عمر بن سعد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمر بن سعد
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: عُمر بن سَعد بن أبي وقاص ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 620ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات جولا‎ئی686ء (65–66 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات سر قلم   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ (–661)
سلطنت امویہ (661–686)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد سعد بن ابی وقاص   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ عسکری قائد ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں سانحۂ کربلا   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عمر بن سعد (ولادت-620ء وفات 65ھ یا 66ھ یا 67ھ/684ء یا 685ء یا 686ء) مشہور صحابی رسول سعد بن ابی وقاص کے فرزند جنہیں واقعہ کربلا کی ایک سرکردہ شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ واقعہ كربلا کے وقت یہ ابن زیاد کی فوج میں سپہ سالار تھے اکثر روایت میں انھیں واقعہ کربلا کے مجرمین میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ متعدد [حوالہ درکار]اس کے برخلاف ہیں جیسا کہ عمر بن سعد نے حتی المقدور کوشش کی کہ یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوجائے۔[1]

نسب[ترمیم]

عمر بن سعد بن ابی وقاص مالک بن اہيب بن عبد مناف بن زہرہ بن كلاب بن مرہ بن كعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن النضر بن كنانہ بن خزيمہ بن مدركہ بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان الزہری القرشی الكنانی۔

عمر بن سعد کی ولادت ابن حجر عسقلانی کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں[2] اور بعض روایات کے مطابق اس سال، جس سال عمر بن خطاب کوشہید کیا گيا، جب کہ طبری کی روایت کہ 17ھ میں فتح عراق میں اس نے شرکت کی۔ اور سعد بن ابی وقاص نے اسے رائس عین کی مہم سونپی۔ اس سے پہلی روایت کو تقویت ملتی ہے۔[3]

الميۂ کربلا سے قبل[ترمیم]

باپ کو دعوی خلافت کی ترغیب دلانا[ترمیم]

سنہ 37 ہجری قمری / 657عیسوی، میں ـ جب دومۃ الجندل میں امیر المومنین حضرت علیؓ اور معاویہ بن ابی سفیان کے درمیان حکمیت کا واقعہ رونما ہوا ـ اس نے سپاہ حضرت علی(ع) اور معاویہ کے درمیان اختلافات کا مشاہدہ کیا تو اپنے باپ کے پاس پہنچا اور اس کو خلافت کا دعوی کرنے کی ترغیب دلائی لیکن حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے انکار کیا۔[4]

حجر بن عدی کے خلاف جھوٹی گواہی[ترمیم]

عمر بن سعد نے سنہ 51 ہجری قمری / 671 عیسوی میں زیاد بن ابیہ کی درخواست پر دوسرے افراد کے ساتھ مل کر [صحابی رسولؐ] جناب حجر بن عدی کے خلاف جھوٹی گواہی دی کہ وہ فتنہ انگيزی کی نیت سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اورکافر ہو چکے ہیں۔ یہی گواہی معاویہ کے لیے دستاویز بنی اور اس نے حجر اور ان کے ساتھیوں کو مرج العذراء کے مقام پر شہید کیا۔[5]

امام حسین(ع) کی ہجرت مکہ کی روایت[ترمیم]

خوارزمی نے ابن اعثم کوفی کے حوالے سے لکھا ہے کہ "امام حسین(ع) نے یزید کی بیعت سے انکار کرکے مدینہ سے [ہجرت]کی اور مکہ میں پناہ لی، عمر بن سعد، امیر [یا شاید مکہ کا امیر الحاج] تھا۔ اور جب اس نے حجاج بیت اللہ کی طرف سے امام حسین(ع) کا استقبال اور آپ(ع) کی طرف لوگوں کے رجحان کا مشاہد کیا تو وہ مدینہ چلا گیا اور یزید کو خط لکھا اور اس کو امام(ع) کی مکہ آمد کی خبر دی۔ (واضح رہے کہ ابن اعثم کی موجودہ تاریخ میں یہ روایت موجود نہیں ہے اور گویا جو نسخہ خوارزمی کے پاس تھا وہ موجودہ نسخوں سے مختلف تھا)۔[6]

مسلم بن عقیل کے ساتھ خیانت[ترمیم]

جب مسلم بن عقیل امام حسین(ع) کے نمائندے کی حیثیت سے سنہ 60 ہجری قمری/ 680 عیسوی میں کوفہ پہنچے تا کہ امام(ع) کے لیے کوفیوں سے بیعت لیں تو ابن سعد نے بھی بعض دوسرے اشراف کی طرح یزید کو خط لکھا اور تجویز دی کہ اگر کوفہ کو بچانا چاہتا ہے تو اپنے والی نعمان بن بشیر کو برطرف کرے۔ جب مسلم بن عقیل کو عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر گرفتار کیے گئے تو مسلم نے رازداری میں ابن سعید کو وصیت کی لیکن ابن سعد نے ابن زیاد کو ان کی وصیت سے آگاہ کیا اور مسلم کے ساتھ خیانت کی۔[7]

کربلا میں موجودگی[ترمیم]

تاریخ میں ابن سعد کی شہرت وجہ کربلا کے خونی واقعے میں اس کی شرکت ہے جس میں امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب شہید ہوئے۔ اس واقعے نے ابن سعد کو تاریخ کے قابل نفرت چہروں میں قرار دیا۔

عبیداللہ بن زیاد کی کوفہ آمد کے بعد، ابن سعد ـ جس کو رے اور دَسْتبی۔ کی حکومت سونپ دی گئی تھی اور مامور تھا کہ دیلمیوں کی شورش کو کچل دے 4000 افراد کے لشکر کے ساتھ ـ جو کوفہ کے باہر خیمہ زن تھا ـ رے کی طرف عزیمت کے لیے تیار تھا لیکن کوفہ کی طرف امام حسین(ع) کی عزیمت کی خبر ابن زیاد کو ملی تو وہ مجبور ہوا کہ ابن سعد کو امام(ع) کا مقابلہ کرنے کے لیے کربلا روانہ کرے۔ ابن سعد نے ابتدا میں حکم ماننے سے انکار کیا لیکن ابن زیاد نے اس کو دھمکی دی کہ اگر امام(ع) کا مقابلہ نہ کیا تو اس کو رے کی حکومت کا فرمان واپس کرنا پڑے گا چنانچہ اس نے سر تسلیم خم کیا اور اپنے ماتحت سپاہیوں کے ہمراہ کربلا کی جانب روانہ ہوا۔[8]

کربلا کی جنگ میں کردار[ترمیم]

ابن سعد بروز جمعہ 2 یا 3 محرم سنہ 61 ہجری قمری/ 680 عیسوی کو کربلا روانہ ہوا اور قرہ بن قیس حنظلی کو امام حسین(ع) کے پاس روانہ کیا تا کہ امام(ع) سے پوچھ لے کہ آپ(ع) عراق آئے ہیں؟

امام حسین(ع) نے جواب دیا: "مجھے کوفہ کے لوگوں نے دعوت دی ہے اسی بنا پر میں عراق آیا ہوں، اب اگر وہ اپنی دعوت پر استوار نہیں ہیں تو میں واپس چلا جاتا ہوں"۔

ابن سعد نے امام(ع) کا جواب ایک خط کے ضمن میں عبیداللہ بن زیاد کے لیے لکھا، تاہم عبیداللہ کے حاشیہ برداروں ـ منجملہ شمر بن ذی الجوشن اور دیگر نے جو جنگ کے حامی تھے ـ ابن سعد کو امام(ع) کے سامنے نرمی برتنے سے منع کیا اور ابن زیاد نے ابن سعد کو ـ جو ابتدا میں اس موضوع کو مصالحت کے ذریعے فیصلہ دینا چاہتا تھا ـ لکھا کہ "یا حسین(ع) کے ساتھ جنگ کرے یا سپاہ کوفہ کی امارت شمر بن ذی الجوشن کے سپرد کر دے"،۔۔ لیکن ابن سعد نے اس خط کے جواب میں شمر سے کہا: "میں خود سپاہ کا امیر ہوں گا اور امام حسین(ع) کے ساتھ لڑوں گا"؛ اور پھر یہ واضح کرنے کے لیے کہ وہ امام(ع) کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے پر عزم ہے، اس نے سب سے پہلا تیر امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کی طرف پھینکا۔[9][10]

شہداء کربلا کے جسموں کی پامالی[ترمیم]

ابن سعد نے امام حسین(ع) اور آپ(ع) کے اصحاب کی شہادت کے بعد حکم دیا کہ ان کے جسموں پر گھوڑے دوڑائے جائیں اور انھیں پامال کیا جائے اور 12 محرم کو اس نے اپنی سپاہ کے ہالکین کو دفنا دیا، خاندان حسین(ع) کو اسیر بنایا اور کوفہ کی طرف روانہ ہوا اور جب عبیداللہ بن زیاد کے پاس پہنچا تو ابن زیاد نے کہا کہ امام حسین(ع) کے ساتھ جنگ کے سلسلے میں اس کا بھیجا ہوا خط واپس دے۔ ابن سعد نے دعوی کیا کہ وہ خط کہیں جل کر ضائع ہو چکا ہے۔ ابن زیاد نے کہا: میں وہ خط تم سے لے کر رہوں گا۔

ابن سعد نے ـ جو ہر طرف سے مایوس ہو چکا تھا ـ اپنی حالت کو یوں بیان کیا ہے: "کوئی بھی مجھ سے بد تر حالت میں اپنے گھر کو نہیں پلٹا، کیونکہ میں ایک فاجر اور ظالم امیر کی اطاعت کرچکا ہوں اور عدل کو پامال کرچکا ہوں اور اپنی قرابت کے رشتوں کو منقطع کرچکا ہوں"۔[11]

ہلاکت[ترمیم]

پہلی روایت[ترمیم]

ابن سعد ـ امام حسین(ع) کے قاتلوں سے انتقام لینے کے لیے سلیمان بن صُرَد خزاعی کوفی کی تحریک (سنہ 65ہجری قمری /684عیسوی) کے ایام میں اپنی جان کے خوف سے ـ راتوں کو دارالامارہ میں سویا کرتا تھا اور اس کے بعد مختار بن ابی عبیدہ ثقفی نے سنہ 66ہجری قمری/685عیسوی میں امام حسین(ع) کی خونخواہی کی نیت سے قیام کیا اور کوفہ پر مسلط ہوئے تو ابن سعد محمد بن اشعث کے ساتھ ـ جو خود بھی جنگ کربلا میں شرکت کرچکا تھا ـ کوفہ سے فرار ہوکر چلا گیا۔ لیکن کوفیوں نے مختار کے خلاف بغاوت کی تو وہ کوفہ واپس آیا اور مختار کے دوسرے مخالفین کے ساتھ مل کر باغیوں کی قیادت کرنے لگا تاہم باغیوں کو شکست ہوئی تو وہ پھر بھی کوفہ چھوڑ کر بھاگ گیا اور بصرہ کی طرف چلا گیا تاکہ مصعب بن زبیر کے ہاں پناہ لے۔ مختار نے اپنے ایک سپہ سالار ابوقلوص شبامی کو ابن سعد اور اس کے ساتھیوں کے تعاقب میں روانہ کیا۔ اس نے ابن سعد کو گرفتار کرکے مختار کے سامنے پیش کیا اور ابن سعد اور اس کے بیٹے حفص بن عمر بن سعد ـ جو مجلس میں حاضر تھا ـ کو مختار کے حکم پر ہلاک کیا گیا۔ مختار نے ان کے جسموں کو آگ میں جلایا اور اور ان کے سروں کو مدینہ میں محمد بن حنفیہ کے پاس بھجوایا۔۔

دوسری روایت[ترمیم]

دوسری روایت میں منقول ہے کہ ابتدا میں مختار نے عبد اللہ بن جعدہ بن ہبیرہ مخزومی کی شفاعت پر ابن سعد کو امان نامہ دیا، کیونکہ مختار کی بیٹی یا بروایتے مختار کی بہن عمر بن سعد کی بیوی تھی؛ لیکن محمد بن حنفیہ نے مختار سے احتجاج کیا تو انھوں نے اپنی سپاہ کے ایک امیر کو حکم دیا کہ عمر سعد کو اس کے گھر سے گرفتار کرکے اس کا سر قلم کر دے۔ جب عمر کا سر مختار کی مجلس میں لایا گیا تو اس کے بیٹے حفص بن عمر کو بھی ـ جو مختار کی مجلس میں موجود تھا ـ کو بھی ہلاک کیا گیا۔

اولاد[ترمیم]

وفات[ترمیم]

سنہ 66ھ میں عمر بن سعد اور ان کے بیٹے حفص کو مختار نے خون حسین کا انتقام لیتے ہوئے قتل کیا۔[12]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ڈاکٹر اسرار احمد۔ "سانحہ کربلا"۔ Archive.org۔ مرکزی انجمن خدّام القرآن 
  2. ابن حجر عسقلانی، تہذیب التہذیب، جلد 7 صفحہ451۔
  3. امام ابن جریر،طبری، تاریخ طبری، جلد 5 صفحہ 534
  4. ابن جریر طبری۔ تاریخ الرسل والملوک۔ صفحہ: ج5، 67 
  5. ابن جریر طبری۔ تاریخ الرسل والملوک۔ صفحہ: ج۵، ص ۲۶۹ تا ۲۷۶ 
  6. خوارزمی۔ مقتل الحسین۔ صفحہ: ج1، ص 190 
  7. دینوری۔ الاخبار الطوال۔ صفحہ: ص241 
  8. بلازری۔ الانساب الاشراف۔ صفحہ: ج–۳، ص ۱۷۶،۱۷۷ 
  9. ابن جریر طبری۔ تاریخ الرسل والملوک۔ صفحہ: ج۔۵، ص ۴۰۹ و ۴۱۷ 
  10. بلازری۔ الانساب الاشراف۔ صفحہ: ۱۷۷،۱۸۷،۴۱۱،۴۱۵ 
  11. ابن جریر طبری۔ تاریخ الرسل والملوک۔ صفحہ: ج ۵، ص ۴۶۷ 
  12. اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ "تاریخ اسلام"۔ محدث لائبریری۔ دار الاندلس لاہور۔ صفحہ: ١٠١ 
 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔

سانچے[ترمیم]