عدم خونریزی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یہ لوگو جسے گلین ڈی پیج نے پیش کیا ہے، عدم خونریزی کے تصور کے تصور کا خلاصہ کرتا ہے۔ اس میں قدیم ایشیائی یین یانگ علامت کو جمع کیا گیا ہے اور اسی کے ساتھ حالیہ دماغ پر تحقیقی انکشاف کہ دماغ پر قابو پانے والے جذبات اور حرکات کی بازترتیب تشدد آمیز سے عدم تشدد رویے کی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ علامتی طور پر تخلیقی کوششیں (آسمانی رنگٰٰٰٰ)، قتل و خون سے ہٹ کر انسانی صلاحیتوں پر توجہ (سفید)، جن سے انسانی خونریزی کا خاتمہ ہو سکے (سرخ)

عدم خونریزی سے مراد قتل و خونریزی کا نہ ہونا، قتل کی دھمکیوں کی عدم موجودگی اور اس طرح کے حالات کا انسانی معاشرے میں قتل کے لیے سازگار نہ ہونا۔[1] حالانکہ تعلیمی حلقوں کے نزدیک عموماً اس خونریزی کا دائرہ انسانوں تک محدود سمجھا جاتا ہے، تاہم بعض حلقوں میں اس نظریے کو وسعت دے کرجانوروں اور دیگر اشکال حیات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔[2] روایتی طور پربدھ مت کے ضابطہ اخلاق میں عدم خونریزی یا عدم قتل کا استعمال ہوا ہے جیسا کہ پنچ شیل میں مذکور ہے۔[3] یہی تعلیم دیگر روحانی روایات مثلاً صوفیوں کے یہاں بھی ملتی ہے۔ ویکی جامعہ میں مطالعہ عدم خونریزی پر خاصا مواد موجود ہے۔ واضح رہے کہ "عدم خونریزی" کو حالیہ دور میں "تشدد سے پاک دنیا کے اعلامیہ" میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔[4]

اصطلاحات[ترمیم]

وجوہ کے تجزیے کے دوران عدم خونریزی امن (جیگ اور جنگ کو سازگار بنانے والے والے حالات کا فقدان)، عدم تشدد (نفسیاتی، جسمانی اور خاکہ جاتی) اور اہنسا (خیال، لفظ اور عمل میں عدم زخم اندازی) پرمحیط ہے۔[5] ان میں سے کسی کا استثنا کیے بغیر، عدم خونریزی ایک منفرد طریقہ فراہم کرتا ہے جس میں اس مقاصد کی پیمائش اور کھلے من سے ان کے حصول کی کوشش شامل ہے۔ حالانکہ "عدم تشدد" اور "امن" اکثر روایتی طرز بیان سے گزرتے ہیں جس میں جمودوتعطل اور خونریزی (اسی کے برعکس، عدم خونریزی) شامل ہیں،[6] یہ گن کر مخصوص علامات کے بیان کے ساتھ مربوط کر کے کہی جا سکتی ہے کہ عوامی صحت کا تناظر (احتیاط، علاج اور ذہنی کلفت کے ساتھ کے خونریزی کے میلان کو دور کرنا) کا صورت حال میں بڑا دخل ہے۔[7]

طریقہ[ترمیم]

عدم خونریزی کوئی قبل ازوقت طے شدہ طریقے کی نشان دہی نہیں کرتا جس سے کہ قتل سے پاک سماج کا حصول ہو جیسے سے کہ کچھ نظریات اور روحانی روایات میں کسی کی جان لینے کی ممانعت کی گئی ہے۔ ایک کھلے طورطریقے کے روپ میں یہ لامحدود انسانی تخلیق اور اختلاف کو دعوت دیتا ہے جس سے مسلسل تعلیم، تحقیق، سماجی عمل اور پالیسی سازی ممکن ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ انسانی جان کے خاتمے کی بجائے سائنسی، ادارہ جاتی، تعلیمی، سیاسی، معاشی اور روحانی متبادل پر زور دینا ہے۔ اسی طرح سے عدم خونریزی کئی اور سماجی مسائل کے حل می[8] ں معاون ہے۔

نفسیاتی غیظ وغضب، جسمانی حملے اور ایسی ایذارسانی جو ظاہرًا یا باطنًا زندگی کو دھمکائے جیسے معاملوں میں عدم خونریزی بنیادی سماجی نفسیاتی وجوہ کو ہی ہٹانے پر زار دیتی ہے۔ سماجی معاشی ڈھانچوں کی صورت حال کے انسانوں کو مارنے کے معاملے میں عدم خونریزی ان اسباب کے بند ہونے کا اشارہ دیتی ہے۔ اتفاقی جونریزی کے معاملے عدم خونریزی ان موہوم امکانات کے بھی کرنے کے ہیں۔[5]

ایک وسیع نقطۂ نظر سے عدم خونریزی جارحانہ رویہ، سیاسی قتل، خودساختہ نسل کشی، معاہداتی خونریزی، تجارتی خونریزی، ثقافتی خونریزی، سزائے موت، خانہ کشی، عزت کے نام پر قتل، انسانی قربانی، بچہ کشی، زبان کشی، متعدد قتل، قتل-خودکشی، ہمہ کشی، پولیس کشی، حکمران کشی، اسکول شوٹنگ، ڈھانچے کا تشدد، خودکشی، دہشت گردی، لطف انگیز خونریزی، ظالم کشی، تشدد، جنگ اور دیگر کئی قتل کے اقسام کے راست، بالواسطہ یا ڈھانچے سے جڑے قتل وخون کی مذمت کرتا ہے۔

اعدادوشمار[ترمیم]

اپنی کتاب Non Killing Global Political Science میں گلین ڈی پیج نے حساب کیا ہے کہ پوری تاریخ میں 0.5 فیصد سے بھی کم انسانوں نے کبھی دوسرے انسانوں کا قتل کیا ہے۔[8] انسانیاتی شواہد سے یہ طے ہے کہ کچھ سماجوں اور تہذیبوں میں شماریاتی طور غیر اہم حد تک کم سطح پر تھا۔[9] چونکہ انسان شکاری اور غذائی اشیاء کے چنندہ کے طور پر رہتے تھے— یہ ایک ایسی موجودگی کی شکل تھی جو ان کے 99 فیصد وقت کو عدم خونریزی ہی ان کا خاصا اور وتیرہ بن گیا تھا۔[10]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Glenn D. Paige, Nonkilling Global Political Science. Center for Global Nonkilling, 2002; 3rd ed. 2009, page 1
  2. V. K. Kool and Rita Agrawal, "The Psychology of Nonkilling", in Toward a Nonkilling Paradigm, edited by Joám Evans Pim. Honolulu: Center for Global Nonkilling, 2009 .
  3. Stewart McFarlane in Peter Harvey, ed., Buddhism. Continuum, 2001, page 187. Buddhist Scriptures in Pali language have explicit reference to nonviolence and nonkilling: monks should not only themselves abstain from killing but should also refrain from encouraging other people to kill themselves (Vinayapitaka III: .71-74)
  4. "8th World Summit of Nobel Peace Laureates, Charter for a World without Violence. Rome, December 15, 2007."۔ 10 مئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2015 
  5. ^ ا ب "Nonkilling Global Society", in Peace Building, edited by Ada Aharoni, in Encyclopedia of Life Support Systems (EOLSS), Developed under the auspices of the یونیسکو, 2005, Eolss Publishers, Oxford.
  6. Joám Evans Pim, Stephen M. Younger, Leslie E. Sponsel, Olivier Urbain, Piero P. Giorgi, Jurgen Brauer, Tepper Marlin, David Haws, James Tyner, Sarah DeGue, James A. Mercy, Antony Adolf, Patricia Friedrich, Ubiratan D'Ambrosio, Irene Comins Mingol, Sonia Paris Albert, Antonino Drago, Francisco Gomes de Matos, Rachel M. MacNair, Vinod K. Kool, Rita Agrawal (September 1, 2009)۔ Toward a Nonkilling Paradigm۔ "Nonkilling Science"۔ Honolulu: Center for Global Nonkilling۔ صفحہ: 388۔ ISBN 978-0982298312 
  7. WHO | World report on violence and health
  8. ^ ا ب Publications & Media – Center for Global Nonkilling (CGNK)
  9. "peacefulsocieties.org"۔ 10 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 اکتوبر 2015 
  10. Joám Evans Pim, Stephen M. Younger, Leslie E. Sponsel, Olivier Urbain, Piero P. Giorgi, Jurgen Brauer, Tepper Marlin, David Haws, James Tyner, Sarah DeGue, James A. Mercy, Antony Adolf, Patricia Friedrich, Ubiratan D'Ambrosio, Irene Comins Mingol, Sonia Paris Albert, Antonino Drago, Francisco Gomes de Matos, Rachel M. MacNair, Vinod K. Kool, Rita Agrawal (September 1, 2009)۔ Toward a Nonkilling Paradigm۔ "Reflections on the Possibilities of a Nonkilling Society and a Nonkilling Anthropology"۔ Honolulu: Center for Global Nonkilling۔ صفحہ: 388۔ ISBN 978-0982298312