واصف القادری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
- واصف القادری نانپاروی
پیدائشعبد الوارث مشہود علی
مارچ 1917ء
نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات04 نومبر 1984ء
نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت
آخری آرام گاہنانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش بھارت
پیشہحکمت،شاعری
زباناردو
قومیتبھارتی
تعلیمدینی تعلیم
موضوعنعت ،غزل
رشتہ دارریاض خیرآبادی

واصف ؔالقادری کی پیدائش 1917ء میں بہرائچ ضلع کی ریاست نانپارہ میں محلہ توپ خانہ ،نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کے والد مولانا حاجی حافظ سید مقصود علی خیرآبادی درگاہ غوثیہ میں معتمد کے عہدے پر فائز تھے۔ آپ کے والد ایک مشہور بزرگ کی حیشیت رکھتے تھے۔ آپ نے کئی حج کیے تھے اور عرصہ دراز تک مسجد نبوی میں اذان دینے کا فریضہ انجام دیتے رہے اور وہیں علم دین حاصل کر کے سند حاصل کی اور وہاں کے بزرگوں سے فیوض وبرکات حاصل کیں۔ واصف صاحب کا نسبی تعلق سندیلہ کے سلسلہ قادریہ نقشبندیہ کے صوفی بزرگ سید مخدوم نظام سے تھا۔[1] آپ کا سلسلہ مخدوم الہدایہ قدس سٗرہ سے ملتا تھا۔ آپ کے خاندان میں علم و فضل شعروادب اور تصوف کا شروع ہی سے چرچا رہا اور آپ کے خاندان میں مشاہیر علم و ادب پیدا ہوتے رہے[1] بعد میں آپ کے والد نے نانپارہ میں سکونیت اختیار کر لی۔ واصف القادری کو بچپن سے ہی گھر میں دینی علمی ماحول ملا ،جس نے آپ کی ذہن کو روشنی،قلب کو تازگی اور روح کوجلا بخشی۔ واصف صاحب کی ابتدائی دینی تعلیم حاصل کی اور اس سے پہلے کہ اعلیٰ تعلیم کی طرف رخ کرتے والد کا انتقال ہو گیا واصف القادری کی عمر اس وقت 13 سال کی تھی۔ والد کی بے وقت کی جدائی نے بچپن میں ہی فکر معاش سے دو چار کر دیا لیکن بلند حوصلوں سے سر بلند کر لیا۔ بعد میں واصف صاحب نے حکمت کا پیشہ اختیار کیا۔ عوام میں آپ کو حکیم کی حیثیت سے پورے شہر میں مشہور ہو گئے۔ لیکن آپ ایک اچھے شاعر کے طور پر بھی مشہور تھے ۔ و

ا دبی خدمات[ترمیم]

واصف ؔالقادری صاحب نے ابتدائے شاعری میں اصغر رشیدی نانپاروی تلمذہ پیارے صاحب رشیدؔ لکھنؤی[1] سے مشورہ شخن حاصل کیا بعد میں مذہبی شاعری کی شاعری کی طرف رجحان ہوا اور مشق سے کلام میں پختگی محسوس کرنے لگے تو سلسلہ ختم کر کے اپنی ذاتی صلاحیتوں کو رہنما بنا لیا۔ واصف القادری کے بارے میں بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ صوفیانہ رنگ میں شعر کہتے تھے۔ واصف االقادری نے نعت کے ،غزل ،رباعیات، قظعات اور مثنوی وغیرہ سبھی اصناف میں کلام لکھے۔ ضلع بہرائچ کے نامور ادیب و شاعر شارقؔ ربانی آپ کے کلام کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھتے ہے کہ واصف القادری کے کلام کا مطالعہ کرنے پر حسن ظن اور مبالغہ سے قطع نظر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ہر لحاظ سے ایک شاعر تھے۔ ان کی شاعری فن کے معیار پر پوری اترتی ہے۔ واصف صاحب کے کلام میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک اچھے شاعر کے لیے ضروری ہیں۔ اشعارحسن بیان کا دلکش نمونہ ہیں لیکن وہ مقصد کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ واصف صاحب کے کلام میں فکر و فن کا خوبصورت توازن اور خیال و بیان کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ مگر افسوس کہ واصف القادری صاحب نے اپنی تمام عمر گوشہ گمنامی میں گذری۔ واصف صاحب نہ تو محفل شعروشخن کے حقیقی چراغ بنے اور نہ ہی کبھی ان کی شہرت کا ستارہ چمکا۔ واصف صاحب ایک شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے انسان، مایاناز استاد،خلوص کے پیکر، ہمدردی کا مجسمہ ،محبت کا دریا اور انسانیت کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ ان کی شخصیت دل نوازی وپاکیزگی ان کی شاعری میں بھی اتر آتی تھی۔ نعتیہ اشعار میں حضورﷺ سے والہانہ عشق کی جھلک ملتی ہے۔ آپ کے 3 شعری مجموعہ شائع ہوئے 1.مجاز حقیقت 2.تجلیات حرم 3. عزم وایثار خیرآباد کے مشہور شاعر نجم خیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔ نیر خیرآبادی،ریاض خیرآبادی، مضطر خیرآبادی،بسمل خیرآبادی وغیرہ آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

ادبی شخصیات سے رابطہ[ترمیم]

خیرآباد کے مشہور شاعر نجمؔ خیرآبادی آپ کے حقیقی بہنوئی تھے۔ نیرؔخیرآبادی،ریاضؔ خیرآبادی، مضطر ؔخیرآبادی،بسملؔ خیرآبادی وغیرہ آپ کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نانپارہ کے شاعر شارقؔ ربانی کے والد ٹھاکر عبد الرب صاحب آپ کے دوست تھے۔ شفیع بہرائچی محمد نعیم اللہ خیالی وصفی بہرائچی عبرت بہرائچی ،جمال بابا، ایمن چغتائی نانپاروی وغیرہ سے آپ کا گہرا رابطہ تھا۔ قمر گونڈوی اور نیپال کے مشہور شاعر جناب حاجی عبدالطیف شوقؔ نیپالی آپ کے شاگرد ہیں۔ آپ کے بہت سے شاگرد ملک نیپال اور نانپارہ میں ہیں۔

وفات[ترمیم]

عبد الوارث مشہود علی تخلص واصف ؔ القادری کی وفات 4 نومبر 1984ء کو نانپارہ میں ہوئی۔ آپ کی تدفن نانپارہ میں ہی ہوئی۔

نمونہ کلام[ترمیم]

نبی کی محبت میں کیا کیا بنوں گا تماشائی بن کر تماشا بنوں گا
مجھے بھی لے جا مدینے کے راہی تری خاک نقش کفِ پا بنوں گا
کبھی جذب کر لیں گی امواج رحمت کبھی بڑھ کے قطرہ سے دریا بنوں گا
کبھی وقف نظارہ ہوں گی نگاہیں کبھی بے نیاز تمنا بنوں گا
مدینے کے ذروں کو حاصل بنا کر درخشاں درخشاں ستارہ بنوں گا
تجھے خار طیبہ میں آنکھوں میں رکھ کر بہار گل دین و دنیا بنوں گا
اگر بن سکا تو بہ قید محبت محمد کے غم کا فسانا بنوں گا
کبھی سامنے ہوں گے انوار احمد میں واصفؔ کبھی رشک موسیٰ بنوں گا

حوالہ جات[ترمیم]

مزید دیکھے[ترمیم]