سلیمان شاہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیمان شاہ
(ترکی میں: سلیمان شاه ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (ترکی میں: Süleyman bin Kaya Alp ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 1167ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
خراسان  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1227ء (59–60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حلب  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات غرق  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات حادثاتی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ حائمہ خاتون  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد ارطغرل،  دوندار بے  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر معلومات
پیشہ فوجی افسر  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سلیمان شاہ (عثمانی ترک زبان میں: سليمان شاہسلیمان شاہ بن قایا الپ) (پیدائش:1178ء، وفات:1236ء) قتلمش کا بیٹا اور ارطغرل کا باپ تھا۔ سلطنت عثمانیہ کے پہلے حکمران عثمان خان غازی کا دادا تھا، جس کا تعلق اوغوز ترکوں سے تھا۔ سلیمان شاہ کا ایک اور بیٹا تھا جس کا نام سارو بت تھا جو بے ہوجا کا باپ تھا۔[1] اس کا مقبرہ قلعہ جعبر کے اندر یا اس کے قریب ہے[2] صلح انقرہ (1921ء) کے آرٹیکل 9 کے تحت، جو ترکی اور فرانس کے درمیان میں طے پایا گیا تھا، میں لکھا ہے کہ یہ مقبرہ ترکی کے ہی پاس رہے گا۔[3]

پس منظر[ترمیم]

تیرہویں صدی عیسوی کی ابتدا میں شاہان خوارزم کی قوت اپنے شباب پر تھی۔ وہ ایران، خراسان، شام اور عراق میں سلجوقیوں کے کئی مقبوضات پر قابض ہو چکے تھے ان کا منصوبہ ایشیا کی تمام اسلامی سلطنتوں کو فتح کرنا تھا لیکن عین وقت پر جبکہ اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے تیار تھے چنگیز خانی طوفان نے خوارزم شاہی سلطنت کو تہ و بالا کر کے ان کے تمام منصوبے خاک میں ملا دیے۔ اس سلطنت کی تباہی کے بعد ترک قبائل جنوب کی طرف بھاگے ان میں سے بعض ایران اور شام پہنچے اور وہاں اقتدار حاصل کیا جو ترکمانی کہلائے۔ بعض ایشیائے کوچک میں سلجوقیوں سے آملے۔ انہی ترک قبائل میں اپنا وطن چھوڑ کر مارے مارے پھرنے والے عثمانی ترکوں کے آباء و اجداد کا قبیلہ بھی تھا جو اوغوز قبیلے کا ہی ایک جزو تھا۔ اس قبیلہ کے سردار کا نام سلیمان شاہ تھا۔ ایک روایت کے مطایق یہ خراسان کے شہر ماہان میں آباد ہوا لیکن منگولوں کے حملے کے باعث یہاں سے نکل کر مغرب کی جانب ہجرت کی ۔

اناطولیہ آمد[ترمیم]

سلیمان شاہ تیرہویں صدی عیسوی میں ہجرت کرکے ایران آئے اور وہاں سے اپنے قبیلے کے ساتھ اناطولیہ کی جانب روانہ ہوئے جہاں اس وقت سلجوقی سلطنت قائم تھی۔ سلیمان شاہ منگولوں کے دشمن ملک میں پناہ لینے کے خواہش مند تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہاں پناہ لینا ان کے قبیلے کے لیے انتہائی مناسب تھا۔ سلیمان شاہ مشرقی اناطولیہ کے شہر اخلاط پہنچے وہ خود اور ان کے قبیلے والے اپنے اعلیٰ اوصاف میں مشہور تھے۔ اخلاط کے حکمراں سے بھی تعلقات اچھے تھے لیکن جب یہاں منگولوں کی جانب سے خطرہ ہوا تویہ علاقہ بھی چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ اخلاط میں قیام کے دوران میں سلیمان شاہ اور اس کے قبیلہ والوں نے بہت نام پیدا کیا لیکن خوارزم شاہ کا حامی اور مدد گار ہونے کی وجہ سے انھیں منگولوں سے خطرہ تھا۔ اس لیے اپنے قبیلہ والوں کے ساتھ 1221ء میں اخلاط چھوڑنا پڑا۔

کارنامے[ترمیم]

جس زمانہ میں سلیمان شاہ اور ان کے آدمی اناطولیہ کے شہر اخلاط میں مقیم تھے دوران میں انھوں نے چند نمایاں کام کیے ۔

  1. شمال کے مسیحی دہشت پسند گروہ اخلاط کے علاقے میں آکر لوٹ مار کرتے تھے سلیمان کے ساتھیوں نے ان کا قلع قمع کیا ۔
  2. اخلاط میں امن و امان قائم کر دیا۔
  3. شمال کی بازنطینی سلطنت سے بھی جس کا مرکز طربزون تھا، ٹکر لی اور انھیں پسپا کیا۔
  4. بعض مورخین کے خیال میں اس دوران میں انھوں نے سلجوقی سلطان کی مدد بھی کی ۔

انتقال[ترمیم]

اخلاط کے بعد سلیمان نے اپنے آدمیوں کے ساتھ شام کے مشہور شہر حلب کی جانب ہجرت کی ۔

تھوڑا عرصہ یہاں وہاں قیام کیا لیکن ابھی سفر ہجرت جاری تھا کہ سلیمان شاہ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دریائے فرات تھا۔ بعض کا بیان ہے کہ وہ دریا میں غسل کرتے ہوئے ڈوبا جبکہ چند مورخین کا کہنا ہے کہ وہ سفر کے دوران میں دریا عبور کرتے وقت ڈوب گیا۔ اس کی لاش وہیں دفن کی گئی۔ ان کا مزار ترک مزاری یعنی ترک کا مزار کہلاتا ہے۔ بے شمار ترک ان کے مزار کی زیارت کرتے ہیں ۔

جغرافیائی طور پر ترک مزاری 2015ء تک شام میں واقع تھا تب تک معاہدہ لوزان کے تحت ترکی کو ان کے مزار پر پرچم نصب کرنے اور اعزازی گارڈز تعینات کرنے کی اجازت تھی۔ شام میں خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی وجہ سے اس مزار کو اب ترکی کے اندر منتقل کر دیا گيا ہے، کیوں کہ خطرہ تھا کہ اس پر دولت اسلامیہ حملہ کر دے گی، جس وجہ سے ترکی کو مجبوراً آنا پڑے گا کہ وہ فوجی کارروائی کرے۔ اس سے بچنے کے لیے یہ قدم اٹھایا گيا۔ یہ مزار اس سے پہلے 1970ء کی دہائی میں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گيا۔[4]

شجرہ نسب[ترمیم]

مختلف ذرائع نے سلیمان شاہ کو عثمان غازی اور ان کے والد ارطغرل سے جوڑا:

Family tree in Şükrullah's Behcetü't Tevârîh[5]

Oğuz
Gökalp
Kızıl Boga
Kaya Alp
Süleymanşâh
Ertuğrul
Osman Gazi


Family tree according to Oruç Bey's Oruç Bey Tarıhı[6]

Oğuz
Gunhan
Kayı Han
35 generations
Gökalp
Basak
Temür
Sugançaf
Bakı Ağa
Baysunkur
Kayıtnun
Tugar
Akulug Ağa
Iğla
Baytur
Kızıl Buga
Kaya Alp
Süleymanşâh
Ertuğrul
Osman Gazi


Family tree in Hasan bin Mahmûd el-Bayâtî's Câm-ı Cem-Âyîn[7]

Kaya Alp
Süleymanşâh
Ertuğrul
Savcı BeyOsman GaziGündüz Bey


Family tree in Âşıkpaşazâde's History of Âşıkpaşazâde[8]

Oğuz
Kayık Alp
Gökalp
Basuk
Kaya Alp
Süleymanşâh
Ertuğrul
Saru-Yatı (Savcı)Osman GaziGündüz Alp
Bay-HocaAy-Doğdu

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Suleyman Shah – Wikipedia
  2. Sourdel, D. (2009)۔ "ḎJ̲abar or Ḳalat ḎJ̲abar"۔ In P. Bearman, Th. Bianquis, C.E. Bosworth, et al.۔ Encyclopaedia of Islam (2nd ed.)۔ Brill online.
  3. "Franco-Turkish agreement of Ankara" (in French)۔ Retrieved 19 ستمبر 2009
  4. http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2015/02/150223_shah_suleyman_tomb_sq بی بی سی اردو 24 فروری 2015
  5. İnalcık, Halil, 2007; sf. 487
  6. Bekir Manav (2017)۔ Ertuğrul Gazi (بزبان ترکی)۔ Pergole Yayınları۔ صفحہ: 54۔ ISBN 978-6052-394-23-6۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 ستمبر 2020 
  7. İnalcık, Halil, 2007; sf. 488
  8. İnalcık, Halil, 2007; sf. 489