باغ حسین کمال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

پروفیسر باغ حسین کمال سلسلہ اویسیہ کمالیہ کے بانی اور پاکستان کی مشہور روحانی شخصیت ہیں۔

پیدائش و تعلیم[ترمیم]

آپ 22 مارچ 1937ء کو چکوال کے نواحی گاؤں پنوال میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی اسکول چکوال(موجودہ نمبر1 چکوال) سے 1955ء میں دہم کا امتحان پاس کیا، 1957ء میں گورنمنٹ کالج چکوال سے اعلیٰ ثانوی درجہ کی سند تکمیل حاصل کی۔ 1963ء میں جامعہ پنجاب سے بطور پرائیویٹ طالب علم بی اے، 1966ء میں ایم اے(اردو)، 1967ء میں بی ایڈ اور 1974ء میں ایم اے (پنجابی) کی اسناد مکمل کیں۔

حالات زندگی[ترمیم]

عظیم صوفی باغ حسین کمال اردو پنجابی کے مشہور شاعر اور سلسلہ اویسیہ کمالیہ کے بانی تھے۔ ان کے والد کا نام قاضی حسن دین تھا۔

پیشہ ورانہ زندگی[ترمیم]

آپ نے 1959ء تا 1963ء بلدیہ چکوال میں بطور کلرک ملازمت کی۔ بعد ازاں 1963ء تا 1967ء گورنمنٹ اسلامیہ ہائی اسکول چکوال میں انگریزی کے مدرس کے طور پر خدمات انجام دیں۔ 1967ء تا 1975ء آپ گورنمنٹ مڈل اسکول دلہہ و ڈھڈیال میں بطور صدر مدرس خدمات انجام دیتے رہے جبکہ 1975ء تا مارچ 1997ء آپ گورنمنٹ کالج جی ٹی روڈ جہلم میں صدر مدرس رہے۔ اس دوران میں آپ 1960ء تا 1970ء امروز اور تعمیر اخبارات کے ساتھ بطور صحافی بھی منسلک رہے۔

روحانی سفر[ترمیم]

آپ نے مشہورمولانا اللہ یار خان کی معیت میں اپنے روحانی سفر کا آغاز کیا۔ 29 جولائی 1975ء سے حلقہ ذکر میں شمولیت اختیار کی۔ جبکہ 8 اپریل 1984ء میں سلسلہ اویسیہ کمالیہ کا آغاز کیا۔ ان کے علم و فن کے بارے میں اردو شاعری اور افسانے کے امام جناب احمد ندیم قاسمی صاحب لکھتے ہیں باغ حسین کمال اردو اور پنجابی کے نہایت جید شاعر تھے۔ ان کی شاعری حقائقِ حیات اور صوفیانہ تصورات کے باہمی نفوذ کی ایک جچی تلی مثال ہے۔ اردو میں "غزل"اور پنجابی میں "کافی" کہتے ہوئے وہ اپنے شعور و وجدان کی گہرائیوں میں سے ایسے ایسے آبدار موتی چن لائے ہیں جن کی چمک مدتوں ماند نہیں پڑے گی۔ عمر کے آخری چند برسوں میں انھوں نے اپنے علم و فن کو دینیات کے سپرد کر دیا تھا اور تصوف و سلوک کی ایسی منزلیں طے کی تھیں کہ ان کے متصوفانہ خیالات و انکشافات کی مثالیں صرف قرونِ اُولی ہی میں دستیاب ہو سکتی ہیں ورنہ آج کل کم ہی صوفی باغ حسین کمال کے درجات تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان کے صاحبزادے تابش کمال نے ان کی باقیات کو سمیٹ کر اور انھیں مرتب کر کے نہ صرف ایک فرضِ فرزندانہ ادا کیا ہے بلکہ شعرو تصوف کی روایات میں بھی ایک قلِ قدر اور لائقِ تحسین اضافہ کر دیا ہے۔

تصانیف و تالیفات[ترمیم]

آپ کی مشہور نثری تصانیف میں

ان کی اردو شاعری کا مجموعہ "حسن طلب" اور پنجابی شاعری "سکدیاں روحاں " کے نام سے ان کی حیات میں چھپ گئی تھیں جبکہ "زر باغ" کے نام سے کلیات بھی شائع ہو چکی ہے۔ "متاعِ کمال" کے نام سے ان کے مضامین افسانے اور کہانیاں ان کے بیٹے جناب فقیر تابش کمال صاحب نے یکجا کر دیے ہیں۔ فقیر پروفیسر باغ حسین کمال صاحب کی تصوف پر معرکہ آرا تصنیف "حالِ سفر" ان کی خاص پہچان ہے جس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہوئے اور خاص و عام کے لیے رہنمائی اور علم کا وسیلہ ہے۔

وفات[ترمیم]

ان کی وفات 31 دسمبر 2000ء کو ہوئی ان کا مزار دار الفیضان کے نام سے چکوال کے نواحی گاؤں پنوال میں واقع ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]