محمد اشفاق رہبر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پیدائش[ترمیم]

محمد اشفاق رہبر کی پیدائش سنہ 1943ء کو کڈپہ میں ہوئی۔ ذریعہ معاش کے سلسلے میں کڑپہ چھوڑنا پڑا موصوف فی الحال کرنول کے Silver Jubily College (سلور جوبلی کالج) سے ریٹائرڈ انگریزی کے لکچرار ہیں۔

شاعری میں جدید رجحانات[ترمیم]

محمد اشفاق رہبر کی شاعری جدید رجحانات کی عکاس ہے۔ ان کی شاعری میں جدید لب و لہجہ پایا جاتا ہے۔ سنہ 1974ء میں شائع شدہ اشتراکی شعری مجموعہ ہی ان کی زندگی کا اہم سرمایہ ہے یوں تو ان کی غزلوں کی تعداد بہت زیادہ ہے وہ اب شاعری ترک کرچکے ہیں لیکن ’’لہجے‘‘ میں شائع شدہ بیس غزلیں ان کے ایک مستند اور جدید شاعر ہونے کی دلیل پیش کرتی ہیں۔ ایسے بھی شاعر کو زندہ رکھنے کے لیے ایک شعر کافی ہے۔ موصوف کا ہر شعر ایک نئی رخ کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں موصوف کو حیات دوام ملی ہے ۔

بے سائیگی نے ہم کو بنایا ہے تیز گام

ہم لوگ سوکھے پیڑوں کے احسان مند ہیں

چہرہ ہے پھول لب ہے کلی آنکھ مے کدہ

پارینہ رٹ بدل کوئی اچھی مثال دے

موصوف کی شاعری میں غم کا دلدل ہے، طویل خاموشی ہے، درد کی سوکھی زمین ہے، تنہائی ہے، ان کی شاعری میں جدید رجحانات جابجا پائے جاتے ہیں۔ چند شعر ملاحظہ ہو:

غم کی دلدل سے نکلنا تھا محال

میں نکل آیا توقع کے خلاف

درد کی سوکھی زمیں ہے تشنہ لب

رونے والے اور بھی آنسو بہا

آؤ ستارو اپنے تعین کا دو ثبوت

جاری ہے رات آج کی تنہا چراغ پر

جلوہ نما ہے غم تری کوشش کے باوجود

پردہ قری ہنسی کا نہایت مہین ہے

کتنے خدشات سر اٹھاتے ہیں

خاموشی جب طویل ہو جائے

ان خصوصیات کے علاوہ ان کی شاعری میں سوز و گداز، اکیلا پن، تنہائی، ذہنی رجحانات و قلبی میلانات جیسی کئی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ آپ نے ابر حسن گنوری جیسے استاد سخن سے شرف تلمذ حاصل کی۔

افسانہ نگاری[ترمیم]

شروع شروع میں وہ شاعری کے ساتھ ساتھ افسانے بھی لکھتے رہے ہیں۔ آپ نے کل چھ افسانے لکھ چکے ہیں ان کا پہلا افسانہ ’’شکستہ آئینہ‘‘ ہے۔

[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. امام قاسم ساقی کا مقالہ “شعرائے کڈپہ کی غزلوں جدید رجحانات“ صفحہ 65 تا 66