احمد بن زینی دحلان مکی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
أحمد زيني دحلان

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1817ء[1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 1886ء (68–69 سال)[2][1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مقبرة البقيع
شہریت الدولة العثمانية
مذہب الإسلام
فرقہ الشافعي
خاندان آل الكيلاني
عملی زندگی
نمایاں شاگرد محمد نووی الجاوی،  علوی بن احمد سقاف  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف،  ماہر اسلامیات  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر أحمد المرزوقي المالكي
شاه ولي الله الدهلوي[3]

شیخ سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی حسنی ایک مفتی، فقیہ مؤرخ اور اپنے زمانے میں علمائے حجاز کے شیخ الاسلام امام الحرمین تھے۔[4]

ولادت[ترمیم]

علامہ دحلان1232ھ بمطابق 1817ء مکہ مکرمہ معظمہ کے قریب پیدا ہوئے تھے۔

شجرہ نسب[ترمیم]

احمد بن زینی بن احمد بن عثمان دحلان بن نعمۃ اللہ بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد اللہ بن عثمان بن عطایا بن فارس بن مصطفٰی بن محمد بن احمد بن زینی بن قادر بن عبد الوہاب بن محمد بن عبد الرزاق بن علی بن احمد بن احمد بن محمد بن محمد بن زکریا بن یحییٰ بن محمد بن عبد القادر جیلانی بن موسیٰ جنگی دوست بن عبد اللہ جیلی بن یحیی زاہد بن محمد مدنی بن داؤد بن موسی ثانی بن عبد اللہ رضا بن موسی جون بن عبد اللہ المحض بن حسن مثنیٰ بن حسن بن امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ بن ابو طالب۔[5]سلسلہ نسب کے اعتبار سے آپ اللہ پاک کے رسول حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے حفید ہیں۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

قرآن پاک اور بہت سارے متون حفظ کیے، حرم مکہ میں بہت سارے اساتذہ سے علم دین حاصل کیا جن میں سے ایک شیخ عثمان بن حسن دمیاطی ازہری ہیں۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔

مکہ میں[ترمیم]

خلافت عثمانیہ کے اواخر میں 1288ھ 1871ء کو مکہ المکرمہ میں مفتئ شافعیہ اور شیخ العلماء کا منصب سنبھالا۔ انھوں نے ایک محقق، مدرس اور مصنف کی حیثیت سے مختلف علمی و فکری میدانوںمیں عبور حاصل کیا اور مختلف فنون میں ان کی کتابیں ہیں۔ [6]

مدینہ منورہ میں قیام[ترمیم]

شریف اعظم عون الرفیق ترکی کے نائب پاشا سے کسی مخالفت کی بنا پر مکہ معظمہ چھوڑ کر مدینہ طیبہ چلے گئے تواحمد بن زین دحلان نے بھی ان کی تقلید میں مدینہ منورہ چلے گئے۔

تصنیفی دور[ترمیم]

اپنی زندگی کے آخری برسوں میں علامہ زینی دحلان نے ایک مصنف کے اعتبار سے بہت سرگرمی دکھائی۔ انھوں نے نہ صرف روایتی اسلامی علوم کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا جن کا مطالعہ ان کے زمانہ میں مکہ معظمہ میں کیا جاتا تھا۔ بلکہ بعض وقتی طور پر زیر بحث مسائل پر بھی متعدد رسائل لکھے اور مکہ معظمہ میں انیسویں صدی میں تاریخ نویسی کے واحد نمائندہ بن گئے۔

تصنیفات[ترمیم]

  • الفتوحات الإسلامیہ 2 جلد
  • خلاصۃ الكلام فی امرا البلد الحرام
  • الفتح المبین فی فضائل الخلفاء الراشدین و أہل البیت الطاہرین
  • السیرۃ النبویہ۔( السیرۃ الدحلانیہ یا السیرۃ الزینیہ کہا جاتا ہے)۔ مصنف نے اپنی تصنیف السیرۃ الدحلانیہ میں سیرت رقم کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آقائے دو جہاں ﷺ کے خصائص اور معجزات کے لیے علاحدہ علاحدہ باب باندھے ہیں تاکہ حضور اکرم ﷺ کی شان والا دوبالا ہو۔[7]
  • رسالۃ فی الرد على الوہابیہ
  • الجداول المرضيہ فی تاريخ الدول الإسلاميہ -[8]
  • شرح الاجرومیہ فی النحو
  • فتنة الوهابيہ۔
  • الدرر السنيہ فی الرد على الوهابيہ۔
  • الفتوحات الإسلاميہ بعد مضي الفتوحات النبويہ۔
  • اسنى المطالب في نجاة ابی طالب۔
  • تاريخ الأندلس۔
  • تيسير الأصول لتسهيل الوصول۔
  • فضائل العلم۔
  • منهل العطشان على فتح الرَّحمن۔
  • فضائل الجمعة والجماعات۔
  • بيان المقامات وكيفيّة السلوك۔
  • شرح على الألفيہ۔
  • الأنوار السّنيّہ بفضائل زرِّيَّة خير البريَّہ۔
  • النَّصائح الإيمانية للأمة المحمَّديہ۔
  • تاريخ الدُّول الإسلامية بالجداول المرضيہ۔
  • طبقات العلماء۔
  • متن الشاطبية الجامع بكلّ المرام في القراءات۔
  • متن البهجة وأبي شجاع وعقود الجمان۔
  • متن الألفيّة۔
  • تلخيص منهاج العابدين للإمام الغزالي۔
  • تلخيص أسد الغابة۔
  • تلخيص الإصابة في معرفة الصَّحابة۔
  • حاشية على الزّبد لابن رسلان۔
  • فتح الجواد المنّان بشرح فيض الرَّحمن۔
  • رسالہ في البسملہ۔
  • رسالہ عن فضائل الجمعہ۔
  • رسالہ الشُّكر للإمام الغزالی۔
  • رسالہ فی البعث والنّشور۔
  • إرشاد العباد في فضائل الجهاد۔
  • تقريرات على تفسير البيضاوي۔
  • شرح على الألفيّہ۔
  • تقريرات على الأشمونی والصبَّان۔
  • تقريرات على السّعد۔
  • حاشية البنانی۔
  • فضائل سادتنا السادۃ البدریۃ

وفات[ترمیم]

علامہ دحلان کی وفات 4صفر 1304ھ بمطابق1886ء مدینہ منورہ میں ہوئی۔اور جنت البقیع میں تدفین ہوئی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب http://thesaurus.cerl.org/record/cnp01163901 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 اگست 2018
  2. بنام: Aḥmad ibn Zaynī Daḥlān — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/47755 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. انظر مقدمة كتاب: الفضل المبين في المسلسل من حديث النبي الأمين، تأليف: الشاه ولي الله الدهلوي، تحقيق: محمد عاشق إلهي البرني المدني، الناشر: دار الكتاب ديوبند، سنة الطباعة: 1418هـ، ص: 13-14.
  4. "دحلان، أحمد بن زيني"۔ موسوعة شبكة المعرفة الريفية۔ 1965۔ 29 اکتوبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ شباط 2013 
  5. الشيخ عبد القادر الكيلاني رؤية تاريخية معاصرة د/جمال الدين فالح الكيلاني، مؤسسة مصر، بغداد، 2011.
  6. "ابن زيني دحلان (أحمد)" 
  7. السیرۃ النبویہ تالیف : علامہ سید احمد بن زینی دحلان، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور صفحہ : 14
  8. الأعلام للزركلی