معاذ بن جبل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
معاذ بن جبل
معاذ بن جبل خزرجی الانصاری

معلومات شخصیت
پیدائش 600ء کی دہائی  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 640ء (39–40 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شام   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن شمالی شونہ،  اردن
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لقب امام العلماء
زوجہ اُم عمرو بنت خالد بن عمرو خزرجی
اولاد عبد الرحمن، اُم عبد اللہ
رشتے دار والد: جبل بن عمرو بن اوس
عملی زندگی
نمایاں شاگرد انس بن مالک   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  تفسیر قرآن   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معاذ بن جبل انصاری خزرجی رضی اللہ عنہ (20ق.ھ / 18ھ) ان کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔نسب نامہ یہ ہے:معاذ بن جبل بن عمروبن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن سعد بن علی بن اسد بن ساردۃ بن یزید بن جشم بن خزرج اکبر۔ آپ قبیلہ خزرج کے انصاری اور مدینہ منورہ کے باشندہ ہیں۔ یہ ان ستر خوش نصیب انصار میں سے ایک ہیں جن لوگوں نے ہجرت سے بہت پہلے میدان عرفات کی گھاٹی میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے بیعت اسلام کی تھی ۔ آپ جنگ بدر اور اس کے بعدکے تمام جہادوں میں مجاہدانہ شان سے شریک جنگ رہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کو یمن کا قاضی اور معلم بنا کر بھیجا تھا اور حضرت امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو ملک شام کا گورنر بھی مقرر کر دیا تھا جہاں انھوں نے 18ھ میں طاعونِ عمواس میں علیل ہوکر اڑتیس (38) سال کی عمر میں وفات پائی۔آپ بہت ہی بلند پایہ عالم ، حافظ ، قاری، معلم اور نہایت ہی متقی و پرہیز گار اور اعلی درجے کے عبادت گزار تھے ۔ بنی سلمہ کے تمام بتوں کو انھوں نے ہی توڑ پھوڑ کر پھینک دیا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت میں ان کا لقب”امام العلماء ”ہے۔[4][5]

نام و نسب اور ابتدائی حالات[ترمیم]

معاذ نام ، ابو عبد الرحمن کنیت ،امام الفقہا ءکنز العلماء اور عالم ربانی القاب ، قبیلہ خزرج کے خاندان ادی بن سعد سے تھے ، نسب نامہ یہ ہے: معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عائذ بن عدی بن کعب بن عمرو بن ادی بن سعد بن علی بن اسد بن ساردۃ بن یزید بن جشم بن خزرج اکبر۔ سعد بن علی کے دو بیٹے تھے سلمہ اور ادی، سلمہ کی نسل سے بنو سلمہ ہیں،جن میں حضرت ابو قتادہؓ ،حضرت جابر بن عبداللہؓ ،حضرت کعب بن مالکؓ ، عبداللہ ؓ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ مشہور صحابہؓ گذرے ہیں ان لوگوں کے ما سوا اور بھی بہت سے بزرگوں کو اس خاندان سے انتساب تھا ، لیکن سلمہ کے دوسرے بھائی ادی کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے وقت صرف ایک فرزند تھا جس کی وفات پر خاندان ادی کا چراغ ہمیشہ کے لیے گل ہو گیا۔ امام سمعانی رحمہ اللہ علیہ نے کتاب الانساب میں حسین بن محمد بن [6] طاہر کو اسی ادی کی طرف منسوب کیا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ،تمام موثق روایتوں سے ثابت ہے کہ اسلام کے زمانہ میں اس خاندان میں صرف دو شخص باقی تھے، ایک حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور دوسرے ان کے صاحبزادے عبد الرحمن۔بنو ادی کے مکانات ان کے بنو اعمام (بنو سلمہ) کے پڑوس میں واقع تھے،مسجد قبلتین جہاں تحویل قبلہ ہوا تھا، یہیں واقع تھی حضرت معاذؓ کا گھر بھی یہیں تھا۔ [7]

اسلام[ترمیم]

طبیعت فطرۃ اثر پزیر واقع ہوئی تھی؛ چنانچہ نبوت کے بارہویں سال جب مدینہ میں اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے قبول کرنے میں ذرہ بھی پس و پیش نہ کیا،حضرت مصعب بن عمیرؓ داعی اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صدق دل سے توحید کا اقرار کیا اس وقت ان کا سن 18 سال کا تھا۔ حج کا موسم قریب آیا تو حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مکہ روانہ ہوئے،اہل مدینہ کی ایک جماعت جس میں مسلم اور مشرک دونوں شامل تھے ان کے ہمراہ ہوئی، حضرت معاذؓ کی آنکھوں نے کبھی نہ دیکھا تھا، یعنی رسول اللہ رات کے وقت تشریف لائے اور اس جماعت سے بیعت لی۔

یہ جماعت مکہ سے مدینہ واپس ہوئی،تو آفتاب اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل گئی، یثرب تمام مطلع انوار ہو گیا۔ حضرت معاذؓ کمسن تھے، مگر جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ بنو سلمہ کے بت توڑے جانے لگے تو بت شکنوں کی جماعت میں وہ سب کے پیش پیش تھے، بُت کا کسی کے گھر میں موجود ہونا اب ان کے لیے سخت تکلیف دہ تھا، بنو سلمہ کے اکثر گھر ایمان کی روشنی سے منور ہو چکے تھے،لیکن اب بھی کچھ لوگ ایسے باقی تھے جن کا نفس آبائی مذہب چھوڑنے سے اعراض کرتا تھا،حضرت عمروؓ بن جموح بھی انہی لوگوں میں تھے جو اپنے قبیلہ کے سردار اور نہایت معزز شخص تھے ، انھوں نے لکڑی کا ایک بت بنا رکھا تھا، جس کا نام مناۃ تھا ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کچھ دوسرے نوجوان رات کو ان کے گھر پہنچے وہ بے خبر سو رہے تھے ،ان لوگوں نے بت کو اٹھا کر محلہ کے ایک گڑھے میں پھینک دیا کہ آنے جانے والے اس کو دیکھ کر عبرت حاصل کریں،صبح کو بت کی تلاش کے لیے نکلے تو اپنے معبود کو ایک گڑھے میں اوندھا پڑا دیکھ کر عمرو بن جموح کا غیظ و غضب اختیار سے باہر ہو گیا، بہر حال اس کو اٹھا کر گھر لائے ،نہلایا،خوشبو لگائی اور اس کی اصل جگہ پر رکھ دیا اورنہایت طیش میں کہا جس شخص نے یہ حرکت کی ہے اگر مجھے اس کا نام معلوم ہوجائے تو بری طرح خبر لو؛لیکن جب پھر یہی واقعہ کئی مرتبہ لگاتار پیش آیا تو کفر سے بیزار ہوکر اسلام کے حلقہ میں داخل ہو گئے۔[8]

تعلیم و تربیت[ترمیم]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ابتدا ہی سے ہونہار تھے،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہ آپ کے دامن سے وابستہ ہو گئے اور چند ہی دنوں میں فیض نبوت کے اثر سے اسلام کی تعلیم کا اعلی نمونہ بن گئے اور ان کا شمار صحابہ کے برگزیدہ افراد میں ہونے لگا۔ رسول اللہ کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ بسا اوقات ان کو اپنے ساتھ اونٹ پر بٹھا تے تھے اور اسرار و حکم کی تلقین کرتے تھے ،ایک مرتبہ وہ آنحضرت کے ردیف تھے کہ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یا معاذ بن جبل! انھوں نے کہا ابیک یا رسول اللہ وسعد یک آپ نے پھر ان کا نام پکارا، انھوں نے پھر اسی ادب اور محبت بھرے الفاظ سے جواب دیا،اسی طرح تین مرتبہ آپ نے انکا نام لیا اور وہ اسی طرح برابر لبیک کہتے رہے،پھر ارشاد فرمایا کہ جو شخص صدق دل سے کلمہ توحید پڑھ لے اس پر دوزخ حرام ہو جاتی ہے،حضرت معاذؓ نے کہا یا رسول اللہ کیا میں لوگوں کو یہ بشارت سنا دوں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں ورنہ لوگ عمل کرنا چھوڑ دیں گے۔ [9]

معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر شفقت نبوی کا یہ حال تھا کہ وہ خود کوئی سوال نہ کرتے تو آنحضرت نے کوڑے یا عصا سے ان کی پشت پر آہستہ سے ٹھوکر دی اور فرمایا جانتے ہو بندوں پر خدا کا کیا حق ہے؟ "عرض کیا" اللہ اور رسول کو زیادہ معلوم ہے ، فرمایا "یہ کہ بندے اس کی عبادت کریں اور شرک سے اجتناب کریں" تھوڑی دور چل کر پھر پوچھا کہ "خدا پر بندوں کا کیا حق ہے؟" پھر عرض کی کہ "خدا اور رسول کو معلوم ہے" آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ کہ وہ ان کو جنت میں داخل کرے۔ [10] حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ شفقت نبوی سے سرفراز رہتے تھے،ان کو اٹھتے بیٹھتے ،حامل نبوت سے تعلیم ملتی تھی، ایک مرتبہ آنحضرت نے ان کو دروازہ پر کھڑا دیکھا تو ایک چیز کی تعلیم دی، ایک اور مرتبہ لطف و کرم سے فرمایا کہ میں تمھیں جنت کا ایک دروازہ بتاؤں؟ گزارش کی ارشاد ہو، فرمایا لا حول ولا قوۃ الا باللہ [11] پڑھ لیا کرو۔ تعلیم زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی تھی،مذہبی،اخلاقی، علمی عملی ہر قسم کی تعلیم سے وہ بہرہ ور ہوئے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، ایک روز صبح کے وقت جب لشکر اسلام منزل مقصود کی طرف روانہ ہو رہا تھا، حضرت معاذؓ رسول اللہ کے قریب تھے،پوچھا ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کرے اور دوزخ سے بچائے،فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی ؛ لیکن جس کو خدا توفیق دے اس پر آسان بھی ہے ،شرک نہ کرو عبادت کرو ، نماز پڑھو ، زکوٰۃ دو ، رمضان میں روزے رکھو، حج کرو،پھر فرمایا خیر کے کچھ دروازے ہیں میں تم کو بتاتا ہوں، روزہ جو سپر کا حکم رکھتا ہے،صدقہ جو آتش معصیت کو پانی کی طرح بجھا دیتا ہے اور نماز جو رات کے حصوں میں پڑھی جاتی ہے،پھر یہ آیت تلاوت فرمائی،تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (یعلمون تک)پھر فرمایا کہ اسلام کے سر اور عمود اور چوٹی کی خبر دیتا ہوں سر اور پاؤں تو نماز ہے اور کوہان کی چوٹی جہاد۔

پھر آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ان تمام باتوں کی بیخ و بن صرف ایک چیز ہے،زبان اس کو روکو آنحضرت ﷺ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کیا کہ کیا جو کچھ ہم بولتے ہیں اس پر مواخذہ ہوگا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ثکلتک امک یا معاذ! بہت سے لوگ صرف اسی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔ [12] حضرت معاذؓ بن جبل کو آنحضرت ﷺ نے دس باتوں کی وصیت کی تھی شرک نہ کرنا، خواہ تم کو کوئی اس کے عوض قتل کر دے یا جلادے،فرض نماز قصداً کبھی نہ ترک کرنا، کیونکہ جو شخص قصداً نماز چھوڑتا ہے،خدا اس کی ذمہ داری سے بری ہوجاتا ہے،شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام فواحش کی بنیاد ہے، معصیت میں مبتلا نہ ہونا، کیونکہ مبتلائے معصیت پر خدا کا غصہ حلال ہو جاتا ہے،لڑائی سے نہ بھاگنا اگرچہ تمام لشکر خاک و خون میں لوٹ چکا ہو، موت عام ہو (بیماری آئے ) تو ثابت قدم رہنا، اپنی اولاد کے ساتھ سلوک کرنا ان کو ہمیشہ ادب دینا اور خدا سے خوف دلانا۔ [13] رسول اللہ ﷺ نے پانچ چیزوں کی حضرت معاذؓ بن جبل کو تاکید کی تھی اور فرمایا تھا کہ جوان کو عمل میں لائے، خدا اس کا ضامن ہوتا ہے،مریض کی عیادت، جنازہ کے ساتھ جانا، غزوہ کے لیے نکلنا، حاکم کی تعزیر یا توقیر کے لیے جانا، گھر میں بیٹھ رہنا جس میں وہ تمام لوگوں سے محفوظ ہوجائے اور دنیا سے سلامت رہے۔ [14] اخلاقی تعلیم ان الفاظ میں دی، معاذ! ہر برائی کے پیچھے نیکی کر لیا کرو نیکی اس کو مٹادے گی اور لوگوں کے سامنے اچھے اخلاق ظاہر کرو۔ [15] یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اتق دعوۃ المظلوم فان لیس بینھا و بین اللہ حجاب ! یعنی مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہو، کیونکہ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔ [16] یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا تو فرمایا، معاذ! خبردار عیش و تنعم سے علاحدہ رہنا، کیونکہ خدا کے بندے عیش پرست اور تنعم پسند نہیں ہوتے۔ [17] اجتماعی زندگی کی تلقین اس طرح کی: انسان کا بھیڑیا شیطان ہے ،جس طرح بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا ہے جو گلہ سے دور ہوتی ہے،اسی طرح شیطان اس انسان پر قابو پالیتا ہے جو جماعت سے الگ ہوتا ہے، خبردار!خبردار!متفرق نہ ہونا؛بلکہ جماعت کے ساتھ رہنا۔ [18] اشاعتِ اسلام کے متعلق فرمایا، معاذ! اگر تم ایک مشرک کو بھی مسلمان کرلو، تو تمھارے لیے دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔ [19] غرض یہ پاکیزہ خیالات اور اعلیٰ تعلیمات جس بزرگ کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھیں وہ جماعت انصار کا وہ "نوجوان" تھا جس کو حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرد نہیں ؛بلکہ ایک امت کہا کرتے تھے۔ [20]

غزوات اور عام حالات[ترمیم]

آنحضرت نے مدینہ تشریف لاکر مواخاۃ کی تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہاجری بھائی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تجویز فرمایا۔ میں غزوۂ بدر پیش آیا ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں شریک تھے اور اس وقت ان کا سن 21 سال کا تھا، غزوہ بدر کے علاوہ تمام غزوات میں حضرت معاذؓ بن جبل رضی اللہ عنہ نے شرف شرکت حاصل کیا۔ ان فضائل کے ماسوا حضرت معاذؓ نے آنحضرت کے عہد مبارک میں قرآن حفظ کیا تھا۔ [21]

امامت مسجد[ترمیم]

بنو سلمہ نے اپنے محلے میں ایک مسجد بنالی تھی جس کے امام معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ ایک دن عشا کی نماز میں انھوں نے سورۂ بقرہ پڑھی، پیچھے صفوں میں ایک شخص تھا جو دن بھر کھیت میں کام کرنے کی وجہ سے بالکل تھکا ہوا تھا، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی نماز ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ وہ نیت توڑ کر چل دیا، حضرت معاذؓ بن جبل کو اطلاع ہوئی تو کہا کہ وہ منافق ہے، اس کو یہ نہایت ناگوار گذرا اور رسول اللہ ﷺ سے آکر شکایت کی آنحضرت نے معاذ ؓ بن جبل سے فرمایا :افتان انت ؟ کیا لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کروگے؟ اس کے بعد فرمایا کہ چھوٹی سورتیں پڑھا کرو، کیونکہ تمھارے پیچھے صفوں میں بوڑھے ضعیف اور ارباب حاجت سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، تم کو ان سب کا خیال کرنا چاہیے۔ [22][23]

امارت یمن اور اشاعت اسلام[ترمیم]

میں آنحضرت غزوہ تبوک سے تشریف لائے تھے کہ رمضان المبارک میں ملوک حمیر (یمن) کا قاصد اہل یمن کے قبول اسلام کی خبر لے کر مدینہ پہنچا، اب آنحضرت نے یمن کی امارت کے لیے حضرت معاذؓ بن جبل کو تجویز فرمایا۔ اس سے پیشتر حضرت معاذؓ کی جائداد قرض میں بیع ہو چکی تھی، حضرت معاذؓ بہت فیاض تھے اور خوب خرچ کرتے تھے اور لازماً اس کا بار جائداد پر پڑ رہا تھا، قرض خواہوں نے زیادہ تنگ کیا تو کچھ دنوں گھر میں چھپ رہے، وہ لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ معاذؓ بن جبل کو بلوائیے آپ نے آدمی بھیج کر حضرت معاذؓ بن جبل کو بلوایا ،قرض خواہوں نے شور مچایا کہ ہمارا ابھی فیصلہ ہونا چاہیے ،لیکن جائداد سے قرض بہت زیادہ ہو چکا تھا، اس لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنا حصہ نہ لے گا، اس پر خدا رحم کرے گا، چنانچہ کچھ لوگوں نے اپنا حصہ چھوڑ دیا، لیکن کچھ لوگ بضد رہے ،آنحضرت ﷺ نے حضرت معاذؓ کی کل جائداد ان لوگوں پر تقسیم کردی ؛لیکن قرض اب بھی ادا نہ ہوا،تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اس سے زیادہ نہیں مل سکتا، اسی کو لیجاؤ،حضرت معاذؓ بن جبل اب بالکل مفلس تھے، آنحضرت ﷺ کو ان کا بہت خیال تھا، فرمایا کہ گھبرانا نہیں، خدا اس کی جلد تلافی کردیگا۔

فتح مکہ کے بعد آنحضرت نے ان کو امارت یمن کے لیے منتخب فرمایا اگرچہ ان کی قابلیت پر آپ کو ہر طرح کا اطمینان تھا،تاہم امتحان لے لینا مناسب تھا، پوچھا "فیصلہ کس طرح کرو گے"؟ حضرت معاذؓ بن جبل نے کہا کہ قرآن مجید سے فیصلہ کروں گا، فرمایا اگر اس میں نہ ملے کہا کہ سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا ،فرمایا اور اس میں بھی نہ ہو، کہا میں خود اجتہاد کروں گا، آنحضرت ﷺ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی جس کو اس کا رسول پسند کرتا ہے۔ امتحان ہو چکا تو اہل یمن کو ایک فرمان لکھوایا، جس میں حضرت معاذؓ بن جبل کے رتبہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ تھا: انی بعثت لکم خیر اھلی میں اپنے لوگوں میں سے بہترین کو تمھارے لیے بھیجتا ہوں۔ اس میں یہ بھی تحریر تھا کہ معاذ بن جبلؓ اور دوسرے آدمیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور صدقہ اور جذبہ کی رقمیں وصول کرکے ان کے پاس جمع کرنا اور معاذ بن ؓ جبل کو سب پر امیر بناتا ہوں ،ان کو راضی رکھنا، ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے ناخوش ہو جائیں۔

یہ تمام مراحل طے ہو گئے تو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یمن کے سفر کی تیاری کی اور سوار ہوکر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ بھی ساتھ ساتھ تھے، روانگی کا وقت آیا تو کچھ دور تک خود سرکاردو عالمؓ نے مشایعت کی،حضرت معاذ بن جبلؓ اونٹ پر سوار تھے اور شہنشاہ مدینہ اونٹ کے ساتھ پا پیادہ چل رہے تھے اور باہم گفتگو کا سلسلہ جاری تھا، جس کے ایک ایک فقرہ سے شفقت و محبت کا اظہار ہو رہا تھا،فرمایا معاذ! تم پر قرض بہت ہے اگر کوئی ہدیہ لائے تو قبول کر لینا، میں تم کو اس کی اجازت دیتا ہوں، وداع کا وقت آیا تو حضرت سرورکائناتؓ نے حضرت معاذؓ سے کہا شائد اب تم سے ملاقات نہ ہو،اب مدینہ واپس آؤ گے تو میرے بجائے میری قبر ملے گی، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذؓ کی آنکھیں ابل پڑیں اور زار و قطار رونے لگے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہ رؤو ،رونا شیطانی حرکت ہے،رخصت ہونے لگے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا، حفظك الله من بين يديك ومن خلفك وعن يمينك وعن شمالك ومن فوقك ومن تحتك وأدرأ عنك شرور الإنس والجن، یعنی جاؤ، خدا تم کو ہر قسم کے آفات سے محفوظ رکھے حضرت معاذؓ نے مدینہ کی طرف [24] نہایت حسرت سے دیکھا اور کہا کہ میں متقیوں کو اچھا سمجھتا ہوں خواہ کوئی ہوں (یہ غالباً خلفاء کی طرف اشارہ تھا)

رسول اللہ ﷺ سے رخصت ہوکر یمن روانہ ہو گئے،جب یمن پہنچے تو سپیدۂ صبح نمودار [25] تھا رسول اللہ ﷺ کا رسول کسی دنیاوی فرما نروا کا نائب نہ تھا،ظاہری شان وشوکت سے اس کا جلوس بالکل خالی تھا، خدم وحشم ،نقیب و چاؤش خیل و سپاہ میں سے ایک چیز بھی اس کے ساتھ نہ تھی، تاہم اسلام وایمان کا نور چہرہ مبارک پر چمک رہا تھا اور زبان و لب نعرہ تکبیر بلند کر رہے تھے،جس کو ہوا کی موجیں اڑا اڑا کر اہل یمن کے کانوں تک پہنچا رہی تھیں، غرض اس شان وشوکت سے رسول اللہ ﷺ کا رسو ل پہنچا تو قصر کفر کی بنیادیں ہل گئیں اور کفر ستانِ یمن نعرہ توحید سے گونج اٹھا۔ حضرت معاذؓ بن جبل ملک یمن کے صرف امیر ہی نہ تھے ؛بلکہ محکمۂ مذہبی کے بھی انچارج تھے ،ایک طرف اگر وہ صوبۂ یمن کے والی و گورنر تھے تو دوسری طرف دین اسلام کے مبلغ و معلم بھی اس لیے حضرت معاذؓ عدالت و قضاء کے فرائض کے علاوہ مذہبی خدمات بھی انجام دیتے تھے ؛مثلاً لوگوں کو قرآن مجید پڑھانا اور اسلام کے احکام کی تعلیم و تلقین کرنا۔ قبیلہ حولان کی ایک عورت ان کے پاس آئی، اس کے 12 بیٹے تھے، جن میں سب سے چھوٹا بھی بے داڑھی مونچھ کے نہ تھا شوہر کو گھر میں تنہا چھوڑ کر ان سب کو اپنے ساتھ لائی تھی ضعف کا یہ حال تھا کہ دو بیٹے اس کے بازو پکڑے ہوئے تھے آکر پوچھا آپ کو یہاں کس نے بھیجا ہے؟ حضرت معاذؓ نے کہا مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے بھیجا ہے، اس نے کہا تو آپ رسول اللہ ﷺ کے فرستادہ ہیں؟ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں، کیا آپ بتائیں گے؟ حضرت معاذؓ نے کہا ہاں جو جی چاہے پوچھو، اس نے کہا یہ بتائیے کہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے،حضرت معاذؓ نے کہا حتی الامکان خدا سے ڈر ے اور اس کی اطاعت و فرما نبرداری کرے اس نے کہا آپ کو خدا کی قسم ٹھیک ٹھیک بتائیے ،حضرت معاذؓ بن جبل نے کہا کیا اتنے پر تم راضی نہیں وہ بولی کہ لڑکوں کا باپ بہت بوڑھا ہے میں اس کا حق کس طرح ادا کروں؟ حضرت معاذ نے کہا جب یہ بات ہے تو تم ان کے حق سے کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتیں، اگر جذام نے ان کا گوشت پھاڑ دیا ہو اوراس میں سے خون اور پیپ بہ رہا ہو اور تم اپنا منہ اس میں لگادو تب بھی حق نہ ادا ہوگا۔ [26]

یمن کا ملک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانچ حصوں پر تقسیم کر دیا تھا، صنعاء،کندہ، حضر موت،جند، زبید،(رمعہ، عدن اور ساحل تک اس میں شامل تھے) یمن کا صدر مقام جند تھا اور حضرت معاذؓ بن جبل یہیں رہتے تھے ، باقی چار حصوں میں حسب ذیل حضرات حاکم تھے۔ حضرت خالدؓ بن سعید صنعاء حضرت مہاجرؓ بن ابی امیہ کندہ حضرت زیادؓ بن لبید حضر موت حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ زبید اور ساحل یہ چاروں بزرگ اپنے اپنے علاقوں سے صدقہ اور جزیہ وغیرہ کی رقمیں وصول کرکے حضرت معاذؓ کے پاس بھیج دیتے تھے،خزانہ حضرت معاذؓ کے پاس تھا۔ حضرت معاذؓ اپنے ماتحت عمال کے علاقوں میں دورہ کرتے تھے، اُن کے فیصلوں کی دیکھ بھال کرتے تھے اور ضرورت کے وقت خود مقدمہ کی سماعت کرتے تھے چنانچہ ابو موسیٰ اشعریؓ کے علاقہ میں جاکر ایک مقدمہ کا فیصلہ کیا تھا، دورہ میں خیموں میں قیام فرماتے تھے؛چنانچہ یہاں بھی آپ کے لیے خیمہ ہی نصب کیا گیا اور آپ اس میں فروکش ہوئے اور اس کے قریب ہی حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ بھی ایک خیمہ میں مقیم ہوئے۔ [27] حضرت معاذؓ صدقات کی تحصیل اس فرمان کے مطابق کرتے تھے جو رسول اللہ ﷺ کو لکھوا کر عطا فرمایا تھا، یہ فرمان تاریخ کی کتابوں میں بتمامہا [28] مذکور ہے، اس میں غنیمت ،خمس، صدقات،جزیہ اور بہت سے مذہبی احکام کی تفصیل ہے،حضرت معاذؓ نے ہمیشہ اس پر عمل کیا۔ ایک مرتبہ گایوں کا ایک گلہ ایک شخص لے کر آیا، گائیں تعداد میں 30 سے کم تھیں ،رسول اللہ ﷺ نے ان کو حکم دیا تھا کہ ایک بچہ لینا، اس لیے حضرت معاذ نے کہا کہ میں تا وقتیکہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھ نہ لوں اس پر کچھ نہ لوں گا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے متعلق مجھ سے کچھ نہیں فرمایا، اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ عہد نبوت کے عمال دنیاوی حکومتوں کے امرا وعمال کی طرح جبار اور ظالم نہیں ہوتے تھے،راعی اور رعایا کے جو تعلقات اسلام نے بیان کیے ہیں ان کی ہمیشہ نگہداشت کرتے تھے اور راعی پر شریعت کی طرف سے جو ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں وہ ان پر نہایت شدت سے عمل در آمد کرتے تھے۔ فیصلوں میں بھی اس کی رعایت رکھی جاتی تھی کہ رعایا کی حق تلفی نہ ہو عمال کی عدالتوں میں حق وصداقت کو غلبہ ہوتا تھا، ایک یہودی مرگیا، ورثہ میں صرف ایک بھائی تھا جو مسلمان ہو چکا تھا، حضرت معاذؓ کی عدالت میں مرافعہ (اپیل ) ہوا، تو انھوں نے بھائی کو ترکہ دلوایا۔ [29] حضرت معاذؓ بن جبل کی حکومت یمن میں 2 برس رہی میں وہ عامل بناکر یمن بھیجے گئے تھے اور 11ھ میں خود ہی اپنی مرضی سے واپس آگئے۔ حضرت معاذؓ نے یمن میں بیت المال کے روپیہ سے تجارت کی تھی اس سے جو منافع تھا اس سے اپنا قرض پورا کیا، [30] اس کے ماسوا ہدیہ کی رقم بھی رسول اللہ کے حکم سے قبول کی تھی ؛چنانچہ جب یمن سے روانہ ہوئے تو 30 راس ان کے ساتھ تھیں ،یہ سب گو ایک طرح سے خود امیر وقت کے اشارہ کے مطابق ہوا تھا، لیکن چونکہ کوئی تصریحی حکم نہ تھا، اس لیے بیت المال کے سرمایہ سے اتنا فائدہ اٹھانا بھی کھٹکتا تھا ۔[31]

یمن سے واپسی[ترمیم]

گورنری کی میعاد ختم کرکے مدینہ منورہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ کا عہدِ خلافت تھا، حضرت معاذؓ بن جبل مال و متاع کے ساتھ آئے تو حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مشورہ دیا کہ ان کے گذر اوقات کے بقدر علاحدہ کرکے بقیہ سارا سامان ان سے وصول کر لیا جائے، حضرت ابوبکرؓ صدیق نے کہا کہ ان کو رسول اللہ نے حاکم بناکر بھیجا تھا، اگر ان کی مرضی ہوگی اور میرے پاس لائیں گے تو لے لوں گا، ورنہ ایک حبہ نہ لونگا، حضرت ابوبکرؓ سے یہ صاف جواب ملا تو حضرت عمرؓ خود حضرت معاذؓ کے پاس پہنچے اوران سے اپنا خیال ظاہر کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے صرف اس لیے بھیجا تھا کہ وہاں رہ کر اپنے نقصان کو پورا کرلوں، میں کچھ بھی نہ دونگا، حضرت عمرؓ خاموش ہوکر واپس چلے آئے، تاہم وہ اپنے خیال پر قائم تھے۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے گو اس وقت حضرت عمرؓ بن خطاب سے انکار کر دیا ؛لیکن آخر تائید غیبی نے حضرت عمرؓ بن خطاب کی موافقت کی،حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب میں دیکھا کہ وہ پانی میں غرق ہو رہے ہیں حضرت عمرؓ بن خطاب نے آکر نکالا اور اس مصیبت سے نجات دی سو کے اٹھے تو سیدھے حضرت عمرؓ بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور خواب بیان کرکے کہا کہ جو آپ نے کہا تھا مجھے منظور ہے وہاں سے حضرت ابوبکرؓ صدیق کی خدمت میں آئے اور خواب کا پورا واقعہ سنا کر قسم کھائی کہ جو کچھ ہے سب لاکر دونگا حضرت ابوبکرؓ صدیق نے فرمایا میں تم سے کچھ نہ لونگا،میں نے تم کو ہبہ کر دیا، حضرت عمرؓ نے حضرت معاذؓ سے کہا اب اپنے پاس رکھو، اب تمھیں اجازت مل گئی۔ [32]

شام کی روانگی[ترمیم]

یہ مراحل طے ہو گئے تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا قصد کیا اور اپنے اہل و عیال کو لے کر وہیں سکونت پزیر ہو گئے حضرت ابوبکرؓ نے انتقال کیا تو حضرت عمرؓ بن خطاب خلیفہ ہوئے فتوحات اسلامی کا سیلاب بلاد شام سے گذر رہا تھا، حضرت معاذؓ بھی فوج میں شامل تھے اور میدانوں میں داد شجاعت دیتے تھے۔ [33]

سفارت[ترمیم]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیم کی خوبی دیکھیے کہ صحابہؓ میں بیک وقت مختلف کاموں اور گونا گوں فرائض کے انجام دینے کی قابلیت پیدا ہو گئی تھی،یہیں حضرت معاذؓ بن جبل مفتی شرع بھی تھے،مجلس ملکی کے ارکان بھی، جامع حمص میں قرآن وحدیث کے معلم بھی تھے اور صوبہ یمن کے کہ رسول اللہ کے عہد میں سلطنت کا سب سے بڑا صوبہ تھا حاکم وقت بھی ، اسلام کے سفیر بھی تھے اور میدانِ جنگ میں غازی و شجاع و مجاہد بھی۔

سفارت کا منصب تفویض ہوا تو نہایت خوش اسلوبی سے متعلقہ فرائض انجام دیے، شام کے ایک شہر فحل میں 14ھ میں معرکہ کی تیاریاں ہوئیں تو رومی صلح پر آمادہ ہوئے اور ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سپہ سالار لشکر اسلام کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ کسی شخص کو سفیر بناکر ہمارے پاس بھیجے، حضرت ابو عبیدہؓ نے حضرت معاذؓ بن جبل کو تجویز کیا، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ رومی لشکر میں پہنچے تو وہاں نہایت سازو سامان سے دربار آراستہ کیا گیا تھا ،ایک خیمہ نصب تھا جس میں دیبائے زریں کا فرش بچھا ہوا تھا، معاذؓ نے یہ تکلفات دیکھے تو باہر کھڑے ہو گئے، ایک عیسائی نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ گھوڑا میں تھام لیتا ہوں، آپ اندر تشریف لے جائیں، حضرت معاذؓ جن کی بزرگی اور تقدس کا عیسائیوں تک میں چرچا تھا، فرمایا کہ میں اس فرش پر جو غریبوں کا حق چھین کر تیار کیا گیا ہے بیٹھنا پسند نہیں کرتا، یہ کہہ کر زمین پر بیٹھ گئے، عیسائیوں نے افسوس کیا ہم آپ کی عزت کرنا چاہتے تھے ؛لیکن آپ کو خود اس کا خیال نہیں، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذؓ کو غصہ آگیا گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور فرمایا جس کو تم عزت سمجھتے ہواس کی مجھے حاجت نہیں،اگر زمین پر بیٹھنا غلاموں کا شیوہ ہے تو مجھ سے بڑھ کر خدا کا کون غلام ہو سکتا ہے،رومی حضرت معاذؓ کی اس آزادی اور بے پروائی پر سخت متحیر تھے؛ یہاں تک کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ مسلمانوں میں تم سے بھی بڑھ کر کوئی ہے انھوں نے کہا،"معاذ اللہ یہی بہت ہے کہ میں سب سے بد تر ہوں" رومی خاموش ہو گئے، حضرت معاذؓ نے کچھ دیر انتظار کرکے ترجمان سے فرمایا کہ رومیوں سے کہو کہ اگر وہ کوئی معاملہ کی گفتگو کرنا چاہتے ہیں تو ٹھہروں ورنہ جاتا ہوں ،رومیوں نے کہا ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ ہمارے ملک پر کیوں حملہ کیا گیا؟ حبشہ کا ملک عرب سے قریب ہے،فارس کا بادشاہ فوت ہو چکا ہے اور سلطنت کی باگ ایک عورت کے ہاتھ میں ہے،ان ملکوں کو چھوڑ کر تم نے ہماری ہی طرف کیوں رخ کیا، حالانکہ ہمارا بادشاہ، تاجدارانِ روئے زمین کا شاہنشاہ ہے اور تعداد میں ہم آسمان کے ستاروں اور زمین کے ذروں کے برابر ہیں، حضرت معاذؓ نے کہا ہمیں تم سے جو کچھ کہنا ہے اس کا ماحصل یہ ہے کہ مسلمان ہو جاؤ، ہمارے قبلہ کی طرف نماز پڑھو، شراب چھوڑ دو، سور کا گوشت چھوڑ دو، اگر تم ایسا کرو گے تو ہم تمھارے بھائی ہیں اور اگر اسلام منظور نہیں تو جزیہ دو اوراس سے بھی اگر انکار ہے تو اعلان جنگ کرتا ہوں،اگر تم آسمان کے ستاروں اور روئے زمین کے ذروں کے برابر ہو تو ہم کو قلت و کثرت کی قطعی پروا نہیں۔

اور ہاں تم کو اس پر ناز ہے کہ تمھارا شہنشاہ تمھاری جان اور مال کا مالک ہے لیکن ہم نے جس کو بادشاہ بنایا ہے، وہ اپنے آپ کو ہم پر ترجیح نہیں دے سکتا، اگر وہ زنا کا مرتکب ہو تو اسے درے لگائے جائیں اور چوری کرے تو اس کے ہاتھ کاٹے جائیں وہ پردے میں نہیں بیٹھتا اپنے کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا، مال و دولت میں بھی اس کو ہم پر کوئی ترجیح نہیں، رومیوں نے ان باتوں کو بڑے غور سے سنا اور اسلام کی تعلیم پر پیرادان دین حنیف کے طور و طریق پر نہایت حیرت زدہ ہوئے ،حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے کہا ہم آپ کو بلقاء کا ضلع اور دون کا وہ حصہ جو آپ کے علاقہ سے متصل ہے دیتے ہیں، آب آپ لوگ اس ملک کو چھوڑ کر فارس جائیے، چونکہ یہ کوئی خرید و فروخت کا معاملہ نہ تھا، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا جواب نفی میں دیا اور اٹھ کر وہاں سے چلے آئے۔[34]

فوجی خدمات[ترمیم]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ اپنے عہد کے تمام غزوات میں بڑے بڑے عہدوں پر مامور ہوئے ، تاہم دو موقعوں پر ان کو نہایت ممتاز فوجی عہد ے تفویض ہوئے ایک مرتبہ سفارت سے واپس آئے تو لڑائی کی تیاریاں شروع ہوئیں، اس موقع پر ان کو جو امتیاز حاصل ہوا، وہ یہ تھا کہ ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ان کو میمنہ کا افسر بنایا۔ جنگ یرموک میں بھی جو 15ھ میں ہوئی تھی اور نہایت معرکہ کی تھی ، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو میمنہ کے ایک حصہ کا افسر بنایا گیا، عیسائیوں کا حملہ اس زور وشور کا تھا کہ مسلمانوں کا میمنہ ٹوٹ کر فوج سے علاحدہ ہو گیا تھا، حضرت معاذؓ نے یہ حالت دیکھی تو نہایت استقلال اور ثابت قدمی کا ثبوت دیا گھوڑے سے کود پڑے اور کہا میں پیدل لڑوں گا ،اگر کوئی بہادر اس گھوڑے کا حق ادا کرسکے تو گھوڑا حاضر ہے، ان کے بیٹے بھی میدان میں موجود تھے بولے یہ حق میں ادا کروں گا، کیونکہ میں سوار ہوکر اچھا لڑ سکتا ہوں،غرض دونوں باپ بیٹے رومی فوج کو چیر کر اندر گھس گئے اور اس دلیری سے لڑے کہ مسلمانوں کے اکھڑے ہوئے پاؤں پھر سنبھل گئے۔ [20]

مجلس شوریٰ کی رکنیت[ترمیم]

مجلس شوریٰ کی باضابطہ شکل اگرچہ عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں عالم وجود میں آئی؛ لیکن اس کا خاکہ عہد صدیقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں تیار ہو چکا تھا، چنانچہ ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جن لوگوں سے سلطنت کے مہمات امور میں مشورہ لیتے تھے ان میں حضرت معاذؓ کا نام نامی بھی داخل تھا، حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں مجلس شوریٰ کا باقاعدہ انعقاد کیا، تو حضرت معاذؓ اس زمانہ میں بھی اس کے رکن تھے۔ [35][8]

افواجِ شام کی سپہ سالاری[ترمیم]

عہد فاروقی میں ملک شام کی تمام فوج حضرت ابو عبیدہؓ کے ماتحت تھی 18ھ میں نہایت زور شور سے شام میں طاعون نمودار ہوا، جو طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے ،حضرت ابو عبیدہؓ نے اسی میں وفات پائی ،انتقال کے قریب حضرت معاذؓ کو اپنا جانشین بنایا اور چونکہ نماز کا وقت آچکا تھا، حکم دیا کہ وہی نماز پڑھائیں ادھر نماز ختم ہوئی، اُدھر انھوں نے داعیِ اجل کو لبیک کہا اور حضرت معاذؓ بن جبل کچھ دنوں سپہ سالاری کے منصب پر فائز رہے۔

وفات[ترمیم]

وبا اسی طرح زوروں پر تھی اور لوگ سخت پریشان تھے، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہاں سے ہٹ چلو، یہ بیماری نہیں بلکہ آگ ہے، حضرت معاذؓ نے سنا تو نہایت برہم ہوئے کھڑے ہوکر ایک خطبہ دیا جس مین عمروؓ کو سخت و سست کہا، اس کے بعد فرمایا کہ یہ وباء بلاء نہیں خدا کی رحمت ہے،نبی کی دعوت ہے اور صالحین کے اٹھنے کی ساعت ہے ،میں نے آنحضرت سے سنا تھا کہ مسلمان شام میں ہجرت اختیار کریں گے، شام اسلام کے علم کے نیچے آجائے گا ،پھر ایک بیماری پیدا ہوگی، جو پھوڑے کی طرح جسم کو زخمی کرے گی جو اس میں مرے گا شہید ہوگا اوراس کے اعمال پاک ہوجائیں گے،الہی اگر میں نے یہ حدیث رسول اللہ سے سنی ہے تو یہ رحمت میرے گھر میں بھیج اور مجھ کو اس میں کافی حصہ دے۔ تقریر ختم کر کے اپنے بیٹے کے پاس آئے جن کا نام عبد الرحمنؓ تھا، دعا قبول ہو چکی تھی،دیکھا تو بیٹا اسی بیماری میں مبتلا تھا، باپ کو دیکھ کر کہا "الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ" یہ موت جو حق ہے،خدا کی طرف سے ہے،شک کرنے والوں میں نہ ہوجیے ، حضرت معاذ بن جبل نے جواب دیا" سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ" تو انشااللہ مجھے صابروں میں پائے گا، حضرت عبد الرحمنؓ نے انتقال کیا، بیٹے کے فوت ہونے سے پہلے دو بیویاں اسی بیماری میں مر چکی تھیں، اب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تنہا رہ گئے تھے،ساعت مقرر ہ آئی تو خدا کا بندہ خاص بھی دائرہ ٔرحمت میں شامل ہوا، دائیں ہاتھ کی کلمہ والی انگلی میں پھوڑا نکلا [36] حضرت معاذؓ بن جبل نہایت خوش تھے،فرماتے تھے کہ تمام دنیا کی دولت اس کے سامنے ہیچ ہے تکلیف اس قدر تھی کہ بے ہوش ہو ہو جاتے تھے باایں ہمہ جب ہوش آتا تو کہتے "خدایا مجھ کو اپنے غم میں غمگین کر ؛کیونکہ میں تجھ سے نہایت محبت رکھتا ہوں اور اس کو تو خوب جانتا ہے" پھر بے ہوش ہو جاتے جب افاقہ ہوتا تو پھر یہی فرماتے وفات کی رات بھی عجیب رات تھی حضرت معاذؓ بن جبل نہایت بے چین تھے بار بار پوچھتے تھے "دیکھو صبح ہوئی" لوگ کہتے کہ ابھی نہیں جب صبح ہوئی اور خبر کی گئی تو فرمایا، اس رات سے خدا کی پناہ جس کی صبح جہنم میں داخل کرتی ہو،مرحبا اے موت!مرحبا! تو اس دوست کے پاس آئی جو فاقہ کی حالت میں ہے،الہی میں تجھ سے جس قدر خوف کرتا تھا،تجھ کو خوب معلوم ہے،آج میں تجھ سے بڑی امیدیں رکھتا ہوں میں نے کبھی دنیا اور درازی عمر کو اس لیے پسند نہیں کیا کہ درخت بونے اور نہر کھودنے میں وقت صرف کرتا؛ بلکہ اس لیے چاہتا تھا کہ فضائح و فواحش سے دور رہوں، کرم وجود کو فروغ دوں اور ذکر کے حلقوں میں علما کے پاس بیٹھوں وفات کا وقت قریب پہنچا تو حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ گریہ وبکا میں مشغول تھے لوگوں نے تسلی دی کہ آپ رسول اللہ کے صحابی ہیں اس کے ماسوا فضائل ومناقب سے ممتاز ہیں،آپ کو رونے کی کیا ضرورت ؟حضرت معاذؓ نے فرمایا مجھے نہ موت کی گھبراہٹ ہے اور نہ دنیا چھوڑنے کا غم،مجھے عذاب وثواب کا خیال ہے ،اسی حالت میں روح مطہر جسم سے پرواز کر گئی اور خالقِ کون و مکاں کا پیارا اپنے محبوب آقا کے جوار رحمت میں پہنچ گیا۔

وفات کے وقت حضرت معاذؓ کی عمر شریف 38 سال کی تھی اور 18ھ تھا ،وفات بھی نہایت مبارک خط میں واقع ہوئی ، بیت المقدس اور دمشق کے درمیان غور نامی ایک صوبہ تھا جس میں بیسان ایک مشہور شہر تھا،جو نہر اردن کے قریب واقع تھا، اسی میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے وفات پائی ،شہر کے مشرقی طرف وہ مقدس مقام واقع تھا جہاں سے حضرت عیسیٰ آسمان پر اٹھا لیے گئے تھے، مدفن کے لیے وہی مقام تجویز ہوا اور نعش مبارک وہیں سپرد خاک کی گئی۔ [7][23]

حلیہ[ترمیم]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حلیہ یہ تھا رنگ سپید ،چہرہ رشن، قد دراز ، آنکھیں سرمگیں اور بڑی بڑی ابرو پیوستہ، بال سخت گھونگھر والے،آگے دانت صاف اور چمکدار ،بات کرنے میں دانت کی چمک ظاہر ہو جاتی تھی جس کو ان کا ایک عقیدت کیش "نور"اور"موتی" سے تعبیر کرتا ہے آواز بہت پیاری اور گفتگو نہایت شیریں تھی حسن ظاہر کے لحاظ سے وہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم میں ممتاز تھے ۔ [33]

اولاد[ترمیم]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا سن ہی کیا تھا وفات کے وقت وہ شباب کی دوسری منزل پر تھے تاہم صاحب اولاد تھے اگرچہ بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ لم یولد لہ قط یعنی حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے سرے سے اولاد ہی نہیں ہوئی، لیکن مستند ذرائع سے ان کے ایک بیٹے کا پتہ چلتا ہے،جن کا نام عبد الرحمن تھا،صاحب استیعاب کا بیان ہے کہ یہ حضرت معاذؓ کے ساتھ یرموک میں شریک تھے اور 18ھ میں طاعون عمواس میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے پیشتر وفات پائی۔ ازواج کی تفصیل اگرچہ نامعلوم ہے،لیکن اتنا پتہ چلتا ہے کہ طاعون عمواس میں ان کی دو بیویوں نے وفات پائی۔ [31]

حدیث[ترمیم]

رسول اللہ کے زمانہ میں اگرچہ صحابہؓ کو روایت حدیث کی بہت کم ضرورت پڑتی تھی کہ خود حامل نبوت سامنے تھا، تاہم اس زمانہ میں بھی متعدد صحابہؓ نے ان سے حدیثیں روایت کی ہیں؛چنانچہ حضرت انس بن مالک کا واقعہ اسد الغابہ میں مذکور ہے،لیکن چونکہ وہ احادیث کی روایت میں بہت محتاط تھے اور نیز اس لیے بھی کہ آنحضرت کے اخیر زمانہ سے لے کر اپنی وفات تک بڑے بڑے کاموں کے انجام دینے کے لیے برابر مدینہ سے باہر رہے اس لیے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے لکھا ہے"حدیث اوچنداں باقی نماند" حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو تعلیم و روایت حدیث کے لیے شام بھیجا تھا اور وہیں ان کا 18ھ میں عین عالم شباب میں انتقال ہو گیا۔ تاہم روایت حدیث کا سلسلہ زندگی کی اخیر سانس تک جاری تھا،عمواس کے طاعون میں جب انگلی کی سوزش ان کو بستر مرگ پر تڑپارہی تھی زبان مبارک اس فرض کی ادائیگی میں مصروف تھی۔ [37]

چنانچہ وفات کے وقت حضرت جابر بن عبداللہ ؓ اور کچھ اور لوگ پاس بیٹھے تھے وفات کا وقت قریب آیا تو فرمایا پردہ اٹھاؤ میں حدیث بیان کروں گا جس کو اب تک میں نے اس لیے مخفی رکھا تھا کہ لوگ تکیہ کر بیٹھیں گے،اس کے بعد ایک حدیث بیان کی۔ [38] حضرت معاذؓ بن جبل کی روایتیں اگرچہ اور صحابہؓ سے کم ہیں تاہم ان کا شمار راویانِ حدیث کے تیسرے طبقہ میں ہے ان کی احادیث کی مجموعی تعداد (157) ہے جس میں دو حدیثوں پر بخاری اور مسلم کا اتفاق ہے۔ تلامذہ حدیث کی تعداد کثیر تھی اکابر صحابہؓ کا ایک بڑا طبقہ ان سے حدیث کی روایت کرتا ہے،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، ابو قتادہؓ انصاری، ابو موسیٰ اشعریؓ،جابر بن عبداللہ،عبداللہ بن عباسؓ، عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ، انس بن مالکؓ، ابو امامہ ؓ باہلی، ابو لیلیٰ انصاریؓ، ابو لطفیلؓ۔ تلامذہ خاص میں حسب ذیل حضرات شامل ہیں، ابن عدی،ابن ابی اوفی اشعری، عبد الرحمن بن سمرۃ بعثی،جابر بن انسؓ، ابو ثعلبہ خشنی، جابر بن سمرۃ السوائی، مالک بن نیحا مر، عبد الرحمن بن غنم ،ابو مسلم خولانی، ابو عبد اللہ صنابحی، ابو وائل ،مسروق ،جنادہ بن ابی امیہ، ابو ادریس خولانی، جبیر بن نفیر، اسلم مولی حضرت عمرؓ، اسود بن ہلال، اسود بن یزید وغیرہم[31]

فقہ[ترمیم]

خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت معاذؓ کا شماراکابر فقہا میں تھا، اس سے بڑھ کر شرف اور کیا ہو سکتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فقیہ ہونے کی شہادت دی اور فرمایا اعلمھم بالحلال والحرام معاذ ابن جبلؓ ہمارے صحابہ میں حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر ان کے متعلق کہا لولا معاذ لھلک عمر یعنی اگر معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ ہوں تو عمر ہلاک ہوجائے، اس سے حضرت معاذؓ بن جبل کے رتبہ اجتہاد ودرجۂ استنباط پر کافی روشنی پڑتی ہے،حضرت عمرؓ نے اس کے علاوہ اور بھی متعدد مرتبہ حضرت معاذؓ کے فقیہ ہونے کا اعلان کیا چنانچہ جب جابیہ میں خطبہ دیا تو فرمایا: من اراد أن يسأل عنه الفقه فليأت معاذا یعنی جسے فقہ سیکھنا ہو وہ معاذ کے پاس جائے[20]

طلب علم اور شوق تحصیل[ترمیم]

ان اوراق کو پڑھ کر تم کو تعجب ہوگا کہ ان کو یہ فضل وکمال کا منصب کیونکر ہاتھ آیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو ان کا فطری شوق اور طبعی ذکاوت و ذہانت جس کا ہر موقع پر اظہار ہوتا تھا دوسرے خود معلم نبوت کا ایسے جوہر قابل اور مستند طالب علم کی طرف جوش التفات وعنایت خاص، حضرت معاذؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اکثر حاضر رہتے تھے،اس کے علاوہ آنحضرت کی ہر مجلس تعلیم و تربیت کی ایک درسگاہ ہوتی تھی، اس لیے ان کو اکثر اوقات اس سے استفادہ کا موقع حاصل ہوتا تھا۔

حضرت معاذ بسا اوقات آنحضرت کے ساتھ تنہا ہوتے تھے آنحضرت ایسے اوقات خاص میں ان کو مختلف مسائل تعلیم کیا کرتے تھے کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ حضرت معاذ کو کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت ہوتی تو آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور اگر آنحضرت ﷺ تشریف نہ رکھتے تو وہ آپ کی تلاش میں دور تک نکل جاتے ؛چنانچہ ایک مرتبہ کاشانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ کہیں تشریف لے گئے ہیں تلاش کے لیے نکلے تو راستہ میں لوگوں سے پوچھتے جاتے تھے کہ حضور کدھر تشریف لے گئے ہیں،آخر ایک جگہ آپ کو پالیا، آنحضرت ﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے وہ بھی پیچھے کھڑے ہو گئے اور نماز کی نیت باندھ لی، اس دن آپ نے دیر تک نماز ادا فرمائی ،فارغ ہوئے تو معاذ نے پوچھا کہ "حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑی لمبی نماز پڑھی"؟فرمایا"یہ ترغیب و ترہیب کی نماز تھی میں نے خدا سے تین باتوں کی درخواست کی تھی جس میں دو کے متعلق رضا مندی ظاہر ہوئی اور ایک کی نسبت میں روک دیا گیا، میں نے یہ چاہا تھا کہ میری امت غرق ہونے سے محفوظ رہے تو یہ درخواست منظور کرلی گئی، ایک یہ خواہش کی تھی کہ غیر مسلم دشمن اسلام پر غالب نہ آسکے تو وہ بھی پوری کی گئی، ایک تمنا یہ تھی کہ مسلمانوں میں اختلاف و تفریق نہ پڑنے پائے تو اس کو مسترد کر دیا گیا۔ [39] غزوۂ تبوک سے مراجعت کے وقت رسول اللہ ﷺ کو تنہا اور خالی پاکر حضرت معاذ نے پوچھا کہ مجھ کو وہ عمل بتائیے جو میرے دخولِ جنت کا سبب بنے ،آنحضرتﷺ اس سوال سے نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا: نج لقد سألت عن عظیم یعنی تم نے بہت بڑی بات پوچھی [40]

اس کے ساتھ ہی یہ بھی خوف لگا رہتا تھا کہ کہیں اور لوگ خلل انداز نہ ہوں؛ کیونکہ شمع نبوت کے گرد ہر وقت پروانوں کا ہجوم رہتا تھا؛چنانچہ اسی روایت میں حضرت معاذؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ ابھی فرما ہی رہے تھے کہ کچھ لوگ آتے دکھائی دیے مجھ کو ڈر لگا کہ رسول اللہ ﷺ کی توجہ میری طرف سے منعطف نہ ہوجائے میں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ فلاں بات جو آپ نے فرمائی تھی اس کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس کو بیان فرمایا۔ [41] حضرت معاذؓ کو ایسے موقع کی ہر وقت تلاش رہتی تھی، موقع ملنے پر آنحضرت ﷺ سے فورا ًسوال کرتے تھے،لیکن پاس نبوت ضروری تھا، رسول اللہ ﷺ کا مزاج پہچان کر سوال کی جرأت کرتے تھے ، غزوۂ تبوک سے قبل لوگ طلوع آفتاب کے وقت سواریوں پر سو رہے تھے اور اونٹ ادھر ادھر راستہ میں چر رہے تھے،حضرت معاذؓ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے، آنحضرت ﷺ بھی مصروفِ خواب تھے اور ناقۂ مبارک چرنے اور کھانے میں مشغول،حضرت معاذؓ کے اونٹ نے ٹھوکر کھائی،انھوں نے اس کی مہار کھینچی تو اور متوحش ہوا، اس کے بدکنے سے رسول اللہ ﷺ کا اونٹ بھی بدکا، آنحضرت ﷺ خواب سے بیدار ہوئے مڑکر پیچھے دیکھا تو معاذؓ سے زیادہ کوئی قریب نہ تھا، آپ نے پکارا معاذؓ!انھوں نے کہا حضور آپ ﷺ نے فرمایا میرے قریب آجاؤ،حضرت معاذ اس قدر قریب آگئے کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت معاذ کے اونٹ بالکل برابر ہو گئے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا دیکھو لوگ کس قدر دور ہیں، حضرت معاذؓ نے کہا سب لوگ سو رہے ہیں اور جانور چر رہے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا میں بھی سو رہا تھا،آپ ﷺ کا رخ اور التفات دیکھا تو کہا یا رسول اللہ !آپ اجازت دیں تو ایسے امر کی نسبت سوال کروں جس نے مجھ کو غمگین مریض اور سقیم بنادیا ہے،آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو چاہو پوچھ سکتے ہو۔ [42] ایک اور سفر میں جیسا کہ آپ کہیں اوپر پڑھ چکے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو تین دفعہ پکارا اور ہر دفعہ انھوں نے ادب سے جواب دیا،چنانچہ تیسری دفعہ ان کو پکارا تو فرمایا کہ : کلمہ لا الہ الا اللہ کا قائل جنت میں داخل ہوگا ،اگرچہ وہ گنہگار ہو،حضرت معاذ نے اس کا اعلان کرنا چاہا تو فرمایا ایسا نہ کرو لوگ عمل چھوڑ بیٹھیں گے۔ طبیعت تلاش اور کرید کی عادی تھی،ایک شخص نے آنحضرت سے ایک خاص مسئلہ دریافت کیا تھا، آپ نے اس کا جواب مرحمت فرمایا، ایک ظاہر بیں کے لیے وہ جواب بالکل کافی تھا ،لیکن حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا ، پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ حکم اس شخص کے لیے خاص ہے،یا تمام مسلمانوں کے لیے ہے آپ نے فرمایا نہیں عام ہے۔ [43]

منصب تعلیم[ترمیم]

تحصیل علم میں جدوجہد اور مسائل میں غور وخوض کا مرحلۂ دشوار گزار طے ہوا تو منزل مقصود سامنے تھی، یعنی یہ کہ فیض تربیت سے وہ فقیہ امام مجتہد اور معلم سب بن گئے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک ہی میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مسند ارشاد پرمتمکن ہو چکے تھے میں کہ فتح مکہ ہوا تو آنحضرت ان کو مکہ میں چھوڑ گئے کہ یہیں رہ کر لوگوں کو فقہ وسنت کی تعلیمی دیں۔ [44]

میں والیٔ یمن بناکر بھیجا،تو فصل قضایا کے علاوہ اہل یمن کی تعلیم بھی انہی کے ذمہ کی حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں بھی منصب افتا پر سرفراز تھے،حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں اہل شام کو تعلیم کی ضرورت تھی، یزید بن ابی سفیان والی شام نے حضرت عمرؓ کو لکھا کہ کچھ لوگوں کو اس غرض کے لیے یہاں بھیجیے، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت معاذ بن جبل وغیرہ کو بلایا اور شام جانے کی ہدایت کی حضرت معاذ نے فلسطین میں سکونت اختیار کی اور تعلیم میں مشغول ہوئے،تمام ملک شام میں صرف دو صحابی تھے جن کی ذات علوم و فنون کا مرکز بنی ہوئی تھی حضرت معاذؓ ان میں سے ایک تھے۔ حضرت معاذؓ کی سکونت اگرچہ علاقہ فلسطین میں محدود تھی؛ لیکن اشاعت علوم کا دائرہ غیر محدود تھا، فلسطین سے متجاوز ہوکر دمشق اور حمص تک میں ان کے حلقۂ درس قائم تھے اور خود حضرت معاذؓ نے ان مقامات میں جاکر درس دیا تھا طریقہ یہ تھا کہ مجلس میں چند صحابہ کرام ؓ کسی مسئلہ پر مباحثہ کرتے،حضرت معاذ خاموش بیٹھے رہتے ،جب معاملہ طے نہ ہوتا تو حضرت معاذؓ اس کا فیصلہ کرتے تھے ۔

ابو ادریس خولانی ایک مرتبہ جامع دمشق میں گئے تو دیکھا کہ ایک خوبصورت نوجوان بیٹھا ہے اور اس کے گرد لوگ جمع ہیں جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ ان کو تسلی بخش جواب دیتا ہے پوچھا کون ہے؟ لوگوں نے کہا حضرت معاذؓ بن جبل ہیں۔ [45] ابو مسلم خولانی جامع حمص میں آئے تو دیکھا کہ ایک حلقہ قائم ہے جس میں 32 صحابہؓ بیٹھے ہیں اور سب سن کہولت کو پہنچ چکے ہیں،ان میں ایک نوجوان بھی ہے جب کسی مسئلہ میں اختلاف رائے ہوتا ہے تو نوجوان سے فیصلہ کراتے ہیں معلوم ہوا کہ یہ نوجوان معاذ بن جبل ہیں۔[46] غرض حضرت معاذؓ بن جبل کے درس و افادہ کا سلسلہ حمص تک وسیع تھا، شہروں کی جامع مسجدیں درسگاہ کا کام دیتی تھیں، وہ مختلف شہروں میں دورہ کرتے تھے اور جہاں جاتے تھے فیض و برکت کا سر چشمہ جاری ہو جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں صرف تین عالم ہیں، جن میں ایک شام میں اقامت پزیر ہے، یہ حضرت معاذؓ بن جبل کی طرف اشارہ تھا، حضرت عبداللہ بن عمرؓ لوگوں سے پوچھتے تھے کہ جانتے ہو عقلا ءکون ہیں؟ لوگ لا علمی ظاہر کرتے تو فرماتے معاذ بن جبل اور ابو درداءؓ عقلاء سے مقصود ظاہر ہے کہ علمائے شریعت ہیں۔ مجتہد کے لیے سب سے زیادہ ضروری اصابت رائے ہے، حضرت معاذؓ اس درجہ صائب الرائے تھے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے بعض موقعون پر ان کی رائے کو پسند فرمایا۔ پڑھ چکے ہیں کہ یمن روانہ کرتے وقت آنحضرت نے معاذؓ بن جبل سے پوچھا تھا کہ "مقدمہ آئے گا تو کیونکر فیصل کروگے؟" حضرت معاذؓ نے جواب دیا کتاب اللہ سے آپ نے فرمایا اگر اس میں نہ پاؤ، تو عرض کی سنت رسول اللہ ﷺ سے پھر فرمایا اگر اس میں بھی نہ پاؤ تو عرض کی کہ "اجتہاد کروں گا" یہ سن کر آنحضرت اس قدر خوش ہوئے کہ ان کے سینہ پر اپنا دست مقدس پھیرا اور فرمایا خدا کا شکر ہے جس نے تم کو اس بات کی توفیق دی جس کو میں پسند کرتا ہوں، حضرت معاذؓ کے جواب سے گویا اصول فقہ کا یہ پہلا اصول مرتب ہوا کہ احکام اسلامی کے یہ تین بہ ترتیب ماخذ ہیں اول کتاب الہی پھر حدیث نبوی اور اس کے بعد قیاس شروع زمانہ میں جو لوگ دیر میں پہنچتے اور کچھ رکعتیں چھوٹ جاتیں تو وہ نمازیوں سے اشارہ سے پوچھ لیتے کہ کتنی رکعتیں ہوئیں اور وہ اشارہ سے جواب دیدیتے ،اس طرح لوگ فوت شدہ رکعتیں پوری کرکے صف نماز میں مل جاتے تھے،ایک دن جماعت ہورہی تھی اور لوگ قعدہ میں تھے کہ معاذؓ آے اور دستور کے خلاف قبل اس کے کہ رکعتیں پوری کرتے جماعت کے ساتھ قعدہ میں شریک ہو گئے ،آنحضرت نے سلام پھیرا تو حضرت معاذ نے اٹھ کر بقیہ رکعتیں پوری کیں، آنحضرت ﷺ نے دیکھا تو فرمایا :قد سن لکم فھکذا فاصنعوا یعنی معاذؓ نے تمھارے لیے ایک طریقہ نکالا ہے تم بھی ایسا ہی کرو [47] یہ حضرت معاذؓ کے لیے کتنی قابل فخر مزیت ہے کہ ان کی سنت تمام مسلمانوں کے لیے واجب العمل قرار پائی اور آج تک اسی پر عمل در آمد ہے اور دنیا کے سارے مسلمان اسی کے مطابق اپنی فوت شدہ رکعتیں ادا کرتے ہیں۔

نماز اور روزہ کے تین دور انھوں نے جس طرح قائم کیے ہیں، [48] وہ بھی ان کے تفقہ پر شاہد عدل ہے اسی بنا پر ان کے اجتہادات جہاں دوسرے صحابہؓ سے مختلف تھے وہاں صحت اور یقین بھی انہی کو حاصل تھا۔ جماع کی ایک صورت خاص میں صحابہ کرامؓ میں اختلاف تھا، حضرت عمرؓ بن خطاب بھی نہایت متردد تھے مگر عام صحابہؓ کی تردید نہ کرسکتے تھے، لیکن حضرت معاذؓ اور حضرت علی بن ابی طالب ؓ کو سب سے اختلاف تھا،آخر حضرت عائشہؓ صدیقہ نے حضرت معاذؓ کی رائے سے اتفاق کیا اوراسی پر حضرت عمرؓ اور تمام صحابہؓ کا اجماع ہو گیا۔ [49]

اسی طرح ایک مرتبہ، ایک اور پیچیدہ صورت پیدا ہوئی، ایک حاملہ عورت کا شوہر دو برس غائب تھا لوگوں کو شبہہ ہوا ، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا،حضرت عمرؓ نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، حضرت معاذؓ موجود تھے،بولے کہ عورت کے رجم کا آپ کے بے شک حق ہے لیکن بچہ کے رجم کرنے کے کیا معنی ہیں، حضرت عمرؓ نے اس وقت چھوڑ دیا اور فرمایا وضع حمل کے بعد سنگسار کیا جائے،لڑکا پیدا ہوا تو خوبی قسمت سے اپنے باپ کے بالکل مشابہ نکلا، باپ نے دیکھا تو قسم کھا کر کہا کہ یہ تو میرا بیٹا ہے، حضرت عمرؓ کو خبر ملی تو فرمایا کہ معاذؓ کا مثل عورتیں نہ پیدا کریں گی، اگر معاذؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ [50] قدرت نے جس فیاضی سے حضرت معاذؓ بن جبل کو کمالات عطا فرمائے تھے اس کا اعتراف طبقہ صحابہؓ میں ہر کہ ومہ کو تھا،حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے عجزت النساء ان یلدن مثل معاذؓ یعنی معاذؓ جیسا شخص پیدا کرنے سے عورتیں عاجز ہیں۔[51]

وہ خلافت کے مستحق تھے[ترمیم]

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے،حضرت عمرؓ نے ایک مختصر تقریر فرمائی جس کا ایک فقرہ یہ تھا کہ اگر معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندہ ہوتے تو ان کو خلیفہ بناتا، خدا پوچھتا تو کہتا کہ اس شخص کو خلیفہ بناکر آیا ہوں جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا ہے، يأتى معاذ يوم القيامة رتوة بين العلماء ۔

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت معاذؓ کے مناقب ومحامد کا ایک ایک باب پڑھ چکے اس سے ان کی اخلاقی خصوصیات معلوم ہو گئی ہونگی،ایک مسلمان کا سب سے بڑا وصف خالق کائنات کے ساتھ والہانہ لگاؤ اوراس کی اطاعت و عبادت ہے،چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوسرے تربیت یافتگان نبوت کی طرح پچھلی پہر رات سے اٹھ کر اس کاروبار میں مصروف ہوجاتے تھے،یہ اسی عشق الہی ومحبت خداوندی کا اثر تھا کہ جب عمواس میں طاعون کی وبا پھیلی اور حضرت عمرؓ وبن العاص نے آبادی چھوڑ کر میدان میں نکل جانے کی صلاح دی تو ان کو اس تجویز سے سخت تکلیف ہوئی اور فرمایا کہ یہ رحمتِ الہی ہے، اے خدا اپنی اس رحمت کو تو میرے گھر بھیج۔

حب رسول[ترمیم]

حب الہی کے بعد حب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ ہے،سُن چکے ہیں کہ وہ جب کبھی آپ نہ پاتے تو کس طرح بے تابانہ آپ ﷺ کی تلاش میں نکل جاتے،حضور کا قاعدہ تھا کہ سفر میں آپ جب کہیں اترتے تھے تو مہاجرین کو اپنے قریب اتارتے تھے؛چنانچہ ایک بار رسول اللہ ﷺ کسی سفر میں تشریف لے گئے صحابہؓ بھی ہمراہ تھے ،ایک جگہ ان کے ساتھ منزل کی تو آنحضرت صحابہؓ کے مجمع سے جن میں معاذ بن جبلؓ بھی تھے اٹھ کر کہیں چلے گئے،معاذؓ کو بڑی پریشانی ہوئی،شام تک انتظار کرتے رہے جب آپ ﷺ نہ آئے تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو لے کر آپ ﷺ کی تلاش میں نکل گئے، راستہ میں آواز معلوم ہوئی، دیکھا تو آنحضرت ہیں، معاذؓ کو دیکھ کر حضور اکرم ﷺ نے پوچھا تمھارا کیا حال ہے ؟ ان لوگوں نے کہا کہ آج آپ ہم میں تشریف نہ رکھتے تھے، ہم کو خوف ہوا کہ خدانخواستہ کوئی ضرر نہ پہنچا ہو، اس لیے اس وقت آپ کو ڈھونڈ نے نکلے ہیں۔ [52]

ادب رسولﷺ[ترمیم]

آنحضرت کا بے حد ادب کرتے تھے ،ایک بار یمن سے آئے تو آنحضرت سے درخواست کی کہ یمن میں میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک دوسرے کو سجدہ کرتے ہیں کیا ہم آپ کو سجدہ نہ کریں؟ آنحضرت نے فرمایا کہ اگر میں کسی انسان کے لیے سجدہ جائز کرتا تو عورت سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ جناب رسالت مآب بھی اس محبت وجان نثاری کی بنا پر ان سے نہایت محبت کرتے تھے ،ایک بار حضرت معاذؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے آنحضرتﷺ نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ مجھ کو تم سے بہت محبت ہے، حضرت معاذ ؓ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا! میں بھی آپ کو نہایت محبوب رکھتا ہوں، آنحضرتﷺ نے فرمایا میں ایک وصیت کرتا ہوں اس کو کبھی ترک نہ کرنا، یہ کہہ کر ایک دعا بتائی جو حضرت معاذؓ ہر نماز کے بعد ہمیشہ پڑہتے رہے۔ (اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ)۔[53] رسول اللہ ﷺ کی وصیت کا اس قدر خیال تھا کہ اپنے تلمیذ خاص صنابحی کو حضرت معاذؓ بن جبل نے وصیت کی،صنابحی پر یہ اثر تھا کہ انھوں نے اپنے شاگرد ابو عبد الرحمن حبلی کو اور حبلی نے عقبہ بن مسلم کو اس کے پڑہنے کی وصیت کی تھی۔ [54] مذکورہ بالا واقعات تما م تر عہد نبوت سے تعلق رکھتے ہیں اور اس عہد میں حضرت معاذؓ کی محبت کا جو حال تھا وہ اوپر گذر چکا ؛لیکن رسول اللہ ﷺ کے بعد ان کی کیا کیفیت تھی اس کا بیان اب سننا چاہیے: رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد حضرت معاذ بن جبل کا اضطرار اور اضطراب قابل دید تھا، یمن سے واپس ہوکر آئے تو مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ کے جمال جہاں آرا سے محروم ہو چکا تھا، اس لیے انھوں نے مدینہ منورہ کو چھوڑ کر شام میں سکونت اختیار کی۔ شام میں بھی محبوب کا فراق چین نہ لینے دیتا تھا 16ھ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیت المقدس تشریف لے گئے،حضرت بلالؓ بھی وہاں موجود تھے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے ان سے درخواست کی آج اذان دیجئے،حضرت بلالؓ نے کہا میں تو ارادہ کرچکا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کے لیے اذان نہ دونگا ،لیکن آج آپ کا ارشاد بجا لاتا ہوں ،اذان دینی شروع کی تو صحابہؓ کو رسول اللہ ﷺ کا عہد مبارک یاد آگیا اور ان پر رقت طاری ہو گئی اور حضرت معاذ بن جبلؓ تو روتے روتے بیتاب ہو گئے۔

امر بالمعروف[ترمیم]

حضرت معاذؓ نے امر بالمعروف میں کبھی لومۃ لائم کی پروا نہ کی،شام گئے تو دیکھا کہ شامی وتر نہیں پڑہتے، امیر معاویہؓ حاکم شام تھے، ان سے پوچھا کہ ان کے وتر نہ پڑہنے کا کیا سبب ہے؟ امیر کو معلوم نہ تھا،پوچھا کیا وتر واجب ہے؟ حضرت معاذؓ نے کہا ہاں۔ [55]

جود[ترمیم]

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نہایت فیاض تھے؛چنانچہ اسی سخاوت کی بدولت ان کی تمام جائداد بیع ہو گئی اسلام کو ان کی سخاوت سے بڑا فائدہ پہنچا۔

صدق[ترمیم]

راست گفتاری ان کی مسلم تھی اور خود رسول اللہ ﷺ نے ان کی صداقت کی تصدیق فرمائی تھی،حضرت انسؓ بن مالک سے حضرت معاذؓ نے ایک حدیث بیان کی حضرت انسؓ نے رسول اللہ سے جاکر پوچھا کہ آپ نے معاذؓ سے یہ فرمایا تھا؟ آنحضرت نے فرمایا [56] صدق معاذ! صدق معاذ!صدق معاذ ! کینہ وحسد سے مبرا تھے،اقران اور ہمعصر اکثر حسد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں،چند باکمال ایک زمانہ میں موجود ہوں تو کبھی ایک دوسرے کو اچھا نہ کہے گا؛ لیکن رسول اللہ کی تعلیم نے صحابہؓ کو اس قسم کے رکیک و باطل خیالات سے پاک کر دیا تھا وہ ہم عصروں اور ہمسروں کی قابلیت کا اعتراف کرتے تھے اور وقت پر اس کو ظاہر بھی کر دیتے تھے۔ حضرت معاذ کی وفات کا وقت آیا تو تمام لوگ رو رہے تھے کہ علم اٹھا جارہا ہے ،حضرت معاذؓ سے کہا فرمائیے آپ کے بعد کس سے پڑھیں انھوں نے کہا ذرا مجھے اٹھا کے بٹھادو، بیٹھ گئے تو فرمایا "سنو علم وایمان اٹھ نہیں سکتے وہ بدستور رہیں گے،جو جستجو کرے گا پائے گا (تین مرتبہ فرمایا) علم چار آدمیوں سے سیکھو یعنی ابودرداءؓ ،سلمان فارسیؓ،عبداللہ ابن مسعودؓ، عبداللہ بن سلام ؓ سے۔ [57]

  • حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ شفقت نبوی سے سرفراز رہتے تھے،ان کو اٹھتے بیٹھتے ،حامل نبوت سے تعلیم ملتی تھی، ایک مرتبہ آنحضرت نے ان کو دروازہ پر کھڑا دیکھا تو ایک چیز کی تعلیم دی، ایک اور مرتبہ لطف و کرم سے فرمایا کہ میں تمھیں جنت کا ایک دروازہ بتاؤں؟ گزارش کی ارشاد ہو، فرمایا لا حول ولا قوۃ الا باللہ [58] پڑھ لیا کرو۔
  • تعلیم زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی تھی، مذہبی، اخلاقی، علمی عملی ہر قسم کی تعلیم سے وہ بہرہ ور ہوئے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
  • معاذ رسول اللہ کے ہمراہ ایک سفر میں تھے، ایک روز صبح کے وقت جب لشکر اسلام منزل مقصود کی طرف روانہ ہو رہا تھا، معاذ رسول اللہ کے قریب تھے،پوچھا ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کرے اور دوزخ سے بچائے،فرمایا تم نے بہت بڑی بات پوچھی؛ لیکن جس کو خدا توفیق دے اس پر آسان بھی ہے ،شرک نہ کرو عبادت کرو، نماز پڑھو، زکوٰۃ دو، رمضان میں روزے رکھو، حج کرو،پھر فرمایا خیر کے کچھ دروازے ہیں میں تم کو بتاتا ہوں، روزہ جو سپر کا حکم رکھتا ہے،صدقہ جو آتش معصیت کو پانی کی طرح بجھا دیتا ہے اور نماز جو رات کے حصوں میں پڑھی جاتی ہے،پھر یہ آیت تلاوت فرمائی، تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (یعلمون تک)پھر فرمایا کہ اسلام کے سر اور عمود اور چوٹی کی خبر دیتا ہوں سر اور پاؤں تو نماز ہے اور کوہان کی چوٹی جہاد۔
  • پھر ارشاد ہوا کہ ان تمام باتوں کی بیخ وبن صرف ایک چیز ہے،زبان اس کو روکو آنحضرت نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا حضرت معاذؓ بن جبل نے سوال کیا کہ کیا جو کچھ ہم بولتے ہیں اس پر مواخذہ ہوگا، آنحضرت نے فرمایا ثکلتک امک یا معاذ! بہت سے لوگ صرف اسی کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے۔
  • حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دس باتوں کی وصیت کی تھی شرک نہ کرنا، خواہ تم کو کوئی اس کے عوض قتل کر دے یا جلادے، فرض نماز قصداً کبھی نہ ترک کرنا، کیونکہ جو شخص قصداً نماز چھوڑتا ہے،خدا اس کی ذمہ داری سے بری ہو جاتا ہے، شراب نہ پینا کیونکہ یہ تمام فواحش کی بنیاد ہے، معصیت میں مبتلا نہ ہونا، کیونکہ مبتلائے معصیت پر خدا کا غصہ حلال ہوجاتا ہے،لڑائی سے نہ بھاگنا اگرچہ تمام لشکر خاک و خون میں لوٹ چکا ہو، موت عام ہو (بیماری آئے ) تو ثابت قدم رہنا، اپنی اولاد کے ساتھ سلوک کرنا ان کو ہمیشہ ادب دینا اور خدا سے خوف دلانا۔
  • رسول اللہ ﷺ نے پانچ چیزوں کی حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تاکید کی تھی اور فرمایا تھا کہ جوان کو عمل میں لائے، خدا اس کا ضامن ہوتا ہے،مریض کی عیادت، جنازہ کے ساتھ جانا، غزوہ کے لیے نکلنا، حاکم کی تعزیر یا توقیر کے لیے جانا، گھر میں بیٹھ رہنا جس میں وہ تمام لوگوں سے محفوظ ہو جائے اور دنیا سے سلامت رہے۔
  • اخلاقی تعلیم ان الفاظ میں دی، معاذ! ہر برائی کے پیچھے نیکی کر لیا کرو نیکی اس کو مٹا دے گی اور لوگوں کے سامنے اچھے اخلاق ظاہر کرو۔
  • یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اتق دعوۃ المظلوم فان لیس بینھا و بین اللہ حجاب ! یعنی مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہو، کیونکہ اس کے اور خدا کے درمیان میں کوئی پردہ نہیں۔
  • یمن کا حاکم مقرر کرکے بھیجا تو فرمایا، معاذ! خبردار عیش و تنعم سے علاحدہ رہنا، کیونکہ خدا کے بندے عیش پرست اور تنعم پسند نہیں ہوتے۔
  • اجتماعی زندگی کی تلقین اس طرح کی: انسان کا بھیڑیا شیطان ہے ،جس طرح بھیڑیا اس بکری کو پکڑتا ہے جو گلہ سے دور ہوتی ہے،اسی طرح شیطان اس انسان پر قابو پالیتا ہے جو جماعت سے الگ ہوتا ہے،خبردار!خبردار!متفرق نہ ہونا؛بلکہ جماعت کے ساتھ رہنا۔
  • اشاعتِ اسلام کے متعلق فرمایا، معاذ! اگر تم ایک مشرک کو بھی مسلمان کرلو، تو تمھارے لیے دنیا کی تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے۔
  • غرض یہ پاکیزہ خیالات اور اعلیٰ تعلیمات جس بزرگ کے رگ وپے میں سرایت کر گئی تھیں وہ جماعت انصار کا وہ "نوجوان" تھا جس کو حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ فرد نہیں ؛بلکہ ایک امت کہا کرتے تھے۔[59]

اہل یمن نے امیر اور معلّم مانگا،تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو بلایا اور کہا تم یمن چلے جاؤ تمھاری وہاں ضرورت ہے، گورنر مقرر فرمایا اور کہا شاید تم مجھ سے نہ مل سکوگے، پھر جب روانہ ہونے لگے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے اور معاذ بن جبل سواری پر تھے، جب معاذ نے عرض کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کرنے کے لیے قرآن وسنت میں کوئی چیز نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جواب سے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔ جب معاذ یمن سے واپس آئے تو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما چکے تھے۔ معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عائذ الانصاری ہیں، جو اٹھارہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے ستر جلیل القدر صحابہ میں سے ایک یہ بھی تھے۔ عمرو بن جموح کو بت پرستی اور بتوں سے متنفر کرنے والوں میں ان کا بھی کردار تھا۔ آپ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ زبانِ نبوت سے آپ کو یہ سند عطا ہو ”اعلم امتی بالحلال والحرام معاذ بن جبل“ کہ میری امت میں سب سے زیادہ حلال وحرام سے واقف معاذ بن جبل ہیں۔

مسروق بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود کی موجودگی میں آیت پاک ”اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کانَ اُمَّةً قَانِتًا للّٰہِ“ پڑھی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ معاذ بھی ایک امت تھے، اللہ کے فرماں بردار تھے، ان کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا، جانتے ہو ”امت“ وہ شخص ہے جو لوگوں کو خیر کی باتیں سکھاتا ہے۔[60] ابومسلم خولانی کا بیان ہے کہ ایک روز میں دمشق کی جامع مسجد میں آیا تو وہاں عمر رسیدہ صحابہ کرام تشریف فرما تھے اور ان میں ایک نوجوان سُرمیلی آنکھوں والا اور چمکیلے دانتوں والا تھا، جب یہ حضرات کسی بات میں اختلاف کرتے تو یہ لوگ اس نوجوان کی طرف رجوع کرتے۔

میں نے پوچھا یہ جوان کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ معاذ بن جبل (ان کی کنیت ابوعبدالرحمن، لقب امام الفقہاء ہے) ہیں، پھر ان سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خوش نصیب افراد میں شامل فرمایا اور وہ کتابت قرآن کے شرف سے مشرف ہوئے، یہ ان پر اعتماد کامل اور علم کی پختگی کی ایک دلیل تھی، اسی طرح فتح مکہ کے بعد جب لوگ گروہ در گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے تھے، تو ان میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انتخاب انہی پر پڑی اور انھیں کو اس کام کے لیے متعین فرمایا۔

معاذ بن جبل کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی منقول ہے ”معاذ امام العلماء یوم القیامة برتبة“ معاذ بن جبل کو قیامت کے دن علما کی پیشوائی حاصل ہوگی اور ایک بڑا درجہ ان کو ملے گا۔[61]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Муаз ибн Джабаль
  2. عنوان : Муаз ибн Джабаль
  3. رواہ احمد بن حنبل
  4. (اکمال ،ص616واسدالغابہ، ج4،ص378)
  5. الطبقات الكبرى لابن سعد - مُعَاذُ بْنُ جَبَلِ (1) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  6. (کتاب الانساب ورق23)
  7. ^ ا ب أسد الغابة في معرفة الصحابة - معاذ بن جبل سانچہ:Whive آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  8. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - مُعَاذُ بْنُ جَبَلِ (2) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  9. (بخاری:1/24،باب من ترک بعض الاختیار مخافۃ ان یقصرفہم بعض الناس)
  10. (مسند احمد:5/238)
  11. (مسند احمد:5/228)
  12. (مسند احمد:5/231)
  13. (مسند:5/238)
  14. (مسند:5/241)
  15. (مسند:5/228)
  16. (بخاری)
  17. (مسند:5/243)
  18. (مسند:5/238)
  19. (مسند:5/238)
  20. ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء» الصحابة رضوان الله عليهم» معاذ بن جبل آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  21. الطبقات الكبرى لابن سعد - مُعَاذُ بْنُ جَبَلِ (3) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  22. (بخاری:1/98)
  23. ^ ا ب الإصابة في تمييز الصحابة - معاذ بن جبل آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  24. (مسند:5/435)
  25. (مسند:5/231)
  26. (مسند:5/239)
  27. (بخاری:2/633)
  28. (طبری:4/1718)
  29. (مسند:5/230)
  30. (استیعاب ابن عبد البر)
  31. ^ ا ب پ تهذيب الكمال للمزي» معاذ بن جبل بن عمرو بن أوس بن عائذ بن عدي بن كعب (1) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  32. الطبقات الكبرى لابن سعد - مُعَاذُ بْنُ جَبَلِ (5) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  33. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - مُعَاذُ بْنُ جَبَلِ (6) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  34. الطبقات الكبرى لابن سعد - مُعَاذُ بْنُ جَبَلِ (4) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  35. (کنز العمال:134،بحوالہ ابن سعد ،جلد3)
  36. (مسند احمد بن حنبل:5/41)
  37. (مسند احمد بن حنبل:5/233)
  38. (مسند احمد بن حنبل:5/326)
  39. (مسند:5/240)
  40. (مسند:5/237)
  41. (مسند:5/237)
  42. (مسند:5/245)
  43. (مسند:244)
  44. (طبقات ابن سعد، صفحہ99،قسم اول، مغازی)
  45. (مسند احمد بن حنبل:5/233)
  46. (مسند احمد بن حنبل:5/237)
  47. (مسند:5/246،233)
  48. (مسند:5/246)
  49. (ایضاً :5/115)
  50. (کنزالعمال:7/86،بحوالہ صحیح بخاری ومسلم)
  51. تهذيب الكمال للمزي» معاذ بن جبل بن عمرو بن أوس بن عائذ بن عدي بن كعب (2) آرکائیو شدہ 2017-04-15 بذریعہ وے بیک مشین
  52. (مسند:5/232)
  53. (مسند:5/245،و ادب المفرد:136)
  54. (مسند:5/245)
  55. (مسند:5/242)
  56. (مسند:243)
  57. (مسند:5/243)
  58. مسند احمد:5/228
  59. مسند احمد:5/231
  60. فتح الباری جلد8، صفحہ 494
  61. ماہنامہ دار العلوم، شمارہ 5، جلد: 94، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء