پاکستان میں مردم شماری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مردم شماری پاکستان
Pakistan Census
ادارہ شماریات پاکستان ملک میں مردم شماری کا انعقاد کرتا ہے
مقامپلاٹ نمبر 21، مووے ایریا،
G-9/1، اسلام آباد
پاکستان 44080
ملک پاکستان
افتتاح شدہ1951؛ 73 برس قبل (1951)
گزشتہ14 مارچ 2017؛ 6 سال قبل (2017-03-14)
آگےفروری 2023؛ 1 سال قبل (2023-02)
لوگآصف باجوہ[1]
چیف شماریات دان/چیف مردم شماری کمشنر
ویب سائٹ
www.pbs.gov.pk


پاکستان میں مردم شماری ہر 10 سال بعد ہوتی ہے۔سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951ء میں ہوئی تھی۔ 1951ء سے اب تک ملک بھر میں صرف 6 مردم شماری ہوئی ہیں (1961ء، 1972ء، 1981ء، 1998ء اور 2017ء)۔ 1972ء والی مردم شماری اصل میں 1971ء کو ہونی والی تھی، مگر بھارت سے جنگ کی وجہ سے ایک سال تاخیر ہوئی اور پھر 1991ء کی مردم شماری سیاسی گہما گہمی کے باعث موخر ہوئی۔ پاکستان میں آخری بار مردم شماری 2017ء میں کرائی گئی۔


پاکستان میں پہلی مردم شماری قیام پاکستان کے 4 سال بعد 1951ء میں کرائی گئی تھی اور اس کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی ساڑھے 7 کروڑ سے زائد تھی جس میں مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ جبکہ مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ تھی۔

دوسری مردم شماری 1961ء میں ہوئی جس میں پاکستان کی مجموعی آبادی 9 کروڑ 30 لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ اس مردم شماری میں مغربی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 28 لاکھ جبکہ مشرقی پاکستان کی آبادی 5 کروڑ تھی۔

سقوط ڈھاکہ کے باعث تیسری مردم شماری ایک سال کی تاخیر کے ساتھ 1972 میں ہوئی۔ جس کے مطابق پاکستان کی آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ تھی۔ 1981 میں ہونے والی چوتھی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 8 کروڑ 37 لاکھ ہو گئی۔

سترہ سال کے طویل عرصے بعد 1998 میں ہونے والی پانچویں مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 13 کروڑ 8 لاکھ 57 ہزار ریکارڈ کی گئی۔ جس کے بعد متعدد مرتبہ مردم شماری کی تاریخیں دی گئیں مگر اب 19 سال بعد ہونے والی چھٹی مردم شماری کا آغاز پندرہ مارچ سے ہوا جو پہلی مرتبہ 2 مرحلوں میں کروائی گئی،

باقی ماندہ علاقوں میں یہ عمل دوسرے مرحلے میں شروع ہوا،

مردم شماری کے لیے گھروں میں آنے والے اہلکار گھر کے سربراہ کے نام اور پھر یہاں رہنے والوں کا اندراج کرتے۔ اس کے لیے گھر کے سربراہ کا شناختی کارڈ ہونا ضروری ہوتا اور اگر وہ دستیاب نہ ہو تو انھیں کوئی بھی ایسی دستاویز فراہم کرنا ہوتی جس سے ان کی شناخت کی تصدیق ہو سکے۔

حکام کا کہنا ہے کہ کسی بھی طرح معلومات کو چھپانے یا غط بیانی کرنے والے کو پچاس ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پہلی بار ملک میں خواجہ سرا برادری کو بھی مردم شماری میں شمار کیا گیا۔

سپریم کورٹ کی طرف سے اس بارے میں از خود نوٹس کے بعد گذشتہ سال ہی ملک میں مردم شماری کا فیصلہ کیا گیا،

ملک میں سماجی و معاشی منصوبہ بندی کے لیے مردم شماری بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ملک کی آبادی اور اس کے تناسب کو مد نظر رکھ کر ہی حکومت منصوبہ بندی کرتی ہے۔

مردم شماری کے لیے سیکیورٹی کے خصوصی انتظامات کی گئے ہیں، جب کہ آرمی کو خصوصی اختیارات بھی دے دیے گئے ۔ مسلح افواج کے دو لاکھ سے زائد جوان تعینات کیے گئے، آرمی کی جانب سے ائیرڈیفنس کمانڈ سینٹر میں کنٹرول روم قائم کر دیا گیا۔ کراچی میں دو رکنی ڈیٹا ٹیم کے ساتھ فوج اور پولیس کے دو دو جوان موجود ہوتے خانہ و مردم شماری کے پہلے مرحلے کے لیے پاک آرمی کو خصوصی عدالتی اختیارات دیدیئے گئے، پاکستان میں 70 سالہ تاریخ کی چھٹی مردم شماری کے موقع پر وزارت داخلہ نے خانہ و مردم شماری کے موقع پر پاک آرمی کو ان افراد کیخلاف جو معلومات دینے میں تعاون نہ کریں یا غلط معلومات فراہم کرے تو ان کیخلاف موقع پر ہی کارروائی کرتے ہوئے خصوصی عدالتی اختیارات استعمال کیے جائیں

مردم شماری کے فارم کے ایک خانے میں شہریوں سے یہ سوال بھی کیا گیا کہ ان کے گھر میں موجود ٹوائلٹس کی تعداد کتنی ہے۔ اس سوال کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کو ضروری حاجات کے لیے ٹوائلٹ میسر نہیں۔ قومیت کے خانے میں شہریوں کے لیے دو آپشنز پاکستانی یا غیر ملکی موجود تھے،

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Chief Statistician/Chief Census Commissioner, PBS | Pakistan Bureau of Statistics"۔ www.pbs.gov.pk (بزبان انگریزی)۔ Chief Statistician, Govt. of Pakistan۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مارچ 2017