مسجد شہید گنج

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسجد شہید گنج
Shaheed Ganj Mosque
بنیادی معلومات
مذہبی انتساباسلام
ملکپاکستان
تعمیراتی تفصیلات
نوعیتِ تعمیرہند اسلامی طرز تعمیر
سنہ تکمیل1753

مقام[ترمیم]

مسجد شہید گنج نولکھا بازار، لاہور، پنجاب، پاکستان میں واقع ہے۔

پرانا نام[ترمیم]

اس کا نام پہلے عبد اللہ خان مسجد تھا۔

تعمیر[ترمیم]

یہ مسجد مغل شہنشاہ شاہجہان کے دور میں تعمیر ہوئی تھی جسے عبد اللہ خان جو شہزادہ داراشکوہ کا باورچی تھا اور بعد میں لاہور کا کوتوال بنا، نے 1653ء میں تعمیر کروائی۔[1]

المناک واقعہ[ترمیم]

1935ء کے مسجد شہید گنج کے المناک واقعے نے لاہور کی سیاسی فضا میں ایک زبردست ہیجان پیدا کر دیا اور لاہور میں فرقہ وار کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچ گئی تاریخ دان مانتے ہیں کہ اسی مسجد شہید گنج واقعہ کے بعد پاکستان بنانے کی بات چلی اور تحریک پاکستان کی بنیادوں میں اولین انہی شہداء مسجد شہید گنج کا خون ہے۔

تنازع[ترمیم]

مسجد شہید گنج مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان میں ایک متنازع فیہ مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ یہ مسجد 1653ء میں داراشکوہ کے خانِ ساماں عبد اللہ خاں نے تعمیر کروائی تھی۔ پنجاب کے گورنر معین الملک نے سکھوں کی ایک برگزیدہ ہستی تاروسنگھ کو یہاں قتل کروا دیا تھا چنانچہ سکھوں نے اپنے عہد حکومت میں اس جگہ کو شہید گنج کا نام دے کر اسے ایک گردوارا میں تبدیل کر دیا اور معین الملک کا مقبرہ مسمار کر کے اس کی نعش کو ضائع کر دیا۔

سکھوں کی جارحیت[ترمیم]

جون 1935ء میں جب سکھوں کے جتھے لاہور آنے لگے تو یکایک یہ افواہ پھیل گئی کہ وہ مسجد کو شہید کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر دونوں قوموں میں زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی۔ ادھر جب سکھوں نے مسجد کو گرانا شروع کر دیا تو مسلمان بھی مسجد کا رخ کرنے لگے اور یوں پولیس سے تصادم کے نتیجے میں بہت سے مسلمان شہید ہو گئے۔

قائد اعظم کا کردار[ترمیم]

ان نازک حالات میں جب کہ دونوں قوموں کے درمیان میں کشیدگی اور فرقہ وار منافرت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، قائد اعظم لاہور تشریف لائے اور سکھوں اور مسلمانوں میں پیدا شدہ کشیدگی کو ختم کرانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ قائد اعظم نے لاہور میں پنجاب کے گورنر سے ملاقات کی اور اس سے مسلمان گرفتار شدگان کی رہائی اور مسلم اخبارات کی ضمانتوں کے متعلق گفتگو کی جس میں آپؒ بالآخر کامیاب ہوئے۔ آپؒ نے سکھ لیڈروں سے ملاقاتیں کیں۔ مختلف جلسوں سے خطاب کیا۔ دہلی واپس جانے سے قبل شہید گنج مصالحتی بورڈ کے نام سے ایک کمیٹی قائم کی جس میں علامہ اقبال بھی شامل تھے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ قائد اعظم کی ان کوششوں کو نہ صرف پنجاب بلکہ تمام ہندوستان میں خوب سراہا گیا۔

اخبارات کا قائد اعظم کو خراج تحسین[ترمیم]

ہندوستان کے تمام اخبارات نے قائد اعظم کو ان کی اس سعی پر مبارک باد دی۔ ان اخبارات میں روزنامہ الجمعیتہ (دہلی)، روزنامہ عصر جدید (کلکتہ)، روزنامہ زمیندار (لاہور) اور پیسہ اخبار (لاہور) شامل تھے۔

عدالتی کارروائی[ترمیم]

ادھر شہید گنج سے متعلق مقدمہ عدالت میں بھی چل رہا تھا۔ ڈسٹرکٹ جج کی عدالت سے فیصلہ مسلمانوں کے خلاف ہوا۔ چنانچہ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی رائے یہ تھی کہ قائد اعظم ہائی کورٹ میں مسلمانوں کی طرف سے اس مقدمے کی پیروی کریں۔ چنانچہ اس سلسلے میں علامہ اقبالؒ نے قائد اعظمؒ کو پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری غلام رسول خان سے ایک خط لکھوایا۔ اس خط میں علامہؒ نے قائد اعظمؒ سے درخواست کی کہ وہ خود لاہور تشریف لائیں تاکہ بقول اقبالؒ ’’اس عمارت کی آخری اینٹ آپ کے مضبوط ہاتھوں سے رکھی جائے۔‘‘ علامہؒ نے قائد اعظمؒ کو یقین دلایا کہ ان کے پنجاب آنے سے نہ صرف پنجاب بلکہ تمام ہندوستان کے مسلمان ان کے ممنون ہوں گے۔ ساتھ ہی علامہ اقبال نے یہ بھی لکھوایا کہ ’’آپ کی تشریف آوری سے صوبے میں مسلم لیگ کی تحریک میں نئی جان پڑ جائے گی۔‘‘ ملک برکت علی اور عاشق حسین بٹالوی اس سلسلے میں قائد اعظم سے ملنے کے لیے بمبئی گئے مگر قائد اعظم نے انھیں مشورہ دیا کہ ان کی بجائے ایک انگریز بیرسٹر کولٹ مین کی خدمات حاصل کی جائیں۔ کیونکہ اس جھگڑے میں پہلے وہ ایک ثالث کی حیثیت سے لاہور گئے تھے اور اب ایک فریق کی حیثیت سے ان کا جانا مناسب نہیں۔بہرحال اس واقعے نے بھی دونوں زعما کو اور زیادہ قریب آنے میں مدد دی۔

سیاست پر اثرات[ترمیم]

بعد میں مسجد شہید گنج کے قضیہ نے ہندوستانی سیاست پر بھی اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل نے اس مسئلے کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر مسلم لیگ کا ایک خصوصی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اس مسئلے پر غور و خوض کیا جائے۔ چنانچہ 2 مارچ 1938ء کو قائد اعظم نے علامہ اقبال کو مندرجہ ذیل خط لکھا: ہیسٹنگز روڈ نئی دہلی ڈیئر سرمحمد اقبال اطلاعاً عرض ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس ماہِ رواں کی 20 تاریخ کو دہلی میں منعقد ہو رہا ہے۔ ان اہم امور میں سے جن میں اس اجلاس میں غور کیا جائے گا ایک یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ کے خاص اجلاس کے لیے مناسب مقام کا فیصلہ کیا جائے۔ اس لیے مجھے یہ معلوم کرنے کی بے حد خواہش ہے کہ آیا آپ یہ اجلاس لاہور میں بلانا پسند کرتے ہیں یا نہیں۔ اگر آپ کا جواب اثبات میں ہے تو کیا پراونشل مسلم لیگ خاص اجلاس کے لیے ضروری انتظامات کر سکے گی۔ بصورت اثبات آپ مجھے ایک رسمی دعوت نامہ ارسال فرمائیں تاکہ میں اسے کونسل کے سامنے پیش کر سکوں۔ علامہ اقبال نے 7 مارچ 1938ء کو اس خط کا جواب غلام رسول خاں سے لکھوا کر قائد اعظم کو ارسال کیا۔ علامہؒ نے اس خط میں لکھا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ایسٹر کی تعطیلات میں لاہور ہی میں منعقد کیا جائے اور اس خط کو رسمی دعوت نامہ تصور کیا جائے۔قائد اعظمؒ کو پنجاب کی سیاسی صورتِ حال سے مطلع کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ نے لکھا کہ ’’شہید گنج کا مسئلہ اب پریوی کونسل میں پیش کیا جائے گا لیکن لوگوں کو اس سے زیادہ دلچسپی نہیں رہی کیونکہ لوگوں کا خیال ہے کہ کسی بھی برطانوی عدالت کی طرف رجوع کرنا بے سود ہے۔‘‘ قائد اعظمؒ کو اس امر سے بھی مطلع کیا گیا کہ پنجاب کے مسلمان بہت بے تابی سے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس خصوصی کے منتظر ہیں اور پنجاب مسلم لیگ اجلاس خصوصی کے لیے تمام ضروری انتظامات کرنے کی ذمہ داری لینے کو تیا رہے۔لیکن پنجاب مسلم لیگ کے صدر شاہنواز خان ممدوٹ نے جو دراصل سرسکندر حیات کے آدمی تھے، قائد اعظمؒ کو ایک خط میں یہ لکھا کہ یہ بات مسلم لیگ اور شہید گنج تحریک کے مفاد میں ہوگی کہ مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں منعقد نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور علامہ اقبال کی یہ آرزو پوری نہ ہو سکی۔

ظفر علی خان کا کردار[ترمیم]

مولانا ظفرعلی خان نے شہید گنج مسجد کوگردوارہ بنانے کے خلاف نیلی پوش تحریک چلائی اور اپنی شاعری کےذریعے اس المناک واقعہ پر شدید تنقید کی۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Shaheed Ganj Dispute and 'Amir-i-Mi!Iat'"۔ 28 ستمبر 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2016 

بیرونی روابط[ترمیم]