چچا سام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
چچا سام

حکومت جمہوریہ امریکا کا مزاحیہ نام جو غالباً 1812ء کی لڑائی میں وضع کیا گیا۔ اس نام کی علت غائی یہ ہے کہ 1812 میں برطانیہ کے ساتھ امریکا کی آخری جنگ کے زمانے میں دریائے ہڈسن کے کنارے ٹرائے کے مقام پر البرٹ اینڈرسن نامی ایک ٹھیکے دار کو امریکی فوج کے لیے گوشت اور مختلف اشیا کی فراہمی کا کام سونپا گیا۔ حکومت امریکا کی جانب سے اس کام کی نگرانی کا فریضہ ایبنزر ولسن انجام دیتا تھا جبکہ البرٹ اینڈرسن کی جانب سے ان اشیا کو اس کا چچا سیموئیل ولسن فراہم کیا کرتا تھا جسے اس کے کارکن عام طور پر ’انکل سیم‘ کہا کرتے تھے۔ جب ایبنزر ولسن اور سیموئل ولسن کام مکمل کرلیتے تھے تو ان پر E.A.U.S کی مہر لگا دیتے تھے۔ جس کا مطلب ہوتا تھا ’ایلبرٹ اینڈرسن یونائیٹڈ سٹیٹس‘۔ اس مہر کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اب یہ اشیا حکومت امریکا کی ملکیت ہو چکی ہیں۔

چچا سام کا نام کسے وجود آیا ؟[ترمیم]

جب ٹھیکے دار سَیم (سیموئل) کا کاروبار بہت پھیل گیا تو ملازموں کی تعداد بھی بڑھ گئی، گویا ’انکل سَیم‘ کا وِرد کرنے والے کافی تعداد میں ہو گئے۔ اِس ٹھیکے دار کا جو مال پیٹیوں اور ڈبوں میں بند ہو کر فوجی چھاؤنیوں میں جاتا تھا اس پر ’یو۔ ایس ‘ کا ٹھپّہ لگا ہوتا تھا۔ یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس۔ یہ ٹھپّہ سازو سامان پر اسے سرکاری مال قرار دینے کے لیے لگایا جاتا تھا لیکن چہیتے کارکنوں نے مشہور کر دیا کہ یو ایس کا اصل مطلب انکل سیم ہے۔ اور پھرU.S کا مطلب انکل سَیم لیا جانے لگا اور پھر آہستہ آہستہ واقعی ہر طرح کا سرکاری مال انکل سَیم کا مال کہلانے لگا۔ایک دن ایک کارکن نے ازراہ مذاق کہا کہ یو ایس کے الفاظ سے مراد دراصل ’انکل سیم‘ ہے۔ یہ جملہ جلد ہی پوری فوج میں مشہور ہو گیا اسی زمانے میں ایک مصور نے ’انکل سیم‘ کی تصویر بھی بنا ڈالی جس میں اسے داڑھی، ہیٹ اور ویسٹ کوٹ پہنے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ سات ستمبر 1813 کی ٹرائے (نیویارک) پوسٹ کے ایک نامہ نگار نے پہلی مرتبہ ’انکل سیم‘ کی اصطلاح امریکی حکومت کے لیے تحریر کی۔ اس کے بعد اس اصطلاح کا مطلب ہی امریکی حکومت ہو گیا اور ہر شخص اسے امریکی انتظامیہ کے مفہوم میں استعمال کرنے لگا۔ 13 مارچ 1852 کو نیویارک کے اخبار ایسٹرن میں فرینک بیلو کا بنایا ہوا ایک کارٹون شائع ہوا۔ 1862ء میں ’انکل سیم‘ کی شبیہ پر مشتمل ایک اور کارٹون پنچ میگزین میں شائع ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکا میں خانہ جنگی اپنے عروج پر تھی۔ امریکا کے لیے ’انکل سیم‘ کی اصطلاح اور یہ کارٹون بہت جلد مقبول ہو گئے۔ اس تصور کو مزید شہرت بیسویں صدی کے اوائل میں اس وقت ملی جب امریکا میں پہلی عالمی جنگ کے لیے فوجی بھرتی کا آغاز ہوا۔ اس زمانے میں جیمز منٹگمری کا بنایا ہوا وہ پوسٹر منظرعام پر آیا جس میں انکل سیم انگلی سے اشارے کر کے امریکی قوم کے نوجوانوں سے کہہ رہا ہے کہ ’آئی وانٹ یو فار یو ایس آرمی (I want you for US army)۔‘

کیا انکل سام سے مراد امریکا ہے[ترمیم]

ایک نسل بعد انکل سَیم کا مطلب ہی’ امریکی سرکار‘ ہو گیا اور ہر کس و ناکس اسے امریکی انتظامیہ کے مفہوم میں استعمال کرنے لگا۔ اس تصّور کو مزید شہرت بیسویں صدی کے آغاز میں ملی جب پہلی جنگِ عظیم کے لیے امریکا میں بھرتی شروع ہوئی۔ اس زمانے میں جیمز منٹگمری فلیگ کا بنایا ہوا وہ پوسٹر منظرِ عام پر آیا جس میں انکل سَیم اُنگلی سے اشارہ کر کے امریکی قوم کے نوجوانوں سے کہہ رہا ہے: I want you for U.S army Contact nearest recruitment station انکل سَیم کا لفظ ُسن کر ایک عام امریکی کے ذہن میں آج جو شبیہ ابھرتی ہے وہ اُسی کُوچی داڑھی اور اونچے ہیٹ والے بوڑھے کی ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اورانگلی تان کر فوج میں بھرتی ہونے کا حُکم صادر کر رہا ہے[1]

اردو میں سام کا تلفظ نہ مل سکا[ترمیم]

اُردو میں اس نام کا امریکی تلفظ رائج نہ ہو سکا اور اسے چچا سام کہہ کر پکارا گیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اُردو میں اس کردار کو مقبول بنانے کا سہرا سعادت حسن منٹو کے سر ہے جنھوں نے چچا سام کے نام متعدد خطوط لکھ کر نہ صرف سیاسی طنز کی صِنف کو آگے بڑھایا بلکہ حکومتِ امریکا کی نمائندگی کرنے والے اس کردار کا بھرپور تعارف بھی اُردو داں طبقے سے کروایا اردو میں انکل سیم کا امریکی تلفظ رائج نہ ہو سکا اور اسے ’انکل سام یا چچا سام‘ کہہ کر پکارا گیا اور اس سے ایک نئی اصطلاح سامراج وجود میں آئی، جس کا مطلب ہے وہ نظام حکومت جو نو آبادیات پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے قائم کیا جائے۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) کے مطابق یہ اصطلاح سب سے پہلے احمق پھپھوندوی نے 1942 میں اپنے ایک شعر میں استعمال کی، شعر تھا:

کہاں جائے گا ہند سے سامراج اب یہیں دفن کا اس کے سامان ہوگا

اردو لغت کے مطابق سامراج کی اصطلاح سنسکرت سے اردو میں منتقل ہوئی ہے۔

چچا سام کے نام منٹو کے خطوط[ترمیم]

قیام پاکستان کے بعد چچا سام کی اصطلاح سعادت حسن منٹو کے توسط سے اردو کا حصہ بن گئی جب انھوں نے چچا سام کے نام نو خطوط تحریر کیے۔ چچا سام کے نام منٹو کا پہلا خط 16 دسمبر 1951 کو جبکہ آخری خط 26 اپریل 1954 کو لکھا گیا۔ یہ خطوط طنز و مزاح کا بہترین نمونہ سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر علی ثنا بخاری نے جنھوں نے سعادت حسن منٹو پر پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے اپنے مقالے میں ان خطوط کا بھرپور جائزہ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ:

’ان خطوط میں منٹو نے پاکستان کے ابتدائی چند برس کی سیاسی اور معاشرتی تاریخ کو طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے اور ان دشمنوں کی نشان دہی کی ہے جو اس نوزائیدہ مملکت کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ یہ مضامین منٹو کے مخصوص جارحانہ انداز میں لکھے گئے ہیں اور منٹو نے ان سے بھی دو دھاری تلوار کا کام لیا ہے جس کی ایک ضرب امریکی سامراج پر پڑتی ہے اور دوسری مملکت خداداد میں موجود امریکی سامراج کے نمائندوں کو نشانہ بناتی ہے۔ مثلاً وہ چچا سام کے نام تیسرے خط میں لکھتے ہیں:

’ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑے معرکے کی چیز ہے اس پر قائم رہیے گا۔ اِدھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجیے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجیے، کیوں کہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کیے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بے کار نہیں رہیں گے۔‘

نوزائیدہ پاکستان کی عملی سیاست میں، امریکی سامراج کی مداخلت کو طنزیہ انداز میں واضح کرتے ہوئے منٹو نے چچا سام کے نام ساتویں خط کو یوں ختم کیا ہے:

’یہاں سب خیریت ہے۔ مولانا بھاشانی اور مسٹر سہروردی دن بدن تگڑے ہو رہے ہیں۔آپ سے کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں۔ مولانا کو آپ ایک عدد خالص امریکی تسبیح اور مسٹر سہروردی کو ایک عدد خالص امریکی کیمرا روانہ کر دیں، ان کی ناراضی دور ہو جائے گی۔ ہیرا منڈی کی طوائفیں، شورش کاشمیری کے ذریعے سے مجرا عرض کرتی ہیں۔‘

پاکستان بننے کے فوراً بعد استحصالی طبقے نے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کر دیا تھا۔ یہ مراعات یافتہ طبقہ غیر ملکی آقاؤں کے اشاروں پر ناچ رہا تھا۔ ملکی مفادات کو پس پشت ڈال دیا گیا تھا۔

ان حالات میں ملک کے عام لوگ غربت و افلاس کا شکار ہو کر دن گن گن کر کاٹ رہے تھے۔ احوال روز گار کی یہ کیفیات منٹو نے چچا سام کے نام پانچویں خط میں بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

’اب میں احوال روزگار کی طرف آتا ہوں، چچا آپ کی ریش مبارک کی قسم، دن بہت برے گذر رہے ہیں۔ اتنے برے گذر رہے ہیں کہ اچھے دنوں کے لیے دعا مانگنا بھی بھول گیا ہوں۔ یہ سمجھیے کہ بدن پر لتے جھولنے کا زمانہ آ گیا ہے۔ کپڑا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ جو غریب ہیں ان کو مرنے پر کفن بھی نہیں ملتا۔ جو زندہ ہیں وہ تار تار لباس میں نظر آتے ہیں۔‘

ابھی چچا سام کے نام منٹو کے ان خطوط کا پہلا خط ہی شائع ہوا تھا کہ ایک امریکی سفارت کار نے ان سے رابطہ کیا اورانھیں ایک افسانے کے عوض پانچ سو روپے معاوضہ دینے کی پیشکش کی۔ حالانکہ اس زمانے میں وہ ایک تحریر کے لیے زیادہ سے زیادہ چالیس روپے وصول کرتے تھے۔ منٹو نے اس پیشکش پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں زیادہ سے زیادہ آپ سے ایک افسانے کے عوض دو سو روپے لوں گا۔

منٹو نے چچا سام کے نام دوسرے خط میں اس پیشکش کا ذکر کیا اور لکھا: ’میں نے (ان کے اصرار پر) ان سے تین سو روپے لے لیے۔ روپے جیب میں رکھنے کے بعد میں نے ان سے کہا کہ یہ واضح رہے کہ جو کچھ میں لکھوں گا وہ آپ کی مرضی کے مطابق نہیں ہو گا اس کے علاوہ اس میں کسی قسم کے ردوبدل کا حق بھی آپ کو نہیں دوں گا۔‘

’وہ چلے گئے……پھر نہیں آئے۔ چچا جان اگر آپ کے پاس پہنچے ہوں اور انھوں نے آپ کو کوئی رپورٹ پہنچائی ہو تو ازراہ کرم اپنے پاکستانی بھتیجے کو اس سے ضرور مطلع فرما دیں۔ میں وہ تین سو روپے خرچ کر چکا ہوں۔ اگر آپ واپس لینا چاہیں تو میں ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے ادا کر دوں گا۔ امید ہے کہ آپ اپنی آزادیوں سمیت خوش و خرم ہوں گے۔[2]

ہاجرہ مسرور نے اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے منٹو پر لکھے گئے اپنے خاکے ’جو بک نہ سکا‘ میں لکھا کہ:

’منٹو صاحب کبھی بک نہ سکے اور نہ ہی کوئی انھیں کھلے بندوں اپنے حق میں استعمال کر سکا۔‘

چچا سام کے نام لکھے گئے منٹو کے یہ خطوط ان کے مجموعے ’اوپر نیچے درمیان‘ میں شامل ہیں۔

قارئین کے علم میں ہو گا کہ انکل سیم کی طرح برطانوی حکومت اور انتظامیہ کے لیے ’جان بل‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انکل سیم سے پہلے امریکی حکومت اور انتظامیہ کے لیے ’برادر جوناتھن‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی تھی۔

بیرونی روابط[ترمیم]

  1. https://www.bbc.com/urdu/world-54414383
  2. https://www.bbc.com/urdu/world-54414383