وادی سندھ کا زوال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وادی سندھ کی تہذیب کا اختتام کس طرح ہوا؟ کیسے وہ شہر تباہ ہو گئے، وہ فنون نہ رہے، دستکاریاں اور صنعت و حرفت ختم ہو گئی۔ وہ تحریر صفحۂ ہستی سے مٹ گئی اور اس تہذیب کا تذکرہ تک کہیں باقی نہ رہا۔ ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ان شہروں کے لوگ کہاں چلے گئے۔ اس سلسلے پر ماہرین آثار اور قبل مورخین ابھی کسی ایک حتمی نظریہ پر متفق نہ ہو سکے۔ لیکن اب عمومی رجحان یہی ہے کہ اس تہذیب کی تباہی چند اندرونی اور بیرونی اسباب سے ہوئی۔ اندورنی اسباب میں قدرتی عوامل بھی شامل تھے ۔

پرانا مقبول عام نظریہ یہ کہ آریاؤں نے اس تہذیب کو تباہ کیا۔ اب صرف اس حد تک تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کی تباہی میں ایک عنصر آریا قبائل کے حملے تھے ۔

موہنجودڑو کی کھدائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شہر بتدریح زوال پزیر ہوا۔ با رہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار جب نئی تعمیرات ہوئیں تو ان کا معیار پہلے سے بہت پست تھا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریح دار الحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہو گیا ۔

اس غربت کی وجہ کھیتوں کی زرخیزی میں کمی یا آبپاشی کے نظام کا آہستہ آہستہ ناکارہ ہوجانا تھا یا اینٹوں اور برتنوں کے بھٹیوں میں جلانے کے جنگلات کو کاٹ کاٹ کر ختم کردینا سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بارشیں کم ہوئیں اور خشک سالی ہو گئی۔ لیکن موہنجودڑو کی کھدائی شدہ سطحوں میں کم از کم تین سیلابوں کا ثبوت ملا ہے۔ جس سے شہر بالکل تباہ ہو گیا۔ ہو سکتا ہے ایسی تباہی نچلے حصہ میں بھی آئی ہو۔ ان سیلابوں نے جو مٹی بجھائی ہے اس کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ مٹی ٹہرے ہوئے پانی کی ہے، بہتے ہوئے پانی کی نہیں۔ جس کا مطلب ہے دریا کے نچلے حصے کی زمین ارضیاتی تبدیلوں سے اوپر اٹھی دریا نے واپس حملہ کیا اور شہر غرق ہو گیا۔ ڈاکٹر ڈیلز کا کہنا ہے کہ پاکستان کا ساحل ایک زندہ ارضیاتی علاقہ ہے۔ جہاں ہزاروں سالوں میں زمین اوپر اٹھتی رہی ہے۔ اس وجہ سے پرانے ساحلی شہر موجودہ ساحل کئی میل دور ہیں۔ دوسرے ماہرین ارضیات نے بھی ایسے نتائج نکالے ہیں ۔

یہ طہ شدہ ہے کہ بار بار کے سیلابوں نے تباہی مچائی اور یہ ایک عنصر تھا۔ لیکن تہذیب کی حتمی تباہی کسی عظیم طوفان نوح کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ بار بار کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں بتدریح تھی ۔

کچھ شواہد حملے اور قتل عام کے بھی ملتے ہیں۔ چھ جگہوں سے لاشیں ملی ہیں۔ جن میں پانچ جگہوں پر متعدد آدمی یکجا مرے اور ایک جگہ ایک اکیلا آدمی ملا ہے۔ ان کی تفصیل کچھ یوں ہے :

ایک عوامی کنواں ایک کمرے میں واقع ہے۔ برابر کی گلی سے اونچی ہے اور گلی میں سے سیڑھیاں اس کنویں کے کمرے میں اترتی ہیں۔ ان سیڑھیوں پر دو آدمی مرے پڑے ہیں۔ ایک عورت اور ایک ان میں سے ایک الٹا گرا ہے۔ دو لاشیں گلی میں پڑی ہیں۔ یہ شہر کے آخر زمانے کے لوگ تھے۔ ایک لاش کمرے کے پختہ فرش پر پڑی تھی دوسری پختہ کمرے میں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کنواں اس وقت زیر استعمال تھا اور اسی وقت یہ لوگ مر کر گرے ہیں۔ ان کے ڈھانچے مدفون حالت میں نہیں پائے گئے ہیں ۔

ایک گھر میں چودہ ڈھانچے ملے ہیں تیرہ مرد ایک عورت اور ایک بچہ۔ ان میں سے کسی نے گنگن پہن رکھے تھے، کسی نے انگوٹھیاں اور کسی نے منکوں کے ہار۔ یہ لوگ یقینا ایک ہی حملے میں قتل ہوئے ہیں۔ ایک آدمی کی کھوپڑی میں 142 ملی میٹر لمبا کٹاؤ ہے۔ جو یقینا تلوار یا خنجر کا زخم ہے۔ بعض دوسری کھوپڑیوں پر تشدد کے آثار ہیں۔ صاف پتہ چلتا ہے یہ لاشیں شہر کی آخری تباہی کے وقت کی ہیں۔ ڈاکٹر جارج ایف ڈیلز میں 1946 میں موہنجودڑو کی کھدائی میں پانچ ڈھانچے ڈھونڈے جو چاروں شانے چت پڑے تھے۔ یہ گلی کے ایک کونے سے ملے ہیں۔ ویلر کا خیال ہے شاید یہ لوگ حملے کے وقت چھپے ہوئے کھڑے تھے۔ ان میں تین مرد، ایک عورت اور ایک بچہ ہے۔ ان کا زمانے بھی موہنجودڑو کا آخری زمانہ تھا ۔

ایک گلی میں چھ ڈھانچے ان میں ایک بچہ ملا ہے ۔

ایک گلی میں ایک ڈھانچہ ملا ہے ۔

ایک جگہ نو ڈھانچے ملے ہیں جو مڑے تڑے تھے۔ ایسا لگتا ہے کسی نے جلدی میں نو لاشیں گڑھے میں ڈال دی ہیں۔ مگر ان کے پاس ہاتھی کے دو بڑے دانت ملے ہیں۔ اس کا مطب ہے یہ ہاتھی کے دانت کا کام کرنے والا کنبہ تھا۔ جو جلدی میں بھاگ رہا تھا کہ قتل ہو گیا اور کسی نے انھیں گڑھے میں ڈال کر اوپر سے مٹی ڈال دی۔ یہ واحد شعوری طور پر دفن کیے گئے ہیں۔ یہ بھی شہر کا آخری زمانہ ہے ۔

کل اڑتیس لاشیں اس افراتفری کی حالت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر میں قتل عام ہوا تھا۔ قلعہ لاشوں سے پاک ہے۔ ویلر کا خیال ظاہر کیا ہے فاتحین نے لاشیں قلعہ سے باہر دور پھینکی ہوں گی۔ تاکہ وہاں کچھ سے عرصہ تک رہے سکیں۔ شہر میں آگ لگائی ہوگی ۔

ویلر نے یہ خیال ظاہر کیا کہ دوسری ہزاروی قبل مسیح میں بلکہ اس کے وسط میں یعنی 1500 قبل مسیح میں آریاؤں نے حملہ کرکے اس شہر کو تاراج کیا ہوگا۔ رگ وید میں ہے انھوں نے قلعہ بند شہروں (پور) کو تباہ کیا ایک شہر کو وسیع (پرتھوی) کیا اور چوڑا (اروی) کیا۔ ایک جگہ سو دیواروں والے قلعے کو فتح کا ذکر ہے۔ آریاؤں نے اپنے دیوتا اندر کو قلعے تباہ کرنے والا ’ پورم ور ‘ بھی کہا ہے۔ جو دیوداس کے نوے قلعوں کو تباہ کرتا ہے۔ ایک اور جگہ مقامی دیوتا ’ شام پرا ‘ (شام بھرا) کے نوے قلعے تباہ کرتا ہے۔ وہ قلعوں کو اس طرح نیست و نابود کرتا ہے جس طرح آگ کپڑے کو کھا جاتی ہے ۔

ان سیکڑوں قلعوں کے کچھ ثبوت آثار قدیمہ کی مدد سے پاکستان کے طول و عرض میں مل چکے ہیں۔ ان قلعوں کی تباہی کو زمانہ وہی ہے جو رگ وید کے گیتوں میں تباہ ہونے والے قلوں کا ہے۔ ویلر کہتا ہے کہ سندھ کی تہذیب آریاؤں کے آنے کے تھوڑا عرصہ پہلے تباہ ہو گئی تو بے شمار قلعے اس مختصر سے عرصے میں کس نے بنادیئے، جن کو آریاؤں نے تباہ کیا۔ لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ زوال آمادہ تہذیب سندھ 1700 ق م میں آریاؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ مگر آریاؤں کا حملہ آخری عنصر کی حثیت رکھتا ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب ایک مرتکز اور منظم ریاست اور سلطنت کی پیداوار تھی۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت اس وسیع و عریض علاقے میں یکسانی اوزان، پیمانے، مہریں، ظروف، آلات پیداوار، رسم الخط، فن تعمیر اور ٹاون پلاننگ ہے۔ بغیر ایک ریاست کے اور ایک مرکزی حکومت کے اتنی سختی سے ان چیزوں کا نفاذ دور دور علاقوں میں ناممکن ہے۔ یہ ہر گز رضاکارانہ یا خود رو یا اتفاقیہ نہیں۔ قانون کی سخت گیری کے تحت جنم لے سکتی ہے ۔

سماج غلام داری تھا جس میں حکمران طبقات کا پس منظر رکھنے والے لوگوں کے گروہ یا قبائل تھے۔ ہو سکتا ہے یہ ایک ہی قبیلہ یا گروہ یا برادری ہو۔ ان کا حکومت کرنے کا جواز ان کی مذہبی قیادت میں تھا۔ وہ مذہبی سربراہ بھی تھے۔ چونکہ قدیم مذہبی سربراہ معاشرے کا بینکار ہوتا تھا۔ جو زائد پیداوار کو نذرانوں کی شکل میں وصول کے جمع کرتا تھا۔ اس لیے اس کا قدرتی اتحاد تاجروں سے ہوا۔ گویا حکمران طبقات مذہبی پرہتوں اور تاجروں پر مشتمل تھا۔ یہ آزاد شہری تھے۔ دوسری طرف کسان اور دستکار غلام طبقات کی حثیت رکھتے تھے۔ گنکوفسکی کا کہنا ہے کہ سندھ تہذیب ابتدائی غلامی کے معاشرے کی تہذیب تھی ۔

کوئی تہذیب اس وقت تک جنم لے نہیں سکتی جب تک پہلے سماج نہایت واضح طبقات میں تقسیم نہ ہو چکا ہو۔ لہذا وادی سندھ کے طبقاتی ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے پیداوری ڈھانچے کو سمجھنا ضروری ہے۔ کوسامبی نے بڑے اناج گھر کے ساتھ بڑی چکیوں اور پاس ہی غلاموں کی رہائش کا حوالہ دے کر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ غلام مندروں کے غلام تھے۔ اگر ایسا ہے تو مذہب کا ادارہ پیداواری ڈھانچے میں ایک اہم کردار ادا کرتا تھا۔ تجارت اور ذرائع آمد و رفت کو بھی منظم کرتا تھا ۔

عام لوگ تو اپنے گھروں میں مخصوص کھرل میں موسل سے آٹا پیستے تھے۔ لیکن حکمران طبقات اور ریاستی اداروں مثلاً فوج اور حاکم خاندانوں کے لیے تھوک آٹا پیسا جاتا تھا۔ برتنوں اور اینٹوں کی تھوک پیداوار ہوتی تھی۔ تعمیر کے کام میں لوگوں کی بھاری تعداد مصروف رکھی جاتی تھی۔ صنعت و حرفت اور دستکاریوں کی پیداوار تھوک کے حساب سے ہوتی تھی۔ تھوک پیداوار اور شہر کا لازم و ملزوم کا رشتہ تھا۔ دونوں کا ایک دوسرے پر انحصار تھا۔ صرف یہی نہیں زراعت بھی مختصر اور نجی اور انفرادی نہیں تھی بلکہ تھوک کے حساب سے تھی ۔

اس ابتدائی معاشرے میں استحصال کا سب سے بڑا بوجھ زراعت پر تھا اور اس کے بعد دستکاری اور صنعت و حرفت پر۔ شہری دستکار غلاموں کی حالت دیہی زرعی غلاموں سے ضرور بہتر ہوگی۔ غلاموں کی اکثریت بہرحال کسان ہوگی۔ یہی وجہ ہے بڑے بڑے قلعہ بند شہر بنے۔ جن میں مذہبی پیشواؤں اور تاجروں نے رہاہش اختیار کی۔ ان کی خڈمت کے لیے دستکار غلام شہر میں رہتے تھے۔ اناج کے ذخائر حکومت کے قبضے میں تھے اور انفرادی گھروں میں غلے کا ذخیرہ نہیں پایا گیا۔ جس کا مطلب ہے کوئی امیر زمیندار شہروں میں نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں زمین بادشہ (پروہت) کی ملکیت تھی، انفرادی ملکیت میں نہ تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے موسمی تبدیلیوں کے علاوہ آبادی میں زبردست اضافہ ہو گیا۔ جب کہ کاشکاری کے لیے مزید زمینیں حاصل نہیں کی جاسکیں یا مزید جنگل صاف نہیں کیے جاسکے اور جو پیداواری ڈھانچہ موجود تھا وہ پورے سماج کی کفالت کرنے سے قاصر رہنے لگا۔ ان حالات میں استحصال برداشت سے باہر ہو گیا اور کسان بغاوتیں ہونے لگیں۔ تجارتی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملے اور شہروں پر کسانوں کے حملے ہونا فطری سی بات ہے۔ ان روز روز کی بغاوتوں نے سلطنت کو بہت کمزور کر دیا۔ جگہ جگہ ریاستی مشنری شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی۔ غلاموں کی بغاوت کا لامتناہی سلسلہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے سندھ تہذیب اور سندھ سلطنت کو تباہ و برباد کر دیا۔ متفرق شہروں کے بار بار جلنے اور اس کے بعد کمتر دستکاری کے مروج ہونے کے بہت سے ثبوت آثار قدیمہ نے فراہم کیے۔ یہ کمتر دستکار دیہی کمی تھے جو سماج کی پست ترین سیڑھی پر تھے۔ یہ کوئی باہر سے آنے والی فاتح اقوام کے افراد نہیں تھے۔ مقامی غلام تھے۔ یہی وجہ ہے سندھ کا کوئی شہر یا قصبہ تباہ ہوتا تو اگلی مرتبہ کمتر ثقافت دیکھنے میں آتی۔ یہ صورت حال تھی جب آریاؤں کے وحشی قبائل مغرب سے داخل ہوئے اور ان کے پے درپے حملوں نے سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔

جب سلطنت منتشر ہوئی تو مذہبی لوگوں کے ساتھ تاجروں کا اقتدار ختم ہو گیا۔ شہری دستکار بھی تباہ و برباد ہو گئے۔ آریا تجارت کو منظم کرنے کی صلاحیت سے محروم تھے۔ مقامی زراعت پیشہ لوگوں کی ثقافت دیہی پسماندہ، تنگ نظر اور کھردری تھی۔ یہ لوگ دیہاتوں میں رہتے تھے۔ خواہ ایک جگہ آبادی بہت زیادہ بھی ہوگی، مگر اس آبادی شکل ایک گاؤں کی شکل کی تھی۔ سیاسی اقتدار وسیع علاقے پر پھیلا اور مرتکز نہ تھا۔ ریاست بکھر چکی تھی۔ پہلے حکمرانوں کی وفاداری تجارت و دستکاری اور گلہ بانی سے تھی۔ لہذا وسیع علاقوں میں اقتدار کا توازن رکھ کر انھیں یکجا رکھ سکتے تھے۔ کاشتکاروں کی وفاداری زمین سے تھی وہ وسعت خیال کے عادی نہیں تھے۔ جب ریاست کا انہدام ہوا تو سلطنت چھوٹے ٹکروں میں بٹ گئی۔ شاید کئی سو یا اس سے بھی زیادہ خود مختار حکومتیں بن گئیں۔ اس کے ساتھ ان کا رسم الخط، اوزان، پیمانے، مہریں اور دیگر چیزیں جو مرکزی حکومت کے تحت تھیں یکسر ختم ہوگیں۔ اس طرح کہ گویا کبھی تھی ہی نہیں یا جیسے کوئی دوسری قوم آکر بس گئی ہو۔ حلانکہ ایسا نہ تھا صرف مقامی ڈھانچہ تباہ ہوا تھا اور اس کے ساتھ ان کا استحصالی نظام بھی تباہ ہو گیا تھا۔ جو انہی اوزان، پیمانوں، رسم الخط اور شہری انتظامیہ اور رسد اور حمل وغیرہ پر مشتمل تھا ۔

آریاؤں کا اپنا کوئی رسم الخط نہ تھا، نہ فن تعمیر تھا، نہ انھوں نے دوبارہ قابل ذکر تعمیرات کیں۔ اس کا مطلب تھا کہ نہ صرف انھوں نے شہروں کو تباہ کیا بلکہ پیداوار کے پورے نظام ۔۔۔ شہری اور زرعی ۔۔۔ تمام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ رگ وید میں بھی ہے کہ اندر ندیوں کو ورتر شیطان سے آزاد کر دیا۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ آریاؤں نے وادی سندھ کے سیکڑوں بند یا گبر بند توڑے اور رکے ہوئے پانیوں کو آزاد کرایا ۔۔۔ ورتر کسی شیطان کا نام نہیں بلکہ بند یا رکاوٹ کا نام ہے۔ رگ وید میں ہے کہ ’ ورتر سانپ کی طرح ڈھلوان پر لیٹا تھا۔ دریا اپنی جگہ جامد �( تستا بھانا ) تھے۔ جب اندر نے اپنا وجر �) دھجیاں اڑانے والا ہتھیار شیطان پر مارا تو زمین بل کھا گئی۔ پتھر رتھ کے پہیوں کی طرح لڑھکے۔ رکے ہوئے پانی شیطان کے لیٹے بدن پر سے بہنے لگے۔ �( رگ وید 8۔4، 19۔4 اور 3، 15۔2 ) سوال پیدا ہوتا ہے آریاؤں کو کیا پڑی تھی کہ ان بندوں کو توڑتے۔ اس کے جواب کے لیے کوئی مواد ہمارے پاس نہیں ہے۔ لیکن وادی سندھ کی معیشت کی بنیاد زراعت پر تھی اور آبپاشی کا انحصار ان بندوں پر تھا۔ اس معیشت پر کنٹرول مذہب کے ذریعے تھا۔ چھوٹے مذہبی پیشوا یقینا دریاؤں کے کناروں، ندیوں کے کنارے اور بندوں کے کنارے کٹیاؤں میں رہتے ہوں گے۔ اس طرح یہ سیاسی اقتدار کی علامت بن گئے تھے۔ جن کو مخالف تاراج کرتے رہتے تھے ۔

وادی سندھ کے لوگوں کے پاس کلہاڑی بغیر سوراخ اور اس لیے بغیر دستے کے تھی۔ اس کے پاس پسلی دار بھالے نہ تھے۔ تلواریں نہ تھیں۔ نہر، ہل، مٹی کی تختیاں جن پر طویل تحریر کندہ کرتے تھے نہ تھیں ۔

ماخذ

یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور