ايرانی بحریہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ کا نشان
فعال1923–اب تک
ملکایران کا پرچم اسلامی جمہوریہ ایران
شاخبحریہ
حجم18,000 (estimate)[1]
حصہارتش
فوجی چھاؤنی /ایچ کیوتہران
عرفیتفارسی: دریادلان‎,
"سمندر کے دل"
نصب العینفارسی: راه ما، راه حسین است‎,
"حسين کا رستہ ہمارہ رستہ"[2]
مارچ18 اپريل
برسیاں28 نومبر (بحريہ کا دن)
سازوسامانموجودہ جہاز
معرکے

انگريزی روسی جنگ

کمان دار
موجودہ
کمان دار
ريئر ايڈمرل حبیب الله سیاری
طغرا
Naval Jack

اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ (فارسی: نیروی دریایی ارتش جمهوری اسلامی ایران) ايرانی فوج (ارتش) کی بحری جنگ وجدل و خدمت کی شاخ ہے۔

بحریہ کی ذمہ داری خلیج عمان میں ایران کے دفاع کی پہلی لکير اور اس سے آگے بطور ایک مؤثر نيلے پانی کی بحريہ کام کرنے کی ہے۔ تاہم یہ عام طور پر ایک روایتی سبز پانی بحریہ سمجھی جاتی ہے کيونکہ یہ زیادہ تر علاقائی سطح، خلیج فارس، قلزم، بحیرہ روم اور بحر ہند ميں ہی حرکت کرتی ہے۔

ایرن نے ايک ساتھ دو متوازی بحری افواج برقرار رکھی ہوئی ہيں . ایران کی دوسری بحریہ سپاہ پاسدارانِ انقلاب کی بحری شاخ ہے، ايرانی بحریہ کو کئی چيزوں ميں سپاہ پاسدارانِ انقلاب کی بحریہ پر فوقيت حاصل ہے تاہم ان دونوں کے مقاصد، فوجی حکمت عملی ,سامانَ حرب و ضرب اور طريقہ کار الگ الگ ہيں۔ سپاہ کی بحریہ زيادہ تر چھوٹی برق رفتار حملہ آور کشتيوں سے لیس ہے جبکے ايرانی بحریہ کی ریڑھ کی ہڈی فرگٹیس۔ کورویٹٹیس اور آبدوزوں سمیت بڑے جہاز ہيں۔

مجموعی جائزہ[ترمیم]

1977 ميں ڈيسٹرائر "بابر"

دوسری جنگ عظیم کے دوران ایرانی بحریہ تقریباً مکمل طور پر اینگلو-سوویت کے حملے کے بعد تباہ ہونے کے بعد دوبارہ بنائی گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ایرانی بحریہ نے تباہ شدہ جنگی بحری جہازوں کو ڈيسٹرائر، فرگٹیس، پاوربوٹس اور ہوورکرافٹ، جن میں سے اکثر کو امریکا اور برطانیہ سے حاصل کيا گيا سے بدلنا شروع کر دیا۔ 1970 کی دہائی میں ایران نے اپنی بحریہ اور بحری پہنچ بحر ہند تک وسيع کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ لیکن اس کا مقصد انقلاب اسلامی (1979ء)،کے بعد مغرب کی طرف سے پابندیوں اور پہلی خلیجی جنگ (ایران عراق جنگ) (1980 – 1988) کی وجہ سے نہ پورا ہو سکا اوراس جنگ نے اسے کسی بھی ممکنہ لڑائی کے قابل نہ چھوڑا۔ ایران کے آخری شاہ محمدرضا نے ریاست ہائے متحدہ امریکا سے آٹھ عمومی مقصد ڈيسٹرائر اور شاہی شيلڈے سے چار جدید کورتينائر کلاس فریگٹیس کا سودا طے کيا تھا، لیکن ایرانی انقلاب کے بعد دونوں معاہدوں کو منسوخ کر دیا گیا۔ فریگٹیس کی تعمیر ابھی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ ڈيسٹرائر امریکی بحریہ میں کڈڈ کلاس کے طور پر شامل کرليے گئے۔ بڑی سطح کے جہازوں کے حوالے سے ایران اپنے اروند کلاس کے فریگٹیس اور مودگی کلاس کے نئے فریگٹیس جوکے اروند کلاس کی فریگٹیس ریورس انجنیئر کر کے , جدید الیکٹرانکس، ریڈار اور اسلحہ کے ساتھ ليس کر کے ایران میں تیار کیے گئے ہیں پر انحصار کرتا ہے۔ ایران کے تین ڈيسٹرائر 50 برس سے زائد عمر کے ہیں اور بوشهر میں ان کو بطور مادی ریزرو رکھا گيا ہے۔ بحریہ کے پاس کيپٹل بحری جہاز نہیں ہيں۔ اس کے سب سے بڑے بحری جہاز پانچ فریگٹیس جو کے تمام جدید اینٹی شپ میزائلوں کے ساتھ مسلح ہیں اور تین کورویٹیس ہیں۔ بحریہ کا بنیادی مقصد نئی فریگٹیس، کورویٹیس اور اینٹی شپ میزائل فائر کرنے کی صلاحیت رکھنے والی بڑی تیز رفتار کشتیاں بنانا دکھائی دیتا ہے۔ پانچ ميں سے تین فریگٹیس (وعثپار نشان-5) 25 سال پہلے کمیشن کيے گئے تھے اور انہيں چینی C-802 اینٹی شپ میزائیل کے ساتھ اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔ ایران کے تین کورویٹٹیس 30 سال پرانے ہيں۔ ان میں ایک جہاز "حمزہ" دراصل ایک حکومتی بحری جہاز تھا لیکن اس کوبھی C-802 میزائیل کے ساتھ مسلح کیا گیا ہے، لیکن اس وقت يہ بحیرہ کیسپیئن میں انزلی کے مقام پر تعینات ہے۔ ان آٹھ جہازوں کو تین روسی تعمیر شدہ،ايس ايس کے کيلوکلاس حملہ آور آبدوزوں اور خم اور نہانگ کلاس چھوٹی آبدوزوں کی مدد حاصل ہے۔

تاريخ[ترمیم]

کسی نہ کسی شکل میں ایک ایرانی بحریہ 500 سال قبل مسیح ميں پہلی فارسی سلطنت کے قيام کے بعد سے موجود ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سابق شاہی ایرانی بحریہ کو نیا نام دينے پر معرض وجود میں آئی۔ اس کے بعد ایران – عراق جنگ اور امریکا کی قیادت میں ایران کو اسلحہے کی فروخت پر پابنديوں کے دوران ایرانی بحریہ نے کردار ادا کيا۔ ہتھیاروں کی بندش نے ایران کی بحری صلاحیت محدود کردی۔ اسے اسلحہے کے نئے ذرائعے تلاش کرنا پڑے۔ ساز و سامان اور اسلحہ سوویت یونین، چین اور شمالی کوریا سے درآمد کيا گيا اور اس کے بعد ایران نے اپنی مقامی اسلحہے کی صنعت بھی قائم کی۔ یہ صنعت بھی بحریہ کے اسلحہے، ساز و سامان اور اسپیئر پارٹس کی فراہمی ميں مددگار ہے۔

ایرانی بحری ہوائی بازو[ترمیم]

اصل مضمون ایرانی بحری ہوائی بازو

بحری اسلہے کا حصول[ترمیم]

ايرانی نيول ايويشن کا فوکر طيارہ۔

شاہ کی طرف سے خریدے گئے مغربی ہتھیاروں کے متروک ہونے کے بعد سے، تہران روس، چین اور شمالی کوریا سے نئے ہتھیار حاصل کر رہا ہے۔ ایران سپاہ پاسدارانِ انقلاب کی بحری شاخ کی اہلیت میں بھی توسیع کر رہا ہے اور اس نے اضافی بارودی سرنگيں بچھانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے علاوہ اپنے پرانے جہازوں میں سے کچھ کو اپ بھی گریڈ کیا ہے۔ ايرانی بحریہ کی بڑھتی ہوئی تعداد ميں مشقوں ميں زمینی فوج اور فضائیہ کے ساتھ مل کر مشترکہ مشقيں بھی شامل ہيں۔ ایران نے اپنے فضائی دفاع اور بندرگاہوں کو بھی مضبوط بنایا اور پاکستان اور بھارت سے کچھ لوجسٹک اور تکنیکی معاونت حاصل کی۔ جہاں تک اہم نئے ساز و سامان کا تعلق ہے تو ایران اپنی بحریہ کو تین روسی کيلو کلاس کی آبدوزوں اور چین سے 10 ہودونگ برق رفتار کشتيوں سمیت دیگر آلات سے مسلح کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق روس اور بھارت ايرانی بحریہ کو کيلو کلاس کی آبدوزوں پر تربیت فراہم کر رہے ہيں۔ جہاں تک دیگر ضروریات کا تعلق ہے تو دسمبر 1997 میں ایرانی بحریہ کے تيسرے نيول زون جس کا ہیڈکوارٹر خلیج فارس کی بندرگاہ کے شہر بندر عباس میں واقع ہے کے کمانڈر ریئر ایڈمرل محمد کريم توکلی نے دعویٰ کیا کے ایران نے تین ملٹی رولی کورویٹٹیس اور ایک چھوٹی آبدوز پر ڈیزائن کا کام مکمل کر لیا ہے اور انہيں ایران میں تعمیر کیا جائے گا ۔

خليج فارس ميں گشت کرتی ہوئی ايرانی بحريہ کی روسی ساختہ کيلو کلاس آبدوز[3]

اگست 2000ء میں بندر عباس بحری اڈے پر ایک سرکاری تقریب میں ایرانی حکام نے اعلان کیا ایرانی بحریہ نے مقامی سطح پر ال-صبیحہ نامی چھوٹی آبدوز یا تیراک حوالگی گاڑی تيار کرلی ہے "15" نام کی وجہ اس کی 15 میٹر کی لمبائی ہے۔ مئی 2005ء میں ایران کی بحریہ نے غادر نامی آبدوز اور 8 مارچ 2006 کو نہانگ نامی ایک آبدوز کا کام مکمل کر لیا۔ 2000، کے دوران ایرانی بحریہ کی نيول ايويشن (بحری ہوائی بازو) کی صلاحیت میں روس کی جانب سے ایم آئی-8 اے ايم ٹی نقل و حمل/لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی حوالگی سے نمایاں طور پر بہتری آئی۔ 1999ء میں ایک معاہدے کے تحت روس نے 21 ایم آئی-171 ہیلی کاپٹر ایران کو فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔ حوالگی 2001ء میں مکمل ہوئی۔ اگرچہ بحریہ کے لیے مختص ہیلی کاپٹروں کی صحیح تعداد نامعلوم تھی۔ اطلاعات کے مطابق 2001 موسم گرما میں اشارے اشارے ملے تھے کے ایران مزید 20 ایم آئی-171s ہیلی کاپٹر آرڈر کرے گا، اگرچہ وسط-2004 تک کوئی حوالگی معلوم نہیں ہوئی۔

نومبر 2002ء میں ایران کی ہوائی و فضائی صنعتی تنظیم اور چینی ہوائی و فضائی سائنس اور انڈسٹری کارپوریشن (کوساک) کے ذرائعے نے اس بات کی تصدیق کی کے دونوں ادارے عام اینٹی شپ میزائل کی پیداوار اور ترقی پر کام کر رہے ہيں۔ ایرانی ذرائع منصوبے کو "نور" کہتے ہیں،جسميں مہدود دوری والے سی-701 اور چینی "نيشنل پريژين مشينری امپورٹ اينڈ ايکسپورٹ کو سب سائڈری" ادارے کی طرف سے تیار کيے گئے لمبی دوری پر مار کرنے والے والے سی-802 میزائلوں پر محیط ہے۔ 1998ء میں 15 کلومیٹر تک مار کرنے والے چینی سی-701 میزائل دکھائے جاتے ہی ایران کا اسی ڈیزائن کا ایک اینٹی شپ میزائل دکھا دينا منصوبے پر جاری تعاون کا امکان ظاہر کرتا ہے۔ ایران کی ہوائی و فضائی صنعتی تنظیم کے ایک ترجمان نے تصدیق کی کہ پراجیکٹ "نور" میں سی-701 میزائل شامل ہے۔ تاہم اسی کمپنی کے حکام نے میزائل ٹربوجیٹ کی طاقت والا اور لمبی دوری پر مار کرنے والا بیان کيا ہے "جس کا 120 کلومیٹر (75 میل) والے سی-802 میزائل پر بہتر اطلاق ہوتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ تعاون معاہدہ دونوں میزائلوں کا احاطہ کرے گا۔ 2004 کے اوائل میں ایران نے "رعد" نامی ایک نئے کروز میزائل پروگرام کی تياری کا اعلان کیا۔ رعد چینی ايچ وائے -2 اینٹی شپ میزائل کی ایک نقل ظاہر ہوتا ہے جو دراصل سوویت دور کے پی-21 ڈیزائن پے بنا تھا۔ 29 ستمبر 2003ء کو ایران کی مقامی سطح پر تيار جدید اینٹی شپ میزائل اور جدید الیکٹرانکس کے ساتھ لیس سینا کلاس کی پایکآن میزائل کشتی اسلامی جمہوریہ ایران کی بحریہ میں شامل کرلی گئی۔ جہاز بحیرہ کیسپیئن میں ایران کے مفادات کے تحفظ کے لیے اتارہ گيا اور ایرانی بحریہ کے سربراہ ريئر ايڈمرل حبيب الللہ سياری کی طرف سے ایرانی بحریہ کو حاصل ہونے والی کامیابیوں ميں اس کا ذکر کیا گیا۔ 22 ستمبر 2006، کو ایران نے اپنی دوسری مقامی سطح پر تيار کامان کلاس میزائل کشتی، جوشن کا اعلان کیا۔ جوشن 18 اپریل 1988ء کو خلیج فارس میں آپریشن "پرينگ مانتس" کے دوران تباہ ہونيولی اصل جوشن کی یاد میں بنائی گئی۔ ایران کی بحریہ کے ایک کمانڈر ایڈمرل کووچاکا کے مطابق جوشن کی رفتار 45 ناٹ (83 کلومیٹر/فی گھنٹہ) ہے اور "دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، خاص طور پر برقیاتی نظام، فریم اور چیسس سے ليس ہے اور اس طاقتور میزائلوں کو چلانے کے لیے درکار صلاحیت رکھتی ہے۔"

2002ء میں ایران نے اعلان کر دیا کہ وہ مقامی سطح پر ڈيسٹرائر کی پیداوار شروع کریں گے۔ بین الاقوامی معیار کے مطابق موودگی کی کلاس کا پہلا جہاز ایک ہلکی فریگیٹ یا ایک کورویٹ تصور کیا جاتا ہے۔ 24 نومبر 2007ء کو ایرانی بحریہ کے سربراہ ريئر ايڈمرل حبيب الللہ سياری اعلان کیا کہ ایران پہلا مقامی طور پر ڈيسٹرائر "جامآران" (بین الاقوامی معیار کے مطابق فریگیٹ) اور ایک ایرانی اکمال-آبدوز لانچ کرے گا۔ اسے سونار سے مہفوظ رہنے والی خفيہ آبدوز کہا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر ماوجا اور پھر ماوجا کے نام سے جانا جاتا آخر میں جامآران کہلايا جانيوالا يہ جہاز الوانڈ کلاس کی ترقی لگتا ہے۔ مودگی یا ماوجا کلاس میزائل فریگیٹ 2010 میں ایرانی بحریہ ميں شامل ہوئی۔ اسی کلاس کی دوسری فریگیٹ داماوان 2013 میں سانزلی کی بندرگاہ سے بحیرہ کیسپیئن میں لانچ ہوئی۔ جامآران جہاز کی طرح يہ جہاز بھی ہیلی کاپٹر، اینٹی شپ میزائل، تارپیڈو، جدید توپوں , ایئر ڈیفنس توپوں ,الیکٹرانک جنگ کے آلات اور زمین سے فضائ ميں مار کرنے والا میزائلوں کے ساتھ لیس ہے۔ ان فریگٹیس کے بعد ایران کی فریگٹیس 3 سے 5 ہوگئيں ہيں , جبکہ دو خلیج فارس میں ایران کے جنگی بحری بیڑے میں شامل کرنے لیے تعمیر کی جا رہی ہیں۔ مارچ 2006 میں بحریہ نے نہانگ (حوت) نامی ایک آبدوز کو تعینات کیا لیکن سرکاری میڈیا پر نشر کی گئی تصاویر کے مطابق يہ ايک چھوٹی آبدوز تھی۔ 22 فروری 2008 کو ایرانی وزارت دفاع نے 74 مقامی سطح پر تیار چھوٹی میزائل کشتیوں کی ایرانی بحریہ ميں شموليت کا اعلان کیا۔ ہووٹ سپرکیواٹیٹانگ تارپیڈو اور تہقیب میزائل کی تياری کے بارے ميں بھی اطلاعات مليں، اگرچہ قابل اعتماد معلومات نایاب ہيں۔

ایران کے بحریہ کے نائب کمانڈر کپتان منصور مقسودلاوو نے فروری 2010 میں اعلان کیا کے ایران نے مقامی سطح پر طیارہ بردار جہاز ڈیزائن اور تیار کرنے کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے اور طیارہ بردار جہاز کی تعمیر کے لیے ابتدائی ڈیزائن کی 2010 میں منظوری دی گئی ہے اور تحقیق اور طیارہ بردار جہاز کے ڈیزائن کا عمل اس وقت ایرانی حکومت کی طرف سے دیکھا جا رہا ہے۔ اگست 2013ء تک کے مطابق طیارہ بردار جہاز پروگرام ابھی فی الحال تحقیق اور ڈیزائن کے مرحلے میں ہے تاہم مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے مطعلق ہے۔ 2012 میں ایران نے یونس نامی ایک کيلو کلاس آبدوز کو اوور ہال کيا۔ اس اوور ہال کو بندر عباس بحری اڈے پر مکمل کيا گيا تھا۔ اس کے علاوہ ایرانی بحریہ نے 1135 ٹن بایاندور کلاس کورویٹ کو جديد بنايا اور نور اینٹی شپ کروز میزائل اور تارپیڈو لانچر کے ساتھ لیس کيا۔

2000 ٹن ساہاند نامی ایک اور جدید فریگیٹ کو بندر عباس بحری اڈے میں ہتھیاروں اور ساز و سامان کے ساتھ نصب کیا جا رہا ہے۔ اس کی 2013 میں لانچ کے لیے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ جولائی 2012 میں غیر ملکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ایران مبینہ طور پر خلیج فارس میں مسلح تصادم کے پيشِ نظر امریکی بحری جہازوں پر حملہ کرنے کيلئے نئی صلاحیتوں، آبدوزوں , اینٹی شپ میزائلوں اور میزائل کشتيوں کی تعداد و استعداد بڑھا رھا ہے۔ دسمبر 2014 میں ايرانی بحریہ نے زمینی فوج اور فضائیہ کے ساتھ مل کر مشترکہ مشقيں کيں۔ بحری مرحلہ خلیج عدن اور خلیج فارس سے لے کر شمالی بحر ہند کے ایک وسیع علاقے پر مشتمل تھا۔ نئے اینٹی شپ، برقناطیسی قوت اور صوتیات بحری بحری بارودی سرنگيں بچھانے کے نظام سمیت "فاتح" آبدوز کو ٹیسٹ کیا گیا۔

تنصيبات[ترمیم]

ايرانی سيلر ہيکلر اينڈ کوچ جی3 رائفلوں کے ساتھ
ولايت 94 مشقوں کے دوران تکاوران

1977ء میں بحری بیڑے کی زیادہ تعداد خرم شہر سے نئے ہیڈکوارٹر میں بندر عباس منتقل کر دی گئی۔ بوشهر اہم مرکز تھا۔ چھوٹے مراکز خرم شہر، کہآرک جزیرے اور بندر خمینی (اس سے پہلے بندر شاہ پور کے طور پر جانا جاتا تھا) میں واقع تھے۔ بندر انزلی (اس سے پہلے بندر پہلوی کے طور پر جانا جاتا تھا) بحیرہ کیسپیئن بحری بیڑے کا اہم تربیتی اڈا تھا۔ بحری اڈے پر قائم فوجی مرکز بندر بہشتی (اس سے پہلے چابھار کے طور پر جانا جاتا تھا) خلیج عمان پر 1970 کی دہائی کے بعد سے زیرتعمیر تھا اور 1987ء تک مکمل نہیں ہوا تھا۔ چھوٹے مراکز آبنائے ہرمز کے قریب واقع تھے۔ ایران نے بحرِ عمان میں نئے بحری اڈے کا بھی اعلان کیا ہے۔

  • ابو موسی - جزیرے کے مغربی سرے پر چھوٹا سا مرکز۔ ابو موسی ہوائی اڈے کے قریب واقع ہے۔
  • الفآرسیہ
  • بندر بہشتی (چابھار) -خلیج عمان میں پورٹ
  • بندر عباس - بحری ہیڈکوارٹر اور بحری ہوائى اڈا
  • بندر انزلی - بیس اور بحیرہ کیسپیئن کے بیڑے (گشتی کشتیاں، مانی سویپرس) کے لیے تربيتی مرکز
  • بندر خمینی - عراق کے ساتھ سرحد کے قریب واقع چھوٹا بیس
  • بندر مہشہر - بندر خمینی کے قریب واقع چھوٹا اڈا ہے
  • بوشهر - خلیج فارس؛ میں مرمت اور سٹوریج کی سہولت کا مرکز، بحریہ تکنیکی سپلائی سینٹر اور تہقيق و ترقی مرکز
  • ہالال (ایک تیل پلیٹ فارم)
  • جاسک - اومان اور متحدہ عرب امارات کے نزديک آبنائے ہرمز کے منہ میں جنوب مشرقی ایران میں واقع چھوٹی بیس
  • کہآرک - بوشهر کے واقع شمال مغرب میں جزیرے پر چھوٹا سا بیس
  • خرم شہر - سابق بحری ہیڈکوارٹر۔ اب مرمتی اور تعميری مرکز
  • لآراک - بندر عباس کے قریب جزیرے پر چھوٹا اڈا
  • کہارگ جزیرہ - آبنائے ہرمز میں ہوورکرفٹ بحری بیڑے کی بیس کی
  • نوشہر -امام خمینی بحری سائنس یونیورسٹی (بحری سٹاف کالج)
  • قہشم - کہارگ اور بندر عباس کے قریب چھوٹی بندرگاہ
  • شاہد راجای
  • سری- متحدہ عرب امارات کے نزديک اور خلیج فارس میں واقع جزیرے پر موجود بندرگاہ

مزيد ديکھيں[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. Hossein Aryan (November 15, 2011)، The Artesh: Iran’s Marginalized and Under-Armed Conventional Military، Middle East Institute، 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ December 15, 2015 
  2. باید در همه مسئولین تفکر بحری به وجود بیاید (بزبان الفارسية)، Fars News Agency، 06 جولا‎ئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ December 15, 2015 
  3. "Iran set to unveil new submarine class"۔ UPI۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 اکتوبر 2015