خواجہ احمد میروی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

خواجہ احمد میروی انیسویں صدی کے میرا شریف تحصیل پنڈی گھیب ضلع اٹک کے چشتی بزرگ ہیں۔[1][2]

ولادت[ترمیم]

خواجہ احمد میروی 1826ء بمطابق 1242ھ ڈیرہ غازی خان میں محمدبرخوردار کھوکھر کے ہاں پیدا ہوئے۔

آبا ؤ اجداد[ترمیم]

ان کے بزرگ دو آبہ رچنا دریائے چناب کے کنارے آباد تھے سکھا شاہی کے ظلم کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان سکونت اختیار کی ان کے والد محمد برخوردار کھوکھر بڑے پارسا اور عابد انسان تھے خواجہ محمد سلیمان تونسوی کے مرید تھے ابھی خواجہ احمد میروی 10 سال کے تھے اور اکثر و بیشتر آستانہ مرشد پر حاضری دینے جایا کرتے تھے۔ ایک بار حسب معمول تونسہ شریف سے واپس جا رہے تھے کہ منگروٹھا کے مقام پر انتقال ہو گیا اور وہیں سپرد خاک ہوئے۔ یہاں پر مسجد بلوچ خان میں ان کا مزار ہے۔

حالات زندگی[ترمیم]

اپنے والد کی وفات کے بعد ماموں علی خان نے آپ کی تربیت و کفالت کا ذمہ لیا،علی خان بھی خواجہ سلیمان تونسوی کے مرید تھے اس لیے خواجہ میروی کو ان کے آستانہ میں داخل کرا دیا۔ آپ 9 سال تک علوم متداولہ کی تحصیل میں مصروف رہے۔ وہاں سے فارغ ہو کر ملتان تشریف لے گئے لیکن جلدی ہی کلور کوٹ تحصیل عیسیٰ خیل میں مولوی مملوک علی کے سامنے زانوئے تلمذتر کیا۔ تکمیل علم کے بعد آپ سیروسیاحت کے لیے نکل گئے اور سات سال تک کشمیر اجمیر ،پاکپتن شریف،لاہور ،ملتان،دہلی اور کلیر شریف سے ہوتے ہوئے تونسہ شریف آ گئے اور بیعت ہوتے ہی خلافت عالیہ سے مشرف ہوئے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ خواجہ تونسوی کا انتقال ہو گیا ان کی وفات کے بعد آپ وہیں مقیم رہے اور خواجہ اللہ بخش تونسوی،مولانا احمد تونسوی اور خواجہ محمد فاضل شاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتساب فیض کرتے رہے۔ 1882ءکے قریب میرا ڈھوک میں ایک چھوٹی سی مسجد میں آئے میرا جو تحصیل پنڈی گھیپ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے سکونت اختیار کی ان کی آمد سے یہ بستی ڈھوک میرا سے میرا شریف بن گئی کچھ ہی مدت بعد مکھڈ شریف میں مولانا محمد علی مکھڈوی کے سالانہ عرس کے موقع پر مولانا محمد فاضل شاہ نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا۔ اجازت و خلافت کے بعد آپ میرا شریف تشریف لے گئے اور وہاں مسجدومدرسہ کی بنیاد رکھی۔ آپ حق پرست و حق گو انسان تھے انگریزی حکومت کے زبردست دشمن تھے۔ سادگی آپ کا شعار تھا۔ توکل علی اللہ،بے نیازی،قناعت اور صبر ورضا مرشد سے ورثے میں ملی تھیں۔ آپ کے دروازے ہر شاہ گدا کے لیے کھلے تھے۔

وفات[ترمیم]

آپ کی انگلی پر پھوڑا نکلا بالآخر یہ مرض جان لیوا ثابت ہوا۔ 27 دسمبر 1911ء بمطابق5 محرم الحرام 1330ھ آپ نے انتقال فرمایا۔ اور میرا شریف میں آپ کا مزار ہے۔[3]

خلفاء[ترمیم]

خواجہ احمد میروی کی شخصیت مرجع خاص تھی۔ آپ سے ان گنت افراد شرفت بیعت سے مشرف ہوئے اور ان میں سے کثیر تعداد ان حضرات کی ہے جو صاحب کمال بنے اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ آپ کے مشہور خلفاء کے نام یہ ہیں۔

  1. خواجہ احمد خان میروی (سجادہ نشین میرا شریف)
  2. مولانا حافظ فضل کریم (مہتم مدرسہ اسلامیہ اشاعت العلوم چکوال)
  3. مولا نور محمد (چکڑالہ)
  4. مولانا محمد اکبر علی (میانوالی)
  5. الحاج میاں مہر (پشاور)
  6. احمد دین (بمبئی)
  7. شاه محمد حسین (جھنگ)
  8. مولانا محبوب الرحمن (ملتان)
  9. مولانا غلام جیلانی (میانوالی)
  10. سید محمود شاہ (کراچی)
  11. سید فیض اللہ شاہ (چھبر شریف ضلع جہلم)
  12. لعل شاہ
  13. خواجہ امیر احمد بسالوی (جنڈ ضلع اٹک)
  14. مولانا فخر الدین بیربلوی (بیربل شریف ضلع خوشاب)
  15. سید عنایت الله شاه (چھبر شریف ضلع جہلم) [4]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. روضہ خواجہ احمد میروی
  2. ملفوظاتِ خواجہ احمد میروی
  3. اردو دائرہ معارف اسلامیہ جلد 21 صفحہ954،جامعہ پنجاب لاہور
  4. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 474