میگنس کارلسن

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میگنس کارلسن
(ناروی میں: Sven Magnus Øen Carlsen ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

شخصی معلومات
پیدائشی نام (ناروی بوکمول میں: Sven Magnus Øen Carlsen ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 30 نومبر 1990ء (34 سال)[1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تونسبرگ [3]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش تونسبرگ
برسلز شہر (–1997)  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ناروے   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شطرنج باز   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھیل شطرنج   ویکی ڈیٹا پر (P641) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھیل کا ملک ناروے [4]  ویکی ڈیٹا پر (P1532) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

میگنس کارلسن ناروے کے شطرنج کھلاڑی اور شطرنج کے عالمی فاتح ہیں۔

عالمی فاتح[ترمیم]

جنوبی ہند کے شہر چنئی میں انھوں نے بھارت کے پانچ بار کے عالمی چیمپئن وشوناتھن آنند کو باآسانی شکست دے کر عالمی خطاب حاصل کیا۔
میگنس کارلسن کی صورت میں شطرنج کی دنیا کو نیا بادشاہ مل گیا ہے۔ ناروے سے تعلق رکھنے والے بائیس سالہ کارلسن یہ مقابلہ جیتنے کے بعد دنیا کے دوسرے کم عمر ترین عالمی چیمپئن بن گئے۔ اپنی 23 ويں سالگرہ سے چند ہی روز قبل بے انتہا محنت اور تخلیقی صلاحیتوں کے بنا پر میگنس کارلسن وہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کا ارادہ انھوں نے تیرہ برس کی عمر میں کیا تھا۔
دنیا کے کم عمر ترین عالمی چیمپئن بننے کا اعزاز کارلسن کے استاد روسی شاطر گیری کاسپاروف کے پاس ہے۔ 1985ء میں جب کاسپاروف عالمی چیمپئن بنے توان کی عمر بھی کارلسن کی طرح 22 سال تھی لیکن کارلسن اور ان کی عمر میں چند ماہ کا فرق ہے۔
وشواناتھن آنند کو شکست دینے کے بعد بھی کارلسن انتہائی مطمئن انداز میں اپنی جگہ پر بیٹھے رہے اور پھر مسکراتے ہوئے انھوں نے کہا ’’ میں جیتنے پر بہت خوش ہوں‘‘۔
وشواناتھن کو بھارت میں ایک ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور یہ عالمی مقابلہ بھی بھارت میں ہی منعقد ہوا۔ اسی وجہ سے کارلسن نے وہاں پر موجود شائقین کے سامنے کھڑے ہو کر کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ اس مقابلے کا نتیجہ یہ رہا۔
کھیل کے اختتام پر 43 سالہ آنند سے جب ان کے مستقبل کے ارادوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ فی الحال تو آرام کروں گا اور پھر سوچوں گا کہ کیا کرنا ہے‘‘۔
کارلسن کی جیت پر ناروے میں خوشی کا سماں تھا۔ مختلف ویب سائٹس اور اخبارات نے انھیں شطرنج کے بادشاہ کا لقب دیا ہے۔ ناروے کے عوام کی ایک بڑی تعداد نے یہ میچ براہ راست دیکھا۔
وزیر اعظم ایرنا زولبرگ نے کارلسن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’ تم نے پورے ناروے کو شطرنج کے بخار میں مبتلا کر دیا ہے‘‘۔
فائنل مقابلے میں دس گیمز کھیلی گئیں اور اس دوران میں کارلسن نے 6.5 پوائنٹس کی مطلوبہ برتری حاصل کر لی تھی۔ قواعد و ضوابط کے مطابق گیم جیتنے پر ایک اور برابر کرنے پر آدھا پوائنٹ دیا جاتا ہے۔ چیمپئن شپ جیتنے کے لیے ساڑھے چھ پوائنٹس کا ہدف تھا۔ اس دوران میں انھوں نے تین مرتبہ مدراس کے شیر کہلانے والے وشواناتھن آنند کو مات دی۔ کارلسن کے بقول ’’ تیسرے اور چوتھے گیم کے بعد میں نے جیت کے بارے میں سوچنا ترک کر دیا اور صرف شطرنج کھیلی‘‘۔ یہ میچ تقریباً پانچ گھنٹوں تک جاری رہا۔

  • كارلسن نے کھیلی جانے والی دسویں بازی میں وشوناتھن آنند کو ڈرا کھیلنے پر مجبور کیا اور اسی کے ساتھ ہی انھوں نے خطاب کے لیے ضروری نصف پوائنٹ بھی حاصل کر لیا۔
  • اس چیمپئن شپ میں كارلسن کے ساڑھے چھ اور آنند کے کل ساڑھے تین پوائنٹس رہے۔
  • فتح کے بعد کارلسن نے کہا کہ ’میں صرف کوشش کرتا ہوں اور بہترین چالیں چلتا ہوں۔
  • عالمی شطرنج چیمپیئن شپ کے شروع ہونے سے پہلے ہی شطرنج کے ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ یورپ میں شطرنج کی دنیا میں سنسنی پھیلانے والے میگنس کارلسن یہ خطاب اپنے نام کر لیں گے۔
  • واضح رہے کہ کارلسن نے 22 سال کی عمر میں شطرنج کا یہ عالمی خطاب حاصل کیا ہے جو اپنے آپ میں کسی کارنامے سے کم نہیں۔ اس طرح كارلسن روس کے گیری كاسپاروف کے بعد دوسرے کھلاڑی بن گئے جنھوں نے اتنی کم عمر میں اس اہم خطاب کو حاصل کیا ہے۔
  • چیمپئن شپ میں كارلسن کی قوت متخیلہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے چنّئی میں ایک بھی بازی نہیں ہاری۔
  • جب کارلسن نے آنند کو پانچویں اور چھٹی بازی میں شکست دی اس وقت عمومی طور پر یہ مانا جانے لگا کہ وہ یہ خطاب حاصل کر لیں گے کیونکہ اس جیت کے ساتھ انھیں چار دو کی برتری حاصل ہو گئی تھی۔
  • اس کے بعد نویں بازی جیت کر انھوں نے آنند کی رہی سہی امید بھی ختم کر دی۔
  • اس طرح کے بڑے مقابلوں میں واپسی کرنے میں ماہر سمجھے جانے والے اور سنہ 2000ء ، 2007ء ، 2008ء ، 2010ء اور 2012ء کے عالمی چیمپئن آنند کو كارلسن نے برلن ڈیفنس کے جال میں ایسا پھنسایا کہ اسے توڑنا تو دور، وہ اس سے نکل ہی نہیں سکے۔
  • معروف کھیل صحافی اور شطرنج کے تجزیہ نگار وی كرشنا سوامی نے كارلسن کی کامیابی کی پانچ وجوہات بتائيں۔
    • ان کے مطابق سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ آنند کی عمر اب 44 سال ہو چکی ہے جبکہ كارلسن 30 نومبر کو 23 سال کے ہوں گے۔
    • دوسری یہ کہ آنند کی ابتدائی چالیں ناکام رہیں جوکبھی ان کی سب سے بڑی طاقت ہوا کرتی تھیں۔

روس کے گیری کاسپاروف کے بعد وہ اس خطاب کو حاصل کرنے والے سب سے کم عمر کھلاڑی بن گئے ہیں

    • تیسری وجہ كارلسن نے آخری چالوں میں انتہائی جارحانہ کھیل کا مظاہرہ کیا۔ انھوں نے کم سے کم دو بار آنند کو بازی کے آخری دور میں ہی شکست دی جبکہ
    • چوتھی وجہ آنند پر توقعات کا دباؤ واضح طور پر عیاں تھا۔
    • پانچویں وجہ یہ رہی کہ وسیع تجربہ ہونے کے باوجود آنند نے غلطیاں کیں جن کا فائدہ كارلسن کو ملا۔

مثال کے طور پر نویں بازی میں جہاں بازی ڈرا ہونے کے پورے امکانات تھے وہاں انھوں نے اپنی 28 ویں چال میں غلطی کی جس کی وجہ سے وہ بازی ہار گئے اور اس کے ساتھ ہی كارلسن کی جیت کا منظر نامہ بھی تیار ہو گیا۔

كارلسن کی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے كرشنا سوامی نے کہا کہ ’درمیانی کھیل پر ان کی پکڑ بے حد مضبوط ہے اور گذشتہ چار پانچ برسوں کے دوران میں اسی کی بدولت وہ اتنے بڑے کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔

  • کارلسن کو ڈیڑھ ملین ڈالر سے زائد کی رقم بھی انعام میں دی گئی ہے۔ اس سے قبل کارلسن ماڈلنگ بھی کرتے رہے ہیں اور انہيں ایک مرتبہ دنیا کے پرکشش ترین مردوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا تھا[5]۔
شطرنج عالمی چیمپئن (1886ء – 2018ء)
# نام سنہ ملک عمر
1 Wilhelm Steinitz 1886–1894  آسٹریا-مجارستان (بوہیمیا)
 ریاستہائے متحدہ
50–58
2 اما نوئل لاسکر 1894–1921 جرمنی 26–52
3 خوزے راؤل کیپابلانکا 1921–1927  کیوبا 33–39
4 الیگزینڈر آلے خائن 1927–1935
1937–1946
فرانس کا پرچم فرانس
 سوویت یونین
35–43
45–54
5 میکس یووی 1935–1937  نیدرلینڈز 34–36
6 میخائیل بوت وین نک 1948–1957
1958–1960
1961–1963
 سوویت یونین (RSFSR) 37–46
47–49
50–52
7 ویزلی سمیسلوف 1957–1958  سوویت یونین (RSFSR) 36
8 میخائیل تال 1960–1961  سوویت یونین (لیٹویائی SSR) 24
9 Tigran Petrosian 1963–1969  سوویت یونین (آرمینیائی SSR) 34–40
10 بوریس سپاسکی 1969–1972  سوویت یونین (RSFSR) 32–35
11 بوبی فشر 1972–1975  ریاستہائے متحدہ 29–32
12 اناتولی کارپوف 1975–1985  سوویت یونین (RSFSR) 24–34
13 گیری کاسپاروف 1985–1993  سوویت یونین (آذربائیجان SSR)
 روس
22–30
آزاد[6] گیری کاسپاروف 1993–2000  روس 30–37
آزاد ولادی میر کرام نک 2000–2006  روس 25–31
14 اناتولی کارپوف 1993–1999  روس 42–48
15 الیگزینڈر خلیف مین 1999–2000  روس 33
16 وشوناتھن آنند 2000–2002  بھارت 31–33
17 رسلان پونوماریوف 2002–2004  یوکرین 19–21
18 رستم قاسم‌جانوف 2004–2005  ازبکستان 25
19 ویزلین ٹوپالوف 2005–2006  بلغاریہ 30
20 ولادی میر کرام نک 2006–2007  روس 31–32
21 وشوناتھن آنند 2007–2013  بھارت 38–43
22 میگنس کارلسن 2013–تاحال  ناروے 22–28

حوالہ جات[ترمیم]

  1. انٹرنیٹ مووی ڈیٹابیس آئی ڈی: https://wikidata-externalid-url.toolforge.org/?p=345&url_prefix=https://www.imdb.com/&id=nm2106432 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اکتوبر 2015
  2. Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/carlsen-magnus — بنام: Magnus Carlsen
  3. http://www.ft.com/cms/s/0/2164608e-3ed2-11e2-87bc-00144feabdc0.html
  4. Carlsen, Magnus — اخذ شدہ بتاریخ: 19 مئی 2020
  5. میگنس کارلسن، شطرنج کا نیا بادشاہ
  6. شطرنج کی عالمی چیمپئن شپ میں سن اُنيس سو ترانوے (1993ء)سے لے کر سن دو ہزار چھ (2006ء) تک اختلاف پایا جاتا تھا۔ سابق روسی کھلاڑی گیری کاسپاروف نے ایک اور کھلاڑی کی مدد سے عالمی سطح پر شطرنج کھیل میں قواعد و ضوابط میں پیدا ہونے والی بے ضابطگیوں کے بعد پروفیشنل شطرنج ایسوسی ایشن قائم کر لی تھی جو بعد میں اُن کے سیاست میں فعال ہونے کے بعد غیر فعال ہو گئی۔