پاکستان میں سزائے موت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پاکستان میں سزائے موت (انگریزی: Capital punishment in Pakistan) تعزیرات پاکستان میں مذکور تمام سزاؤں میں سب سے بڑی اور سخت سزا تصور کی جاتی ہے۔ موجودہ جمہوری دنیا نے سزائے موت کو انسانیت کی تذلیل قرار دیتے ہوئے اکثر ممالک نے سزائے موت ختم کردی تھی، لیکن جلد ہی یہ نظریہ دم توڑ گیا اور مختلف ممالک نے اِسے اَزسر نو نافذ کرنے کے لیے ضروری اور قانونی ترامیم کی ہیں۔ یہ سزا دِیگر جرائم کے علاوہ قتل کے جرم میں بھی دی جاتی ہے لیکن شریعت اسلام نے قتل کے بدلے میں قتل کی سزا کو قصاص کہا ہے۔ یہ اِس لیے کہ قتل کا بدلہ بھی کے قتل سے ہے، لیکن جہاں قصاص کا نفاذ نہ ہوگا، وہاں یہ سزا بطور تعزیر کے دِی جائے گی۔اِس لحاظ سے دِیگر جرائم کے علاوہ سزائے موت جو قتل کے مجرم کو دِی جاتی ہے، اُس میں ولی موجود نہیں ہوتا۔ قصاص کے علاوہ دِیگر جرائم ارتداد، غداری، ملک کے خلاف بغاوت میں موت کی سزا دی جاتی ہے جو مروجہ طریقوں پر حکومت مجرم کو دے سکتی ہے۔ یہ سزا مختلف قسم کے ذریعے سے بھی دی جا سکتی ہے لیکن پاکستان میں سزائے موت کے لیے پھانسی کا طریقہ ہی مروج ہے۔[1]

پاکستان میں سزائے موت ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا کے 108 ممالک میں سزائے موت پر مکمل پابندی ہے جبکہ 28 ممالک میں موت کی سزا تو موجود ہے لیکن اُس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ صرف 55 ممالک ایسے ہیں جہاں موت کی سزا دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں سماجی تنظیمیں سزائے موت کی مخالف ہیں اور اِسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔

پاکستان میں سنہ 2008 سے 2014 تک موت کی سزا پر پابندی عائد تھی۔ پاکستانی قانون میں 33 ایسے جرائم ہیں، جن میں سزائے موت دی جا سکتی ہے۔ لیکن قانونی ماہرین کے مطابق اِن میں سے صرف چند ہی جرائم ایسے ہیں جن میں عدالتیں موت کی سزا دیتی ہیں مثلاً قتل یا توہینِ مذہب۔

سماجی تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) سے وابستہ وکیل ثنا فرخ سمجھتی ہیں کہ قوانین میں ترمیم کر کے سزائے موت کے حقدار جرائم کی تعداد کم کی جانی چاہیے۔

’اِس طرح پاکستان میں سزائے موت کو آہستہ آہستہ ختم کیا جا سکے گا۔ اِس کے علاوہ اگر قوانین پر مکمل عمل کیا جائے اور منصفانہ نظامِ عدل قائم کیا جائے تو اکثر کیسز میں نوبت سزائے موت تک نہیں جائے گی۔ پاکستان میں سزائے موت کے بعد ایک مرحلہ صدرِ مملکت سے معافی کا بھی ہوتا ہے۔ تو اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں کتنے حفاظتی مراحل موجود ہیں۔‘

تاریخ[ترمیم]

سزائے موت پاکستان میں ایک قانونی فعل ہے۔2008ء میں سزائے موت پر آصف علی زرداری نے پابندی عائد کر دی تھی، جسے 16 دسمبر 2014 پشاور اسکول حملہ جس میں 150 سے زائد آرمی پبلک اسکول، پشاور کے طالب علم، اساتذہ اور دیگر عملہ شہید ہو گیا تھا، اس کے فوری بعد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے دہشت گردوں کے لیے تخصیص کرتے ہوئے یہ پابندی اٹھا دی۔ اور 19 دسمبر 2014 کو ہی دو سزا کے منتظر قیدیوں کو سزائے موت دی گئی۔[2] پھر 10 مارچ 2015 کو یہ پابندی مکمل طور پر اٹھا دی گئی۔[3] 241 افراد کو 2005ء کے بعد سزائے موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جن میں سے اور کم از کم 31 کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ پہلے 5 ممالک جن میں سزائے موت کا قانون موجودہے، ان میں پاکستان اس وقت پانچویں نمبر ہے (کل مقدمات -نا کہ ان پر عمل) پہلے چار پر چین، ایران، سعودی عرب اور امریکا ہیں۔[4]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. میاں مسعود احمد بُھٹہ: فوجداری قوانین، ترامیم ایکٹ 1997، قصاص و دیت، صفحہ 32۔ مطبوعہ 2002ء، لاہور۔
  2. BBC News: Pakistan resumes executions after Peshawar school attack
  3. Shaun Sim (10 March 2015)۔ "Pakistan Ends Death Penalty Moratorium"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 مارچ 2015 
  4. AIUK: Pakistan- Spate of imminent executions in wake of Mirza Hussain case