علی محمد راشدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
علی محمد راشدی
معلومات شخصیت
پیدائش 5 اگست 1905ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاڑکانہ ،  سندھ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 14 مارچ 1987ء (82 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ صحافی ،  سیاست دان ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان انگریزی ،  اردو ،  سندھی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 آرڈر آف سیکا تونا   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

پیر علی محمد راشدی (پیدائش: 5 اگست، 1905ء - وفات: 14 مارچ، 1987ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے ممتاز سیاستدان، صحافی، مورخ، سفارت کار اور ادیب تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ تحریک پاکستان کے ان اشخاص میں شامل تھے جنھوں نے تاریخی قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سرنجام دیا۔ آپ سندھ کے ممتاز مورخ، محقق اور فارسی ادبیات کے ماہر حسام الدین راشدی کے بڑے بھائی ہیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

پیر علی محمد راشدی 5 اگست، 1905ء کو سندھ میں ضلع لاڑکانہ کے گاؤں بہمن، برطانوی ہندوستان (موجودہ پاکستان) میں سندھ کے مشہور روحانی گھرانے راشدی خاندان میں پیر سید حامد شاہ راشدی کے گھر پیدا ہوئے[1][2]۔ انھوں نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر ہی عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔[2]

صحافت[ترمیم]

پیر علی محمد راشدی نے گھر پر تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔[2] ان میں پندرہ سال کی عمر میں ہی لکھنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی تھی اور وہ اتنا مطالعہ بھی رکھتے تھے کہ اخبار کے لیے مضامین لکھنے لگے۔ انھوں نے اپنے گائوں سے ایک ماہنامہ الراشد جاری کیا۔ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ کی طرز پر شائع ہونے لگا۔ اس کا دفتر پیر علی محمد نے اپنے گاؤں بہمن میں ہی رکھا۔ خود لکھتے ہیں کہ: 1924ء تک جب میری عمر انیس برس کی تھی، مجھ میں اتنی صلاحیت پیدا ہو گئی تھی کہ میں کچھ لکھ سکتا ہوں۔ میں نے ایک ماہنامہ الراشد کے نام سے وہیں گاؤں سے نکالنا شروع کر دیا، اس کو چھپوایا سکھر سے تھا مگر دفتر گاؤں میں ہی رکھا۔[1]

سکھر آنے جانے سے ان کا واسطہ پریس اور اخباری دنیا کے ساتھ بھی پڑالہٰذا وہ جلد ہی صحافتی دنیا میں آ گئے اور چھاگئے۔ اس زمانے (1924ء) میں راشدی صاحب سندھ نیوز اخبارکے نامہ نگار بنے۔ 1926ء میں الحزب شکار پور کے ایڈیٹر بنے۔ 1927ء سے 1934ء میں اپنا اخبار ستارہ سندھ جاری کیا جو 1937ء تک نکلتا رہا۔ اس دوران پیر صاحب 1936ء میں ایک اخبار صبح سندھ کے نام سے جاری کرچکے تھے۔ بعد میں وہ مسلم وائیس کے نام سے پہلے سکھر سے بعد میں کراچی سے شائع کرتے رہے۔ یہ اخبار 1946ء تک جاری رہا۔ اس اخبار کے ذریعے پاکستان کے متعلق ہندو پریس کے زہرآلودہ بیانات کا مقابلہ بڑی جرأت کے ساتھ کیا گیا۔ بعد میں پیر صاحب (1947ء) قربانی اخبار سے وابستہ ہو گئے۔ یہ اخبار محمد ایوب کھوڑو کی وزارت میں بند کرایا گیا۔ 1949ء میں محمد ایوب کھوڑو نے جب انگریزی اخبار سندھ آبزرور کا انتظام سنبھالا تو پیر صاحب دوبرس کے لیے اس کے ایڈیٹر بنے۔ اسی زمانے میں اس اخبار کا تصادم انتہائی طاقتور انگریزی اخبار روزنامہ ڈان سے ہوا۔ روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کی پیر صاحب سے قلمی جنگ پاکستان کی صحافتی تاریخ کا ایک اہم اور دلچسپ باب ہے۔ 1949ء میں راشدی صاحب آل پاکستان نیوزپیپرز ایڈیٹرز کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔ 1951ء میں پاک بھارت کے ایڈیٹرز کی تنظیم جوائنٹ پریس کمیشن کے صدر منتخب ہوئے۔ ان کی سربراہی میں کئی وفود نے مصر، برطانیہ اور ہندوستان کے دورے کیے۔ ایک وفد ہندوستان بھی گیا تھا، جس سے لیاقت نہرو معاہدے کے لیے راہ ہموار ہوئی تھی۔ وفد نے یوپی، دہلی اور بھارتی پنجاب کے فسادات والے علاقوں کا دورہ بھی کیا تھا۔ بعد ازاں وہ 1952ء میں اسٹیٹس مین اخبار جاری کر چکے تھے۔ 1954ء میں کراچی سے انگریز ی اخبار ایسٹرن ایکسپریس کے نام سے شائع کرتے رہے اور یہ سلسلہ 1955ء تک جاری رہا۔ اس کے بعد اخباری کالم نگاری تک محدود ہو گئے۔ روزنامہ جنگ میں ان کے کالم پوری آب و تاب سے شائع ہوتے رہے۔ وہ 23 سال مسلسل جنگ کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے ہانگ کانگ میں رہتے ہوئے 1963ء سے 1964ء تک روزنامہ جنگ کے لیے مکتوب مشرق بعید کے عنوان سے کالم لکھے۔ 1964ء سے 1978ء تک مشرق و مغرب عنوان کے تحت کالم لکھے۔ اسی دوران جنگ میں ہی مزاحیہ کالم وغیرہ وغیرہ لکھنا شروع کیا۔ 1967ء تا 1969ء تک روز نامہ سندھی اخبار عبرت میں رندء پند کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھا اور 1974ء میں لندن سے شائع ہونے والے روزنامہ جنگ میں A Point of View کے عنوان سے ہفتہ وار کالم لکھا اور 1974ء میں کراچی کے شام کے اخبار لیڈر میں کچھ ماہ کے لیے IMPRESSIONS AND REFLECTIONS نام سے کالم لکھے۔[1]

سیاست[ترمیم]

پیر علی محمد راشدی کا شمار تحریک پاکستان کے بنیادی کارکنوں میں ہوتا ہے۔ قیام پاکستان کے لیے ان کردار اہم اور مثالی رہا۔ علی محمد راشدی قائد اعظم محمد علی جناح کے قریبی ساتھی اور تحریک پاکستان میں ان کے شانہ بشانہ رہے۔ خود قائد اعظم ان کے بہت معترف تھے۔ بعض موقعوں پر دونوں کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ قرارداد پاکستان کی ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن بھی رہے۔ اسی سلسلے میں پیر علی محمد نے ایک سال تک لاہور میں قیام بھی کیاتھا۔ انھوں نے 1938ء میں کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس کے انعقاد میں اہم کردار ادا کیا جس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح نے کی۔ اس اجلاس میں ہندوستان کے بڑے مسلم لیگی رہنما شریک تھے۔ اسی اجلاس میں شیخ عبد المجید سندھی نے مسلمانوں کے لیے ایک علاحدہ وطن کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد قائد اعظم اور حاجی عبداللہ ہارون کی سربراہی میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی اور علی محمد راشدی کو اس کمیٹی کا سیکریٹری بنایا گیا۔ بعد ازاں قائد اعظم نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے علی محمد راشدی کو لیگ کی فارن کمیٹی کا سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صوبائی سیکریٹری بھی بنے۔ حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو علی محمد راشدی قومی یکجہتی کا مکمل نمونہ تھے۔ وہ سچے محب وطن اور پکے مسلم لیگی تھے۔[1]

علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ادبی اور سیاسی زندگی کا آغاز بیک وقت کیا۔ سیاسی زندگی کی ابتدا انھوں نے 1924ء سے کی۔ جب انھوں نے حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی وہاں ان کی ملاقات جی ایم سید سے ہوئی۔ بعد میں انھوں نے انجمن سادات راشدیہ قائم کی اوراس کی ترجمانی کے لیے الراشد رسالہ جاری کیا۔ اس کے بعد وہ سندھ کے مسلمانوں کی واحد سیاسی تنظیم سندھ محمڈن ایسوسی ایشن کے رکن بن گئے۔ اس تنظیم کے صدر سر شاہنواز بھٹو اور سیکریٹری خان بہادر ولی محمد حسن تھے۔ 1927ء تک علی محمد راشدی اس تنظیم کے سیکریٹری بنے رہے۔ 1929ء میں سندھ کی بمبئی سے علاحدگی تحریک میں بھر پور حصہ لیا اور 1936ء تک، سندھ کی علاحدگی تک اپنا قلمی جہاد جاری رکھا۔ 1933ء میں لاڑکانہ ڈسٹرک اسکول بورڈ کے ارکان بنے۔ 1939ء میں سکھر میں مسجد منزل گاہ تحریک شروع ہوئی تو ہندو مسلم فسادات کے اسباب جاننے کے لیے جسٹس ویسٹن کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنا دیا گیا۔ جس کے سامنے علی محمد راشدی نے نہایت کامیابی کے ساتھ مسلمانوں کی وکالت کی۔ وہ خود رقم طراز ہیں کہ اسی اثناء میں سکھر میں منزل گاہ تحریک چلی تھی اور ایک زبردست ٹربیونل بیٹھا تھا۔ اس ٹربیونل کے سامنے بھی مسلم لیگ کی طرف سے میں نے وکالت کے تھی اور کیس جیتے تھے۔ 1934ء میں سر شاہنواز بھٹو کی لیڈر شپ میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو اس میں علی محمد راشدی شریک ہوئے۔ 1936ء میں سر حاجی عبد اللہ ہارون کے ساتھ مل کر سندھ اتحاد پارٹی بنائی۔1940ء میں لاہور میں رہ کر اس اجلاس کا بندوبست کیا جس میں 23 مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔[1]

1946ء میں مشترکہ ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگی امیدوار یوسف ہارون کے مقابلے میں کھڑے ہوئے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1953ء میں بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ اور مالیات، صحت عامہ اور اطلاعات کے وزیر بنے۔ وزیر مالیات کی حیثیت سے 1954ء میں سندھ کی جاگیروں کا خاتمہ کیا اور زمین غریبوں میں تقسیم کی۔ صحت عامہ سے متعلق اداروں کو منظم کیا۔ جامشورو میں لیاقت میڈیکل کالج قائم کیا۔ لاڑکانہ، سکھر اور نواب شاہ میں سول اسپتال قائم کیے۔ سجاول میں زچہ خانہ اور کوٹری میں تپ دق کے مریضوں کے علاج کے لیے ادارہ قائم کیا۔ اس سے پہلے گورنر دین محمد نے جب سندھ میں قلم 92 نافذ کر کے حکومت کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ رکھی تو علی محمد راشدی نے ان سے تین اہم کام کروائے جن میں پیر پاگارہ کی گدی بحال کروانا، فرنٹیئر ریگیولیشن رد کرانا اور کرمنل ٹرائیس ایکٹ ختم کروا کر حروں کو حاضریوں سے نجات دلائی۔ انھوں نے 1954ء میں سندھ اسمبلی کی جانب سے ون یونٹ میں شامل ہونے والی قرارداد منظور کرانے میں محمد ایوب کھوڑو کی سربراہی میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ ون یونٹ کے بعد علی محمد راشدی 1956ء تک مرکزی حکومت میں نشر و اشاعت کے وزیر بنے۔ اسی دوران حیدرآباد میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ پاکستان کے 1956ء کے آئین کو بنانے میں ان کا بڑا ہاتھ رہا۔ اینٹی ون یونٹ فرنٹ میں جی ایم سید کے ساتھ ون یونٹ ختم کروانے کے لیے کام کیا اور 1970ء میں ون یونٹ کاخاتمہ ہوا۔ 1970ء میں ہی سندھ اسمبلی کی نشست کے لیے سیہون-کوٹری حلقے سے الیکشن لڑے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 1972ء تا 1977ء ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت میں مشیر رہے۔[1]

علی محمد راشدی ملک کے واحد سیاست دان تھے جو نہ کبھی عتاب میں آئے، نہ کیس داخل ہوا، نہ ایبڈو میں آئے اور نہ کبھی جیل میں گئے۔[1]

سفارتی خدمات[ترمیم]

1957ء میں مرکزی مجلس قانون ساز سے مستعفی ہو کر فلپائن میں پاکستان کے سفیر بن گئے۔ فلپائن کی حکومت نے ان کو چار سال تک سفیر کی حیثیت سے خدمات دینے پر اعلیٰ سول اعزاز آرڈر آف سیکا تونا سے نوازا۔ 1962ء میں وہ چین میں سفیر مقرر ہوئے۔ اسی دوران ان کی ملاقاتیں ماؤ زے تنگ اور چو این لائی کے ساتھ ہوتی رہیں۔ چین اور پاکستان کو قریب لانے میں راشدی صاحب کا تاریخی کردار اہم ہے۔[1]

ادبی خدمات[ترمیم]

پیر علی محمد راشدی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ ان کے قلم سے افسر شاہی سے لے کر نوکر شاہی تک کتراتے تھے۔ حکمران ان کی تحریروں سے خائف رہتے تھے۔ لکھنے کے معاملے میں وہ بے باک تھے اور ان کا قلم حق و صداقت کی پاسداری کرتا تھا۔ سندھی ان کی مادری زبان تھی۔ مگر اردو پر ان کو ملکہ حاصل تھا۔ پیر علی محمد راشدی خاص نظریے کے تحت لکھتے تھے۔ وہ بالواسطہ یا بلاواسطہ مسائل کی نشان دہی کرتے اور ان کا حل بتاتے رہتے تھے۔ ملکی خواہ غیر ملکی حالات پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔ ان کی نظر میں ملکی اور دیگر ملکوں کی خرابیوں کا اصل محرک، نوکر شاہی اور افسر شاہی تھا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو یہ بیماری ولادت سے ہی لگ چکی تھی۔ لیاقت علی خان کے قتل سے ملک میں نوکر شاہی اور افسر شاہی کے بھاگ جاگ گئے۔ وہ خود لکھتے ہیں

قائد ملت کی شہادت 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں واقع ہوئی، اس دن جمہوریت کا چراغ بجھ گیا اور نوکر شاہی کے لیے آگے بڑھنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا راستہ کھل گیا۔[1]

اگرچہ پاکستانی عوام سے پیر علی محمد راشدی کا حقیقی تعارف سادہ اور عام فہم زبان میں تحریر اردو کالم ہی بنے، لیکن سیاست و صحافت میں مصروف رہتے ہوئے وہ اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت سے بھی غافل نہ رہے۔ راشدی صاحب نے سندھ کی تاریخ پر مضامین اور تحقیقی مقالے بھی تحریر کیے، جو تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ سکھر میں رہائش کے دوران راشدی صاحب کا واسطہ سکھر اور روہڑی کے آثار قدیمہ سے بھی پڑا اور ان پر تحقیقی کام کیا۔ پیر علی محمد راشدی کی یادداشت پر مبنی سندھی کتاب اھے ڈینھن اھے شینھن کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتاب تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جو سندھی ادب کا شاہکار ہے۔ اس کے علاوہ فریاد سندھ کتاب بھی سندھی ادب میں اہم ہے۔ انھوں نے ایک انگریزی کتاب STORY OF SUFFERINGS OF SIND کے عنوان سے لکھی لیکن جو محمد ایوب کھوڑو کے نام سے شائع ہوئی تھی، اس کے علاوہ انھوں نے کی ایک اہم کتاب SINDH WAYS AND DAYS منظر عام پر آچکی ہے۔[1]

اولاد و اہل خانہ[ترمیم]

پیر علی محمد راشدی کے بڑے صاحبزادے حسین شاہ راشدی مرحوم بھی ایک مایہ ناز ادیب اور دانشور ہونے کے ساتھ سیاست دان بھی تھے اور سینیٹر بھی بنے۔ ان کے دوسرے صاحبزادے عادل راشدی شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ پیر علی محمد راشدی کی اہلیہ بیگم ممتاز راشدی بنگال سے مولوی فضل الحق کی پوتی تھیں اور جو خود بھی نامور اہل قلم اور سماجی شخصیت تھیں۔[1][1]

تصانیف[ترمیم]

  • رودادِ چمن (اردو)
  • اھے ڈینھن اھے شینھن (سندھی)
  • فریاد سندھ (سندھی)
  • چین جی ڈائری (سندھی)
  • ون یونٹ کی تاریخ (اردو)
  • (بہ زبان انگریزی) SINDH: WAYS AND DAYS

وفات[ترمیم]

پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع سندھی مسلم جماعت کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔[2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]