رام ریاض

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
رام ریاض
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (اردو میں: ریاض احمد ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 13 جنوری 1933ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پانی پت ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 7 ستمبر 1990ء (57 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جھنگ ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو ،  پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں ورق سنگ
پیڑ اور پتے
باب ادب

رام ریاض (پیدائش: 13 جنوری، 1933ء - وفات: 7 ستمبر، 1990ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو اور پنجابی زبان کے ممتاز شاعر تھے۔

پیدائش[ترمیم]

حضرت رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ) 13 جنوری، 1933ء کو پانی پت ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام ریاض احمد تھا۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں منتقل ہو گئے اور جھنگ میں سکونت اختیار کی۔ آپ کے والد کا نام شیخ نیاز احمد ہے ۔

تعلیم[ترمیم]

آپ نے 1945ء میں پرائمری کا امتحان محلہ انصاریاں پانی پت کے مدرسہ شاخِ انصاریاں سے پاس کیا ۔ پھر ابھی مڈل کی تعلیم مکمل نہیں ھوئی تھی، تقسیم ہند کے بعد 1948ء کو محلہ گلاب والا ، وارڈ نمبر 5 جھنگ شہر میں پہنچے ۔ مڈل کا امتحان 1950ء میں حالی مسلم ھائی اسکول جھنگ سے پاس کیا ۔ میٹرک کا امتحان ایم بی ھائی اسکول جھنگ سے بطور ریگولر اسٹوڈنٹ 1953ء میں پاس کیا عالمی شہرت کے حامل نوبل انعام یافتہ سائنس دان پروفیسر عبدالسلام بھی اسی ادارے میں زیرِ تعلیم رہے

رام ریاض کی شاعری کا آغاز ھائی اسکول دور سے ھو چکا تھا ۔ میٹرک کے بعد رام ریاض نے گورنمنٹ وول سپننگ اینڈ ویونگ سنٹر جھنگ شہر میں داخلہ لے لیا ۔ وہ یہاں 14 اپریل 1955ء سے 22 مئی 1957ء تک زیرِ تعلیم رہے ۔ اور یہاں سے وول ٹیکنالوجی کا سپننگ ماسٹر ڈپلوما کورس کامیابی سے مکمل کیا ۔

اس کے بعد صوبہ پختون خوا کی ایک وول مل میں بحیثیت سپننگ ماسٹر ملازمت اختیار کر لی۔ یہ ان کی پہلی ملازمت تھی جلد ہی وہ ملازمت چھوڑ کر واپس جھنگ آ گئے اور تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا۔ 1965ء میں گورنمنٹ کالج جھنگ سے گریجویشن کا امتحان پاس کیا اس وقت تک آپ ریاض احمد شگفتہ کے نام سے معروف تھے۔ آپ کی ڈگری پر بھی یہی نام درج ہے ۔ کچھ عرصہ بعد آپ نے اپنا قلمی نام رام ریاض اختیار کر لیا,

تدریس[ترمیم]

گریجویشن کے بعد رام ریاض نے اسلامیہ ھائی اسکول خانیوال میں ٹیچر کی حیثیت سے ملازمت شروع کر لی، معروف ادیب علی تنہا بھی اسی ادارے کے فارغ التحصیل ہیں۔ جن کا ذکر رام ریاض بیحد محبت سے کرتے تھے ۔ ملازمت کا یہ سلسلہ بھی زیادہ دیر نہ چل سکا۔اور آخر کار جھنگ واپس آ گئے ۔

شادی[ترمیم]

اسی دوران میں ان کی شادی ھو گئی لیکن یہ شادی کامیاب نہ ھو سکی اور آخر کار انھوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ مگر تنہائی اور بے روزگاری کا عفریت مسلسل ان کے سر پر منڈلاتا رھا،

ملازمت[ترمیم]

1973ء میں محکمہ خاندانی منصوبہ بندی میں بحیثیت پبلسٹی آفیسر کے طور پر انھیں جاب مل گئی یہ سلسلہ تقریبا 4 برس تک جاری رھا اور بالآخر یہ ملازمت بھی ترک کی،

شعروادب[ترمیم]

1986ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام "پیڑ اور پتے" شائع ھوا ۔ دوسرا شعری مجموعہ ورق سنگ کے نام سے اشاعت پزیر ہوا۔[1]

فالج[ترمیم]

10 جون 1986ء کو فالج کے شدید حملے نے اس توانا شاعر کو مستقل طور پر اپاھج بنا کر رکھ دیا۔گذر اوقات کا واحد ذریعہ اکادمی ادبیات پاکستان کی طرف سے 500 روپے ماھانہ وظیفہ تھا

تصانیف[ترمیم]

  • پیڑ اور پتے
  • ورق سنگ

نمونۂ کلام[ترمیم]

غزل

پانی پر تصویر اتارا کرتے تھے ہم تالاب میں پتھر مارا کرتے تھے
اگلے لوگوں نے بھی وقت گزارا ہے ​ سوچتا ہوں کس طرح گزارا کرتے تھے
کوئی بات تھی، میرے سر پر چاند نہ تھا تم جو میری سمت اشارہ کرتے تھے [2]

غزل

اُبھرا جب آکاش پہ تارا دونوں وقت ملے میں نے اچانک تجھے پکارا دونوں وقت ملے
سبز درختوں پر چُپ چھائی، ٹھہر گیا دریا​ آج نگر سے کون سدھارا دونوں وقت ملے
رات نے مجھ سے تارے چھینے، دن نے سورج لوٹا بھول گیا ہوں نام تمہارا دونوں وقت ملے
تند ہوا کی موجیں حائل تیرے میرے بیچ ​ اور فضا جلتا انگارا دونوں وقت ملے
شام دلہن مسکائی جب یادوں کے پنگھٹ پر​ میں نے دن کا بوجھ اتارا دونوں وقت ملے
پہروں بیٹھ کے روتا ہوں جب یاد آ جاتے ہیں تیری باتیں، ندی کنارا دونوں وقت ملے
آج کا چاند نجانے یارو! قسمت کسے دکھائے کہہ کر ڈوب گیا اک تارا دونوں وقت ملے [2]

غزل

سرما تھا مگر پھر بھی وہ دن کتنے بڑے تھے اس چاند سے جب پہلے پہل نین لڑے تھے
رستے بڑے دُشوار تھے اور کوس کڑے تھے​لیکن تری آواز پہ ہم دوڑ پڑے تھے
بہتا تھا مرے پاؤں تلے ریت کا دریا اور دھوپ کے نیزے مری نس نس میں گڑے تھے
جنگل نظر آئے ہیں بھرے شہر ہمیں تو​ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان بڑے تھے
اے رام! وہ کس طرح لگے پار مسافر جن کے سروسامان یہ مٹی کے گھڑے تھے [2]

وفات[ترمیم]

رام ریاض 7 ستمبر 1990ء کو جھنگ،پاکستان میں وفات پاگئے۔[1][3] جھنگ کے نواحی قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے،

حوالہ جات[ترمیم]