پاک-افغان تعلقات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پاکستان-افغانستان تعلقات
نقشہ مقام پاکستان اور افغانستان

پاکستان

افغانستان
سفارت خانے
پاکستان سفارتخانہ، کابل افغانستان سفارتخانہ، اسلام آباد

پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیا کے دو اہم پڑوسی ممالک ہیں۔ دونوں خود کو اسلامی جمہوریہ کہتے اور دونوں ہی جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون کی تنظیم کے رکن ہیں۔ جب پاکستان نے آزادی حاصل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی کوشش کی تو، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا۔ 1947ء میں افغانستان نے فوری طور پر نو آباد پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو مسلح کر دیا اور پاکستانی سرزمین کے بڑے حصے پر بے بنیاد دعوے کیے[1] جس سے دونوں ممالک کے درمیان میں تعلقات معمول پر نہ آ سکے۔ مزید کشیدگی افغانستان میں جنگ (1978ء - تاحال) سے متعلق مختلف مسائل کے ساتھ پیدا ہوئی ہے اور ان لاکھوں افغان مہاجرین کے ساتھ جنھوں نے اس جنگ کے آغاز کے بعد سے پاکستان میں پناہلی ہوئی ہے، پانی کے حقوق اور افغانستان بھارت تعلقات۔[2][3]

افغانستان اور پاکستان کے تعلقات بہت عرصے سے کچھ زیادہ ٹھیک نہیں رہے ہیں خاص کر دو تین باتوں پر۔ پہلا یہ کہ کابل نے یہ دعوٰی کیا تھا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو نہیں مانتے اور وہ علاقے جہاں پشتون آباد ہیں (بشمول خیبر پختونخوا، قبائلی علاقہ جات اور بلوچستان کا ایک بہت بڑا حصہ) وہ افغانستان کا حصہ ہے۔ اور ان علاقوں کو افغانستان میں شامل کرنے کیلے بہت سے تحریکیں بھی افغانیوں نے چلائے جن میں پشتونستان تحریک معروف ہے۔ لیکن پاکستان نے اس بات کو بالکل مسترد کر دیا کہ ہر گز یہ علاقے پاکستان کے سوا کسی اور کے نہیں ہو سکتے، پاکستان ایک ریاست ہے جو اپنے کسی بھی حصے کو کسی اور ملک کے حوالے نہیں کرے گا، اسی بات پر افغانستان اور پاکستان کے درمیان میں بہت کشیدگی پیدا ہوئی خاص کر حامد کرزئی حکومت تک یہ کشیدگی تھی۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی کشیدگی تھی کہ افغانستان سمجھتا ہے کہ افغانستان پر جنگ مسلط کرنے میں پاکستان نے کردار ادا کیا۔ اور تیسراں اعتراض پاکستان نے کیا کہ افغانستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے صحیح نہیں ہیں، پاکستان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت نے ہمیشہ افغان سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کیا ہے۔ ان سب وجوہات کی بنا پر تعلقات ہمیشہ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ جب سے اشرف غنی حکومت آئی ہے تب سے دونوں ممالک کے تعلقات میں نمایا فرق آیا ہے اور کشیدگی بہت حد تک ختم ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ تعلق کچھ بہتر ہونے کی وجہ سے پاکستان نے افغانستان سے بہت سے شعبوں میں معاہدے کیے ہیں جن میں تجارت، اقتصاد اور مخابراتی تعاون سمیت دیگر اہم شعبے شامل ہیں۔

دونوں ممالک کا موازنہ (بمطابق 2014 شماریات)[ترمیم]

پاکستان کا پرچم پاکستان افغانستان کا پرچم افغانستان
آبادی ca. 184 ملين(2014)[4] ca. 31 ملين(2014)[5]
رقبہ 796،095 کلومیٹر2 (307،374 مربع میل) 647،500 کلومیٹر2 (251،772 مربع میل)
کثافت آبادی 214.3/کلومیٹر2 (555/مربع میل) 43.5/کلومیٹر2 (111.8/مربع میل)
دار الحکومت اسلام آباد کابل
بڑے شہر کراچی کابل
حکومت وفاقی پارلیمانی جمہوریت صدارتی جمہوریت
آزادی 14 اگست 1947 19 اگست 1919
سرکاری زبانیں اردو،انگریزی پشتو،دری
اہم مذاہب اسلام 95%، دیگر (بشمول مسیحیت اور ہندومت) 5% اسلام 99%، دیگر 1%
نسلی گروہ پنجابی 40.68%، پشتون (پٹھان) 25.42%، سندھی 11.1%، سرائکی 8.38%، مہاجر لوگs 6.57%، بلوچ 3.57%، دیگر 5.28% پشتون 42%، تاجک 27%، ہزارہ 9%، ازبک 9%، ایمق 4%، ترکمن 4%، بلوچ 2%، دیگر 4%.
جی ڈی پی (پی پی پی) $885 کھرب (2014 est.) $45.3 کھرب (2013 est.)
جی ڈی پی ایکس چینج ریٹ US$292 کھرب (2014 est.) $20.65 کھرب (2013 est.)
جی ڈی پی فی کاپیٹا $4800 (2013 est.) $1393 (2013 est.)
قومی ڈبٹ $52.43 کھرب (31 دسمبر 2013 est.) $1.28 کھرب (FY10/11)
کرنسی ایکس چینج ریٹ 98.15 پاکستانی روپے (PKR) per $1 50.92 افغان افغانی (AFA) per $1
عسکری اخراجات 3.04% ہائے جی ڈی پی (2012) or $6.324 کھرب 4.74% ہائے جی ڈی پی (2011) or $4.1 نیٹو سے ایک کھرب[6]

صدر افغانستان محمد داؤد خان کا دور[ترمیم]

جولائی 17، 1973 کو صدر افغانستان محمد داؤد خان نے صدر بنتے ہی اپنے پہلے ریڈیو خطاب میں کہا ”پختونستان ہمارے آباء و اجداد کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ صرف پختونوں کی خواہشات کے مطابق ہی حل ہو سکتا ہے۔ دنیا جان لے کہ افغانستان کا دنیا میں کسی ملک کے ساتھ کوئی تنازع نہیں سوائے پاکستان کے اور افغانستان اس تنازعے کے حل کی ہر ممکن کوشش جاری رکھے گا۔“[7] [8] جس وقت داؤد خان کی یہ تقریر ریڈیو پر نشر ہوئی، ذو الفقار علی بھٹو لندن میں تھے۔ انھوں نے فوری طور پر پریس کانفرنس کی اور کہا کہ افغانستان پاکستان کے اندر مشکلات پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہم اپنے ملک اور مفادات کا دفاع بخوبی کر سکتے ہیں اور ہر قیمت پر کریں گے۔ بھٹو داؤد خان کے اقتدار میں آنے کے بعد اپنا دورہ انگلستان مختصر کر کے واپس آگئے اور پاکستان پہنچتے ہی انھوں نے افغان سرحد پر فوجی دستے تعینات کرنے کا حکم دیا۔ جولائی 1973 میں انھوں نے وزارت خارجہ میں "افغان سیل" قائم کرایا اور جنرل نصیر اللہ بابر کو افغان امور کا سربراہ مقرر کیا گیا جو اگلے چار برس تک یہ خدمات انجام دیتے رہے۔[9]

اہم واقعات[ترمیم]

افغان حکومت کی پاکستان میں مداخلت اور دوسرے اہم واقعات کچھ اس طرح ہیں۔

  • 30 ستمبر 1947ء کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا۔
  • ستمبر 1947ء میں ہی افغان حکومت نے کابل میں افغان جھنڈے کے ساتھ ” پشتونستان” کا جعلی جھنڈا لگا کر آزاد پشتونستان تحریک کی بنیاد رکھی۔
  • 47ء میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہو بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہ کیا۔
  • 1948ء میں افغانستان نے ” قبائل ” کے نام سے ایک نئی وزارت کھولی جس کا کام صرف پاکستان کے قبائلیوں کو پاکستان کے خلاف اکسانا تھا۔
  • 48ء میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف پرنس عبدلکریم بلوچ کے دہشت گردی کے ٹریننگ کمیپ بنے۔
  • 1949ء میں روس کی بنائی ہوئی افغان فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ایسے پمفلٹ گرائے جن میں قبائلی عوام کو پشتونستان کی تحریک کی حمایت کرنے پر ابھارنے کی کوشش کی گئی تھی۔
  • 12 اگست 1949ء کو فقیر ایپی نے باچا خان کے زیر اثر افغانستان کی پشتونستان تحریک کی حمایت کا اعلان کیا۔ افغان حکومت نے پرجوش خیر مقدم کیا۔
  • 31 اگست 1949ء کو کابل میں افغان حکومت کے زیر اہتمام ایک جرگہ منعقد کیا گیا جس میں باچا خان اور مرزا علی خان عرف فقیر ایپی دونوں نے شرکت کی۔ اس جرگے میں ہر سال “31 اگست” کو یوم پشتونستان منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی جرگہ میں پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
  • افغانستان کی پشت پناہی میں فقیر ایپی نے 1949ء میں پاکستان کے خلاف پہلی گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ اس کے جنگجو گروپ کا نام غالباً “سرشتہ گروپ” تھا۔ اس کی دہشت گردانہ کارروائیاں وزیرستان سے شروع ہو کر کوہاٹ تک پھیل گئیں۔ فقیر ایپی نے چن چن کر ان پشتون عمائدین کو قتل کیا جنھوں نے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں رائے عامہ ہموار کی تھی۔
  • 49ء میں افغانستان نے اپنی پوری فورس اور لوکل ملیشیا کے ساتھ چمن کی طرف سے پاکستان پر بھرپور حملہ کیا۔ جس کو نوزائیدہ پاک فوج نے نہ صرف پسپا کیا بلکہ افغانستان کے کئی علاقے چھین لیے۔ جو افغان حکومت کی درخواست پر واپس کر دیے گئے۔
  • 1954ء میں ایپی فقیر کے گروپ کمانڈر ” مہر علی ” نے ڈپٹی کمشنر بنوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے پاکستان سے وفاداری کا اعلان کیا جس کے بعد اس تحریک کا خاتمہ ہوا۔
  • 50ء میں افغانستان نے انڈیا کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا جس کا ایک نقاطی ایجنڈہ تھا کہ پاکستان کو کسی بھی طرح گھیر کر ختم کرنا ہے۔
  • ستمبر 1950 میں افغان فوج نے بغیر وارننگ کے بلوچستان میں دوبندی علاقے میں بوگرہ پاس پر حملہ کر دیا۔ جس کا مقصد چمن تا تاکوئٹہ ریلوے لنک کو منقطع کرنا تھا۔ ایک ہفتے تک پاکستانی و افغانی افواج میں جھڑپوں کے بعد افغان فوج بھاری نقصان اٹھاتے ہوئے پسپا ہو گئی۔ اس واقعہ پر وزیر اعظم لیاقت علی خان نے افغان حکومت سے شدید احتجاج کیا۔
  • 16 اکتوبر 1951 کو ایک افغان قوم پرست دہشت گرد “سعد اکبر ببرج” مردود نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں گولی مار کرشہید کر دیا۔ یہ قتل افغان حکومت کی ایماء پر ہوا تاہم عالمی دباو سے بچنے کے لیے کسی بھی انوالومنٹ سے انکار کر دیا۔ لیاقت علی خان کی شہادت پاکستان میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا پہلا واقعہ تھا یعنی پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز افغانستان نے کیا۔
  • 6 جنوری 1952 کو برطانیہ کے لیے افغانستان کے ایمبیسڈر “شاہ ولی خان” نے بھارت کے اخبار “دی ہندو” کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ ہرزہ سرائی کی کہ “پشتونستان میں ہم چترال، دیر، سوات، باجوڑ، تیراہ، وزیرستان اور بلوچستان کے علاقے شامل کرینگے”
  • 26 نومبر 1953 کو افغانستان کے کے نئے سفیر “غلام یحیی خان طرزی” نے ماسکو روس کا دورہ کیا جس میں روس (سوویت اتحاد) سے پاکستان کے خلاف مدد طلب کی۔ جواباً انھوں نے افغانستان کو مکمل مدد کی یقین دہانی کروائی۔
  • 28 مارچ 1955 میں افغانستان کے صدر “داؤد خان” نے روس کی شہ پا کر پاکستان کے خلاف انتہائی زہر آمیز تقریر کی جس کے بعد 29 مارچ کو کابل، جلال آباد اور کندھار میں افغان شہریوں نے پاکستان کے خلاف پرتشدد مظاہروں کا آغاز کر دیا جس میں پاکستانی سفارت خانے پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی گئی اور پاکستانی پرچم کو اتار کر اس کی بے حرمتی کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیے اور سفارتی عملے کو واپس بلا لیا۔
  • 55ء میں سردار داؤود وغیرہ نے پاکستان کے بارڈر پر بہت بڑے بڑے کھمبے لگائے جن پر اسپیکر لگا کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا تھا۔یہ غالباً افغانستان کی پاکستان کے خلاف پشتونوں کو بھڑکانے کے لیے پہلی ڈس انفارمیشن وار تھی جس میں ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔ اس کی جدید ترین شکل ڈیوہ اور مشال ریڈیو ہیں جنھوں نے پی ٹی ایم کو جنم دیا۔
  • مئی 1955ء میں افغان حکومت نے افغان فوج کو متحرک ہونے کا حکم دے دیا۔ جس پر جنرل ایوب خان نے نے بیان جاری کیا کہ ” اگرافغانستان نے کسی قسم کی جارحیت کا ارتکاب کیا تو اسے وہ سبق سکھایا جائے گا جو وہ کھبی نہ بھول سکے”۔ جس کے بعد وہ رک گئے۔
  • انہی دنوں افغانستان کے لیے روس کے سفیر “میخائل وی۔ ڈگٹائر” نے جنگ کی صورت میں افغانستان کو مکمل عسکری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
  • نومبر1955ء میں چند ہزار افغان مسلح قبائلی جنگجووں نے گروپس کی صورت میں 160 کلومیٹر کی سرحدی پٹی کے علاقے میں بلوچستان پر حملہ کر دیا۔ پاک فوج سے ان مسلح افغانوں کی چھڑپیں کئی دن تک جاری رہیں۔
  • مارچ 1960ء میں افغان فوج نے اپنی سرحدی پوزیشنز سے باجوڑ ایجنسی پر مشین گنوں اور مارٹرز سے گولی باری شروع کر دی۔ جس کے بعد پاکستانی ائیر فورس کے 26 طیاروں نے افغان فوج کی پوزیشنز پر بمباری کی۔
  • 28 ستمبر 1960 کو افغان فوج نے چند ٹینکوں اور انفینٹری کی مدد سے باجوڑ ایجنسی پر حملہ کر دیا۔

پاکستان آرمی نے ایک مرتبہ پھر افغان فوج کو بھاری نقصان پہنچاتے ہوئے واپس دھکیل دیا۔

  • 1960ء کے دوران پاکستانی فضائیہ کی افغان فوج پر بمباری وقفے وقفے سے جاری رہی۔
  • 1960ء میں ہی افغانستان میں پاکستان کے خلاف شیر محمد مری کے دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپس بنے۔
  • مئی 1961ء میں افغانستان نے باجوڑ، جندول اور خیبر پر ایک اور محدود پیمانے کا حملہ کیا۔

اس مرتبہ اس حملے کا مقابلہ فرنٹیر کور نے کیا اور اس دفعہ بھی پاکستانی فضائیہ کی بمباری نے حملے کا منہ موڑ دیا۔افغان حکومت نے حملے کی حقیقت سے انکار کر دیا۔

  • جولائی 1963ء میں ایران کے بادشاہ رضاشاہ پہلوی کی کوششوں سے پاکستان و افغانستان نے اپنی سرحدیں کھول کر تعلقات بحال کر لیے۔اس کے بعد دو سال تک امن رہا۔
  • 1965ء میں انڈیا نے پاکستان پر حملہ کیا تو افغانستان نے موقع غنیمت جان کر دوبارہ مہند ایجنسی پر حملہ کر دیا۔لوگ حیران رہ گئے کہ انڈیا نے افغانستان کی طرف سے کیسے حملہ کر دیا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ افغانیوں نے کیا ہے۔ اس حملے کو مقامی پشتونوں نے پسپا کر دیا۔
  • 1970ء میں افغانستان نے اے این پی والوں کے ” ناراض پشتونوں” اور بلوچوں کے ٹریننگ کیمپس بنائے۔ عدم تشدد کے نام نہاد علمبردار اجمل خٹک اور افراسیاب خٹک ان کیمپس کا حصہ تھے۔
  • 1971ء میں جب کے جی بی انڈیا کے ساتھ ملکر پاکستان کو دولخت کر رہی تھی تو اس کے ایجنٹ افغانستان میں بیٹھا کرتے تھے۔اس وقت افغانی علانیہ کہا کرتے تھے کہ دو ہونے کے بعد اب پاکستان کے چار ٹکڑے ہوں گے۔
  • 1972ء میں اے این پی کے اجمل خٹک نے افغانستان کی ایماء پر دوبارہ پشتونستان تحریک کو منظم کرنے پر کام شروع کر دیا۔تاہم اس وقت تک افغانستان کو اندازہ ہو چکا تھا کہ پشتونستان تحریک بری طرح سے ناکام ہو چکی ہے اس لیے اس نے اب بھارت کے ساتھ مل کر “آزاد بلوچستان” تحریک کو بھڑکانا اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی عسکری تربیت شروع کردی۔ تاہم پشتونستان کے نام پر بھی افغان تخریب کاریاں جاری رہی۔
  • افغانستان کی طرف سے مسلسل سازشوں اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کے بعد بالآخرپاکستان کے وزیر اعظم ذو الفقار بھٹو نے پہلی مرتبہ جواباً افغانستان کے خلاف منظم خفیہ سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔
  • 1973ء میں پشاور میں افغان نواز عناصر نے پشتونستان تحریک کے لیے “پشتون زلمی” کے نام سے نئی تنظیم سازی کی۔
  • 1974ء میں افغانستان نے ” لوئے پشتونستان” کا ڈاک ٹکٹ جاری کیا۔
  • فروری 1975ء میں افغان نواز تنظیم “پشتون زلمی” نے خیبرپختونخواہ کے گورنر حیات خان شیرپاو کو بم دھماکے میں شہید کر دیا۔(بحوالہ کتاب “فریب ناتمام” از جمعہ خان صوفی)
  • 28 اپریل 1978ء میں روسی پروردہ کمیونسٹ جماعت “پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی افغانستان” نے روسی اسلحے اور چند روسی طیاروں کی مدد سے کابل میں بغاوت برپا کردی جسے “انقلاب ثور” کا نام دیا گیا۔اس کے نتیجے میں صدر داؤد سمیت ہزاروں افغانوں کو بیدردی سے ہلاک کر دیا گیا اور افغانستان پر کمیونسٹ حکومت قائم کردی گئی۔ کمیونسٹ صدر نجیب نے اقتدار سنبھالتے ہی ” لوئے پشتونستان” کی عام حمایت کا اعلان کر دیا۔
  • 1979ء میں افغان عوام کمیونسٹ حکومت کے خلاف پوری طاقت سے کھڑے ہو گئے اور کمیونسٹ نجیب ہزاروں افغانوں کا قتل عام کرنے کے باوجود عوامی انقلاب کو روک نہ سکا۔ اپنی حکومت کو خطرے میں دیکھ کر نجیب نے روس کو افغانستان پر حملہ کرنے کی دعوت دے دی۔

24 دسمبر 1979ء کو روس نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔

  • روسی پورے افغانستان کو روندتے ہوئے تورخم بارڈر تک پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ وہ دریائے سندھ کو اپنا بارڈر بنائیں گے۔یعنی بلوچستان اور کے پی کو لے لینگے۔
  • روسی و افغان کمیونسٹ افواج نے افغانستان میں قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔پاکستان نے اس موقع پر تیس لاکھ سے زیادہ افغانوں کو پناہ اور تحفظ دیا اور روس کے خلاف بر سر پیکار افغان مجاہدین کی مکمل مدد کی۔
  • 1980ء میں افغانستان میں پیپلز پارٹی کی الذولفقار نامی دہشت گرد تنظیم کے ٹریننگ کیمپس بنے۔ اسی تنظیم نے مبنیہ طور پر پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کے سترہ جرنیلوں سمیت شہید کر دیا۔
  • 79ء سے 89ء تک روسی فضائیہ نے کئی مرتبہ پاکستانی سرحدی علاقوں پر بمباری کی۔ کے جی بی اور افغان ایجنسی خاد نے اے این پی کی مدد سے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیاں کیں جن کے نتیجے میں سینکڑوں پاکستانی زیادہ تر پشتون شہید ہوئے۔
  • 2006ء سے اب تک افغانستان کی نئی ایجنسی این ڈی ایس بھارتی ایجنسی را کے ساتھ ملکر پاکستان میں ٹی ٹی پی سمیت کوئی پچاس کے قریب مختلف دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ کر رہی ہے۔ ان تمام تنظیموں کی مشترکہ کارائیوں میں اب تک 60،000 پاکستانی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں بڑی تعداد پشتون، تین لاکھ سے زائد زخمی ہوئے اور ہزاروں اب بھی آئی ڈی پیز کی شکل میں بے گھر ہیں۔ پاکستان کو کم از کم 100 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے۔
  • اسی عرصے میں امریکا نے افغانستان میں فاٹا اور بلوچستان کی سرحدوں پر ڈیوہ اور مشال کے نام سے اپنی خصوصی ریڈیو سروس کا آغاز کیا جن کا تقریباً سارا عملہ افغانیوں پر مشتمل ہے یا لوئے پشتونستان کے علمبرداروں پر۔

ان ریڈیو چینلز نے ان دونوں علاقوں میں پشتونوں کو پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا۔

  • افغانستان سے پاکستان میں جو دہشت گردانہ حملے کیے ان میں سب سے بڑا حملہ 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پر کیا گیا جس میں بھارتی را اور افغان این ڈی ایس کے پلان پر7 افغان دہشت گردوں نے پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ کیا جس میں 150 بچوں اور اساتذہ کو بیدردی سے شہید کر دیا۔
  • جون 2016ء میں افغان نیشنل آرمی نے تورخم بارڈر پر گیٹ لگانے والی پاک فوج پر حملہ کر دیا اور پاک فوج کے میجر علی جواد خان کو شہید کر دیا۔ پاک فوج کے جوابی حملے میں افغان فورسز اپنی چیک پوسٹیں اور قلعہ تک چھوڑ کر فرار ہوگئیں۔بعد میں زخمی فوجیوں کا علاج کرنے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان نے قبول کر لی۔
  • 5 مئی 2017ء کو بھارت کی شہ پاکر افغان نیشنل آرمی نے چمن، بلوچستان پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس میں 2 پاکستانی فوجی اور 9 پاکستانی سویلینز ( پشتون) شہید جبکہ 40 کے قریب زخمی ہوئے۔جواباً پاک فوج کے حملے میں 50 افغان فوجی ہلاک اور 5 ملٹری پوسٹس تباہ ہوئیں۔اس کے علاوہ ہر چند دن کے وقفے کے بعد دہشت گرد افغان سرزمین سے پاکستانی سرحدی پوسٹوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں۔
  • فاٹا، بلوچستان اور کے پی کے میں آپریٹ کرنے والی تمام دہشت گرد تنظمیوں کے مراکز افغانستان میں ہیں اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔
  • دوسری جانب ڈیوہ اور مشال کی مسلسل محنت رنگ لے آئی۔ اور عین اس وقت جب افغانستان کی بہت بڑی پراکسی کو شکست دینے کے بعد فاٹا میں دوبارہ آباد کاری اور تعمیر نو کا عمل جاری تھا 2018ء میں ایک بار پھر وزیرستان سے پشتونوں کی نئی تحریک لانچ کی گئی پی ٹی ایم کے نام سے۔ افغان صدر اور افغان پارلیمنٹ نے ان کی علانیہ حمایت کی۔افغانیوں نے افغانستان سمیت دنیا بھر میں اس تحریک کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یوں اس کو پشتونوں کی عالمی تحریک کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔اسی تحریک میں ” پاکستان مردہ باد” ۔۔ ” اسرائیلی آرمی زندہ باد” ۔۔ ” دہشت گردی کے پیچھے وری” ۔۔ ” لرو بر یو پشتون ( لوئے پشتونستان ) اور پاکستان سے آزادی کے نعرے لگانے شروع کر دیے گئے۔

افغان شعرا نے اس کے حق میں شاعری کی، غزلیں لکھیں، افغان مصوروں نے تحریک کے لیے مفت میں آرٹ تخلیق کرنا شروع کیا۔ جس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا۔ پونی والی تاجک ٹوپی جو اس سے پہلے پاکستانی پشتون علاقوں میں نہ کبھی کسی نے دیکھی نہ پہنی کو تحریک کی علامت بنا کر مفت تقسیم کیا گیا۔

  • وہ افغانی جو پاکستان میں رہتے ہیں یا جنھوں نے پاکستانی یونیورسٹیوں میں پڑھ کر اردو سیکھ لی ہے نے جعلی اکاؤنٹس بنا کر بہت بڑے پیمانے پر اس نئی تحریک کو سپورٹ کرتے ہوئے پاکستان مخالف پراپیگینڈا شروع کر دیا۔
  • پی ٹی ایم مخالفین یا پاکستان کے حامیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ ملک ماتوڑکے، ملک عباس اور ایس پی طاہر داؤڑ اس کی چند مثالیں ہیں۔ایس پی طاہر داؤڑ کو این ڈی ایس کا اہلکار ورغلا کر افغانستان لے گیا اور پھر افغان حکومت نے اس کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش پاکستان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاش پی ٹی ایم کے حوالے کی گئی۔
  • چند دن پہلے جب پاک فوج نے انڈین طیارے گرائے تو تمام افغان سوشل میڈیا نے انڈیا کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور جنگ کی صورت میں انڈیا کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
  • افغانستان میں ہی این ڈی ایس اور ملا تور کے زیر قیادت ایک خفیہ میٹنگ کا انکشاف ہوا جس میں ٹی ٹی پی نے انڈین جہاز گرانے پر پاکستان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔
  • فاٹا طلبہ کے لیے مفت داخلوں کا اعلان کیا۔ جو طلبہ اس جھانسے میں آکر افغانستان گئے انکا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
  • پکتیکا میں وزیرستان کے اٹھ لوگوں کو محض اس لیے شہید کر دیا گیا کہ وہ پاکستانی تھے۔ ایک دو سال پہلے بھی ایک افغانی فوجی نے اسی طرح پاکستانی پشتونوں کو قتل کر دیا تھا جو مزدوری کرنے افغانستان گئے تھے اور پھر اس کی ویڈیو بنا کر شیر کر دی تھی۔
  • بقول حسن خان صاحب کے” کسی کا صرف پاکستانی پشتون ہونا افغان فوج کو اس کے قتل کا لائسنس دے دیتا ہے” ۔۔یہ ہے افغانستان کی پاکستان میں دہشت گردیوں اور دراندازیوں کی تاریخ جنھوں نے نہ کبھی پاکستان کو سکھ کا سانس لینے دیا نہ پشتونوں کو۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Dr Ahmad Shayeq Qassem (2013-03-28)۔ Afghanistan's Political Stability: A Dream Unrealised (بزبان انگریزی)۔ Ashgate Publishing, Ltd.۔ ISBN 978-1-4094-9942-8 
  2. Najmuddin A. Shaikh (دسمبر 27, 2011)۔ "What does پاکستان want in Afghanistan?"۔ The Express Tribune۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2014 
  3. Mujib Mashal (دسمبر 2, 2012)۔ "Can Afghanistan Sort Out Its Cross-Border Water Issues?"۔ Time۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 جولا‎ئی 2014 
  4. "Pakistan Population Clock"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2014 
  5. "Afghanistan Population Clock"۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 اپریل 2014 
  6. NATO leader in Afghanistan vows continued support آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ news.yahoo.com (Error: unknown archive URL)، AP، November 6، 2014
  7. ایشین سروے، جلد 15، اپریل 1975
  8. پاکستان فارن پالیسی 1971-1981، مصنف نیلوفر مہدی، مطبوعہ فیروز سنز لاہور، 1999
  9. Pakhtunistan: A ghost resurrected By Muhammad Ayub Economic and Political weekly, Sept.29, 1973 Pakistan Foreign Policy: The Search for Security Nilofer Mahdi 1999, Feroz Sons, Lahore.