محمد فاتح

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(محمد ثانی سے رجوع مکرر)
محمد فاتح
(عثمانی ترک میں: مُحمَّد ثانى، فاتح سُلطان محمد ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 30 مارچ 1432ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ادرنہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 3 مئی 1481ء (49 سال)[1][2][3]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گیبزے  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن فاتح مسجد  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ امینہ گل بہار خاتون
گل شاہ خاتون
ست شاہ خاتون
چیچک خاتون
ہلینا پالایولوگینا  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد بایزید ثانی،  سلطان جم،  گوہر خان سلطان  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد مراد ثانی  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ ہما خاتون  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خاندان عثمانی خاندان  ویکی ڈیٹا پر (P53) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
سلطان سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
1444  – 1446 
مراد ثانی 
مراد ثانی 
سلطان سلطنت عثمانیہ   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
12 فروری 1451  – 12 مئی 1481 
مراد ثانی 
بایزید ثانی 
عملی زندگی
پیشہ شاہی حکمران،  شاعر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عثمانی ترکی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عثمانی ترکی،  عربی،  فارسی،  توراتی عبرانی،  وسطی یونانی،  لاطینی زبان،  سربیائی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

سلطان محمد فاتح یا سلطان محمد الثانی (عثمانی ترکی زبان: محمد ثانى، Meḥmed-i s̠ānī; ترکی زبان: II. Mehmet ترکی تلفظ: [ˈmeh.met]; اور المعروف el-Fātiḥ، الفاتح) (پیدائش: 30 مارچ 1432ء — وفات: 3 مئی 1481ء) سلطنت عثمانیہ کے ساتویں سلطان تھے جو 1444ء سے 1446ء اور 1451ء سے 1481ء تک سلطنت عثمانیہ کے سلطان رہے۔ انھوں نے محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) فتح کرکے عیسائیوں کی بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ اس عظیم الشان فتح کے بعد انھوں نے اپنے خطابات میں قیصر کا اضافہ کیا۔ انھیں سلطان محمد الفاتح یا سلطان الفاتح کے القابات سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

سلطان محمد ثانی نے مسیحیوں کے اس عظیم مرکز اور باز نطینی سلطنت کے اس مستحکم قلعے کو فتح کر کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواہش کو پورا کر دکھایا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی میں فتح قسطینطینہ کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے فاتحین کو جنت کی بشارت دی تھی۔ قسطنطنیہ فتح کر کے سلطان محمد ثانی نے اسلام کی نامور ہستیوں میں ایک ممتاز شخصیت کی حیثیت اختیار کر لی۔ قسطنطنیہ فتح ہوا اور زمانے نے دیکھا کہ باز نطینی سلطنت کے ہزار سالہ غرور اور تکبر کے بت اوندھے پڑے ہوئے ہیں اور قسطنطینہ کی فصیل کے نیچے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقبرے پر ہلالی پرچم کا سایہ ہے۔ قسطنطینہ کی تسخیر عالم اسلام کے لیے مسلمانوں کی جرات و شجاعت کی یادگار ہے۔

محمد فاتح نے اینز، گلاتا اور کیفے کے علاقے عثمانی سلطنت میں شامل کیے جبکہ محاصرہ بلغراد میں بھی حصہ لیا جہاں وہ شدید زخمی ہوئے۔ 1458ء میں انھوں نے موریا کا بیشتر حصہ اور ایک سال بعد سربیا فتح کر لیا۔ 1461ء میں اماسرا اور اسفندیار عثمانی سلطنت میں شامل ہوئے انھوں نے یونانی سلطنت طربزون کا خاتمہ کیا اور 1462ء میں رومانیہ، یائچی اور مدیلی بھی سلطنت میں شامل کرلیے۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

محمد ثانی 30 مارچ 1432ء کو ادرنہ میں پیدا ہوئے، جو اس وقت سلطنت عثمانیہ کا دار الحکومت تھا۔ ان کے والد سلطان مراد ثانی اور والدہ ہما خاتون تھیں۔ 11 سال کی عمر میں محمد ثانی کو اماسیہ بھیج دیا گیا، جہاں انھوں نے حکومت سنبھالنے کی تربیت حاصل کی۔ اگست 1444ء میں مراد ثانی اناطولیہ میں امارت کرمان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد 12 سالہ محمد ثانی کے حق میں سلطنت سے دستبردار ہو گئے۔

اپنے پہلے دور بادشاہت کے دوران میں جنگ ورنا کے خدشات کے پیش نظر سلطان محمد نے اپنے والد مراد ثانی سے تخت سنبھالنے کا مطالبہ کیا لیکن انھوں نے زاہدانہ زندگی کو ترجیح دیتے ہوئے اس سے انکار کر دیا۔ جس پر محمد ثانی نے انھیں ایک خط لکھا، جس میں درج تھا کہ "اگر آپ سلطان ہیں تو آئیے اور فوج کی کمان سنبھالیے لیکن اگر میں سلطان ہوں تو میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ میری فوج کی قیادت سنبھالیں"۔ اس خط کے بعد سلطان مراد نے 1444ء میں جنگ ورنا میں عثمانی افواج کی قیادت کی۔

فتح قسطنطنیہ[ترمیم]

فتح قسطنطنیہ مصور کی نظر میں۔ سلطان محمد فاتح نے اپنے لڑاکا بحری جہازوں کو لگ بھگ دو کلومیٹر خشکی پر سے گزار کر دشمن کے علاقے میں دوبارہ پانی میں اتار دیا اور فتح حاصل کی۔

1451ء میں اپنے والد سلطان مراد ثانی کی وفات پر سلطان محمد ثانی نے دوسری مرتبہ تخت سنبھالا اور دو سال بعد ہی محاصرہ قسطنطنیہ میں کامیابی حاصل کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ اس فتح کے بعد سلطنت موریا کو فتح کیا اور بازنطینی حکومت کی یہ آخری نشانی بھی 1461ء میں ختم کردی۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کو ایک دنیا بھر میں شاندار عظمت اورعزت عطا کی اور عثمانی پہلی بار ایک بھرپور قوت کے طور پر ابھرے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد محمد ثانی نے اپنے لیے قیصر روم کا خطاب چنا۔

فتح قسطنطنیہ کی خوشخبری ایک حدیث میں بیان کی گئی تھی جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ : لتفتحنّ القسطنطینیۃ فلنعم الأمیر أمیرھا و لنعم الجیش جیشھا

تم ضرور بالضرور قسطنطنیہ فتح کرو گے، وہ فاتح بھی کیا باکمال ہوگا اور وہ فوج بھی کیا باکمال ہوگی۔(مسند امام احمد بن حنبل، جلد 6، صفحہ225)

ایشیا میں فتوحات[ترمیم]

قسطنطنیہ کی فتح نے محمد ثانی کو اپنی توجہ اناطولیہ پر مرکوز کرنے کی مہلت دی۔ محمد ثانی اناطولیہ میں قائم ترک ریاستوں اور شمال مشرقی اناطولیہ کی مسیحی سلطنت طربزون کا خاتمہ کرکے ایشیائے کوچک کو ایک سیاسی وحدت میں تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ اناطولیہ کو مکمل فتح کرنے کی صورت میں ہی وہ یورپ میں مزید فتوحات حاصل کر سکتا تھا۔

یورپ میں فتوحات[ترمیم]

اناطولیہ اور قسطنطنیہ کی فتوحات اور اسے اپنا دار الحکومت قرار دینے کے بعد محمد ثانی نے یورپ میں پیش قدمی کی۔ وہ سابق رومی سلطنت کو سلطنت عثمانیہ کے پرچم تلے لانا چاہتا تھے جس کے لیے انھوں نے 1480ء میں اٹلی پر حملہ کیا جس کا مقصد روم پرحملہ کر کے 751ء کے بعد پہلی مرتبہ رومی سلطنت کو دوبارہ یکجا کرنا تھا اور پہلے مرحلے میں اس نے 1480ء میں اوٹرانٹو فتح کر لیا۔ لیکن 1443ء اور 1468ء کے بعد 1480ء میں تیسری مرتبہ البانیا میں سکندر بیگ کی بغاوت نے افواج کے رابطے کو منقطع کر دیا جس کی بدولت پوپ سکسٹس چہارم نے ایک زبردست فوج لے کر 1481ء میں اوٹرانٹو کو مسلمانوں سے چھین لیا۔ دوسری جانب محمد ثانی نے بلقان کی تمام چھوٹی ریاستوں کو فتح کر لیا اور مشرقی یورپ میں بلغراد تک پہنچ گیا جہاں 1456ء میں بلغراد کا محاصرہ کیا لیکن جون ہونیاڈے کے خلاف کامیاب نہ ہو سکا۔ 1462ء میں اس کا افلاق کے شہزاد ولیڈ سوم ڈریکولا سے بھی تصادم ہوا۔ 1475ء میں عثمانیوں کو جنگ ویسلوئی میں مالدووا کے اسٹیفن اعظم کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ چند شکستوں کے باوجود محمد فاتح کے دور میں عثمانی سلطنت کا رقبہ کافی وسیع ہوا۔

علم و ہنر کی سرپرستی[ترمیم]

محمد ثانی عظیم فاتح ہونے کے ساتھ ساتھ علم و ہنر کا بھی سرپرست تھا۔ اس نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اٹلی کے مصوروں اور یونانی دانشوروں کو اپنے دربار کا حصہ بنایا اور مسلم سائنس دان اور ہنرمند بھی اس کے دربار سے وابستہ تھے۔ اس نے قسطنطنیہ میں ایک جامعہ قائم کی اور فاتح مسجد سمیت کئی مساجد، نہریں اور طوپقپو سرائي تعمیر کرایا۔

محمد ثانی کا دور رواداری اور برداشت کا دور سمجھا جاتا ہے جس میں اس نے مفتوح بازنطینیوں کے ساتھ نیک سلوک کیا جو قرون وسطی کے یورپیوں کے لیے حیران کن تھا۔ محمد ثانی کے دور میں حکومت میں سلطنت کے مسیحیوں اور یہودیوں کے ساتھ مثالی سلوک کیا جاتا تھا اور انھیں ہر قسم کی خود مختاری حاصل تھی۔

انتقال[ترمیم]

محمد فاتح کا مقبرہ
استنبول میں واقع سلطان محمد فاتح پل

سلطان محمد فاتح 3 مئی 1481ء کو انتقال کر گئے۔ ان کا مزار استنبول میں فاتح مسجد کے برابر میں ہے۔ آبنائے باسفورس پر قائم کیے جانے والے دوسرے پل کو انہی کے نام پر "سلطان محمد فاتح پل" کا نام دیا گیا ہے۔

شخصیت[ترمیم]

محمد فاتح صرف اپنی فتوحات کی وجہ سے مشہور نہیں ہے بلکہ انتظام سلطنت اور اپنی حیرت انگیز قابلیت کے باعث بھی شہرہ رکھتا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ سلطنت عثمانیہ کے لیے باقاعدہ قوانین مرتب کیے ۔ ۔

محمد فاتح کے بعد اس کا بیٹا بایزید ثانی تخت نشین ہوا جس نے تیس سال حکومت کی۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6000kq8 — بنام: Mehmed the Conqueror — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/16625827 — بنام: Fatih Sultan Mehmet — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/mehmed-mehmed-ii-fatih — بنام: Mehmed (Mehmed II. Fatih) — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017