فتح بیت المقدس (1187ء)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(فتح بیت المقدس سے رجوع مکرر)
فتح بیت المقدس
صلیبی جنگیں
سلسلہ 1149ء اور 1189ء کے درمیان میں صلیبی لڑائیاں  ویکی ڈیٹا پر (P361) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 
عمومی معلومات
آغاز 20 ستمبر 1187  ویکی ڈیٹا پر (P580) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اختتام 2 اکتوبر 1187  ویکی ڈیٹا پر (P582) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملک فلسطین  ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مقام یروشلم  ویکی ڈیٹا پر (P276) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
31°47′00″N 35°13′00″E / 31.7833°N 35.2167°E / 31.7833; 35.2167  ویکی ڈیٹا پر (P625) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
متحارب گروہ
ایوبی سلطنت یروشلم
قائد
صلاح الدین ایوبی بیلین ابیلنی
نقصانات
Map

بیت المقدس 583ھ بمطابق 1187ء میں ایوبی سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں صلیبیوں کی شکست کے ساتھ فتح ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے جنگ حطین میں کامیابی حاصل کرنے کے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا اور 20 ستمبر سے 2 اکتوبر تک جاری محاصرے کے بعد شہر فتح کر لیا۔ فتح بیت المقدس کے بعد سلطان نے کسی قسم کا خون خرابا نہیں کیا جس کا مظاہرہ پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر صلیبیوں نے کیا تھا۔

واقعات[ترمیم]

4 جولائی 1187ء کو جنگ حطین میں زبردست شکست کے بعد مسیحیوں کی مملکت یروشلم کمزور پڑ گئی اور کئی اہم شخصیات صلاح الدین کی قید میں چلی گئی۔ ستمبر کے وسط میں صلاح الدین نے عکہ، نابلوس، یافہ، سیدون، بیروت اور دیگر شہر فتح کرلئے۔ جنگ کے شکست خوردہ مسیحی صور پہنچ گئے۔ جہاں حطین کے معرکے کے شکست خوردہ کئی مسیحی جنگجو بھی تھے جن میں بیلین ابیلنی بھی شامل تھا اس نے اپنے اہل خانہ کو واپس لانے کے لیے صلاح الدین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسے بیت المقدس جانے کی اجازت دے۔ صلاح الدین نے اس شرط پر اجازت دی کہ وہ ایک دن سے زیادہ قیام نہیں کرے گا لیکن جب وہ وہاں پہنچا تو ملکہ سبلیا نے اس سے شہر کا دفاع کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فوج کی کمان سنبھالنے کی ہدایت کی۔ بیلین نے ان کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے جنگ کی تیاریاں شروع کر دیں اور شہر میں اشیائے خور و نوش اور اسلحے کا ذخیرہ جمع کرنا شروع کر دیا۔

ناکام مذاکرات[ترمیم]

صلاح الدین کی زیر قیادت شام و مصر کی افواج صور کے ناکام محاصرے کے بعد 20 ستمبر 1187ء کو بیت المقدس پہنچ گئیں۔

صلاح الدین اور بیلین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ صلاح الدین بغیر خون خرابے کے شہر حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن شہر کے مسیحیوں نے بغیر لڑے مقدس شہر چھوڑنے سے انکار کر دیا اور دھمکی دی کہ وہ پرامن طور پر شہر دشمن کے حوالے کرنے پر اسے تباہ کرنے اور خود مرجانے کو ترجیح دیں گے۔

محاصرہ بیت المقدس[ترمیم]

مذاکرات میں ناکامی پر صلاح الدین نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔ صلاح الدین کی افواج برج داؤد اور باب دمشق کے سامنے کھڑی ہو گئی اور تیر اندازوں نے حملے کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ منجنیقوں کے ذریعے شہر پر سنگ باری کی گئی۔ صلاح الدین کی افواج نے کئی مرتبہ دیواریں توڑنے کی کوشش کی لیکن مسیحیوں نے اسے ناکام بنادیا۔ 6 روزہ محاصرے کے بعد صلاح الدین نے افواج کو شہر کے دوسرے حصے کی جانب منتقل کر دیا اور حملہ جبل زیتون کی جانب سے کیا جانے لگا۔ 29 ستمبر کو مسلم افواج شہر کی فصیل کا ایک حصہ گرانے میں کامیاب ہوگئیں تاہم وہ فوری طور پر شہر میں داخل نہ ہوئیں اور دشمن کی عسکری قوت کو ختم کرتی رہیں۔

فتح بیت المقدس[ترمیم]

ستمبر کے اختتام پر بیلین نے صلاح الدین سے مذاکرات کے دوران میں ہتھیار ڈال دیے۔ صلاح الدین نے مردوں کے لیے 20، عورتوں کے لیے 10 اور بچوں کے لیے 5 اشرفیوں کا فدیہ طلب کیا اور جو لوگ فدیہ نہیں دے سکے ان کا فدیہ سلطان صلاح الدین نے خود ادا کیا یا انھیں غلام بنالیا گیا۔ بعد ازاں سلطان نے فدیہ کی رقم مزید کم کرکے مردوں کے لیے 10، عورتوں کے لیے 5 اور بچوں کے لیے صرف ایک اشرفی مقرر کردی۔ بیلین نے اس پر بھی اعتراض کیا کہ یہ بھی بہت زیادہ ہے جس پر سلطان نے صرف 30 ہزار اشرفیوں کے بدلے تمام مسیحیوں کو چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

دو اکتوبر کو بیلین نے برج داؤد کی چابیاں سلطان کے حوالے کر دیں۔ اس موقع پر اعلان کیا گیا کہ تمام مسیحیوں کو فدیہ کی ادائیگی کے لیے ایک ماہ کا وقت دیا جا رہا ہے جس میں 50 دن تک کی توسیع کی گئی۔

صلاح الدین ایک رعایا پرور اور رحم دل بادشاہ تھا اس نے غلام بنائے گئے مسیحیوں کا فدیہ خود ادا کرکے انھیں رہا کر دیا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی کی رحم دلی[ترمیم]

فتح بیت المقدس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی کا سب سے بڑا کارنامہ یہی تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسیحیوں سے مسلمانوں کے اس قتل عام کا بدلہ نہیں لیا جو انھوں نے 1099ء میں بیت المقدس کے فتح کے بعد کیا تھا بلکہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے انھیں حد درجہ رعایت دی۔

فتح کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے مسجد اقصی کو عرق گلاب سے دھلوایا۔

تیسری صلیبی جنگ[ترمیم]

فتح بیت المقدس کی خبر یورپ کے مسیحیوں پر بجلی بن کر گری جس کے جواب میں انھوں نے تیسری صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا اور انگلینڈ کے رچرڈ شیر دل، فرانس کے فلپ آگسٹس اور جرمنی کے فریڈرک باربروسا کی زیر قیادت ایک عظیم مسیحی لشکر بیت المقدس پر چڑھائی کے لیے روانہ ہوا۔

761 سالہ مسلم اقتدار[ترمیم]

بیت المقدس پر تقربیاً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکا، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا۔

متعلقہ مضامین[ترمیم]