عزیز بلگامی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عزیز بلگامی
پیدائشیکم مئی 1954ء
کڑچی، ضلع بلگام، کرناٹک
رہائشبنگلور، کرناٹک
اسمائے دیگرعزیز بلگامی
پیشہادب سے وابستگی، مضمون نگاری، اسلامی ادب کی تخلیق، اسلامی فلسفہ کا فروغ
وجہِ شہرتشاعری،نثر نگاری،صحافت و کالم نگاری، تحقیق و تنقید
مذہباسلام
اولاد3 فرزند، 2 دختر
موقع جال
وب سائٹ

عزیز بلگامی بھارت کے ایک مشہور و معروف اردو شاعر اور ادیب کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ وہ یکم مئی، 1954ء کو ضلع بلگام کے ایک گاؤں کڑچی میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعرانہ و فن کارانہ شخصیت کا اعجاز یہ ہے کہ یہ نہ صرف عمدہ کلام پڑھتے ہیں، بلکہ دِلنشین ترنّم کے ساتھ سامعین کو محظوظ کرتے ہیں۔ جہاں بھی اپنا کلام سناتے ہیں، سامعین جھوم اُٹھتے ہیں۔

آباء و اجداد[ترمیم]

عزیز بلگامی کے والد محترم محمد اسحاق جمعدار صاحب کے آباء و اجداد کرندواڈ (ضلع کولہاپور) راجواڑے کے راجا تھے، جنھوں نے برطانوی یلغار کے دوران حضرت ٹیپو سلطان شہید رحمة اللہ علیہ کی ہمنوائی کی تھی اور اِن کے درمیان خاندانی روابط بھی تھے جو رشتہ داری کی حدود میں داخل تھے۔ جس طرح کئی راجواڑے جوانمردانہ مزاحمت کے بعدبرطانوی یلغارسے پسپا ہوئے، اُن میں عزیز صاحب کے آباء کا بھی راجواڑا تھا۔”جمعدار“ دراصل اُس منصب کی وجہ سے تھا جو عزیز صاحب کے آباء میں سے مختلف افرادکو برطانوی غلبے کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ کی خدمات اختیار کرنے کے سبب ملا تھا، جو اصل نام کے ساتھ وابستہ ہوکر اُن کا خاندانی نام بن گیا۔

آبائی وطن[ترمیم]

کرسٹ کالج بنگلورکے ایک ادبی پروگرام میں عزیز بلگامی

عزیز بلگامی کا آبائی وطن کڑچی ہے جو دریائے کرشنا کے کنارے پر بسی سر سبز و شاداب مسلم اکثریتی بستی ہے، جو ضلع بلگام کے رائباغ تعلقہ کا ایک قدیم پنچایت ٹاﺅن ہے۔

عزیز بلگامی کے والدِ محترم[ترمیم]

عزیز بلگامی کے والد محمد اِسحٰق صاحب کی پیدائش1898ء میں ہوئی تھی۔ وہ جناب محمد امین صاحب کے فرزند اور محمد ہاشم صاحب کے پوتے تھے۔

عزیز بلگامی کی والدہ ماجدہ[ترمیم]

عزیز بلگامی کی والدہ کا نام خدیجہ بی تھا جو کڑچی ضلع بلگام کی متوطن تھیں۔ آپ محی الدین مجاور صاحب کی دختر تھیں۔

بچپن کے حالات[ترمیم]

خاندان کے مالی مسائل کے باوجودعزیز بلگامی کا بچپن بڑا خوشگوا ر گذرا۔ دریائے کرشنا کے کنارے آباد گاؤں کڑچی کے متوطن ہونے کے سبب بہتی ندی میں تیرنے اور مچھلیوں کے شکار سے لطف اندوز ہونے کے مواقع انھیں میسر آئے۔

ابتدائی،ثانوی اوراعلیٰ تعلیم[ترمیم]

عزیز بلگامی کی ابتدائی تعلیم جنیدیہ ہائی اِاسکول، کڑچی میں ہوئی اور نویں تا میٹرک شہر بلگام کی باشیبان ہائی اسکول میں ہوئی۔ پی یو سی، بی ایس سی (سال اوّل) آریل ایس انسٹی ٹیوٹ، بلگام میں مکمل کیا اور بی ایس سی (سال دُوم اور سُوم) کٹل کالج، دھارواڑ سے مکمل کی۔ سید نور الدین قادری نور سے ملاقات عزیز بلگامی کی زندگی میں ایک سنگِ میل کی حیثیت اختیار کر گئی۔ اِس کے بعد تعلیم کے حصول کا سلسلہ منقطع ہوا۔ بی ایس سی کے بعد نوکری کی جستجو میں عزیز صاحب مصروف ہو گئے اور کئی شعبوں میں تقدیر آزمائی کی۔ بنک کی سروس کے دوران انھوں نے 1995ء میں میسور یونیورسٹی سے اُردو میں ایم اے کیا اور 1999ء میں بنگلو یونیورسٹی سے انھوں نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر میم نون سعید صاحب کی رہنمائی میں انھوں نے ”عطاء الرحمٰن عطا ہبلوی ....فن اور شخصیت“ کے عنوان سے اپنا تحقیقی مقالہ لکھا جو بعد میں ”زنجیرِ دست و پا “ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہو کر ادبی حلقوں میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔

عزیز بلگامی ناگپور میں

عزیز بلگامی مشاغل[ترمیم]

بچپن کے صوفیانہ پس منظر کی وجہ سے دنیاوی بے رغبتی کی علامات بھی اُن کی شخصیت سے ظاہر ہوتی ہیں اور طبعیت کی خوداری نے انھیں ہر دکھ جھیلنے کا سلیقہ بھی عطا کیا ہے۔ نرم گو اور نرم خو ہیں۔ معاشرتی زندگی میں آپ کے زندگی کے مختلف طبقات کے لوگوں سے وسیع روابط رہے۔ عوام سے گرم نرم تعلقات کے باوجود خود ان ہی کی غزل کے ایک مصرع” گالی تمھارے پاس دُعا ہے ہمارے پاس“ کے مصداق آپ نے ہمیشہ عفو و درگزری کا شیوہ اپنایا۔ حبّ الوطنی کے جذبے کی انھوں نے خوب پرورش کی، لیکن حب الوطنی اُس جذبے کے قائل رہے جو حفیظ میرٹھی کے اِس شعر میں نظر آتا ہے:

میں نے واللہ میرے وطن تجھ کو چاہا ہے، پوجا نہیں

عزیزبلگامی ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں۔ اِس وقت اُن کا لیپ ٹاپ اُن کا دوست ہے۔ جس پر وہ اپنے مضامین کی تخلیق کرتے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا سے خوب واقف ہیں۔ اپنے مضامین کو ای میل کے ذریعہ مختلف اخبارات و رسائل کو ارسال کرتے رہتے ہیں۔ اِن کا یہ محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کی نثر نگاری کے فروغ میں اُن کے کمپیوٹر کی معلومات کا بڑا دخل رہا ہے۔ اور اپنے تجربہ کی بنیاد پر وہ اس تصور کے پرزور حامی ہیں کہ دورِ حاضر میں جسے کمپیوٹر سے واقفیت نہیں وہ ایک خواندگی یا غیر پڑھا لکھا آدمی ہے۔ کچھ عرصے قبل اُن کے مشغلوں میں ایک اہم اور مبارک کام یہ شامل ہو گیاتھا کہ وہ تقریباً 52 طلباءکو قرآنی عربی کی تعلیم دینے میں مصروف تھے۔ اُن کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک فرد کو پورا قرآن معنی کے ساتھ پڑھا ئیں۔ اس طرح کہ وہ قرآن بھی پڑھے اور اردو زبان میں ترجمہ بھی کرنا سیکھے۔ لیکن اب یہ کام اُن کا تربیت یافتہ بیٹا محمد یونس عزیز انجام دے رہا ہے۔ البتہ عزیز بلگامی اپنے گھر کی آسودگیوں کے درمیان قرطاس و قلم سے جڑے کئی کاموں میں مصروف ہیں۔ اچھے کھانوں سے رغبت کے باوجود ہر طرح کے ماحول میں خود کو ایڈجسٹ کرلیتے ہیں اور جو میسر آیا نو ش فرما لیتے ہیں۔ اسٹیٹ بنک آف انڈیا کی ملازمت کے دوران ایک پر تعیش زندگی گزارنے کے بعد جب انھوں نے استعفیٰ دیا تو زندگی کا معیار گر گیا۔ پھر بھی پیشانی پر بلوں کو اُبھرنے نہیں دیا۔ صبر و شکر کی زندگی اپنائی جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اُن کی غزل کا شعر ہے: زندگی ہم نے غریبوں سی بتانی سیکھی غم کی روداد خدا ہی کو سنانی سیکھی

آج چہروں پہ بشاشت کی ضرورت ہے عزیز مرقدِ رُخ پہ یہ چادر بھی چڑھانی سیکھی

عزیز بلگامی کی شادی اور ازدواجی زندگی[ترمیم]

عزیز صاحب کی شادی 6مئی1979ء میں ہوئی۔ اہلیہ محترمہ نورجہاں بیگم ضلع گدگ، رون تعلق کے ایک چھوٹے سے گاؤں ”جکلی“ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہاشم صاحب کی تیسری اورآخری دختر ہیں۔

عزیز بلگامی کی اولاد[ترمیم]

عزیز صاحب کی اولاد میں کل پانچ بچے شامل ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی ساجدہ بانو ہیں اور زبیر احمد، انڈمان سے بیاہی گئی ہیں اور انڈمان میں مقیم ہیں۔ دوسرے فرزندمحمد اطہر منصوری، بی بی ایم گریجویٹ ہیں اور ایک برطانوی کمپنی “Tesco“ میں بر سر ِ ملازمت ہیں۔ تیسرے نمبر پر صادقہ بانو سائنس گریجویٹ ہیں اور جناب سعید رجیب سے بیاہی گئی ہیں۔ چوتھے نمبر پر محمد زکریا ہیں جو بزنس میں دلچسپی رکھتے ہیں اور پانچویں نمبر پر محمد یونس عزیز ہیں اور وہ بھی برطانوی کمپنی Tesco] میں بر سرِ روزگار ہیں ۔

عزیز بلگامی کی بنگلور میں مستقل سکونت[ترمیم]

عزیز بلگامی اپنی بنک کی ملازمت میں پروموشن کے سبب بنگلور منتقل ہوئے اور یہیں کے ہو رہے۔ بنگلور کی ریسی ڈنسی روڈ شاخ میں بطور کیش افسر پانچ سال تک اپنے فرائض انجام دیے پھر ایک دیہی برانچ تھما سندرا میں آپ کی دو سالہ پوسٹنگ ہوئی۔ یہ ایک تکلیف دہ مرحلہ تھا جسے کامیابی کے ساتھ آپ نے پورا کیا۔ کیونکہ ملازمت کے قوانین کے مطابق یہ مرحلہ گزارنا ضروری تھا، جس کی بنیاد پر اگلی ترقیاں ہونی تھیں۔ اس کے بعد آپ کا تبادلہ پھر بنگلور ہوا۔ ودیا رنیا پورہ برانچ بنگلور میں آپ کا تقرر ہوا اور یہاں کچھ دن اطمینان کے ساتھ گذرے اور یہیں سے آپ نے اپنی ملازمت کو خیرباد کہا۔

عزیز بلگامی بنگلور

تدریسی اور ادبی سرگرمیاں[ترمیم]

زبیدہ پری یونیورسٹی کالج برائے خواتین میں بحیثیت پرنسپل انھوں نے طالبا ت کی خوب تربیت کی۔ اِن میں ادب کاذوق جگایا۔ حافظ صاحب اُن کو یہ عہدہ دے کر گویا مطمئن سے ہو گئے تھے کہ عزیز بلگامی اِس ادارے کو پوری طرح سنبھال لیں گے اور عزیز صاحب نے اُن کے بھرم کی لاج بھی رکھ لی۔ حافظ صاحب عزیز صاحب کے کالج کے کاموں میں انہماک کو دیکھ کر اکثر کہا کرتے تھے کہ عزیز صاحب نے کالج کو اپنی خانقاہ بنا لی ہے۔ اِس لیے کہ کالج کے نظم و انصرام کے لیے وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت وہ کالج کے لیے دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ پی یو کے سال دوم کی طالبات کے لیے انھوں نے اُردو مضمون کی تعلیم اپنے ذمہ لے رکھی تھی۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اردو کے مضمون میں طالبات کا سالانہ امتحان میں مظاہرہ بڑا شاندار رہا اور طالبات نوے سے زائد نشانات لے کر اُردو کے مضمون میں صد فی صد کامیابی حاصل کی۔ اور شاید یہ اِن ہی طالبات کی دُعاؤں کا اثر ہے کہ آج حکومتِ کرناٹکا کی پری یونیورسٹی سال دُوّم کی اُردو نصابی کتاب 2014 میں عزیز بلگامی کے دو قطعات بھی شامل کیے گئے ہیں۔

ادبی سفر[ترمیم]

عزیز بلگامی آل انڈیا ریڈیو پورٹبلیر

اُردو ادب سے اِنتہائی لگاؤ اورمحبت کے سبب ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ الرشید ماہنامہ اُردو کے ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ جوہرگفتار بلگاممیں اپنا قلمی تعاون پیش کیا۔ ”صدائے فطرت“، بلگام کے معاون مدیربھی رہے۔ بہت سارے ادبی، دینی، سیاسی موضوعات پر مضامین لکھے۔ بحیثیت شاعر کافی مقبول ہوئے۔ اور اب نثر نگاری میں اپنا کمال دکھا رہے ہیں۔ بھارت اور دیگر ممالک کے کئی رسائل و اخبارات میں ان کے مضامین چھپ چکے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بحیثیت کالم نگاربھی کامیاب رہے۔ قومی سیمینارمیں حصّہ لیا۔ مذہبی رواداری، قومی یکجہتی اور بھائی چارگی کی روح اِن کی شاعری، مقالوں اور مضامین میں کارفرما رہی۔ پدم بھوشن مولانا عبدالکریم پاریکھ مرحوم کی سوانح نگاری کے کام میں پاریکھ فیملی کا بھر پور تعاون کیا، جس کے نتیجے میں اُن کی سوانح پر مشتمل ایک ضخیم کتاب”بحر کوثر کی ایک آبجو“کے نام سے منظر عام پر آئی۔

تصانیف[ترمیم]

ان کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ جن میں سے دو کتابیں ان کی شا عری (نعتوں /غزلوں/دیگر منظومات)پرمشتمل ہیں اور ایک نثری کتاب ہے:

  1. حرف و صوت (نظم) (1992)؛
  2. سکوں کی لمحوں کی تازگی (نظم)(2003)؛
  3. زنجیر دست و پا (نثری کتاب جو عطاءالرحمٰن عطا ہبلویکے فن اور شخصیت پر لکھے گئے تحقیقی مقالے پر مشتمل ہے، جس پر انھیں بنگلور یونیورسٹی سے یم فل کی ڈگری ملی۔) (2003)۔

مشاعروں میں عزیز بلگامی[ترمیم]

مشاعروں میں ان کو سننے کے لیے سامعین کی دلچسپی اس بات کی دلیل ہے کہ عزیز بلگامی ایک کامیاب شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں نعت اور غزل کافی اہم ہیں۔ ان کی نعت شریف "میرے مصطفیٰ آئے" کافی مقبول رہی۔ بھارت کے کئی شہروں میں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا لوہا منواچکے ہیں۔

ذرائع ابلاغ میں عزیز بلگامی[ترمیم]

عزیز بلگامی کی آڈیو سی ڈیاں بہت مقبول ہوئیں۔* ”غزلیں اور نعتیں“ کے عنوان سے اِن کی پہلی سی ڈی منظرِ عام پر آئی،جس میں انھوں نے اپنی دلنشین آواز میں غزلیں اور نعتیں پیش کیں؛* ”دُعا ہے ہمارے پاس “ کے عنوان سے اِن کی ایک اور سی ڈی جاری ہوئی، جس میں انھوں نے اپنے ہی کلام کے لیے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ کرناٹک اُردو اکادمی کے سابق صدر خلیل مامون صاحب کے ہاتھوں اِس کا اجراءہوا؛* کیرالہ کے اُردو نواز عوام کے لیے علامہ اِقبال کے کلام پرمشتمل ایک سی ڈی پیش کی،جس میں علامہ کے کلام کو خود عزیز بلگامی نے اپنے ترنم سے سجایا اور کلامِ اِقبال کا خلاصہکالی کٹ کے اُردو شاعر عبد الرحمٰن آوازنے پیش کیا؛

  • کلامِ عزیز کو ایک اور سی ڈی میں مشہور گلوکاررفیق شیخکی آواز میں اور اشرف منجیری کی موسیقی کے ساتھ پیش کیا گیا۔
  • یوٹیوب میں بھی ان کا کلام دستیاب ہے۔
  • دُور درشن اور، آل انڈیا ریڈیو اور ای ٹی وی پران کے پروگرام اور انٹرویوز نشر ہوئے۔ خود عزیز بلگامی کے معاشرے کے مختلف سرکردہ افراد سے کیے گئے متعدد انٹرویوزدُوردرشن سے نشر ہوئے اور قبولِ عام حاصل کیا۔

دیگر[ترمیم]

ان کے فن اور شخصیت پر شری ونکٹیشورا یونیورسٹی تروپتی سے ایک طالب علم شبیر قاضی رون نے ایم۔ فل کا مقالہ بھی لکھا ہے۔

تصاویر[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]