امرتسر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ਅੰਮ੍ਰਿਤਸਰ
अमृतसर
ہرمندر صاحب
عرفیت: گولڈن سٹی، مقدس شہر
ملکبھارت کا پرچم بھارت
ریاستپنجاب
ضلعضلع امرتسر
قائم ازگرو رام داس
حکومت
 • پولیس کمشنرSh. Amar Singh Chahal, IPS
 • ڈپٹی کمشنرVarun Roojam
آبادی (2011)
 • شہری[1]1,132,761
 • میٹرو[2]1,183,705
نام آبادیامرتسری
زبانیں
 • سرکاریپنجابی زبان
انگریزی زبان
منطقۂ وقتبھارتی معیاری وقت (UTC+5:30)
ڈاک اشاریہ رمز143-001
ٹیلی فون کوڈ91 183 XXX XXXX
گاڑی کی نمبر پلیٹPB-02
ویب سائٹwww.amritsarcorp.com
Khalsa College ,Amritsar

امرتسر (Amritsar) (audio speaker iconتلفظ ; پنجابی: ਅੰਮ੍ਰਿਤਸਰ‎; پنجابی تلفظ: [əm:ɾɪt̪səɾ]) (مقامی پنجابی تلفظ امبرسر بھی ہے) بھارتی پنجاب کا ایک شہر ہے اور ہندوستان کی شمال مغربی ریاست (پنجاب) کے دار الحکومت، چندی گڑھ سے 217 کلومیٹر (135 میل) اور پاکستان کے لاہور سے 28 کلومیٹر (17.4 میل) مشرق کی جانب واقع ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اس شہر کی آبادی پندرہ لاکھ بتائی جاتی ہے جبکہ تمام ضلع امرتسر کی آبادی قریباً چھتیس لاکھ بیان ہوتی ہے۔ امرتسر شہر میں سکھ مت کا روحانی مقام ہرمندر صاحب واقع ہے۔

تاریخ[ترمیم]

گرو رام داس

امرتسر شہر کی ابتدا کے بارے میں یہ ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے کہ مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ اکبر نے امرتسر کا علاقہ سکھوں کے چوتھے روحانی پیشوا گرو رام داس کو دے دیا تھا اور رام داس نے یہاں رام داس پور کی بنیاد ڈالی جس کا نام بعد میں امرتسر ہوا [3]۔[4]؛ لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ اکبر نے 1565ء میں گرو امر داس اور پھر 1579ء میں گرو رام داس اور 1606ء میں گرو ارجن دیو کو علاقے کی پیشکش کی تھیں جنہیں ان تینوں اشخاص نے قبول نہیں کیا تھا ؛ گرو امرداس کی نسبت یہ بھی تاریخ میں آتا ہے کہ جاگیر قبول کرنے سے انکار کے بعد اکبر نے وہ جاگیر جس پر امرتسر قائم ہوا امرداس کی بیٹی بی بی بھانی کو شادی کے تحفے کے طور پر دے دی تھی جس سے امر داس انکاری نہ ہو سکے [5] مزید یہ کہ اکبر نے سکھوں کے تمام علاقے کو محصول ادا کرنے سے آزاد کر دیا تھا ۔[6] امرتسر کے لیے پرانے نام رام داس پور کے علاوہ گرو چک اور رام داس چک بھی استعمال ہوتے رہے ہیں۔ کرتار پور میں 1539ء میں اپنے انتقال سے قبل گرو نانک نے گرو انگد دیو کو نیا گرو نامزد کر دیا تھا پھر تیسرے گرو امر داس (1479ء تا 1574ء) کے بعد آنے والے چوتھے گرو رام داس (1534ء تا 1581ء) نے امرتسر کے پرانے تالاب کی مرمت کا کام شروع کیا اور اس کے درمیان میں ایک مندر یا گردوارہ، دربار صاحب تعمیر کیا جس کو ہرمندر صاحب بھی کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ اکبر اور اس کے بعد بھی عمومی تعلقات رام داس پور (امرتسر) کی جانب اچھے رہتے اور مغلیہ سلطنت میں رام داس پور کی حیثیت نیم خود مختار علاقے کی سی تھی لیکن پھر سولہویں صدی سے اس علاقے میں مکمل آزادی یا خود مختاری کے احساسات نمودار ہونا شروع ہوئے ۔[7] تصوف کے کرشمات کو سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور عرصے تک تصوف کے افکار سے ایک مبہم صورت قائم رہی حتیٰ کہ گرو نانک کو مسلمان بھی کہا جاتا ہے[3]۔

لاہور سے امرتسر[ترمیم]

شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں بھی سکھ مت اتنا واضح اور الگ مذہب نہیں بنا تھا لیکن آثار نمایاں ہونے لگے تھے کہ اب سکھ مغلیہ سلطنت کے مرکز برائے پنجاب یعنی لاہور کی بجائے امرتسر کی جانب دیکھنے لگے تھے ۔[8] سکھ ذرائع کے مطابق شہنشاہ جہانگیر کے کہنے پر ادی گرنتھ میں ترامیم سے گرو ارجن کے انکار پر، اس نے خسرو کو امداد فراہم کرنے کا بہانا بنا کر ان کو قتل کروا دیا تھا [9] اور اس بات نے ان کے بیٹے اور چھٹے گرو ہرگوبند (1595ء تا 1644ء) کو عسکری طاقت کی جانب مائل کر دیا تھا جس کے رد عمل کے طور پر جہانگیر نے ایک بار امرتسر سے ہرگوبند کو گرفتار بھی کیا لیکن پھر آزاد کر دیا۔ ہرگوبند نے مغلیہ سلطنت کو ناجائز قرار دیکر اپنے پیروکاروں کو اسے تسلیم کرنے سے منع کر دیا تھا اور گرو کو خدا کی جانب سے دی جانے والی سلطنت کو جائز قرار دیا؛ شاہجہان کے دور (1628ء تا 1658ء) میں رام داس پور (امرتسر) پر حملہ کیا گیا اور ہرگوبند نے امرتسر سے بھاگ کر کرتار پور میں سکونت اختیار کی۔ اورنگزیب کے تبدیل ہوتے ہوئے کردار نے مختلف واقعات کو جنم دیا جن میں ایک سکھوں سے معاملات کا واقع بھی ہے جس میں محصول یا جزیہ پر ہونے والی معاشیاتی کشمکش کو مذہب اور خود مختاری سے جوڑ دیا گیا۔ تیغ بہادر کے قتل کو متعدد تاریخی دستاویزات میں سکھ مسلم ناچاقی یا نفرت کا آغاز کہا جاتا ہے [10]۔

رام داس پوری سیاست[ترمیم]

سولہویں صدی کے اواخر کے امرتسر (رام داس پور) میں گروگوبند سنگھ کی خالصہ براہ راست مغلیہ سلطنت سے ٹکرانے پر تیار ہو رہی تھی [11]؛ گو کہ اکبر سے لے کر شاہ جہاں تک مغلوں کا رویہ گروؤں کی جانب مناسب ہی نہیں باعزت بھی رہا لیکن امرتسر کی جانب سے جہانگیر اور شاہ جہاں دونوں کی حکومت کے دوران سلطنت مغلیہ کے معاملات میں مداخلت کی جاتی رہی۔

1947ء تقسیم ہند[ترمیم]

برطانوی قانون آزادی ہند 1947ء کے تحت برطانوی ہند اگست 1947ء کو پاکستان اور بھارت میں تقسیم ہوا جس سے امرتسر پر بلحاظ آبادیات، معاشیات، ثقافت، سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر گہرا اثر پڑا۔ صوبہ پنجاب (برطانوی ہند) کی بھارت اور پاکستان میں تقسیم پر امرتسر ایک سرحدی شہر بن گیا۔ تقسیم سے قبل مسلم لیگ امرتسرکو لاہور سے قربت (30 میل کا فاصلے) اور تقریبا 50 فیصد مسلم آبادی کی وجہ سے پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھی، لیکن شہر بھارت کا حصہ بن گیا۔ امرتسرکو بھارت کی تقسیم کے دوران بدترین فرقہ وارانہ فسادات کا سامنا کرنا پڑا۔ امرتسر کے مسلمان رہائشی مسلم مخالف فسادات کی وجہ سے گھروں اور املاک کو چھوڑ کر امرتسر سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

امرتسر ضلع میں اہم مسلم اکثریت دیہات قبل تقسیم سلطان پور، کالا افغانہ، عبد ل کلاں، رشید بال، لاہوریے، شاہ پور، شاہ کوٹ، علی پور، علی وال، اللہ آباد، فتح آباد، چک، گوزہ چک، جٹاں اور چیمہ تھے۔

آپریشن بلیو سٹار[ترمیم]

1984ء میں بھارتی فوج کا اپنے ہی ملک میں امرتسر شہر میں واقع ہرمندر صاحب پر کیا جانے والا آپریشن۔ یہ آپریشر اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حکم سے 3 سے 8 جون تک ہوا۔[12]

اہم مقامات[ترمیم]

گولڈن ٹیمپل[ترمیم]

گولڈن ٹیمپل

گولڈن ٹیمپل امرتسر کا سب سے اہم مقام ہے جو سکھ مذہب کی ایک مقدس عبادت گاہ ہے۔ اس کا اصل نام ہرمندر صاحب ہے لیکن یہ گولڈن ٹیمپل کے نام سے مشہور ہے۔ امرتسر شہر گولڈن ٹیمپل کے چاروں طرف بسا ہوا ہے۔ گولڈن ٹیمپل میں روزانہ ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ امرتسر کا نام اس تالاب کے نام پر رکھا گیا ہے جس کی تعمیر گرو رام داس نے اپنے ہاتھوں سے کروائی تھی۔

سکھ گولڈن ٹیمپل میں داخل ہونے سے پہلے مندر کے سامنے سر جھکاتے ہیں، پھر پاؤں دھونے کے بعد سیڑھیوں سے مندر تک جاتے ہیں۔ سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ اس کی مکمل تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ گولڈن ٹیمپل انتہائی خوبصورت ہے اور اس میں روشنی کا خوبصورت انتظام کیا گیا ہے۔ سکھوں کے علاوہ بھی بہت سے سیاح یہاں آتے ہیں۔

جلیانوالہ باغ[ترمیم]

جلیانوالہ باغ

13 اپریل، 1919ء کو اس مقام پر ایک اجتماع منعقد کیا گیا تھا جس انگریز فوج کے جنرل ڈائر کے احکام پر سینکڑوں حریت پسندوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ جلسہ کے دوارن جنرل ڈائر نے باغ کے واحد راستے کو اپنے فوجیوں کے ساتھ گھیر لیا اور ہجوم پر اندھا دھند گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ اس واقعہ کو تاریخ کی سب سے دردناک واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

جلیانوالہ باغ کا قتل عام اتنا زیادہ تھا کہ اس باغ میں واقع کنواں لاشوں سے مکمل بھر گیا۔ اب اسے ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے اور ایک یادگار بھی تعمیر کی گئی ہے۔ اس کی دیکھ بھال اور حفاظت کی ذمہ داری جلیانوالہ باغ ٹرسٹ کے سپرد ہے۔ یہاں خوبصورت درخت لگائے گئے ہیں۔ باغ میں آنے کا وقت موسم گرما میں صبح 9 بجے سے شام 6 بجے تک اور موسم سرما میں صبح 10 بجے سے شام 5 تک رکھا گیا ہے۔

دیگر مقامات[ترمیم]

مہاراجا رنجیت سنگھ کا رام باغ پارک

گردوارے[ترمیم]

امرتسر کے جنوب میں ستوكھسر صاحب اور ببے سر صاحب گردوارے ہیں۔ ان میں سے ستوكھسر گرودوارہ گولڈن ٹیمپل سے بھی بڑا ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ نے رام باغ پارک میں موسم گرما کے لیے ایک محل بنوایا تھا۔ اس کی اچھی دیکھ بھال کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ آج بھی صحیح حالت میں موجود ہے۔ اس محل کی بیرونی دیواروں پر سرخ پتھر لگے ہوئے ہیں۔ اس محل کو اب مہاراجا رنجیت سنگھ عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس عجائب گھر میں متعدد تصاویر اور فرنیچر کی نمائش کی گئی ہے۔ یہ ایک پارک کے وسط میں بنا ہوا ہے جو ایک خوبصورت پارک ہے۔ اس پارک کو لاہور کے شالیمار باغ جیسا بنایا گیا ہے۔ عجائب گھر میں داخلے کا وقت صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک رکھا گیا ہے۔ عجائب گھر پیر کو بند رہتا ہے۔

درگیانا مندر[ترمیم]

درگیانا مندر ہرمندر صاحب کی طرح بنایا گیا ہے۔

درگیانا مندر ایک قدیم ہندو مندر ہے جو ہاتھی گیٹ کے علاقے میں واقع ہیں۔ اس مندر کو ہرمندر کی طرح بنایا گیا ہے۔ درگیانا مندر کے بالکل پیچھے ہنومان مندر واقع ہے۔

خیرالدین مسجد[ترمیم]

یہ مسجد گاندھی گیٹ کے قریب ہال مارکیٹ میں واقع ہے۔ نماز کے وقت یہاں بہت بھیڑ ہوتی ہے۔ مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے بھیڑ کے باوجود ان کے حسن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے اس کی دیواروں پر آیتیں لکھی ہوئی ہیں۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ جلیانوالہ باغ کے اجتماع کے لیے سیف الدین کچیلو اور ستیہ پال اسی مسجد ہی اجتماع کو خطاب کر رہے تھے۔

بابا اٹل رائے مینار[ترمیم]

یہ گرو ہرگوبند کے نو سالہ بیٹے کی شہادت کا جائے مقام ہے۔

رام تیرتھ[ترمیم]

یہ بھگوان رام کے بیٹوں لو اور کش کی جائے پیدائش تصور کی جاتی ہے۔

نواحی مقامات[ترمیم]

واہگہ بارڈر

واہگہ بارڈر[ترمیم]

واہگہ بارڈر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک سرحدی راستہ جو لاہور کو امرتسر سے ملاتا ہے۔ ہر شام یہاں بھارت بارڈر سکیورٹی فورس اور پاکستان رینجرز کے فوجی اپنے جھنڈے اتارنے کے تقریب منعقد کرتے ہیں۔ خاص موقعوں پر مثلا بنیادی طور پر 14 اگست پاکستان کے یوم آزادی کی شام اور بھارت کے یوم آزادی کی صبح ہوتی ہے۔ اس شام وہاں پر امن کے لیے رات بیداری کی جاتی ہے۔

ترن تارن[ترمیم]

امرتسر سے تقریبا 22 کلومیٹر دور اس مقام پر ایک تالاب ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس کے پانی میں بیماریوں کو دور کرنے کی طاقت ہے۔

پکوان[ترمیم]

سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی

امرتسر کے پکوان پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ یہاں کا بنی مرغی، مکئی کی روٹی، سرسوں کا ساگ اور لسی بہت مشہور ہیں۔ یہاں کی اسپیشل تھالی بھی بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ لارنس روڈ کی ٹکی آلو اور آلو پراٹھے بہت مشہور ہیں۔ امرتسر کے امرتسری كلچے بہت مشہور ہیں۔ امرتسری كلچے کے لیے سب سے بہتر جگہ مقبول روڈ کے ڈھابے ہیں۔ یہاں صرف دو بجے تک ہی كلچے ملتے ہیں۔ پپڈی چاٹ اور ٹکی کے لیے برجواسی کی دکان مشہور ہے۔ یہ دکان کوپر روڈ پر واقع ہے۔ لارنس روڈ پر بی بی کے دیو لڑکیوں کے کالج کے پاس شہر کے سب سے اچھے آم پاپڑ ملتے ہیں۔ سبزی کھانوں کے ساتھ ساتھ امرتسر آپ گوشت سے بنے کھانوں کے لیے بھی مشہور ہے۔ گوشت خور ترکیبوں میں امرتسری مچھلی بہت مشہور ہے۔ اس ڈش کو چالیس سال پہلے چمن لال نے تیار کیا تھا۔ اب یہ پکوان امرتسر کے گوشت پکوانوں کی شناخت ہے۔ لارنس روڈ پر سرجیت چکن ہاؤس آپ بھنے ہوئے چکن کے لیے اور کٹرا شیر سنگھ اپنی امرتسری مچھلی کے لیے پورے امرتسر میں مشہور ہے۔ sweeti

خریداری[ترمیم]

امرتسر کا ایک بازار

امرتسر کا بازار بہت اچھا ہے۔ یہاں ہر طرح کے مقامی اور غیر ملکی كپڑے دستیاب ہیں۔ اس کا بازار کچھ لاجپت نگر جیسا ہے۔ امرتسر کے پرانے شہر کے ہال مارکیٹ کے آس پاس کے علاقے بنیادی طور کوتوالی علاقے کے قریب روایتی بازار ہیں۔ یہاں پر زیورات سے لے کر باورچی خانے تک کا تمام سامان ملتا ہے۔ یہ اپنے پاپڑ کے لیے بہت مشہور ہے۔ پنجابی پہناوا بھی پوری دنیا میں بہت مشہور ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں میں پنجابی سوٹ کا کافی شوق ہے۔ سوٹوں کے علاوہ یہاں پر پگڑی، شلوار قمیض، رومال اور پنجابی جوتیوں کی بہت مانگ ہے۔

دربار صاحب کے باہر جو بازار لگتا ہے اس میں سٹیل کے اعلی معیار کے برتن اور کرپان ملتے ہیں۔ کرپان کو سکھوں میں بہت مقدس سمجھا جاتا ہے جو پانچ ککوں میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سکھ مذہب سے متعلقہ کتابیں بھی ملتی ہیں۔

جغرافیہ اور آب و ہوا[ترمیم]

امرتسر بھارت کے بالکل مغربی سرے پر واقع ہے۔ یہاں سے پاکستان صرف 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ نیشنل ہائی وے 1 کے ذریعے کرنال، انبالہ، کھنہ، جالندھر اور لدھیانہ سے ہوتے ہوئے امرتسر پہنچا جا سکتا ہے۔ امرتسر دہلی کت شمال مشرق میں 447 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

آب ہوا معلومات برائے امرتسر
مہینا جنوری فروری مارچ اپریل مئی جون جولائی اگست ستمبر اکتوبر نومبر دسمبر سال
بلند ترین °س (°ف) 29.0
(84.2)
31.1
(88)
35.7
(96.3)
41.9
(107.4)
48.1
(118.6)
46.2
(115.2)
42.0
(107.6)
37.2
(99)
36.5
(97.7)
34.6
(94.3)
29.3
(84.7)
23.2
(73.8)
48.1
(118.6)
اوسط بلند °س (°ف) 19.4
(66.9)
21.6
(70.9)
26.5
(79.7)
33.8
(92.8)
38.7
(101.7)
39.4
(102.9)
35.0
(95)
34.2
(93.6)
34.5
(94.1)
32.3
(90.1)
27.1
(80.8)
21.3
(70.3)
30.3
(86.5)
یومیہ اوسط °س (°ف) 11.6
(52.9)
13.9
(57)
18.7
(65.7)
25.1
(77.2)
29.9
(85.8)
32.1
(89.8)
30.2
(86.4)
29.7
(85.5)
28.3
(82.9)
23.8
(74.8)
17.9
(64.2)
12.9
(55.2)
22.8
(73)
اوسط کم °س (°ف) 3.7
(38.7)
6.0
(42.8)
10.9
(51.6)
16.3
(61.3)
21.1
(70)
24.6
(76.3)
25.3
(77.5)
25.1
(77.2)
22.2
(72)
15.1
(59.2)
8.7
(47.7)
4.4
(39.9)
15.3
(59.5)
ریکارڈ کم °س (°ف) −3.5
(25.7)
−1.6
(29.1)
2.6
(36.7)
5.7
(42.3)
7.7
(45.9)
13.8
(56.8)
14.0
(57.2)
15.0
(59)
10.5
(50.9)
4.6
(40.3)
1.7
(35.1)
−2.7
(27.1)
−3.5
(25.7)
اوسط بارش مم (انچ) 24
(0.94)
33
(1.3)
48
(1.89)
29
(1.14)
25
(0.98)
62
(2.44)
231
(9.09)
187
(7.36)
79
(3.11)
18
(0.71)
6
(0.24)
18
(0.71)
760
(29.91)
اوسط بارش ایام (≥ 1.0 mm) 2.8 3.7 5.0 3.5 2.8 4.6 11.4 9.1 4.3 1.4 1.2 2.0 51.8
اوسط اضافی رطوبت (%) 74 70 64 47 38 48 72 77 69 67 73 76 64.6
ماہانہ اوسط دھوپ ساعات 181.7 192.7 219.4 265.0 294.7 269.0 215.5 227.7 240.8 253.2 220.1 182.2 2,762
ماخذ: [13]

نقل و حمل[ترمیم]

سری گرو رام داس جی بین الاقوامی ہوائی اڈا

دہلی سے سفر میں براستہ ریلوے اور سڑک تقریبا 9 گھنٹے اور ہوائی جہاز سے 1 گھنٹہ لگتا ہے۔

فضائی راستہ[ترمیم]

سری گرو رام داس جی بین الاقوامی ہوائی اڈا امرتسر سے تقریبا 11 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جسے طے کرنے میں تقریبا 15 منٹ کا وقت لگتا ہے۔

ریل[ترمیم]

دہلی سے ٹرینوں کے ذریعے آسانی سے امرتسر ریلوے اسٹیشن پہنچا جا سکتا ہے۔

kisan yojana

امرتسر بس اڈا

سڑک[ترمیم]

ذاتی گاڑی سے بھی گرینڈ ٹرنک روڈ کے ذریعے آسانی سے امرتسر پہنچا جا سکتا ہے۔ درمیان میں آرام کرنے کے لیے کئی اچھے ڈھابے اور ریستوران موجود ہیں۔ یہاں پر رک کر کچھ دیر آرام کیا جا سکتا ہے اور کھانے کا لطف بھی لیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کے کشمیری گیٹ بس اڈے سے بھی امرتسر کے لیے بسیں جاتی ہیں۔

سیاست[ترمیم]

انتظامی ٹاؤن[ترمیم]

آبادیات[ترمیم]

2011ء کی مردم شماری کے مطابق امرتسر بلدیہ کی آبادی 1،132،761 [1] اور شہری ہم بستگی کی آبادی 1،183،705 تھی۔[2] بلدیہ کا جنسی تناسب 1،000 مرد فی 879 خواتین جبکہ آبادی کا 9.7 فیصد چھ سال کی عمر تھا۔[1] موثر خواندگی تناسب 85،27 فیصد تھا؛ مرد خواندگی 88،09 فیصد جبکہ خواتین خواندگی 82،09 فیصد تھی۔[1]

مذہب[ترمیم]

امرتسر شہر میں مذہب[14]
مذہب فیصد
ہندو مت
  
49.36%
سکھ مت
  
49.00%
دیگر
  
1.64%

بھارت کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق امرتسر شہر کے اہم مذاہب میں ہندو مت اور سکھ مت سر فہرست تھے۔ ہندووں کا تناسب 49،36٪ اور سکھ 49.00٪ تھے۔ حالانکہ پورے امرتسر ضلع میں دیہی علاقوں سمیت سکھ 70 فیصد ہیں۔[15] امرتسر شہر میں مسلمان 0.51%، مسیحی 0.23% اور تقریبا 0.23% کوئی خاص مذہب کو ماننے والے نہیں۔

جڑواں شہر[ترمیم]

قابل ذکر رہائشی[ترمیم]

2

تعلیمی ادارے[ترمیم]

خالصہ کالج، امرتسر
  • گرو نانک دیو یونیورسٹی
  • انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، امرتسر
  • خالصہ کالج، امرتسر
  • سینٹ فرانسس اسکول، امرتسر
  • امرتسر کالج آف انجینئری اینڈ ٹیکنالوجی
  • بی بی کے دیو کالج برائے خواتین، امرتسر
  • دیو کالج امرتسر
  • دہلی پبلک اسکول، امرتسر
  • ہولی ہارٹ پریزیڈینسی اسکول
  • پولیس دیو پبلک اسکول، امرتسر

تصاویر[ترمیم]

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت "Provisional Population Totals, Census of India 2011; Cities having population 1 lakh and above" (PDF)۔ Office of the Registrar General & Census Commissioner, India۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2012 
  2. ^ ا ب "Provisional Population Totals, Census of India 2011; Urban Agglomerations/Cities having population 1 lakh and above" (PDF)۔ Office of the Registrar General & Census Commissioner, India۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 مارچ 2012 
  3. ^ ا ب India by Karen schreitmüller
  4. Later Mughal: Atlantic publishers and distributors, New Delhi
  5. Maharaja ranjit singh, the last to lay arms by Kartar singh duggal
  6. Temple of Sprituality Or Golden Temple of Amritsar by Jagjit singh
  7. Religions of south asia: an introduction by Sushil mittal, Gene R. thursby
  8. Holy people of the world: Volume 3 by Phyllis G. jestice
  9. History of sikh gurus retold: 1469-1606 C.E By Surjit singh gandhi
  10. The new encyclopaedia britannica: Encyclopaedia britannica, inc
  11. The city of golden temple by J S Grewal
  12. http://www.rediff.com/news/2004/jun/03spec.htm Rediff.com. 6 June 1984. Retrieved 9 August 2009.
  13. "Amritsar Climate Normals 1971–1990"۔ National Oceanic and Atmospheric Administration۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 جنوری 2014 
  14. Amritsar City Population Census 2011 | Punjab
  15. Census of India 2011
  16. "Twin town"۔ Sandwell Metropolitan Borough Council۔ 03 اگست 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جون 2016