جمہوریت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جمہوریت ایک طرز حکومت ہے جسے آسان الفاظ میں عوام کی حکومت کہا جا سکتا ہے۔ آمریت کے برخلاف اس طرز حکمرانی میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں۔ جمہوریت کی دو بڑی قسمیں ہیں: بلا واسطہ جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت۔ بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہو سکتی ہے جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن ہو۔ اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی اور موجودہ دور میں یہ طرز جمہوریت سوئٹیزلینڈ کے چند شہروں اور امریکا میں نیو انگلینڈ کی چند بلدیات تک محدود ہے۔

جدید وسیع مملکتوں میں تمام شہریوں کا ایک جگہ جمع ہونا اور اظہار رائے کرنا طبعاً ناممکنات میں سے ہے۔ پھر قانون کا کام اتنا طویل اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ معمول کے مطابق تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کے جھگڑے میں پڑ کر جاری نہیں رہ سکتی۔ اس لیے جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ چنانچہ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کی بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ جمہوری نظام حکومت میں عوام کے دلوں میں نظام ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایۂ تکمیل تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کار فرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب درست اور شفاف ہو۔

اشتقاق[ترمیم]

جمہوریت کا لفظ در حقیقت انگریزی لفظ "democracy" کا ترجمہ ہے اور انگریزی میں یہ لفظ یونانی زبان سے منتقل ہوکر آیا ہے۔ یونانی زبان میں “demo” عوام کو اور “cracy” حاکمیت کو کہتے ہیں۔ عربی میں اس کا ترجمہ دیمقراطیہ کیا گیا ہے۔

تعریف[ترمیم]

جمہوریت کی اصطلاحی تعریف بایں الفاظ کی گئی ہے: "حکومت کی ایک ایسی حالت جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے"۔ یونانی مفکر ہیروڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ: "جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں"۔

سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا قول ہے: "goverment of the people,by the people,for the people" یعنی عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعہ اور عوام پر۔

جمہوریت کی جامع تعریف میں خود علمائے سیاست کا بڑا اختلاف ہے، لیکن بحیثیت مجموعی اس سے ایسا نظام حکومت مراد ہے جس میں عوام کی رائے کو کسی نا کسی شکل میں حکومت کی پالیسیاں طے کرنے کے لیے بنیاد بنایا گیا ہو۔

تاریخ[ترمیم]

جمہوریت کا سراغ سب سے پہلے ہندوستان میں ملتا ہے۔ سو برس قبل مسیح یعنی گوتم بدھ کی پیدائش سے قبل ہندوستان میں جمہوری ریاستیں موجود تھیں جنہیں "جن پد" کہا جاتا تھا۔ یونان میں بھی جمہوریت موجود رہی ہے لیکن وہاں جمہوریت کا تصور سادہ اور محدود تھا۔ سادہ اس معنی میں کہ یونان میں جو ریاستیں تھیں وہ شہری ریاست کہلاتی تھی۔ یہ چھوٹے چھوٹے شہروں پر مشتمل چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک شہر ایک مستقل حکومت ہوتا تھا، دوسرا شہر دوسری حکومت اور تیسرا شہر تیسری حکومت۔ شہر بھی بڑے نہیں ہوتے تھے۔ یونان کا سب سے بڑا شہر ایتھنز تھا جس کی آبادی زیادہ سے زیادہ دس ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ لہذا وہاں جمہوریت کا تصور یہ تھا کہ بادشاہ خاص خاص اور بڑے فیصلوں میں عوام کی رائے معلوم کرنے کے لیے ساری آبادی کو اکٹھا کر لیتا اوریہ اسی جگہ ممکن ہے جہاں چھوٹا سا ملک اور مختصر سی آبادی ہو۔ چنانچہ جو بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں مثلاً روم کی سلطنت تو وہاں یہ صورت ممکن نہیں تھی۔ چنانچہ وہاں جمہوریت کا تصور اس حد تک محدود ہو گیا کہ بادشاہ اپنے مشورے کے لیے کوئی کونسل یا مجلس شوری بنا لیتا تھا۔ اس کا نتیجہ رفتہ رفتہ یہ نکلا کہ جمہوریت کا حقیقی تصور (یعنی عوام کو پالیسی سازی میں حصہ دار بنایا جائے) عملاً مفقود ہوتا گیا اور اس کی جگہ مطلق العنان بادشاہت نے لے لی۔ یوں چھوٹی چھوٹی بادشاہت کے قیام کے بعد جمہوریت کا تصور ناپید ہو گیا۔

نشاۃ ثانیہ[ترمیم]

اٹھارویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس تصور کا دوبارہ احیا ہوا۔ اس وقت جمہوریت نے ایک منضبط شکل اختیار کی اور وہ جمہوریت وجود میں آئی جو آج موجود ہے۔ اسے لبرل ڈیموکریسی اور اردو میں "آزاد خیال جمہوریت" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جن مفکرین نے جمہوریت کی صورت گری کی اور جن کو آزاد خیال جمہوریت کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ والٹیئر، مونٹیسکو اور روسو ہیں۔ یہ تینوں فرانس کے فلسفی ہیں، انہی کے افکار ونظریات کے ذریعہ جمہوریت وجود پزیر ہوئی۔

جمہوری حکومت کا طریقۂ کار[ترمیم]

چوں کہ مطلق العنان حکومت میں تمام اختیارات ایک ہی شخص کے پاس ہوتے تھے، اس لیے مونٹیسکو نے اس کو لوگوں کے نقصان اور ظلم کا باعث قرار دیا اور یہ کہا کہ ریاست کے اختیارات تین قسم کے ہوتے ہیں لہذا تینوں اختیارات کسی ایک شخص یا ادارے میں مرتکز نہیں ہونے چاہئیں، بلکہ تینوں ادارے ایک دوسرے سے آزاد اور خود مختار ہونے چاہئیں۔ چنانچہ قانون سازی کا اختیار رکھنے والے ادارے کو مقننہ کہا جاتا ہے اور جمہوریت میں یہ اختیار پارلیمنٹ یا اسمبلی کو حاصل ہوتا ہے۔ قانون کے مطابق ملک کے نظم ونسق کا اختیار جس ادارہ کو حاصل ہوتا ہے اسے انتظامیہ یا عاملہ کہا جاتا ہے جس کا سربراہ صدارتی نظام میں صدر مملکت اور پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم ہوتا ہے۔ قانون کی تشریح اور تنازعات کا تصفیہ کرنے والے ادارہ کا نام "عدلیہ" ہے جو ملک کی عدالتوں کی شکل میں وجود میں آتا ہے۔ اسی وقت سے جمہوریت کا یہ نظام جاری ہے۔ 9 ستمبر 2013ء کے ”Borgen Magazine” کے مطابق دنیا بھر میں جمہوری ممالک کی تعداد 123 ہے۔.

جمہوریت کے فوائد[ترمیم]

ماضی میں مذکورہ تینوں قسم کے اختیارات ایک شخص یا ایک جہت میں مرکوز رہتے تھے۔ وہی قانون بناتے وہی لاگو کرتے اور وہی تنازعات کا تصفیہ کرتے تھے۔ جس کا نتیجہ یہ تھا کہ اگر انتظامیہ کوئی گڑبڑ کرے تو اس کے خلاف فریاد بھی اسی کے پاس لے جانی پڑتی تھی۔

مونٹیسکو نے اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تجویز دی کہ حکومت کے تینوں اعمال الگ الگ اداروں کے پاس ہونے چاہیے اور ان میں سے ہر ایک کو خود مختار ہونا چاہیے یعنی کوئی ادارہ دوسرے کے دباؤ میں نہ ہو۔ مقننہ قانون بنائے، اس کو نافذ انتظامیہ کرے اور عدلیہ خود مختار ہونی چاہیے، تاکہ اگر کسی کو مقننہ یا انتظامیہ سے کوئی شکایت ہے تو وہ عدلیہ کے پاس جائے اور عدلیہ اس کو بلا خوف رفع کرے، انصاف کی بالا دستی قائم ہو اور ہر شخص کو اس کا حق ملے۔


اقتباس[ترمیم]

"امریکا میں جمہوریت نہیں ہے بلکہ امرا کی حکومت ہے جس طرح ماضی میں فرانس اور برطانوی سلطنتوں میں ہوا کرتی تھی۔ باقی لوگ محض محکوم ہیں اگرچہ انھیں شہری کہا جاتا ہے۔ صرف 585 کھرب پتی اصل حکمران ہیں"
So, America is not a democracy; it is instead an aristocracy, just like ancient France was, and the British empire, etc. The rest of America’s population (the 328,335,062 other Americans) are mere subjects, though we are officially called ‘citizens’, of this actual aristocracy of 585 billionaires.[1]

فہرست متعلقہ مضامین برازیل[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]