شاہ نور محمد بہرائچی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شاہ نور محمد بہرائچی
[[File:
شاہ نور محمد بہرائچی کی جائے مدفن
|200px|alt=]]
پیدائشنور محمد
1869ء
قصبہ رسڑا بلیا، اتر پردیش، ہندوستان
وفات16 مارچ 1931ءمطابق 25 شوال 1349ھ
مدفناحاطہ شاہ نعیم اللہ بہرائچی بہرائچاتر پردیش ہندوستان
رہائشمحلہ شہر بہرائچاتر پردیش ہندوستان
اسمائے دیگرمولاناالحاج شاہ نور محمد نقشبندی رسڑاوی ثم بہرائچی
وجہِ شہرتسلسلہ نقشبندیہ کے مشہور بزرگ
کارہائے نمایاںتفسیر اکلیل کو طبع کیا ۔
مؤثر شخصیاتشیخ الدلائل مولانا عبد الحق مہاجر مکی
مذہباسلام
اولادمحفوظ الرحمن نامی بانی جامعہ مسعودیہ نور العلوم بہرائچ

مولانا شاہ نور محمدنقشبندی ؒ کی پیدائش 1286ھ مطابق 1869ء میں رسڑا[1] ضلع بلیا میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام شیخ کریم اللہ تھا۔ آپ حضرت شیخ الدّلائل علامہ محمد عبد الحق مہاجر مکیؒ کے خلیفہ مجاز تھے۔ آپ ضلع بہرائچ میں ایک روحانی بزرگ تھے اور آج آپ کی یادگار کے طور پر ایک بہت بڑا مدرسہ قائم ہے جس کا نام جامعہ عربیہ مسعودیہ نورالعلوم ہے۔ جسے آپ کے فرزند مولانا محفوظ الرحمن نامیؒ نے قائم کیا تھا۔

تعلیم[ترمیم]

آپ کی ابتدائی اردو فارسی کی تعلیم بلیا میں ہی ہوئی۔ تعلیم کا شوق آپ کوبچپن سے تھا۔ اور اسی شوق نے آپ کو ترک وطن پر مجبور کیا اور گھر سے پیدل غازی پور پہنچے ،اور وہیں کئی سال تک تحصیل علم میں مصروف رہے۔ٖغالباََآپ نے عربی کی کتابیں وہیں پڑھی تھی۔ ان دنوں مولانا احمد حسن کانپوری کا حلقہ درس پورے ہندوستان میں مشہور تھا۔ مولانا نور محمد کے علمی شوق نے غازی پور کو بھی خیرباد کہنے پر مجبور کر دیا اور وہاں سے کچھ دور پیدل کچھ دور اونٹ گاڑی پر سفر کرتے ہوئے کانپور پہنچے اور عربی کی مکمل تعلیم حاصل کی اور سند فراغت لی ۔

ابتدائی حالات[ترمیم]

مولانا نور محمد نے اپنے زمانہ تعلیم میں اپنے والد سے ایک پیسہ کی بھی مدد نہ لی۔ چونکہ تبلغ و ہدایت کا ذوق شروع سے تھا۔ وعظ وغیرہ کہنے جاتے جو کوئی حسبتہ للہ امداد کرتا اس سے ضروریات زندگی پوری فرماتے ،کتابیں خریدتے تھے بلکہ والدین کی خدمت میں بھی کچھ بھیج دیتے تھے۔ اور کبھی ٹوپیاں بنا کر فروخت کرا لیتے اور اسی میں گذر کرتے۔ ایک زمانہ وہ بھی گذرا کہ محض ایک سیر ستو میں آپ نے دو ماہ تک گذر کیا۔ تعلیم کے حاصل کرنے کے آخری سالوں میں ایک صاحب کے یہاں اس صورت میں ان کے صاحب زادگان کو تعلیم دیتے تھے مستقل طور پر کھانے کا انتظام ہو گیا تھا مگر جو خادمہ کھانا دینے آتی اس میں سے تقریباََنصف کھانا خود کھا لیتی تھی۔ مولانا نے باوجود اس کا علم رکھتے ہوئے صاحب خانہ سے اس کی شکایت نہ فرمائی۔ اور جب گھر والوں کو اس کی خبر معلوم ہوئی تو مولانا کی اس سیرت سے متاثر ہوئے۔ اسی زمانہ میں مولانا کی عبادت کا یہ حال تھا کہ تہجد کی نماز بہت کم قضا ہوتی تھی ۔

تبلیغی خدمات[ترمیم]

عربی کی تکمیل کے بعد آپ نے اپنی زندگی مسلمانوں کی تبلغ و ہدایت کے لیے وقف کر دی اور آخری عمر تک آپ کا یہی مشغلہ رہا۔ روہانی مدارج طے کرنے کے لیے آپ حضرت مولانا کریم بخش مؤی نقشبندی[1] کے مرید ہوئے۔ کچھ دنوں آپ کی خدمت میں رہ کر فیوض و برکات حاصل کرتے رہے۔ پھر حضرت شیخ الدلائل مولانا عبد الحق مہاجر مکی[1] کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کی درخواست کی ،شیخ نے فرمایا کہ ایک بڑے بزرگ کی بیعت کے بعد مجھ سے بیعت کی ضرورت نہیں۔ آپ تعلیم حاصل کریں مولانا متعد سال تک مکہ معظمہ میں حضرت شیخ الدلائل کی خدمت میں رہ کر تصوف کے بلند ترین منازل طے کیے۔ پھر شیخ نے خلافت دیکر ہندوستان آنے کی اجازت فرمائی۔ پھر حضرت شیخ کی حیات میں کئی بار مکہ معظمہ تشریف لے گئے بعض دفعہ خود آپ کی طبیعت اس کے لیے محرک ہوئی اور بعض دفعہ حضرت شیخ نے ایما فرمایا۔ مولانا شاہ نور محمد پر آپ کے شیخ کی خاص طور سے نظر تھی۔ جو لوگ وہاں حاضر ہوتے تھے انھیں معلوم ہوتا تھا کہ شیخ جتنااہتمام مولانا کے لیے کرتے تھے اور کسی کے لیے نہ فرماتے۔ حضرت شیخ نے اپنی جگہ مولانا کے لیے چھوڑی تھی۔ مولانا کا ارادہ تھا کہ بقیہ حیات وہیں رہ کر بسر کرے مگر ماوی دنیا پر روحانی دنیا کی کشش غالب آئی اور مکان کی زیارت کی بجائے عالم ارواح میں خود صاحب مکان سے ملاقات کرنے کے لیے تشریف لیگئے مولانا نے شیخ الدلائل کی ضمیم کتاب تفسیر اکلیل[1] جو 12سال کے عرصہ میں تیار ہوئی تھی اور سات جلد وں میں ہے اسے طبع کرنے کا اہتمام فرمایا اور محض خدا پر توکل کر کے اکلیل (موجودہ وقت میں تاج پریس کے نام سے ہے)[1] کے نام سے ایک پریس قائم کر کے اس کتاب کو طبع کرایا ،اس کے بعد مولا نا کی دیگر تصانیف۔ ارشادالحق،تعلیم حقانی ،انیس المسافرین ،النورالمبین طبع کرائی۔ اور خود اپنے قلم سے شیخ الدلائل کی ایک مختصر سوانح عمری لکھی۔ خلافت ملنے کے بعد مولانا نور محمد ؒ کا اکثر حصہ عمر بہرائچاور اس کے اطراف و جوانب میں بسر ہوا۔ اور جب تک اکلیل نہ طبع ہوئی تھی اس وقت تک تبلغ و ہدایت کے ساتھ ساتھ مطبع کی نگرانی بھی فرماتے تھے۔ اکلیل چھپ جانے کے بعد آپ کی زندگی خدمت دین کے لیے وقف تھی۔ مولانا شہر میں تبلغ کرنے کے ساتھ ساتھ دہات میں بھی تبلغ کرتے تھے اور آپ کی اکثر زندگی غربا اور مساکین کے ساتھ گذری ۔بہرائچ اور اس کے اطراف میں تقریباََ 38سال آپ نے گزارے۔ آپ کی زندگی جس نوع سے بسر ہوئی اس سے آپ کے لیے اہل بہرائچکے دلوں میں آپ کی محبت دن بہ دن بڑھتی گئی۔

عادات و خصائل و کمالات[ترمیم]

مولانا نور محمد نہایت رحم دل رفیق القلب تھے۔ اور سینہ عشق رسول ؐسے لبریز تھا۔ رسول اللہؐ کے نام پر صلوۃ و سلام پڑھنے کے وقت بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ آپ کبھی کسی کی برائی نہ کرتے تھے ،اور اگر کوئی شخص آپ کے متعلق کوئی نازیبا کلمات کہتا اور اس کی خبر آپ کو ہو جاتی تو فرماتے کہ کہنے دو۔

تواضع[ترمیم]

آپ کو اگر کوئی گھر لیجانا چاہتا تو آپ اس کے منتظر نہ رہتے کہ پھر کوئی استقبال کے لیے آئے شہر میں اگر کوئی سواری لانے کو کہتا تو آپ انکار فرما دیتے۔ امرا سے زیادہ غربامیں گھل مل کر رہنا پسند فرماتے۔ ملازموں کے ہوتے ہوئے بھی گھر کا سامان وغیرہ بھی خود خرید کر لے آتے،اور اکثر اوقات محلہ والوں سے بھی دریافت فرما لیتے تھے۔

سادگی[ترمیم]

آپ کی وضع بالکل سادہ تھی۔ اکثر کرتا زیب تن رہتا تھا۔ سر پر گول ٹوپی یا کتھئی رنگ کا عمامہ ہوتا تھا،عیدین وغیرہ کے موقع پر اچکن اور عبا بھی پہن لیتے تھے۔

ذکر الہٰی[ترمیم]

ُآپ کوشیخ الدالائل مولانا محمد عبد الحق ؒ سے خلافت حاصل تھی اور آپ طریقہ نقشبندیہ [1] کے مطابق ہروقت ذکر الہٰی میں مصروف رہتے تھے اور ہر وقت آپ زبان پر ذکر خدا رہتا تھا۔ اور کبھی کبھی نیند کی حالت میں آپ ذکر کرنا شروع کر دیتے تھے اور آواز اتنی بلند ہو جاتی تھی کہ محلہ کے لوگ نیند سے بیدار ہو جاتے تھے۔

توکل[ترمیم]

آپ کے اکثر کاموں کے افتتاح کے وقت ظاہری اسباب کچھ بھی نہ ہوتے تھے۔ آپ نے جب تفسیر اکلیل کی طباعت اپنے ذمہ لی تو ایک جلد کے چھپنے کا سرمایہ بھی نہ تھا۔ حالانکہ اس کے طباعت کا تخمیہ 2ہزار سے کم نہ تھا ،مولانا محض توکل علی اللہ اس خدمت کو اپنے ذمہ لیا آخر خدا نے اسے پورا کیا۔ ایک بار حج کا ارادہ ہوا ،چچا نے محض 2 روپئے آپ کو دئے اور انھیں 2روپوں کو لے کر آپ حج پر چل دئے نہ کسی سے کچھ طلب فرمایا نہ کسی پر اپنی حاجت ظاہر کی۔ آپ خدا پر بڑا یقین رکھتے تھے اور اللہ نے اس پورے صفر حج میں آپ کا پورا خیال رکھا۔

حج[ترمیم]

مولانا یوں تو ہند میں اقامت گزین تھے مگر آپ کا دل ہمیشہ عرب کی سر زمین میں لگا رہتا تھا۔ اور 9 حج [1] کر چکے تھے آپ کی تمنا تھی کہ حجاز ہی کے راہ میں میری وفات بھی ہوا۔ اللہ نے آپ کی یہ تمنا بھی پوری کی

آخری ایام[ترمیم]

مولانا نورمحمد ؒ کی وفات ایک بیحد تعجب انگیز تھی۔ جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے مولانا نور محمد ؒ نے 1348ھ میں نواں (9) حج کیا تھا اور وہاں سے واپس پر سخت علیل ہو گئے تھے اور عرصہ تک علیل رہے ،ضعف بیحد بڑھ گیا تھا ،خوراک بہت کم رہ گئی تھی جمادالشانی1349ھ تک مرض کا بہت اثر رہا۔ لیکن پھر صحت میں بہتری ہونے لگی اور تا دم وفات طبیعت رو بصحت ہی رہی لیکن اس مرض کا آپ کے مشاغل پر کوئی اثر نہ تھا شاید ہی کوئی ایسا وقت ہوا کہ باجماعت نماز نہ پڑھی ہو۔ اس مرض کی حالت میں آپ نے رسڑا میں مدرسہ فیض عام کی بنیاد رکھی اور آپ کا سارا وقت اسی کی تعمیر میں صرف ہوتا تھا۔ خود تمام کاموں کی نگرانی فرماتے اور بعض وقت خود اپنے ہاتھوں سے کام شروع کر دیتے تھے۔ اس طرح عمارت تعمیر ہو گئی۔ رسڑا میں مولوی سعید بہت زیادہ علیل تھے مولانا عیادت کے لیے تشریف لے گئے مولوی صاحب سے ملے اور دونوں کی آنکھوں میں آنسو ں جاری ہو گئے مولانا نے فرمایا کہ چلئے اب ہمارا وقت بھی قریب ہے۔ مولوی صاحب کی وفات تیسرے ہی دن ہو گئی اور مولانا کی تقریباََ پانچ ماہ کے بعد وفات ہوئی۔ آپ سال وفات میں جب لوگوں سے ملتے سب سے ایسے کلمے کہتے جس سے معلوم ہوتا اب یہ آخری ملاقات ہے۔ جن جن مقامات پر تشریف لیے جاتے با چشم گریاں واپس ہوتے اور کسی نے کچھ بھی کہا فوراََ آنسو نکل آتے لڑکے تنظیم کی نظمیں پڑھتے ہوئے نکلتے جب آپکو دیکھا جاتا کہ آنکھوں سے آنسوں جاری رہتے تھے۔ رمضان میں معتکف ہوئے تو بعض مخلصین سے فرمایا کہ سرور عالم ﷺ کی عمر 63برس کی ہوئی تھی اور میری عمر بھی63 سال کی ہو چکی ہے اب ارادہ ہے حجاز کا کاش خدا اس سفر میں یہ سنت کو پوری کرا دے۔ عید کے بعد اکثر لوگوں اصرار کرنے پر مختلف مقامات پر لیگئے تھے۔ جہاں جہاں وعظ فرماتے ایسا وعظ فرماتے جس سے معلوم ہوتا کہ مولا نا کے واعظ سے دنیا اب جلد محروم ہونے والی ہے 15شوال کو آبائی وطن رسڑا گئے اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات کر کے 21شوال کو واپس بہرائچ پہنچے۔ 22شوال کو جمعہ کا دن تھا آپ سے عرض کیا گیا کہ بازار کی مسجد میں نماز ادا فرمائے لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں مجھے تمام لوگوں سے ملاقات کرنا ہے میں جامع مسجد میں نماز پڑھوں گا آپ سے لوگوں نے اصرار کیا کہ وہاں تشریف نہ لے جائے مگر آپ نے بار بار یہی فرمایا کہ مجھے بہت سے لوگوں سے ملنا ہے چنانچہ وہیں تشریف لے گئے۔ جمعہ بعد ایک مختصر سا وعظ فرمایا اور جو بات پہلے اشارۃ فرماتے تھے اسے آپ نے صراحتہََ فرما دیا کہ صاحبوں یہ میرا آخری وعظ ہے اس کے بعد میں غالباََ آپ سے نہ مل سکوں اس لیے اگر مجھ سے کسی کو کسی قسم کی تکلیف پہنچی ہو یا میں نے کسی کی غیبت کی ہو تو خدا کے لیے مجھے معاف کر دیں۔ آپ نے اس آخری وعظ میں استقامت علی الدین خلوص اتحاد و اتفاق تنظیم و اصلاح کے متعلق مختصر لفظوں میں فرمایا ۔

آخری سفر حج[ترمیم]

24شوال کو روانگی حج کا دن تھا علی الصباح درگاہ حضرت سید سالار مسعود غازیؒ [1] تشریف لے گئے ،راہ میں حافظ حیرت شاہ وارثی ؒ (بہرائچ کے ایک مجذوب بزرگ تھے)سے ملاقات ہوئی کچھ دیر گفتگو ہوئی، درگاہ جا کر فاتحہ پڑھی پھر حافظ حیرت شاہ ؒ سے ملاقات ہوئی اور تقریباََ 5یا 6منٹ تک آپس میں ایسی باتیں ہوئی کہ سوائے آپ دونوں حضرات کے حاضرین میں کوئی نہ سمجھ سکا 1بجے ظہر کی نماز پڑھ کر اسٹیشن کی جانب روانگی ہوئی روانگی کا منظر عجیب منظر تھا۔ یوتوں بہرائچ میں بیسوں جلوس نکلے ہوں گے مگر یہ جلوس جس نوعیت کا تھا اس کی کیفیت ہی الگ تھی۔ ہزاروں کا مجمعہ تھا جلوس سادہ تھا حسن عقیدت کے پھول نچھاور کیے جا رہے تھے۔ جلوس میں شامل لوگوں کی آنکھیں اشک با رتھی۔ مولانا نور محمد بہرائچ کی تنظیم کمیٹی کے صدربھی تھے۔ کمیٹی نے اپنے صدر نے اپنے صدر کے الوداعی جلوس کے لیے تمام رضاکاروں کو جمع کر لیا تھا۔ رضا کار الودعی نظمیں پڑھ رہے تھے بیک لمحہ ہزاروں زبانوں سے اللہ اکبر کی صدا بلند ہوکر فضا میں گونج رہی تھی۔ مولا نا جلوس کے حلقہ میں تھے آپ پر استغراق کی کیفیت طاری تھی اور سر جھکا ہواتھا۔ جلوس جب مولانا نعیم اللہ شاہؒ بہرائچی کے مزار کے سامنے پہنچا تو وہاں رک کر آپ نے فاتحہ پڑھا اسٹیشن تک مجمع بہت بڑھ گیا تھا۔ پلیٹ فارم پر انسانی سروں کا ایک جنگل نظر آ رہا تھا ،مولانا کو ایک کرسی پر بیٹھا دیا گیا۔ تما م لوگ اپنی اپنی جگہ پر زمین پر بیٹھ گئے تھے۔ اہل شہر بہرائچ کی طرف سے ایک الودعی نظم پڑھی گئی نظم پڑھنے کے دوران میں مولانا خود بھی رو رہے تھے اور اکثر حاضرین بھی رو ہے تھے۔ الوداعی نظم اس طرح تھی۔ الوداعی نظم ہونے کے بعد مولانا نور محمد صاحب کی طرف سے ایک تحریر پڑھ کر سنائی گئی جس میں آپ نے آخری بار اوام سے خطاب کیا تھا۔ جس میں آپ نے اسلامی طور طریقہ سے زندگی گزارنے کی تلقین کی تھی اور نصیحتے فرمائی تھی۔ تحریر سنانے کے بعد آپ نے الوداعی مصافحہ کیا۔ ہر شخص آپ سے مصافحہ کے لیے بیتاب تھا۔ پھر ٹرین میں سوار ہوئے اور سفر حج کے لیے روانہ ہوئے مگر یہ سفر حقیقت میں خدا کی طرف روانگی کا تھا ۔

وفات[ترمیم]

آپ سفر حج کے لیے روانہ ہوئے مگر یہ سفر حقیقت میں خدا کی طرف روانگی کا تھا۔ ٹرین میں سفر کے دوران ہی غفلت شروع ہوئی۔ اگلے اسٹیشن پر آپکو لٹادیا گیا پانی کے چھنیٹے وغیرہ دئے گئے۔ پہلے نبض بہت آہستہ آہستہ چل رہی تھی لیکن پھر نبض کی رفتار بھی اچھی ہو گئی تھی ،مگر گونڈہ تک طبیعت اور زیادہ بگڑ گئی ،شب میں ڈاکٹر اور طبیب نے معائنہ کیا اور بتایا کہ فالج کا اثر ہے مولانا جب سے غافل ہوئے تکلم نہ فرما سکے محض رات میں 9بجے ایک بار اللہ زبا ن سے نکلا اور کلمہ شہادت کی انگلی اٹھی۔ اسٹیشن سے بڑگائیں بازار میں لایا گیا وہاں سے صبح 8بجے موٹر لاری سے بہرائچ لانے کے لیے سوار ہوئے ،آپ کا پورا خاندان اسی میں موجود تھا۔ کوڑیا کے مقام سے آگے نکل آئے تھے کہ دوبار آپکو چھینک آئی نبض دیکھی گئی تو ساقط ہو چکی تھی ،اور آپ کی روح 16 مارچ 1931ءمطابق 25 شوال 1349ھ کو اس عالم فانی سے کوچ کر گئی اور آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی تھی اور مولانا کے مکان پر امڈ پڑا تھا۔ شہر کی تمام دوکانیں بند تھی۔ دوسرے دن جب جنازہ کا جلوس نکلا اس جنازہ میں دس بارہ ہزار آدمی تھے۔ ہر شخص کی آرزو تھی کہ جنازہ کو کندھا دو۔مولانا شاہ نعیم اللہ بہرائچی کے مزار کے مغربی جانب آپکو دفن کیا گیا جہاں آج آپ کی مزار ہے آپ کی وفات کے بعد ضلع اور بیرون ضلع میں ایصال ثواب کیا گیا مولانا ابراہیم بلیاوی نے آپ کے صاحب زادہ کو اپنے تعزیت نامہ میں یہ اطلاع دی تھی کہ دارالعلوم دیوبند میں بھی آپ کے لیے ایصال ثواب ہوا ۔

الوداعی نظم[ترمیم]

نظم کے فرز ند محمد احسان الحق مہتم جامعہ مسعودیہ نورالعلوم بہرائچ نے لکھی تھی۔ مختصرحالات حضرت مولانا الحاج شاہ نور محمد رسڑاوی ثم بہرائچی از مرتب حکیم عبد القادیر خان اور محفوظ الرحمن نامی

ُ[1]
الوداع اے زائر کوے محمد الوداع الوداع اے عاشق روئے محمد الوداع
الوداع اے ہادی دین محمد الوداع الوداع اے مولوی نور محمد الوداع
الوداع اے عازم حج و زائر ارض حرم الوداع اے پیر ودین شہ خیر الانم
کیا کلام اس میں کہ ہے ارض حرم وہ سرزمین جس جگہ پیدا ہوئے تھے رحمت للعالمین
سچ ہے دنیا میں کوئی بڑھ کر جگہ اس سے نہیں شکر رب العالمین کہ آپ جاتے ہیں وہیں
التجا یہ ہماری آپ سے سے سن لیجئے ہم غریبوں کے لیے جا کر دعایءں کیئجے
ہم گنہگاروں کے حق میں یہ دعا فرمائے از طفیل سرور عالم خدایا بخشدے
گوہر ہر مقصود سے دامن ہمارے پر کرے زندگی بھر ہم حمایت میں رہیں تنظیم کے
درد ہر دل میں ہو ہمارے ایک فقط اسلام کا مرتے دم تک ورد ہو دل سے خدا کے نام کا
ہم کو وہ قوت عطا کراے خدا ئے ذوالکرم صفحہ ہستی سے باطل کو مٹائیں یک قلم
خدمت اسلام میں ہم سب رہیں ثابت قدم سرگوں ہونے نپائے دین احمد کا علم
مشرق سے تا مغرب اب سکہ چلے اسلام کا سارے عالم میں بجے ڈنکا خدا کے نام کا
قادر مطلق نہیں کوئی بھی ہے تیرے سوا عاجز ناچار ہیں ہم سب ترے ور کے گدا
اے خدائے دو جہاں صدقہ رسول پاک کا ہم گنہگاروں کی بھی مقبول ہویہ التجا
جب تلک زندہ رہیں قائم رہیں اسلام پر ہوں عمل پیرا ہمیشہ ہم تیرے احکام پر
بعد حج ارضِ حرم سے سوئے طیبہ جایئے جایئے ہا ن شوق سے شہر مدینہ جایئے
روضۂاطہر پہ بھی جاکر دعا فریئے بینواؤں کی طرف سے التجا فرمایئے
اے حبیب کبریا اے سرور خیرالانام یہ دیا ہے شہر بہرائچ کے مسلم نے پیام
الصلوۃ والسلام اے رحمتہ للعالمین اصلواۃ والسلام اے قبلہ حاجات دین
الصلوۃ والسلام اے نور رب العالمین الصلوۃ والسلام اے شافع یوم الیقین
الصلوۃ اے سرور عالم محمدؐالسلام الصلوۃ اے رہبر عالم محمدؐالسلام
حال دل کیسے سنائیں تم سے کوسوں دور ہیں درد دل سے اپنے اے آقا بہت مجبور ہیں
شرم آتی ہے کہیں ہم آپ سے کیا اے شہایہ دعا کیجئے کہ بس اب رحم فرمائے خدا
کیجئے للہ عنایت اے شہ ہر دوسرا ہاتھ اٹھا کر آپ کہدیجے کہ اے بار خدا
حال ابتر ہوچکا ہے امت مرحوم کا کچھ نہیں باقی رہا ہے اس حسرت کے سوا
بارش ابر ہو جائے ان پر ایک بار پہلی سی غرت انھیں دے اے مرے پروردگار
حضرت صدیقؓسا صدق وصفا پیدا ہوا پھرحضرت فاروقؓسا عدل ووفا پیدا ہوا پھر
حضرت عثمانؓ کا علم وسخا پیدا ہوا پھر اور دنیا میں کوئی شیر خدا پیدا ہو ا پھر
تاکہ پھر شاداب ہو گلشن تیرے اسلام کاہر مسلما ن پھر بنے شیدائی تیرے نام کا
ہے یقین ہم کو خدا سے آپ گر کہدیجئے کام بن جائیں ہمارے جتنے ہیں بگڑے ہوئے
ہم بھلے ہیں یا برے ہیں نام لیوا آپ کے کیوں تباہی میں پڑیں ہم آپ کے ہوتے ہوئے
آپ فرمادیں تو جہ گر تو بیڑا پار ہے اک سہارا آپ ہی کا بس ہمیں درکار ہے
حضرت صدر مکرم کر چکے ہم عرض حال ہم نے جو کچھ بھی کہا ہے اس کو رکھیئگا خیال
آپکی فرقت کا ہے ہر قلب بہحد ملال اب یہ آخرمیں دعا ہے اے خدا ئے ذوالجال
عا فیت سے اس سفر سے آپکی ہو واپسی جلد ہی پھر ہو قدم بوسی میسر آپ کی

قطعات تاریخ وفات[ترمیم]

قطعہ از منشی عبد الغفار شہرتؔ بہرائچی

ستم اے فلق تونے ڈھایا یہ کیسا غبار اپنے دل سے نکالا یہ کب کا نہ آنا تھا کچھ رحم آیا نہ تجھ کو بنایا ہمیں تیر غم کا نشانا ہوا چاک چاک اپنا دل فرط غم سے جگر بھی الم سے ہوا پارہ پارا ہوئی زندگی تلخ ظالم ہماری دیا تونے ہم کو وہ جانکاہ صدمہ جدا ہوگئے ہم سے نور محمد تجھے اے ستمگر فلک مل گیا کیا روانہ ہوئے تھے وہ بیت الحرم کو مگر اپنے پاس ان کو حق نے بلایا الٰہی کدھر طالب دید جائیں نظر آئے گا اب کہاں انکا جلوا یہ سال وٖفات ان کا ہے عیسوی خدا کا عاشق محمدؐ کا شیدا 1931ء

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح مختصرحالات حضرت مولانا الحاج شاہ نور محمد رسڑاوی ثم بہرائچی از مرتب حکیم عبد القادیر خان اور محفوظ الرحمن نامی
  • مختصرحالات حضرت مولانا الحاج شاہ نور محمد رسڑاوی ثم بہرائچی از مرتب حکیم عبد القادیر خان اور محفوظ الرحمن نامی شائع 1931