ملک کافور

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ملک کافور
Malik Kāfūr
ملک کافور
دیگر نامTāj al-Dīn 'Izz al-Dawla, Malik Nā'ib, Hazār-Dīnārī، al-Alfī[1]
وفاتفروری 1316
دہلی
وفاداریسلطنت دہلی
درجہNa'ib (Viceroy)
مقابلے/جنگیں

مَلِک کافوُر ( وفات 1316ء )، اس کا اصل نام صابور بھائی ولد جیرا بھائی تھا، جو سولانسکی خاندان کا ایک زمیندار راجپوت تھا، کافور غلام تھا جس نے اسلام قبول کیا اور سلطنت دہلی کے سلطان علاؤ الدین خلجی کی فوج کا 1296 – 1316ء تک سپہ سالار رہا۔ کافور کو دراصل علاؤ الدین کی فوج نے کھمبھت شہر پر قبضہ کے بعد چھین لیا تھا۔ کافور کو خسی (آختہ) کر کے اسے مخنث (خواجہ سرا) بنا دیا گیا۔ ملک کافور کو 'ہزار دیناری' بھی کہا جاتا تھا کیونکہ اسے علاؤ الدین خلجی نے ہزار دینار کے بدلے اپنے سپہ سالار نصرت خان سے خریدا تھا۔ کافور نے فوج میں بہت تیزی سے جگہ بنا لی۔ سنہ 1305ء میں کافور نے جنگِ آمروہا میں منگولوں کو شکست دی اور 1309 – 1311ء کے درمیان میں جنوبی ہندوستان میں دو مہمات کی قیادت کی۔ پہلی وارانگال اور دوسری سمودرا، مابار اور مدورائی کے خلاف۔ کافور کو جنوب کی مہمات کے بعد مَلِک نائب بنا دیا گیا۔ سنہ 1294ء میں کافور نے سلطنت یداوا کے دار الحکومت دیواگری کیخلاف سلطان کی فوج کی قیادت کی۔ کافور نے جنوب کی طرف کاکاتیا خاندان پر مزید حملے کیے، سلطنت کے لیے بہت زیادہ دولت جیتتا رہا اور ہندوؤں کے مندر ختم کیے۔ وارنگال کے مال غنیمت میں مشہور ہیرا " کوہِ نور " بھی لوٹا۔ حملوں کے دوران میں اس نے کئی ہندو مندروں کو تباہ کیا اور انھیں لوٹا جس میں ہالیبیدو میں ہویاسالیشوارا کا مشہور مندر بھی تھا۔ مشہور تاریخ دان ضیاء الدین بارانی کے مطابق کافور 214 ٹن سونا اور لوُٹے ہوئے خزانے سے لدے 20,0000 گھوڑے اور 612 ہاتھی اپنے ساتھ دہلی واپس لایا تھا۔ [حوالہ درکار]

مفتی شوکت علی فہمی اپنی کتاب " ہندوستان پر اسلامی حکومت " میں اس کا زکر کچھ یوں کرتے ہیں : " سلطان علاؤ الدین نے کھمبایت سے آئے ہوئے کافور نامی ایک خوب رُو اور نو عمر غلام کو اپنا منظور نظر بنا لیا تھا۔ یہ خوبصورت لڑکا امرد تھا جس نے بہت جلد سلطان کے مزاج میں اس قدر دخل حاصل کر لیا کہ 706ھ مطابق 1307ء میں سلطان نے اس کا درجہ تمام امرا سے بلند کر کے اسے وزارت عظمیٰ کا عہدہ تفویض کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے سپہ سالار بنا کر اور ایک لاکھ فوج دے کر دکن کی تسخیر کے لیے روانہ کر دیا۔ "

"فرہنگِ آصفیہ" کے مرتب مولوی سید احمد دہلوی گو کہ کافور کی بہادری اور دلیری کے قائل ہیں، لیکن وہ خواجہ سرائی کے پس منظر میں ملک کافور کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: " اس جاہلانہ حرکت میں اہلِ خطا سے ہی یہ حرکت سرزد نہیں ہوئی بلکہ ہندوستان کے بادشاہ علاؤ الدین خلجی کے عہد میں بھی ملک کافور کو ہمارے ہندوستان میں شاہانِ خطا کے زمانے سے کم اقتدار اور مرتبہ حاصل نہیں ہوا۔ ملک کافور سلطنت کے اعلیٰ ارکان میں تھا۔ اس سے بڑے بڑے نمایاں کارنامے ظہور میں آئے تھے۔ یہ شخص چار دفع تسخیر دکن کے واسطے بھیجا گیا۔ راجا رام دیو کو اسی نے قید کر کے دہلی روانہ کیا۔ دوار کے راجگان کو اسی نے مغلوب کیا۔ وارنگل کے راجا کو اسی نے باجگزار بنایا۔ تمام دکن کو گولکنڈا تک تہ و بالا کر کے وہاں ایک مسجد مسلمانوں کے عہدِ سلطنت کی یادگار تعمیر کی۔ غرض ہندوستان کی تیرھویں عیسوی صدی بھی خواجہ سراؤں کی تاریخ کے واسطے ایک قابل فخر صدی ہوئی۔ "

ضیاءالدین ربانی لکھتا ہے " پس … علاؤ الدین خلجی کی زندگی کے ان آخری چار پانچ سالوں میں، سلطان اپنے ہوش و حواس کھو رہا تھا، وہ ملک نائب کی محبت میں دیوانہ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی ذمہ داریاں بیکار، خوشامدی صدومی کافور کو دے دیں تھیں۔ جس نے اسے نفرت کی موت سلا دیا تھا۔ " ربانی لکھتا ہے: " یہ جاہل آدمی نہیں جانتا تھا کہ خسی ہونا، صدومیت کا شکار ہونا اور لادین ہونا بدترین برائیاں ہیں۔ اسے ان ضروریات کا نہیں پتا تھا اور بادشاہت کے ان اصولوں کا جس کے لیے آزاد، منفرد، بے خوف اور طاقتور شخص بننا پڑتا ہے … یہ تھا ملک کافور۔ "

  1. S. Digby 1990, p. 419.