عامر لیاقت حسین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عامر لیاقت حسین
مناصب
رکن قومی اسمبلی   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن مدت
21 نومبر 2002  – 5 جولا‎ئی 2007 
حلقہ انتخاب حلقہ این اے۔249 
پارلیمانی مدت پندرہویں قومی اسمبلی 
وزارت مذہبی امور   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
5 ستمبر 2004  – 5 جولا‎ئی 2007 
 
شگفتہ جمانی 
رکن قومی اسمبلی   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن مدت
13 اگست 2018  – 9 جون 2022 
حلقہ انتخاب حلقہ این اے۔254 
معلومات شخصیت
پیدائش 5 جولا‎ئی 1971ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
محمد کالونی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 9 جون 2022ء (51 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش خداداد کالونی  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام[2]
جماعت متحدہ قومی موومنٹ (2002–2016)
پاکستان تحریک انصاف (2018–)  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ بشرا عامر
عملی زندگی
پیشہ ٹیلی ویژن میزبان،  سیاست دان،  کالم نگار،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عامر لیاقت حسین (پیدائش 5 جولائی 1971ء - وفات 9 جون 2022ء) ایک پاکستانی سیاست دان، براڈ کاسٹر، شاعر اور مذہبی شخصیت تھے۔[3]

پیدائش

وہ 5 جولائی، 1971ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔

والد

عامر لیاقت حسین کے والد شیخ لیاقت بھی قومی اسمبلی کے ایک رکن تھے انھوں نے 1994ء میں متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد، 1997ء میں ایک نشست جیتی تھی۔ ان کے والد اپنے بیٹے کی طرف سے نالاں رہتے تھے، ان کے ایک بھائی عمران لیاقت حسین منحرف شیعہ مشہور تھے یعنی شیعوں کے لیے ذاکر کے طور پر خدمات فراہم کرتے تھے۔

تعلیم

ایک انٹرویو میں حسین نے کہا کہ انھوں نے 1995ء میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے بیچلر آف میڈیسن، بیچلر آف سرجری (ایم بی بی ایس) کی ڈگری حاصل کی اور 2002ء میں اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹر آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی ڈگری ٹرینیٹی کالج سے حاصل کی۔ انھوں نے ٹرنیٹی کالج اور یونیورسٹی سے 2002ء میں اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی۔

2006ء میں پاکستان کے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ٹرنیٹی کالج اور یونیورسٹی سے حاصل کی گئی اسلامک اسٹڈیز میں بی اے کی ڈگری کو غیر تسلیم شدہ اور جعلی قرار دیا۔ 2003ء میں، دی گارڈین نے اس یونیورسٹی کو ایک گھوٹالے کے طور پر رپورٹ کیا جہاں کوئی بھی 28 دنوں کے اندر اندر £150 کے حساب سے ڈگری خرید سکتا ہے۔ جامعہ کراچی نے 2005ء کے اوائل میں ان کی بی اے کی ڈگری کو جعلی قرار دیا تھا۔ حسین نے 2002ء کے پاکستانی عام انتخابات کے لیے نامزدگی فارم جمع کرواتے ہوئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اپنی بی اے کی ڈگری کا اعلان کیا۔ یہ اطلاع دی گئی کہ حسین نے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل بننے کے لیے ٹرنیٹی کالج اور یونیورسٹی سے اپنی ڈگریاں خریدی تھیں۔ 2002ء میں، پاکستان کی صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے کم از کم بیچلر ڈگری کا حامل ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔

حسین کا 1995ء میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کا دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوا اس حقیقت کی بنیاد پر کہ اگر ان کے پاس یہ ڈگری ہوتی تو اسے 2002ء کے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کسی جعلی بیچلر، ماسٹرز یا ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ کوئی ایک ہی وقت میں دو مختلف فیکلٹیوں میں نہیں پڑھ سکتا کیونکہ حسین نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس 1995ء میں ایم بی بی ایس اور 1995 میں ٹرنٹی کالج سے اسلامیات میں بی اے کی ڈگری لی ہے۔

2012ء میں، یہ اطلاع ملی کہ حسین کراچی یونیورسٹی میں بیچلر آف آرٹس کی ڈگری کے لیے امیدوار کے طور پر حاضر ہوئے جہاں سے انھوں نے 2008ء میں گریجویشن کیا۔ اسلامک اسٹڈیز میں اس نے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی، لیکن وہاں کے حکام کے مطابق حسین نے کبھی کسی کلاس میں شرکت نہیں کی اور نہ ہی کسی امتحان میں بیٹھے۔ حکام نے بتایا کہ حسین کا داخلہ فارم شروع میں کسی دوسرے شخص کی تصویر کے ساتھ جمع کرایا گیا تھا اور بعد میں اسے حسین کی تصویر سے تبدیل کر دیا گیا تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ حسین خود سمسٹر کے امتحانات میں نہیں بیٹھے تھے۔

2015ء میں یہ اطلاع ملی تھی کہ حسین نے اشوڈ یونیورسٹی سے جعلی ڈگری حاصل کی تھی۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق، ان کا پروفائل Axact کے مین سرور میں نوٹ کیا گیا تھا۔ حسین نے اعتراف کیا کہ اس نے ایش ووڈ یونیورسٹی سے 1136 ڈالر میں جعلی ڈگری خریدی۔

ازدواجی زندگی

عامر لیاقت حسین نے پہلی شادی سیدہ بشریٰ اقبال سے کی تھی، جن سے ان کے دو بچے ہیں۔ تاہم یہ تعلق 2020ء میں طلاق پر منتج ہوا۔

2018ء میں پاکستانی ماڈل اور اداکارہ سیدہ طوبیٰ سے دوسری شادی کی۔ سیدہ طوبیٰ رمضان ٹرانسمیشن میں عامر لیاقت کے ساتھ بطور میزبان بھی نظر آئیں۔ فروری 2022ء میں سیدہ طوبی انور نے خلع لے لیا۔

5 فروری 2022ء کو ضلع لودھراں کے موضع ڈانوراں سے تعلق رکھنے والی 18 سالہ سیدہ دانیہ شاہ سے تیسری شادی کی، جس نے چند ہفتوں بعد ہی، بہت سے الزامات لگائے اور عدالت سے خلع کے لیے رجوع کر لیا، عامر لیاقت کی وفات تک ان کا خلع کا مقدمہ عدالت میں خل رہا تھا۔

ابلاغ عامہ

6 اگست 2010ء سے جیو نیوز پر دکھائے جانے اپنے پہلے شو عالم آن لائن کی میزبانی کے بعد اے آر وائی ڈیجیٹل پر ٹی وی پروگرام عالم اور عالم کی میزبانی کی۔

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جدید فیملی انٹرٹینمنٹ کے بانی ہیں۔ گذشتہ چودہ برسوں سے انھوں نے خصوصی رمضان نشریات کی روایت ڈالی جسے آج تمام ٹی وی چینل فالو کر رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا کی تاریخ ساز نشریات میں سلام رمضان، رحمان رمضان، مہمان رمضان، پہچان رمضان، امان رمضان اور پاکستان رمضان شامل ہیں۔ 2018 ایکسپریس میڈیا گروپ سے نشر ہونے والی پاکستان رمضان نشریات نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی اور پاکستانی ابلاغی تاریخ میں ریکارڈ ساز کامیابی حاصل کی۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین ایکسپریس میڈیا گروپ میں بحیثیت صدر منسلک ہیں اور گروپ ایڈیٹر مذہبی امور کے بھی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ فیملی انٹرٹینمنٹ پر مبنی تاریخ ساز پروگرام انعام گھر کا آغاز کیا جس نے انٹرٹینمنٹ میڈیا انڈسٹری کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کر تاریخ ساز کامیابی حاصل کی۔ اسی طرح دینی مسائل اور ان کے حل پر مبنی دینی معلومات کا شہرہ آفاق پروگرام پہلے عالم آن لائن، عالم اور عالم اور اب عالم آن ائیر کے نام سے پیش کیا جا رہا ہے۔ ان پر رمضان کریم میں دین کے نام پر بے ہودگی پھیلانے کا الزام ہے۔ معروف زمانہ"ناگن ڈانس" اس کی زندہ مثال ہے زبان نکال کر غیر فطری حرکات کرتے بھی پائے گئے ہیں۔

مختلف پاکستانی ٹی وی چینلز پر مذہبی قسم کے پروگرام کرنے کی وجہ سے جہاں عامر لیاقت حسین کے بہت سے چاہنے والے ہیں وہاں ان کے ناقدین بھی موجود رہے،

2005ء میں حملہ

2005ء میں ان پر جامعہ بنوریہ کے دورے کے دوران میں "مشتعل نوجوانوں" کی طرف سے حملہ کیا گیا تھا۔

عامر لیاقت نے مذہبی امور کے وزیر کے طور پر، مئی 2005ء میں خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ (مذہبی فتوی) جاری کرنے کے لیے پاکستان سے 58 مذہبی علما کو اس بات پر قائل کیا۔ جس کے مطابق مساجد اور عبادت کے دیگر مقامات پر حملے، پلانٹد بم اور خود کش بم دھماکے غیر اسلامی قرار دیے گئے۔ تاہم انھوں نے وضاحت کی کہ اس فتوے کا اطلاق اندرونِ ملک (پاکستان) کی حد تک ہے دیگر چپقلش والے علاقے اس میں شامل نہیں ہیں۔[حوالہ درکار]

سیاسی زندگی

عامر لیاقت حسین نے 2002ء کے عام انتخابات میں بھی ایم کیو ایم کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی اور انھیں پرویز مشرف کے دور حکومت میں مذہبی امور کا وزیر بنایا گیا۔

جولائی 2007ء میں عامر لیاقت حسین نے قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفا دے دیا تھا۔ ان کا یہ استعفا اس وقت سامنے آیا جب انھوں نے انڈین مصنف سلمان رشدی کو ٹی وی پروگرام میں ’واجب القتل‘ قرار دیا تھا۔ اگلے سال یعنی سنہ 2008ء میں ایم کیو ایم نے عامر لیاقت کو پارٹی سے نکالنے کرنے کا اعلان کیا تھا۔

عامر لیاقت حسین نے ایک طویل عرصے تک سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی اور سنہ 2016ء میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کی متنازع تقریر سے چند روز قبل وہ دوبارہ سرگرم ہوئے۔

جب 22 اگست 2016ء کو رینجرز نے ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو حراست میں لیا تو عامر لیاقت کو بھی اسی روز گرفتار کیا گیا تھا اور رہائی کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کی پہلی پریس کانفرنس میں وہ بھی موجود تھے لیکن بعد میں دوبارہ غیر متحرک ہو گئے۔

عامر لیاقت حسین کی تحریک انصاف میں شمولیت کی خبریں 2017ء میں سامنے آئی تھیں۔ ان کی اپنی ٹویٹس کے باوجود اعلان سامنے نہیں آیا تھا مگر بالاخر وہ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔پارٹی میں شمولیت کے وقت بھی عامر لیاقت کو پی ٹی آئی کے کچھ حامیوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

2018ء میں عامر لیاقت حسین نے عمران خان کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا تھا تو انھوں نے کہا تھا کہ ’میرا آخری مقام پی ٹی آئی تھا۔ وہ 2018ء کے انتخابات میں این اے 245 سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ عامر لیاقت حسین نے 2002ء میں قومی انتخابات میں حصہ لیا اور متحدہ قومی موومنٹ کی وابستگی سے قومی اسمبلی میں نشست حاصل کی۔ انھوں نے 2007ء میں قومی اسمبلی کی رکنیت اور مذہبی امور کی وزارت سے استعفی دے دیا۔ عامر لیاقت نے 4 جولائی 2007ء کو مذہبی امور کے لیے ریاست کی وزارت عہدے سے اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفی دیا ایک سرکاری بیان کے مطابق، پارٹی ( متحدہ قومی موومنٹ)، عامر لیاقت حسین کی طرف سے، سلمان رشدی کے خلاف دیے جانے والے بیان پر ناخوش تھی۔ جون 2016ء میں ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ نے ان کی رکنیت بحال کر دی ہے۔[4] 2018ء کو رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے،

پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ انھوں نے مارچ 2022ء میں چھوڑ دیا جب پاکستان تحریک انصاف کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ اس پر عوام کی طرف سے عامر لیاقت کو لوٹا اور غدار کہا گیا۔ سوشل میڈیا پر اکثر ان کی جعلی ڈگریوں والے سکینڈل[5][6]اور دیگر مذہبی اختلافات کی بنا پر انھیں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا،

تصانیف

  • میری آواز سارے زمانے کی صدا ہے، (شعری مجموعہ)1984ء
  • خدیجتہ الکبریٰ
  • لاؤد اسپیکر، (2009/ 2 جلدیں)
  • آثار قیامت

وفات

عامر لیاقت حسین 9 جون 2022ء کو اپنے آبائی شہر کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔[7] ان کی عمر 51 برس تھی، 9 مئی کو خاندان نے پوسٹ مارٹم نہ کرانے کا فیصلہ کیا، مگر 10 مئی 2022ء کو ان کی لعش پولیس کی تحویل میں مزید تحقیقات کے لیے دے دی گئی۔عدالتی حکم پر ان کی لعش ان کے ورثاء کو حوالے کر دی جس کے بعد ان کا جنازہ ادا کیا گیا۔ان کا جنازہ ان کی وصیت کے مطابق ان کے بیٹے نے پڑھایا۔انھیں 10 مئی 2022 کو عبداللّٰہ شاہ غازی کی دربار کے احاطے میں اپنے والدین کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔

حوالہ جات

  1. https://www.dawn.com/news/1693940/mna-amir-liaquat-passes-away-police
  2. "a-star-televangelist-in-pakistan-divides-then-repents"۔ NY Times۔ 31 اگست 2012۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اکتوبر 2014 
  3. "Dr Amir Liaquat returns to Geo screen on public demand | Top Story | thenews.com.pk | Karachi"۔ 02 فروری 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2016 
  4. عامر لیاقت حسین کے لیے خوشی کی بڑی خبر، اہم عہدہ دیے جانے کا امکان - JavedCh.Com
  5. Educational background of state ministers – Newspaper – DAWN.COM
  6. "Musharraf's Blue Eyed Religious Affairs Minister Turns Out to be a Fraud"۔ 15 دسمبر 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 جون 2016 
  7. https://www.samaaenglish.tv/news/40010339