پشتون ساز و آواز اور رقص

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پشتو زبان کی ادبی اصناف پاک و ہند کی دوسری زبانوں سے ملتی جلتی ہیں۔ اس علاقے کے باشندوں کی زندگی قدرتی طور پر پھولوں کی طرح سیج نہیں ہے۔ اس لیے اس کے کتنے پہلو ہیں جو سنگین بھی اور نرم و نازک بھی ہیں، ان کا عکس ان کی موسیقی بھی دکھائی دیتا ہے۔ ان میں مردانگی کی روایات بھی، رومان کی جھلکیاں بھی، زندگی کے میلے و نفیس بہاریں، رنگینیاں اور رعانیاں بھی ہیں۔ جو شادی بیاہ، رسموں ریتوں اور تہواروں میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ راگ و رنگ کے شوقین ہیں۔ ان کی زندگی میں حجرہ کو خاص دخل ہے۔ جہاں گاؤں کے لوگ جمع ہوکر مختلف معاملات پر گفت و شنید کرتے ہیں۔ کوئی حجرہ ایسا نہیں ہے جہاں اسباب طرب یعنی رباب، گھڑا اور ڈھول نہ ہو۔ یہیں موسیقی کا اہتمام ہوتا ہے اور رقص کا بھی۔ یہ حقیقت ہے ہر پٹھان دل و جان سے موسیقی کا دلدادہ ہوتا ہے۔

گیت[ترمیم]

ایک ایسی قوم جس کی زندگی ہی رزم کے لیے وقف ہو ایسے میں زندگی کے اس اہم پہلو سے ربط کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے ابتدا میں ہی لمبی چوڑی نظموں میں جنگ و جدل کے معرکوں اور لڑائیوں کی داستانیں قلمبند کی جاتی تھیں اور انھیں فخریہ مجلسوں، حجروں، میلوں اور تہواروں میں سنایا جاتا تھا۔ گویا شروع میں شاعری اور موسیقی کے ڈانڈے ملتے تھے۔ گیت اور نظمیں خود بخود خاص قسم کے ناچوں میں ڈھلتے چلے گئے۔ جن میں زندگی کے واقعات اور تاریخ کی رفتار اور چال دھال بھی تصرف اور رنگ آمیزی پیدا کرتی چلی گئی۔ تاآنکہ اس کی نمایاں اقسام یا اصناف مقرر ہوگئیں جو آج ٹپہ، لوبہ، رباعی، لہکتی، بدلہ، چار بیت اور غزل کے نام سے نمایاں ہیں۔ چنانچہ جو سات اصناف پشتو شاعری کی ہیں وہیں موسیقی کی بھی۔ گویا دونوں کی کائنات ایک ہی ہے۔

سنڈے[ترمیم]

ان گیتوں کو سنڈے کہا جاتا ہے جو گھر میں عموماً کسی خوشی کے موقع عورتیں مل کر گاتی ہیں۔ مگر دوسرے گیت بھی سنڈے کہلاتے ہیں۔ ان گیتوں میں بدلہ اور نظم کی صنف ہے اور مغنولی سے قریب تر ہے، اس میں عموماً منظوم قصے ہوتے ہیں اور حجروں میں سب سے زیادہ یہی ساز کے ساتھ گائے جاتے ہیں۔

بگتئی[ترمیم]

بگتئی بھی نظم کی خاص صنف ہے اور بدلہ لوبہ نہکٹی سے زیادہ ملتی جلتی ہے۔ ٹپہ اس میں نہیں لگائے جاتے ہیں۔ موضع کے لحاظ سے بگٹئی میں عموماً حسن و عشق اور طالب و مطلوب کے آپس میں مکالمے ہوتے ہیں۔

ٹپہ[ترمیم]

پنجاب کی مقبول ترین صنف پشتو میں بھی بہت مقبول ہے۔ شاید ہی کوئی ایساپختون ہوگا جسے دوچار ٹپے یاد نہیں ہوں۔ یہ تقریباً ڈیرھ مصرے کا شعر ہوتا ہے، جسے لنڈی یا مصرع بھی کہتے ہیں۔ مگر اس میں جذبات احسات، خواہشات، آرزوں اور تمنائوں کی وسیع دنیا ہوتی ہے، جس میں حسن و عشق، وصل و فراق، رزم و بزم، ہجور و ہزل، مدح و زرم، طنز و مزاح، پند و نصائح، شکوے و حکایت، سوال و جواب، ضرب المثال اور مقولے سب کچھ ادا کیا جاتا ہے۔

چار بیتہ ( چاربیت )[ترمیم]

چاربیتہ کا پشتو ادب میں خاص مقام ہے۔ اس کی کئی قسمیں ہوتی ہیں، جن میں ہر طرح کا مضمون اور مطالب ادا کیا جاسکتاہے۔ دنیا جہاں کے قصے کہانیاں، تاریخی واقعات، مذہبیات و اخلاقات غرض کسی موضع پر لکھا اور کہا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ مثنوعی اور قصیدے سے ملتی جلتی ہے۔

نارے[ترمیم]

جس کے معنی پکانے یا بلانے کے ہیں، مگر پشتو میں گیت کی ایک خاص صنف ہے، جس میں محبوب کو واپسی کے دعائیں دی جاتی ہیں۔

لوبہ[ترمیم]

اس میں کئی مصرعے ہوتے ہیں۔ اس میں دو چاہنے والوں کی ناز و نیاز کی باتیں ہوتی ہیں۔

نمیکٹی[ترمیم]

یہ ایک طرح کا لوک گیت ہے۔ یہ چار بیت اور لوبہ سے مشابہ ہے، جس میں اکثر کاروبار عشق کا خاص تذکرہ ہوتا ہے۔ نمیکٹی اور لوبہ میں فرق یہ ہوتا ہے۔ یہ زیادہ طویل نہیں ہوتا ہے اور ہر بند سے پہلے اور آخر میں آدھا یا چھوٹا مصرع ہوتا ہے، اس لیے اس کا نام نمیکٹی (آدھی) پڑھ گیا۔

ساز[ترمیم]

افغانوں میں بجائے جانے والے ساز عموماً قدیم ساز ہیں۔ ان سازوں کی خوبی یہ ہے کہ ان کی آواز سخت اور کڑخت ہے اور اس کو بجانے میں خاصہ زور لگانا پرھتا ہے اس لیے یہ جنگی ساز کہلاتے ہیں۔ یہاں کے رہنے والوں کے مزاج جس میں ایک قسم کا کڑخت پن آگیا کے مزاج کے مطابق ہیں۔ اس علاقہ میں جو ساز رائج ہیں ان میں رباپ (رباب) سریندہ، سرنا، زنگہ اور زیر بغلئی ہیں۔ یہ ساز اصل میں قدیم زمانے میں برصغیر میں بھی رائج تھے۔ مگر مسلمانوں نے نئی نئی جدتیں اور اختراع کیں اور نہ صرف ان میں تبدیلیاں کیں بلکہ نئے ساز بھی ایجاد کیے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں رائج سازوں دھنوں کو بجانے کے لیے موزوں ہیں، لیکن یہ راگ اور راگنیاں بجانے بجانے کے لیے یہ موزوں نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں صلاحیت ہے۔ پشتو دھنوں کی خوبی یہ ہے کہ یہ سادی اور جوش سے بھری ہوئی ہے اور ان میں والہانہ پن ہے جو بے اختیار دل کو جھنجور دیتی ہیں۔

رباپ[ترمیم]

رباب یہ مضراب سے بجانے والا ساز ہے۔ یہ عربوں کا ساز ہے اور جنگی ساز ہے۔ اس میں پردے نہیں ہوتے ہیں، اس لیے اس کا بجانا مشکل ہوتا ہے۔ مگر فن کاروں نے اس میں اختراعیں کر کے اسے کلاسیکی ساز بنالیا ہے۔ اس کی ترقی یافتہ شکل سرود ہے۔

سریندہ[ترمیم]

ایک طرح کی چھوٹی سارنگی ہوتی ہے اور گز سے بجایا جاتا ہے۔ یہ رباب کی طرح جنگی ساز ہے اور اس کی آواز تیز ہوتی ہے، جس نے بعد میں محفلوں نے بھی جگہ پائی۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اس کے بجانے کا عام رواج ہے دھنیں اس میں اچھی بجتی ہیں، تاہم راگ راگنیاں اس بجانے کے لیے یہ موزوں ہیں اور نہ ہی ان میں صلاحیت ہے۔

سرنا / سرنٹرا[ترمیم]

صوبہ خیبر پختونخوا کے قدیم سازوں میں سے ہے اور سہنائی یا نیفری کی ایک قسم ہوتی ہے۔ اس میں آواز نکالنے کے لیے زور سے پھونکنا پڑتا ہے اور سینے کا خاصہ زور لگانا پڑتا ہے۔ مگر اس کی آواز بھی اسی مناسبت سے بہت تیز ہوتی ہے۔ سونڑا یا سرنا نفری کے مقابلے میں لمبی اور بھاری ہوتی ہے اور بغیر دھول کے نہیں بجائی جاتی ہے۔

زنگہ[ترمیم]

زنگہ ایک مٹی کی تھالی ہوتی ہے جس پر کھال منڈھی ہوتی ہے اور ایک پٹی کے ذریعے گلے میں ڈال کر بانس کی دو چھڑیوں سے بجایا جاتا ہے۔ قدیم سازوں میں ایک ساز مزرنگ ہے، جو مٹی کی بنائی جاتی تھی اور اس کے منہ کھال منڈھ دی جاتی تھی۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق مزرنگ برھماکی ایجاد ہے، جسے شیو جی کے ناچ کے ساتھ گنیش نے بجایا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مزرنگ کی ہی ایک شکل ہے۔

زیربغلئی[ترمیم]

دف یا ڈھولکی قسم کا ساز ہے۔ شکل میں پیندے طرف سے کٹی ہوئی یا کھلے منہ کی صراحی کی طرح ہوتی ہے۔ اس کے چوڑے منہ پر کھال منڈھی ہوتی ہے۔ اسے ڈوری یا پٹہ کہ ذریعہ گلے میں اس طرح لٹکاتے ہیں کہ اس کے گلے والا لمبوترا حصہ بائیں ہاتھ کی بغل میں دبا ہوتا ہے اور دونوں ہاتھ سے بجائی جاتی ہے۔ پکھاوج جو لکڑی کی بنی ہوتی ہے اور مزرنگ جو مٹی بنی ہوتی ہے کی ترقی یافتہ شکل ہے اور زیر بغلئی بھی مزرنگ کی ایک شکل ہے، اس کے علاوہ افغانوں میں گھڑا، تنبورا، دھول اور دف بھی رائج ہیں۔

رقص[ترمیم]

صوبہ خیبر پختونخوا یا پٹھانوں میں جو ناچ مروج ہیں وہ زیادہ تر ملی ناچ ہیں۔ ان میں بہت سے افرد ایک دائرے میں رقص کرتے ہیں، جس کے بیچ میں عموماً ڈھول نفری بجانے والے ہوتے ہیں۔ یہ بھنگڑا سے ملتے جلتے ہیں۔ بعض رقص میں نوجوان تلواریں ساتھ رقص کرتے ہیں اور بعض رقصوں میں چھڑیاں اور بعض رقصوں میں رومال استعمال کرتے ہیں اور ساتھ تالیاں بجاتے ہیں۔ اس طرح بعض جگہوں پر عورتیں اور مرد مخلوط ہوکر رقص کرتے ہیں اور کہیں صرف عورتیں ہی رقص کرتی ہیں۔ ان کے نام خٹک، انترا، بنگرہ، متاڈولہ اور بلبلہ وغیرہ ہیں۔

اس طرح کے دراصل صوبہ خیبر پختونخوا سے لے کر شمالی علاقوں، کشمیر، پنجاب ،بلوچستان، راجپوتانہ میں عام ملتے ہیں، یہ دراصل ایک طرح کی قدیم زمانے کی جنگی مشق ہیں، جو فراغت کی وقت کی جاتی تھیں، تاکہ چاق وچوبن رہیں اور انہیوں نے رفتہ رفتہ رقص کی صورت اختیار کرلی ہیں اور اس میں عورتیں بھی حصہ لینے لگیں ہیں۔ یہ رقص برصغیر کی جنگی قوموں میں یا برصغیر پر حملہ آور قوموں میں قدیم زمانے سے عام رائج ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

عاصمہ حسین۔ مغربی پاکستان کے لوک گیت