منور حسن کمال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
پیدائشسید منور حسن کمال
09 اگست 1959ء
مظفرنگر، یوپی، انڈیا
دیگر ناممنور حسن کمالؔ
پیشہادب سے وابستگی،
وجۂ شہرتشاعری،’’ایوان اردو‘‘ اور ’’بچوں کا ماہنامہ امنگ‘‘ دہلی نائب مدیر
مذہباسلام
بچے4
والدین
  • سید محمد حسن کاظمی (باپ)
  • عثمانی بیگم (ماں)

سید منور حسن کمال۔ تخلص کمالؔ۔آپ کی پیدائش بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر مظفرنگر میں9 اگست،1959ء،۔ والدین سید محمد حسن کاظمی مرحوم اور عثمانی بیگم مرحوم۔ اہلیہ راشدہ بیگم۔ والد محترم سید محمد حسن کاظمی اپنے دور کے جانے مانے شاعر اور مصنف تھے۔

بچپن اور تعلیم[ترمیم]

آپ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ علمی گھرانے میں پیداہونا ان کے لیے ایک باعثِ برکت ثابت ہوا۔ والد محترم اگرچہ ایک تاجر تھے، لیکن ادب اور شعرو شاعری کا ستھرا ذوق رکھتے ‏تھے۔ آپ کا بچپن مظفر نگر شہر میں گذرا، ابتدائی تعلیم مظفر نگر میں ہوئی۔ آپ حافظِ قران بھی ہیں۔ آپ کی فضیلت دار العلوم دیوبند سے ہے۔ آپ اپنے دورِ تعلیم میں ادیب کامل، معلم ‏اردو کی اسناد سے جامعہ اردو علی گڑھ سے فیض یاب ہوئے۔ اور آگرہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلیسے حاصل کی۔ اور ایڈوانس ڈپلوما ‏ماس میڈیا جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی سے کیا۔

پیشہ ورانہ سفر[ترمیم]

آپ چوں کہ ادب سے والہانہ محبت رکھتے تھے، ہفت روزہ انڈین میسج سہارنپور، ہفت روزہ افکار ملی، نئی دہلی کے لیے کام کیا۔ بعد ازاں روزنامہ عوام، نئی دہلی، کے لیے بھی کام کیا۔ حال میں راشٹریہ سہارا اردو،نئی دہلی کے لیے کام ک رہے ہیں۔ آپ چوں کہ ادب سے والہانہ محبت رکھتے تھے، دوران تعلیم دارالعلوم دیوبند میں مظفر نگر کی ادبی و ثقافتی تنظیم ’’انجمن جمعیۃ التہذیب ‘‘ کے زیر نگرانی نکلنے والے دیواری پرچے ’’سالار‘‘ ‏کے مدیر رہے۔ہفت روزہ انڈین میسج سہارنپور، ہفت روزہ افکار ملی، نئی دہلی کے لیے کام کیا۔ بعد ازاں روزنامہ عوام، نئی دہلی کے لیے بھی کام کیا۔ راشٹریہ سہارا اردو،نئی دہلی کے لیے کام ‏کیا۔اور آج کل اردو اکادمی، دہلی کے ماہنامہ ’’ایوان اردو‘‘ اور ’’بچوں کا ماہنامہ امنگ‘‘ دہلی میں نائب مدیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ادبی خدمات[ترمیم]

آپ کا ادبی سفر 1980ء میں ہوا۔ آل انڈیا اردو تعلیمی بورڈ لکھنؤ کے زیر اہتمام سہارنپور میں منعقد سمینار میں بیگم عابدہ فخر الدین علی احمدسے ملاقات ہوئی اور ان کے دست مبارک سے اردو لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مختلف موضوعات پر 300سے زیادہ مضامین مختلف موضوعات پر ایک ہزار سے زیادہ کتابوں پر تبصرے لکھے۔ ترقی و ترویجِ اردو کے لیے کام کیا۔ اردو سیمینار اور مشاعروں میں شراکت عام تھی۔ مختلف موضوعات پر مقالے لکھے۔ کمال صاحب تبصرہ نگار کے طور پر ادبی دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ اور ان کی تصانیف بھی اردو ادبی دنیا میں ایک میعاری مقام رکھتی ہیں۔ کمال صاحب تبصرہ نگار، کالم نگار، شاعر، مصنف اور صحافت کے میدانوں میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ فی الحال روزنامہ اردو سہارا دہلی میں نائب مدیر کی حیثیت سے اپنے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تصانیف وتخلیقات[ترمیم]

  1. حضرت تھانوی : مختصر حالات خدمات اور کارنامے
  2. ادیب اردو (گائیڈ)
  3. اردو کے نصابی شعرا
  4. تحریک خلافت اور جد و جہد آزادی
  5. ادراک مینیٰ
  6. آزادی ہند اور تحریک خلافت،
  7. مولانا محمد علی جوہر سیاست، صحافت، شاعری
  8. استعارہ (شعری مجموعہ)

نمونہ کلام[ترمیم]

آئینے میں کون ہے تیرے سوا
سربہ سر، چہرہ بہ چہرہ، ہو بہ
یادوں کے آفتاب کی گرمی جھلس نہ دے
زلفیں ہی چاہئیں ہیں بہ جائے گھٹائوں کے

اعزازات[ترمیم]

‏*مولانا محمد علی جوہر: صحافت ، سیاست، شاعری‘‘ پر اردو اکادمی دہلی اور اترپردیش اردو اکادمی ، لکھنؤ نے ایوارڈ سے سرفراز کیا۔ ‏*فکشن تنقید، تکنیک، تفہیم پر اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔‏

بیرونی روابط[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

https://qalamkars.com/ek-muatbar-sahafi-sayed-munawar-hasan-kamal/[مردہ ربط]