دوست محمد قندھاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
دوست محمد قندھاری
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1801ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قندھار  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 17 فروری 1868ء (66–67 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

خواجہ دوست محمد قندھاری کا تعلق یوسفزئی درانی افغان قبیلے سے تھا۔

ولادت[ترمیم]

آپ کی پیدائش قندھار کے قریب اپنے آبائی گاؤں میں 1214ھ یا 1216ھ میں ہوئی۔

نسبت باطنی[ترمیم]

آپ آخوند ملا علی کے فرزند تھے۔ آپ جب سن شعور کو پہنچے تو ابتدائی تعلیم میں قرآن کریم باتجوید حفظ کیا اور پھر عربی اور فارسی زبان میں دینی تعلیم کا آغاز کیا۔ علم کا شوق آپ کو کابل لے گیا جہاں جید علما سے علم فقہ، حدیث اور تفسیر کی کتب کا درس لینا شروع کیا۔ ایام جوانی میں ایک روز ہم عمر دوستوں کے ساتھ بابا ولی کے مزار شریف کی زیارت کو جا رہے تھے کہ راستے میں ایک پریشان حال مجذوب درویش سے ملاقات ہوئی جو ہر طالب علم سے متعلق کوئی نہ کوئی بات یا اشارہ فرماتے۔ جب میں سامنے ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ
”یہ طالب علم بڑا صاحب کمال اور صاحب حال اولیاء اللہ میں سے ہوگا اور ولی کامل بنے گا، کیونکہ اس کی پیشانی میں اسرار معرفت ہویدا ہیں۔“

بزرگان دین سے محبت[ترمیم]

ایک رات اسباق کے مطالعہ کے دوران میں آپ کے دل میں شاہ نقشبند ثانی شاہ عبد اللہ المعروف شاہ غلام علی دہلوی کی زیارت کا شوق پیدا ہوا آپ واپس عازم قندھار ہوئے اور وہاں سے غزنی و کابل کے راستے پشاور پہنچے تو یہ خبر سنی کہ جناب کا وصال ہو گیا ہے مجبوراً تعلیم کا سلسلہ موقوف کرکے مختلف بزرگان دین کی خدمتوں میں حاضری دی۔ اسی دوران میں سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی خواب میں زیارت ہوئی، تو آپ عازم بغداد ہوئے اور مرقد اطہر پر فاتحہ پڑھ کر بارگاہ الٰہی میں دعا کی کہ الٰہی میرے درد کی دوا فرما۔ مگر وہ بے چینی و اضطراب اور درد کی کیفیت آپ کے لیے وجہ آزمائش بنی رہی تو آپ کردستان کے شہر سلیمانیہ پہنچے اور یہاں شیخ عبد اللہ ہرانی کی تعریف سن کر آپ کی بارگاہ میں حاضری دی، مگر اضطراب باطنی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ شیخ عبد اللہ ہرانی نے شاہ ابو سعید دہلوی کی خدمت میں حاضری کا حکم دیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان آمد[ترمیم]

1251ھ کو قبلہ شاہ صاحب کی دعاؤں اور توجہات کی ساتھ افغانستان کی طرف روانہ ہوئے۔ افغانستان میں کڑی میمن پہنچے تو لوگوں نے والہانہ استقبال کیا۔ پٹھانوں کا یہ قبیلہ خانہ بدوش تھا اور ان کے خیموں کا مجموعہ بستی یا کڑی کہلاتا تھا۔ اس قبیلے کا یہ معمول تھا کہ وہ گرمیوں میں قندھار کے نواح اور سردیوں میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے دامان کے موضع چودھواں کے پاس خیمہ زن ہوتے تھے۔ جیسے ہی حاجی صاحب کا خیمہ استادہ ہوا تو قافلے والوں نے یہ سوچ کر کہ کہیں حاجی صاحب یہاں سے چلے نہ جائیں، اس خدشے کے پیش نظر اپنی قوم کی انتہائی پارسا لڑکی کی شادی حاجی صاحب سے کردی اور ساتھ ہی پانچ چھ شامیانے بھی بنادیئے۔ ایک نماز باجماعت کے لیے، دوسرا آپ کے گھر اور تیسرا آپ کے خلوت خانہ کے لیے اور دو شامیانے ذاکرین اور درویشانِ طالبانِ حق کے لیے تاکہ انھیں رہائش میں آسانی ہو۔

خانقاہ کی تعمیر[ترمیم]

جب اس علاقہ میں دعوت و ارشاد کا کام نہایت وسیع ہو گیا تو قندھار کے مضافاتی علاقہ غنڈاں کے صاحب اثر افراد جو آپ کے مریدین صادق تھے اور جن میں ملا عبد الحق اور حاجی محمد صدیق کے نام قابل ذکر ہیں نے ایک خانقاہ تعمیر کرنے کی اجازت طلب کی اور اجازت ملتے ہی لوڑگئی کے مقام پر چند کمروں پر مشتمل ایک عمارت کھڑی کردی گئی جو آج تک خانقاہ غنڈاں کے نام سے مشہور ہے۔ حاجی صاحب نے ایک عرصہ تک یہاں قیام فرمایا اور مخلوق خدا آپ کے فیض سے سیراب ہوئی۔ ذکر الٰہی کے کئی چشمے یہاں سے جاری ہوئے۔ صاحب کے حلقۂ ارادت میں عوام الناس کے علاوہ خواص کا طبقہ بالخصوص علما اور سجادہ نشین کافی تعداد میں داخل ہوئے۔ آپ نے اپنے خلیفۂ اعظم مولانا محمد عثمان دامانی کو اپنا نائب مقرر فرمایا اور خانقاہ شریف اور کتب خانہ و دیگر اسباب آپ کو ودیعت فرما دیے۔ اور اپنے مقربین خلفاء کو جمع فرماکر سب سے مولانا محمد عثمان دامانی کی نیابت کی تائید لی۔

سلسلہ شیوخ[ترمیم]

  • حضرت شیخ حاجی دوست محمد قندھاریؒ
  • حضرت شیخ احمد سعید مہاجر مدنیؒ
  • حضرت شیخ ابو سعید ذکی القدرؒ
  • حضرت شیخ شاہ عبد اللہ غلام علی دہلویؒ
  • حضرت شیخ مرزا مظہر جان جاناں شہید ؒ
  • حضرت شیخ سید نور محمد بدایوانیؒ
  • حضرت شیخ حافظ محمد محسنؒ
  • حضرت شیخ سیف الدینؒ سرہندی
  • حضرت شیخ محمد معصوم عروۃ الوثقیٰ ؒ
  • حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندیؒ

وفات[ترمیم]

23 شوال المکرم 1284ھ کی تاریخ وصال ہوا۔ اس وقت آپ کی عمر 68 سال تھی وصیت کے مطابق محمد عثمان دامانی نے غسل دیا، کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ کی کوئی نسبی اولاد نہیں تھی آپ کا مزار پر انوار آج بھی موسیٰ زئی میں تشنگان معرفت کے لیے وجہ تسکین و طمانیت ہے۔ آپ کی تصنیفات میں سوائے آپ کے مکتوبات کے اور کسی تحریر کا علم نہیں ہو سکا،[1]

حوالہ جات[ترمیم]