بابا شیخ سید مسعود الدین نروری کشمیر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

'بابا سید مسعود نروری سہروردی بغدادی سرینگر کشمیر BaBa . Srinagar Kashmir Masood (Masud Narwari baghdadi ) بابا مسعود نروری سہروردی سلسلہ کے معروف بزرگ گذرے ہیں۔ آپ صاحب عمل پابند شریعت بزرگ تھے۔ آپ سید احمد کرمانی کے خلیفہ خاص تھے۔ آپ کا تعلق امام حسن کے نسب سے تھا آپ کی پیدائش بغداد میں ہوئئ۔ اور وہیں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ کثرت عبادت و ریاضت کی وجہ سے جلد ہی ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کو حکم ہوا کشمیر جانے کا اس طرح آپ بغداد سے ہجرت کر کے پہلے ملتان اور پھر کشمیر سرینگر تشریف لائے۔ آپ کے اولاد کشمیر کے دونوں حصوں میں پای جاتی ہے۔ . سیادت سے متعلق جو ترمیم کی گئی تھی وہ درست نہیں تھیں. تاریخ دان خاص کر کے کشمیر کے مشہور ولی بابا داود مشکوءتی کے مطابق آپ کی سیادت تسلیم شدہ ہے.


== شجرہ نسب محمد مسعود الدین نروی سہروردی بغدادی مدفن بمقام نرورہ سرینگر کشمیر

اردو ترجمہ روایت ( بزبان فارسی) محررہ 14 رمضان المبارک 1201ھ جس میں بابا مسود الدین نروری کے شجرہ نسب کے بارے میں مورخوں اور مسند علما کی تحقیق درج ہے۔ شیخ مسعود الدین جب کشمیر تشریف لائے جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ جو مستند علما نے بزبان فارسی سند وراثت خاندان مسعودیہکے بارے میں تحریر فرمائی ہے اور یہ روایت مولانا غلام رسول صاحب میر واعظ کشمیر نے 14 رمضان المبارک 1201ھ میں تحریر فرمائی ہے۔ اس کی تائید و تصدیق مندرجہ ذیل علما ربانی اور بزرگان دین نے فرمائی ہے۔ 1۔ خواجہ محمد حسن صاحب نقشبندی مرحوم مجاور زیارت خواجہ بہاالدین نقشبند خواجہ بازار سرینگر 2۔ میر محمد یاسین صاحب خانیاری مرحوم مجاور و منتظم زیارت دستگیر صاحب خانیار سرینگر 3۔ محمد سلام الدین صاحب مرحوم مجاور و منتظم درگاہ حضرت بل سرینگر

اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع جو سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے

اللہ تعالیٰ کی صحیح حمد اور درود بر ذات مقدس ہاشمی مکی و مدنی ﷺ اور ان کی آل پر اور ان کے تمام برادر انبیا و مرسلین پر صلوٰۃ و تسلیم کے بعد اس بات کی وضاحت کی جاتی ہے کہ تاریخ تحفتہ الاخبار میں نوادر الاسرار فی الحالات الاخیار) سے نقل کیا گیا ہے ک اور انکا شجرہ نسب اس وجہ سے پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے اور وہ یہ ہے :۔ سیدنا علی المرتضے ٰ کے فرزند سیدنا امام عالی مقام امام حسن مجتبے ٰ اور ان کے فرزند سید محمد المعروف امام حسن المثنی اور ان کے فرزند سید عبد اللہ المحسنؓ اور ان کے فرزند سیّد موسیٰ اور ان کے فرزند سید عبد اللہ ثانی اور ان کے فرزند سید موسیٰ ثانی اور ان کے فرزند سید داؤد اور سید داؤد کے چار فرزند تھے۔ پہلے فرزند کا نام سیّد محمد تھا جن کی چھٹی پشت سے سلطان المشائخ شیخ عبد القادر جیلانی ہیں۔ دوسری فرزند کا نام سیّد قاسم تھا جو لاولد تھے۔ سید داؤد کے تیسرے فرزند سید علی تھے ان کی اولاد ماورء النہر میں ہیں۔ سیّد داؤد کے چوتھے فرزند کا نام سید حسین اور انکا بیٹا سیّد احمد اور انکا بیٹا سیّد طاہراور انکا بیٹا سیّد عبد الواسع انکا بیٹا سیّد عباس انکا بیٹا سیّد عبد المجیدانکا بیٹا سیّد نعیم الدین انکا بیٹا سیّد عبد الحلیم انکا بیٹا سیّد عبد الوکیل کو کہ یونان میں پیدا ہوئے۔ بوجہ دلی طلب کہ سیّد عبد الوکیل نے وہاں ہی نشو و نما پائی اور علوم ظاہری و باطنی حاصل کر لیا۔ وہاں سے غلبہ حال کی وجہ سے شہر یونان سے سیرو سیاحت کے لیے باہر آئے اور اپنے آبائی وطن سے اپنی میراث کو ترک کر کے روانہ ہوئے۔ رفتہ رفتہ شہر بلخ میں تشریف لائے۔ وہاں پر کچھ دیر قرار کیا۔ اور مرشد حقانی کی وساطت سے فنا فی اللہ سے بقا باللہ کے درجے میں آئے۔ پھر کچھ دیر بعد ہوش میں آ کر اور کمال و احساس کے آثار ظاہر ہوئے اور کافی دیر وہاں رہے اور اپنا نام سیادت پوشیدہ رکھا اور طلبہ و خلفاء اور شاگردوں کے التجا پر شہر بلخ میں قیام فرمایا اور وہیں سکونت اختیار کی اور جوانی کے عالم میں انھیں حسُن کامل تھا نیز جسمانی طاقت میں بھی اضافہ ہوا۔ علم مزید حاصل کر کے مکمّل عالم ربانی بن گئے۔ شہر بلخ میں ایک عارفہ کاملہ اور مشہور و معروف خدا ترس خاتون کے ساتھ نکاح عمل میں لایا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک نیک فرزند عطا کیا جس کا اسم گرامی محمد قاسمؒ رکھا گیا۔ یہ حضرت اسی شہر بلخ میں حد بلوغت تک پہنچے۔ جوانی میں کامل حسن و جمال اور صحتمندی حاصل ہوئی پھر علم ظاہر و باطنی حاصل کر کے عالم کامل بن گئے۔ شہر بلخ سے شہر بخارا تک آنا جانا جاری رہا۔ اور شہر بخارا میں بارگاہ حضرت خواجہ مشکل کُشاہ خواجہ بہاء الدین نقشبندی ؒ سے کافی فیض حاصل کیا۔ عارف کامل بن گئے اور سیرو سیاحت میں مصروف ہو گئے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ’’ سیروافی الارض‘‘ یعنی زمین میں گھومو۔ بغداد شریف ’’عرفان آباد‘‘ پہنچ گئے اس وقت شہنشاہ بغداد عارفوں کے بادشاہ جناب شیخ سیّد عبد القادر جیلانی اس دنیا فانی سے دارُلبقا رخصت ہو چکے تھے۔ آخر سید محمد قاسم ؒ نے بھی ان کے روضہ مبارک پر قرار کیا اور کافی عرصہ وہاں گزارا۔ وہاں کے فیوض و برکا ت سے مستفید ہو کر بہت بڑے عارف بن گئے اور بغداد شریف میں ہی نکاح عمل میں لایا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے ایک فرزند عطا ہوا۔ اور اس کا نام سیّد جنید ؒ رکھا۔ سیّد جنیدؒ جب بلوغ کی حد کو پہنچے اور علوم ظاہری و باطنی کی تحصیل میں مشغول ہوئے اور اسی شہر بغداد میں سکونت اختیار کی اور وہیں نکاح عمل میں لایا۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک فرزند ارجمند عطا ہوا جس کا نام مبارک ’’ محمد مسعودؒ ‘‘ رکھا گیا۔ بڑے ہو کر محمد مسعود ؒ نے علوم و فنون کے حصول کے لیے کافی کوشش کی اور اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر رہ کر علم و عرفان کا وافر حظ حاصل کیا اور عامل کامل بن گئے۔ اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق بغداد شریف کے ظاہری بادشاہ کو جو حکومت کرتا تھا نے وفات پائی اور اس کا کوئی ولی عہد نہیں تھا۔ تب بغداد شریف کے لوگوں نے جب ’’ محمد مسعودؒ ‘‘ کو عالم، عاقل اور صاحب حسن کامل پایااور اسی کوتخت پر بٹھایا اور اپنا بادشاہ تسلیم کیا اور بغداد شریف کی حکومت اسی کے حوالے کی۔ اور اس زمانے میں بھی سلطنت کے کام بھی کرتے تھے اور عبادت الہیٰ کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اور ہمیشہ عبادت و ریاضت میں مشغول و مصروف رہا کرتے تھے۔ اس زمانے میں سلطان ’’ محمد مسعود‘‘ کو خواب و بیداری کے عالم میں کسی بادشاہ کے آگ میں جلنے کا واقعہ دکھایا گیا تھا۔ اس کو حکم ہوا کہ حکومت ظاہری سے مستعفی ہو جا اور حکومت باطنی کو طلب کر اور ملک کشمیر کی جانب سفر کر۔ اس خطہ کے لوگوں کو فیوض و برکات پہنچانے کیلئ روانہ ہو جا۔ اس پر انھوں نے حکومت کو خیر آباد کیا جیسا کہ سلطان ابراہیم اودھم نے اپنے وقت میں اسی طرح کی بادشاہی چھوڑ دی تھی۔ یہ بھی حکومت سے دستبردار ہو کر کشمیر تشریف لائے۔ ولی کامل تھے اور میر شاہ سیّد احمد کرمانی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ان سے فیوض و برکات حاصل کیے اور ان کے دست مبارک پر بیعت کی۔ حضرت میر شاہ سیّد احمد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ پیار سے اور محبت کو طور پر انھیں ’’بابا‘‘ کہتے تھے اور کبھی خدمت اور ہم نشینی کی وجہ سے ’’انصاری‘‘ بھی کہتے تھے۔ کشمیریوں کی بھی یہ عام عادت ہے کہ معمر بزرگ اور والد صاحب کو تعظیم کے طور پر ’’بابا‘‘ پکارنے کا رواج ہے۔ کشمیریوں میں یہ بھی عادت ہے کہ اپنے خادموں، طالبوں اور بچوں کو ’’بابا‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ سیّد مسعود رحمۃ اللہ علیہ نے بھی کسرِ نفسی کی وجہ سے اپنا نسب سیادت پوشیدہ رکھا اور ’’ بابا مسعود اور مسعود انصاری کے نام سے مشہور ہوئے اور شہر سرینگر کے محلہ نرورہ میں قیام فرمایا۔ اور غذائی حلال کے لیے نرورہ میں ایک قطعۂ اراضی خریدا اور ملیار ’’سبزی اگانے ‘‘ کا پیشہ اختیار فرمایا۔ نیز کشمیر کے لوگوں کو خرقۂ ولایت عنایت فرمایا کرتے تھے۔ چار نکاح بھی عمل میں لائے ان میں سے ایک نکاح خاندان سیادت میں سے تھا جن کے بطن سے دو فرزند بابا یحییٰ اور بابا ابراہیم تولد ہوء۔ بابا یحییٰ کی اولاد خطہ کشمیر علاقہ کھریوشار(اسلام آباد) اور بابا ابراہیم کی اولاد موضع آکھرن علاقہ اسلام آباد میں آبادہیں۔ اور دوسری بیوی جو خاندان ملیار ان نرورہ میں سے تھی اس سے پیدا شُدہ اولاد نرورہ میں سکونت پزیر ہوئے۔ ان کی اولاد آج بھی نرورہ میں آباد ہیں۔ تیسری بیوئی لاولد تھی اور چوتھی بیوئی بادشاہ کشمیر یوسف شاہ چک کی ہمشیرہ تھی۔ اس کے بطن سے دو بیٹے بابا عبد اللہ اور بابامحمد حاجی پیدا ہوئے۔ دونوں بھائی ولی کامل تھے۔ بابا عبد اللہ نے سرینگر محلہ نرورہ قیام کیا۔ بابا محمد حاجی نے پنجاب کا رخ کیا ان کی ذریات پنجاب کے اکثر مقامات لاہور، ملتان، سورت بندر میں آباد ہیں۔ بابا عبد اللہ کے چار فرزندتھے : 1: بابا یعقوب ۔۔ ان کی اولاد موضع ترکہ پورہ علاقہ حمل ( موجودہ علاقۂ رفیع آباد) میں آباد ہیں۔ 2:بابا عبد الرّزاق سوپوری ان کی اولاد سوپور اور پیرنیاں بارہمولہ میں ہیں۔ 3: بابا تقی۔ ان کی اولاد مقام ریگی پورہ (کپوارہ) کشمیر میں ہیں۔ 4: بابا علی کے اولاد سرینگر میں آباد ہیں۔ اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ بنیاد و ابتدا بابا مسعود کے خاندان سادات سے ہیں اور امام حسن کی اولادوں میں سے ہیں۔ اور سیادت کا نام ولایت و معرفت رب کی وجہ سے حاصل ہوا اور اپنی تواضع اور نرمی کی وجہ سے اس کو پوشیدہ رکھا۔ یہ وہ ہے جو کچھ مجھے علم ہے باقی کی خبر اللہ تعالیٰ کو ہے اور انہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ تحریر بتاریخ 14 شہرالرّمضان المبارک 1201ھ

مضمون عبارت صحیح ہے عبارت بالا صحیح ہے دستخط مولوی غلام رسول دستخط خواجہ محمد حسن نقشبندی میر واعظ کشمیر سرینگر سرینگر

اوپر کی عبارت صحیح ہے سطور بالا بالکل صحیح اور درست ہے دستخط میر محمد یاسین خانیاری دستخط محمد سلام الدّین عفی عنہ مجاور منتطم سرینگر حضرت بل سرینگر

اوپر دی گئی تحریر اس فارسی متن کا ترجمہ ہے جو مولوی میر واعظ کشمیر نے فارسی میں تحریر کیا تھا۔ کہیں مورخ بابا مسعود کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوئے جس کی وجہ سے انھوں نے لاعلمی کی وجہ سے ان کا غلط شجرہ تحریر کیا۔ یہ معاملہ آج سے کہیں سو سال پہلے بھی پیش آیا جس کی وجہ سے میر واعظ کشمیر نے یہ تحریر لکھی اور بتایا کہ مورخوں نے ان کے معاملے میں غلطی کی ہے۔ اور ان کی اس تحریر کی اس وقت کے کشمیر کے بڑی بڑی زیارتوں کی گدی نشینوں نے تصدیق کی ہے جن کے نام اوپر دی گئی تحریر میں موجود ہیں۔

حوالہ جات[ترمیم]

 یہ ایک نامکمل مضمون ہے۔ آپ اس میں اضافہ کر کے ویکیپیڈیا کی مدد کر سکتے ہیں۔