عروہ بن مسعود

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت عروہ ؓبن مسعود ثقفی
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 630ء  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات شہید
مدفن گنج شہیداں
کنیت ابو مسعود

عروہ ابن مسعود ثقفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حضرت عیسی سے شکل میں مشابہت والا فرمایا۔

نام ونسب[ترمیم]

عروہ نام، ابو مسعود کنیت، نسب نامہ یہ ہے، عروہ بن مسعود بن مالک بن کعب ابن عمرو بن سعد بن عوف بن ثقیف بن منبہ بن بکر بن ہوازن بن عکرمہ بن خصفہ بن قیس عیلان ۔

اسلام سے پہلے[ترمیم]

میں جب آنحضرتﷺ عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے اورحدیبیہ کے قریب پہنچ کر بدیل کی زبانی معلوم ہوا کہ قریش مزاحمت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ نے ان سے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے ہیں،ہمارا مقصد صرف عمرہ کرنا ہے، قریش کو پیہم لڑائیوں نے بہت خستہ اور کمزور کر دیا ہے، اس لیے ان کو لڑنا مناسب نہیں ہے۔ بہتر صورت یہ ہے کہ وہ ہم سے ایک معین مدت کے لیے صلح کر لیں اورہمارا اورقوم کا معاملہ اپنی حالت پر چھوڑدیں،جب ہم غالب ہوں گے،تو انھیں اختیار ہوگا کہ وہ ہماری جماعت میں شامل ہوں یانہ شامل ہوں اوراگر مصالحت منظور نہیں ہے تو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب تک جان باقی ہے اس وقت تک ان سے لڑوں گا؛ تا آنکہ خدا اپنا فیصلہ پورا کرے۔ آنحضرتﷺ کی یہ گفتگو سن کر بدیل قریش کے پاس گئے اوران سے کہا میں محمدﷺ کی باتیں سن کر آیا ہوں،اگر تم لوگ پسند کرو تو میں بیان کروں، پرجوش اورنا تجربہ کار لوگوں نے کہا ہم کو سننے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن سنجیدہ اورسمجھ دار آدمیوں نے سننے پر آمادگی ظاہر کی بدیل نے پوری گفتگو سنادی، یہ مصالحانہ باتیں سن کر عروہ بن مسعود نے قریش سے سوال کیا ،کیا میں تمھارا باپ اور تم میرے بچے نہیں ہو؟ سب نے اثبات میں جواب دیا، پھر پوچھا تم کو میری جانب سے کوئی بد گمانی تو نہیں ہے، سب نے نفی میں جواب دیا، پھر سوال کیا کیا تم کو یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے عکاظ والوں سے تمھاری مدد کے لیے کہا تھا اور جب انھوں نے انکار کیا تو میں خود اپنے بال بچوں سمیت اورجن جن لوگوں نے میرا کہنا مانا سب کو لے کر تمھاری مدد کے لیے نہیں آیا، یہ تمام باتیں تسلیم کرانے کے بعد بولے جب ان باتوں کو مانتے ہو تو میری بات سنو، محمدﷺ نے نہایت معقول صورت پیش کی ہے،اس کو منظور کرلو اور مجھے اجازت دو کہ میں جاکر ان سے گفتگو کرکے معاملات طے کر آؤں ،سب نے بالاتفاق انھیں نمائندہ بناکر بھیجا؛چنانچہ یہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں پہنچے، آپ نے ان کے سامنے بھی وہی صورت پیش کی ،جو بدیل کے سامنے پیش کرچکے تھے،عروہ نے کہا محمد ﷺ ہم نے فرض کیا،اگر تم نے قریش کا استیصال بھی کر دیا تو میں پوچھتا ہوں کہ کیا اس کی کوئی مثال مل سکتی ہے کہ کسی نے اپنی قوم کو خود برباد کر دیا ہو اور اگر کچھ اورنتیجہ نکلا تو تمھارے گرد جو بھیڑ نظر آرہی ہے یہ سب چھٹ جائے گی اورجو چہرے اس وقت دکھائی دیتے ہیں ہوا ہوجائیں گے ،حضرت ابوبکرؓ یہ بد گمانی سن کر بے تاب ہو گئے اور درشتی کے ساتھ کہا کہ ہم ان کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے؟ عروہ نے پوچھا یہ کون ہے،معلوم ہوا ابوبکرؓ ،ابوبکرؓ کا نام سن کر کہا خدا کی قسم اگر میں تمھارے احسان سے گراں بار نہ ہوتا تو تمھاری سخت کلامی کا جواب دیتا۔ عروہ عربوں کی عادت کے مطابق اثنائے گفتگو میں بار بار آنحضرتﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے، مغیرہ بن شعبہ جو ہتھیار لگائے،آپ کی پشت پر کھڑے تھے، یہ بے باکانہ انداز گفتگو برداشت نہ کرسکے ،بار بار تلوار کے قبضہ پر ہاتھ ڈال کر رہ جاتے تھے،آخر میں عروہ کو ڈانٹا کہ خبر دار اب داڑھی کی طرف ہاتھ نہ بڑھنے پائے،عروہ نے پوچھا یہ کون ہے؟ معلوم ہوا مغیرہ عروہ نے کہا او دغا باز کیا میں نے ایک موقع پر تیری مدد نہیں کی تھی،(مغیرہ نے جاہلیت میں چند آدمیوں کو قتل کیا تھا،عروہ نے اس کی دیت ادا کی تھی) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صحابہ کی حیرت انگیز عقیدت کا یہ منظر دیکھ کر عروہ کے دل پر خاص اثر ہوا؛ چنانچہ واپس جاکر انھوں نے قریش سے بیان کیا کہ میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں،لیکن محمدﷺ کے ساتھ ان کے ساتھیوں کو جو عقیدت ہے اورجس قدر وہ لوگ ان کا احترام کرتے ہیں وہ کسی بادشاہ کو نصیب نہیں ہے میں نے قیصر وکسریٰ کے بھی دربار دیکھے ہیں،لیکن عقیدت ووارفتگی کا یہ منظر کہیں نہیں نظر آیا ،محمدﷺ تھوکتے ہیں تو ان کے ساتھی تھوک کو ہاتھوں اور چہروں پر مل لیتے ہیں، وہ وضو کرتے ہیں تو لوگ پانی پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے اس کے لیے کشت وخون ہوجائے گا،جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو ہر شخص اس کو تعمیل کے لیے دوڑتا ہے،جب وہ بولتے ہیں تو مجلس میں سناٹا چھا جاتا ہے،کوئی شخص ان کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھ سکتا، ایسے شخص نے ایک معقول صورت پیش کی ہے،تم کو اسے قبول کرلینا چاہیے۔ [1]

اسلام[ترمیم]

8ھ میں جب آنحضرتﷺ غزوۂ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو واپسی میں عروہ بھی پیچھے ہو لیے اورمدینہ پہنچنے سے قبل آپ سے مل کر مشرف بااسلام ہو گئے۔

تبلیغ اسلام اورشہادت[ترمیم]

قبولِ اسلام کے بعد آنحضرتﷺ سے اپنے قبیلہ میں اشاعت اسلام کی اجازت مانگی، آپ کو بنی ثقیف کی کجی فطرت اوران کی رعونت کا پورا اندازہ تھا، فرمایا یہ لوگ تم سے لڑیں گے؟عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ لوگ مجھے بہت مانتے اورعزیز رکھتے ہیں اور باصرار آپ سے اجازت لے کر بنی ثقیف پہنچے، عروہ کو بنی ثقیف پر بڑا اعتماد تھا اس لیے آتے ہی اپنے اسلام کا اعلان کرکے انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی،اس وقت ان کو بنی ثقیف کے متعلق اپنے غلط حسن ظن کا پورا اندازہ ہوا،ان کی دعوت کا جواب بجائے زبان کے تیروں سے ملا ایک تیر آکر عروہ کے لگا، جو تیر قضا ثابت ہوا،یہ ابن ہشام کی روایت ہے۔[2]

آنحضرت ﷺ نے ان کی شہادت کی خبر سنی تو فرمایا عروہ کے مثال صاحبِ یسین (حضرت عیسیٰ) جیسی ہے جنھوں نے اپنی قوم کو خدا کی طرف بلایا اور اس نے ان کو شہید کر دیا۔ [3] اس اسوۂ عیسوی کو پورا کرنے والا صورۃبھی مثیل مسیح تھا،آنحضرتﷺ فرماتے تھے کہ مجھے انبیا کی (مثالی) صورتیں دکھائی گئیں،مسیح عروہ کے ہم شکل تھے، جبریل دحیہ کلبی کے ہم شبیہ اور ابراہیم میرے، حضرت عمرؓ کو عروہ کی شہادت کا بڑا قلق ہوا، اورآپ نے ان کا مرثیہ کہا۔ [4] آپ کے نکاح میں اس وقت بہت عورتیں تھیں حضور انور نے حکم دیا چار رکھو باقی کو علاحدہ کردو،پھر حضور سے اجازت لے کر اپنے گھر واپس گئے اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دی انھوں نے انکار کیا آپ فجر کے وقت اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گئے وہاں اذان دی کلمہ شہادت بلند آواز سے پڑھا،ایک ثقفی نے آپ کو وہاں ہی تیر مارا جس سے آپ شہید ہو گئے،حضور انور کو جب اس واقعہ کی خبر دی گئی تو فرمایا کہ عروہ سورۂ یٰسین والے کی مثل ہیں کہ انھوں نے اپنی قوم کو رب کی طرف بلایا تھا انھوں نے بھی انھیں اسی وجہ سے قتل کر دیا تھا۔[5] حدیث میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عروہ ابن مسعود کے ہم شکل ہوں گے،عروہ ابن مسعود سیدنا عبداللہ ابن مسعود کے بھائی ہیں،بعض شارحین نے فرمایا کہ یہ عروہ ابن مسعود ثقفی ہیں پھر اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دی جس پر قوم نے انھیں قتل کر دیا،یہ عبد اللہ ابن مسعود کے بھائی نہیں کہ وہ تو عبد اللہ ابن مسعود ابن غافل ہذلی ہیں یہ ہی صحیح ہے۔(مرقات) [6] عروہ ابن مسعود ثقفی اور ہیں اور عروہ ابن مسعود ہزلی دوسرے ہیں،یہ عبد اللہ ابن مسعود کے بھائی ہیں اور ثقفی دوسرے ہیں،صحابی ہیں،نہایت حسین تھے۔[7]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بخاری کتاب الشروط فی الحباروالمصاتحہ مع اہل الحرب
  2. ابن ہشام:2/335
  3. مستدرک حاکم:3/616
  4. استیعاب:2/505
  5. مرأۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، مفتی احمد یار خان، جلد 8، صفحہ631
  6. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ582نعیمی کتب خانہ گجرات
  7. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ568نعیمی کتب خانہ گجرات