وفد حارث بن حسان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وفد حارث بن حسان میں مدینہ منورہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہواانہیں حریث بن حسان اور حارث بن یزید کو حارث بن حسان بھی کہتے ہیں۔[1] ان دو احادیث میں اس وفد کا ذکر تفصیلاً موجود ہے
"حارث بن حسان فرماتے ہیں کہ میں مدینہ حاضر ہوا تو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر کھڑے ہیں اور سیدنا بلال آپ کے سامنے تلوار گردن میں لٹکائے کھڑے ہوئے اور ایک سیاہ جھنڈا بھی دیکھا تو میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ تو صحابہ نے بتایا کہ عمرو بن عاص ہیں جو جنگ سے واپس ہوئے ہیں"۔[2] "حارث بن حسان سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے العلاء بن الحضرمی کی شکایت کرنے گیامقام ربذہ میں ایک بوڑھی عورت کے پاس سے گذرا جو بنوتمیم سے کٹ چکی تھی اس نے پوچھا کہ تم کہاں جا رہے ہو میں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف وہ کہنے لگی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو مجھے ان سے ایک کام ہے مدینہ پہنچ کر میں مسجد نبوی میں داخل ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں میں گھرے ہوئے تھے اور اک سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا میں نے لوگوں سے پوچھا کہ آج کوئی خاص بات ہے لوگوں نے بتایا کہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عمرو بن عاص کو ایک لشکر دے کر کسی طرف روانہ فرما رہے ہیں میں آپ کے گھر گیا میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تمھارے اور بنوتمیم کے درمیان کوئی چپقلش چل رہی ہے میں نے کہا جی ہاں اور انھیں شکست ہوئی میں نے عرض کیا میں ایک بنی تمیم کی بڑھیا کو ساتھ لایا ہوں وہ دروازے پر بیٹھی ہے آپ نے اسے اجازت دی وہ اندر آگئی میں نے کہا اگر ہمارے اور بنی تمیم کے درمیان کوئی رکاوٹ بنانا چاہتے ہیں تو مقام دہنا کو حد فاصل بنا دیں کیونکہ کبھی ایسا ہی تھا اس پر وہ بڑھیا کود کر سامنے آئی اور اس کی رگ حمیت نے جوش مارا اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے مضر کو آپ کہاں مجبور کریں گے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں اس بڑھیا کو اٹھا کر لایا ہوں مجھے کیا خبر تھی کہ یہی مجھ سے جھگڑنے لگے گی۔ میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ اس شخص کی طرح ہو جاؤں جیسے عاد کے قاصد کے متعلق پہلوں نے کہا تھا (قوم عاد کی طرف سے جوشخص بارش کی دعا کرنے بھیجاگیا تھا اسے عرب قاصد عاد اور بہلاء کہتے ہیں)نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے پوچھا قاصد عاد کے متعلق پہلوں نے کیا کہا تھا میں نے عرض کیا کیا آپ نے ایک باخبر آدمی سے پوچھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تم بیان کرو دراصل نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پوری بات سننا چاہتے تھے۔ میں نے عرض کیا قوم عاد نے اپنے ایک آدمی کو بطور وفد کے بھیجا وہ ایک مہینے تک معاویہ بن بکر کا مہمان بنا رہا وہ انھیں شراب پلاتا تھا اور ڈومنیوں سے گانے سنواتا تھا ایک دن وہ روانہ ہوا اور جبال مہرہ پر پہنچا اور کہنے لگا کہ اے اللہ میں اس لیے نہیں آیا کہ اس کا بدلہ چکاؤں نہ کسی بیمار کے لیے اس کا علاج کرسکوں لہذا تو اپنے بندوں کو وہ کچھ پلا جو تو پلا سکتا ہے اور معاویہ بن بکر کو ایک ماہ تک پلانے کا انتظام فرمادراصل یہ اس شراب کا شکریہ تھا جو وہ اس کے یہاں ایک مہینہ تک پیتا رہا تھا اسی اثناء میں سیاہ بادل آ گئے اور کسی نے آواز دے کر کہا کہ یہ خوب بھرے ہوئے تھن والا بادل لے لو اور قوم عاد میں سے کسی ایک شخص کو بھی پیاسا نہ چھوڑو"۔[3][4][5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 1222
  2. سنن ابن ماجہ:جلد دوم:حدیث نمبر 975
  3. البدایہ والنہایہ جلد پنجم صفحہ126 ابن کثیر ،نفیس اکیڈمی کراچی
  4. اسدالغابہ جلد دوم صفحہ 451،ابن اثیر، المیزان ناشران کتب لاہور
  5. مسند احمد:جلد ششم:حدیث نمبر 1793