محمد بن ابوبکر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
محمد بن ابوبکر
(عربی میں: محمد بن أبي بكر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 631ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 658ء (26–27 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
فسطاط  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات قتل  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل معاویہ بن حدیج  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد قاسم بن محمد بن ابی بکر  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد ابوبکر صدیق  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ اسماء بنت عمیس  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
مناصب
خلافت راشدہ میں والئ مصر (6 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
فروری 658  – جولا‎ئی 658 
مالک اشتر 
عمرو ابن العاص 
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد،  والی  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری خلافت راشدہ  ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شاخ خلافت راشدہ کی فوج  ویکی ڈیٹا پر (P241) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں جنگ جمل،  جنگ صفین  ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

محمد بن عبد اللہ یہ محمد بن عبد اللہ بن عثمان ابوبکر صدیق کے بیٹے ان کی والدہ کا نام اسماء بنت عمیس تھا۔ یہی محمد بن ابوبکر کہلاتے ہیں۔ صحابہ کرام کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔چونکہ بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علما اسلام نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود و مذموم قرار دیا ہے۔

ولادت[ترمیم]

محمد بن ابوبکر کی ولادت 25 ذوالقعدہ 10ھ کو ذوالحلیفہ میں ہوئی۔ سنن نسائی میں ان کی ولادت کا ذکر ہے۔

’’ابوبکر صدیق حجۃ الوداع کے موقع پر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ حج کرنے کے واسطے نکلے ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اسماء بنت عمیس بھی تھیں جس وقت وہ مقام ذوالحلیفہ پہنچ گئے تو اسماء کے پیٹ سے محمد بن ابوبکر کی ولادت ہوئی اس پر ابوبکر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور بتایا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم ان کو حکم دو کہ غسل کرنے کے بعد احرام باندھ لیں اور حج کی نیت کر لیں پھر حج بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام کام کریں جو دوسرے لوگ کرتے ہیں‘‘۔[1]

کنیت[ترمیم]

ام المومنین عائشہ صدیقہ نے ان کی کنیت ابو القاسم رکھی اور اسی نام سے صحابہ کے دور میں پکارا کرتی تھیں بعد میں جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو اس کا نام قاسم رکھا۔

نسب[ترمیم]

محمد بن عبد الله بن عثمان بن عامر بن عمرو بن كعب بن سعد بن تيم بن مرة بن كعب ابن لؤی القرشی التيمی۔

ربیب علی[ترمیم]

جب ان کی والدہ اسماء بنت عمیس نے ابوبکر صدیق کے بعد علی المرتضیٰ سے نکاح کیا تو محمد بن ابوبکر ان کے ربیب (وہ اولاد جو پہلے شوہر سے ہو اور دوسرے شوہر کی زیر تربیت ہو یا پہلی بیوی سے ہو اور دوسری بیوی کی آغوش میں پرورش پا رہی ہو۔ اسے ربیب یا ربیبۃ کہا جاتا ہے ) ہو گئے یہ یحی بن علی اور عبد اللہ بن جعفر کے اخیافی بھائی تھے یہ بڑے ہی عبادت گزار اور صاحب فضل و علم تھے اس لیے امیر المؤمنین انھیں پسند کرتے تھے۔

مظلومانہ شہادت[ترمیم]

قتل عثمان رضی اللہ علیہ کے بعد علی المرتضی نے مصر کا والی مقرر کیا۔ علی المرتضی کی شہادت کے بعد عمرو بن العاص نے مصر پر حملہ کیا تو محمد بن ابی بکر کو شکست ہوئی تو انھوں نے ایک غار میں پناہ لی اور پکڑے جانے کے بعد بے دردی سے شہید کر دیا گیا اور ان کی میت کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں ڈال کر جلا دیا گیا۔ اسی طرح عمرو بن خدیج کے قتل کرنے اور عمرو بن العاص کے بھوکا رکھ کر ہلاک کرنے کی روایات بھی ہیں۔

عائشہ صدیقہ کو ان کی اس طرح شہادت کا علم ہوا تو سخت افسوس ہوا فرماتیں میں اسے اپنا بھائی اور بیٹا سمجھتی ہوں چونکہ انھیں آگ میں جلایا گیا تھا۔ اسی غم کی وجہ سے اس کے بعد عائشہ نے کبھی بھنا ہوا گوشت نہیں کھایا۔[2]

محاصرہ عثمان[ترمیم]

محمد بن ابوبکر ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے عثمان غنی کی پالیسیوں اور کار کردگی کی مخالفت کرتے ہوئے ان کا محاصرہ کیا۔

حسن سے منقول ہے کہ سب سے پہلے محمد بن ابوبکر گھر میں داخل ہوئے اور عثمان غنی کی داڑھی کو پکڑا اور کہا تم نے اللہ کے دین کو کیوں بگاڑا ہے؟ اور سنت رسول کو کیوں برباد کیا ہے؟ تو عثمان نے فرمایا جس طرح تم نے میری داڑھی کو پکڑا ہے اس طرح ابوبکر صدیق پکڑنے والے نہ تھے پس وہ یہ سن کر ان کو چھوڑ دیا اور ان کو کوئی نقصان پہنچائے بغیرباہر نکل گئے۔[3]

جنگ جمل اور صفین[ترمیم]

جنگ جمل اور صفین میں خلیفہ چہارم علی المرتضی کے ساتھ رہے ایک روایت میں ہے۔

عبد اللہ بن بدیل، جنگ جمل کے دن، ام المؤمنین عائشہ کے پاس پہنچے وہ ہودج میں بیٹھی ہوئی تھیں اور عرض کیا اے ام المومنین آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو یاد ہے کہ میں آپ کے پاس اس دن حاضر ہوا تھا جس دن عثمان غنی کو شہید کیا گیا تھا۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ عثمان شہید ہو گئے ہیں اب آپ مجھے کیا حکم دیتی ہیں تو آپ نے فرمایا تھا کہ علی کو لازم پکڑو۔ اللہ کی قسم وہ بدلے نہیں، پس عائشہ خاموش ہوگئیں پھر یہی بات عبد اللہ بن بدیل نے تین دفعہ دہرائی پس وہ خاموش رہیں۔ عبد اللہ بن بدیل نے اونٹنی کی کونچیں کاٹنے کا حکم دیا تو اونٹنی کی کانچیں کاٹ دی گئیں پس میں اور عائشہ کے بھائی محمد بن ابوبکر اترے اور ان کے ہودج کو اٹھا کر علی کے سامنے رکھ دیا۔ پھر ان کو علی کے حکم سے عبد اللہ بن بدیل کے گھر میں داخل کر دیا۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 575
  2. اسد الغابۃ مؤلف،عز الدين ابن الاثير، ناشر، دار الفكر بيروت
  3. ابن ابی شیبہ:جلد 9:حدیث نمبر 7901
  4. ابن ابی شیبہ:جلد نہم:حدیث نمبر 8042


سانچے[ترمیم]