جمشید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جمشیدخاندان پیش دادیان ایران کا مشہور افسانوی بادشاہ جو حضرت عیسٰی علیہ السلام سے 800 سال پہلے ہوا ۔

نام[ترمیم]

جمشید دو قدیم الفاظ کا مرکب ہے۔ جم اور شید۔ جم سنسکرت کا ’’یم ‘‘ ہے یعنی پاتال کا مالک اور ’’شید‘‘ کے معنی روشن ہیں۔ مشہور آریائی بادشاہ ہے۔
جمشید کا اوستا میں نام یہنہ آیا ہے اور اس کے باپ کا نام دیوہونت۔ اوستا میں یمنہ کے معنی جڑواں اور ہمزاد کے ہیں۔ یہ نام رگ وید میں بھی آیاہے۔ برہمنی کتابوں میں یم اور اس کی بہن ہمنی بمنزلہ آدم و حوا کے ہیں۔ شید اوستامیں اس کے نام کا جز نہیں ہے، لیکن دوسرے خطعات میں خشت اس کے نام کا جزو ہے۔ مسلمان مورخوں نے جمشید کی تفصیل لکھی ہے۔ ابوالفدا لکھتا ہے جم بمعنی چاند شید بمعنی شعائیں، یعنی شعاع قمر۔ ابن اثیر، ابن مسکویہ اور صاحب مجمل اس بادشاہ کی نیکی کے متعرف ہیں، مجمل ہے کہ وہ اپنی نیکی اور اچھائی کی وجہ سے جمشید کہلاتا تھا۔ دوسری جگہ لکھاہے کہ جم شید بمعنی سورج کے ہے۔ شاید خشت اوتائی لفظ مرور زماننہ سے شید بن گیا ہو۔[1] شمالی ہند کے بہت سے مسلم قبائل جمشید کو اپنا مورث اعلیٰ قرار دینے لگے ہیں۔

جام جمشید[ترمیم]

اس کے پاس ایک پیالہ تھا جسے جام جم بھی کہتے ہیں جس کو گردش دینے سے اسے دنیا کے تمام حالات کا علم ہو جاتا تھا۔ یہ عجائبات عالم میں شمار ہوتا ہے۔

تخت جمشید[ترمیم]

جمشید نے ایران کے قدیم دار السلطنت ’’پرسی پولس‘‘ تخت جمشید کی تعمیر کی۔

ایجادت منسوب[ترمیم]

جمشید شمسی کیلنڈر، نوروز، شراب، اسلحہ جات، ریشمی کپڑا غرض تمام علوم و فنون کا موجد خیال کیا جاتا ہے۔ آخر میں اس نے خدائی کا دعوی کیا۔ تب زرتشتی عقائد کے مطابق آسمانی طاقتوں نے ضحاک کو اس کی سرزنش پر مامور کیا۔ ضحاک نے جمشید کو شکست دی۔ اور اُسے آرے سے چیر کر ہلاک کر دیا۔ اس نے دنیا کو آباد کیا اور بہت سی اصلاحات کیں اور قاعدے مرتب کیے۔ اس نے قاعدے، تنظیم، پیشے، علوم، و تجارت کو فروغ دیا، نیز بہت سی ایجادات کیں۔[2] یہاں تک شیطان نے اسے گمراہ کر دیا۔ اس نے خدائی کا دعویٰ کیا اور اپنی پوجا کا حکم دیا، لوگوں نے اس کے خلاف بغاوت کردی۔ یہاں تک کہ شام کے بادشاہ ضحاک تازی نے حملہ کرکے اسے شکست دی۔ انگوری شراب کی ایجاد اس سے منسوب کی جاتی ہے۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عبد الحئی حبیبی۔ تقلیمات طبقات ناصری جلد دوم، 367 تا 368
  2. منہاج سراج طبقات ناصری جلد اول، 350
  3. ڈاکٹر معین الدین، قدیم مشرق جلد دوم، 7