باب:واقعہ کربلا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حسین منی و انا من الحسین
خداوند نے فرات کے کنارے اک ذبحِ عظیم مقرر کر رکھی ہے ۔ توریت ، کتاب یرمیاہ 46:10
ترمیم
 Icône تعارف

سانحۂ کربلا یا واقعہ کربلا یا کربلا کی جنگ 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر، 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں مشہور عام تاریخ کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول لعین کی بھیجی گئی فوج نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حسین ابن علی اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علی کے ساتھ 72 ساتھی، کچھ غلام، 22 اہل بیت کے جوان اور خاندان نبوی کی کچھ خواتین و بچے شامل تھے۔

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت حسن بن علی سے معاویہ بن ابو سفیان نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر معاویہ بن ابو سفیان نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونکہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا۔ لہذا ان کے لیے معاویہ بن ابو سفیان کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا ۔ امام حسین عليہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیر و شکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام عالی مقام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔

یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عتبہ کی وساطت سے امام حسین عليہ السلام سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین عليہ السلام نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب امام حسین عليہ السلام مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین عليہ السلام کا ساتھ نہ دیا۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین عليہ السلام کو ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا۔

ولید بن عتبہ نے امام حسین عليہ السلام اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا۔ ابھی تک امیر معاویہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا۔ امام حسین عليہ السلام سے جب بیعت کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا ۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین عليہ السلام عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا۔ لٰہذا وہ 27 رجب 60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

ترمیم
 Icône منتخب مقالہ

حسین ابن علی (امام حسین) محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ 'حسین' نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسین منی و انا من الحسین یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی۔ اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے، بیٹے کو گود میں لیا، داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دی۔ پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا۔ ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی، مگر آنے والے حالات کا علم پیغمبر کو تھا، اس لئے آپ کی آنکھوں میں آنسو برس پڑا۔ اور اسی وقت سے حسین کے مصائب کا چرچا اہلیبت ُ رسول کی زبانوں پر آنے لگا۔

پیغمبرِ اسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کا گہوارہ تھی اب دن بھر دو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبرِ اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔

جیسا کہ حضرت امام حسن کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے . سینہ پر بیٹھاتے تھے . کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے .ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت ُ مبارک پراگئے تو سجدہ میں طول دیا . یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہوگیا .اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ »دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو « رسول نے حسین کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ »حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں,, مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دُنیا میں حسین کی بدولت قائم رہیگا .

امام حسین کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب کی خانہ نشینی کادور ہے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے . یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا .35ھ میں جب حسین کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی ابن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین کی زندگی کے اخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیں ہوئی اور امام حسین ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے .40ھ میں جناب امیر مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن کے سپرد ہوئیں جو حضرت امام حسین کے بڑے بھائی تھے .حسین نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن کاساتھ دیااور جب امام حسن نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کرلی تھی تو امام حسین بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے مگر معاویہ بن ابو سفیان نے ان شرائط کو جو امام حسن کے ساتھ ہوئے تھے بالکل پورا نہ کیا خود امام حسن کو سازش ہی سے زہر دیا گیا- حضرت علی بن ابی طالب کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا- سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر اس شرط کے بالکل خلاف کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ہو گا۔ معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے ليے ولی عہد بنا دیا اور تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا-

محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون، ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مورخین نےلکھا ہے کہ ابن زیاد نے خاندان رسالت کوکربلا میں قتل کیااور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا ۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔

ترمیم
 Icône حديث نبوی
  • ابن عساکر نے حسین ابن علی سے روایت کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کأنی أنظر إلی کلب أبقع يلغ فی دماء اهل بيتی ۔۔۔ گویا کہ میں ایک سفید داغوں والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے۔ (کنز العمال، حدیث : 34322) محمد بن عمرو بن حسین بیان کرتے ہیں :کنا مع الحسين بنهر کربلا فنظر إلي شمر ذي الجوشن فقال : صدق اﷲ ورسوله! فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم کائي أنظر : إلي کلب أبقع يلغ في دماء أهل بيتي و کان شمر أبرصہم یعنی امام حسین کے ساتھ کربلا کے دریا پر موجود تھے تو آپ نے شمر کے سینے کی طرف دیکھا اور فرمایا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سچ فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ گویا میں اس سفید داغوں والے کتے کی طرف دیکھ رہا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ مار رہا ہے اور شمر برص کے داغوں والا تھا۔(کنز العمال فضائل اهل بي، قتل حسين، 13) چنانچہ حسین ابن علی نے نشانی دیکھ کر فرمایا ہاں یہ بدبختی تیرا ہی مقدر ہے، وہ بدبخت آگے بڑھا اور سر کو تن سے جدا کر دیا۔
  • سلیمان ابن احمد ابن الطبرانی نے زہری سے روایت کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔لما قتل الحسين بن علی لم يرفع حجر بيت المقدس الا وجد تحته دم عبيط. یعنی جب حسین بن علی کو شہید کردیا گیا تو بیت المقدس کا جو پتھر بھی اٹھایا جاتا اس کے نیچے تازہ خون پایا گیا۔(معجم الکبير، 3، حدیث : 28347)۔ امام طبرانی نے امام زہری سے ایک اور روایت بھی نقل کی ہے۔ انہوں نے کہا! مارفع حجر بالشام يوم قتل الحسين بن علی الاعن دمشہادت یعنی حسین ابن علی کے دن شام میں جو بھی پتھر اٹھایا جاتا تو وہ خون آلود ہوتا (معجم الکبير، حدیث : 2835 اورمجمع الزوائد، 9 : 194)
ترمیم
 Icône زمرہ جات
ترمیم
 Icône منتخب تصویر

کربلا میں امام حسین علیہ کا روضہ مبارک 2006 میں

ترمیم
 Icône آپ کیا کرسکتے ہیں؟
ترمیم
 Icône اقتباس

امام حسین عليہ السلام نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا ۔ جس میں اپنےمقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا:

لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے
ترمیم
 Icône کیا آپ جانتے ہیں؟

امام حسین کا قیام، ـ یزید کی بیعت کے انکار سے عاشور کے دن آپ کی شہادت تک ـ 175 دن تک جاری رہا:

اگر سفر اسراء اور قیام شام نیز 20 صفر61 ھ تک واپس کربلا آمد کے مجموعی کم از کم 40 دن اور واپس مدینہ پہونچنے کے 20 ایام اضافہ کئے جائیں تو قافلہ حسینی کا کل سفر کم از کم 235 دن سے زیادہ کا ہو گا۔

امام حسین نے مکہ سے کوفہ تک 18 منزلیں طے کیں۔ ایک منزل یا منزلگاہ سے دوسری منزل تک کا فاصلہ 3 فرسخ (= 18.72 کلومیٹر) تھا۔


شہدائے کربلا میں سے 8 شہیدوں کی مائیں کربلا میں تھیں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے لخت جگر مظلومانہ شہید کیے گئے:

ترمیم
 Icône عاشورہ

عاشور اور عاشورہ اور عاشوراء علمائے لغت کے مشہور قول کے مطابق دس محرم کو کہا جاتا ہے۔ بعض علمائے لغت کا کہنا ہے کہ لفظ عاشورہ لفظ عاشور کا معرب ہے اور عاشورا ایک عبرانی لفظ ہے۔ عبرانی میں لفظ عاشورا (یہودی مہینے) ماہ " تشْری" کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے۔عاشورہ، محرم کا دسواں دن ہے، (وہ دن جب حسین ابن علی شہید ہوئے تھے۔)

ترمیم
 Icône واقعات

حسین بن علی سے بیعت کے مطالبہ کے بعد قافلہ حسینی کی مدینہ سے روانگی سے شروع ہو کر قافلہ حسینی کی واپس مدینہ آمد تک کے واقعات ۔

سنہ 60 ھ

تاریخ واقعہ
15 رجب معاویہ بن ابی سفیان کی موت۔
28 رجب سنہ 60 (ہفتہ کی شب) امام حسین علیہ السلام کی حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکہ روانگی۔
3 شعبان (شب جمعہ) امام حسین علیہ السلام کا مکہ میں داخلہ۔
10 رمضان عبد اللہ بن مسمع ہمدانی اور عبد اللہ بن وال کے توسط سے امام حسین(ع) کے لئے کوفیوں کے پہلے خطوط کی وصولی۔
12 رمضان قیس بن مُسْهِر صَیداوی، عبد الرحمٰن بن عبد اللہ ارحبی اور عمارہ بن عبد سلولی کے توسط سے امام حسین علیہ السلام کو 150 خطوط کی وصولی۔
14 رمضان ہانی بن ہانی سبیعی اور سعید بن عبد اللہ حنفی کے توسط سے کوفہ کے عمائدین کے خطوط کی وصولی۔
15 رمضان مسلم بن عقیل کی مکہ سے ایلچی کے فرض کی انجام دہی کے لئے کوفہ کی جانب روانگی۔
5 شوال حضرت مسلم کا کوفہ میں داخلہ۔
8 ذوالحجہ (منگل) امام حسین علیہ السلام کی حج کو عمرہ می بدل کر مکہ سے روانگی۔
8 ذوالحجہ کوفہ میں مسلم بن عقیل کا قیام۔
9 ذوالحجہ حضرت مسلم کی شہادت۔

سنہ 61 ه‍

تاریخ واقعہ
2 محرم امام حسین علیہ السلام کا کربلائے معلی میں داخلہ۔
3 محرم عمر بن سعد کی 4000 کے لشکر کے ساتھ کربلائے معلی آمد۔
6 محرم حبیب بن مظاہر کی قبیلۂ بنی اسد سے امام حسین علیہ السلام کی نصرت کی درخواست اور اس دعوت پر ان کا انکار۔
7 محرم امام حسین علیہ السلام اور اصحاب و انصار پر پانی کی بندش۔
9 محرم تاسوعا اور کربلا میں شمر بن ذی الجوشن کی آمد۔
9 محرم عمر بن سعد کا امام علیه السلام کو اعلان جنگ اور آپ(ع) کی طرف سے مہلت کی درخواست۔
10 محرم واقعہ عاشورہ اور شہادت امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام و اصحاب کی شہادت۔
11 محرم اسیران اہل بیت(ع) کی کوفہ روانگی۔
11 محرم (غاضریہ کے بنو اسد کے ہاتھوں شہداء کی تدفین) ۔
1 صفر اہل بیت علیہم السلام اور امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کا شام میں داخلہ۔
20 صفر اربعین حسینی اور اہل بیت علیہم السلام کا کوفہ میں دوبارہ آمد۔
20 صفر اہل بیت علیہم السلام کی شام سے مدینہ روانگی (بعض اقوال کے مطابق)۔
ترمیم
 Icône فہرست شہداء کربلا

' بنی ہاشم '

شہدائے کربلا میں بنی ہاشم کے سب شہداء حضرت ابوطالب کے ہی بیٹے، پوتے اور پڑپوتے تھے۔

حسین بن علی کے اصحاب :

الف۔

ب۔

ج۔

ح۔

ر۔

ز۔

س۔

ش۔

ض۔

ع۔

ق۔

ک۔

م۔

ن۔

و۔

ہ۔

ی۔

اگر بنی ہاشم کے شہدا کو ملا کر شمار کیا جائے تو شہدائے کربلا کی تعداد 136 ہو جائے گی۔ اور اگر قیس بن مسہر صیداوی، عبد الله بن بقطر اور ہانی بن عروہ جو واقعہ کربلا سے پہلے کوفہ میں شہید کیے گئے تھے کو بھی اس واقعہ سے مربوط کر کے شمار کیا جائے تو کل تعداد 139 ہو گی۔
نوٹ

یہ 140 ناموں کی فہرست ہے بعض کتب 108 نام اور بعض میں کم یا زیادہ نام ملتے ہیں۔ اس فہرست میں بنی ہاشم (کے 25 سے زیادہ شہدا) اور غلاموں (30 کے قریب) نیز دیگران (جیسے یوم عاشورہ سے پہلے کے شہداء وغیرہ یا دشمنوں کے لشکر سے آنے والے شہداء 10 کے قریب) کو شمار نہ کیا جائے تو مشہور تعداد 72 کے قریب ہی بنتی ہے۔

ترمیم
 Icône دیگر معلوماتی صفحات
ترمیم
 Icône متعلقہ ابواب
ترمیم
 Icône ویکیمیڈیا منصوبہ جات میں