، سمجھ بوجھ سے عاری اور حقیقت حال سے بے خبر ہوتی ہے۔[1]

میڈیا ہمارے ذہن کو غلام بناتا رہا ہے تاکہ حکومت کو ہمارے جسم کو غلام نہ بنانا پڑے۔[2]

اگلی نسلوں کو بگاڑنا[ترمیم]

اس مقصد کے لیے اسکولوں اور نصاب کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ انگریزی کہاوت ہے کہ تاریخ ایک ہتھیار ہے۔ دشمن کو تاریخ سے دور کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ اسے نہتا کرنا۔ ناول، فلمیں، ڈرامے اور سوشل پلیٹ فارمز کی دلچسپیاں لوگوں کو با آسانی تاریخ سے دور کر کے دفاع کو کمزور کر دیتی ہیں۔ بچوں کو ایجوکیشن کے نام پر غلط تعلیم دی جاتی ہے۔[3][4][5][6][7] [8] تاریخ مسخ کر کے پڑھائی جاتی ہے۔ انھیں آہستہ آہستہ وہ اصول سکھائے جاتے ہیں جو دشمن کو دوست جتاتے ہیں۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ لڑنا جھگڑنا بری بات ہے اور خاموشی سے بات مان لینے میں ہی بہتری ہے۔ مذہبی اور اخلاقی قدروں کو شخصی آزادی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ اہم علوم اور جدید ریسرچ سے طالب علموں کو بالکل دور رکھا جاتا ہے۔ مالیات اور معاشیات جیسے مضامین میں کنفیوزن کی بھر مار کر دی جاتی ہے۔[9] علم سے دوری غلامی کی مہر ثبت کر دیتی ہے۔

سیاسی نظریات سے بھٹکانا[ترمیم]

جس ملک کو توڑنا مقصود ہو اس کی حکومت میں اپنے نظریات کے حامی افراد داخل کر دیے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ لوگوں کا حکومت پر انحصار بڑھایا جاتا ہے۔ جب جج کی سطح پر ایسے لوگ آ جاتے ہیں تو دشمنوں کے ایجنٹوں کو اس ملک میں کارروائیاں کرنے کی چھوٹ مل جاتی ہے۔ اور اگر حکومت کی اعلیٰ ترین سطح پر اپنے لوگ داخل کیے جا سکیں تو فوج کو بھی کمزور کیا جا سکتا ہے مثلاً فوجی بجٹ میں کٹوتی کر کے یا پابندیاں لگا کر۔ فوج پر الزام تراشیاں کر کے اس کا مورال اور کارکردگی گرائی جا سکتی ہے۔

حب الوطنی ختم کرنا[ترمیم]

کسی قوم کو متحد رکھنے میں سب سے اہم کردار ثقافت اور زبان کا ہوتا ہے۔ اگر قانون سازی کر کے یا سماجی دباو ڈال کر ثقافت اور زبان کو بگاڑ دیا جائے تو اس ملک کی جڑیں ہل جاتی ہیں۔ جس قوم کو توڑنا مقصود ہو اس کی عام رائج زبان کو سرکاری زبان نہیں بننے دیا جاتا اور کثیر الثقافتی معاشرے کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ حب الوطنی کے جذبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
پاکستان کی نام نہاد آزادای کو 70 سال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے مگر آج بھی قانون انگریزی زبان میں بنایا جاتا ہے۔

معیشت پر حاوی ہونا[ترمیم]

جب معیشت مضبوط ہوتی ہے اور لوگ خوش حال ہوتے ہیں تو حکومت بھی انھیں اپنی مرضی سے ہانک نہیں سکتی۔ اس لیے لوگوں کو غلام بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں معاشی طور پر کمزور کیا جائے۔ لوگوں کا حکومت پر انحصار بڑھانے کے لیے فلاحی منصوبے اور عوام کے لیے قرضے شروع کیے جاتے ہیں جو حکومتی شرائط پر ملتے ہیں اور اس طرح لوگ حکومت کے محتاج ہوتے چلے جاتے ہیں۔ [10] دوسری طرف ان فلاحی کاموں کے نام پر بڑے بڑے قرضے لیے جاتے ہیں جنہیں ادا کرنے کے لیے ٹیکس بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس طرح عوام کی جیب سے ہی پیسے چرا کر عوام کو ہی محکوم بنایا جاتا ہے۔ جب ملک پر قرضہ بڑھ جاتا ہے تو کرنسی کی قوت خرید بھی گر جاتی ہے۔ آمدنی کا بڑا حصہ سود ادا کرنے پر خرچ ہونے لگتا ہے اور معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔

"دور جدید میں غلام زنجیروں میں نہیں بلکہ قرض میں جکڑے جاتے ہیں۔"[11]

سوشلسٹ ریاست کیسے بنائی جائے؟[ترمیم]

Saul Alinsky بتاتے ہیں کہ سوشلسٹ ریاست بنانے کے لیے 8 سطح پر کنٹرول حاصل کرنا ضروری ہے۔

  1. ہیلتھ کیئر۔ جو علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرتا ہے وہ عوام کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
  2. غربت۔ غربت بڑھانی چاہیے کیونکہ غریب لوگوں کو قابو کرنا آسان ہوتا ہے۔ اگر آپ غریبوں کو سامانِ زندگی فراہم کریں گے تو وہ آپ سے نہیں لڑیں گے۔
  3. قرض۔ اگر قرضے بہت بڑھ جائیں تو ٹیکس بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس سے غربت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
  4. اسلحے پر کنٹرول۔ اس طرح عوام اپنے آپ کو حکومت سے نہیں بچا سکیں گے اور پولیس اسٹیٹ بنانا ممکن ہو جائے گا۔
  5. فلاح و بہبود۔ عوام کی زندگی کے اہم معاملات (خوراک، گھر، آمدنی) پر کنٹرول حاصل کرو۔
  6. تعلیم۔ یہ کنٹرول کرو کہ لوگ کیا پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اسکولوں میں بچوں کی تعلیم کنٹرول کرو۔
  7. ۔ مذہب۔ اسکولوں اور حکومتی اداروں سے خدا پر یقین کا تصور نکالو۔
  8. طبقاتی جنگ۔ عوام کو امیر اور غریب میں تقسیم کرو۔ اس طرح عدم اطمینان بڑھے گا اور امیروں سے ٹیکس زیادہ وصول کیا جا سکے گا۔[12]

اقتباس[ترمیم]

  • "جب لوگوں کی بقا کا مسئلہ ہو تو انھیں کنٹرول کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ حیران کن ہے کہ لوگوں کی اکثریت بقا کے مسئلے سے دوچار ہے پھر بھی وہ اس بات سے بے خبر ہے۔"[13]
  • "امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا منصوبہ ہے کہ ساڑھے بارہ لاکھ ڈالر خرچ کر کے تیرہ تیرہ قسطوں پر مشتمل ایک سپر ہیرو کی دو کارٹون سیریز بنائی جائیں۔ اور یہ کارٹون مکمل طور پر پاکستانی ثقافت میں رنگے ہوں گے اور پاکستان میں دکھائے جائینگے۔ اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان کارٹونوں سے پاکستانی جوانوں کو اس طرح متاثر کیا جائے کہ ملک کے مستقبل کو (ہماری مرضی کے مطابق) ڈھالا جا سکے"[14]
  • "خیالات کا انتخاب کر کے انھیں لوگوں پر لاگو کر دینا چاہیے، ان خیالات کو لوگوں کا عقیدہ بن جانا چاہیے۔۔۔"[15]
  • جس کا ذہن بگاڑ دیا گیا ہو اُسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ خود مظلوم ہے۔ اسے اپنے جیل کی دیواریں نظر نہیں آتیں اور وہ اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے۔[16]
  • اگر ہم تیار نہیں ہیں کہ اپنی بقا کے لیے سوچیں اور اپنی بقا کی جدوجہد کے بہترین طریقے سیکھنے کی کوشش کریں تو پھر ہم اپنی کم علمی کی وجہ سے دوسروں کے خیالات اور اقدار اپنا کر دوسروں کے غلام بننے کے خطرے سے ہمیشہ دوچار رہتے ہیں۔[17]
  • مغربی معاشرے میں سرکاری اسکول نئی نسل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔[18]
  • گلوبلسٹ اس وقت تک نہیں جیت سکتے جب تک وہ قوموں کو خود تباہ نہیں ہونے دیتے اور سرحدیں، زبانیں، مذہب، معیشت اور ثقافت بے معنی نہیں کر دیتے۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے وہ بڑے پیمانے پر مہاجرت کو فروغ دیتے ہیں۔[19]
  • ابہام اور عدم اعتماد ہمیشہ قوم کی تباہی کا سبب بنتے ہیں۔[20]
  • اگر لوگوں کو اپنی سمجھ اور عقیدوں کے مطابق قابو میں رکھا جا سکتا ہے تو ایک ایسا نظام بن سکتا ہے جو مخفی ہو اور کبھی نظر نہ آئے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ جو لوگ اس نظام کو اپنی مرضی کے مطابق ہانکنا چاہتے ہیں وہ بھی مخفی رہتے ہیں۔ مخفی چیز کی بابت فیصلہ نہیں ہو سکتا اور اسے سدھارا نہیں جا سکتا۔[21]
  • اسکول مسلسل ذہن کو مجبور کرتا ہے کہ اطاعت کرے اور اس وجہ سے آج معاشرہ سمجھ بوجھ سے عاری ہے۔[22]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. The Ruling Elites Love How Easily We're Distracted And Turned Against Each Other
  2. After Decades Of Brainwashing, MSM & Governments Are Losing Control Of The People
  3. A College "Education" Has Little To Do With Education
  4. Education Today: A Prerequisite for Self-Destruction
  5. The Mis-Education of the Negro
  6. second greatest story ever told by Professor Antal E. Fekete
  7. The Problem With Education Today
  8. Covid19 – The Spartacus Letter
  9. It's better to be uneducated than mis-educated.
  10. An Economic Earthquake Is Rumbling
  11. Total US Government Debt Is $200 Trillion - Debt Clock Ticking To Next Crisis
  12. Is This Hillary Clinton's Roadmap For America?
  13. Changing the World with an Equal Money System
  14. The US Government Will Spend $1.25 Million To Develop A Propaganda Cartoon For Pakistan
  15. "The End Of Truth" - Hayek Saw It All Coming Over 70 Years Ago
  16. Democracy (i.e. political influence) and ownership of productive assets are the exclusive domains of the New Aristocracy.
  17. "Henry Kissinger: "If You Can't Hear the Drums of War You Must Be Deaf""۔ 21 مئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 نومبر 2017 
  18. “Teen Culture” is the New Imperialism, and it is Destroying the World
  19. How A Country Dies - Does anything seem familiar? - Page 25
  20. How A Country Dies
  21. The Origins Of The Deep State In North America, Part 3
  22. Why the Death of Original Thought is Ushering in the New World Order

بیرونی ربط[ترمیم]