وصفی بہرائچی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد الرحمن وصفیؔ بہرائچی
وصفی ؔ بہرائچی
پیدائش22 اکتوبر1914ء
بہرائچ، یوپی، انڈیا
وفات13اپریل 1999ء
بہرائچ
اسمائے دیگروصفیؔ بہرائچی
پیشہادب سے وابستگی، تجارت
وجہِ شہرتشاعری
مذہباسلام
رشتہ دارحمید اللہ خاں، محمد نعیم اللہ خیالی،فرحت احساس
Signature
[[File:
وصفی بہرائچی کی دستخط
|frameless|alt=100px]]
موقع جال
https://faranjuned.wordpress.com/poets-and-writers-of-bahraich

عبد الرحمن خاں وصفیؔ بہرائچی ضلع بہرائچ کے ایک مشہور استاد تھے۔ جناب کی پیدائش 22 اکتوبر، 1914ء [1] کو شہر کے محلہ میراخیل پورہ بہرائچ میں ہوئی۔ آپ کے والد کا نام حافظ عبد القادر اور والدہ کا نام محترمہ مقبول بیگم تھا۔

حالات[ترمیم]

وصفی بہرائچی کے مورث اعلیٰ اللہ داد خاں کے والد۔ دور مغلیہ [1] میں کابل کے سرحدی علاقہ وزیرستان حسن خیل ہندوستان وارد ہوئے خاندان کے بعض فرد ملیح آباد اور بعض فرد مرادآباد میں سکونیت لے لی۔ آپ کے اجداعلیٰ مولوی ضامن علی خاں "انیق بہرائچی"بہرائچ تشریف لائے اوریہیں کے ہو کے رہ گے۔انیق بہرائچی صاحب بیاض اور صاحب کتاب شاعر تھے۔ انکا سا را علمی اثاثہ ضائع ہو چکا ہے صرف دو مطبوعہ کتابیں مل سکیں جو ابتک محفوظ ہیں۔ ایک کا عنوان "مناقب چار یار" اور دوسری فارسی میں ہے اس کے علاوہ کچھ قلمی نسخے بھی ہیں۔

ادبی خدمات[ترمیم]

1940ء میں ایک کل ہند طرحی مشاعرہ [1] سے وصفی صاحب کے ادبی سفر کا آغاز ہوا۔ یہیں پر انھوں نے اپنی پہلی غزل پڑھی تھی۔ وصفی صاحب کا اصل میدان سخن نعت گوئی ہے۔ آپ اپنی تصنیف افکار وصفی میں اپنے بارے میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک مزاج غزل کا تعلق ہے وہ میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ ناظرین کرام دیکھیں گے زیر نظر مجمو عہ میں زیادہ تر اشعارتصوف یا اصلاحی رنگ میں ہیں۔ میں نے شاعری کو اپنا پیشہ نہیں بنایا بس اپنے ذوق کی تسکین کے لیے شعر کہے ہیں۔

ڈاکڑمحمدنعیم اللہ خاں خیالی آپ کی کتاب "افکار وصفی" میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ برادر گرامی جناب وصفی ایک شستہ و سنجیدہ شاعرانہ ذوق کے حامل ہیں۔ جوبازار کا خریداہوامال نہیں بلکہ موروثی جائداد ہے اور اس پر حق مالکانہ رکھتے ہیں۔ آپ کے پردادا حضرت ضامن علی خاں انیق تو جناب میر انیس کے ہمعصرتھے۔ ان کا اکثرفارسی اور اردوکلام بشکل ممطبوعہ و مخطوطہ موجود ہے۔ اسی لیے وصفی صاحب نے اگرچہ باقاعدہ کسی کی شاگردی اختیا رنہیں کی مگر وراثتہ جو مذاق سخن اس میں پختگی ہے ,وقار ہے،ایک اندازہے،ادائیگی کا بانکپن ہے،ڈھب سے بات کہنے کا قرینہ ہے،چنانچہ فرماتے ہیں ........

قدم جو اٹھاوہ اٹھا بانکپن سے
سلیقہ ملا یہ مجھےاہل فن سے

یہں بلکہ وہ ایک رنگ اور دوسرے رنگ کی تمیز بھی رکھے ہیں چاہے یہ فرق خود اپنے کلام ہی میں کیوں نہ واقع ہو گیا ہو۔ دیکھیے یہں نہیں بلکہ وہ ایک رنگ اور دوسرے رنگ کی تمیز بھی رکھے ے ہیں چاہے یہ فرق خود اپنے کلام ہی میں کیوں نہ واقع ہو گیا ہو۔ دیکھیے۔....

وصفیؔ اب اپنے رنگ میں پڑھئے کوئی غزل
ہر شعر آج سب کو برنگ دگر ملا

وصفی صاحب پسندیدہ مشغلئہ شخن نعت گوئی ہے۔ جناب کی ساری شاعری میں یہ خاص چیز ہے۔ جس میں فکر کی۔ پاکیزگی جذبات کی گیرائی نظر کی بلندی آداب پیش کشی۔ اظہار شوق کا لسلیقہ۔ لطف زبان .نفاست بیان وغیررہ قابل داد ہے۔[1]

ادبی سخصیات سے رابطہ[ترمیم]

عبد الرحمن خاں وصفی ؔ بہرائچی شہرو ضلع بہرائچ کے مشہور استاد شاعر تھے۔ آپ کے دادا ضامن علی خا ں انیقؔ بہرائچی میر انیس[1] کے ہم عصر شاعر تھے اور صاحب دیوان شاعر تھے۔ وصفی صاحب کے بھائی ڈاکڑ نعیم اللہ خاں خیالی بھی ضلع بہرائچ کے مشہور ماہر لسانیات ہونے کے ساتھ ساتھ تین درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔ وصفی صاحب کا ضلع بہرائچکے تمام ادیبوں اور شاعروں سے گہرا تعلق تھا۔ آپ حاجی شفیع اللہ شفیع ؔ بہرائچی کے گہرے دوست تھے اور روز شام کو شفیع صاحب کی دکان سنگم ہوٹل پر آتے تھے جو ہر شام کو ادبی محفل کا مقام تھا جہاں بیٹھ کر وصفی صاحب، ساغر مہدی ،ااظہار وارثی، عبرت بہرائچی اپنے کلام کو ایک دوسرے سے ساجھا کرتے تھے۔ ،وصفی صاحب کا رافعت بہرائچی، شوق بہرائچی،بابو لاڈلی پرشاد حیرتؔ بہرائچی، بابا جمال ،حکیم اظہر وارثی، واصل بہرائچی واصف ؔ القادری نانپاروی،ایمنؔ چغتائی نانپاروی ،محسن ؔ زیدی،عبد الطیف زرگر شوق نیپالی، اظہار وارثی، عبرت بہرائچی ،والی آسی لکھنوئی فنا نانپاروی،اثر بہرائچی،شاعر جمالی وغیرہ سے گہرا تعلق تھا ۔

شاگرد[ترمیم]

وصفی صاحب کے شاگروں میں حاجی لطیف بہرائچی ،[2]اطہر رحمانی اور فیض بہرائچی [3] کا نام قابل ذکر ہے ۔

تصنیف[ترمیم]

وصفی بہرائچی کا صرف ایک مجموعہ کلام افکار وصفی نام سے اگست 1986ء میں فخرالدین علی احمد میموریل کمیٹی لکھنؤ اتر پردیش کے مالی تعاون سے شائع ہوا تھا۔ جو آپ کی غزلوں کا مجموعہ تھا ۔[1]

وفات[ترمیم]

وصفی بہرائچی کا انتقال 13اپریل1999ء میں شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں واقع مکان میں ہوا تھا اور تدفن شہر کے مشہور قبرستان عیدگاہ میں ہوئی تھی۔ جس میں عوام کے علاوہ شاعروں اور ادیبوں نے بھی شرکت کی تھی۔[4]

نمونہ کلام[ترمیم]

  • 1
[1]
قدرت کے کرشمے ہیں یہ ہیں وقت کے حالات سورج کو اب آئینہ دکھانے لگے ذرات
یہ چاند یہ سورج یہ نجوم ارض و سماوات ہیں خلق مگر خالق اکبر کی ہیں آیات
بے واسطہ الفت میں جب آتے ہیں پیامات ہوتے ہیں بہت سخت وہی عسق لمحات
بے سعی عمل ہیچ ہے ہر فکر و تدبر بے معنی و مفہو م غلط حرف و حکایات
وہ اور ہیں حالات بدل دیتے ہیں جن کو ہم صاحب ہمت ہیں بدل دیتے ہیں حالات
  • 2
[1]
آگیا لے سیلاب کرم دیدۂ گریں ا ب تو تھم
ڈھونڈلے ان کے نقشِ قدم تیرے قدم پر جاہ و حشم
کون کرے گا طے پیہم راہِ طلب کے پیچ وخم
بھیگی پلکیں آنکھیں نم اَ تو برس اے ابر کرم
چھیڑ دے ساز عیش و طرب اٹھ نہ سکے جب بارِ الم
دیکھ کبھی دامن اپنا دیکھنے والے بیش و کم
  • 3
[1]
کیا چیز محبت ہے زمانے کو دکھا دو دل صاف کرو اتنا کہ آیئنہ بنا دو
تعمیر گلستاں کے لیے کیا ہے ضروری بھولے ہیں جو یہ بات انھیں یاد دلا دو
معلوم ہوں سب ایک ہی کنبے ہیں افراد یوں شمع مساوات واخوت کی جلا دو
اب دور نہیں آپ سے کچھ آپ کی منزل منزل کی طرف ایک اور بڑھا دو
یوں مل کے رہو اہل چمن صحن چمن میں دشمن کے لیے آہنی دیوار بنا دو
یہ اندرا گاندھی سے سبق ہم کو ملا ہے فتنہ جب اٹھے کوئی تو طاقت سے دبا دو
وصفیؔ ہے یہی فرض یہی شرط وفا بھی اس خاک کے ہر ذرے کو گلزار بنا دو
  • 4
شفیع بہرائچی کے بڑے بھائی قادر میاں کے انتقال پر لکھے اشعار قلمی نشخہ
جانتے تھے کہ ایک روز زیر زمیں ہم کو رہنا ہے تاریک ماحول میں
جاکے حرمین سے اپنے قادر میاں شمع لے آیے تھے روشنی کے لیے
زندگی ہے تو کچھ کام کی بات ہو دین ودنیا میں آرام کی بات ہو
موت کی بات مجھ سے اگر پوچھیئے درس عبرت ہے ہر آدمی کے لیے

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح افکار وصفی مطبوعہ 1986ء
  2. نغمعہ دل و مضراب نشاط از حاجی لطیف ؔ بہرائچی مطبوعہ 1984ء
  3. احساسات فیض مطبوعہ 2015ء
  4. روزنامہ ہندستان بہرائچ میں شائع مضمون 2014ء