عبد النبی شامی نقشبندی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد النبی شامی نقشبندی
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 1619ء
تاریخ وفات 1733ء

عبد النبی شامی نقشبندی (1619ء1733ء) سلسلہ احسنیہ مجددیہ کے جلیل القدر بزرگ تھے۔[1] پنجاب کے ہوشیار پور میں ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مروجہ علوم کی تحصیل مسلمان علما اور صوفیا سے کی اور شاہ عبد الوھاب قادری کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ سید آدم بنوری کے خلیفہ حاجی عبد اللہ سلطان پوری سے بیعت ہوئے اور حاجی محمد طاہر عالمپوری سے خرقۂ خلافت پہنا۔ اپنے علاقہ میں دعوت و تبلیغ کی محنت کی، سیکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اپنے زمانے کے جلیل القدر اور قوی النسبت نقشبندی صوفی تھے۔ سلسلہ احسنیہ مجددیہ کے مطابق تعلیم دینے میں ان کو کمال حاصل تھا۔ ان کے مکاتیب کا مجموعہ بہت مشہور ہے۔ بیشتر مکتوبات تصوف و الہیات کے بارے میں ہیں جن میں اللہ تعالی کی ذات و صفات، جمال و جلال، شاہد و مشہور، غیب و حضور، نور و ظلمت، وحدت الوجود اور وحدت الشہود، جبر و قدر، تقلید و تحقیق، امر بالمعروف و نہی عن المنکر وغیرہ ہیں، ان موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، نیز سلسلہ احسنیہ مجددیہ کے طریقۂ تربیت و سلوک کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

ولادت و قبول اسلام[ترمیم]

عبد النبی شامی نقشبندی کی ولادت 29 رمضان المبارک 1028ھ (اگست 1619ء) کو پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے قصبہ شام چوراسی میں ایک ہندو گھرانے میں ہوئی۔ والد کا نام لالہ دیوان بوہڑہ مل بہل کھتری تھا۔ خاندانی روایات کے مطابق جس روز آپ کی ولادت ہوئی، ان دن آپ نے دودھ نہیں پیا۔[2]

دیوان لالہ بوہڑہ مل محکمہ مالیات میں کاردار تھے اور شام چوراسی سے مالیہ وصول کر کے سرہند میں خزانہ جمع کرانے لے جایا کرتے تھے۔ اولاد نرینہ نہ تھی اس لیے اداس اور مغموم رہتے تھے، ایک بار سرہند پہنچے تو مجدد الف ثانی کی شہرت سنی، لالہ جی ان کے چرن چھونے جا پہنچے، وہاں پہنچے تو اس بزرگ نے بڑی عزت سے بٹھایا اور بشارت دی کہ تمھارے ہاں ایک سال کے بعد لڑکا پیدا ہو گا، ایک سال بعد شیخ عبد النبی شامی کی ولادت ہوئی۔[3] ولادت کے بعد ان کا نام بھوپت رائے رکھا گیا، کچھ ہوش سنبھالا تو والد نے اس زمانے کے دستور کے مطابق پڑھنے کے لیے ایک مکتب میں ڈالا۔ ان کے استاد ایک مسلمان صالح اور متقی بزرگ تھے، ان سے گلستاں بوستاں پڑھنے لگے۔ ایک روز سبق پڑھتے پڑھتے ان اشعار پر پہنچے:

خلاف پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہرگز بمنزل نخواہد رسید
محال است سعدی کہ راہ صفا
تواں رفت جز در پئے مصطفی

(ترجمہ: جو رسول اکرم ﷺ کے راستے کے خلاف چلا وہ ہرگز منزل کو نہ پہنچ سکا، اے سعدیؔ، مصطفی ﷺ کے علاوہ کسی اور کی پیروی میں سلامتی کا راستہ ملنا محال ہے۔)

بھوپت رائے کا دل یہاں اٹک گیا، وہ بار بار استاد سے پوچھتے کہ "راہ صفا" کیا ہے؟ راہ مصطفی کیا ہے؟ ا س کے ساتھ ہی اصرار شروع ہوا کہ اس راستے کی تعلیم دی جائے۔ مولوی صاحب سخت الجھن میں پڑ گئے، وہ مضطرب تھے کہ لالہ بوہڑہ مل اور ان کے اعزہ کا کیا رد عمل ہوگا۔ ادھر بھوپت رائے کے دل میں عشق مصظفی کا چراغ جل چکا تھا، چھوٹی عمر ہی میں بھوپت کی شادی موضوع سر گوبند پور کے ایک بڑے کھتری گھرانے کے فرد لالہ رامان مل کے ہاں ہو چکی تھی۔ لیکن ان کا دل بے قرار تھا، اسی عالم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ پڑھایا اور بھوپت رائے کو عبد النبی بنا لیا۔ اور ان کے استاد کو بھی خواب میں حکم دیا گیا کہ اپنے شاگرد کی خواہش کا احترام کریں اور اس کے نام کی تعلیم دیں جس نے کل جہانوں کو تخلیق کیا ہے۔[4] بھوپت رائے نے شیخ عبد الوھاب قادری کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا اور عبد النبی ہو گئے۔[1]

سلوک و احسان اور دعوت و ارشاد[ترمیم]

سلسلہ احسنیہ مجددیہ کے بانی سید آدم بنوری کے مشہور خلیفہ حاجی عبد اللہ سلطان پوری سے بیعت ہوئے۔ حاجی عبد اللہ نے عبد النبی شامی کو مزید تعلیم اور تربیت کے لیے اپنے خلیفہ حاجی محمد طاہر عالمپوری کے سپرد کیا۔ عالمپوری کے یہاں ایک مدت تک وہ ٹھہرے اور ذکر و اشغال میں لگے رہے۔ ان سے خرقۂ خلافت پہننے کے بعد اپنی بستی واپس آئے۔ اور دعوت و تبلیغ اور ارشاد و تربیت کا کام شروع کر دیا۔ ان کی دعوت و تبلیغ اور سعی پیہم کے نیتجہ میں ہزاروں لوگوں نے اسلام قبول کیا۔[5] ان کے سوانح نگاروں نے بہت سی کرامتیں ان سے منسوب کی ہیں، لیکن ان کی سب سے بڑی کرامت خود ان کی شخصیت تھی۔ جو ان کے پاس آتا، ان کا ہو جاتا۔ ہزاروں افراد ان کے حلقہ میں شام ہوئے، سینکڑوں کو باقاعدہ تربیت دی، سینکڑوں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔

عبد الحی حسنی نے "الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام" میں لکھا ہے:

شیخ عبد النبی نقشبندی اپنے زمانے کے قوی النسبت بزرگ تھے۔ ان کی ولایت اور جلالت شان پر اس زمانے کے بزرگوں کا اتفاق ہے۔ سلسلہ احسنیہ نقشبندیہ میں سالکان طریقت کی تعلیم و تربیت میں انہیں کمال حاصل تھا۔ وہ جلیل القدر رہنمائے طریقت تھے۔ اپنے مریدوں کو راہ سلوک کی منزلیں طے کرا کے ابتدا میں ہی معرفت کے اعلی مدارج پر پہنچا دیتے تھے۔[1]

تصانیف[ترمیم]

عبد النبی کی تصنیفات میں "شرح فصوص الحکم" اور مکتوبات کا ایک مجموعہ "مجموعۃ الاسرار" ہے جو لاہور سے طبع ہو چکا ہے۔[6]

شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتاب "الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ" میں سلسلہ احسنیہ مجددیہ کی تفصیل کے بیان میں ان کا ایک مکتوب نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

اب قدرے طریقۂ احسنیہ کے سلوک کے انداز تربیت کا ذکر کیا جاتا ہے، طریقۂ احسنیہ شیخ آدم بنوری کی طرف منسوب ہے، اس طریقہ کی وضاحت شیخ عبد النبی شام چوراسی والوں کے ایک مکتوب میں وضاحت سے آ گئی ہے، آپ اپنے دور میں طریقۂ احسنیہ کے مقتدی تھے اور اس سلسلے کے تمام لوگوں کو عام ہوں یا خاص آپ کی طرف خصوصی توجہ تھی، تمام اہل سلسلہ اس پر متفق ہیں کہ شیخ عبد النبی کو اس سلسلے کے ضمن میں سالکوں کی تربیت و تعلیم کا خصوصی ملکہ حاصل تھا۔[7]

مکتوبات[ترمیم]

ان کے مکاتیب کا مجموعہ "مجموعۃ الاسرار" شاہ نفیس الحسینی نفیس رقم کے پیش لفظ کے ساتھ شائع ہو چکا ہے۔ یہ مکاتیب انھوں نے اپنے عقیدت مندوں، خدام اور عام لوگوں کو لکھے ہیں۔ اپنے مکتوبات کے ذریعہ انھوں نے مختلف مسائل کی تفہیم کی اور ہر قسم کی بدعت و ضلالت کے خلاف جہاد کیا۔ ان کا دور وہ دور تھا جس میں اسلام کی سادگی اور حقانیت نیز سیاسی غلبہ سے متاثر ہو کر ہند بہت بڑی تعداد میں اسلام قبول کر رہے تھے اور اس کی تعلیمات کو قبول کر رہے تھے لیکن مناسب تربیت نہ ہوپانے کی وجہ سے ہندوئیت کے اثرات سے ابھی چھٹکارا نہ پا سکے تھے۔ چنانچہ انھوں نے خالص توحید کی تبلیغ کی اور شرک کی ہر صورت کو مذموم ٹھہرایا۔ بیشتر مکتوبات تصوف و الہیات کے بارے میں ہیں جن میں اللہ تعالی کی ذات و صفات، جمال و جلال، شاہد و مشہور، غیب و حضور، نور و ظلمت، وحدت الوجود اور وحدت الشہود، جبر و قدر، تقلید و تحقیق، امر بالمععروف و نہی عن المنکر وغیرہ ہیں، ان موضوعات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے، نیز سلسلہ احسنیہ مجددیہ کے طریقۂ تربیت و سلوک کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

وفات[ترمیم]

طویل عمر گزارنے کے بعد 22 ربیع الاول 1146ھ ( اگست 1733ء) میں وفات ہوئی۔[8] عبد النبی شامی کا مزار شام چوراسی میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ عبد الحي الحسني: الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام، الجزء السادس، دار ابن حزم، بيروت، 1999م: صفحة 758
  2. مجموعۃ الاسرار مکتوبات شریف حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی، اشاعت: لاہور، اپریل 1986ء، صفحہ 7۔
  3. مجموعۃ الاسرار مکتوبات شریف حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی، اشاعت: لاہور، اپریل 1986ء، صفحہ 8۔
  4. مجموعۃ الاسرار مکتوبات شریف حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی، اشاعت: لاہور، اپریل 1986ء، صفحہ 9-10۔
  5. مجموعۃ الاسرار مکتوبات شریف حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی، اشاعت: لاہور، اپریل 1986ء، صفحہ 11۔
  6. مجموعۃ الاسرار – مکاتیب حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ | الإمام أحمد بن عرفان الشهيد Sayyid Ahmad Shaheed
  7. شاہ ولی اللہ دہلوی: الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ، ترجمہ سید محمد فاروق القادری، اشاعت: اویسی بک اسٹال، گوجرانوالہ، صفحہ 145۔
  8. مجموعۃ الاسرار مکتوبات شریف حضرت شیخ عبد النبی شامی نقشبندی، اشاعت: لاہور، اپریل 1986ء، صفحہ 13۔

بیرونی روابط[ترمیم]

مجموعۃ الاسرار مکتوبات شیخ عبد النبی شامی نقشبندی