دحیہ کلبی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مقام دحیہ الکلبی
دحیہ کلبی
دحیہ الکلبی رضی اللہ عنہ
ذاتی
پیدائشت 30 ق.ھ–592 عیسوی
وفات50ھ ت  عیسوی 670 [1]
مذہباسلام
والدینخلیفہ بن فروہ (والد)
وجہ شہرتمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہونا
فوجی خدمات
جنگیں
  • غزوہ احد ، غزوہ خندق ، غزوہ احزاب ، غزوہ تبوک ، غزوہ حنین ، غزوہ طائف[2][3]

دحیہ کلبی ( دحيہ بن خليفہ بن فروة بن فضالہ بن زيد بن امرئ القيس بن الخزج بن عامر بن بكر بن عامر الأكبر بن عوف بن بكر بن عوف بن عذرة بن زيد اللات بن رفيدة بن ثور ابن كلب بن وبرة، الكلبي) مشہور صحابی ہیں انھیں حسن صورت میں بڑی شہرت حاصل تھی جبرئیل آنحضرتﷺ کے پاس دحیہ کلبی کی صورت میں آیا کرتے تھے خلافت معاویہ بن ابی سفیان میں وفات پائی۔ جنگ احد اور اس کے بعد کے تمام اسلامی معرکوں میں کفارسے لڑتے رہے۔ 6 ھ میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے ان کو روم کے بادشاہ قیصر کے دربار میں اپنا مبارک خط دے کر بھیجا اور قیصر روم حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کا نامۂ مبارک پڑھ کر ایمان لے آیا مگر اس کی سلطنت کے ارکان نے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں چمڑے کا موزہ بطور نذرانہ پیش کیا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو قبول فرمایا۔ یہ مدینہ منورہ سے شام میں آکر مقیم ہو گئے تھے اور حضرت امیر معاویہ کے زمانے تک زندہ رہے ۔[4] حضرت دحیہ کلبی صحابہ کرام میں بہت خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔ حضرت جبرائیل عام طور پر ان کی شکل میں آیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ عائشہ نے انھیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) سے باتیں کرتے سنا اور ایک دفعہ تو بیسیوں صحابہ نے انھیں دیکھا[5] حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بیان کیا کہ قیدیوں میں حضرت صفیہ بھی تھیں وہ دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو مل گئیں۔[6] عبداللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے قیصر کو خط لکھ کر اس کو اسلام کی دعوت دی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے اپنا خط دحیہ کلبی کے ہاتھ بھیجا تھا اور یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس خط کو سردار بصریٰ کے حوالہ کر دیں، تاکہ وہ اس کو قیصر تک پہنچا دے،[7] امام احمد نے دحیہ کلبی سے روایت کیا کہ میں عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں آپ کے لیے گدھے کو گھوڑی پر جفتی کراؤں گا اور آپ کے لیے خچر پیدا ہوگا اور آپ اس پر سواری فرمائیے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے فرمایا یہ وہ لوگ کام کرتے ہیں جو نہیں جانتے۔[8][9]

نام و نسب[ترمیم]

دحیہ بن خلیفہ بن فروا بن فدالا بن زید بن عمرو القیس بن الخزرج جو زید منات بن عامر بن بکر بن عامر الاکبر بن عوف بن بکر بن عوف بن عذرا بن زید آلاط بن ثوریہ بن کلب۔ “ دِحیہ “ کا معنی “ لشکر کا سالار “ ہے۔ آپ کا تعلق قبیلہ بنو کلب سے ہے۔ [10] [11][12][13]

اسلام[ترمیم]

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر سے پہلے اسلام لائے مگر غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے۔ [14][15][16]

حالات زندگی[ترمیم]

آپ ایک تاجر تھے اور جب بھی تجارتی قافلہ لے کر مدینے پہنچتے تو لوگ سامانِ تجارت دیکھنے کے لیے آجاتے اور آپ سے سامان خرید لیا کرتے۔ ایک مرتبہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں کچھ کپڑے لائے گئے ، پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان میں سے ایک کپڑا آپ کو عطا کیا اور فرمایا : اس کپڑے کو دو ٹکڑے کرلو ایک سے اپنے لیے قمیص بنالو اور دوسرا اپنی بیوی کو دے دینا کہ وہ اس کو اپنی اوڑھنی بنالے ، جب آپ جانے لگے تو فرمایا : اپنی بی بی سے کہنا کہ اس کے نیچے کوئی دوسرا کپڑا لگالے تاکہ بدن نہ جھلکے۔ [17] [18] فتح خیبر کے موقع پر سیدنا دحیہ رضی اللہ عنہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کی اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدی عورتوں میں سے ایک لونڈی دے دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ ! اور ایک لونڈی لے لو ،آپ نے سیدہ صفیہ بنت حیی (رضی اللہ عنھا) کو منتخب کیا اس پر ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے بنو قریظہ اور بنو نضیر کی سیدہ صفیہ کو دحیہ کے حوالے کر دیا حالانکہ وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِِ شان ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دحیہ کو صفیہ سمیت بلاؤ ،سیدنا دحیہ رضی اللہ عنہ سیدہ صفیہ کو لے کر حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھ کر سیدنا دحیہ سے فرمایا : قیدیوں میں سے کوئی دوسری لونڈی لے لو پھر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنھا پر اسلام قبول کیا انھوں نے اسلام قبول کر لیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں آزاد کر کے ان سے شادی کر لی اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر قرار دیا ۔ [19][20] .[21] [22]

غزوات[ترمیم]

آپ نے غزوۂ اُحد اور بعد کے تمام غزوات میں شرکت کی۔ سِن 6 ہجری جُمادَی الاُخریٰ میں آپ شاہِ روم کے پاس سے آ رہے تھے اس وقت آپ کے پاس شاہِ روم کی جانب سے ملنے والے تحائف بھی تھے جب آپ ایک وادی میں پہنچے توایک قبیلے والوں نے حملہ کرکے آپ کو لوٹ لیا مگر اسی قبیلے میں موجود مسلمانوں کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے مزاحمت کرکے سارا سامان برآمد کرکے آپ کے حوالے کر دیا۔ آپ وہاں سے نکلے اور آستانۂ نبوت پر حاضر ہوکر دروازہ کھٹکھٹایا ، اندر سے ارشاد ہوا : کون ہے؟ عرض کی : دِحیہ کلبی ، حکم ہوا : اندر آجاؤ ، آپ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا ، حُضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان لٹیروں کی سرکوبی کے لیے حضرت سیّدُنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں پانچ سو سپاہیوں کا ایک لشکر روانہ فرمادیا ، حضرت زید بن حارثہ نے اس میدان میں بھی فتح کا جھنڈا گاڑا ، اس معرکہ میں حضرت دِحیہ کلبی بھی ساتھ تھے۔ آپ معرکۂ یَرموک میں شہ سواروں کے ایک گروہ پر سالار کی حیثیت سے شریک تھے۔ [23] [24] [25][26]

رہائش[ترمیم]

شام کے شہر دمشق کے ایک گاؤں میں آپ کا قیام رہا۔ ایک مرتبہ رمضان میں آپ اپنی بستی سے سفر کرکے دوسری بستی تشریف لے گئے مسافر ہونے کی وجہ سے آپ اور آپ کے بعض رُفقاء نے روزہ نہیں رکھا ، سفر میں ساتھ (روزہ رکھنے والے) کچھ لوگوں کو یہ بات ناگوار گذری ، جب آپ اپنی بستی میں واپس تشریف لائے تو جن لوگوں نے روزہ رکھا تھا ان کے بارے میں ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم! آج جو میں نے دیکھا کہ اسے دیکھنے کا گمان بھی نہیں کرتا تھا کہ لوگ سیرتِ رسول اور اصحابِ رسول کے طریقۂ کار سے اتنے بے رغبت ہو گئے ہیں ، اس وقت آپ نے دُعا کی : اے اللہ! میری روح قبض فرمالے۔ [27] [28]

وفات[ترمیم]

مزار حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ ، مزہ ، دمشق

آپ کی وِفات حضرت سیّدُنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں ہوئی۔حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی موت دمشق کے شہر مزہ میں ہوئی اور وہیں دفن ہوئے۔ آپ کی قبرِ مبارک مِزّۃ گاؤں کے ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ [29]

حدیث[ترمیم]

آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ احادیث کی تعداد تقریباً 6 کو پہنچی ہے ، تابعینِ عظام کے ایک گروہ نے آپ سے احادیثِ کریمہ روایت کی ہیں۔ [30] [31]

فضل و کمال[ترمیم]

آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اکابرصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے۔ بلاشک و شبہ آپ مدینے میں موجود صحابۂ کرام میں سب سے زیادہ حُسن و جمال والے تھے اسی وجہ سے حضرت جبرائیل علیہ السّلام بعض اوقات آپ کی صورت اختیار کرکے بارگاہِ رسالت میں آتے رہے۔ [32][33] حضرت دِحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی طرف سے دربارِ رسالت میں تحفے تحائف پیش کرنے کا سلسلہ رہتا تھا چنانچہ ایک بار آپ نے ملکِ شام سے واپس آکر بارگاہِ رسالت میں تحفۃً پستے ، بادام اور خشک روٹی پیش کی ، ایک مرتبہ ایک اُونی جُبّہ اور چمڑے کے دو موزے پیش کیے ، حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان دونوں موزوں کو اتنا استعمال فرمایا کہ دونوں میں سوراخ ہو گئے۔ ایک مرتبہ آپ نے بارگاہِ نبوی میں ملکِ شام کے انجیر اور مُنقّوں کا نذرانہ پیش کیا۔ [34] [35][36] آپ رضی اللہ عنہ کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے سفیرہونے کا شرف بھی حاصل ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ھرقل شاہ روم کو جو خط لکھا وہ آپ کے حوالے کیا کہ آپ اسے سربراہ بصری کے حوالے کر دیں اور وہ اسے ھرقل تک پہنچا دے۔ [37] [38][39]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Muhammad al-Jarir al-Tabari, Al-Tarikh al-Rusul wa'l-Muluk. Translated by Ella Landau-Tasseron (1998). Volume 39: Biographies of the Companions and Their Successors (Albany: State University of New York Press), 65.
  2. موسوعة الأعلام - عزيزة فوال بابتي - ج 2 - الصفحة 191. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  3. البداية والنهاية - ابن كثير - ج 8 - الصفحة 50. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  4. کراماتِ صحابہ،مؤلف عبد المصطفیٰ اعظمی ،صفحہ 215،ناشرمکتبۃ المدینہ کراچی
  5. صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2138
  6. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 209
  7. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 882
  8. مسالك الأبصار في ممالك الأمصار - ابن فضل الله العمري - ج 14 - الصفحة 212. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  9. الترجمانة الكبرى – أبو القاسم الزياني – الصفحة 180. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  10. فیض القدیر ، 1 / 657 ، تحت الحدیث 1041:
  11. اجمال ترجمہ اکمال ، ص24
  12. نسب معد واليمن الكبير - ابن الكلبي - ج 2 - الصفحة 614. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  13. تاريخ مدينة دمشق - ابن عساكر - ج ١٧ - الصفحة ٢٠١. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  14. سیر اعلام النبلاء ، 4 / 157
  15. الطبقات الكبرى - ابن سعد - ج 4 - الصفحة 234. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  16. دحية الكلبي - مها المبارك، الموسوعة العربية - ج 9 - الصفحة 214. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  17. شعب الایمان ، 5 / 235
  18. ابو داؤد ، 4 / 88 ، حدیث : 4116
  19. أنساب الأشراف - البلاذري - الصفحة 460. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  20. الإصابة - ابن حجر - ج ٨ - الصفحة ٢٠٠. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  21. الطبقات الكبرى - محمد بن سعد - ج ٨ - الصفحة ٥٠. آرکائیو شدہ 2019-07-17 بذریعہ وے بیک مشین
  22. الاستيعاب - ابن عبد البر - ج ٢ - الصفحة ٤٦١. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  23. الاستیعاب ، 2 / 45
  24. مغازی للواقدی ، 2 / 555 ، سیرت حلبیہ ، 3 / 251 ، سیرت ابن کثیر ، 4 / 433 ملتقطاً
  25. تاریخ ابن عساکر ، 17 / 201
  26. المعارف - ابن قتيبة - الصفحة ٣٢٩. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  27. اتحاف السادۃ المتقین ، 8 / 540
  28. مسند امام احمد ، 10 / 351 ، حدیث : 27300 ملخصاً
  29. المصباح المضئ ، 1 / 213 ، معجم البلدان ، 5 / 122
  30. الاصابہ فی تمییز الصحابہ ، 2 / 322
  31. مرقاۃ المفاتیح ، 7 / 467 ، تحت الحدیث : 3926
  32. الاستیعاب ، 2 / 45
  33. سیر اعلام النبلاء ، 4 / 159 ، تاریخ ابن عساکر ، 17 / 201
  34. تاریخ ابن عساکر ، 17 / 207
  35. معجم کبیر ، 4 / 226 ، رقم : 4200
  36. انساب الاشراف ، 4 / 23
  37. (رحیق المختوم)
  38. سير أعلام النبلاء - الذهبي - ج 2 - الصفحة 551. آرکائیو شدہ 2020-03-27 بذریعہ وے بیک مشین
  39. أعلام النبلاء - الذهبي - ج ٢ - الصفحة ٥٥٤. آرکائیو شدہ 2020-03-29 بذریعہ وے بیک مشین [مردہ ربط]