فصاحت

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لغوی تعریف:- فصاحت عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی ظاہر اور صاف ہونے کے ہیں۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فَصَحَ الصبحُ=صبح ظاہر ہوئی۔ اَفْصَحَ الاَمرُ= معاملہ واضح ہو گیا۔ افصح اللبنُ=دودھ بے جھاگ ہو گیا۔[1]

اصطلاحی تعریف:- علمائے ادب نے فصاحت کی یہ تعریف کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں ان میں تنافر نہ ہو، الفاظ نامانوس نہ ہوں، قواعدِ صرفی کے خلاف نہ ہو۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ در حقیقت ایک قسم کی آواز ہے اور چونکہ آوازیں بعض شیریں، دل آویز اور لطیف ہوتی ہیں، مثلاً طوطی وبلبل کی آواز اور بعض مکروہ و ناگوار مثلاً کوے اور گدھے کی آواز، اس بنا پر الفاظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں، بعض شستہ، سبک، شیریں اور بعض ثقیل، بھدے، ناگوار، پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اور دوسرے کو غیر فصیح۔

بعض الفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ فی نفسہٖ ثقیل اور مکروہ نہیں ہوتے لیکن تحریر و تقریر میں ان کا استعمال نہیں ہوا ہے یا بہت کم ہوا ہے، اس قسم کے الفاظ بھی جب ابتداً استعمال کیے جاتے ہیں تو کانوں کو ناگوار معلوم ہوتے ہیں، ان کو فنِ بلاغت کی اصطلاح میں غریب کہتے ہیں اور اس قسم کے الفاظ بھی فصاحت میں خلل انداز خیال کیے جاتے ہیں۔[2]

کلام کی فصاحت[ترمیم]

کلام کی فصاحت میں صرف لفظ کا فصیح ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن الفاظ کے ساتھ وہ ترکیب میں آئے ان کی ساخت، ہیئت، نشست، سبکی اور گرانی کے ساتھ اس کو خاص تناسب اور توازن ہو، ورنہ فصاحت قائم نہ رہے گی۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ ہر لفظ چونکہ ایک قسم کا سُر ہے اس لیے ضروری ہے کہ جن الفاظ کے سلسلے میں وہ ترکیب دیا جائے ان آوازوں سے اس کو خاص تناسب بھی ہو ورنہ گویا دو مخالف سروں کو ترکیب دینا ہوگا۔ نغمہ اور راگ مفرد آوازوں یا سروں کا نام ہے، ہر سر بذاتِ خود دلکش اور دل آویز ہے لیکن اگر دو مخالف سروں کو باہم ترکیب دے دیا جائے تو دونوں مکروہ ہو جائیں گے۔ الفاظ بھی چونکہ ایک قسم کی صوت اور سر ہیں، اس لیے ان کی لطافت، شیرینی اور روانی اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب گرد و پیش کے الفاظ بھی لے میں ان کے مناسب ہوں۔ جب کسی مصرع یا شعر کے تمام الفاظ میں ایک قسم کا تناسب، توازن اور توافق پایا جاتا ہے، اس کے ساتھ وہ تمام الفاظ بذاتِ خود بھی فصیح ہوتے ہیں تو وہ پورا مصرع یا شعر فصیح کہا جاتا ہے اور یہی چیز ہے جس کو بندش کی صفائی، نشست کی خوبی، ترکیب کی دل آویزی، برجستگی، سلاست اور روانی سے تعبیر کرتے ہیں۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مصباح اللغات
  2. موازنہ انیس و دبیر از علامہ شبلی
  3. موازنہ انیس و دبیر از علامہ شبلی