امیر کلال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امیر کلال
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1278ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بخارا  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 28 نومبر 1370ء (91–92 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شافیرکان  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ازبکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص بہاء الدین نقشبند بخاری  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حضرت خواجہ سید شمس الدین امیر کُلال سوخاری بخاری آپ صحیح النسب سید[1] ہیں۔ آپ کا شمار سلسلہ نقشبندیہ کے اکابرین میں ہوتا ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا اسم امیر حمزہ [2] تھا۔

نسب نامہ[ترمیم]

سید شمس الدین خواجہ امیر کلال بن امیر حمزہ بن امیر یعقوب بن اسماعیل بن غوث بن عبد المنان بن قیام الدین بن رکن الدین بن نور الدین بن عبد الخالق بن علیم اللہ بن شیخ بقا بن عبد الوہاب بن شمس الدین بن ابو اسحاق بن ابو الحسن بن صدرالدین بن حامد بن محمود بن احمد بن عبد القادر بن حسین احمد بن قاسم بن زین العابدین ثانی بن محمد صالح بن امام جواد بن امام علی موسیٰ رضا بن امام موسیٰ کاظم بن امام جعفر الصادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن امام حسین بن حضرتِ فاطمۃ الزہرا و حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین[3]

جائے ولادت[ترمیم]

امیر کلال کی جائے ولادت بخارا ہے۔ شہر بخاراسے چھ میل کے فاصلہ پر سوخار نامی قریہ میں 676ھ مطابق 1278ء[4] میں پیدا ہوئے۔ آپ کی نسبت بابا سماسی سے ہے 20 سال ان کی خدمت میں رہے۔

کلال کی وجہ تسمیہ[ترمیم]

آپ کوزہ گری کا شغل رکھتے تھے فارسی میں کلال کوزہ گر(کمھار، داشتگر) کو کہتے ہیں معاش کا ذریعہ زراعت تھا۔ طاقت ور پہلوان تھے، اوائل جوانی میں شوق سے کشتی کھیلا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا، ایک دن رامتین میں کشتی میں مصروف تھے کہ وہاں سے بابا سماسی کا گذر ہوا تو آپ وہیں کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے ”یہاں موجود اس میدان میں اک مرد میدان جس کی صحبت سے کاملین زمانہ فیض یاب ہوں گے اور بندگان خدا کو فیض پہنچے گا، میں اسی لیے کھڑا ہوں “۔ جب خواجہ امیر کلال کی نگاہ پڑی تو سب کچھ چھوڑ کر ان کے پیچھے چل پڑے اور طریق تصوف میں شامل ہو گئے۔ یہ سیدزادے بابا سماسی کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ صحبت و خدمت میں رہ کر آپ کے خلیفہ بلکہ جانشین بنے۔ آپ کے باکمال اور صاحب فیض ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ آپ طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا سید بہاؤالدین نقشبند بخاری کے پیر و مرشد ہیں۔[5]

استغناء کا عالم[ترمیم]

ایک دفعہ امیر تیمور نے سمرقند سے ایک قاصد آپ کی خدمت میں بھیجا کہ اس کی ولایت کو قدم مبارک سے مشرف کریں۔ آپ نے اپنے بیٹے امیر عمر کو عذر خواہی کے لیے بھیجا اور کہا کہ اگر امیر تیمور تمھیں کوئی جاگیر یا انعام دے تو مت قبول کرنا۔ اگر تم قبول کرو گے تو اپنے جد بزرگوار حضرت محمد ﷺ کے خلاف کرو گے۔ امیر تیمور نے آپ کو تمام بخارا عطا کیا لیکن آپ نے قبول نہ کیا۔ امیر تیمور نے کہا اگر سارا نہیں تو کچھ حصہ قبول کر لیجیے امیر عمر نے پھر انکار کیا اور کہا کہ اجازت نہیں ہے۔ امیر تیمور نے کہا کہ امیر کلال کو کیا لکھ بھیجوں کہ ہمارا تقرب درویشوں میں ہو جا ئے۔ سید امیر عمر نے کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمھارا تقرب درویشوں میں ہو جائے تو تقویٰ اور عدل کو اپنا شعار بنا لو کیونکہ اللہ تعالیٰ اور خاصان حق کے تقرب کا یہی راستہ ہے۔[6]

اولاد، خلفاء و مریدین[ترمیم]

حضرت خواجہ امیر کلال قدس سرہ کے چار فرزند تھے۔ امیر برہان الدین، امیر حمزہ بن امیر کلال، امیر شاہ اور امیر عمر قدس اللہ اسرارہم۔ اور آپ قدس سرہ کے مریدوں کی تعداد ایک سو چودہ یا اس سے کچھ زیادہ تھی آپ کی صحبت کی برکت سے چار اشخاص تکمیلِ سلوک اور عظمت و جلالت کے مرتبے تک پہنچے۔[7] آپ کے خلفاء کی تعداد بھی چار ہوئی ہے۔ خواجہ بہاؤالدین نقشبند، مولانا عارف دیگگرانی، شیخ جمال الدین دہستانی اور شیخ یادگار رحمہم اللہ تعالیٰ۔ یہ تمام کے تمام صاحبِ حال اشخاص تھے۔ حضرت امیر کلال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہر ایک فرد کی تربیت اپنے ایک ایک خلیفہ کے سپرد کی تھی۔ حضرت خواجہ امیر کلال قدس سرہ کے چاروں خلفاء کے علاوہ لائق و فائق مریدین بہت سے ہوئے ہیں۔ جیسے (1)شیخ محمد خلیفہ آپ حضرت امیر کلال قدس سرہ کے اکابر مریدین میں سے ہوئے ہیں۔ (2)شیخ شمس الدین کلال حضرت امیر کلال قدس سرہ کے جلیل القدر مریدین میں سے ہیں اور سفر مبارک میں حضرت امیر کلال قدس سرہ کے ہمراہ تھے اور اور قریہ قرشی سے صحراے کفش تک پیادہ گئے۔ اور عراق میں مشائخ کے ساتھ ایک عرصہ تک ان کی صحبت میں رہے۔ آپ نے ماوراءالنہر میں حضرت امیر کلال کے طریقہ مراقبہ کو اپنایا اور اسے رواج دیا۔ (3)مولانا علاؤالدین کن سرونی آپ اکابر اصحاب میں سے ہے۔ (4)شیخ درازونی آپ عالم علوم ظاہری و باطنی تھے۔ (5)مولانا بہاؤالدین طوالیسی، (6)شیخ بدرالدین میرانی، (7)مولانا سلیمان، (8)شیخ ایمن اور (9)خواجہ محمد اِن کے علاوہ بہت صاحبان حضرت امیر کلال کے مرید ہیں۔[8] قدس اللہ اسرارہم۔

وصال[ترمیم]

جمعرات 8 جمادی الاول 771ھ بمطابق 28 نومبر 1370ء بروز جمعرات[4] کو اس دار فانی سے دائمی ملک بقا روانہ ہوئے مزار مبارک سوخار میں زیارت گاہ اور مرکز رشد و ہدایت ہے۔[9]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ مشایخ نقشبندیہ، ص 93
  2. حضرت خواجہ نقشبند اور طریقہ نقشبندیہ، ص 347
  3. حضرات القدس (مترجم اردو)، دفتر اوّل، حاشیہ: نمبر 1، ص 161
  4. ^ ا ب باقیات جہان امام ربانی جلد دوم، صفحہ 372 ، امام ربانی فاؤنڈیشن کراچی
  5. جلوہ گاہِ دوست
  6. حضرت مراد علی خاں رحمۃ اللہ علیہ
  7. حضرات القدس، دفتر اوّل، ص162
  8. مصدر سابق، ص 205-206
  9. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ، صفحہ129، نور بخش توکلی، مشتاق بک کارنر لاہور۔
سانچہ:اگاهی سید امیرکلال قدس سره مطبوعه خانقاه نقشبندیه مجدديه تهانه ضلع ملاکنڈ حضرت عبدالله جان فاروقی سرهندی قدس الله سره