زید بن ثابت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زید بن ثابت
(عربی میں: زيد بن ثابت ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 611ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 665ء (53–54 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ فاطمہ بنت مجلل   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاد محمد بن عبداللہ   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نمایاں شاگرد محمد بن سیرین   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مفسر قرآن ،  قاضی ،  فوجی افسر ،  کاتب   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  عبرانی ،  سریانی زبان   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تفسیر قرآن ،  فقہ ،  اسلامی قانون وراثت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
عہدہ فوجی   ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ خندق   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

زید بن ثابت انصاری صحابی بڑے فقیہ ہیں، کاتب وحی ہیں۔ زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ کا انتخاب کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید بن ثابت رضی اللّٰہ عنہ کو ہمسایہ ہونا کی وجہ سے دوسروں پر ترجیح دیتے تھے۔اس لیے وحی کے بعد آ پ صلی اللہ علیہ وسلم بلاوا بھیجتے اور زید وحی لکھ لیا کرتے تھے ۔ جب آ یت" یستوی القاعدون"نازل ھوئی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زید کو میرے پاس بلا لاؤ اور کہو کہ دوات اور تختی ساتھ لائے پھر وہ جاے تو اسے کہنا کہ "یستوی القاعدون الخ" کی آ یت لکھو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا آخری دور کیا تو اس وقت حضرت زید رضی اللہ بھی آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔

نام ونسب اور ابتدائی حالات[ترمیم]

زید نام، ابو سعید ، ابوخارجہ، ابو عبد الرحمن کنیت، مقری، کاتب خلفاء، جرالامت القاب،قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے ہیں، نسب نامہ یہ ہے زید بن ثابت بن ضحاک بن زید بن لوذان بن عمرو بن عبد بن عوف بن غنم بن مالک بن نجار، والدہ کا نام نوار بنت مالک بن معاویہ بن عدی تھا، جوانس بن مالک کے خاندان سے تھیں۔ انصار میں اسلام سے پہلے جو لڑائیاں ہوئی تھیں ان میں یوم بعاث سب سے زیادہ مشہور ہے،زید کے والد اسی لڑائی میں قتل ہوئے،یہ واقعہ ہجرت سے 5 سال قبل کا ہے اس وقت ان کی عمر کل6 برس کی تھی۔حضرت زید ؓ والدہ کے ظل عاطفت میں پرورش پاتے رہے 11 برس کے ہوئے تو اسلام کی آواز کان میں پڑی۔

اسلام[ترمیم]

اسلام مدینہ میں مسافر کی حیثیت سے تھا مصعب بن عمیر رضی اللّٰہ عنہ مبلغ اسلام، توحید و رسالت کا وعظ کہہ رہے تھے،زید نے اسی صغر سنی میں اسلام قبول کیا، کسی انسان کا اگر بلوغ سے قبل ایمان لانا باعث فخر و مباہات ہو سکتا ہے، تو زید نے گیارہ(11) سال کی عمر میں یہ فخر حاصل کیا اور ابتدا ہی سے ان کا دامن شرک کے داغ سے پاک رہا۔

غزوات میں شرکت[ترمیم]

زیدؓ کا سن 13سال کا تھا کہ غزوہ بدر پیش آیا، انصار و مہاجرین کا مجمع جب میدان جنگ کو روانہ ہوا تو 13 برس کے اس بچہ نے بھی لڑائی کا عزم بالجزم کیا اور رسول اللہﷺ کے رو برو بچوں کی ایک جماعت کے ساتھ پیش ہوئے، آپﷺ نے ان کی کم سنی پر نظر فرما کر واپس کر دیا۔ غزوۂ احد کی شرکت کے متعلق بھی اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ غزوۂ خندق جو میں واقع ہوا تھا، زیدؓ بن ثابت کا پہلا غزوہ تھا، اس وقت ان کا سن 16 سال کا تھا اور وہ شرکت جہاد کی عمر کے مطابق ہو چکے تھے۔ غزوۂ خندق میں وہ آنحضرتﷺ کے ہمراہ معرکہ کارزار میں موجود تھے اور خندق کھودنے والی جماعت میں شامل تھے اورمٹی نکال کر باہر لاتے تھے آنحضرتﷺ کی نظر پڑی تو فرمایا کیسا اچھا لڑکا ہے؟ اتفاق سے ان کو نیند آگئی،عمارہ بن حزم نے دیکھا تو مذاق سے ان کے ہتھیار اتار لیے،زید کو خبر نہ ہوئی، آنحضرتﷺ پاس تھے مزاحاً فرمایا"یا ابارقاد"یعنی اے نیند کے باپ اٹھ اور لوگوں کو منع فرمایا کہ اس قسم کا مذاق نہ کیا کریں۔ غزوۂ تبوک میں ان کے قبیلہ مالک بن نجارہ کا علم عمارہ بن حزم کے ہاتھ میں تھا، بعد میں آنحضرت ﷺ نے ان سے لے کر زید کو عطا فرمایا، عمارہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ مجھ سے کون سی خطا ہوئی ،فرمایا کچھ نہیں مجھے قرآن کا لحاظ مد نظر ہے،زید تم سے زیادہ قرآن پڑھ چکے ہیں۔ جنگ یمامہ میں جو ابوبکر کے عہدِ مبارک میں مسیلمہ کذاب سے ہوئی تھی زید شامل تھے اس میں ان کو ایک تیر لگا، لیکن جس کا کوئی صدمہ نہیں پہنچا۔

اعمال عظیمہ[ترمیم]

حضرت زیدؓ بن ثابت کی عظیم الشان زندگی، اعمال صالحہ کا ایک مجموعہ ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: قرآن مجید اسلام کا اصل الاصول ہے،اس کے جمع کرنے کا فخر جس مقدس انسان کو حاصل ہوا وہ حضرت زید بن ثابتؓ انصاری کاتب الوحی ہیں۔ آنحضرتﷺ کے زمانہ تک قرآن مجید ہڈی، کھال، کھجور کی شاخ اور مسلمانوں کے دلوں میں محفوظ تھا، صحابہؓ میں بہت سے بزرگ تھے جن کو حفظ قرآن کا شوق پیدا ہو گیا تھا وہ قرآن کے حافظ ہو چکے تھے،حضرت زیدؓ بھی انہی حفاظ میں تھے۔ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد عرب کا ایک گروہ مرتد ہو کر مسیلمہ کذاب سے مل گیا جس نے یمامہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا، حضرت ابوبکرؓ نے اس پر فوج کشی کی اور مسیلمہ شکست کھاکر مارا گیا، لیکن اس غزوہ میں 70 حفاظ نے جامِ شہادت پیا، اس بنا پر حضرت عمرؓ کو قرآن جمع کرنے کا خیال پیدا ہوا، انھوں نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ اگر حفاظ کی شہادت کی یہی حالت رہی تو قرآن کا بڑا حصہ ضائع ہوجائے گا، اس لیے قرآن مجید کو جمع کرلیجئے، حضرت ابوبکرؓ نے منظور کیا اورحضرت زیدؓ کو بلا کر کہا کہ تم عقلمند اورجوان آدمی ہو،تمھاری طرف سے سب کو اطمینان ہے،تم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں وحی لکھی تھی،اس لیے تم ہی اس کام کو انجام دو، حضرت زیدؓ فرماتے ہیں کہ یہ کام مجھ پر ایک پہاڑ سے بھی زیادہ گراں تھا،چنانچہ حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ وہ کام کرنا چاہتے ہیں جس کو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا تھا، حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا یہ سچ ہے؛ لیکن کارخیر میں کیا مضائقہ؟ حضرت زیدؓ کو پھر بھی اس کام کو انجام دینے میں تامل ہوا؛ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے مختلف پہلوؤں سے سمجھا یا تو وہ آمادہ ہو گئے۔

[2] حضرت ابوبکرؓ نے اس کام کے لیے ان کے ساتھ صحابہؓ کی ایک جماعت مامور کی جن کی تعداد 75 تک بیان کی جاتی ہے، ان میں حضرت ابی بنؓ کعب اور سعید بن عاصؓ بھی تھے، حضرت زیدؓ نے قرآن مجید کو جو کھجور کی شاخوں اور پتلے پتلے پتھروں پر لکھا ہوا تھا، جمع کیا حفاظ سے قرآن سنا، اس کے ماسوا وہ خود بھی حافظِ قرآن تھے اور رسول اللہ ﷺ کے عہد میں قرآن جمع کر چکے تھے۔ [3] آیات کی صحت کے لیے بعض بعض موقعوں پر مباحثہ کی بھی نوبت آجاتی تھی ایک مقام پر پہنچ کر زیدؓ نے کہا کہ اس کے بعد یہ آیت (آیت رجم) میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی،حضرت عمرؓ نے فرمایا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس کے لکھنے کا حکم نہیں دیا تھا۔

غرض اس کدو کا وش کے ساتھ حضرت زیدؓ نے یہ اہم کام انجام دیا اور پورا قرآن لکھ لیا گیا، مگر ایک آیت کے متعلق ثبوت نہ ملتا تھا(ثبوت کا یہ طریقہ تھا کہ دو آدمی گواہی دیتے تھے ،[4] وہ آیت ابو خزیمہ انصاری کے پاس تھی،آنحضرتﷺ نے ان کی شہادت دو آدمیوں کے برابر قراردی تھی، [5] اس لیے حضرت زیدؓ نے گواہی کی ضرورت نہ سمجھی اس کے ماسواحضرت زید کو وہ آیت خود بھی معلوم تھی ۔ قرآن مجید کا یہ نسخہ حضرت ابوبکرؓنے اپنے پاس رکھا،ان کے بعد حضرت عمرؓ اور حضرت عمرؓ کے بعد حضرت حفصہ ؓبنت عمر ام المومنین ؓ کے مکان میں موجود رہا۔ [6]

عہد عثمانی میں جب اختلاف قرأت رونما ہوا، تو حضرت حذیفہؓ بن یمان نے حضرت عثمانؓ سے کہا کہ قبل اس کے کہ اسلام میں یہود و نصاریٰ جیسا اختلاف پیدا ہو،آپ اس کا جلد تدارک کیجئے،انھوں نے بھی اس ضرورت کو محسوس کیا اورحضرت زیدؓ کا لکھا ہوا مصحف حضرت حفصہ ؓ سے طلب کیا اورچار بزرگوں کو جن میں ایک زید بھی تھے کتابت قرآن پر مامور کیا،ان بزرگوں نے مصحف صدیقی کی پانچ نقلیں لیں،حضرت عثمانؓ نے ان کو ممالک اسلامیہ میں بھجوادیا اورمصحف صدیقی کو حضرت حفصہؓ کے پاس باحتیاط واپس کیا ۔ [7] آنحضرتﷺ نے وحی لکھنے کا کام مختلف صحابہ کرام کے متعلق کیا تھا ،متعد د صحابہ اس شرف سے بہرہ اندوز ہوتے تھے، ان میں حضرت زید بن ثابتؓ کا نام نامی نہایت ممتاز تھا۔ حضرت زیدؓ بن ثابت قلم، دوات، کاغذ، چوڑی ہڈی یا پتلے پتلے پتھر لے کر رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھ جاتے تھے،جب وحی آتی آپ بولتے اوروہ لکھتے جاتے تھے،جہاں کہیں تحریر کے متعلق کوئی خاص ہدایت دینا ہوتی تو آپ فرمادیتے اورزیدؓ اس کی تعمیل کرتے ؛چنانچہ ایک آیت میں جب "غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ" کے بڑھانے کی ضرورت ہوئی تو اس کو ہڈی کے شگاف کے پاس لکھا (ہڈی ایک جگہ سے شق تھی) [8]

قرآن کا علم[ترمیم]

زید نے مسلمان ہوتے ہی قرآن پڑھنا شروع کیا،اس بنا پر لوگ ان کو نہایت عزت کی نظر سے دیکھتے تھے،جب آنحضرتﷺ مدینہ تشریف لائے،تویہ 17سورتوں کے حافظ ہو چکے تھے،لوگ ان کو آپ کی خدمت میں لے گئے اورکہا کہ یہ بنی نجار سے ہیں اور 17 سورتیں پڑھ چکے ہیں،آنحضرتﷺ سن کر بہت خوش ہوئے ،زیدؓ نے قرآن سنایا تو آپ کو بڑا تعجب ہوا۔ ، علم میراث کے امام ہیں، قرآن مجید جمع کرنے والی جماعت کے امیر ہیں کہ آپ نے اپنی جماعت کے ساتھ خلافت صدیقی میں قرآن مجید جمع کیا اور عہد عثمانی میں اسے مصاحف میں نقل فرمایا، آپ سے بڑی مخلوق نے احادیث روایت کیں، پچپن سال عمر پائی 45ھ ہجری میں وفات ہوئی۔[9]

امارت مدینہ منورہ[ترمیم]

زید میں علمی و دینی کمالات کے ساتھ انتظامی قابلیت بھی تھی اوران پر اتنا اعتماد تھا کہ عمر رضی اللّٰہ عنہ نے جب مدینہ سے سفر کیا تو اپنا جانشین انہی کو مقرر کیا،حضرت عثمانؓ کا بھی یہی طرز عمل رہا، وہ جب حج کو مکہ معظمہ روانہ ہوتے تو زیدؓ کو کاروبار خلافت سپرد کر جاتے تھے۔ خلافت فاروقی میں زید کو تین مرتبہ عمر رضی اللّٰہ عنہ کی ہم نشینی کا فخر حاصل ہوا۔ 16ھ اور 17ھ میں دو مرتبہ عمر رضی اللّٰہ عنہ کے حج کے موقع پر تیسری مرتبہ ان کے شام کے سفر کے زمانہ میں شام پہنچ کر زیدکو آپ نے جب خط لکھا تو اس میں زید کا نام اپنے نام سے پہلے تحریر کیا یعنی "الی زید بن ثابت من عمر بن الخطاب" ہر دفعہ زید نے خلافت کی ذمہ داریوں کو نہایت ہوشیاری اور مستعدی سے انجام دیا، عمر رضی اللّٰہ عنہ ان کے انتظام سے بہت خوش ہوتے اور واپس آکر ان کو کچھ جاگیر دیا کرتے تھے۔

اصلاح امت[ترمیم]

رسول اللہ ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی انصار میں خلافت کا مسئلہ پیش ہو گیا،سقیفہ بنی ساعدہ میں تمام انصار جمع تھے اور رئیس انصار سعد بن عبادہ رضی اللّٰہ عنہ مجلس کے صدر نشین تھے، انہی کے انتخاب پر لوگوں کی تقریریں ہورہی تھیں، انصار کی بڑی جماعت ان کی تائید میں تھی، حضرت زید بن ثابتؓ بھی جلسہ میں موجود تھے،مگر رجحان عام کے خلاف آواز بلند کرنا اس وقت کوئی آسان کام نہ تھا، اس لیے خاموش تھے۔ اس کے بعد جب حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت ابو عبیدہؓ، سقیفہ میں پہنچے اور مہاجرین کی طرف سے حضرت عمرؓ نے خلافت کی بحث شروع کی تو سب سے پہلے جس انصاری نے ان کی تائید کی وہ حضرت زید بن ثابتؓ تھے ، انصار کی تقریریں ختم ہونے کے بعد انھوں نے ایک مختصر مگر پر معنی تقریر کی جس کا ایک فقرہ یہ تھا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَإِنَّمَا الْإِمَامُ يَكُونُ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ وَنَحْنُ أَنْصَارُهُ كَمَا كُنَّا أَنْصَارَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [10] یعنی رسول اللہ ﷺ مہاجرین میں سے تھے اس لیے امام کا بھی مہاجرین میں سے انتخاب ہونا چاہیے اور ہم اس کے انصار رہیں گے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ کے انصار تھے۔ ان کی یہ صدا ان کی قوم کے خلاف تھی،تاہم کوئی اس کو دبانہ سکتا تھا، حضرت زیدؓ بن ثابت کی تقریر ختم ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے کھڑے ہوکر تحسین کی اور کہا خدا تم کو جزائے خیر دے اگر اس کے علاوہ کوئی بات پیش کی جاتی تو غالباً ہم لوگ ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے۔ [11] حضرت زیدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کا ہاتھ پکڑا اور انصار سے کہا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آنحضرتﷺ کے مدینہ تشریف لانے کے بعد سلاطین ووالیان ملک کے خطوط وقتاً فوقتاً موصول ہوتے تھے جو اکثر سریانی میں ہوتے تھے،مدینہ میں سریانی جاننے والے صرف یہود تھے،جن کو اسلام سے شدید بغض وعناد تھا، اس بنا پر مصلحت اور دور اندیشی کا تقاضا تھا کہ خود مسلمان اس زبان کو سیکھیں۔ حضرت زیدؓ بن ثابت نہایت ذکی اور فطین تھے میں آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میرے پاس لوگوں کے خطوط آتے ہیں جن کو میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس کے سوا مجھے یہود پر اطمینان بھی نہیں اس لیے بہتر ہے کہ تم عبرانی سیکھ لو،چنانچہ حضرت زیدؓ نے 15 دن میں عبرانی اور سریانی میں اس قدر مہارت حاصل کرلی کہ خطوط پڑھ لیتے اور جواب لکھ دیتے تھے۔ [12] ان کی اسی ذہانت اور علم کی بنا پر آنحضرت ﷺ نے ان کو کتابت کے عہدہ پر سرفراز فرمایا تھا،جس پر وہ آنحضرت ﷺ کی وفات تک فائز رہے۔ حضرت ابوبکرؓ وحضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں بھی ان کا یہ منصب بحال رہا؛ لیکن اب کام کی کثرت ہو گئی تھی اس لیے معیقیب دوسی ان کے مددگار مقرر کیے گئے۔ حکومت اسلامیہ کا ایک جلیل القدر منصب قضا ہے جو حضرت فاروقؓ کے عہدِ میں قائم ہوا، (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قضا حضرت عثمان ؓ کی ایجاد ہے لیکن یہ صحیح نہیں ،حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے درمیانی عہد میں محکمہ قضا کو وجود کا لباس پہنادیا تھا،چنانچہ یزید بن اخت المنر کو محکمۂ قضا کے چند چھوٹے چھوٹے کام سپرد کیے تھے(75) [13] اس کے ما سوا بعض روایتوں کے بموجب حضرت علیؓ کو بھی قضا کا کاروبار سونپا گیا تھا،کنز [14] آنحضرت ﷺ اورحضرت ابوبکرؓ کے زمانہ تک اس محکمہ کا مستقل وجود نہ تھا، حضرت عمرؓ نے اس کی بنیاد قائم کی اورحضرت زیدؓ کو مدینہ کا قاضی مقرر کیا ،طبقات ابن سعد اور اخبار القضاۃ میں ہے: ان عمر استعمل زیدا علی القضاء وفرض لہ رزقاء یعنی حضرت عمرؓ نے زید کو قاضی بنایا اوران کی تنخواہ مقرر کی۔ اس وقت تک قاضی کے لیے عدالت کی عمارت تعمیر نہیں ہوئی تھی اس لیے زیدؓ کا گھر دار القضا کا کام دیتا تھا،مکان فرش سے آراستہ تھا، اس کے صدر میں حضرت زیدؓ فیصلہ کے وقت متمکن ہوتے تھے ،دار الخلافت اور تمام قرب وجوار کے مقدمات حضرت زیدؓ کے پاس آتے تھے،یہاں تک کہ خود خلیفۂ وقت (حضرت عمرؓ) پر بھی یہاں دعوے داخل کیے جاتے تھے اوراس کا فیصلہ بھی یہیں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ اورحضرت ابی بن کعبؓ میں کچھ نزاع ہوئی، حضرت زیدؓ کی عدالت میں مقدمہ دائر ہوا، حضرت عمرؓ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے،حضرت زیدؓ نے جیسا کہ آج بھی امرا و روساء کو کرسی دینے کا دستور ہے حضرت عمرؓ کے لیے اپنی جگہ خالی کردی،لیکن مساوات کا جو اصول اسلام نے قائم کیا تھا، صحابہؓ اس پر نہایت شدت سے عمل پیرا تھے،خصوصاً حضرت عمرؓ نے اس کو نہایت عام کر دیا تھا، اس بنا پر حضرت عمرؓ نے زیدؓ سے فرمایا کہ یہ آپ کی پہلی نا انصافی ہے مجھ کو اپنے فریق کے ساتھ بیٹھنا ہے؛چنانچہ دونوں بزرگ عدالت کے سامنے بیٹھے،مقدمہ پیش ہوا، حضرت ابیؓ بن کعب مدعی تھے اورحضرت عمرؓ کو انکار تھا، شرعاً منکر پر قسم واجب ہوتی ہے ؛لیکن حضرت زیدؓ نے خلافت کے ادب واحترام کی بنا پر مدعی سے درخواست کی کہ اگرچہ یہ قاعدہ نہیں تاہم آپ امیر المومنین کو قسم سے معاف کر دیجئے۔ حضرت عمرؓ نے کہا اس رعایت کی ضرورت نہیں،فیصلہ میں عمر رضی اللّٰہ عنہ اور ایک عام مسلمان آپ کے نزدیک برابر ہونے چاہیے۔ [15]

بیت المال کی افسری[ترمیم]

ممالک اسلامیہ میں اگرچہ بہت سے مقامی بیت المال قائم تھے، حضرت زیدؓ بن ثابت اس کے افسر تھے، 31ھ میں حضرت عثمانؓ نے یہ عہدہ ان کو تفویض فرمایا تھا،بیت المال کے عملہ میں زیدؓ کا ایک غلام وہیب بھی تھا وہ نہایت ہوشیارتھا اور بیت المال کے کاموں میں مدد دیتا تھا، ایک دن وہ بیت المال میں گنگنارہا تھا کہ حضرت عثمانؓ آگئے پوچھا یہ کون ہے، زیدؓ نے کہا میرا مملوک ہے،حضرت عثمانؓ نے فرمایا،اس کا ہم پر حق ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کی مددکرتا ہے (بیت المال کے کام کی طرف اشارہ تھا) چنانچہ 2 ہزار اس کا وظیفہ مقرر کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا،لیکن حضرت زیدؓ کے مزاج میں عصبیت تھی وحروعبد کو ایک نگاہ سے دیکھ نہ سکتے تھے حضرت عثمانؓ سے کہا دو ہزار نہیں ؛بلکہ ایک ہزار مقرر کیجئے،حضرت عثمانؓ نے ان کی درخواست منظور کرلی اوراس کا وظیفہ ایک ہزار مقرر کر دیا۔

مجلس شوریٰ کی رکنیت[ترمیم]

حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں انصار و مہاجرین کے ممتاز اصحاب کی جو مجلسِ شوریٰ تھی،حضرت زیدؓ بھی اس کے ایک رکن تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسی جماعت کو باضابطہ کونسل قرار دیا تھا،حضرت زیدؓ اس کے بھی ممبر تھے۔

تقسیم مال غنیمت[ترمیم]

ایمان کے 70 سے اوپر شعبے اور شاخیں ہیں، امانت، ایمان کا ایک ضروری جز ء ہے؛ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : لا ایمان لمن لا امانۃ لہ جس میں امانت نہیں اس میں ایمان بھی نہیں۔ آنحضرتﷺ کے عہدِ مبارک میں جو مال غنیمت آتا تھا اکثر آپ خود تقسیم فرماتے تھے، اس سے اس کام کی اہمیت پر بخوبی روشنی پڑتی ہے، حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے عہد میں یرموک کا واقعہ نہایت اہم اور مشہور ہے اس میں مال غنیمت کی تقسیم حضرت زیدؓ بن ثابت کے سپرد تھی،اس کے ماسوا حضرت عمرؓ نے جب صحابہؓ کے وظائف مقرر کیے تو انصار کے وظائف کی تقسیم بھی انہی کے سپرد کی،انھوں نے عوالی سے تقسیم شروع کی اس کے بعد عبدالاشہل کا نمبر رکھا، اس کے بعد اوس کے محلہ کا،پھر قبائل خزرج کا اورسب سے اخیر میں اپنا حصہ لیا۔ [16]

سیاسی خدمت[ترمیم]

حضرت زید بن ثابتؓ بارگاہ خلافت کے مقربین خاص میں تھے ،حضرت عمرؓ کے احباب میں ان کا ممتاز درجہ تھا، حضرت عثمانؓ کے بھی وہ خاص معتمد تھے ،خلافت عثمانی میں جب آتش فتنۂ وفساد مشتعل ہوئی تو وہ خلیفۂ وقت کے طرفدار تھے اوراس شورش وانقلاب کے زمانہ میں انھوں نے ایک دن انصار کو مخاطب کرکے ایک تقریر کی جس کا ایک بلیغ فقرہ یہ تھا: یا معشر الانصار کو نو انصاراللہ مرتین یعنی اے انصار خدا کے دو مرتبہ انصار بنو۔ بعض صحابۂ کرامؓ حضرت عثمانؓ سے بد ظن تھے،ان میں حضرت ابو ایوبؓ انصاری بھی تھے،انھوں نے کہا کہ تم عثمانؓ کی مدد پر صرف اس وجہ سے لوگوں کو آمادہ کرتے ہوکہ انھوں نے تم کو بہت سے غلام دیے ہیں، حضرت ابو ایوبؓ بھی بہت بااثر بزرگ تھے اس لیے زید کوخاموش ہونا پڑا۔

خانگی حالات اور اہل و عیال[ترمیم]

حضرت زیدؓ کی خانگی زندگی نہایت پر لطف تھی ان کی بیوی کا نام جمیلہ اور کنیت ام سعد اور ام العلا تھی سعد بن ربیع انصاری مشہور صحابی کی بیٹی تھیں اورخود بھی صحابیہ تھیں۔ حضرت زیدؓ بن ثابت کی اولاد میں خارجہ جو سب سے زیادہ مشہور اور فقہائے سبعہ میں تھے جمیلہ کے بطن ہی سے تھے۔ حضرت زیدؓ کے دوسرے بیٹے اور پوتے بھی اپنے زمانہ میں مشہور اور علم حدیث میں مرجع الخلائق تھے

وفات[ترمیم]

پچپن(55)،چھپن(56) سال کا سن مبارک تھا کہ پیام اجل آگیا اور 45ھ میں وفات پائی اس وقت تخت حکومت پر امیر معاویہ متمکن تھے اور مروان بن حکم مدینہ منورہ کا امیر تھا وہ زید سے دوستانہ تعلقات رکھتا تھا، چنانچہ اسی نے نماز جنازہ پڑھائی تمام لوگ سخت غمگین تھے، ابوہریرہ نے موت کی خبر سن کر کہا آج حبرالامۃ اٹھ گیا۔حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور سعید بن مسیبؓ بھی جنازہ میں شریک تھے،قبر میں لاش اتاری گئی تو حضرت ابن عباسؓ نے نہایت حسرت سے کہا دیکھو علم اس طرح جاتا ہے آج علم کا بڑا حصہ دفن ہو گیا، حسان بن ثابتؓ نے مرثیہ میں یہ شعر لکھا۔ فمن للقوافی بعد حسان وابنہ ومن للمعالی بعد زید بن ثابتؓ حسان اور اس کے بیٹے کے بعد اور زید بن ثابتؓ کے بعد معنی فہمی کا خاتمہ ہے

علم و فضل[ترمیم]

قرأت فرائض قضا اور فتویٰ میں وہ نہایت ممتاز تھے قرآن مجید میں علما کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ راسخین فی العلم ہوں حضرت زید بن ثابتؓ راسخ فی العلم تھے، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ جو صحابہ میں دریائے علم کہلاتے تھے حضرت زیدؓ کو راسخین فی العلم شمار کرتے تھے۔

قرأت[ترمیم]

اسلام نے جن علوم وفنون کی بنیاد قائم کی ان میں قرأت ایک ممتاز علم ہے حضرت زیدؓ کو اس فن میں جس قدر دخل تھا اس کا اعتراف صحابہ کرامؓ اور تابعین کے ہر فرد کو تھا، امام شعبیؓ جو علامۃ التابعین تھے کہا کرتے تھے کہ زیدؓ فرائض کی طرح قرأت میں بھی تمام صحابہؓ سے فوقیت لے گئے تھے۔ قرآن مجید کے ساتھ حضرت زیدؓ کو جو شغف تھا اس کا ظہور ان کے قبولِ اسلام کے وقت ہو چکا تھا، صرف 11 برس کے سن میں وہ 17 سورتوں کے حافظ ہو چکے تھے باقی زندگی کتابت وحی میں گذری تھی، مبلغ وحی پر قرآن کا جتنا حصہ اترتا ان کو معلوم ہوجاتا تھا اور وہ اس کو یاد کرلیتے تھے ،چنانچہ آنحضرتﷺ کے عہد میں ان کو پورا قرآن حفظ ہو گیا تھا۔ اس بنا پر جب حضرت ابوبکرؓ نے قرآن لکھوایا تو اس خدمت کے لیے حضرت زیدؓ ہی کو منتخب فرمایا اور حضرت عثمانؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں جب اس کی نقلیں کرائیں تو اس میں حضرت زیدؓ کی شرکت بھی ضروری سمجھی۔ حضرت عمرؓ ، ابی بن کعبؓ کے مقابلہ میں جو قاریوں کے سر دار تھے حضرت زیدؓ کی قرأت کو ترجیح دیتے تھے۔ حضرت زیدؓ کا سلسلۂ قرأت دور دور تک پھیلا ہوا تھا اور چونکہ قرأت قریش کے مطابق پڑہتے تھے،اس لیے لوگوں کا رجحان انہی کی قرأت کی طرف تھا ،حضرت ابی بن کعبؓ کی زندگی تک اگرچہ وہ مرجع انام نہ ہو سکے،لیکن ان کی وفات کے بعد تمام عالم اسلامی ان ہی کی طرف رجوع کرتا تھا، مدینہ منورہ میں حضرت زیدؓ کی ذات اقدس تمام اکناف واطراف کی قبلۂ حاجات بنی ہوئی تھی۔ حضرت زیدؓ سے جو قرأت قائم ہوئی تھی وہ 1300 سو برس گذرنے پر بھی باقی ہے ابن عباسؓ ،ابو عبدالرحمن سلمی، ابو العالیہ ریاحی، ابو جعفر، یہ سب ان کے شاگرد تھے،اور آج تک روئے زمین کی 40 کروڑ مسلم آبادی معنوی طور سے ان کے آستانہ پر زانوے تلمذی تہ کرتی ہے۔

حدیث[ترمیم]

قرآن کے بعد حدیث نبوی کا درجہ ہے،حضرت زیدؓ اگرچہ اور بزرگوں کی طرح کثیر الروایہ نہ تھے تاہم فن حدیث میں ان کا امتیاز یہ ہے کہ درایت سے کام لیتے تھے، حضرت رافع بن خدیجؓ نے لوگوں سے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھیت کرایہ پر اٹھانے کی ممانعت کی ہے زیدؓ بن ثابتؓ نے سنا تو کہا خدا رافع بن خدیج کی مغفرت کرے مجھ کو ان سے زیادہ روایت کی حقیقت معلوم ہے واقعہ یہ تھا کہ دو شخص آپس میں جھگڑ رہے تھے،آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اگر یہی حالت ہے تو کھیتوں کو کرایہ پر نہ اٹھانا چاہیے، [17] رافع نے صرف اخیر کا ٹکڑا سن لیا۔

حضرت عائشہؓ نے حضرت زبیرؓ کی اولاد سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد ان کے یہاں دو رکعت نماز پڑھی تھی ان لوگوں نے انھیں سنت سمجھ کر پڑھنا شروع کر دیا، حضرت زیدؓ کو معلوم ہوا تو فرمایا خدا عائشہؓ کی مغفرت کرے ہم کو ان سے زیادہ حدیث کا علم ہے، عصر کے بعد نماز پڑہنے کا سبب یہ تھا کہ دوپہر کے وقت رسول اللہ ﷺ سے ملنے کچھ اعراب(دیہات کے رہنے والے) آگئے تھے وہ سوال کرتے تھے آپﷺ جواب دیتے تھے، یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا، آنحضرتﷺ نے ظہر پڑھی اور صرف فرض پڑھ کر مسائل بتانے کو ان کے پاس بیٹھ گئے، جب عصر کا وقت آیا تو ان سے فارغ ہوئے اور مکان جاکر یا د آیا کہ ظہر کے فرض کے بعد سنت نہیں پڑھی تھی،اس لیے ان کو عصر کے بعد تمام کیا، خدا عائشہؓ کی مغفرت کرے مجھے ان سے زیادہ معلوم ہے کہ آنحضرتﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ [18]

جو احادیث صحیح ہوتیں اگر ان کی نسبت کوئی سوال کرتا تو تصدیق فرماتے تھے، حضرت ابو سعید خدریؓ نے مروان کے سامنے فضیلت صحابہ پر حدیث پڑھی ،مروان نے کہا تم جھوٹ کہتے ہو، زیدؓ اور رافع بن خدیجؓ , مروان کے برابر تخت پر بیٹھے ہوئے تھے ،ابو سعیدؓ نے کہا تم ان سے پوچھ سکتے ہو، مروان کو برا معلوم ہوا ان کو مارنے کے لیے درہ اٹھایا دونوں بزرگوں نے ابو سعیدؓ کی تصدیق کی۔ [19] حضرت زید ؓ کی زیادہ روایات آنحضرتﷺ سے ہیں اور حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ سے بھی روایت کی ہے۔ ان کے رواۃ حدیث اور تلامذہ کی ایک بڑی جماعت ہے جن میں مخصوص حضرات کے نام یہ ہیں، حضرت انسؓ بن مالک، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابو سعید خدریؓ ،حضرت سہل بن حنیفؓ، حضرت ابن عمرؓ، حضرت سہل بن سعدؓ، حضرت عبداللہ بن ؓ یزید خطمی (یہ لوگ صحابہ ہیں) سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، ابان بن عثمان، خارجہ بن زید (حضرت زیدؓ کے بیٹے اور مدینہ کے فقہا ئے سبعہ میں تھے) سہل بن ابی حثمہ، ابو عمرو، مروان بن حکم ،عبید بن سباق، عطاء بن یسار، بسر بن سعیہ، حجر مدری، طاؤس ،عروہ، سلمان بن زید، ثابت بن عبید،ام سعدؓ (زوجہ تھیں)

حضرت زید ؓ کی احادیث مرویہ کی تعداد نہایت قلیل ہے،یعنی صرف (92) جن میں 5 متفق علیہ ہیں،اوریہ روایت میں سخت احتیاط کا سبب ہے۔ ورنہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اکثر حاضر رہتے تھے ،آپ سے ہزاروں حدیثیں سنی ہوں گی، سینکڑوں قسم کے واقعات کا بچشم خود مشاہدہ کیا ہوگا، اس قلت روایت کا سبب ایک حدیث نبوی تھی جو حضرت زیدؓ جیسے ثقہ راویان حدیث کو روایت کے وقت محتاط کر دیتی تھی۔

فرائض[ترمیم]

اگرچہ فقہ میں حضرت زیدؓ کو یہ کمال حاصل تھا اور خود رسول اللہ ﷺ کے عہد مقدس میں وہ منصب افتاء پر سرفراز تھے، حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرؓ کے عہد میں بھی وہ دارالخلافت کے مفتی رہے؛ لیکن فقہ کے تمام ابواب میں فرائض کا باب حضرت زیدؓ کا خاص فن تھا، رسول اللہ ﷺ نے ایک حدیث میں فرمایا ہے افرض امتی زید بن ثابت یعنی میری امت کے سب سے بڑے فرائض داں زید بن ثابت ہیں،حامل نبوتﷺ کی زبان کا یہ فقرہ حضرت زیدؓ کی فرائض دانی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔

حضرت زیدؓ کے عالم فرائض ہونے کا تمام صحابہؓ کو اعتراف تھا، حضرت عمرؓ نے خطبۂ جابیہ میں ہزاروں آدمیوں کے سامنے حضرت زیدؓ کا نام اس حیثیت سے پیش کیا تھا کہ: من کان یرید ان یسال من الفرائض فلیات زید ابن ثابت یعنی جس کو فرائض کے سوالات کرنا ہوں،زید بن ثابت کے پاس جائے۔ ان کے کمالات کا اعتراف: حضرت عمرؓ کو حضرت زیدؓ کی علمی قابلیت کا اس درجہ پاس تھا کہ مدینہ سے باہر ان کو کہیں نہ جانے دیتے تھے،مختلف مقاموں میں بڑے بڑے عہدے خالی ہوتے،امور مہمہ کی انجام دہی کی ضرورت ہوتی اوران کے لیے لوگوں کے نام پیش کیے جاتے تو حضر ت عمرؓ ان میں سے کسی کا انتخاب فرمادیتے مگر جب زیدؓ کا نام پیش ہوتا تو حضرت عمرؓ فرماتے کہ زیدؓ میری نظروں سے گرنہیں گئے،لیکن کیا کروں؟ شہر والے ان کے محتاج ہیں،کیونکہ جو چیز ان کے پاس ہے کسی کے پاس نہیں ہے۔ [20]

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے کہ زید خلافت فاروقی کے عالم اور حبر تھے، تمام لوگوں کو حضرت عمرؓ نے شہروں اورملکوں میں پھیلادیا تھا اور فتوی یا رائے دینے سے منع کر دیا تھا،لیکن زیدؓ مدینہ میں بیٹھ کر اہل مدینہ اور تمام آنے جانے والوں کو فتویٰ دیتے تھے۔ [21] سعید بن مسیبؓ مجتہد ہونے کے باوجود وہ فتویٰ اور فیصلوں میں حضرت زیدؓ کے پیرو تھے، جب کوئی مشکل مسئلہ آجاتا اور لوگ دوسرے صحابہؓ کے اجتہادات بیان کرتے تو سعیدؓ ان سے پوچھتے کہ زیدؓ نے کیا کہا ہے؟ زید بن ثابتؓ فیصلوں کے سب سے زیادہ جاننے والے تھے اور جن مسائل کے متعلق حدیث وارد نہیں ہے ان کے بتاتے وقت سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والے تھے ان کا کوئی قول ہو تو پیش کرو۔ [22] امام مالک جو اپنے زمانہ میں دارالہجرۃ مدینہ کے امام تھے اور آج بھی فقہ و حدیث میں لاکھوں آدمیوں کے لیے امام مطلق ہیں، کہا کرتے تھے کہ حضرت عمرؓ کے بعد زید بن ثابتؓ مدینہ منورہ کے امام تھے اور امام شافعیؒ نے فرائض کے تمام مسائل میں حضرت زیدؓ کی تقلید کی ہے۔

علم فرائض کی تدوین[ترمیم]

فرائض کا فن نہایت مشکل ہے، قرآن مجید میں اگرچہ مجملاً فرائض کے تمام مہمات مسائل بیان کردیے گئے ہیں ؛ لیکن ان کی تفصیل رسول اللہ ﷺ کے اقوال و افعال و صحابہؓ کے قضا یا فتاویٰ سے ہوتی ہے، قرآن مجید میں میراث ووصیت کے متعلق جو کچھ مذکور ہے وہ نہایت مختصر ہے،میراث زوج، میراث زوجہ، اولاد ذکور، اولاد اناث، ماں، باپ، بھائی بہن کلالہ اور دیگر چند قسم کے ورثا کا تذکرہ آیا ہے اوران کے حصول کی مقدار کی تعین کرکے کہدیا گیا ہے کہ جو شخص خدا کے ان حدود سے متجاوز ہوگا اپنے نفس پر ظلم کریگا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے فیصلوں میں اس اجمال کی تفصیل کی آپ کے بعد زیدؓ بن ثابت نے اس فن کو اتنی ترقی دی کہ آگے چل کے اس پر کتابیں لکھی گئیں اور فرائض ایک مستقل فن بن گیا۔ حضرت زیدؓ سے فرائض میں جلیل القدر صحابہؓ فتویٰ پوچھتے تھے ؛چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ جن کا فضل وکمال تمام صحابہؓ کو تسلیم تھا، حضرت زیدؓ سے استفتاء کرتے تھے۔

حضرت عمرؓ کے ایک غلام نے وفات پائی تو ابن عمرؓ نے پوچھا کہ متروکہ میں عمر کی لڑکیاں بھی حصہ پائیں گی؟ حضرت زیدؓ نے کہا کہ میرے نزدیک تو نہ دینا چاہیے؛ لیکن تم چاہو تو دے سکتے ہو، ابن عمرؓ نے اس پر یہاں تک عمل کیا کہ حضرت عمرؓ کے جتنے غلام مرے کسی کے مال میں لڑکیوں کا حصہ نہیں لگایا۔ [23]

اہل یمامہ کے قتل میں حضرت ابوبکرؓ نے زیدؓ کے فتویٰ کے متعلق فیصلہ کیا تھا یعنی جو لوگ زندہ بچ گئے تھے ان کو مردوں کا وارث ٹھہرایا تھا،یہ نہیں کیا کہ مردوں کو باہم وارث بنادیتے، [24] طاعون عمواس میں جب خاندان کے خاندان صاف ہو گئے اس وقت حضرت عمرؓ نے بھی حضرت زیدؓ کی اسی رائے پر فیصلہ کیا تھا،[25] حضرت عبداللہ بن عباسؓ جو صحابہؓ میں جر اور بحر کہلاتے تھے،حضرت زیدؓ کے جوابات سے تسکین پاتے تھے۔ ایک روز اپنے شاگرد عکرمہ کو بھیجا کہ زید سے پوچھو کہ ایک شخص مرگیا ہے اور زوجہ اور والدین چھوڑے ان میں ورثہ کیونکر تقسیم ہوگا، حضرت زیدؓ نے کہا بیوی کو نصف باقی نصف میں ماں کو ثلث اور باپ کو بقیہ ،ابن عباسؓ کا خیال اس کے خلاف تھا وہ ماں کو کل مال میں ثلث دلاتے تھے ؛چنانچہ کہلا بھیجا یہ قرآن میں ہے یا آپ کی رائے ہے، حضرت زیدؓ نے کہا میری ذاتی رائے ہے ،یعنی استنباط ہے میں ماں کو باپ پر فضیلت نہیں دے سکتا۔ [26]

دور دور از ممالک سے استفتاء آتے تھے اورحضرت زیدؓ ان کا جواب لکھ کر بھیجتے تھے، امیر معاویہؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک خط کے ذریعہ سے دادا کے متعلق استفتاء کیا تھا حضرت زیدؓ نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحيم لعبد الله معاوية أمير المؤمنين من زيد بن ثابت ، فذكر الرسالة بطولها وفيها : إني رأيت من نحو قسم أمير المؤمنين يعني عمر رضي الله عنه بين الجد والاخوة من الاب إذا كان أخا واحدا ذكرا مع الجد قسم ما ورثا بينهما شطرين فان كان مع الجد أخت واحدة قسم لها الثلث ، فان كانتا أختين مع الجد قسم لهما الظطر وللجد الشطر ، فان كان مع الجد أخوان فانه يقسم للجد الثلث ، فان كانوا أكثر من ذلك فاني لم أرده حسبت ينقص الجد من الثلث شيئا ثم ما خلص للاخوة من ميراث أخيهم بعد الجد ، فان بني الاب والام هم أولى بعضهم من بعض بما فرض الله لهم دون بني العلة ، فذلك حسبت نحوا من الذي كان عمر أمير المؤمنين يقسم بين الجد والاخوة من الاب ، ولم يكن يورث الاخوة من الام الذين ليسوا من الاب مع الجد شيئا ، قال : ثم حسبت أمير المؤمنين عثمان بن عفان رضي الله عنه كان يقسم بين الجد والاخوة نحو الذي كتبت به إليك في هذه الصحيفة [27]

حضرت زیدؓ نے فرائض کے مسائل حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ترتیب دیے [28]اور متعدد مسائل کا استنباط کیا، قرآن مجید نے وراثت کے متعلق جو کچھ بیان کیا وہ ہم اوپر لکھ چکے ہیں،حضرت زیدؓکی فہم و عقل نے نئے نئے خیالات پیدا کیے ،جو علم الفرائض کا جزو بن گئے، میراث موالی، میراث ولد الابن، میراث ولد ملا عمنہ، میراث الولد من ابیہ وامہ ،میراث لہ، مانعین وراثت اوراس قبیل کے دوسرے مسائل حضرت زیدؓ کی فکر رسا اوردماغ نکتہ سنج کی پیدا کردہ ہیں۔ حضرت زیدؓ نے دادا کی میراث کی نسبت جو فیصلہ کیا تھا، صحابہ میں اس کے بہت سے مخالف موجود تھے، لیکن صحت اور اتفاق عام کا دامن حضرت زیدؓ ہی کے ہاتھ میں تھا۔

دادا کی میراث ،علم فرائض کا نہایت معرکۃ لآرامسئلہ ہے اورخود حضرت زیدؓ نے اس کی نسبت مختلف خیالات ظاہر کیے ہیں، مگر جس رائے پر وہ اخیر وقت تک قائم تھے فاروق اعظم اورحضرت عثمان ؓ نے بھی اس کو قابل عمل تصورکیا۔ اسلام میں دادا کا حصہ سب سے پہلے حضرت عمرؓ نے لیا، ان کا ایک پوتا فوت ہوا تو وہ کل جائداد کا اپنے کو مستحق سمجھتے تھے لوگوں نے اس کے خلاف رائے دی ،حضرت عمرؓ حضرت زیدؓ کے گھر پہنچے اس وقت وہ کنگھی کر رہے تھے اور کنیز بال درست کرتی تھی، پوچھا آپ نے کیوں تکلیف کی مجھ کو بلالیا ہوتا، حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ وحی نہ تھی جس میں گھٹنے بڑھنے کا احتمال ہوتا ، ایک مسئلہ کے متعلق مشورہ کرنے آیا ہوں، اگر تمھاری رائے میرے موافق ہوگی تو عمل کروں گا، ورنہ تم پر کوئی الزام نہیں، زیدؓ نے ایسی صورت میں رائے دینے سے انکار کیا، حضرت عمرؓ آزردہ چلے آئے۔

ایک روز پھر گئے، زیدؓ نے کہا کہ میں اس کو لکھ کر پیش کروں گا؛چنانچہ اس کو شجرہ کی شکل میں مرتب کرکے دیا، حضرت عمرؓ نے مجمع عام میں خطبہ دیا اورکہا کہ زید بن ثابتؓ نے یہ لکھ کر میرے پاس بھیجا ہے میں اس کو نافذ کرتاہوں۔ [29] اگرچہ حضرت زیدؓ نے علم فرائض کی تدوین کی،اس کے مختلف جزئیات کا استخراج کیا، متعدد نئے مسائل پیدا کیے،لیکن ان کے لیے ان میں سب سے اہم اور اشرف مسئلہ عول کی ایجاد ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عول کے موجد حضرت عباسؓ ہیں جو روایت اور درایت دونوں کے خلاف ہے،اول تو اس واقعہ کی کوئی سند نہیں اور ہم نے جو واقعہ بیان کیا ہے وہ سند صحیح سے مروی ہے، یعنی عبد الرحمن ابی زناد نے خارجہ سے روایت کیاہے جو خود حضرت زیدؓ سے روایت کرتے ہیں، دوسرے یہ کہ حضرت عباسؓ کو فرائض اور حساب میں دخل نہ تھا، اس لیے اس قسم کی ایجادیں ان کی طرف منسوب کرنا بداہتہ عقل کے خلاف ہے۔

حضرت زیدؓ نے علم فرائض کی جو کچھ خدمت کی وہ مذکورہ بالا واقعات سے واضح ہو گئی اور حامل نبوت کا یہ ارشاد کہ میری امت کے سب سے بڑے فرائض داں زید ہیں، حرف بحرف پورا اترا، حضرت زید ؓ کی اس غیر معمولی ذہانت و ذکاوت ، جودت و فکر اور دماغ و و دل پر اُس دور کے علما کو تعجب ہوتا تھا۔

فقہ[ترمیم]

فرائض کی طرح وہ فقہ میں بھی مجتہدین صحابہؓ میں تھے اور خود رسول اللہ ﷺکے عہدِ مبار ک میں فتوی ٰدیتے تھے ،حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ اور امیر معاویہؓ کی خلافتوں میں بھی وہ مدینہ منورہ کے مفتی اعظم تھے، فقہائے صحابہؓ کے تین طبقے ہیں،حضرت زیدؓ کا پہلے طبقے میں شمار تھا، انھوں نے اپنی زندگی میں جس قدر فتوے دیے ان کی تعداد نہایت کثیر ہے ،اگر سب کو ایک جگہ جمع کر دیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں۔ [30]

حضرت زیدؓ کی فقہ انہی کے زمانہ میں قبول عام کی سند حاصل کر چکی تھی،حضرت سعید بن مسیبؓ کہا کرتے تھے کہ زید بن ثابت کا کوئی قول ایسا نہیں جس پر لوگوں نے بالاجماع عمل نہ کیا ہو، صحابہؓ میں سینکڑوں ایسے تھے جن کے قول پر کسی نے عمل نہیں کیا، لیکن حضرت زیدؓ کے فتووں پر ان کی زندگی ہی میں مشرق و مغرب عمل پیرا تھے۔ [31] لوگوں کا خیال ہے کہ علم فقہ کی شہرت ووسعت کا باعث صحابۂ کرامؓ میں چار بزرگوں کی ذات تھی، زید بن ثابتؓ ،عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، چنانچہ انہی کے تلامذہ سے آفاق عالم میں علم دین کی اشاعت ہوئی۔ لیکن مدینہ منورہ جو اسلام کا سرچشمہ اصلی اور نبوت کا دارالقرار تھا، حضرت زیدؓ کے اصحاب کی بدولت علوم وفنون کا مرکز بنا تھا۔

فقہائے صحابہؓ کی دو مجلسیں تھیں ایک کے رئیس حضرت عمرؓ تھے اور دوسرے کے حضر ت علیؓ، حضر ت زیدؓ حضرت عمرؓ کی مجلس میں شریک تھے،یہاں مسائلِ علمیہ پر بحث ہوتی تھی اور اہم اور مشکل مسائل طے کیے جاتے تھے۔ [32] یوں تو حضرت زیدؓ بن ثابت کا فیض ہر وقت جاری رہتا تھا، تاہم اس کے لیے ایک وقت بھی مخصوص تھا اور مسجد نبوی میں جو زیارت گاہ عام تھی اور حضرت زیدؓ بن ثابت کے مکان سے ملحق تھی فتویٰ دینے کے لیے بیٹھتے تھے۔ [33] حضرت زیدؓ کے مسائل فقہ کے اکثر ابواب پر حاوی تھے، ان کی تفصیل کے لیے ایک الگ مستقل تصنیف کی ضرورت ہے، یہاں نمونہ کے طور پر ہم چند مسائل پر اکتفا کرتے ہیں۔

کتاب الصلوٰۃ[ترمیم]

فرض نماز کے علاوہ باقی نمازیں گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ [34] ایک شخص نے پوچھا کہ ظہر و عصر میں قرأت ہے؟ فرمایا ہاں ،رسول اللہ ﷺ دیر تک قیام فرماتے تھے اور آپ کے لب ہلتے رہتے تھے [35] (اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قرأت کرنا چاہیے، سوال کا تعلق امام سے ہے،جماعت سے نہیں، سائل کا منشا یہ تھا کہ ظہر و عصر میں کچھ پڑھا جاتا ہے؟ حضرت زیدؓ نے اسی کا جواب دیا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ جماعت میں امام کا پڑہنا، تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوتا ہے صحیح بخاری میں خباب بن ارتؓ ،زید بن ثابتؓ ،ابوقتادہؓ، سعد بن ابی وقاصؓ سے جو روایتیں مذکور ہیں کسی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہؓ آنحضرتﷺ کے پیچھے قرأت کرتے تھے)

کتاب الذبائح[ترمیم]

ایک بھیڑئیے نے ایک بکری پر دانت مارا، لوگوں نے اس کو فوراً ذبح کر دیا، آنحضرتﷺ نے اس کے کھانے کی اجازت دے دی، [36] (ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ اس کا گلا کاٹ دیا جائے،قرآن مجید میں ہے، "الا ماذکیتم"چنانچہ جب یہ شرط (ذبح) پائی گئی آنحضرتٓﷺ نے اس کا کھانا حلال کر دیا)

کتاب الہبہ[ترمیم]

ایک شخص نے اپنا مکان اپنی زندگی تک کسی کو رہنے کے لیے دیا، تو اس کی وفات پر اس کی اولاد مالک سمجھی جائے گی، حضرت زیدؓ بن ثابت کی روایت میں اسی کا بیان ہے ،کہ العمری للوارث [37] عمری کی اجازت کے ساتھ رقبیٰ کی ممانعت وارد ہوئی ہے، رقبیٰ کی یہ صورت ہے کہ ایک شخص اپنی کوئی چیز دوسرے آدمی کو اس شرط پر دے کہ اگر میں پہلے فوت ہوں تو تم مالک ہو اور تم پہلے مرو تو میری ملکیت پھر عود کر آئے گی، چونکہ ہبہ کے لیے تملیک ضروری ہے اور یہاں وہ شرط فاسد کے ساتھ وابستہ ہے،اس بنا پر یہ ہبہ ناجائز قرار دیا گیا ہے۔

کتاب المزارعہ[ترمیم]

نصف، ثلث اور ربع منافع پر کسی سے زراعت کرانا منع ہے۔ [38] جب تک باغ میں پھل اچھی طرح نہ آئے ہوں،یا درخت پر رطب چھوہارے ہوں تو ان کو اٹکل سے بیچنے کی ممانعت ہے، [39] (مدینہ میں اسلام سے قبل پھل تیار ہونے سے پہلے فروخت کر دیا جاتا تھا اور نقصان ہونے کی صورت میں فریقین میں جھگڑے تک کی نوبت آجاتی تھی، جب آنحضرت ﷺ مدینہ تشریف لائے اور یہ حالت ملاحظہ فرمائی تو اس کو منع کر دیا ،البتہ عربہ والوں کو جو مسکین تھے اور صرف صدقات کے چھوہاروں پر ان کی گذر اوقات تھی، ناپ کر فروخت کرنے کی اجازت دیدی تھی) ان مسائل کے بعد علوم شرعیہ کا حصہ ہم ختم کرتے ہیں، حضرت زیدؓ بن ثابت نے دنیا کے دوسرے علوم میں جو ترقی کی تھی، اس کا بیان کرنا بھی ضروری ہے۔ فارسی، رومی، عبرانی، سریانی، قبطی، حبشی زبانیں حضرت زیدؓ نے رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق عبرانی اور سریانی زبانیں سیکھیں تھیں،ذہانت کا یہ حال تھا کہ پندرہ روز کی کوشش میں بلا تکلف خط لکھنے لگے تھے،بعد میں اس کو اور بھی ترقی دی، یہاں تک کہ توارۃ و انجیل کی زبانوں کے عالم بن گئے یہ عام روایت ہے،لیکن مسعودی نے لکھا ہے کہ ان کو فارسی ، رومی، قبطی اور حبشی زبانیں بھی آتی تھیں، جن کو انھوں نے مدینہ میں ان زبانوں کے جاننے والوں سے سیکھا تھا۔ [40]

حساب[ترمیم]

عرب میں حساب کا مطلق رواج نہ تھا، اس لیے اسلام کے ابتدائی زمانہ میں خراج کا حساب رومی یا ایرانی کرتے تھے، عربوں کو ہزار سے اوپر گنتی بھی معلوم نہ تھی،عربی میں ہزار سے اوپر کے عدد کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے،لیکن حضرت زیدؓ کو حساب میں اس قدر دخل تھا کہ فرائض کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل اس کے ذریعہ سے حل کرلیتے تھے اس کے ماسوا مال کی تقسیم بھی کرسکتے تھے،چنانچہ غزوہ حنین میں جو میں ہوا تھا اور جس میں تقریبا 12 ہزار آدمی شریک تھے،انہی کی مردم شماری اورلگائے ہوئے حصوں کے بموجب آنحضرتﷺ نے مال تقسیم فرمایا تھا، انھوں نے پہلے لوگوں کی تعداد معلوم کی پھر مال غنیمت کو اس عدد پر پھیلا دیا، چند سرداروں کو مستثنی کرکے جن کو بڑی رقمیں دی گئی تھیں فی کس 4 اونٹ اورچالیس بکری،حصہ میں پڑیں، سواروں کو اس کا تگنا ،یعنی 12 ،اونٹ اور 120 بکریاں عطا کی گئیں، [41] جنگ یرموک کا مال غنیمت بھی جب مدینہ آیا تو حضرت زیدؓ ہی نے تقسیم کیا تھا۔

خط کتابت[ترمیم]

عرب میں اسلام سے قبل تحریر کا رواج کم تھا، قدیم سے قدیم روایتیں قوتِ حافظہ کی بنا پر مشہور ہوئی تھیں، حضرت زیدؓ لکھنا جانتے تھے اور اپنے زمانہ کے مشہور خطاط تھے فرامین عہد نامے اور خطوط کے سوا نقشے عمدہ بناتے تھے۔ حضرت عمرؓ کے عہد میں عرب کا مشہور قحط عام الرمادہ رونما ہوا تو اس کے انتظام کے لیے عمرو بن العاصؓ گورنر مصر کو فرمان لکھا کہ وہ مصر سے غلہ روانہ کریں، عمروؓ نے 25 جہاز غلہ سے بھرے ہوئے دارالخلافت روانہ کیے، حضرت عمرؓ کو جہازوں کی آمد کا سخت انتظار تھا، خود چند صحابہؓ کو لے کر جن میں زید بن ثابت بھی تھے،"جار" نامی ایک بندرگاہ پر جو مدینہ سے قریب واقع تھی ،تشریف لے گئے،غلہ آیا تو جار میں دو گودام بنوا کر اس میں غلہ بھروادیا اور زید بن ثابتؓ کو ہدایت کی کہ ایک نقشہ قحط زدوں کا تیار کریں جس میں ان کا نام ااور غلہ کی مقدار لکھی ہو، اس حکم پر حضرت زیدؓ نے رجسٹر بناکر ہر شخص کو کاغذ کی چکیں تقسیم کیں، جن کے نیچے حضرت عمرؓ کی مہر ثبت تھی، اسلام میں چک اور اس میں مہر لگانے کا یہ پہلا واقعہ تھا، جو حضرت زیدؓ کی بدولت وقوع پزیر ہوا۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

اسلام کی غرض اصل مکارم ِاخلاق کی تتمیم و تکمیل ہے، حضرت زیدؓ کا اخلاق جن محاسن و فضائل کا مجموعہ تھااس کے نمایاں اجزا حب رسول، اتباع رسول، امر بالمعروف، نصح امرا، حمیت ملی تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت کی بنا پر حضرت زیدؓ بن ثابت دربار نبوت میں اکثر حاضر رہتے تھے ، صبح کو بستر خواب سے اٹھ کر سیدھے آنحضرتﷺ کی خدمت میں آجاتے ،بعض وقت اتنا سویرا ہوتا کہ سحری آنحضرتﷺ کے ساتھ کھاتے آپ ان کو اپنے حجرہ شریف میں بلا لیتے تھے۔ [42] ایک روز وہ آنحضرتﷺ کے پاس گئے تو آپ سحری میں چھوہارے نوش فرما رہے تھے،ان سے شرکت کے لیے ارشاد ہوا، انھوں نے کہا کہ میں روزہ کا ارادہ کرچکا ہوں، آپ نے فرمایا میرا بھی تو یہی ارادہ ہے، غرض حضرت زیدؓ نے آنحضرتﷺ کے ساتھ سحری کھائی، تھوڑی دیر کے بعد جب نماز کا وقت آیا تو وہ آنحضرتﷺ کے ساتھ مسجد گئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔

حضرت زیدؓ اکثر رسول اللہ ﷺ کے پہلو میں بیٹھ جاتے تھے،آب غایت بے تکلفی کی بنا پر ان کی ران پر اپنا زانو ے مبارک رکھ دیتے ،ایک روز اسی حالت میں وحی نازل ہوئی، حضرت زیدؓ کا بیان ہے کہ زانوئے مقدس اتنا گراں ہو گیا کہ میرے لیے اس کا تحمل دشوار ہو گیا، معلوم ہوتا تھا کہ میری ران چور چور ہو جائے گی ؛لیکن ادب کا یہ حال تھا کہ زبان سے اُف تک نہ کی اور خاموش بیٹھے رہے۔ ارشاد نبوی کی تعمیل کا یہ حال تھا کہ ایک بار وہ امیر معاویہؓ کے پاس شام گئے اور ایک حدیث روایت کرنے کی نوبت آئی،امیر معاویہؓ نے ایک شخص سے کہا کہ اس کو لکھ لو، حضرت زیدؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث قلمبند کرنے کی ممانعت فرمائی ہے یہ کہہ کر اس کو مٹادیا۔ امرا ءکے مقابلہ میں بھی سنت نبوی کی تبلیغ سے غافل نہ رہتے تھے ،مروان بن حکم اموی مدینہ منورہ کا امیر تھا، وہ مغرب میں چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑہتا تھا،حضرت زیدؓ نے فرمایا، ایسا کیوں کرتے ہو، آنحضرتﷺ تو طویل سورتیں پڑھا کرتے تھے، [43] صحابہ اور تابعین سے بھی اگر ناواقفیت کی بنا پر خلاف سنت کوئی فعل سرزد ہوجاتا تو زیدؓ ان کو تنبیہ فرماتے تھے،ایک مرتبہ شرجیل بن سعدؓ نے بازار میں ایک چڑیا پکڑی تھی،زیدؓ بن ثابت نے دیکھ لیا پاس جاکر ایک تھپڑ مارا اور چڑیا چھین کر اڑا دی اور کہا کہ اپنے نفس کے دشمن تجھ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کو حرم قرار دیا ہے۔ [44]

انہی شرجیل کو ایک مرتبہ باغ میں جال لگاتے دیکھاتو زور سے چلائے کہ یہاں شکار کھیلنے کی ممانعت ہے۔ [45] شام سے ایک شخص زیتون کا تیل فروخت کرنے مدینہ لایا، بہت سے تاجروں نے معاملہ کیا، عبداللہ بن عمرؓ نے بھی بات چیت کی اور اس سے خرید لیا، مال ابھی وہیں رکھا تھا کہ دوسرا خریدار پیدا ہو گیا، اُس نے ابن عمرؓ سے کہا کہ اتنا نفع دیتا ہوں مجھ سے سودا کر لیجئے، بات کے پختہ کرنے کے لیے ابن عمرؓ اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مارنا چاہتے تھے کہ پیچھے سے کسی نے ہاتھ پکڑلیا، دیکھا تو زید بن ثابتؓ تھے،ابن عمرؓ سے کہا، ابھی نہ بیچو پہلے مال یہاں سے اٹھوا لو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔ [46]

ایک مرتبہ ظہر کے وقت جناب زید ؓ مروان کے محل سے نکلے،شاگردوں نے دیکھ لیا، خیال ہوا کہ اس وقت کسی وجہ سے گئے ہوں گے، بڑھ کر پوچھا، حضرت زیدؓ نے کہا کہ اس وقت اس نے چند حدیثیں پوچھی تھیں میں نے اس سے کہا کہ تین خصلتوں سے مسلمان کے قلب کو کبھی انکار نہ ہوگا، خدا کے لیے عمل کرنا، ولاۃ الامر کو نصیحت کرنا، جماعت کے ساتھ رہنا۔ حضرت زیدؓ اگرچہ غیر مسلم اقوام سے نضرت نہ کرتے تھے،تاہم ان میں حجیت ملی اور قومی پورے جوش کے ساتھ موجود تھی۔ ایک مرتبہ حضرت عبادہ بنؓ صامت انصاری کہ بڑے رتبے کے صحابی تھے،بیت المقدس گئے اور عمارت مقدس کے اندر جانا چاہا، ایک نبطی سے کہا میرا گھوڑا پکڑلو، اس نے انکار کیا، حضرت عبادہؓ نے اس کو ڈانٹا اور خوب مارا، حضرت عمرؓ کو اطلاع ہوئی،تو انھوں نے کہا کہ تم نے یہ کیا کیا، عبادہ ؓ نے جواب دیا کہ میں نے اس سے گھوڑا پکڑنے کے لیے کہا تھا، اس نے انکار کیا ،میرا مزاج تیز ہے اس کو مار بیٹھا، حضرت عمرؓ نے کہا تم سے قصاص لیا جائے گا، زید بن ثابتؓ موجود تھے ان سے ایک صحابی کی ذلت نہ دیکھی گئی، حضرت عمرؓ سے کہا کہ آپ ایک غلام کے بدلے اپنے بھائی کو ماریں گے ،ان کے کہنے پر حضرت عمرؓ نے جرمانہ پر اکتفا کیااور حضرت عبادہؓ کو دیت دینا پڑی۔ [47] اسی طرح جب حضرت عمرؓ شام میں تھے تو خبر ملی کہ ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کر دیا، حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ مسلمان کو قتل کر دیا جائے،حضرت زیدؓ نے بڑی مشکل سے سمجھا کر قتل کی بجائے دیت پر راضی کیا۔ حضرت زید ؓ کی یہ خصوصیت کچھ ذمیوں ہی کے ساتھ مخصوص نہ تھی ؛بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی بعض صورتوں میں ظاہر ہوتی تھی، حضرت عثمانؓ نے ان کے غلام کا وظیفہ 2 ہزار مقرر کیا تھا، انھوں نے کہا کہ غلام اور آزاد میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اورحضرت عثمانؓ کو سمجھا کر ایک ہزار پر راضی کیا۔ طبعاً خاموشی وسکوت کو پسند کرتے تھے،مجلس میں بیٹھتے تو مجسمۂ تسکین ووقار معلوم ہوتے تھے۔ خلفاء سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے، حضرت عمرؓ کے اصحاب صحبت میں تھے، حضرت عثمانؓ سے اتنے وسیع تعلقات تھے کہ عثمانی کہلاتے تھے، حضرت عثمانؓ ان کو نہایت محبوب رکھتے تھے، حضر ت علیؓ کو بھی محبوب رکھتے تھے، اوران کی فضیلت کے قائل تھے، امیر معاویہؓ سے بھی مراسم تھے،شام جانا ہو تو ان کے مکان پر تشریف لے گئے،[48] اور جب مروان بن حکم مدینہ منورہ کا امیر ہوکر آیاتو اس سے بھی ربط ضبط رہا۔ مروان اپنی سیاست میں شہرۂ آفاق ہے،حضرت زیدؓ بن ثابت سے اس کے دوستانہ تعلقات تھے،لیکن وہ موقع پر ست سیاست سے باز نہ آتا تھا، زید بن ثابتؓ کو بلاکر ایک دن کچھ پولیٹکل سوالات کیے، حضرت زیدؓ جواب دے رہے تھے کہ یکایک نظر پڑی کہ پردے کے پیچھے کچھ لوگ لکھ رہے ہیں، حضرت زید بن ثابت نے فوار کہا کہ میرا عذر قبول کیجئے، میں نے جو کچھ کہا تھا وہ میری ذاتی رائے تھی۔ حضرت زیدؓ اگرچہ نہایت منکسر المزاج تھے،لیکن چونکہ بڑے جلیل القدر عالم تھے، اس لیے کبھی کبھی زبان سے حرف ادعا بھی نکل جاتا تھا، ایک مرتبہ حضرت رافع ؓ بن خدیج نے ایک حدیث میں غلطی کی تو حضرت زیدؓ بن ثابت نے کہا کہ خدا ان کی مغفرت کرے مجھ کو ان سے زیادہ حدیث معلوم ہے، اسی طرح حضرت عائشہؓ کے ساتھ بھی اسی قسم کا واقعہ پیش آیا ان کے علم و وقار کی بنا پر صحابہؓ اور علما سے لے کر امرا و حکام تک ان کی عزت و تعظیم کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ حضرت زیدؓ بن ثابت کی اس قدر تکریم کرتے تھے کہ ایک مرتبہ وہ گھوڑے پر سوار ہونے کو چلے تو ابن عباسؓ نے رکاب تھام لی، حضرت زیدؓ بن ثابت نے کہا، آپ رسول اللہ ﷺ کے چچیرے بھائی ہیں ایسا نہ کیجئے ابن عباسؓ نے کہا کیا خوب؟ علما اور اکابر کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے۔ مروان بن حکم اموی جو حضرت ابو سعید خدریؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کو کوڑے سے مارنے اٹھا تھا، حضرت زیدؓ کی اتنی عظمت کرتا تھا کہ ان کو اپنے برابر تخت پر جگہ دیتا تھا۔ [49]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ عنوان : Зейд ибн Сабит
  2. (مسند:5/188،وبخاری:2/745)
  3. (بخاری:2/48،باب القرآن ،ومسند :5/185،اصل الفاظ یہ ہیں، بینا نحن عن رسول اللہ ﷺ نولف القرآن من الرقاع)
  4. (فتح الباری:9/12)
  5. (بخاری:746،باب جمع القرآن )
  6. (بخاری باب جمع القرآن:746)
  7. (ایضاً)
  8. (مسند:5/191)
  9. مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان، جلد 8، صفحہ605
  10. (مسند احمد،باب حدیث زید بن ثابت عن النبی ﷺ،حدیث نمبر:20631)
  11. (ایضاً:186)
  12. (مسند:5/186)
  13. کنزالعمال بحوالہ طبقات ابن سعد :3)
  14. بحوالہ جامع عبد الرزاق :3/175)
  15. (کنزالعمال:3/174،بحوالہ بخاری وشکم)
  16. (کتاب:1/، ابی یوسف:26)
  17. (مسند:5/182)
  18. (مسند:5/185)
  19. (مسند:5/185)
  20. (طبقات،جلد2،قسم 3،صفحہ:116)
  21. (طبقات ،جلد2،قسم2،صفحہ:117)
  22. (طبقات ،جلد2،قسم2،صفحہ:116)
  23. (المدوت الکبریٰ امام مالک:3)
  24. (کنز العمال:6)
  25. (ایضا:7)
  26. (ایضا:111)
  27. (کنزالعمال:11/59)
  28. (اصل عبارت یہ ہے ،فلما وضع زید بن ثابت الفرائض ،کنز العمال:6/15)
  29. (کنز العمال:6/16)
  30. (اعلام الموقعین،جلد2،قسم)
  31. (ابن قیم جوزی:3)
  32. (طبقات ابن سعد)
  33. (مسند:5/)
  34. (مسند:5/86)
  35. (ایضاً)
  36. (مسند:5/184)
  37. (ایضاً)
  38. (ایضا:186)
  39. (ایضا:192)
  40. (کتاب التنبیہ والا شراف:283)
  41. (طبقات ابن سعد،صفحہ110،قسم1،)
  42. (مسند:5/182)
  43. (بخاری:1/105،باب القرأت فی المغرب)
  44. (مسند:5/181،192)
  45. (ایضاً)
  46. (مسند:5/181،192)
  47. (کنزالعمال:7/303)
  48. (مسند:5/182)
  49. (ایضاً)