شمس لنگرودی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نام[ترمیم]

شمس لنگرودِی کا اصل نام محمد تقی جواہری گیلانی رکھا گیا تھا مگر بعد میں اُن کے والد نے کچھ تبدیلی کے ساتھ شمس کا اضافہ کر دیا۔ لنگردوی کا مادہ نسبت ایرانی صوبہ گیلان میں واقع شہر لنگرود سے ہے جہاں شمس پیدا ہوئے ۔

شمس لنگرودی کا مقام[ترمیم]

شمس لنگرودی بیسویں اور اکیسویں صدی عیسوی کے شاعر، مصنف اور لیکچرر ہیں۔ حال میں وہ ایرانی دار الحکومت تہران میں رہائش رکھتے ہیں اور ایک ادارہ طباعت آہنگِ دِیگر کے ایڈیٹر ہیں۔[1][2] شمس دورِ جدید میں فارسی شاعری اور تحقیق میں ایک آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔

ولادت[ترمیم]

شمس لنگرودِی بروز جمعۃ المبارک 6 صفر المظفر 1370ھ مطابق 21 نومبر 1950ء کو صوبہ گیلان میں واقع شہر لنگرود میں پیدا ہوئے۔

ادب فارسی میں خدمات[ترمیم]

شمس کی پہلی تصنیف " رفتارِ تشنگی " 1976ء میں شائع ہوئی مگر وہ اُنیسویں صدی کے آٹھویں عشرے تک یعنی 1980ء تک اپنا مقام ایران کے سر فہرست ادیبوں میں نہ بنا سکے تھے۔ 1998ء می شمس کی اعلیٰ پائے کی تصنیف An Analytic History of Persian Modern Poetry کے نام سے طبع ہوئی۔ یہ سلسلہ وار 1905ء سے 1997ء تک کی زبان فارسی میں شاعری کی ترویج اور زوال کی تاریخ ہے۔

اِس کتاب کی پہلی جلد 1905ء سے 1953ء تک۔

دوسری جلد : 1953ء سے 1962ء تک۔

تیسری جلد : 1962ء تا 1970ء تک۔

چوتھی جلد : 1970ء تا 1979ء تک۔

سیناء فاضلپور نے شمس لنگرودِی کی ایک رباعی کا انگریزی ترجمہ یوں کیا ہے:

You are late Moses!

The miracle era has passed

Grant your cane to Charlie Chaplin

So we have some laughs

شعری مجموعے[ترمیم]

رفتار تشنگی : 1976ء۔

در مہتابی دنیا : 1984ء۔

خاکستر و بانو: 1986ء۔

جشن ناپیدا: 1988ء۔

قصیدہ لبخند چاک چاک : 1990ء۔

پنجاہ و سہ ترانہ عاشقانہ : 2004ء۔

باغبان جہنم : 2006ء۔

ملاح خیابان ھا : 2008ء۔

تحقیق[ترمیم]

گردباد شور جنون : 1986ء۔

مکتب بازگشت : 1993ء۔

تاریخ تحلیلی شعر نو : 1998ء۔

از جان گذشتہ بہ مقصود می رسد : 2001ء۔

ناول[ترمیم]

رژه بر خاک پوک : 1991ء۔

شکست خوردگان را چه کسی دوست دارد : 2008ء۔

مضامین[ترمیم]

از دیگران شنیدن و از خود گفتن : تاحال یہ شائع نہیں ہوا۔

انٹرویوز[ترمیم]

بازتاب زندگی ناتمام : یہ کچھ انٹرویوز کا مجموعہ ہے جو شمس نے 2007ء میں دیے تھے۔

حوالہ جات[ترمیم]