صارف:Syedalinaqinaqvi/تختہ مشق 1

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

دنیا کے خطرناک ترین جانور[ترمیم]

ہر سال تقریباً سات لاکھ 25 ہزار افراد مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں

مچھر

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر سال تقریباً سات لاکھ 25 ہزار افراد مچھر سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوتے ہیں۔ صرف ملیریا 20 کروڑ افراد کو متاثر کرتا ہے جن میں سے اندازاً چھ لاکھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ مچھر ڈینگی بخار، زرد بخار اور دماغ کی سوزش کا باعث بھی بنتے ہیں۔

سانپ

ایک اندازے کے مطابق سانپ سالانہ 50 ہزار افراد کی موت کا سبب بنتے ہیں۔ دنیا کا سب سے زہریلا سانپ انلینڈ ٹائیپن ہے جو ویسٹرن ٹائیپن بھی کہلاتا ہے۔ اس کے زہر سے انسان کی 45 منٹ کے اندر موت واقع ہو سکتی ہے۔ انلینڈ ٹائیپن کے ڈسے ہوئے 80 فیصد افراد کی موت ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ سب سے بڑا قاتل نہیں کیونکہ یہ انسانوں کو شاذ و نازر ہی کاٹتا ہے۔

انلینڈ ٹائیپن کے ڈسے ہوئے 80 فیصد افراد کی موت ہوجاتی ہے

سئے کے کانٹوں جیسی جلد والے سانپ کو ’سا سکیل وائپر‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا شمار دس زہریلے ترین سانپوں میں نہیں ہوتا اور اس کے کاٹے ہوئے صرف دس فیصد افراد کی موت ہوتی ہے۔ لیکن سے آباد علاقوں کے قریب رہتا ہے اور بہت تیزی سے کاٹتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق سا سکیل وائپر سے سالانہ پانچ ہزار افراد کی موت ہوتی ہے، جو کسی بھی دوسرے قسم کے سانپ کے کاٹنے سے ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ تعداد ہے۔

انلینڈ ٹائیپن کا آبائی گھر وسطی آسٹریلیا ہے جبکہ سا سکیل وائپر پاکستان، انڈیا، سری لنکا، مشرق وسطی کے کچھ حصوں اور افریقہ میں بھی پایا جاتا ہے۔ کریٹ نسل کے سانپوں کے شمار بھی دنیا کے خطرناک ترین جانوروں میں ہوتا ہے جو مشرقی ایشیا میں پائے جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق 55 ہزار انڈیا میں سالانہ 20 ہزار اموات باؤلے کتوں کے کانٹے سے ہوتی ہیں

کتے

انسان کے سب سے اچھے دوست؟ شاید، لیکن انسانیت کے نہیں۔ ایک اندازے کے مطابق باؤلے کتے سالانہ 25 ہزار افراد کی موت کا باعث بنتے ہیں۔

وہ ممالک جہاں آوارہ کتوں کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے بشمول انڈیا، سب سے زیادہ متاثرہ ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 55 ہزار سالانہ اموات میں 20 ہزار اموات باؤلے کتوں کے کاٹنے سے انڈیا میں ہوتی ہیں، جن میں بیشتر نشانہ بچے بنتے ہیں جو متاثرہ کتوں کی زد میں آتے ہیں۔

محض کتے کے کاٹنے سے بہت کم اموات ہوتی ہیں۔ اس بارے میں مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں سالانہ 45 لاکھ کتے کاٹتے ہیں اور ان میں 30 فیصد افراد کی موت ہوتی ہے۔


یہ مکھی اپنے لمبے ڈنگ سے جانوروں اور انسانوں کا خون چوستی ہے

سیسی مکھی یا خون چوسنے والی مکھی

سیسی مکھی عام مکھی کے مقابلے میں چھوٹی ہوتی ہے۔ یہ اپنے لمبے ڈنگ سے جانوروں اور انسانوں کا خون چوستی ہے۔

یہ مکھی افریقی ٹریپانوسومیاسس نامی بیماری کا باعث بنتی ہے جسے سلیپنگ سکنیس یا سونے کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔ اس بیماری سے بخار، سر درد، جوڑوں کا درد، قے، دماغ کی سوجن اور سونے میں مشکل ہوتی ہے۔ سب صحارا خطے میں 20 ہزار سے 30 ہزار افراد ہر سال اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیماری سے دس ہزار افراد کی موت ہوتی ہے۔

مگرمچھ شارکس کے مقابلے میں زیادہ افراد کی جان لیتے ہیں

مگرمچھ

ضروری نہیں کہ مگرمچھ انسانوں پر حملہ کریں لیکن وہ موقع ملنے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ صرف افریقہ میں ہر سال مگر مچھوں کی جانب سے انسانوں پر حملوں کے کئی سو واقعات سالانہ پیش آتے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد جان لیوا ثابت ہوتے ہیں لیکن اس کا انحصار حملہ کرنے والے مگرمچھ کی نسل پر ہے۔ بہت سے حملے دور دراز کے علاقوں میں ہوتے ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ رپورٹ نہیں کیا جاتا۔

دنیا بھر میں مگرمچھ سالانہ ایک ہزار انسانوں کی جان لیتے ہیں، یہ تعداد شارک کے حملوں سے مرنے والوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

نر دریائی گھوڑکے کا وزن 2750 کلوگرام تک ہو سکتا ہے

دریائی گھوڑا

اس بے ڈھنگے جانور کا شمار زمین پر خطرناک ترین ممولیہ جانوروں میں ہوتا ہے جو افریقہ میں سالانہ تقریباً پانچ افراد کی موت کے منہ میں دھکیلتا دیتا ہے۔ دریائی گھوڑے جارحانہ مخلوق ہیں اور ان کے بہت تیز دانت ہوتے ہیں۔

اور آپ اس کے دانتوں میں پھنسنا نہیں چاہیں گے، یہ انسان کو کچل سکتے ہیں۔

مہنگی ترین[ترمیم]

مہنگی ترین فلمیں[ترمیم]

گزشتہ دنوں بیٹ مین ورسز سپرمین : ڈان آف جسٹس ریلیز ہوئی جسے ہر دور کی سب سے مہنگی فلم قرار دیا جارہا ہے جس کی تیاری پر مارکیٹنگ کے اخراجات ملا کر 410 ملین ڈالرز خرچ کیے گئے۔

تاہم اسے بنانے والے اسٹوڈیو وارنر برادرز نے چپ سادھ رکھی ہے اس لیے ابھی باضابطہ طور پر اسے مہنگی ترین فلم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

یہاں آئی ایم بی ڈی بی اور باکس آفس موجو کے اعداد و شمار کی مدد سے سب سے مہنگی فلموں کی ایک فہرست مرتب کی گئی ہے جس میں کرنسی کی قدر کو مدنظر رکھ تبدیلی کی گئی ہے۔

ایوینجر : ایج آف الٹرون (2015)

اس فلم کا اصل بجٹ ڈھائی سو ملین ڈالرز تھا تاہم کرنسی کی قدر کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد 251 ملین ڈالرز ہوگیا جبکہ اس نے 1.4 ارب ڈالرز کمائے۔

دی کرانیکل آف نارینہ : پرنس کیسپین (2008)

اس فلم کا اصل بجٹ 225 ملین ڈالرز تھا تاہم ایڈجسٹ ہونے کے بعد یہ 253.9 ملین ڈالرز ہوگیا جبکہ 419 ملین ڈالرز کمانے میں کامیاب رہی۔

ٹرمینیٹر تھری : رائز آف مشین (2003)

اس فلم کو بنانے کے لیے 200 ملین ڈالرز خرچ کیے گئے تاہم افراط زر کو دیکھتے ہوئے موجودہ عہد میں اس کی لاگت 257.6 ملین ڈالرز بنتی ہے جبکہ یہ 433.4 ملین ڈالرز کمانے میں کامیاب رہی۔

جان کارٹر (2012)

ڈزنی کی یہ ناکام ترین فلم ڈھائی سو ملین ڈالرز سے بنی جو کہ اب 259 ملین ڈالرز کے برابر ہیں اور اس کی آمدنی محض 284.1 ملین ڈالرز تھی۔

دی ڈارک نائٹ رائزز (2012)

اس فلم کا جادو تو آج تک لوگوں پر طاری ہے جس کا بجٹ ڈھائی سو ملین ڈالرز تھا جو اب 259 ملین ڈالرز کے برابر ہے جبکہ اس نے 1.08 ارب ڈالرز کمائے۔

دی ہوبٹ (2012)

2012 کی ہی اس اس فلم کا بجٹ بھی ڈھائی سو ملین ڈالرز تھا یعنی 259 ملین ڈالرز کے برابر اور اس نے 1.02 ارب ڈالرز کمائے۔

اواتار (2009)

اس کا حقیقی بجٹ 237 ملین ڈالرز جبکہ افراط زر کو مدنظر رکھ کر 261 ملین ڈالرز بنتا ہے جبکہ باکس آفس پر 2.8 ارب ڈالرز بٹورنے میں کامیاب رہی۔

پائریٹس آف کیرئیبین : ڈیڈ مین چیسٹ (2006)

اس فلم کا بجٹ 225 ملین ڈالرز تھا جو کہ 2016 میں دیکھا جائے تو 265.2 ملین ڈالرز کے برابر ہے جبکہ یہ ایک ارب ڈالرز کا بزنس کرنے والی فلم بھی ہے۔

واٹر ورلڈ (1995)

اس کا حقیقی بجٹ تو 175 ملین ڈالرز ہے مگر کرنسی کی قدر میں گراوٹ کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس 271 ملین ڈالرز کا خرچہ ہوا اس کے مقابلے میں اس کی آمدنی صرف 264.2 ملین ڈالرز تھی۔

ہیری پوٹر اینڈ دی ہاف بلڈ پرنس (2009)

ڈھائی سو ملین ڈالرز سے بننے والی اس فلم کا بجٹ موجودہ عہد کے مطابق 275.5 ملین ڈالرز کے برابر ہے جبکہ باکس آفس پر یہ 934.4 ملین ڈالرز کے ساتھ کامیاب رہی۔

ٹینگلڈ (2010)

اینیمیٹڈ ہونے کے باوجود اس فلم کا اصل بجٹ 260 ملین ڈالرز یا موجودہ عہد کے 281.3 ملین ڈالرز کے برابر تھا جبکہ آمدنی 590.7 ملین ڈالرز رہی۔

اسپائیڈر مین 3 (2007)

اس فلم کا اصل بجٹ 258 جبکہ ردوبدل کے بعد 291 ملین ڈالرز بنتا ہے جبکہ 890.9 ملین ڈالرز کی کمائی اسے کامیاب ثابت کرتے ہیں۔

ٹائیٹنک (1997)

اپنے دور میں اس فلم پر ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے 200 ملین ڈالرز خرچ کیے اور اگر وہ اب اسے بنائیں تو یہ 294.4 ملین ڈالرز کے برابر ہوںگے جبکہ اس کی آمدنی بھی 2.2 ارب ڈالرز تھی۔

قلوپطرہ (1963)

اس فلم کا اصل بجٹ تو 44 ملین ڈالرز تھا مگر افراط زر کا اطلاق کیا جائے تو 340 ملین ڈالرز ہوجاتا ہے اور اس کی آمدنی 57.8 ملین ڈالرز تھی۔

پائریٹس آف کیرئیبین : ایٹ ورلڈز اینڈ (2007)

300 ملین ڈالرز کے اصل اور ردوبدل کے ساتھ 341 ملین ڈالرز بجٹ والی یہ سب سے مہنگی ترین فلم ہے جس کی آمدنی 963.4 ملین ڈالرز تھی۔

مہنگی ترین تعمیرات[ترمیم]

برطانیہ میں ایک جوہری پاور پلانٹ اس وقت کرہ ارض پر مہنگی ترین چیز ہوگی۔ یہ دعویٰ سمرسیٹ میں تجویز کردہ ہنکلی پوائنٹ کے بارے میں کیا جا رہا ہے۔ تاہم کیا کسی اور عمارت کی تعمیر پر کبھی اتنا زیادہ خرچ آیا ہے؟ ماحولیات سے وابستہ فلاحی ادارے گرین پیس نے گذشتہ ماہ اس منصوبے کے خلاف ایک مہم پٹیشن میں کہا کہ ’ہنکلی سی اس زمین پر سب سے مہنگی چیز بننے جا رہا ہے۔۔۔ بہترین اندازوں کے مطابق ہنکلی پر 24 ارب پاؤنڈ سے زائد کا خرچ آسکتا ہے۔‘ ان اعداد و شمار میں قرض لی گئی رقم پر سود کا تخمینہ بھی شامل ہے لیکن ہنکلی کے لیے مالی ذرائع اتنے مبہم ہیں کہ اس پر آنے والی حتمی لاگت جاننا ناممکن ہے۔ اگر آپ اس کی تعمیر پر خرچ ہونے والی رقم کا جائزہ لیں تو اس منصوبے کے کنٹریکٹر ای ڈی ایف اس کی لاگت 18 ارب پونڈ پیش کرتا ہے۔

برج الخلیفہ

لیکن اتنی رقم سے آپ دبئی میں قائم دنیا کی بلند ترین عمارت برج الخلیفہ جیسی عمارتوں کا ایک چھوٹا سا جنگل تعمیر کر سکتے ہیں۔ برج الخلیفہ کی تعمیر پر ایک ارب پاؤنڈ لاگت آئی تھی۔

اتنی رقم سے آپ 70 میل لمبا پارٹیکل ایکسیلیٹر تعمیر کر سکتے ہیں۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر کائنات کے راز جاننے کے لیے بنائی گئی 17 میل لمبی لارج ہارڈن کولائیڈر پر محض چار ارب پاؤنڈ خرچ آئے تھے۔

چنانچہ ہنکلی سی اتنا مہنگا کیوں ہے؟

گرینویچ یونیورسٹی کے توانائی پالیسی کے پروفیسر سٹیو تھامس کہتے ہیں: ’جوہری پاور پلانٹ کا شمار ان پیچیدہ ترین آلات میں ہوتا ہے جو ہم بناتے ہیں۔

’جوہری پاور پلانٹس پر خرچ بڑھتا رہتا ہے جیسا کہ حادثات رونما ہوتے ہیں اور ہم اس کے خطرے سے بچاؤ کے لیے ڈیزائن ذہن میں رکھتے ہیں۔‘

اس کے مقابلے میں برطانیہ کا ایک اور پاور سٹیشن سائزویل بی کو سنہ 1995 میں مکمل ہوا تھا، اس کی تعمیر بھی 2.3 ارب پاؤنڈ یا آج کے دور کے مطابق 4.1 پاؤنڈ خرچ آیا تھا۔

رواں صدی کے دوران یورپ میں کوئی بھی جوہری پاورپلانٹ مکمل نہیں ہوا۔ جو حالیہ برسوں میں تعمیر کیے گئے ہیں جیسا کہ چین یا انڈیا میں، ان کے بارے میں تھامس کا خیال ہے کہ ان کے اعداد و شمار قابل بھروسہ نہیں ہیں۔

اہرام مصر

تاریخی عمارتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا ہنکلی سی اہرام مصر کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا؟ 4500 سال سے زائد سال سے پرانی کسی ایسے عمارت کی تعمیراتی لاگت کے بارے میں آج کے دور کے حوالے سے اندازہ لگانا خاصا مشکل کام ہے۔ سنہ 2012 میں ٹرنر کنسٹرکشن کمپنی نے اہرام کی تعمیر کا تخمینہ 75 کروڑ سے 90 کروڑ ڈالر کے درمیان لگایا تھا۔ اس میں 50 کروڑ پاؤنڈ (73 کروڑ ڈالر) کے پتھر اور چار کروڑ پاؤنڈ (پانچ کروڑ 80 لاکھ ڈالر) کی 12 کرینیں شامل ہیں۔ تاہم یہ اندازہ لگایاگیا کہ اس کام کے لیے 600 افراد درکار ہوں گے۔ تاہم اس وقت اصل اہرام کی تعمیر پر کی تعمیر میں 20 ہزار نے حصہ لیا تھا۔ اور فرعون خوفو نے کتنے خرچ کیے؟ یہ قیاس ہے کہ دوہائیوں تک مزدور اہرام کی تعمیر سال میں چار ماہ کرتے تھے، جب دریائے نیل میں سیلاب کے باعث ان کے کھیت قابل کاشت نہیں ہوتے تھے۔ اس سے مراد چار لاکھ 84 ہزار دنوں کی مزدوری ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ چار ہزار افراد سارا سال کام کرتے تھے جس سے مزدوری کے دنوں کی کل تعداد سات کروڑ 76 لاکھ بن جاتی ہے۔ مصر میں مزدور کی کم سے کم مزدوری 3.93 پاؤنڈ روزانہ ہے، جس سے مزدوری کی کل لاگت 30 کروڑ 50 لاکھ بنتی ہے۔

دیوار چین

تمام تر اندازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، اہرام مصر کی تعمیر میں 50 کروڑ پاؤنڈ کے پتھر اور 30 کروڑ 50 لاکھ مزدوروں کی تنخواہ ہنکلی سی کے تخمینہ لاگت سے کہیں کم ہیں۔ دیوارچین اہرام مصر سے خاصا بڑا تعمیراتی منصوبہ تھا جو 5500 میل لمبی دیوار پر مشتمل ہے۔ دراصل یہ بڑی تعداد میں دیواروں پر مشتمل ہے جن کی تعمیر دو سو صدیوں کے وقت میں ہوئی اور یہ ایک عمارت کی تعریف پر پوری نہیں اترتی۔ جدید دور میں نہ ہیتھرو ٹرمینل 2 (2.3 ارب پاؤنڈ) اور نہ لندن میں نئی کراس ریل (14.8 ارب پاؤنڈ) ہنکی کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

مسجد الحرام

لیکن ایک ایسا منصوبہ ہے جو بظاہر پاور پلانٹ کے قریب ترین دکھائی دیتا ہے۔ سعودی عرب کا شاہی خاندان مکہ کی مسجد الحرام کی تزئین نو پر مبینہ طور پر 16 ارب پاؤنڈ خرچ کر رہا ہے۔ لیکن اس میں نئی سڑک، ٹرین لین اور دیگر کئی چیزیں شامل ہیں چنانچہ اسے ایک چیز یا عمارت کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔

سنہ 1998 میں ہانگ کانگ کا ہوائی اڈہ ایک مصنوعی جزیرے پر تعمیر کیا گیا جس پر 13 ارب 70 کروڑ پاؤنڈ لاگت آئی ہے جو آج کے دور کے مطابق 20 ارب دس کروڑ بنتے ہیں۔ یہی ای ڈی ایف کی جانب سے ہنکلی سی کی تعمیر پر تخمینہ لاگت بتائی گئی ہے۔

کسی بھی صورت میں، اگر ہنکلی سی اسی بجٹ میں تعمیر ہوجاتا ہے، اگرچہ ایسا ہو نہیں ہوسکتا، یہ پھر بھی دنیا کا مہنگا ترین پاور سٹیشن زیادہ عرصے تک نہیں رہے گا۔

سٹیوتھامس کہتے ہیں: ’ہم ہنکلی میں صرف دو ری ایکٹرز تعمیر کر رہے ہیں۔ ترکی کے ساتھ ہمارا معاہدہ چار ری ایکٹرز کا ہے، جنوبی افریقہ چھ ری ایکٹز کا ٹینڈر جاری کرنے والا ہے۔‘ ’جب آپ کو چھ ری ایکٹر کی تعمیر پر ہنکلی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ لاگت آئے گی۔‘

انٹرنیشنل سپیس سٹیشن

زمین پر ان میں سے جو کوئی بھی سب سے زیادہ مہنگی چیز ہو آسمان پر موجود ایک شے ان سب کو دھندلا دیتی ہے۔

انٹرنیشنل سپیس سٹیشن۔ قیمت: ایک کھرب یورو یعنی 77 ارب 60 کروڑ پاؤنڈ یا ایک کھرب دس ارب ڈالر۔

ترقی اردو بورڈ[ترمیم]

املا نامہ (طبع ثانی) ۔ مقدّمہ طبعِ ثانی

مقدّمہ طبعِ اوّل​[ترمیم]

اُردو ایک ہند آریائی زبان ہے، لیکن اس کا رسم الخط سامی خاندان کی زبان عربی سے ماخوذ ہے۔ عربی سے اس رسم الخط کو فارسی نے لیا اور فارسی سے یہ اُردو میں آیا۔ صدیوں کے اس تہذیبی اور تاریخی سفر میں اس رسم الخط میں بہت سی تبدیلیاں ہو گئیں۔ اُردو دنیا کی ان چند انتہائی متمول زبانوں میں سے ہے جن کا دامن اخذ و استفادے کے اعتبار سے ایک سے زیادہ لسانی خاندانوں سے بندھا ہوا ہے اس کے ذخیرہ الفاظ کا تقریباً تین چوتھائی حصہ ہند آریائی مآخذ یعنی سنسکرت، پراکرتوں اور اپ بھرنشوں سے آیا ہے، تو ایک چوتھائی حصہ جو دراصل ہند آریائی گروہ کی زبانوں میں اس کے امتیاز و افتخار کا ضامن ہے' سامی اور ایرانی مآخذ یعنی عربی، فارسی زبانوں سے لیا گیا ہے اُردو کے ذخیرہ الفاظ میں جو بے مثل تنوع اور رنگا رنگی ملتی ہے، وہ اُردو صوتیات میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اُردو صوتیات میں ایک پرت تو ہند آریائی آوازوں کی اور اس کے ساتھ ساتھ دراوڑی آوازوں کی ہے۔ اور دوسری اتنی ہی اہم پرت مشرق وسطی کی زبانوں سے ماخوذ آوازوں کی ہے اُردو دنیا کی ان چند "تہ دار" زبانوں میں سے ہے جس میں متعدد منفرد اور ممتاز صوتیاتی نظام ایک وسیع تر لسانی پیکر میں ڈھل کر بہ یک وقت کام کرتے ہیں۔ یہ " کثیر لسانیت" جہاں اُردو میں ایسی وسعت، لوچ اور لطافت پیدا کر دیتی ہے جو دوسری ہند آریائی زبانوں کے لیے لائق رشک ہے وہاں رسم الخط سے ایسے تقاضے بھی کرتی ہے جن کو پورا کرنا آسان نہیں۔ اُردو جیسی مخلوط و ممزوج زبان کے لیے کسی بھی ایک خاندان کا رسم الخط اپنایا جاتا، دوسرے خاندان کی آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں نئی گنجائشیں نکالنی ہی پڑتیں۔ چنانچہ زمانہ قدیم میں جب اُردو عربی فارسی رسم الخط میں لکھی جانے لگی تو کئی علامتیں ایسی تھیں جن کے لیے آوازیں نہیں تھیں، اور کئی آوازیں ایسی تھیں، جن کے لیے علامتیں نہیں تھیں۔ وقتاً فوقتا نئی علامتوں کا اضافہ ہوتا رہا، اور تبدیلیوں کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ زبان کے ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلیاں ازخود ہوتی رہیں، اور لکھنے والے اپنے اپنے طور پر لکھاوٹ کی صحت کا التزام کرتے ہے۔ اس وقت کسی معیاری بندی یا ضابطے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ رسم الخط ایک نئی وضع پر آ رہا تھا، اور اُردو کے "کثیر صوتیاتی" مزاج سے ہم آہنگ ہونے کا عمل جاری تھا۔

برطانوی اقتدار کے قائم ہو جانے کے بعد مستشرقین اُردو کی طرف متوجہ ہونے شروع ہوئے، اور خصوصاً فورٹ ولیم کالج کے قیام سے کچھ پہلے اور بعد میں بھی جب اُردو لغات اور قواعد کی کتابیں لکھی جانت لگیں تو اُردو رسم الخط کے مطابق صحت سے لکھنے کے مسائل یعنی املا پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ جان جوشوا کٹلر، مُل، جان گل کرسٹ، جوزف ٹیلر، ٹامس روبک، جان شکسپئر، ڈنکن فاربس، ایس ڈبلیو فیلن اور جان پلیٹس ان چند مستشرقین میں ہیں جن کے لغات اور صرف و نحو کی کتابوں میں اُردو املا سے باخبری کا گہرا احساس پایا جاتا ہے مستشرقین کی تصانیف میں اکثر اُردو الفاظ یا جملوں کو رومن حروف میں لکھنا پڑتا تھا جس کے لیے اُردو تہجّی اور رومن حروف تہجّی میں مطابقت کا کوئی نہ کوئی نظام قائم کرنا ضروری تھا اس کے علاوہ غیر اہلِ زبان کو اُردو پڑ جانے ک لیے ان قاعدوں اور ضابطوں کو بھی سمجھنے سمجھانے کی ضرورت تھی جن کے مطابق حروف کے جوڑنے سے الفاظ اور عبارت لکھی جاتی ہے مستشرقین کی یہ کوشش تقریباً ایک صدی جاری رہیں لیکن خود اُردو والوں نے ان امور کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی یوں تو انّیسویں صدی میں جب لکھنو کو ادبی مرکزیت حاصل ہو گئی تو دہلی اور لکھنو کی ادبی و لسانی چشمک میں جی کھول کر ہندی کی چندی کی گئی، لیکن زبان کے جن پہلوؤں پر زیادہ توجہ صرف ہوئی، وہ شعر کی زبان سے متعلق تھے ؛ بول چال کی زبان اور نثر کی زبان برابر بے توجہی اور غفلت کا شکار رہی۔ متروکات، تذکیر و تانیث اور صحتِ استعمال ہی کو زبان کی کل کائنات سمجھا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے جب اُردو ادب کے قدیم سرمائے کی تلاش و تحقیق کا کام شروع ہوا، اور جن مولوی عبدالحق کے زیرِ نگرانی انجمن ترقی اُردو سے قدیم تذکرے، دواوین اور کلیات مرتب ہو کر شائع ہونے لگے، تو ترتیب و تدوین کے مسائل کے ساتھ ساتھ صحتِ املا کا خیال بھی ذہنوں میں آیا۔ مولوی عبدالحق نے قواعدِ اُردو لکھی اور اسٹنڈرڈ انگریزی اُردو لغت کا کام بھی مکمل کرایا۔ اس دوران میں اُردو کی بے قاعدگیوں کا احساس اور بھی شدید ہوا ہو گا۔ بیسویں صدی میں تین خاص لغات بھی منظرِ عام پر آئے: فرہنگ آصفیہ، سیّد احمد دہلوی؛ نور اللغات، نور الحسن نیّر کاکوروی؛ اور جامع اللغات، فیروز الدّین لیکن سائنسی نظر کے فقدان کی وجہ سے ان میں املا کے مسائل پر وہ توجہ نہ ہو سکی جو ہونی چاہیے تھی۔ اس صدی کی تیسرے اور چوتھی دہائیوں میں تحریک آزادی کی رفتار کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی قومی زبان کا مسئلہ سامنے آیا، اور "ہندوستانی" کی تحریک خاصی اہمیت اختیار کر گئی۔ مہاتما گاندھی چونکہ اعلان کر چکے تھے کہ "ہندوستانی" کے لیے دیو ناگری اور اُردو دونوں "لپیوں" کو اپنایا جائے گا، اس لیے دونوں کو اپنا اپنا گھر سنبھالنے کی فکر ہوئی۔ اُردو میں اس کا اظہار دو طرح سے ہوا۔ اوّل تو یہ کہ اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر سادہ اور سہل بنایا جائے (ڈاکٹر جافرہسن، آسان رسمِ خط، حیدر آباد، 1940) دوسرے یہ کہ اُردو رسم الخط کی جیسا وہ ہے، مدافعت کی جائے۔ (سیّد مسعود حسن رضوی ادیب، اُردو زبان اور اس کا رسم الخط، لکھنو، 1948ء عبد القدوس ہاشمی، ہمارا رسم الخط، انجمن، دلّی (قبل 1947ء) : محمد الیاس برنی، اُردو ہندی رسم الخط، حیدر آباد، 1948ء (؟))

اُردو رسم الخط کی ان بحثوں میں شریک ہونے والی ایک شخصیت ایسی بھی تھی جس نے اپنی صلاحیتوں کا بڑا حصّہ اُردو املا کے لیے وقف کر دیا۔ اُردو والوں کو ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے اُردو املا کے مسائل پر نہ صرف خود لکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے اپنی متعدد تحریروں، خطوں، تبصروں اور مضامین کے ذریعے اُردو املا کے بارے میں برتی جانے والی عام بے توجہی اور بے حسی کو بے نقاب کیا۔ اور املا کے مسائل پر عالمانہ نظر ڈال کر وقتاً فوقتاً اصلاحی تجویزیں پیش کیں۔ 1943 میں جب انجمن ترقی اُردو نے کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط مقرر کی تو مولوی عبدالحق کی دعوت پر اس کا اجلاس 22 مارچ 1943 کو سید ہاشمی فرید آبادی کی ابتدائی تجاویز پر غور کرنے کے لیے انجمن کے دفتر واقع دریا گنج دہلی میں منعقد ہوا جس میں مولوی عبدالحق اور سیّد ہاشمی فرید آبادی کے علاوہ ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے مرتب کیا تھا، 16 ستمبر 1943 کو اخبار ہماری زبان میں شائع کی گئیں، اور 21 جنوری 1944ء کو کل ہند اُردو کانفرنس کے ناگ پور اجلاس میں رسمِ خط کی ذیلی مجلس میں پیش ہوئیں یہ تجاویز خاصے غور و مباحثے کے بعد ترمیم و اضافے کے ساتھ منظور کی گئیں اور جنوری 1944ء کے رسالہ اُردو میں شائع کی گئیں۔ (ص 103 - 120)

کمیٹی اصلاح رسمِ خط کی ان سفارشات پر انجمن ترقی اُردو سے شائع ہونے والی کتابوں اور رسالوں میں عمل ہونا شروع ہی ہوا تھا کہ برِ صغیر کی تقسیم سے اُردو کو ہندوستان میں اپنی زندگی کی نئی کشمکش سے دوچار ہونا پڑا اور املا کی معیار بندی کی کوششوں پر اوس پڑ گئی۔ تا ہم سرکردہ محقّقین اور مصنّفین کے ہاں جن میں ڈاکٹر سیّد عابد حسین، سیّد مسعود حسن رضوی، امتیاز علی عرشی، قاضی عبد الودود، مالک رام، ڈاکٹر نذیر احمد اور ڈاکٹر گیان چند جین کے نام خاص طور پر لیے جا سکتے ہیں، صحتِ املا لا التزام رہا، لیکن بہ حیثیت مجموعی اُردو املا طرح طرح کی بے قاعدگیوں اور بے اعتدالیوں کا شکار رہا۔


(2)​


اُردو میں املا کے مسائل کئی طرح کے ہیں۔ ان میں سے بعض بنیادی مسائل وہ ہیں جو مستعار الفاظ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، اُردو لفظیات کا امتیازی حصّہ عربی، فارسی سے ماخوذ ہے۔ ان زبانوں سے آنے والے ہزاروں لفظ اُردو میں رچ بس گئے ہیں، اور اُردو کے اپنے ہو چکے ہیں۔ اُردو ایک آزاد اور خود مختار زبان ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں مستعار لفظوں کا طریقِ املا سے مختلف ہے، وہاں اصل کی پیروی کرنی چاہیے یا انھیں اُردو کے قاعدے سے لکھنا چاہیے؟ ایسی ایک مثال ان عربی لفظوں کی ہے جن کے آخر میں ی کے اوپر الف لکھا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، موسیٰ، دعوٰی، اس قبیل کے کئی الفاظ اُردو میں پورے الف سے رائج ہو چکے ہیں۔ مولا، تقاضا، تماشا، تمنا۔ ان کے بارے میں قاعدہ کیا ہونا چاہیے؟

ایسے کئی الفاظ جن میں الف مقصورہ آتا ہے، پہلے ہی عام الف سے لکھے جاتے ہیں، جیسے رحمٰن اور رحمان۔ اسمٰعیل اور اسماعیل، سلیمٰن اور سلیمان، ابرٰہیم اور ابراہیم، مولیٰنا اور مولانا۔ اس املائی دو عملی سے کس طرح بچا جائے، اور اس سلسلے میں کیا اصول اپنایا جائے؟

عربی، فارسی کے کئی الفاظ میں لکھنے میں نون آتا ہے لیکن پڑھا میم جاتا ہے، جیسے گنبد، انبساط، انبوہ۔ ان کی تقلید میں کئی دیسی الفاظ بھی جو میم سے بولے جاتے ہیں، خواہ مخواہ نون سے لکھے جاتے ہیں : اچنبھا، تنبولی، چنپا، چنبیلی۔

اُردو میں سینکڑوں دیسی لفظ مستعار الفاظ کی نقل میں خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ غنچہ، کشتہ، زردہ، پردہ میں تو اصلاً ہ ہے، لیکن بھروسہ، ٹھیکہ، بھوسہ، دھبہ، اکھاڑہ، انڈہ، اڈّہ، راجہ، باجہ، گینڈہ، سہرہ، دسہرہ میں اس کا کیا جواز ہے؟ آنکھ کو آنکھہ، ہاتھ کو ہاتھہ، بیٹھ کو بیٹھہ، مجھ کو مجہہ، اور کچھ کو کچہہ عام طور پر لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ بات بھی عام طور پر معلوم نہیں کہ خفی ہ کی آواز ہ کی نہیں، خفیف مُصوّتہ (مثلاً زبر) کی ہے۔

ذ اور ز کے بارے میں بھی اُردو میں خاصا خلط مبحث ہے۔ قاضی عبد الودود نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے کہ مرشا غالب فارسی میں ذال کے وجود کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے گزشتن اور پزیرفتن کو صحیح سمجھتے تھے۔ حالانکہ صحیح صورتِ حال اس کے برعکس ہے۔ یہ غلط روش یہاں تک عام ہوئی کہ کئی لوگ گزارش کو گذارش، شکر گزار کو شکر گذار اور گذشتہ کو گزشتہ لکھنے لگے۔

ہمزہ اُردو میں عربی سے آیا۔ عربی میں ہمزہ جس آواز کے لیے استعمال ہوتا ہے، اُردو میں اس کا وجود نہیں کے برابر ہے۔ عربی میں ہمزہ کی حیثیت مُضمتے کی ہے، اُردو میں ہمزہ مصوّتوں کے ساتھ آتا ہے۔ باوجود اس قلب ماہیت کے ہمزہ اُردو املا میں ایسا ناگزیر جزو ہے جس کے بغیر اُردو املا کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اُردو میں ہمزہ کی کیا ضرورت ہے اور ہم ہمزہ کو استعمال کرنے پر کیوں مجبور ہیں، اس کا کوئی واضح شعور ذہنوں میں نہیں۔ ہمزہ کےاستعمال کے سلسلے میں اُردو میں بڑی بے اعتدالیاں برتی جاتی ہیں، مثلاً عربی کے کئی الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے ابتداء، انتہاء، علماء، فضلاء، قدماء، ادباء، حکماء۔ اُردو میں یہ الفاظ چونکہ ہمزہ کے خاص تلفّظ کے ساتھ رائج نہیں، ان ہمزہ کا استعمال کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اسی طرح چاہیے، لیے، کیے، پیے، جیے، کو چاہیئے، لئیے، کئے، دئے، پئے، جئے بھی لکھا جاتا ہے۔ نیز دیجئے، کیجئے، لیجئے وغیرہ افعال کی تصریفی صورتوں میں بھی ہمزہ کے معاملے میں خاصا انتشار ہے۔ بعض لوگ انھیں ی سے لکھتے ہیں، بعض ہمزہ سے، اور بعض دونوں سے۔ اضافت کے لیے بھی ہمزہ کی غلط نگاری عام ہے۔ اس بات کا شعور عام نہیں کہ نغمہ شب، جلوہ مجاز اور کشتہ ناز میں ہمزہ کیوں لکھنا چاہیے اور ماہِ نو، تہِ دریا اور نگاہ دل نواز میں اضافت کیسے ظاہر کی جائے گی۔

املا کے کئی مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق اُردو کی صوتیات سے ہے۔ ایک ہمہ گیر زبان میں جو ملک بھر کے دور دراز خطّوں، علاقوں اور شہروں میں بولی جاتی ہو، مقامی اثرات کا لہجے اور تلفّظ کے اختلاف میں ظاہر ہونا قدرتی بات ہے۔ املا کا کام معیاری تلفّظ کا اظہار ہے۔ لیکن بعض مثالیں ایسی بھی مل جاتی ہیں، جہاں ایک سے زیادہ معیاری شکلیں موجود ہیں۔ اور دونوں طرح کے تلفّظ کی سند مل جاتی ہے۔ ایسی صورتوں میں فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟

اُردو صوتیات میں ہکار آوازوں کی خاص اہمیت ہے۔ اُردو میں ان کے لیے الگ سے حروف نہیں، لیکن ان کے اظہار کا اطمینان بخش طریقہ موجود ہے۔ (پھ بھ، تھ د ھ، ٹھ ڈ ھ، چھ جھ، کھ گھ، ڑ ھ)۔ پھر بھی یہ صوتی تصوّر ابھی تک پوری طرح ذہن نشین نہیں ہو سکا کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے لیے مخصوص کر دینا چاہیے ہے کو ھے، چاہیے کو چاھیے، ہی کو ھی یا مجھ کو مجہہ۔ بیٹھ کو بیٹہہ اور آٹھ کو آٹہہ لکھنے کی روش قدیم زمانے سے چلی آتی ہے۔ اور تو اور، گھر اور گہر، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھاری اور بہاری، بھن اور بہن یا دھلی اور دہلی میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔

نون غُنہ خالص اُردو کی چیز ہے۔ عربی میں نون غُنہ نہیں، قدیم و جدید فارسی میں اس کا وجود کہیں ہیں، کہیں نہیں ہے۔ اُردو میں ہم نون کا نقطہ اُڑا کر اس کو غُنیت کے لیے کام میں لاتے ہیں، جبکہ لفظ کے بیچ میں نقطہ ضروری ہے۔ حرف و صوت کی اس عدم مطابقت سے کہیں کہیں دقّت پیدا ہوتی ہے، اُردو میں کئی لفظ ایسے ہیں جن کے بارے میں عام طور پر یہ معلوم نہیں کہ ان میں نون غُنہ کا صحیح مقام کیا ہے۔ لفظ گا نو بہ معنی بستی تین چار طرح لکھا جاتا ہے، گانو، گاؤں، گانوں اور گانئوں۔ یہی حال پانْو، چھانْو اور اس قبیل کے دوسرے الفاظ کا ہے۔ اس انتشار کو ختم کرنے کے لیے معیار بندی بیحد ضروری ہے۔

حروفِ علت کی کمی کے فائدے اپنی جگہ ہیں، لیکن اس سے بعض املائی دقّتیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً تیر، تَیر ؛ پیر، پیَر؛ بین، بَین ؛ میرا، میرا ؛ اور میل، مَیل میں جو فرق ہے ؛ یا دور، دَور ؛ طور، طور، چور، چور ؛ مَول، مول ل میں فرق ہے، اسے ہم اعراب کی عدم موجودگی میں سیاق و سباق کی مدد سے سمجھ لیتے ہیں، لیکن واؤ کی تین آوازوں (واؤ معروف واؤ مجہول اور واؤ ماقبل مفتوح) اور ی کی تین آوازوں (یائے معروف، یائے مجہول، یائے ماقبل مفتوح) کے صوتی اور املائی امتیازات عام طور سے نہ پڑھانے والوں کے ذہن میں واضح ہوتے ہیں، نہ پڑھنے والوں کے۔ زیر، زبر، پیش، اور الف مد ملا کر اُردو کے کل دس مصوّتے ہوئے۔ ان دس مصوّتوں کا اعرابی نظام ابھی تک مُسلّم نہیں، اور قاعدوں اور ابتدائی کتابوں میں عجیب و گریب انتشار ملتا ہے۔

املا نامہ میں تمام مسائل پر توجہ کی گئی ہے، اور پورے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد، سادہ اور صاف زبان میں سفارشیں پیش کی گئی ہیں، نیز پہلی بار اُردو کے دس مصوّتوں کے لیے اِعرابی نظام پیش کیا گیا ہے جو سہل بھی ہے اور سائنٹِفک بھی۔

(3)​


آزادی کے بعد املا کی اصلاح و تنظیم کی طرف پھر سے توجہ ہوئی۔ کئی ذہنوں نے ان مسائل کو وہیں سے لیا جہاں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے انھیں چھوڑا تھا۔ نیز یہ احساس بھی عام ہوا کہ املا کے بارے میں سوچتے ہوئے محض صوتیات ہی سے نہیں، سماجی لسانیات سے بھی مدد لینی چاہیے، زبان کی صوتیات اس کی سماجیات سے ہٹ کر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ بعض حضرات نے اُردو رسم الخط کو خالص صوتی بنیادوں پر ڈھالنے میں یہی غلطی کی تھی۔ ڈاکٹر جافرسن کا صوتی املا (جس کی سیّد ہاشمی فرید آبادی اور سیّد اختر حسین رائے پوری نے بھی کسی حد تک تائید کی تھی) چونکہ اُردو کے تاریخی ارتقا اور سماجی ضرورتوں کا اتنا احساس نہیں رکھتا تھا جتنا ضروری ہے۔ نیز اس میں رواج اور چلن سے بھی صرفِ نظر کیا گیا تھا، اس لیے جزوی طور پر بھی قبول نہ ہو سکا زبان کے معاملے میں صدیوں کے چلن اور سماجی ضرورتوں اور عام استعمال سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔ سجّاد مرزا اور ہارون خان شروانی نے اُردو ٹائپ اور طباعت کے لیے جو کوششیں کیں (اُردو رسمِ خط اور طباعت، حیدر آباد، 1957ء) ان میں بالواسطہ طور ہی پر سہی، املا کے نکات بھی زیرِ بحث آئے۔ اُردو کے نام سے غلام رسول نے ایک کتابچہ 1960 میں حیدر آباد سے شائع کیا۔ عبد الغفار مدہولی نے اپنے تدریسی تجربوں کی بنا پر اُردو املا کا آسان طریقہ رائج کرنے لیے متعدد تحریریں لکھیں، اور اسی نام سے 1963ء میں دہلی سے ان کا ایک کتابچہ بھی شائع ہوا۔ اس زمانے میں سیّد احتشام حسین اور آل احمد سرور نے بھی بعض اصلاحات کے لیے ذہنی فضا تیار کرنے میں مدد دی۔ ڈاکٹر گیان چند جین اور راقم الحروف نے اپنے مضامیں میں صحتِ املا کے لیے جامع سائنسی اصولوں کو اپنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ رشید حسین خاں بھی املا کے مسائل پر برابر غور و فکر کرتے رہے اور لکھتے رہے۔ 1973ء میں ترقی اُردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں املا کمیٹی مقرر کی۔ راقم الحروف اور رشید حسن خان اس کے رکن مقرر کیے گئے۔ رشید حسن خاں اُردو املا پر اپنی کتاب لکھنے میں مصروف تھے۔ کمیٹی کی متعدد نشستوں میں ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی مجوزہ اصلاحات اور دوسرے مسائل پر غور و خوض ہوا، بنیادی اصول طے کیے گئے اور سفارشات مرتب کرنے کا کام راقم الحروف کو سونپا گیا۔ رشید حسن خاں نے اُردو املا پر عالمانہ اور مبسوط کتاب لکھی جس میں بنیادی اُصولوں کی وضاحت کی گئی، مختلف عنوانات کے تحت ضروری الفاظ کی فہرستیں شامل کی گئیں۔ اور لغات میں پائے جانے والے انتشار اور غلط نگاری کا تفصیلی جائزہ لے کر ترجیحی صورتوں کا تعیّن کی گیا۔ لیکن واضح رہے کہ کتاب ایک فردِ واحد کا کام ہے۔ کمیٹی نے اُن کے کام اور اُن کے مشوروں سے استفادہ کیا، لیکن جس طرح کمیٹی نے ڈاکٹر عبد السّتّار صدیقی اور انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی کئی اصلاحات کو رد کر دیا، رشید حسن خاں کی بعض باتوں سے بھی کمیٹی باوجود کوشش کے متفق نہ ہو سکی، اور املا نامہ میں متعدد سفارشیں اُن سے ہٹا دی گئیں۔

املا نامہ طبعِ اول (1974ء) میں زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اُردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط (1943 -44ء) نے پیش کی تھیں یا جن کی وضاحت ڈاکٹر عبد الستّار صدیقی نے اپنے مضامین اور تحریروں میں کرتے رہے تھے۔ ترقی اُردو بورڈ کی املا کمیٹی کو بعض مقامات پر بنیادی نوعیت کا اختلاف تھا۔ جس کی نشان دہی کر دی گئی تھی مثلاً وہ اصلاحات جو انقلابی تبدیلیوں پر مبنی تھیں۔ جیسے مصدر یا کسی صیغے کے آخر میں جو نا، تا وغیرہ آتے ہیں، وہ مادّے سے جدا کر کے لکھے جائیں، جیسے لکھ نا، لکھ تی، لکھ تے، لے نا، اٹھ تیں، بھج وانا، سے تا، یا بالکل کو بلکل یا خوش کو خُش لکھا جائے، یا نون غُنہ کو منفصل لکھا جائے، جیسے پھان س، بان س، سن گھاڑے۔ یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھا جائے، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، پھ ر۔ یا یہ کہ عربی کے ہم آواز حروف جن کی تین یا چار شکلیں آتی ہیں، ان کو گھٹا کر صرف دو شکلوں پر اکتفا کیا جائے یعنی ث، ص، س میں سے ص کو اور ز، ذ ض اور ظ میں سے ذ اور ض کو حذف کر دیا جائے۔ یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے لا، ی، جا، ی، داءِ رہ، کو، ی، سو، یاں، زاءِ ل، قاءِ ل۔ طائرِ، زائدِ، سناءِ ی، آء ی، یا مصیبت کو مصی بت، گھر کنا کو گُھر ک نا، اور قرینہ کو قری نہ لکھا جائے ؛ یا ڑھ کو ڑھ، ڈھ کو ڈھ یعنی ملا کر دھ رتی بجائے دھرتی، ادھ ورا بجائے ادھورا لکھا جائے، ایسی تبدیلیاں چونکہ رواج اور چلن میں نہیں آ سکتی تھیں، اور ناقابلِ عمل تھیں، اس لیے ان کو نظر انداز کر دیا گیا۔

سفارشات پیش کرتے ہوئے مندرجہ ذیل رہنما اصول سامنے رہے:

1۔ صحتِ املا کے جو اصول اب تک سامنے آ چکے ہیں، اور محتاط اہلِ قلم کے ہاں جن پر عمل بھی ہو رہا ہے، ان کو علمی، صوتی اور لسانیاتی نظر سے پرکھا جائے اور سائنٹفک طور پر منضبط و منظّم کر کے پیش کیا جائے۔

2۔ اُردو کے صدیوں کے چلن اور رواج کو پوری اہمیت دی جائے اور استعمالِ عام کی روشنی میں ترجیحی صورتوں کا تعیّن کیا جائے۔

3۔ املا میں کوئی تبدیلی ایسی تجویز نہ کی جائے جو اُردو کی علمی میراث، اس کی تاریخ، مزاج اور سماجی ضرورتوں کے نقطہ نظر سے نا قابلِ عمل ہو۔

4۔ عربی فارسی سے ماخوذ اُردو ہماری لسانی میراث کا جزو بن چکے ہیں۔ انھیں کی بدولت ہزاروں الفاظ کی بیش بہا دولت ہمیں ودیعت ہوئی جو زبان کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس سرمائے کا تحفّظ ہمارا فرض ہے۔

5۔ عربی کے جو مرکبات، عبارتیں یا مکمل اجزا، اُردو میں مستعمل ہیں، انھیں اصل کی طرح لکھنا چاہیے۔

6۔ املا کے اصولوں کا تعیّن کرتے ہوئے وسیع تر عام زبان پر نظر رکھی گئی ہے۔ محض شعری زبان پر نہیں (شاعری میں ضرورتِ شعری کے تحت لفظوں کو کبھی اشباع اور کبھی تخفیف کے ساتھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، عام زبان میں لفظ کی متعیّنہ شکل ہی استعمال ہوتی ہے۔

7۔ جہاں مروّجہ قاعدوں سے کوئی مدد نہیں ملی یا املائی انتشار حد سے بڑھا ہوا ہے، وہاں معیاری تلفّظ کی پیروی پر اصرار کیا گیا معیاری تلفّظ کو بنیاد بنانے سے ایسے بہت سے مسائل آسانی سے حل ہو سکتے ہیں۔

8۔ سفارشات کو پیش کرنے میں قدیم علمِ ہجا سے بھی مدد لی گئی، اور جدید صوتیات و سماجی لسانیات سے بھی۔ اُردو ایسی پیچیدہ اور متنوع زبان ہے۔ کہ کسی ایک نقطہ نظر کو اپنا کر اس کے املا سے پورا پورا انصاف کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ وسیع تر طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جہاں سے بھی جو روشنی مل سکتی تھی، لی گئی۔

زیرِ نظر صفحات میں قدیم روایت کا تسلسل بھی ملے گا اور جدید فکر کی سائِنٹِفک توجیہ بھی۔ صوتیات کے کئی تصورات ایسے کہ انھیں قدیم اصطلاحوں میں پیش کیا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ دقّت بعض امور سے بحث کرتے ہوئے بار بات محسوس ہوئی، جس کی وجہ سے ایک طرح کا مفاہمتی رویّہ اختیار کرنا پڑا۔ ایسا اس لیے بھی ضروری تھا کہ زیرِ نظر سفارشات صرف ماہرین اور محقّقین کے لیے نہیں، بلکہ اُردو کے عام لکھنے پڑھنے والوں کے لیے بھی ہیں۔ جن میں طالب علم، ادیب، شاعر، صحافی، خوش نویس، ٹائپسٹ، نقل نویس، پروف پڑھنے والے، سبھی شامل ہیں۔ ان مباحث کے لیے زبان جتنی زیادہ سے زیادہ آسان اور عام فہم اختیار کی جا سکتی تھی، کی گئی ہے۔ مثالیں ہر جگہ دی گئی ہیں۔

دنیا کی شاید ہی کوئی ترقی یافتہ زبان ہو جس کا املا پوری طرح صوتی ہو۔ حروف کی صوتی اقدار سے عدم مطابقت کئی زبانوں میں ملتی ہے۔ اُردو میں حروفِ صحیح آوازوں سے زیادہ ہیں، اور حروفِ علّت آوازوں سے کم۔ اس سے کچھ پیچیدگیاں تو پیدا ہوتی ہیں، لیکن ان سے مفر بھی نہیں۔ اس کمیٹی کا کام اُردو املا میں تبدیلیاں کرنا نہیں تھا۔ اصل مقصد یہ تھا کہ املا میں جو بے اعتدالیاں اور بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، ان کو دور کیا جائے اور صحت اور اصول کی راہ دکھائی جائے۔ راقم الحروف اُن سب حضرات کا ممنون ہے جنھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے مستفید ہونے کا موقع دیا۔

نئی دہلی

مارچ 1974ء

گوپی چند نارنگ

مقدّمہ طبعِ ثانی[ترمیم]

املا نامہ کا پہلا ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں 1974 میں شائع ہوا تھا، اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا۔ املا نامہ کا جو پُر جوش خیر مقدم کیا گیا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مسئلے پر توجہ کی کتنی شدید ضرورت تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور پاکستان میں یہ مسئلہ سب کی نگاہوں کا مرکز بن گیا، اور رسائل و جرائد میں بحثوں اور تبصروں کا تانتا بندھ گیا۔ املا نامہ کے سلسلے میں بالعموم املا کمیٹی کو مبارک باد دی گئی اور ترقّی اردو بورڈ کے اس اقدام کی ستائش کی گئی، لیکن جہاں املا نامہ کے سائنسی انداز، اختصار اور جامعیت کی داد دی گئی اور کہا گیا کہ "یہ ایک وقیع کمیٹی کی سفارشات ہیں جن کی حیثیت سنگِ میل کی ہے۔ اور قدم قدم پر رہنمائی کا حق ادا کیا گیا ہے" وہاں سخت سے سخت تنقید بھی کی گئی اور بعض سفارشات سے اختلاف کرتے ہوئے ان پر نظرِ ثانی کا مطالبہ کیا گیا، بالخصوص مولانا عبد الماجد دریا بادی، ڈاکٹر صفدر آہ، پروفیسر ہارون خان شیروانی، مولانا شہاب مالیر کوٹلوی، سیّد بدر الحسن، حیات اللہ انصاری، پروفیسر گیان چند جین، علی جواد زیدی، سید شہاب الدین دسنوی، ڈاکٹر خلیق انجم، حسن الدین احمد، ڈاکٹر شکیل الرّحمان، ڈاکٹر عبد السّتار دلوی، راج نرائن راز، کرشن موہن، ڈاکٹر عابد پشاوری، ڈاکٹر مرزا خلیل احمد بیگ، ڈاکٹر علیم اللہ حالی، ڈاکٹر سیفی پریمی، رشید نعمانی اور وقار خلیل نے کئی کئی قسطوں میں نہایت بے لاگ تحقیقی تبصرے لکھے اور علمی تجزیے کا حق ادا کیا۔ ان میں سے بعض تبصرے پاکستان کے رسائل نے بھی نقل کیے۔ املا نامہ کے آخر میں چونتیس اہم تبصروں کا گوشوارہ درج ہے اور عمومی آرا کی تلخیص بھی دے دی گئی ہے تا کہ اس ردِّ عمل کا اندازہ کیا جاسکے جو املا نامہ کی اشاعت سے ہوا۔ تمام مبصرین کا شکریہ واجب ہے کہ انھوں نے انتہائی محنت اور دلسوزی سے اس مسئلے پر توجہ صرف کی۔ یہ حقیقت ہے کہ اتنے کسی چھوٹی کتاب پر تبصرے نہیں لکھے گئے جتنے املا نامہ پر لکھے گئے۔

ڈاکٹر عبد العلیم مرحوم جنھوں نے اپنے شوقِ خاص سے اور شہباز حسین سابق پرنسپل پبلیکیشنز آفیسر کے توجہ دلانے سے اس کام کا آغاز کیا تھا۔ املا نامہ پر تبصروں کی فائل مجھ کو بھجوا کر فرمائش کی کہ ان تبصروں کی مدد سے ہر سفارش کے بارے میں نام بنام اختلافی نکات کی رپورٹ تیار کر دوں تا کہ املا نامہ پر نظرِ ثانی کا کام شروع کرایا جا سکے۔ یہ اختلافی رپورٹ املا نامہ کے کُل صفحات سے کسی طرح کم نہیں تھی۔ اب کے علیم صاحب نے کمیٹی کی توسیع کی اور پہلی کمیٹی کے تین اراکنج کے علاوہ پروفیسر مسعود حسین خاں، حیات اللہ انصاری، مالک رام، پروفیسر گیان چند جین، پروفیسر خواجہ احمد فاروقی، پروفیسر محمّد حسن، ڈاکٹر خلیق انجم اور سیّد بدر الحسن کو بھی دعوت دی۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین مرحوم بوجہ علالت شرکت نہ فرما سکے اور پروفیسر گیان چند جین صرف ایک جلسے میں شریک ہو سکے، لیکن جین صاحب کا مفصّل تبصرہ کمیٹی کے پیشِ نظر رہا۔ اگرچہ اُس زمانے میں ڈاکٹر عبد العلیم کی صحّت خراب رہنے لگی تھی، اس کے باوجود انھوں نے ہر اجلاس کی صدارت کی ذمہ داری کو پوری دلجمعی سے انجام دیا، اور گھنٹوں بحثوں میں حصّہ لیا۔ اس توسیع شدہ کمیٹی کے تین پُر جوش اجلاس رام کرشنا پور میں علیم صاحب کے دفتر میں منعقد ہوئے، تھوڑا سا کام باقی تھا کہ اچانک بلاوا آ گیا اور علیم صاحب نے داعی اجل کو لبّیک کہا۔ چنانچہ یہ کام جوں کا توں دھرا رہا۔ کئی برس کی خاموشی کے بعد جب ترقی اردو بیورو کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے شمس الرّحمان فاروقی کا تقرّر ہوا تو علاوہ دوسرے کاموں کے، املا کی معیار بندی پر بھی توجہ ہوئی، اور اس بارے میں انھوں نے ورکشاپ کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ چونکہ عربی سے متعلق کچھ امور تصفیہ طلب تھے، اس لیے ڈاکٹر نثار احمد فاروقی سے بھی مشورہ کیا گیا۔ اس ورکشاپ کے تین بھرپور اور طویل اجلاس ترقی اردو بیورو کے دفتر میں منعقد ہوئے جو صبح سے شام تک جاری رہے۔ ہر ہر سفارش کو بار بار دیکھا اور پرکھا گیا۔ املا نامہ طبع اوّل کی سفارشات، انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کی اصل تجاویز، ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے بنیادی کام، رشید حسن خان کی تصنیف، حفیظ الرّحمان واصف کی تنقیدی کتاب، اور املا سے متعلق ڈاکٹر ابو محمد سحر اور دیگر حضرات کے مضامین، تبصروں اور بحثوں کو سامنے رکھا گیا۔ چلن، استعمالِ عام اور مروّجہ طریقوں کو پوری اہمیت دی گئی، اور خاصے غور و خوض اور بحث و تمحیص کے بعد انتہائی معروضی طور پر فیصلے کیے گئے، اور جہاں ضروری تھا لسانی و صوتی توجیہ کو انتہائی مختصر طور پر لیکن واضح الفاظ میں درج کر دیا گیا۔ کئی جگہ اصولوں اور قاعدوں میں ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ بعض توجیہات بدلی گئیں۔ بعض مقامات پر از روئے اصل حک و اصلاح کی گئی تو بعض اور رواج کو بنیادی حیثیت دینے کی وجہ سے تبدیلی کرنی پڑی، کئی شقیں حذف کر دی گئیں، چند ایک کا اضافہ بھی ہوا اور کچھ گوشواروں کو یکسر بدل دینا پڑا۔ غرض املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن میں ترمیم و تنسیخ اور اصلاح و اضافے کا عمل جگہ جگہ دکھائی دے گا اور یہ ضروری بھی تھا۔

ورکشاپ کے جلسوں کی صدارت شمس الرّحمان فاروقی نے کی۔ اگر وہ دلچسپی نہ لیتے تو یہ کام خدا جانے کب تک سرد خانے کی زینت بنا رہتا۔ انھوں نے اور ڈاکٹر نثار احمد فاروقی نے اہم مشورے دیے۔ رشید حسن خان تمام بحثوں میں شریک ہوئے۔ اُنھیں بعض نکات پر اصرار تھا لیکن کمیٹی نے اُن سے اختلاف کیا۔

اس وضاحت کی بہرحال ضرورت ہے کہ املا نامہ طبع اوّل ہو یا زیرِ نظر ترمیم شدہ ایڈیشن، سفارشات کی اصل وہی ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی اور مولوی عبد الحق کا کام اور انجمن ترقی اردو کی 'اصلاحِ رسمِ خط کمیٹی' کی رپورٹ ہے۔ (مقدمہ طبع اوّل میں اس طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ "زیادہ تر ان اصلاحات کو اپنایا گیا جو انجمن ترقی اردو کی کمیٹی 'اصلاحِ رسمِ خط' (1943 تا 1944) نے پیش کی تھیں۔")

اعلیٰ، ادنیٰ، اولیٰ، معلیٰ، مصلیٰ، معریٰ، مقویٰ، تقویٰ، مصطفیٰ، مطلیٰ، منقیٰ، مدعیٰ علیہ وغیرہ کو الف مقصورہ کے بجائے معمولی الف سے لکھنا چاہیے۔ (عبد السّتار صدّیقی، ص 60) (انجمن ص 115، 119)

وہ عربی لفظ (یا نام) جو خود عربی میں دو طرح لکھے جاتے ہیں، ان کو اردو میں الف سے لکھنا چاہیے: رحمان، سلیمان، ابراہیم، اسماعیل، لقمان، (ص 114، 119) عیسا، موسا، مصطفا، مرتضا، صغرا، کبرا (انجمن ص 115)

شوربا، ناشتا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 58 ) تمغا، حلوا، سقّا، (عبد السّتار صدّیقی، ص 59) کو الف سے لکھنا چاہیے، اسی طرح تماشا، تقاضا، ماجرا، مدّعا، معماّ، تبرّا، تولّا، مربّا، بقایا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 60) (انجمن ص 115)

علحدہ / علاحدہ کی بحث (انجمن 115)

وصل کا الف لام باقی رہنا چاہیے (انجمن ص 113)

عربی کی ۃ (تائے مُدوّرہ) کو اردو میں ہمیشہ ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 55، 56)

ت / ط کی بحث: طپش، طپیدن، طشت، طشتری، طوطا، طوطیا، طمانچہ، طلاطم، طیّاری کو ط سے نہیں، ت سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 68 )

ذ یا ز کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)

گذشتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)

پذیرفتن (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 65)

پذیرا (ایضاً ص 65)

آذر (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66) آزر (ایضاً ص 66)

زخار (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66)

آزوقہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66)

ذات (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 66) زات کی سفارش نہیں مانی گئی (ایضاً 66)

ذرہ، زرہ (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 67)

ازدحام، اژدحام کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 68 )

ہائے مختفی: تمام دیسی لفظوں کو جو عربی فارسی کی نقل میں خواہ مخواہ مختفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے: آنولا، بھروسا، باجا، بٹوا، بلبلا، دھوکا، باڑا، پٹاخا، پٹارا، چبوترا، راجا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)

یورپی الفاظ بھی الف کے ساتھ: ڈراما، فرما، کمرا، مارکا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)

عربی فارسی لفظوں کی تصریفی شکلیں: ان سب لفظوں کے آخر میں الف لکھنا چاہیے جو ایک اردو اور ایک فارسی یا عربی جز سے بنے ہیں: بدلا، بے فکرا، نو دولتیا، کبابیا، مسالا، ملیدا، دسپنا، (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57) تماہا، چھماہا، پچرنگا، سترنگا (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 58 ) دو ماہا (ایضاً 61)

پٹنہ، آگرہ، کلکتہ شہروں کے ناموں کو جوں کا توں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 56)

مسالا کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 57)

گنبد، زنبور، شنبہ، تنبورہ جیسے عربی فارسی لفظوں میں ن ساکن کے بعد ب آئے تو اصل کی پیروی کرنی چاہیے، نہیں تو میم لکھا جائے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 64)

نون غنّہ کے لیے اُلٹے قوس کا استعمال مولوی عبد الحق نے انجمن ترقی اردو کی مطبوعات کے ذریعے رائج کیا تھا۔

گانو، پانو، چھانو، دانو میں نون غنّہ کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 62)

پردے، جلوے: محروف شکلوں میں ے لکھنی چاہیے، وہ چھٹے درجے میں پڑھتا ہے، میں مدرسے جاتا ہوں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 61)

ہمزہ: ابتدا، انتہا، ارتقا، استدعا، استغنا میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 59)

بنا و سنگار، دیو، بھاو، تاو، نبھاو، گھماو میں ہمزہ کا کچھ کام نہیں (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)

گاے، چاے، راے، ہاے میں بھی ہمزہ نہ چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)

ہمزہ اسی وقت آئے گا جب اس سے پہلے زبر ہو، اگر زیر ہو تو یائے لکھی جائے گی۔ دیے، لیے، کیے، چاہیے، دیجیے، لیجیے میں ہمزہ نہیں لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63، 64)

گنتیاں: دونو غلط دونوں صحیح (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 63)

چھے کی بحث (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 61)

گیارہ سے اٹھارہ تک آخر کا حرف ہ ہے۔ ان کو ہ سے لکھنا چاہیے (ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی، ص 62، 63)

لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر یا الگ الگ لکھنے کی بحث۔ مرکّب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھے جاویں (انجمن 111، 118 )

مفرد لفظوں کے تکراری اجزا کو الگ الگ لکھنا چاہیے۔ بی بی، دُل دُل، جھُن جھُنا، کن کنا، گل گلا، کھٹ کھٹاہٹ (انجمن 111، 118 )

فارسی لاحقے اردو عبارت میں الگ لکھنے چاہییں: بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ دولت، نہ گفت، بہ قول، تا وقتے کہ (انجمن 112)

انگریزی کے صوتی ٹکڑوں کو الگ الگ کر کے لکھنا چاہیے، اِن فارمل، ان سٹی ٹیوٹ، کان فرنس، یو نی ورسٹی (انجمن 115، 119)

اعراب (حرکات و سکنات) کی بحث (قواعدِ اردو، مولوی عبد الحق، ص 43، 50)

رموزِ اوقاف کی بحث (مولوی عبد الحق، ص 338، 354)

اعراب میں واؤ معروف کے لیے اُلٹا پیش اور یائے معروف کے لیے کھڑا زیر مولوی عبد الحق نے رائج کیا تھا۔

واضح رہے کہ یہ وہ اصول ہیں، جو املا نامہ کی زیادہ تر سفارشات کی بنیاد ہیں، ڈاکٹر عبد السّتار صدّیقی نے اور بھی بہت سے اصول پیش کیے جن کو مندرجہ بالا فہرست میں عمداً شامل نہیں کیا گیا، اس لیے کہ وہ اصول و تجاویز ان کی زندگی میں ہی رد ہو گئیں، مثلاً بالکل کو بلکل یا خوش خُش لکھنا، یا نون غنّہ کو منفصل لکھنا جیسے پھان س، بان س، یا ی کو بھی مثل الف اور واؤ الگ لکھنا، جیسے بی ن، بی ر، پی ر، یا ہمزہ جب منفصل حرف کے بعد آئے تو اس کو جدا لکھنا، جیسے لا ء ی، جا ءی، یا 'ڑھ' کو 'ڑ ھ'، 'ڈھ' کو 'ڈ ھ' لکھنا وغیرہ۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی فاضلِ اجل تھے۔ نیز مولوی عبد الحق جو انجمن کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط کے روحِ رواں تھے، اور برج موہن و تاریہ کیفی جو اس کمیٹی کے رکن تھے، دونوں عالمِ بے بدل تھے۔ ان اور دوسرے حضرات نے جو اصول بنائے ہوں گے اور تجویزیں پیش کی ہوں گی، پوری ذمہ داری اور پورے غور و فکر کے بعد کی ہوں گی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے متعدد اصول زمانے نے رد کر دیے۔ ہر زبان کا ایک لسانی مزاج ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اردو کے لسانی مزاج نے ان اصولوں کو رد کر دیا جو اس سے لگّا نہیں کھاتے تھے، اور صرف ان اصولوں کو قبول کیا جو اس سے ہم آہنگ تھے۔ ان اصلاحات کو پیش ہوئے تقریباً نصف صدی گزرنے کو آئی ہے۔ علم کا افق روز بروز وسیع ہو رہا ہے۔ چنانچہ ترقی اردو بورڈ نے ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی صدارت میں جب املا کمیٹی تشکیل کی، اور راقم الحروف کو اس کا رکن نامزد کیا، تو خاکسار نے اس کام کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا، کیونکہ مجھے احساس تھا کہ وہ زبان جس کی صوتیات، صرفیات اور نحویات یعنی ہر ہر سطح پر تین تین لسانی خاندانوں کے اثرات یعنی ہند آریائی، ایرانی اور سامی اثرات بیک وقت کار فرما ہوں، اور اختلاط و امتزاج کی قوس قزح پیش کرتے ہوں، اس کے رسمِ خط کے ان گنت اجزا میں مطابقتیں تلاش کرنا اور انھیں کُلّیوں کے تحت لا کر سیدھے سادے اصولوں میں بیان کرنا خاصا دقت طلب کام ہے۔ اس راہ کے مسافر کو ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے کام سے تقویت ضرور پہنچتی ہے لیکن یہ بھی معلوم تھا کہ انتہائی نیک نیّتی اور گہرے لسانی شعور پر مبنی اُن کی کئی اصلاحات کو اردو نے گوشۂ چشم سے دیکھنا تک گوارا نہ کیا۔ بہرحال ان پیچیدگیوں اور مشکلات کے گہرے احساس کے ساتھ راقم الحروف نے اس کام کو ہاتھ میں لیا۔ ڈاکٹر عبد العلیم اور ڈاکٹر سیّد عابد حسین کی کرم گستری تھی کہ اُنھوں نے یہ ذمہ داری خاکسار کو سونپی۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے، کمیٹی نے نہ صرف ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کے کام کو سامنے رکھا، بلکہ اس وقت تک مختلف حضرات نے متعلقہ مسائل پر جو کچھ بھی لکھا تھا، اس کا بغور مطالعہ کیا گیا، نیز رشید حسن خان جو کمیٹی کے رکن بھی تھے، ان کے کام اور مشوروں سے بھی استفادہ کیا گیا، تا ہم جس طرح ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی اور انجمن کی اصلاحات کو مِن و عَن قبول نہیں کیا گیا، رشید حسن خان کی کئی باتوں سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکا۔ ہر ہر سفارش پر کھُل کر گفتگو ہوئی اور پوری بحث و تمحیص کے بعد تجاویز کو یا تو رد کیا گیا، یا از سرِ نو لکھا گیا، یا قبول کیا گیا۔ خاکسار کی کوشش رہی ہے کہ سفارشات پیش کرتے ہوئے اختصار ملحوظ رہے، زبان زیادہ سے زیادہ سادہ ہو، اور جہاں ضرورت ہو لسانی سائنٹفک توجیہ کو آسان سے آسان لفظوں میں پیش کر دیا جائے۔ اردو میں غُنیت، ہکاریت اور ہمزہ کے مسائل نہایت پیچیدہ ہیں۔ ان کے بارے میں مختصر لسانی وضاحتیں ضروری خیال کی گئیں۔ مصوتی اعراب کے تحت اردو کے دس مصوتوں کے لیے جو مکمل اعرابی نظام پیش کیا گیا ہے، وہ اب تک کے پیش کردہ طریقوں میں سب سے زیادہ سہل اور سائنٹفک ہے۔ ڈاکٹر سیّد عابد حسین (مرحوم) اور ڈاکٹر عبد العلیم (مرحوم) نے ان لسانی وضاحتوں کو نہ صرف پسند کیا بلکہ ان پر صاد کیا۔

املا نامہ کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن سے کئی باتوں میں مختلف ہے۔ صاحب الرّائے اور صاحبِ علم مبصرین کی اکثریت نے جن تجاویز سے اختلاف کیا تھا، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق الف مقصورہ، نون اور نون غنّہ، ہائے خفی، ت، ط اور ہمزہ اور اضافت کے مسائل سے تھا، اس لیے ان شقوں میں تبدیلیاں ضروری تھیں۔ یوں تو ہر ہر سفارش پر نظرِ ثانی کی گئی ہے، کہیں وضاحتوں میں ترمیم و اضافہ ہوا ہے تو کہیں مثالوں میں الفاظ کو بدلا گیا ہے۔ لیکن جن بنیادی تبدیلیوں کی وجہ سے املا نامہ کا یہ ایڈیشن پہلے سے مختلف ہو گیا ہے، ان میں خاص خاص یہ ہیں:

الف مقصورہ کو زیادہ تر برقرار رکھا گیا ہے۔

طشت، طشتری، طمانچہ، طوطی، غلطاں وغیرہ جیسے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح تسلیم کیا گیا ہے۔

گانو، پانو، چھانو کے بجائے گاؤں، پاؤں، چھاؤں کی تائید کی گئی ہے۔

اسی طرح حاصل مصدر بچاؤ، بناؤ، بہاؤ اور امر بچاؤ، بناؤ، بہاؤ سب میں ہمزہ کے استعمال کو مناسب قرار دیا گیا ہے۔

نیز اسما گائے، پائے، چائے، رائے، جائے میں بھی ہمزہ لکھنا مناسب خیال کیا گیا ہے۔

ایک اہم مسئلہ اضافت کے لیے ہمزہ کا تھا، یعنی بوئے گُل، صدائے دل، اردوئے معلیٰ میں یائے پر ہمزہ لکھا جائے یا نہیں۔

مبصرین میں تقریباً سب نے ہمزہ کے استعمال کی تائید کی، نیز چونکہ ان میں دوہرے مصوتے کی آواز ثابت ہے، اس لیے ہمزہ کے استعمال کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔

آزمائش، نمائش اگرچہ از روئے اصل یائے سے ہیں، لیکن اردو میں چونکہ ہمزہ سے بولے جاتے ہیں، ایسے تمام الفاظ کو ہمزہ ہی سے لکھنا ٹھیک سمجھا گیا۔

سابقوں، لاحقوں میں بل کہ، کیوں کہ، چوں کہ، حالاں کہ، چناں چہ، بہ خوبی، بہ ہر حال، بہ خدا کو الگ الگ لکھنے کو کہا گیا تھا، لیکن چونکہ ان کی ملی ہوئی شکلیں پوری طرح چلن میں آ چکی ہیں، ایسے تمام لفظوں کو ملا کر لکھنے ہی کو مناسب قرار دیا گیا۔

اس طرح املا نامہ طبع دوم میں عملی دقّتوں کا پہلے سے زیادہ خیال رکھا گیا ہے۔ یوں اب یہ اردو زبان کے مزاج اور چلن کی پہلے سے کہیں بہتر نمائندگی کرتا ہے۔

اُدھر پاکستان میں بھی اردو املا کی معیار بندی کے سلسلے میں پیش رفت ہوئی ہے، ڈاکٹر وحید قریشی کے زیرِ سرکردگی مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے زیرِ اہتمام ایک سہ روزہ سیمینار "املا اور رموزِ اوقاف کے مسائل" 23 تا 25 جون 1985 منعقد ہوا۔ اس سیمینار کی روداد مقتدرہ کے "اخبارِ اردو" کے جنوری 1986 کے شمارے میں شائع ہوئی۔ نیز ان تمام مقالات اور مباحث کو متدیرہ نے کتابی طور پر بھی شائع کر دیا ہے (املا و رموزِ اوقاف کے مسائل، مرتبہ اعجاز راہی، اسلام آباد، 1985) اس سیمینار میں املا سے متعلق چودہ سفارشات پیش کی گئیں، یہ چونکہ مفصّل نہیں تھیں، ان کی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس میں ذیل کے اراکین تھے:

ڈاکٹر فرمان فتح پوری

پروفیسر شریف کنجاہی

مظفر علی سیّد

ڈاکٹر خواجہ محمّد ذکریّا

ڈاکٹر ممتاز منگلوری

ڈاکٹر محمّد صدیق شبلی (سیکریٹری)

اس کمیٹی کے اجلاس 22، 23 اور 24 اکتوبر 1985 کو راولپنڈی میں منعقد ہوئے۔ سیمینار کی سفارشات پر غور کیا گیا، اور ہر سفارش کے بعد مثالیں درج کی گئیں۔ اور بعض مسائل جو پہلے سفارشات میں شامل نہیں تھے، انھیں بھی زیرِ بحث لا کر کُل 24 سفارشات منظور کی گئیں۔ یہ سفارشات "اخبارِ اردو" جنوری 1986 میں صفحہ 15 سے 22 پر شائع ہوئی ہیں۔ پاکستانی سفارشاتِ املا میں زیادہ تر املا نامہ طبعِ اوّل کیسفارشات پیشِ نظر رہی ہیں۔ البتہ بعض جگہ الگ ترجیحات بھی قائم کی گئی ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ املا نامہ کی نظرِ ثانی کمیٹی نے جن تبدیلیوں پر اصرار کیا تھا، مثلاً گاؤں، پاؤں (اسما)، مہندی، مہنگی میں نون غنّہ کو چلن کے مطابق لکھنا، یا بچاؤ، پتھراؤ، نیز گائے، چائے، رائے، جائے (اسما) کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا اردوئے معلیٰ، بوئے گُل میں اضافت کی یائے پر ہمزہ کو برقرار رکھنا، یا آزمائش، نمائش کو ہمزہ کے ساتھ لکھنا، یا بلکہ، چونکہ، چنانچہ کو توڑ کر نہ لکھنا، پاکستانی سفارشوں میں بھی چلن کے ان تمام مقامات کی تائید کی گئی ہے، البتہ کچھ سفارشات میں چلن کو نظر انداز بھی کیا گیا ہے، مثلاً الف مقصورہ کو زیادہ سے زیادہ برقرار رکھا ہے، یا کلیۃً، ارادۃً میں تنوین کو تائے مدوّرہ پر لکھنے کی سفارش کی ہے، یا گزارش، گزرنا، گزارنا، باج گزار، خدمت گزار، جیسے لفظوں کو بھی ذال سے لکھنے پر اصرار کیا ہے۔ اردو مصوتوں کے اعراب کی نشان دہی ضروری تھی، اس پر توجہ نہیں کی گئی۔ سوائے ان امور کے باقی سفارشات تقریباً وہی ہیں، اور اُسی ڈھانچے کو برقرار رکھا گیا ہے۔

املا نامہ کے نظرِ ثانی شدہ ایڈیشن کے لیے ڈاکٹر فہمیدہ بیگم، ترقی اردو بیورو کی موجودہ ڈائریکٹر کا شکریہ بھی واجب ہے کہ جب سے اُنھوں نے چارج سنبھالا ہے، املا نامہ کے نئے ایڈیشن کے لیے تقاضا کرتی رہی ہیں۔ میری دوسری مصروفیات نے ادھر توجہ کا موقع ہی نہ دیا۔ ادھر سٹینڈنگ کمیٹی اور ترقی اردو بورڈ نے ریزولیوشن کر دیا تو اُن کی طرف سے تقاضا شدید ہو گیا۔ اُن کا میں ممنون ہوں کہ اس طرح یہ کام جو کئی برس سے ادھورا رکھا ہوا تھا، پورا کرنا پڑا۔ ادھر ستمبر میں کشمیر یونی ورسٹی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہاں کی پُر سکون فضا میں کچھ وقت نکال کر میں مسوّدے کو آخری شکل دے سکا۔

پروفیسر حامدی کاشمیری کی دوست داری اور کرم فرمائی کا ایک مدت سے قائل ہوں۔ ان کا اور شعبۂ اردو کشمیر یونی ورسٹی کے رفقا کا ممنون ہوں کہ ان کی عنایت اور تعاون سے یہ ادھورا کام سری نگر میں تکمیل کو پہنچا۔

آخر میں یہ اعادہ ضروری ہے کہ املا نامہ کی سفارشات اس احساس کے ساتھ مرتب کی گئی ہیں کہ زبان اور اس کے تمام طواہر کسی فرد واحد، ادارے یا انجمن کے تابع نہیں۔ زبان ایک وسیع تر عمرانیاتی نظام کا حصہ ہے جو عوامی ضرورتوں اور رواج چلن سے وجود میں آتا ہے اور جس کی پُشت پر صدیوں کے تاریخی اور لسانیاتی ارتقا کا ہاتھ ہوتا ہے۔ زبان اور رسم الخط میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی کوئی فردِ واحد، کمیٹی یا انجمن یا ادارہ جبراً مسلط نہیں کر سکتا۔ تبدیلیاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ زبان کے خاموش عمرانیاتی عمل کے تحت از خود رونما ہوتی ہیں۔ کمیٹیاں اور ادارے صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ کسی مسئلے کے بارے میں احساس و شعور کو بیدار کر دیں اور آگہی کی فضا پیدا کر دیں تا کہ انتشار دور ہو۔ چنانچہ یہ سفارشات بھی تجاویز ہیں، سرکاری حکم نامہ نہیں، اور اس توقع کے ساتھ پیش کی جا رہی ہیں کہ ان سے املا کی معیار بندی کے لیے احساس و شعور کی بیداری کا عمل تیز تر ہو گا اور آگہی کی فضا پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ زبان ایک زندہ حقیقت ہے جس میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، چنانچہ اصولوں میں اتنی لچک بہرحال ہونی چاہیے کہ زبان کے وسیع تر چلن اور آئندہ ضرورتوں کا ساتھ دے سکیں۔ ہمارا جو فرض تھا، وہ ہم نے ادا کیا، فیصلہ بہرحال زمانہ اور وقت کرے گا۔ وما توفیقی الّا باللہ

گوپی چند نارنگ

16 ستمبر، 1988

نسیم باغ، سری نگر

سفارشات[ترمیم]

الف[ترمیم]

(1) اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔ پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ: مولا مُصفّا تَوَلّا مُدّعا تقاضا مُتفا تماشا مُدّعا علیہ تمنّا ہیولا نصارا مقتدا مقتضا ماوا

باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں: ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ

ذیل کے الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں: اللہ الہ الٰہی

(2) دعوائے پارسائی، لیلائے شب اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے: لیلائے شب دعوائے پارسائی فتوائے جہاں داری

(3) عربی مرکبات یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً عَلَی الصّباح عَلَی الرَّغم عَلَی العُموم عَلَی الحساب عَلَی الخُصوص حتّی الاِمکان حتّی الوَسع حتّی المقدور بالخُصوص عَلیٰ ہٰذا القَیاس

(4) رحمٰن، اسمٰعیل بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔ رحمان ابراہیم سلیمان مولانا یاسین اسحاق لقمان اسماعیل البتہ جب ایسا کوئی لفظ قرآن پاک کی سورتوں کے نام یا اللہ کے اسمائے صفات کے طور پر استعمال ہو گا تو اس کا اصلی املا برقرار رہے گا۔ عربی ترکیب میں بھی اصلی املا برقرار رہنا چاہیے۔

(5) علٰحدہ علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی)

(6) لہٰذا لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری چلن میں آ چکا ہے۔

(7) معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں: شوربہ چغہ سقہ عاشورہ قورمہ ناشتہ ملغوبہ الغوزہ

ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں: معمّا تماشا تقاضا حلوا مربّا مچلکا بقایا تمغا ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے بھی ان میں سے بیشتر الفاظ کو الف سے لکھنے کی سفارش کی ہے۔

( 8 ) بالکل، بالتّرتیب ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتاریا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے: فی الحال بالکل انا الحق بالفعل ملک الموت

البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا: عبدُ السّتّار شجاعُ الدّولہ عبدُ الرّزّاق لغاتُ النّساء بالتّرتیب فخرُ الدّین

الف ممدودہ[ترمیم]

الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔

بغیر مد کے:

برفاب تیزاب سیلاب غرقاب سیماب زہراب گلافتاب تلخاب

سردابہ گرمابہ مرغابی خوشامد دستاویز

مع مد کے:

گرد آلود دل آویز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود

خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آمیز درد آمیز جہاں آرا

حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد

تنوین[ترمیم]

اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے۔ اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے"۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً

نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً

قدرتاً حقیقتاً حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً

اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً

ت، ۃ[ترمیم]

اوپر ہم تنوین کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اصول کو اپنا چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں تائے مُدَوَّرہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن اردو میں گنتی کے چند عربی الفاظ ۃ سے لکھے جاتے ہیں۔ جب تک یہ اسی طرح چلن میں ہیں، ان کو عربی طریقے سے لکھنا مناسب ہے:

صلوٰۃ زکوٰۃ مشکوٰۃ

البتہ اس قبیل کے دیگر عربی الفاظ کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی رائے صحیح ہے کہ یہ اردو میں ت سے لکھے جاتے ہیں، اور اسی طرح چلن میں آ چکے ہیں۔ چنانچہ ان کو ت سے ہی لکھنا چاہیے: حیات نجات بابت منات مسمات توریت

ت، ط[ترمیم]

اردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ت اور ط دونوں سے لکھے جاتے ہیں، ان کے املا میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذیل کے الفاظ ت سے صحیح ہیں:

تپش تہران تپاں تیار تیاری توتا ناتا (رشتہ)

ذیل کے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح ہے:

غلطاں طشت طشتری طمانچہ طہماسپ طوطی

ذ، ز، ژ[ترمیم]

  • (1) گذشتہ، گزارش

فارسی مصادر گذشتن، گذاشتن اور پذیرفتن کے جملہ مشتقات بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی ذال سے لکھنے صحیح ہیں۔ جیسے:

گذشتہ گذشتگان گذر گاہ در گذر رہ گذر راہ گذار پذیرفتہ پذیرائی

سر گذشت وا گذاشت اثر پذیر دل پذیر

گزاردن (بہ معنی ادا کرنا، پیش کرنا) کے مشتّقات کو زے سے لکھنا صحیح ہے، جیسے:

گزارش باج گزار خدمت گزار شکر گزار نماز گزار عرضی گزار مال گزاری

گزرنا اور گزارنا اگرچہ گذشتن سے ہیں لیکن تہنید اور تارید کے عمل سے گزر کر اردو کے مصدر بن چکے ہیں، اس لیے ان کی تمام تصریفی شکلیں ز سے لکھی جانی چاہییں، اسی طرح گزارا اور گزرانا بھی ز سے لکھنے مناسب ہیں۔

اس سلسلے کے بعض مُتنازعہ فیہ الفاظ جن سے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے اور دوسروں نے بحث کی ہے، یہ ہیں:

آزر: حضرت ابراہیم کے والد یا چچا کا نام ز سے ہے، جیسے آزرِ بت تراش

آذر: آگ کے معنی میں یہ لفظ ذال سے ہے، جیسے آذر کدہ بہ معنی آتش کدہ اور آذر فشاں بہ معنی آتش فشاں۔ نیز ذال سے ہی ایک رومی مہینے کا نام بھی ہے۔

ذرّہ: (کسی چیز کا بہت چھوٹا ٹکڑا)

ذرا: (تھوڑا، قلیل) اگرچہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے ز سے لکھنے پر زور دیا ہے لیکن کمیٹی اس کی تائید نہیں کرتی۔

ذات: (نفس، شخص، قوم، نژاد، ہندی جات)

زخّار: (بحرِ زخّار)

آزوقہ: (غذائے قلیل)

ازدحام: (اژدہام، اژدحام، ازدہام غلط ہیں۔)

  • (2) ژ

ذیل کے لفظوں کا صحیح املا ژ سے ہے:

مژدہ مژہ ارژنگ واژوں مژگاں پژ مردہ پژمردگی

اژدر ژالہ ژاژ نژاد ژولیدہ اژدہا ٹیلی ویژن

ث، س، ص[ترمیم]

(1) قصائی: اس کا رائج املا ص سے ہے، اور یہی صحیح ہے۔

(2) مسالا: دہلی میں مصالح تھا۔ لکھنؤ میں مسالا ہو گیا۔ اسی صورت کو اختیار کرنا چاہیے۔

(3) مسل: رودادِ مقدمہ کے معنی میں اس کا املا س سے رائج ہے، اسی کو اپنانا چاہیے۔

نون اور نون غُنّہ[ترمیم]

  • (1) گنبد، انبار، کھمبا، چمپا

کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے گنبد انبار جنبش دنبہ شنبہ تنبورہ سنبل عنبر

اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے۔ انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:

تمباکو تمبولی کھمبا اچمبھا چمپا امبر (بمعنی آسمان)

(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ)

  • (2) گِننا، سُننا

اردو میں کئی مصدر ہیں جن میں دو نون ہیں، جیسے بُننا، گِننا، سُننا۔ ان میں ایک نون تو مادہ فعل کا ہے، دوسرا علامتِ مصدر کا (بُن + نا، سُن + نا)۔ اکثر غلطی سے ایسے مصدروں کو مشدّد نون سے لکھا جاتا ہے (بُنّا، گِنّا، سُنّا)۔ اصول یہ ہے کہ ایسے تمام مصدروں میں دو نون لکھنے چاہییں۔ اس سے ذیل کے جوڑوں میں املا کا امتیاز بھی ملحوظ رہے گا:

بَننے (فعل) بنّے (لقب)

چُننی (فعل) چُنّی (دوپٹہ)

سُننی (فعل) سُنّی (فرقہ)

  • (3) نون غُنّہ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ "نون غنّہ ہمیشہ منفصل لکھا جائے" (بان س، پھان س، ہن سے گا)۔ عام قاعدہ ہے کہ لفظ کے آخر میں نون غُنّہ بغیر نقطے کے لکھا جاتا ہے۔ البتہ (ابتدائی کتابوں میں یا جب ضرورت ہو) لفظ کے بیچ میں نون غنہ کو اُلٹے قوس کی علامت سے ظاہر کرنا چاہیے: بیچ میں:

ہونٹ پھاند اینٹ چونچ چاند

آخر میں:

ماں جاؤں بولیں نظروں کتابیں

  • (4) سنِچائی، بٹائی

لفظ کے مادّے یا مصدر میں جہاں نون غنّہ ہے، ماخوذ شکلوں میں کہِیں تو نون غنّہ لکھا جاتا ہے، اور کہِیں نہیں، زیادہ تر یہ صورت متعدی (casuative) شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، جیسے باندھنا، بندھوانا اور ڈھونڈوانا یا پھینکنا سے پھنکوانا اور پھنسنا سے پھنسوانا، اس بارے میں صوتی حقیقت یہ ہے کہ اگر نون غنّہ کے بعد مسموع (voiced) آواز ہے تو نون غنّہ پورا ادا ہو گا جیسے بندھوانا، ڈھونڈوانا، اور اگر نون غنہ کے بعد غیر مسموع (unvoiced) آواز ہے تو غُنّیت کمزور پڑ جائے گی جیسے پھنکوانا، پھنسوانا میں، تا ہم چونکہ ان لفظوں میں غنّیت ہے، خواہ ضعیف کیوں نہ ہو، ایسے تمام لفظوں میں نون غنّہ لکھنا چاہیے:

سینچنا سے: سنچوانا، سِنچائی

ہنسنا سے: ہنسوانا، ہنسائی

کھینچنا سے: کھنچوانا، کھِنچائی

البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:

بانٹنا سے: بٹنا، بٹوانا، بٹانا، بٹوائی، بٹوارا

پونچھنا سے: پچھوانا، پچھنا

جانچنا سے: جچنا

چھانٹنا سے: چھٹوانا، چھٹنا، چھٹنی، چھٹائی

  • (5) گانو، پانو، گاؤں، پاؤں

اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:

گاؤں پاؤں چھاؤں

  • (6) مہندی، مہنگی

ان الفاظ کے رائج املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ان کا املا وہی صحیح ہے جو رواج عام میں ہے: مہندی مہنگی مہنگائی لہنگا بہنگی

  • (7) چانول، گھاس

ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ متروک ہیں، ان کو نون غنّہ کے بغیر لکھنا چاہیے:

چانول گھانس پھونس سونچنا کونچہ

چاول گھاس پھوس سوچنا کوچہ

ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں:

کینچلی جھونپڑا کنواں

واؤ[ترمیم]

  • (1) اوس، اودھر

قدیم اردو میں اعراب بالحروف کا عام رواج تھا، خاص طور سے پیش کو ظااہر کرنے کے لیے واؤ لکھتے تھے، مثلاً:

اوس اودھر اوٹھانا مونہہ

ایسے تمام الفاظ کو اب بغیر واؤ لکھنا چاہیے، دوکان نہیں، بلکہ دُکان یعنی بغیر واؤ مرجح صورت ہے۔

  • (2) لوہار، لُہار

اردو میں کچھ لفظ ایسے ہیں جن کی اصل میں تو واؤ موجود ہے، جیسے لوہا، مونچھ، سونا، لیکن ان سے نکلنے والے لفظوں کا تلفظ چونکہ ہمیشہ پیش سے ہوتا ہے، اس لیے انہیں بغیر واؤ کے لکھنا چاہیے، جیسے :

لُہار سُنار

بعض دوسرے الفاظ جن میں واؤ لکھنے کی ضرورت نہیں، نیچے درج ہیں:

پُہنچنا پُہنچانا پُہنچ بُڑھاپا اُدھار دُلارا دُلاری دُلار

دُلہن / دولہن، دُہرا / دوہرا، مُٹاپا / موٹاپا، نُکیلا / نوکیلا دونوں طرح رائج ہیں، البتہ دوہا کے معنی میں صرف دوہرا رائج ہے، اور دوگانہ بمعنی نماز اور دُگانہ (دُگانا) بمعنی سہیلی ہے۔

  • (3) ہندوستان، ہندُستان

دونوں صحیح ہیں، البتہ لفظ ہندُستانی بغیر واؤ مرجح ہے۔

  • (4) جز، جزو

جز، جزو بمعنی ٹکڑا، دونوں صحیح ہیں، اور اردو میں مستعمل ہیں، جیسے:

جُز رس جُز دان جُزوِ بدن

جز بمعنی "سوا" الگ لفظ بھی ہے، انھیں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے:

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
جُز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار


  • (5) روپیے، روپیہ

ان لفظوں کو کئی طرح لکھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ رائج املا روپیہ، روپے ہے، اور اسی کی سفارش کی جاتی ہے۔

  • (6) دُگنا، دو گنا

یہ دو الگ الگ لفظ ہیں، ان کو اسی طرح لکھنا چاہیے۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ مرکب الفاظ جن کا پہلا جز 'دو' ہے، مع واؤ لکھے جاتے ہیں، جیسے:

دوگنا دوآبہ دوآتشہ دوراہا دوچار دوپہر دورنگا دوسخنا

البتّہ کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن میں واؤ نہیں بولا جاتا، ان کا املا بغیر واؤ کے رائج ہے اور انہیں پیش ہی سے لکھنا صحیح ہے، مثلاً:

دُگنا دُلائی

  • (7) واؤ معدولہ

اردو میں واؤ معدولہ دو طرح سے آتا ہے، اوّل ایسے الفاظ میں جہاں واؤ کے بعد الف ہے، ان لفظوں میں یہ دُہرا مصوّتہ (diphthong) ہے، اور واؤ کا تلفظ پیش کا سا ہوتا ہے، جو بعد میں آنے والے الف کے ساتھ ملا کر بولا جاتا ہے، جیسے:

خواب خواجہ خواہش خوار خواہ
خدا نخواستہ استخواں افسانہ خواں درخواست

الف والے الفاظ میں واؤ معدولہ کا صوتی ماحول طے ہے، اور تلفّظ میں کسی مغالطے کا امکان نہیں، البتّہ خود، خوش جیسے الفاظ میں (جو تعداد میں بہت کم ہیں) ابتدائی کتابوں کے لیے چھوٹی لکیر کی علامت کو اپنایا جا سکتا ہے، جیسے:

خود خوش خودی خورشید خورد

ہائے خفی[ترمیم]

  • (1) بھروسہ، بھروسا

ہائے خفی کئی مستعار الفاظ کے آخر میں آتی ہے (غنچہ، کشتہ، درجہ، پردہ، زردہ، دیوانہ، شگفتہ، جلسہ)، دیسی لفظوں کے آخر میں الف ہوتا ہے (بھروسا، گملا، اکھاڑا، اڈّا، دھبّا، انڈا)۔ ہائے خفی حرف نہیں، ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرفِ ما قبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ "اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں اور یہ دیسی الفاظ کے آخر میں نہیں آ سکتی"۔ واقعہ یہ ہے کہ چند دیسی الفاظ میں آخری مُصوّتے (حرفِ صحیح) کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے اردو املا میں سوائے خفی ہ کے کسی اور علامت سے مدد لی ہی نہیں جا سکتی۔ جیسے روپیہ، پیسہ، نہ، پہ، البتّہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کا یہ قول صحیح ہے کہ اردو والوں نے مختفی ہ کی اصلیت کو بھُلا دیا اور ٹھیٹھ اردو لفظوں میں مختفی ہ لکھنے لگے۔ چنانچہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام دیسی لفظوں کو جو دوسرے الفاظ کی نقل میں خواہ مخواہ خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے:

بھروسا اڈّا سندیسا ٹھیکا بھُوسا آرا راجا آنولا

دھوکا ڈاکیا بتاشا بٹوا بیڑا باجا بلبلا بنجارا

پانسا پٹاخا پٹارا پٹرا پھاوڑا پھیپھڑا نگوڑا توبڑا

جالا ٹھپّا ٹڈّا پھندا ہنڈولا کٹورا چبوترا چٹخارا

دھندا رجواڑا چٹکلا موگرا دسہرا ڈبیا خراٹا سانچا

سہرا کھاجا کیوڑا گھونسلا

تکیہ عربی اور دربیہ فارسی لفظ ہے اور یہ ہائے مختفی سے صحیح ہیں۔ آریہ اور چاولہ دیسی الفاظ ہیں، لیکن ان کا املا ہائے خفی سے اس حد تک رائج ہو چکا ہے کہ انھیں مستثنیٰ سمجھنا چاہیے۔

  • (2) تصریفی الفاظ

وہ تمام تصریفی شکلیں جن میں عربی، فارسی کا کوئی جز ہو لیکن اس کی تہنید ہو چکی ہو، الف سے لکھنی چاہییں:

چوراہا بال خورا چھماہا بے فکرا نو دولتا کبابیا بسترا دسپنا

سترنگا نصیبا دو رُخا خون خرابا تھکا ماندا شیخی خورا خوجا

البتہ ذیل کے الفاظ ہ سے مرجح ہیں:

نقشہ خاکہ بدلہ مالیدہ امام باڑہ ہرجہ خرچہ غنڈہ غبّارہ

آب خورہ یک منزلہ تولہ ماشہ زردہ سموسہ زنانہ

  • (3) یورپی الفاظ

یورپی زبانوں سے آیا ہوا جو لفظ جس طرح مستعمل ہو، اس کے رائج املا کو صحیح ماننا چاہیے، البتّہ جو لفظ رواج میں نہیں، انھیں الف سے لکھنا مناسب ہو گا:

کمرہ ڈراما فرما سوڈا

  • (4) پٹنہ، آگرہ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس قول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ "شہروں (ملکوں، جگہوں) کے ناموں کو اس طرح لکھا جانا چاہیے جس طرح وہ رائج ہیں":

آگرہ کلکتہ پٹنہ باندہ ٹانڈہ امروہہ انبالہ

ہمالہ، ہمالیہ، افریقہ، امریکہ اور مرہٹہ کو بھی ناموں کی فہرست میں شامل سمجھنا چاہیے۔

  • (5) دانا، دانہ

ذیل کے جوڑوں میں سب حروف مشترک ہیں، سوائے آخری حرف کے، یعنی پہلے لفظ میں آخری حرف الف ہے اور دوسرے میں ہائے خفی۔ یہ الگ الگ لفظ ہیں اور ان کے الگ الگ معنی ہیں۔ چنانچہ ان کے املا کا تعیّن ان کے معنی سے ہو گا:

دانا (جاننے والا، عقل مند) : دانہ (بیج، مال، دانۂ گندم)

چارا (مویشیوں کی خوراک) : چارہ (علاج، مدد)

خاصا (اضافے کے معنی میں، جیسے: اچھا خاصا) : خاصّہ (طبیعت، عادت) / خاصہ (عام کی ضد، امیروں کا کھانا)

پارا (سیماب) : پارہ (ٹکڑا، حصّہ)

لالا (لقب) : لالہ (گُلِ لالہ)

نالا (بڑی نالی) : نالہ (نالہ و فریاد)

پتّا (درخت کا پتّا) : پتہ (نشان، مقام)

نا (کلمۂ نفی) : نہ (مخّفف کلمۂ نفی)

آنا (مصدر) : آنہ (پُرانے روپے کا سولھواں حصّہ)

  • (6) پردے، جلوے (مُحرّف شکلیں)

جب ہائے خفی والے الفاظ (پردہ، عرصہ، جلوہ، قصّہ) محرّف ہوتے ہیں تو تلفّظ میں آخری آواز 'ے' ادا ہوتی ہے۔ املا میں بھی تلفّظ کی پیروی ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کی مُحرّف شکلوں میں 'ے' لکھنی چاہیے:

بندے (کا) پردے (پر) عرصے (سے) لوے (کی) مے خانے (تک)

افسانے (میں) غصّے (میں) مدرسے (سے) مرثیے (کے)

  • (7) موقعہ، معہ

مندرجہ ذیل لفظوں میں ہائے خفی کا اضافہ اب غلط ہے، ان کا صحیح املا یوں ہے:

موقع مع مصرع بابت آیت

  • ( 8 ) سنہ، سِن

سنہ بمعنی 'سال' کو اکثر بغیر ہ کے سن لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ سنہ بمعنی سال ہائے خفی سے ہے، جیسے سنہ 1857 یا سنہ ہجری یا سنہ عیسوی

سِن کے معنی 'عمر' کے ہیں۔ یہ لفظ بغیر ہ کے ہے۔

برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن


  • (9) جگہ، توجّہ، بہ، تہ

ایسے الفاظ میں اگر ہائے ملفوظ یعنی جو ہائے آواز دیتی ہو، اور ہائے خفی یعنی جو ہائے آواز نہ دیتی ہو، اُن کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہو تو اس کے نیچے شوشہ لگایا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کی ضرورت نہیں، جیسے:

'بہنا' مصدر سے 'بہہ'

'سہنا' مصدر سے 'سہہ'

'کہنا' مصدر سے 'کہہ'

  • (10) کہ، یہ

کہ (کافِ بیانیہ) اور یہ میں ہ کی آواز عموماً ادا نہیں ہوتی یا بہت کمزور ادا ہوتی ہے۔ یہ کہ یہہ لکھنے پر اصرار کرنا خواہ مخواہ کا تکلّف ہے کہ اور یہ کو ہ کی لٹکن کے بغیر لکھنا ہی مناسب ہے۔

ہائے مخلوط[ترمیم]

  • (1) کچھ، کچہہ ؛ مجھ ،مجہہ

ایک زمانے میں اردو میں ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ کے لیے کسی صورت کا تعیّن نہیں تھا۔ عربی اور فارسی میں تو ہکار آوازیں ہیں ہی نہیں؛ اس لیے کسی خلطِ مبحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اردو کا معاملہ دوسرا ہے۔ ہند آریائی زبان ہونے کے ناتے بخلاف عربی اور فارسی کے اردو میں ہکار آوازوں کا پورا سیٹ موجود ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگرچہ الگ سے حروف نہیں، لیکن یہ مواقعہ ہے کہ پھ، بھ، تھ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، جھ، چھ، کھ اور گھ اردو کی بنیادی آوازیں ہیں۔ نیز رھ، لھ، مھ، نھ، وھ اور یھ میں بھی ہکاریت کا شائبہ ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگر ہائے مخلوط کو مخصوص نہ کر دیا جائے تو ایک طرح کی بے راہ روی پھیلتی ہے مثلاً ہے اور ھے، چاہیے اور چاھیے دونوں املا رائج ہیں۔ یہاں تک کہ گھر اور گہر، مجھ کو اور مجہکو، ساتھ اور ساتہہ، کچھ اور کچہہ، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھین اور بہن، دھلی اور دہلی، بھاری اور بہاری میں بھی ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اگرچہ دھ، ڈھ، ڑھ، لکھنے میں دو حروف ہیں لیکن ایک ہی آواز ادا کرتے ہیں، اس لیے ان کو ملا کر لکھنا چاہیے: دھ، ڈھ، ڑھ (لفظوں کی شکلیں یہ ہوں گی: دھ ن، دھ ر تی، پڑھ نا) ان حروف کا ایک آواز کو ادا کرنا تسلیم، لیکن اردو میں متعدّد مصوّتے ایسے ہیں جنھیں (لفظ کے شروع میں) ایک سے زائد حروف سے لکھنا پڑتا ہے: ایک، اور، ایکھ، اون، اوج، وغیرہ۔ چنانچہ ہماری رائے ہے کہ د، ڈ، ڑ کے ساتھ ہائے مخلوط کو ملا کر لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ چلن میں بھی نہیں آئی۔ البتہ یہ اصول واضح طور پر اپنا لینا چاہیے کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے ستاھ مخصوص کر دیا جائے، اور ان تمام لفظوں میں جہاں یہ آوازیں آئیں، تلفظ کی پیروی میں ان کو ہائے مخلوط یعنی ہائے دو چشمی سے لکھنا چاہیے:

پھول، بھول، بھاری، جھاڑ، پھاڑ، پتھر، بھر، پھر، دکھ، سکھ، دودھ، گھوڑا، چھتری،

گھونٹ، جھوم، بھانڈ، پھونک، تھوڑا، پڑھ، بڑھ، مجھ، تجھ، کچھ، پھلجڑی

  • (2) گیارھواں، تمھارا

اردو میں رھ، لھ، مھ، نھ، وھ، یھ میں بھی ہائے مخلوط کا اثر ملتا ہے اس لیے ذیل کے الفاظ کو ہائے مخلوط ہی سے لکھنا چاہیے:

گیارھواں، بارھواں، کولھو، کلھڑ، تمھارا، کمھار، ننھا، ننھیال

کب، جب، سب، نیز ان، جن، تم وغیرہ کے ساتھ جب 'ہی' ملا کر بولا جاتا ہے تو ہائے مخلوط کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایسے تمام لفظوں کو بھی ہائے مخلوط سے لکھنا مناسب ہے:

ابھی، کبھی، جبھی، سبھی، تمہاری، انھیں، تمھیں، جنھیں

  • (3) بھابھی، بھابی

اردو میں وہ الفاظ جن میں دو ہائے مخلوط آتی ہیں، دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی نہ کسی طرح کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے بھن بھناہٹ، چھن چھناہٹ، تھر تھراہٹ، جھل جھلاہٹ، یہ صوتی الفاظ ہیں۔ ان میں اجزا کی تکراری نوعیت چونکہ کسی نہ کسی حسّی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں دونوں ہائے مخلوط (ہکاریت) جزو اصلی ہی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کو جوں کا توں لکھنا چاہیے:

جھن جھناہٹ، جھن جھنانا، تھر تھراہٹ، تھر تھرانا، کھڑ کھڑاہٹ، کھڑ کھڑانا، بھن بھناہٹ، بھن بھنانا، چھن چھناہٹ، چھن چھنانا، کھٹ کھٹاہٹ، کھٹ کھٹانا

لیکن بعض مفرد الفاظ میں دوسری ہائے مخلوط زائل ہو جاتی ہے، جیسے بھابھی، بھابی۔

ایسے الفاظ کو ایک ھ سے لکھنا مرجح ہے:

بھابی، پھوپی، بھبوکا، ڈھیٹ، بھبکی، بھبک، بھنبوڑنا، گھونگا، گھنگرو

  • (4) ھے، ہے

بعض لوگ فارسی کی نقل میں، یا محض اپنی پسند کے طور پر لفظ کے وسط یا شروع میں آنے والی ہائے ہوّز کو لٹکن والی ہ کے بجائے دو چشمی ھ سے لکھتے ہیں۔ یہ اصول کے خلاف اور غلط ہے:

غلط: ھے، ھوا، ھندوستان، دھلی، ھمیشہ

صحیح: ہے، ہوا، ہندوستان، دہلی، ہمیشہ

ہمزہ[ترمیم]

عربی میں ہمزہ ایک مستقل آواز ہے۔ اردو میں اس کی وہ صوتی حیثیت نہیں تا ہم اردو میں ہمزہ عربی سے ماخوذ لفظوں کے علاوہ بہت سے دیسی لفظوں کے املا میں بھی استعمال ہوتا ہے (جیسے آؤں، جاؤں، کھائے، پائے، لکھنؤ، کیکئی)، چنانچہ اردو املا کا تصور ہمزہ کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط نے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی تجویز پر سفارش کی تھی۔ ہمزہ جب کسی منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے آءو، آءی، جاءو، آءیں، آءِیں، بھاءی، سوءیں، سناءیں، ماءِل، گھاءِل، داءِر، تاءید، داءِرے، جاءِزہ، رعناءی۔ لیکن یہ رائج نہیں ہو سکا۔ ہمزہ حرف یا شوشے کے اوپر ہی لکھا جاتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں، چنانچہ اسی طریقے کو قبول کر لینا چاہیے۔ البتی اردو میں ہمزہ کے استعمال میں جو بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، اُن کو ذیل کے اصول اپنا لینے سے دور کیا جا سکتا ہے۔

  • (1) ہمزہ کا استعمال

اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے: جس لفظ میں بھی دو مُصوّتے (حرفِ علّت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی آوازیں (پوری یا جزوی) دیں، وہاں ہمزہ لکھا جائے، جیسے:

کو+ئی، جا+ئے، کھا+ؤ، دکھا+ئیں، نا+ئی، لکھن+ؤ، غا+ئب، فا+ئدہ، جا+ؤں، جا+ئز

اس بات کو بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اردو میں ہمزہ لفظ کے درمیان الف متحرک کا قائم مقام ہے۔ (مثلاً عزرا+ئیل، سا+ئیس، جا+ئز، جا+ؤں، وغیرہ)

  • (2) ہمزہ اور الف

عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے:

ابتداء، انتہاء، املاء، انشاء، شعراء، حکماء، ادباء، علماء، فقراء، وزراء

اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔ اس لیے انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا چاہیے:

ابتدا، انتہا، املا، انشا، شعرا، حکما، ادبا، علما، فقرا، وزرا

البتہ اگر ایسا لفظ کسی ترکیب کا حصہ ہو تو ہمزہ کے ساتھ جوں کا توں لکھنا چاہیے:

انشاء اللہ، ضیاءُ الرحمٰن، ذکاءُ اللہ، ثناءُ الحق، ثناءُ اللہ، بہاءُ اللہ، ضیاءُ الدین، علاءُ الدین

  • (3) جُرّات، تَاثُّر، مورِّخ، موثِّر

عربی میں ان الفاظ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے۔ اگر عربی کی تقلید کرتے ہوئے ایسے الفاظ پر ہمزہ لکھا جائے (جیسے جُرّأت، تَأثُّر، تأسُّف، مؤرِّخ، تأمُّل) تو اسے اردو میں غلط نہ سمجھا جائے۔ لیکن ہماری سفارش یہ ہے کہ یہ لفظ اردو میں چونکہ بیشتر ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا بھی صحیح سمجھا جائے:

جرّات، تاثّر، تاسّف، مورّخ، تامّل، متاثّر، موثّر، متاہّل، موذّن، مودّب، مونّث

  • (4) ہمزہ اور واؤ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے افعال آؤ، جاؤ اور حاصل مصدر بناو (سنگھار) اور (رکھ) رکھاو کے تلفظ میں فرق کیا ہے اور حاصل مصدر بناو، رکھاو وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کی سفارش کی ہے، ہماری رائے ہے کہ ہندی میں تو بے شک ایسے لفظ آخری واؤ سے بولے جاتے ہیں، لیکن اردو بول چال میں افعال آؤ، جاؤ، پاؤ، کھاؤ اور حاصل مصدر بناؤ، پاؤ (سیر)، رکھاؤ، بچاؤ ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں، یعنی ان سب میں دوہرے مصوّتے کی آواز آتی ہے۔ اس لیے ان کا فرق غیر ضروری ہے اور یہی چلن بھی ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لفظوں میں ہمزہ لکھنا چاہیے:

اسما: الاؤ، اود بلاؤ، پلاؤ، تاؤ، چاؤ، راؤ، گاؤ، باؤ گولا، گھماؤ

حاصل مصدر: بچاؤ، بہاؤ، پتھراؤ، بہاؤ، دباؤ، گھماؤ، پھراؤ، الجھاؤ، چھڑکاؤ، چناؤ، جھکاؤ، سمجھاؤ، بناؤ سنگار، بھاؤ، تاؤ، گھاؤ، جماؤ (جماؤ امر اور جماؤ حاصل مصدر کی آواز میں کوئی فرق نہیں)

امر: (امر کی سب شکلیں ہمزہ کے ساتھ صحیح ہیں) آؤ، جاؤ، لاؤ، کھاؤ، اڑاؤ

  • (5) پانو، چھانو؛ پاؤں، چھاؤں

ان الفاظ کی بحث کے لیے ملاحظہ ہو "نون اور نون غُنّہ" کی ذیلی سرخی نمبر 5

  • (6) ہمزہ یا ی

ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے، یا کئی، گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے، لیکن کیے، لیے، اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعلان کی ی (نیم مصوّتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چاہِ+یے، لِ+یے، دِ+یے میں بالتّرتیب ہ، ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مصوّتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے مخرج سے گزرتی ہے، جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا لازمی ہے۔ اس کے بر عکس کَ+ئی، گَ+ئے، گَ+ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئے ہیں، اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئیں، وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا:

اگر حرفِ ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا، ی لکھی جائے گی، جیسے کِیے، دِیے، لِیے، جِیے، سنیے، چاہِیے

فعل کی تعظیمی صورتیں دیجِیے و لیجِیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی:

دیجِیے، لیجِیے، کیجِیے، اُٹھیے، بولِیے، بیٹھِیے، کھولِیے، تولِیے

باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔

وہ تمام فعل جن کے مادّے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے، اس اصول کے تحت ہمزہ سے لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک حرفِ علّت تو مادّے کا، دوسرا تعظیمی لاحقے اِیے کا، (فرما اِیے، جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں، اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز پیدا ہو جاتا ہے:

فرمائیے، جائیے، آئیے، کھوئیے، سوئیے

اسی طرح گئے، گئی، نئے میں یائے سے پہلا حرف مفتوح ہے۔ چنانچہ ان لفظوں کو بھی ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔

  • (7) ہمزہ اور ے

ذیل کے الفاظ میں الف اور یائے دوہرے مصوّتے کے طور پر بولے جاتے ہیں، اس لیے ان میں ہمزہ لکھنا صحیح ہے:

گائے (اسم)، گائے (گانا سے)، پائے (اسم)، پائے (پانا سے)، رائے (بہادر)، رائے (صاحب)، چائے

(اردو بول چال میں گائے (اسم) اور گائے (مضارع گانا سے) کے تلفظ میں کوئی فرق نہیں)

ذیل کے لفظ بھی بالعموم دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں، اس لیے ان کو بھی ہمزہ سے لکھنا مناسب ہے:

جائے، بجائے، سوائے، نائے، سرائے، رائے (عامّہ)، واؤ، یائے

  • ( 8 ) آزمائش، نمائش

فارسی کے وہ حاصل مصدر جن کے آخر میں ش ہوتا ہے، اردو میں دوہرے مصوّتے کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔ فارسی میں البتہ آزمایش، نمایش لکھنا مناسب ہے، لیکن اردو میں ان کے تلفظ میں ی کی آواز کا شائبہ تک نہیں۔ اردو میں ان کو ی سے لکھنے پر اصرار کرنا محض فارسی کی نقّالی ہے۔ اردو میں ان الفاظ کو ہمزہ سے لکھنا ہی صحیح ہے، اور چلن بھی یہی ہے:

آزمائش، نمائش، آسائش، ستائش

اسی طرح ذیل کے الفاظ کو ی سے لکھا جاتا ہے۔ ان کا صحیح املا ہمزہ ہی سے ہے:

آئندہ، نمائندہ، پائندہ، نمائندگی، سائل، شائع، شائق، قائم، دائم، مائل

  • (9) ہمزہ اور اضافت

ہمزہ اور اضافت کے تین نہایت آسان اصول درج کیے جاتے ہیں جو لفظوں کی تمام صورتوں کو کافی ہیں:

1۔اگر مضاف کے آخر میں ہائے خفی ہے تو اضافت ہمزہ سے ظاہر کرنی چاہیے:

خانۂ خدا، جذبۂ دل، نغمۂ فردوس، نالۂ شب، نشۂ دولت، جلوۂ مجاز، تشنۂ کربلا، نذرانۂ عقیدت

2۔ اگر مضاف کے آخر میں الف، واؤ یا یائے ہے تو اضافت ئے سے ظاہر کرنی چاہیے:

اردوئے معلیٰ، صدائے دل، نوائے ادب، کوئے یار، بوئے گل، دعائے سحری، دنیائے فانی، گفتگوئے خاص

بعض حضرات ایسی ترکیبوں میں ہمزہ استعمال نہیں کرتے لیکن در حقیقت مضاف اور مضاف الیہ یا موصوف اور صفت کی درمیانی آواز جو مختصر مصوّتہ ہے، وہ ما قبل کے طویل مصوّتے (الف یا واؤ) سے مل کر دوہرا مصوّتہ بن جاتا ہے۔ اصول ہے کہ جہاں دوہرا مصوّتہ ہو گا وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔ چنانچہ ایسی ترکیبوں میں ہمزہ لکھا جائے گا جو چلن ہے، اسے جائز سمجھنا چاہیے۔ البتہ فارسی کا معاملہ الگ ہے۔

(فارسی میں نوای ادب یا بوی گل لکھنا صحیح ہے۔)

ی یا ے پر ختم ہونے والے الفاظ بھی اسی طرح ہمزہ ہی سے مضاف ہوں گے کیونکہ یہ بھی دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں:

شوخئ تحریر، زندگئ جاوید، رنگینئ مضمون، مئے رنگین، رائے عامّہ، سرائے فانی، تنگ نائے غزل، والئ ریاست، گیسوئے شب

3۔ باقی تمام حالتوں میں اضافت کسرہ سے ظاہر کی جائے گی، جیسے:

(الف) مصمتوں یعنی حرف صحیح پر ختم ہونے والے الفاظ:

دلِ درد مند، دامِ موج، گلِ نغمہ، آہِ نیم شبی، ماہِ نو، لذتِ تقریر، نقشِ فریادی، دستِ صبا، دودِ چراغِ محفل، حسنِ توبہ شکن، شمعِ روشن، طبعِ رسا، شعاعِ زریں، نفعِ بے بہا

(ب) نیم مصوّتہ واؤ پر ختم ہونے والے الفاظ:

ذیل کے الفاظ جب مضاف ہوتے ہیں تو آخری واؤ چونکہ نیم مصوّتے کے طور پر ادا ہوتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں اضافت کو کسرہ سے ظاہر کرنا چاہیے:

پرتوِ خیال، جزوِ بدن، ہجوِ ملیح، عفوِ بندہ نواز

(ج) ہمزہ جزوِ آخر

درج ذیل الفاظ جن میں ہمزہ لفظ کے آخر میں آتا ہے، ان میں اضافت کو ہمزہ کے بعد کسرہ لگا کر ظاہر کرنا مناسب ہے:

سوءِ ظن، مبدءِ اوّل، سوءِ ہضم، سوءِ ادب

لیکن سوئے ظن، سوئے ہضم، سوئے ادب وغیرہ کو غلط نہ سمجھا جائے۔

  • (10) ہمزہ اور واؤ عطف

عطف کے واؤ پر کسی بھی صورت ہمزہ نہیں لکھا جاتا:

وفا و جفا، ہوا و ہوس، زندگی و موت، مے و جام، سادہ و پرکار، شمع و پروانہ

  • (11) ہُوا (ہونا کا ماضی)

اس میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ ہیں (و+ا)۔ قدیم املا میں ہمزہ ملتا ہے لیکن اب رائج نہیں، اس لیے اس لفظ کا صحیح املا بغیر ہمزہ مان لینا چاہیے۔

اعداد[ترمیم]

1. لفظ دونوں یا دونو نون غنّہ کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کا صحیح املا نون غنہ کے ساتھ ہے، یعنی دونوں، تینوں، چاروں وغیرہ

2. لفظ چھ کا املا کئی طرح کیا جاتا ہے، چھ، چھہ، چھے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے چھے کی سفارش کی تھی لیکن چھے رائج نہیں ہو سکا۔ چلن میں اس لفظ کا املا چھ ہے، اور اسی کو صحیح مان لینا چاہیے۔

3. گیارہ سے اٹھارہ تک گنتیوں کے آخر میں ہائے خفی ہے۔ اس لیے ان کے آخر میں ہمیشہ ہ لکھنی چاہیے۔ بعض لوگ ان کا تلفظ نون غنہ سے کرتے ہیں (جیسے گیاراں) یہ لہجہ معیاری نہیں۔ صحیح املا گیارہ، بارہ، تیرہ۔۔۔ ہے۔

4. جب یہ گنتیاں اعدادِ صفی میں تبدیل ہوتی ہیں تو ہائے خفی ہائے مخلوط میں بدل جاتی ہے، یعنی: گیارھواں، بارھواں، تیرھواں۔۔۔

5. اسی طرح اعدادِ تاکیدی بھی ہائے مخلوط سے لکھنے چاہییں: گیارھواں، بارھواں، تیرھواں۔۔۔

6. انتیس اور اکتیس ی سے صحیح ہیں۔

7. اکتالیس سے اڑتالیس تک کی گنتیوں میں لام کے بعد کی ی ضرور لکھنی چاہیے: اکتالیس، بیالیس، پینتالیس۔۔۔

8. ذیل کے اعداد کبھی نون غنہ کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر بولے جاتے ہیں۔ ان کو نون غنّہ کے ساتھ لکھنا صحیح ہے: تینتیس، چونتیس، پینتیس، سینتیس، پینتالیس، سینتالیس، پینسٹھ

9. اسی طرح 51، 81، 91 کو کبھی بہ اضافہ ی اور کبھی اس کے بغیر لکھتے ہیں۔ انھیں ی سے لکھنا ہی صحیح ہے: اکیاون، اکیاسی، اکیانوے

10. لفظ سیکڑا نون غنّہ کے ساتھ بھی مروّج ہے۔ لیکن اسے بیشتر نون غنّہ کے بغیر لکھتے ہیں، اور یہی مرجح ہے۔

11. 85، 95، 99 میں بعض لوگ الف سے پہلے ی بولتے ہیں، لیکن ان گنتیوں کا ترجیحی املا پچّاسی، پچّانوے اور ننّانوے ہے۔

12. اعداد وصفی بناتے ہوئے اگر عدد مصمتے پر ختم ہو رہا ہے تو اسے ملفوظی طور پر لکھنے میں کوئی دقّت نہیں، مثلاً چوبیسواں، اڑتیسواں، باسٹھواں، اٹھتّرواں، لیکن جو عدد مصوّتے پر ختم ہوتے ہیں، بالخصوص 97 سے 99 تک کی گنتیاں۔ ان کے اعداد وصفی بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر 'واں' یا 'ویں' بڑھا دیا جائے۔ گویا 97 واں یا 97 ویں، 98 واں یا 98 ویں، 99 واں یا 99 ویں۔

13. سو سے آگے (یا سو کے دیگر تمام یونٹوں) کی وصفی گنتیوں کو بھی ہندسہ لکھ کر 'واں' یا 'ویں' کے اضافے سے لکھنا مناسب ہے۔

14. ہزاروں،لاکھوں، کروڑوں، اربوں تو ملفوظی طور پر ہی لکھنا مناسب ہیں، لیکن بڑے اعداد مثلاً 1،720،615 کو وصفی صورت میں ہندسے کے بعد واں یا ویں کے اضافے سے لکھنا ہی مناسب ہو گا۔ (یعنی "1،720،615 واں")

لفظوں میں فاصلہ اور لفظوں کو ملا کر لکھنا[ترمیم]

  • (1) ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی تجویزات

لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر لکھنے کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی ان تجویزوں کو مان لینا چاہیے:

(الف) لفظوں کے درمیان فاصلہ رکھا جائے اور یہ فاصلہ یکساں ہو۔ نیز یہ فاصلہ اس فاصلے سے زیادہ ہو جو ایک ہی لفظ کے دو ٹکڑوں کے بیچ میں رکھا جائے۔

(ب) ایک لفظ کے اوپر دوسرا لفظ یا ایک حر کے اوپر دوسرا حرف کسی حالت میں نہ لکھا جائے۔

البتہ مرکبات کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی تجویز کہ "مرکب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھ جاویں، بل کہ ہمیشہ الگ الگ لکھے جائیں" قابلِ قبول نہیں، کیونکہ دو یا دو لفظوں سے مل کر بننے والے لفظ کئی طرح کے ہیں۔ اس بارے میں مرکبات اور مشتقات میں فرق کرنا ضروری ہے، مرکبات میں استعمال ہونے والے الفاظ صرفیے (free morphemes) ہوتے ہیں، مثلاً خوب صورت، خوش مذاق، گل بدن، دل لگی، ان میں سے ہر لفظ آزادانہ استعمال ہو سکتا ہے، اور الگ سے اپنے معنی رکھتا ہے۔ چنانچہ اصولی طور پر مرکبات میں لفظوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، لیکن مشتقات کا معاملہ دوسرا ہے۔

مشتقات سابقوں یا لاحقوں کے ملانے سے بنتے ہیں۔ بہ، بے، سار، گار، وار، زار، گر، گسار، بان، آن، رساں، ساں، گیں، پن، لا، وغیرہ آزاد صرفیے نہیں، پابند صرفیے (bound morphemes) ہیں۔ یہ تنہا استعمال نہیں ہو سکتے، اور تنہا طور پر اردو میں کوئی معنی نہیں رکھتے، جب الگ سے ان کے کوئی معنی نہیں تو ان کو الگ لکھنے کی سفارش کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اصولی بات یہی ہے کہ تمام مشتقات کو ملا کر لکھنا چاہیے، لیکن دشواری یہ ہے کہ اردو میں مشتقات کی بعض شکلوں کو ملا کر لکھنے کا چلن نہیں۔ مثلاً شاندار، جہاندار، زمیندار، خریدار، دلدار، تھانیدار تو ملا کر لکھے جاتے ہیں، لیکن ایمان دار، مہمان دار، دکان دار، چمک دار، کانٹے دار، لچھے دار میں دار الگ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ دستگیر، دلگیر، جہانگیر، عالمگیر ملا کر لکھے جاتے ہیں، لیکن آفاق گیر، ملک گیر، دامن گیر، کف گیر میں گیر الگ لکھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں چلن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس بارے میں اصول یوں ہو سکتے ہیں:

  • (2) مرکبات

مرکبات میں جہاں تک ہو سکے، الفاظ کو الگ الگ لکھنا چاہیے:

خوب صورت، خوش رنگ، نیک بخت، گل بدن، آج کل، دل لگی، گل دستہ، ہم رنگ، جفا شعار، توپ خانہ، بت خانہ، فن کار، گل کاری، قلم کار، دست کار، عدم آباد

لیکن کچھ مرکب الفاظ کو ملا کر لکھنے کا چلن راسخ ہو چکا ہے، مثلاً شبنم، دستخط۔ ان کو اسی طرح لکھنا مناسب ہے۔

"پیچیدہ" ایک لفظ ہے، اس کو آج کل بعض لوگ "پے چیدہ" لکھتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔

  • (3) مشتقات

مشتقات کو اصولی طور پر جہاں تک ممکن ہو، ملا کر لکھنا چاہیے، البتہ جن لفظوں کو الگ سے لکھنے کا چلن ہے، انھیں الگ ہی لکھا جائے:

کمتر، بیشتر، ستمگر، پیشتر، پاسبان، جانور، تاجور، کرخندار، زمیندار، شاندار، دلدار، خریدار، دستگیر، جہانگیر، عالمگیر، دلگیر، خاکسار، دلکش، باغیچہ، غالیچہ، بچپن، لڑکپن، غمگین، سرمگیں

  • (4) سابقہ "اَن"

سابقہ "ان" کو اردو میں الگ سے لکھنے کا چلن ہے:

ان پڑھ ان گھڑ ان جان * ان گنت

(پاکستان میں اس لفظ کا املا "انجان" مروج ہے۔)

  • (5) سابقہ "بے"

سابقہ "بے" کو زیادہ تر الگ ہی لکھا جاتا ہے:

بے ریا، بے خوف، بے مزا، بے تحاشا، بے حساب، بے بس، بے رخی، بے ثبات، بے خواب، بے جان، بے رحم، بے ایمان، بے گناہ، بے دھڑک، بے گھر، بے آسرا، بے ڈھنگا، بے کیف

البتہ کئی الفاظ کو ملا کر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:

بیکار، بیشک، بیگانہ، بیباک، بیتاب، بیوقوف، بیدخل، بیخود، بیدل، بیدم، بیہوش، بیکل

  • (6) لاحقے "بہ"، "چہ"، "کہ"

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی سفارش کہ "فارسی لفظ بہ، چہ، کہ وغیرہ جو کبھی ملا کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں، اردو عبارت میں الگ لکھے جائیں" قابلِ قبول نہیں۔ اس لیے کہ اول تو یہ تمام پابند صرفیے ہیں، دوسرے ان میں سے بعض لاحقے ایسے الفاظ میں آتے ہیں جو جملوں کو ملانے کے لیے کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، اور جن کی ملی ہوئی شکلیں اس حد تک چلن میں آ چکی ہیں کہ ان کو بدلنا آسان نہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ انھیں ملا کر ہی لکھا جائے۔ چنانچہ اس بارے میں اصول یہ ہوا: بہ، چہ، کہ لاحقے ہیں اور مشتقات میں البتہ کئی الفاظ میں بے کو ملا کر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:

بلکہ، کیونکہ، چونکہ، چنانچہ، جبکہ، بخوبی، بہرحال، بدستور، بخدا، بدقّت، بدولت، باندازِ خاص، غرضیکہ، حالانکہ، بشرطیکہ

  • (7) مجھکو، مجھ کو

بعض اوقات ضمائر کو کلماتِ جار کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے، مثلاً مجھکو، تجھکو، اسنے، اسلیے۔ انھیں غلط تو نہیں کہا جا سکتا البتہ انھیں الگ سے لکھنا مرجح ہے یعنی مجھ کو، تجھ کو، اس نے، اس لیے، مجھ سے، ہم پر، جس کا، وغیرہ۔ اسی طرح کے لیے، کے واسطے، جب تک، کیوں کر، جان کر، وغیرہ کو بھی ملا کر نہیں لکھنا چاہیے۔

  • ( 8 ) گا، گے، گی

گا، گے، گی کو افعال کے ساتھ ملا کر نہیں، بلکہ الگ الگ لکھنا چاہیے:

جائے گا، آئیں گے، پڑھے گا، کھائیں گے، چاہیں گے، لکھے گی

  • (9) انگریزی اور یورپی الفاظ

انگریزی اور یورپی الفاظ جس طرح اردو میں رائج ہیں، ویسے ہی لکھنے چاہییں، البتہ کوئی نیا لفظ ہو تو اس کے لیے صوتی اجزا کو الگ الگ لکھنا مناسب ہو گا:

یونیورسٹی، گلکرسٹ، کانفرنس، پارلیمنٹ، انسٹی ٹیوٹ، ٹیلیفون، ریڈیو، انسپکٹر، ڈاکٹر، مسٹر، مسز، اسٹیشن، میونسپلٹی، ٹیلیگراف، ٹیلیگرام

سیمینار کو سے می نار لکھنا درست نہیں۔ ہاں مندرجہ ذیل الفاظ کے اجزا کو الگ الگ کر کے لکھنا مناسب ہے:

ہائی وے، ہائی جیکنگ، ٹیلی ویژن، ٹیلی کاسٹ، کاپی رائٹ، انڈی پنڈنٹ

پولیس کو آج کل بعض لوگ ہندی کی نقل میں پولس لکھتے ہیں جو غلط ہے۔

قرآنی معلومات[ترمیم]

قرآن کریم مسلمانوں کی آسمانی کتاب ہے اس کے بارے معلومات عالم اسلام کے لئے اہمیت رکھتی ہیں۔

اعداد و شمار[ترمیم]

سورتیں = 114 عدد عدد سور القرآن الكريم = 114 سورة پارے = 30 عدد حزب = 60 عدد رکوع = عدد

آياتیں = 6236 عدد

الفاظ = 77845 عدد حروف = 330733

مكی سورتیں ( جو مکہ میں نازل ہوئیں ) = 87 عدد مدنی سورتیں ( جو مدینہ میں نازل ہوئیں) = 27 عدد

نام مبارک محمد لیا گیا = 4 بار

  • سورة آل عمران میں ( وَمَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىَ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللّهَ شَيْئاً وَسَيَجْزِي اللّهُ الشَّاكِرِينَ ) آل عمران : 144
  • سورة الأحزاب میں ( مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيماً ) الأحزاب : 40
  • سورة محمد میں ( وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَآمَنُوا بِمَا نُزِّلَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَهُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ ) محمد : 2
  • سورة الفتح میں ( مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاء عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَاناً سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ) الفتح : 29

اور ایک بار نام احمد آیا ہے سورة الصف میں ( وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ فَلَمَّا جَاءهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ) الصف : 6

دیگر معلومات[ترمیم]

نازل ہونے والی پہلی سورت = سورة العلق

نازل ہونے والی آخری سورت = سورة النصر

نازل ہونے والی پہلی آیت = ( اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ) سورة العلق : 1

نازل ہونے والی آخری آیت = ( وَاتَّقُواْ يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ ) البقرة : 281 ، یا ( الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً ) المائدة : 3

سب سے لمبی سورت = سورة البقرة جس کی 286 آیات ہیں۔

سب سے چھوٹی سورت= سورة الكوثر جس کی 3 آیات ہیں۔

سب سے لمبی آیت = آیت قرض ہے جو سورة البقرة کی آیت نمبر 282 ہے۔

سب سے لمبی آیت = ( طه ) جو سورة طه کی پہلی آیت، اور ( حم ) جو، حواميم سورتوں کے اوائل میں ہے۔

اکلوتے مذکور صحابی = ( زید بن حارثہ ) سورۃ احزاب میں ( فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَراً زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَراً وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولاً ) الأحزاب : 37

اکلوتی مذکورہ خاتون = ( حضرت مریم علیہا السلام ) بہت سی سورتوں میں 34 بار آیا ہے۔

عدد الأنبياء الذين ذكروا في القرآن الكريم = 25 وهم ( آدم ، نوح ، إدريس ، إبراهيم ، إسماعيل ، إسحاق ، يعقوب ، إلياس ، ذو الكفل ، اليسع ، يونس ، يوسف ، هود ، صالح ، لوط ، أيوب ، داوود ، سليمان ، زكريا ، يحيى ، شعيب ، هارون ، موسى ، عيسى ) وخاتم الأنبياء محمد عليه وعلى جميعهم أفضل الصلاة والسلام .

الرجل الصالح الوحيد الذي ذكر في القرآن الكريم هو ( لقمان ) ويقال عنه أنه كان نبي والله أعلم

أكبر عدد في القرآن الكريم هو 100000 ( مائة ألف ) في قوله تعالى ( وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ ) الصافات : 147

أصغر عدد في القرآن الكريم هو 1/10 يعني عشر ، في قوله تعالى ( وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ فَكَذَّبُوا رُسُلِي فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ ) سبأ : 45

الكلمة التي تتوسط القرآن الكريم هي ( وليتلطف ) سورة الكهف : 19 ، أي عدد الكلمات التي قبلها يساوي عدد الكلمات التي بعدها

أسماء الملائكة الذين ذكروا في القرآن اثنين فقط وهم سيدنا جبريل وميكائيل في قوله تعالى ( مَن كَانَ عَدُوّاً لِّلّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ) البقرة : 98

السورة التي لم تبدأ ببسم الله الرحمن الرحيم هي : سورة التوبة

السورة التي ذكرت فيها بسم الله الرحمن الرحيم مرتين هي : سورة النمل

غزوات الرسول التي ذكرت في القرآن الكريم باللفظ هي غزوتان ( بدر ، حنين ) غزوة بدر في قوله تعالى ( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ فَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ) آل عمران : 123 وغزوة حنين في قوله تعالى ( لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئاً وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ ) التوبة : 25وهناك غزوات أخرى لكن لم تذكر لفظا مثل غزوة الأحزاب وغزوة أحد

الأيام التي ذكرت في القرآن يومان هما ( يوم الجمعة ويوم السبت ) يوم الجمعة في قوله تعالى ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِي لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) الجمعة : 9 ، أما يوم السبت ذكر في قوله تعالى عن اليهود ( واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعاً وَيَوْمَ لاَ يَسْبِتُونَ لاَ تَأْتِيهِمْ كَذَلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ ) الأعراف : 163

الألوان التي ذكرت في القرآن الكريم هي ( الأبيض والأسود والأحمر والأصفر والأزرق والأخضر)

السورة الوحيدة في القرآن التي يحتوي في كل آية منها على لفظ الجلالة هي ( سورة المجادلة )

1-كم مره ذكر الحيوان المعروف "بالعجل" في سوره البقرة ؟ 3مرات في الآيات (54,92,93)

2-ماهو الجبلين اللذين ذكر أسماؤهم في القران الكريم في ايه واحده؟ الصفا والمروة (إن الصفا والمروة من شعائر الله) البقره 158

3-ماهى السورالتى تسمى بمواقيت الصلاة؟ الفجر والعصر

4- ماهى أول خمس سور نزولا من القران الكريم؟ العلق ثم القلم ثم المرمل ثم المدثر ثم الفاتحة

5-هناك 10 سور مدنيه متتالية في المصحف فماهى ؟ الحديد –المجادلة – الحشر –الممتحنة –الصف – الجمعة – المنافقون –التغابن – الطلاق – التحريم

6-ماهى السورة التي بدأت وانتهت بالتسبيح؟ سوره الإنسان

7-كم مره وردت لفظه "بلى" في القران الكريم ؟ 22 موضع في القران الكريم

8-ماهو أول رقم ذكر في القران الكريم؟ أربعون (وإذ واعدنا موسى أربعين ليله) البقره 51

9-ماهى الألوان التى ذكرت في سوره البقره ؟ الأصفر –الأبيض- الأسود

10-ماهى أكثر الآيات في القران تكرارا؟ قوله تعالى (فباى ألاء ربكما تكذبان) وردت 31 مره فى سوره الرحمن

11-ماهى المعركة التى كانت سببا في تعجيل المسلمين بجمع القران؟ معركة اليمامة في حروب الردة

12-متى جمع عثمان بن عفان القران الكريم؟ سنه 25 هجريه

13-ماهو عدد حمله العرش في القران الكريم؟ ثمانية

14-متى وأين نزلت ايه التيمم ؟ نزلت بالبقيع سنه 6 هجريه

15- ماهى الايه التي ذكر فيها اسم مسجدين؟ (سبحان الذى أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام الى المسجد الأقصى) الإسراء 1

16-فيمن نزلت الايه (والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء)؟ أسماء بنت زيد

17-ماهى السور التى نزلت ورتبت في المصحف حسب ترتيب النزول؟ غافر –فصلت – الشورى- الزخرف – الدخان – الجاثية - الاحقاف

18-ماهى أسماء السور التى سميت بأسماء الأنبياء؟ يوسف –هود –إبراهيم – يونس – محمد

19-ماهو عدد الآيات المكية والمدنية ؟ الآيات المكية 4475 الآيات المدنية 1716


20-ماهى السورة التى تسمى بسوره "المراه"؟ سوره الممتحنة

21- ماهى الحشرة التى ذكرت في القران الكريم؟ البعوضة

22-ماهى السورة التى تسمى بسوره العقود؟ سوره المائدة

23-ماهى مده نزول القران الكريم فى كل من مكة والمدينة؟ فى مكة 12 سنه و9اشهر و13 يوما فى المدينة 9سنوات و9اشهر و9ايام

24-ماهو أكثر رقم تكرر في القران الكريم؟ الرقم واحد ثم الرقم سبعه

25-كم مره ذكر سيدنا موسى في سوره البقرة؟ 11 مره

26-كم مره ذكر اسم أمين السماء "جبريل" في القران الكريم؟ 3مرات(سوره البقرة ايتى 98.97 وسوره التحريم إيه 4)

27-ايهما ذكر أكثر في القران أكثر اسحق أم داوود غليهما السلام؟ إسحاق ذكر 17 مره داوود ذكر 16 مره فقط

28-ماهى السورة التى يبلغ عدد آياتها 11 إيه فقط؟ سوره الجمعة

29-كم مره وردت كلمه "الخمر" في القران الكريم؟ 6مرات

30-كم مره ذكر "الذهب" في القران الكريم؟ 8مرات

31-ماهى سوره المضاجع؟ سوره السجده

32-من هو الصحابي الذي كان يلقب ب "سيد القراء"؟ أبى بن كعب "رضي الله عنه"

33-كم نبي ذكر فى سوره الأنبياء؟ 16 نبيا

34-ماهو الحرف الذي خلت منه كل أسماء سور القران الكريم؟ حرف الظاء

35-في اى سوره ذكرت قصه قابيل وهابيل؟ سوره المائدة

36-فى كم إيه قرنت الصلاة بالزكاة؟ 82 إيه

37-كم عدد سجدات التلاوة في السورة المدنية؟ 3سجدات (2فى سوره الحج و1 في سوره الرعد)

38-كم مره ذكر لفظ "كاس" في القران الكريم؟ 6مرات

39-كم مره ذكرت السيده مريم في القران الكريم؟ 34 مره

40-مالشئ الذي حرمه النبي على نفسه فعاتبه الله ؟ شرب العسل

41-3سور لم ينزل مثلهن فى التوراة ولا فى الإنجيل؟ الإخلاص والمعوذتين

42-كم مره ذكر سيدنا هارون في القران؟ 2مره

43-ايهما ذكر أكثر في القران اليهود أم النصارى؟ النصارى ذكروا14 مره اليهود ذكروا 8 مرات فقط

44-اذكر بعض الجواهر التى ذكرت فى القران الكريم؟ الذهب –الفضة- اللؤلؤ –الياقوت –المرجان

45-ماهى السورة التى لا تصح الصلاة يدونها؟ الفاتحة

46-متى توفى زيد بن ثابت الانصارى احد اللذين جمعوا القران الكريم؟ عام 45 هجريه

47-كم عدد كلمات إيه الكرسي؟ 50 كلمه

48-ماهى السورة التى تسمى الحائلة؟ سوره الكهف لأنها تحول بين صاحبها والنار

49-هناك اسم أخر لسوره الإسراء ؟ سوره ينو إسرائيل

50- سورتان تظللان صاحبها يوم القيامة؟ البقرة وال عمران

مزید[ترمیم]

قرآن الكريم هل تعلم أن لفظ المسلمين تكرر في القرآن الكريم ؟ (41) مرة هل تعلم أن عدد آيات القرآن الكريم؟ (6236) آية هل تعلم أن عدد حروف القرآن الكريم؟ (340.740) حرف هل تعلم أن لفظ الملكوت تكرر في القرآن الكريم؟ (4) مرات هل تعلم أن عدد كلمات القرآن الكريم؟ (77277) كلمة هل تعلم أن لفظ روح القدس تكرر في القرآن الكريم؟ (4) مرات هل تعلم أن الدنيا تكررت في القرآن الكريم ؟ (115) مرة هل تعلم أن لفظ الركوع ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم ؟ (13) مرة هل تعلم أن الآخرة تكررت في القرآن الكريم؟ (115) مرة هل تعلم أن لفظ الحج ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (13) مرة هل تعلم أن لفظ الملائكة تكرر في القرآن الكريم؟ (68) مرة هل تعلم أن لفظ الطمأنينة ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (13) مرة هل تعلم أن لفظ الشيطان تكرر في القرآن الكريم؟ (68) مرة هل تعلم أن لفظ القرآن تكرر في القرآن الكريم ؟ (68) مرة هل تعلم أن لفظ الحياة تكرر في القرآن الكريم؟ (71) مرة هل تعلم أن لفظ الرسل تكرر في القرآن الكريم؟ (368) مرة هل تعلم أن لفظ الحياة ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (145) مرة هل تعلم أن لفظ الصلاة تكرر في القرآن الكريم؟ (68) مرة هل تعلم أن لفظ الموت ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (145) مرة هل تعلم أن لفظ النجاة ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (68) مرة هل تعلم أن لفظ السلام ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (50) مرة هل تعلم أن لفظ الزكاة تكرر في القرآن الكريم؟ (32) مرة هل تعلم أن لفظ الصيف والحر تكرر في القرآن الكريم؟ (5) مرات هل تعلم أن لفظ اليوم تكرر في القرآن الكريم؟ (365) مرة هل تعلم أن الشتاء والبرد تكرر في القرآن الكريم؟ (5) مرات هل تعلم أن لفظ يعقوب تكرر في القرآن الكريم ؟ (7) مرات هل تعلم أن لفظ محمد تكرر في القرآن الكريم؟ (4) مرات هل تعلم أن لفظ يحيى تكرر في القرآن الكريم؟ (4) مرات هل تعلم أن لفظ سراج تكرر في القرآن الكريم؟

(4) 

مرات هل تعلم أن لفظ صالح تكرر في القرآن الكريم؟ (9) مرات هل تعلم أن لفظ إبراهيم تكرر في القرآن الكريم؟ (69) مرة هل تعلم أن لفظ شعيب تكرر في القرآن الكريم؟ (11) مرة هل تعلم أن لفظ إسماعيل تكرر في القرآن الكريم ؟ (12) مرة هل تعلم أن لفظ هود تكرر في القرآن الكريم ؟ (7) مرات هل تعلم أن لفظ إسحاق تكرر في القرآن الكريم؟ (17) مرة هل تعلم أن لفظ يونس تكرر في القرآن الكريم؟ (4) مرات هل تعلم أن لفظ إدريس تكرر في القرآن الكريم؟ (2) مرتين هل تعلم أن لفظ لوط تكرر في القرآن الكريم؟ (27) مرة هل تعلم أن لفظ أيوب تكرر في القرآن الكريم؟ (4) مرات هل تعلم أن لفظ يوسف تكرر في القرآن الكريم ؟ (27) مرة هل تعلم أن لفظ موسى تكرر في القرآن الكريم؟ (136) مرة هل تعلم أن لفظ الشَهر تكرر في القرآن الكريم؟ (12) مرة هل تعلم أن لفظ عيسى تكرر في القرآن الكريم؟ (25) مرة هل تعلم أن لفظ البخل تكرر في القرآن الكريم؟ (12) مرة هل تعلم أن لفظ آدم تكرر في القرآن الكريم؟ (25) مرة هل تعلم أن لفظ الحسرة تكرر في القرآن الكريم؟ (12) مرة هل تعلم أن لفظ نوح تكرر في القرآن الكريم؟ (43) مرة هل تعلم أن لفظ الطمع تكرر في القرآن الكريم؟ (12) مرة هل تعلم أن لفظ داود تكرر في القرآن الكريم؟

(16) مرة 

هل تعلم أن لفظ الجحود تكرر في القرآن الكريم؟

(12) مرة 

هل تعلم أن لفظ سليمان تكرر في القرآن الكريم؟

(17) مرات 

هل تعلم أن أول شيء خلقه الله سبحانه وتعالى ؟

هو القلم 

هل تعلم أن لفظ الإسراف ومشتقاته تكرر في القرآن؟ (23) مرة هل تعلم أن أول ما كتب القلم ؟

أنا التواب أتوب على من تاب 

هل تعلم أن لفظ السرعة ومشتقاته تكرر في القرآن؟ (23) مرة هل تعلم أن أول يوم خلقه الله ؟

هو يوم الأحد 

هل تعلم أن لفظ السلطان ومشتقاته تكرر في القرآن؟ (37) مرة هل تعلم أن أول شيء بناه الله ؟

هو السماء 

هل تعلم أن لفظ النفاق ومشتقاته تكرر في القرآن ؟

(37) مرة 

هل تعلم أن أول جبل وضع على الأرض ؟

جبل أبي قبيس بمكة المكرمة 

هل تعلم أن لفظ الابتلاء ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(37) مرة 

هل تعلم أن أول بيت بُنِيَ ؟

هو الكعبة المشرفة 

هل تعلم أن لفظ الخيانة ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(16) مرة 

هل تعلم أن أول من سجد لآدم من الملائكة ؟

هو إسرافيل 

هل تعلم أن لفظ الخبث ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(16) مرة 

هل تعلم أن أول الأنبياء ؟

آدم عليه السلام 

هل تعلم أن لفظ البصر ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(148) مرة 

هل تعلم أن أول أنبياء بني إسرائيل ؟

هو موسى عليه السلام 

هل تعلم أن لفظ القلب ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(148) مرة 

هل تعلم أن أول الأنبياء بعد آدم عليه السلام ؟

هو موسى عليه السلام 

هل تعلم أن لفظ النفع ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(50) مرة 

هل تعلم أن أول ما هبط الله آدم عليه السلام إلى الأرض؟

أهبطهُ بالهند 

هل تعلم أن الفساد ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (50) مرة هل تعلم أن أو بلد عمّرت بعد الطوفان بمصر ؟

هي منف 

هل تعلم أن لفظ البر ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟

(20) مرة 

هل تعلم أن أول من سكن فيها ؟

هو يبصر بن حام بن نوح 

هل تعلم أن لفظ الثواب ومشتقاته تكرر في القرآن الكريم؟ (20) مرات

مزید قرآں[ترمیم]

القرآن الكريم هو كلام الله – عز وجل- المعجز الذي أنزله على نبيه "محمد" -صلى الله عليه و سلم- عن طريق ملك الوحي "جبريل" – عليه السلام- بلسان عربي مبين ليخرج الناس من الظلمات إلى النور ، ويهديهم إلى صراطه المستقيم ، وهو الكتاب العظيم الذي يتعبد المسلمون بتلاوته في الصلاة وغيرها ، قال تعالى : " وَإِنَّهُ لَتَنزِيلُ رَبِّ الْعَالَمِينَ (192)نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ (193)عَلَى قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ (194) " (الشعراء 194:192)

والقرآن الكريم هو المعجزة الخالدة التي تحدى الله بها العرب أجمعين على أن يأتوا بمثله أو بعشر سور منه ، أو أن يأتوا بسورة واحدة فقط فعجزوا ؛ على الرغم من بلاغتهم وفصاحتهم، ومازال ذلك التحدي قائمًا شامخًا ، ليس للعرب فقط بل للإنس والجن أجمعين على مر العصور . · نزول القرآن الكريم : وكان بداية نزول القرآن في (17) من شهر "رمضان" سنة (13) قبل الهجرة ، ولم ينزل القرآن على النبي -صلى الله عليه و سلم- جملة واحدة بل استمر نزول الوحي عليه -صلى الله عليه و سلم-(23) عامًا حتى لقي النبي -صلى الله عليه و سلم- ربه سنة (11ﻫ) ، وكانت فترة نزول الوحي بمكة (13) سنة نزل خلالها ثلثا القرآن ، وبالمدينة (10) سنوات نزل خلالها ثلث القرآن . وكان أول ما نزل من القرآن الكريم على النبى صلى الله عليه و سلم- وهو يتعبد في غار حراء قوله تعالى : " اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2)اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3)الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4)عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5)"(العلق 1- 5) · القرآن المكي والمدني : القرآن المكي : هو ما نزل من القرآن الكريم على النبي -صلى الله عليه و سلم- قبل الهجرة من "مكة" إلى "المدينة" ويبلغ عدد السور المكية (86) سورة . والقرآن المدني : هو ما نزل من القرآن على النبي -صلى الله عليه و سلم- بعد الهجرة إلى "المدينة" ، ويبلغ عدد السور المدنية (28) سورة . · ترتيب آيات القرآن الكريم وسوره : ترتيب آيات القرآن الكريم توقيفى أي مأخوذ عن النبي -صلى الله عليه و سلم-، كما أنزله عليه رب العزة– تبارك وتعالى – عن طريق ملك الوحي "جبريل" – عليه السلام – وتعد سورة "الفاتحة" هي أول سور القرآن ورقمها (1) في ترتيب المصحف ، وآخر سوره سورة "الناس" ورقمها (114) وبذلك يكون عدد سور القرآن الكريم (114) سورة .


· أقسام سور القرآن الكريم : سور القرآن الكريم أربعة أقسام ، هي : الطُوَالُ : وهى أطول سبع سور في القرآن الكريم ، وهى : "البقرة" و "آل عمران" و "النساء" و"المائدة" و "الأنعام" و "الأعراف" و "الأنفال والتوبة" معًا. المئون : وهى السور التي تزيد آياتها على مائة آية أو تقاربها . المثاني : وهى التي تلي المئين في عدد الآيات . المفصل : سور المفصل تبدأ من أول سورة (ق) إلى نهاية القرآن ، وسميت بذلك لكثرة الفصل بين سوره بالبسملة . · الأوائل مع القرآن الكريم :

  • أول من سمع القرآن من النبي -صلى الله عليه و سلم- زوجته السيدة "خديجة" – رضى الله عنها.
  • أول من جهر بقراءة القرآن بعد النبي -صلى الله عليه و سلم- بمكة هو الصحابي الجليل "عبد الله بن مسعود" .
  • أول من أمر بجمع القرآن الكريم في مصحف واحد هو الخليفة الراشد "أبو بكر الصديق" – رضى الله عنه – وذلك بمشورة من "عمر بن الخطاب"- رضى الله عنه .


  • أول من قام بجمع سور آيات القرآن الكريم في مصحف واحد هو الصحابي الجليل " زيد بن ثابت" ،وهو من كتاب الوحي ، وعندما أتم عمله سلم المصحف الشريف لأبى بكر الصديق- رضى الله عنه - ، ثم صار عند أمير المؤمنين "عمر بن الخطاب" بعد وفاة "أبى بكر" ، ثم عند أم المؤمنين "حفصة" – رضى الله عنها .
  • أول من نسخ القرآن الكريم في مصاحف ، ووزعها على الأمصار هو الخليفة "عثمان بن عفان" – رضى الله عنه – وذلك من النسخة التي كانت عند السيدة "حفصة" – رضى الله عنها .
  • أول من نقط المصحف الشريف ، أي ضبطه عن طريق النقط هو "أبو الأسود الدؤلى" ، فجعل علامة الفتحة نقطة فوق الحرف ، والكسرة نقطة أسفله ، والضمة نقطة بين أجزاء الحرف .
  • أول من استبدل الضبط بالنقط إلى حركات أخرى : (الفتحة ، والكسرة ، والضمة ، والتنوين) هو "الخليل بن أحمد الفراهيدى" .
  • أول من قام بتنقيط حروف القرآن الكريم مثل : (ب ، ج ، ق..الخ) هم "نصر بن عاصم" ، و"يحيى بن يعمر" ، و"عبد الرحمن بن هرمز" ، مما يسر على العرب وغير العرب قراءة القرآن الكريم .

القرآن ولغة الأرقام :

  • عدد السور التي تبدأ بالبسملة (113) سورة ، وسورة واحدة فقط لا تبدأ بالبسملة هي سورة "التوبة" .
  • عدد أجزاء القرآن الكريم (30) جزءًا ، والجزء حزبان .
  • عدد أحزاب القرآن الكريم (60) حزبًا ، والحزب مقسم إلى (4) أرباع .
  • عدد أرباع القرآن (240) رُبعًا .
  • عدد آيات القرآن الكريم (6236) آية ، وعدد كلماته (77934) كلمة ، وعدد حروفه

(323670) حرفًا، وعدد نقاطه (1015030) نقطة تقريبًا . وهناك إحصاءات أخرى عديدة لعدد الآيات والكلمات والحروف ، والسبب في تعدد هذه الإحصاءات هو اختلاف العلماء في تحديد مسمى الكلمة أو الحرف ، ومواضع رءوس الآيات ، وقد حسب بعضهم البسملة ضمن الحروف والكلمات ، ولم يحسبها البعض الآخر .

  • أطول سور القرآن الكريم سورة "البقرة" ، وهى السورة الثانية في ترتيب المصحف ، وعدد آياتها (286) آية .
  • أقصر سور القرآن الكريم سورة "الكوثر" ، وترتيبها في المصحف رقم (108)، وعدد آياتها (3) آيات .
  • أطول آيات القرآن الكريم آية "الدَّين" ، ورقمها (282) من سورة "البقرة" ، وهى مائة وثمانٍ وعشرون كلمة ، وخمسمائة وأربعون حرفًا .
  • أقصر آية في القرآن هي (حم) وتقع في أوائل سور (غافر، فصلت ، الشورى ، الزخرف ، الدخان ، الجاثية ، الأحقاف ) ، وقيل : "يس" وتقع في أول سورة "يس" وقيل: "طه"في أول سورة "طه" .
  • أطول كلمة في القرآن لفظًا وكتابة هي فَأَسْقَيْنَاكُمُوه ُوعددها أحد عشر حرفًا وهى في الآية رقم (22) من سورة "الحجر" .

"وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ "(22)

  • أفضل آيات القرآن الكريم آية الكرسي ، ورقمها (255) من سورة "البقرة".
  • هناك (15) موضعًا في القرآن الكريم نسجد عند تلاوتها .
  • هناك آيتان في القرآن الكريم تجمع كل حروف الهجاء ، وهما الآية (29) من سورة "الفتح" والآية (154) من سورة " آل عمران " .
  • عدد علامات الوقف في القرآن الكريم (6) علامات ،هي : (م ، لا ، ج ، صلى، قلى ،.ׂ. .ׂ.)
  • ورد لفظ الجلالة "الله" في القرآن الكريم بالرفع (980) مرة ، وبالفتح (592) مرة ، وبالكسر (1125) مرة ، وذلك بخلاف ما ورد في البسملة فقد ورد فيها (113) مرة .
  • ورد في القرآن الكريم أسماء (25) نبيًّا ورسولاً ، وهم : (آدم - إدريس - نوح - هود - صالح - إبراهيم - لوط - شعيب - إسماعيل - إسحاق - يعقوب - يوسف - أيوب - اليسع - ذو الكفل - إلياس - يونس - موسى - هارون - داوود - سليمان - زكريا - يحيى - عيسى - محمد-صلى الله عليه و سلم- ) .
  • هناك (6) سور تحمل أسماء أنبياء هي : ( يونس – هود- يوسف – إبراهيم – محمد – نوح).
  • هناك (29) سورة تبدأ بالحروف المقطعة مثل : (آلم- ق – حم ... إلخ) .

قرآنی[ترمیم]

١۔ ہر چیز پانی سے بنی ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ(الانبیائ٢١:٣٠)ـ۔

٢۔زمین ، آسمان جڑے ہوئے تھے پھر ایک دھماکے سے جدا ہوئے اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کَانَتَارَتْقاً فَفَتَقْنَاھُمَا(انبیائ٢١: ٣٠)۔

٣۔ آسمان ایک مادی اور محسوس چیز ہے (ا) ثُمَّ اسْتَویٰ اِلَی السَّمَآءِ وَھِیَ دُخَانٌ(حم السجدۃ٤١:١١)۔ (ب) رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا(الرعد١٣:٢)۔ (ج) اِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْ(الانفطار٨٢:١)۔

٤۔ آسمان میں برج قائم کر دیے گئے ہیں (ا) تَبَارَکَ الَّذِیْ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوْجاً(الفرقان٢٥:٦١)۔ (ب) وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ(البروج٨٥:١)۔

٥۔زمین میں طرح طرح کے خزائن موجود ہیں وَجَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَاوَبَارَکَ فِیْہَا(حم السجدۃ٤١:١٠)۔

٦۔ جانور کے پیٹ میں دودھ کیسے تیار ہوتا ہے نُسْقِیْکُمْ مِمَّا فِیْ بُطُوْنِہٖ مِنْ بِیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَناً خَالِصاً(النحل١٦:٦٦)۔

٧۔ بارش کیسے برستی ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزجِیْ سَحَاباً ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَہ،(النور٢٤:٤٣)۔

٨۔ سبزہ کیسے اگتا ہے اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّویٰ(انعام٦:٩٥)۔

٩۔ بچہ کیسے بنتا ہے (ا) خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍ یَّخْرُجُ مِنْ بَیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ(طارق٨٦:٦،٧)� � (ب) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ(دھر٧٦:٢)۔ (ج) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً(مومنون٢٣:١٤)۔ (د) وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَانَشَآءُ اِلیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی(حج٢٢:٥)۔

١٠۔سورج چل رہا ہے وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّلَّھَا(یسین٣� �:٣٨)۔

١١۔ سورج اور چاند کی روشنی میں فرق ہے ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّالْقَمَرَ نُوْراً(یونس١٠:٥)۔

١٢۔اﷲ تعالیٰ تمہیں پوری کائنات میں اور تمہاری اپنی جانوں میں اپنی نشانیاں دکھائے گا سَنُرِیْہِمْ آیَاتِنَافِی الْآفَاقِ وَ فِیۤ اَنْفُسِہِمْ (فصلٰت٤١: ٥٣)۔

مزید قرآنی[ترمیم]

عدد سور القرآن الكريم 114 سورة عدد آيات القرآن الكريم 6236 آية عدد كلمات القرآن الكريم 77439 كلمة عدد بسملات القرآن الكريم 114 بسملة عدد حروف القرآن بحسب كتابتها 323071 حرفا عدد حروف القرآن بحسب لفظها 335288 حرفا عدد أجزاء القرآن الكريم 30 جزء عدد أحزاب القرآن الكريم 60 حزب عدد السور المكية في القران الكريم 82 سورة عدد السور المدنية في القران الكريم 29 سورة عدد السور المختلف فيها 12 سورة عدد الآيات التي لم تنزل بمكة ولا المدينة 37 آية عدد الآيات المكية في القران الكريم 4470 آية عدد الآيات المدنية في القران الكريم 1729 آية عدد أحرف القرآن الكريم 7 أحرف عدد القراءات الصحيحة للقرآن عشر قراءات عدد سجدات القرآن الكريم 15 سجدة (يجب عليك السجود عند قراءتك أو سماعك لإحدى آيات السجود) سورة البقرة أطول سورة في القرآن (268 آية) سورة الكوثر أقصر سورة في القرآن (3 آيات) أطول آية في القرآن الآية 282 من سورة البقرة أقصر آيات في القرآن هي (يس – طه – حم) أطول كلمة في القرآن: فأسقيناكموه (الحجر 22) أقصر كلمات في القرآن هي (يس – طه – حم) من سمع القرآن كتب الله له بكل حرف حسنة قراءة القرآن تزيد في الحفظ الآية التي نزلت في جوف الكعبة هي قوله تعالى: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا…[النساء:58] ذُكر اسم الرسول محمد ﷺ في القرآن 4 مرات وذُكر مرة واحدة باسم أحمد كل السور تبدأ بالبسملة سوى سورة “التوبة” سورة “النمل” فيها بسملتان كلمة “وليتلطف” (الكهف 19) تتوسط القرآن حرف “التاء” يتوسط حروف القرآن الكريم القرآن سيأتي على صورة إنسان يوم القيامة ويدافع عمن تلاه وأكرمه المسلمين كانوا لا يعلمون انقضاء السورة حتى تنزل آية ((بسم الله الرحمن الرحيم)) أن البيت الذي يقرأ فيه القرآن يضيء لأهل السماء كما تضيء نجوم السماء لأهل الدنيا سورة الحج هي السورة الوحيدة في القرآن كله التي سميّت باسم ركن من أركان الإسلام وهو الحج سورة المجادلة ترتيبها في المصحف 58 وقد ذُكر اسم الله تعالى في كل آياتها صريحاً ومضمراً 58 مرة أكبر عدد في القرآن الكريم هو 100000 في قوله تعالى (وَأَرْسَلْنَاهُ إِلَى مِئَةِ أَلْفٍ أَوْ يَزِيدُونَ) الصافات: 147 أصغر عدد في القرآن هو عُشر، في قوله تعالى (وَكَذَّبَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَمَا بَلَغُوا مِعْشَارَ مَا آتَيْنَاهُمْ فَكَذَّبُوا رُسُلِي فَكَيْفَ كَانَ نَكِيرِ) سبأ: 45 الآية التي جمعت كل حروف المعجم هي آخر آية من سورة الفتح: (محمد رسول الله والذين معه أشداء على الكفار رحماء بينهم ……) سورة الفاتحة أعظم سورة في القرآن أعظم آية في القرآن هي آية الكرسي سورة الفلق تمنع الحسد سورة الفاتحة تمنع غضب الله سورة الإخلاص تمنع النفاق سورة الكوثر تمنع الخصومة سورة يس تمنع عطش يوم القيامة سورة الملك تمنع عذاب القبر سورة الناس تمنع الوسواس سورة الكافرون تمنع الكفر عند الموت من قرأ سورة النساء كل جمعة أمن ضغطة القبر سورتا {البقرة وآل عمران} تسميان الزهراوين قراءة سورة الإخلاص ثلاث مرات تعدل ختم القرآن سور (قريش ـ العصر ـ الفلق) ليس بها حرف الكاف السورة التي بها سجدتان هي سورة الحج من سمع القرآن كتب الله له بكل حرف حسنة

آخر آية نزلت في مكة (اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام ديناً).

سبب نزول سورة الإخلاص أن المشركين قالوا للرسول ﷺ: أنسب لنا ربك وصفه لنا، فنزلت السورة. لو قرأت سوره الملك كل يوم قبل النوم تكون ونيسك في القبر وتحميك من عذاب القبر إلى يوم القيامة. الإعجاز في قوله تعالى (بلى قادرين على أن نسوي بنانه) اختلاف بصمات الأصابع من شخص لآخر. القرآن نزل على رسول الله ﷺ دفعة واحدة في شهر رمضان، وإن أتى تفصيله على مدى الـ: 23 سنة التي بلغ الرسالة فيها. اللبن ذكر في القرآن في قوله تعالى: {مثل الجنة التي وعد المتقون فيها أنهار من ماء غير آسن وأنهار من لبن لم يتغير طعمه} محمد 15. آخر آية نزلت من القرآن الكريم قوله تعالى: ((وَاتَّقُواْ يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ) ((البقرة: 281)، وتوفي الرسول ﷺ بعدها بتسع ليال فقط. من أسماء الله الحسنى (الأول). وقد ورد ذكر هذا الاسم في القرآن الكريم مرة واحدة، وذلك في سورة الحديد حيث قال تعالى: {هو الأول والأخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم}. إحدى تأويلات الحروف المقطعة كـ: “ألم” و”حم” و”طسم” هي أن القرآن يؤشر إلى أن العرب لن تستطيع أن تؤلف مثل القرآن الكريم مع أن القرآن يستخدم نفس الحروف التي يستخدمها العرب. بالإضافة إلى أن النبي عيسى مثل آدم عند الله كما في الآية: (إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون)، فهما مثل بعضهما في عدد الذكر في القرآن أيضا (ذُكرا في القرآن 25 مرة كلاهما). السور المكية هي التي نزلت قبل الهجرة إلى المدينة، وأغلبها يدور على بيان العقيدة وتقريرها والاحتجاج لها، وضرب الأمثال لبيانها وتثبيتها. أما السور المدنية فهي التي نزلت بعد الهجرة، ويكثر فيها ذكر التشريع، وبيان الأحكام من حلال وحرام.


مزید قرآنی[ترمیم]

عدد كلمات وردت في القرآن ومقابلها:

“الدنيا” وردت 115 مرة مقابل “الآخرة” وردت 115 مرة “الملاك” وردت 88 مرة مقابل “الشياطين” وردت 88 مرة “الحياة” وردت 145 مرة مقابل “الموت” وردت 145 مرة “النفع” وردت 50 مرة مقابل “الضر” وردت 50 مرة “الناس” وردت 50 مرة مقابل “الرسل” وردت 50 مرة “أبليس” وردت 11 مرة مقابل “التعوذ من الشيطان” وردت 11 مرة “مصيبة” وردت 75 مقابل “الشكر” وردت 75 “الصدقة” وردت 73 مرة مقابل “القناعة” وردت 73 مرة “الضالين” وردت 17 مرة مقابل “الهالكين” وردت 17 مرة “مسلمين” وردت 41 مرة مقابل “الجهاد” وردت 41 مرة “الذهب” وردت 8 مرات مقابل “رغد العيش” وردت 8 مرات “السحر” وردت 60 مرة مقابل “الفتنة” وردت 60 مرة “الزكاة” وردت 32 مرة مقابل “البركة” وردت 32 مرة “العقل” وردت 49 مرة مقابل “النور” وردت 49 مرة “الرغبة” وردت 8 مرات مقابل “الخوف” وردت 8 مرات “التحدث” على الملأ وردت 18 مرة مقابل “الخطبة” على الملأ وردت 18 مرة “الظلم” وردت 114 مرة مقابل “الصبر” وردت 114 مرة “محمد” وردت 4 مرات مقابل “الشريعة” وردت 4 مرات “الرجل” وردت 24 مرة مقابل “المرأة” وردت 24 مرة “العقل” وردت 49 مرة مقابل “النور” وردت 49 مرة من صور الإعجاز في القرأن الكريم:

ذكرت كلمة البحار (أي المياه) في القرآن الكريم 32 مرة، وذكرت كلمة البر (أي اليابسة) في القرآن الكريم 13 مرة.

فإذا جمعنا عدد كلمات البحار المذكورة في القرآن وعدد كلمات البر، فسنحصل على المجموع كالتالي: 45. وإذا قمنا بصنع معادلة بسيطة كالتالي: 1. مجموع كلمات البحر (تقسيم) مجموع كلمات البر والبحر (ضرب 100) 32 ÷ 45 × 100 = 71,1111111111 2. مجموع كلمات البر (تقسيم) مجموع كلمات البر والبحر (ضرب 100) 13 ÷ 45 × 100 = 28,8888888889

وهكذا بعد هذه المعادلة البسيطة، نحصل على هذا الناتج المعجز الذي توصل له القرآن من 14 قرناً، فالعلم الحديث توصل إلى أن:

نسبة المياه على الكرة الأرضية: 71,11111111111% ونسبة اليابسة على الكرة الأرضية: 28,88888888889% وإذا جمعنا العدد الأول مع العدد الثاني فإنا نحصل على الناتج = 100% وهي مجموع نسبة الكرة الأرضية بالفعل، فما قولك بهذا الإعجاز! تأمل عدد مرات تكرار المفردات التالية:

“الصلاة” ذُكرت 5 مرات “الشهر” ذُكر 12 مرة “اليوم” ذُكر 365 مرة “البحر” ذُكر 32 مرة “الأرض – اليابسة – البر” ذُكرت 13 مرة أسماء وألقاب وصفات وردت في القرآن الكريم:

أسماء للملائكة اوردت في القرآن الكريم: جبرائيل; روح الأمين، هاروت، ماروت، ميكال، مالك. اليومان اللذان ورد ذكرهما في القرآن هما: السبت في سورة الأعراف. الجمعة في سورة الجمعة. أنواع وأسماء الحشرات الواردة في القرآن الكريم: النحل، النمل، الفراش، الجراد، القُمّل، الذباب، البعوضة، العنكبوت. أسماء للألوان وردت في القرآن الكريم: الأبيض، الأخضر، الأحوى (الأسود المائل للخضرة)، الأسود، الأصفر، مدهامتان (الأخضر القريب من السواد). أسماء دول ومدن وردت في القرآن الكريم: الدولة التي ورد ذكرها في القرآن الكريم هي (مصر)، وذكرت ست مرات. أما المدن التي ورد ذكرها في القرآن الكريم هي (بيت المقدس، المدينة المنورة، مكة المكرمة، وبابل). أسماء وأنواع للجنان وردت في القرآن الكريم: جنات عدن، جنات الفردوس، جنّات المأوى، جنات النعيم، جنّة الخلد، جنة عالية، دار السلام، دار القرار، دار المتقين، دار المقامة، روضات الجنّات، الدار الآخرة، الحسنى، الفضل. أسماء النسوة الواردة في القرآن الكريم: لم يورد القرآن الكريم تصريحاً باسم النسوة التي أشار إليها بالكنية أو اللقب كأم موسى وامرأة فرعون سوى سيدتنا مريم بنت عمران عليها السلام. أيضاً يوجد سورة باسمها بالقرآن الكريم (سورة مريم). أسماء وألقاب لجهنم وردت في القرآن الكريم: الهاوية، الشّوى، اللظى، النار، السموم، الساهرة، الحُطمة، الجحيم، بئس المصير، بئس القرار، بئس المهاد، بئس ال المورود، جهنّم، الحافرة، دار البوار، دار الفاسقينَ، السّقر، السّعير، سوء الدار. أسماء غزوات وردت في القرآن الكريم: جاء ذكر غزوة بدر في سورتي آل عمران والأنفال، ذكر صلح الحديبية في سورة الفتح، جاء ذكر غزوة الخندق في سورة الأحزاب. ذكرت غزوة حنين في سورة التوبة. ذكرت غزوة تبوك في سورة التوبة. ذكرت غزوة أحد في سورة آل عمران. أسماء للسّلع والأدوات وردت في القرآن الكريم: الآنية، الأثاث، الأقلام، الأوتاد، الجفان، الخياط، الدِّهان، السراج، السرُر، صحاف، الفخّار، القدور، القلائد، الكأس، المسد، المهد، الموازين، الأباريق، الأقفال، الأكواب، الأوعية، الجواب، الدّلو، الرّفرف، السرادق، السُّلّم، الصواع، العصا، الغطاء، الفراش، القسطاس، القوارير، الكرسي، الماعون، المصباح، المنسأة، النمارق. أسماء وصفات للرسول الأكرم ﷺ وردت في القرآن الكريم: طه، يس، وليّ، محمد، احمد، عبد الله، الأمين، البرهان، البشير، رؤوف، رحيم، رسول، النبي، شاهد، نذير، شهيد، صاحب، مبشّر، المدثِّر، المزمِّل، مذكّر، منذر، خاتم النبيين، داعياً الى الله، رحمة للعالمين، رسول الله، رسول أمين، رسول مبين، رسول كريم، سراجاً منيراً، أول المؤمنين، أول المسلمين، أول العابدين، ناصح أمين، النبي الأمي، النذير المبين. أسماء لأعضاء بدن الإنسان وردت في القرآن الكريم: الآذان، الأذقان، الأرحام، الأصلاب، الأعناق، الأفئدة، الأمعاء، الأنف، البدن، البنان، الجلود، حبل الوريد، الحناجر، الدم، الرأس، السوءات، سوءة، عورة، الأصابع، الصدر، الظهر، العطف، القلب، اللحم، المضغة، الوتين، الأرجل، الأعقاب، الأعين، الأفواه، الأنامل، الأيدي، البطن، الجيد، الحلقوم، الخُرطوم، الرّقاب، الظفر، العضد، العظام، العُتق، الشّفة، الكعبين، الوريد. الأعداد الواردة في القرآن الكريم: أحد، اثنان، إثنا عشر، أربع، ألف، ألفين، احد عشر، أربعين، ألف سنة إلا خمسين، ألوف، بضع، تسع، تسعة عشر، تسع وتسعون، ثالث، ثاني، ثلاث، ثلاثة آلاف، ثلاث مائة، ثلاثون، الثُلث، الثُلثان، ثماني، الثُمن،حُقب، الخامسة، خمس، خمسة، خمسة آلاف, خمسين، خمسين ألف، رابع- رُباع، الربع، سبع، سبعون، ستة، ستين، عَشر، عشرون، عُصبة، مائة ألف، مائتين، مثنى، عُشر. وردت الأعداد (20، 200، 100، 1000) في آية واحدة في سورة الأنفال 65، قال تعالى: “يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُواْ مِائَتَيْنِ وَإِن يَكُن مِّنكُم مّاِئَةٌ يَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لاَّ يَفْقَهُونَ “. أربع أعداد متتالية (3، 4، 5، 6) ورد ذكرها في سورة المجادلة 7، قال تعالى: “أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَى ثَلاثَةٍ إِلاَّ هُوَ رَابِعُهُمْ وَلا خَمْسَةٍ إِلاَّ هُوَ سَادِسُهُمْ وَلا أَدْنَى مِن ذَلِكَ وَلا أَكْثَرَ إِلاَّ هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ”. أسماء الحيوانات الواردة في القرآن الكريم: البعير، البقر، الجوارح، الحام، الحمولة، الحية، الخنازير، القردَة، المعز، الناقة، الأنعام، البحيرة، الدابّة، الصافنات، البغال، الجمال، الجياد، الحمار، الفيل، القسورة، الكلب، الموريات، النعجة، الوصيلة، الإبل، البُدن، الخيل، الذئب، السائبة، الضأن، العاديات، العجل، العشار، الغنم، العرم. الأوزان والمقاييس في القرآن الكريم: الصاع: يعادل ثلاثة كيلوجرامات تقريباً. القنطار: ستة أمنان (المن يساوي شرعاً 180 مثقالاً). المثقال: عرفاً يساوي درهماً ونصف درهم. درهم: يعادل اربع حبّات من الحمص. دينار: مثقال شرعي.


المصدر: http://www.e3lm.com/%d9%85%d9%88%d8%b3%d9%88%d8%b9%d8%a9-%d9%87%d9%84-%d8%aa%d8%b9%d9%84%d9%85-%d9%85%d8%b9%d9%84%d9%88%d9%85%d8%a7%d8%aa-%d8%b9%d9%86-%d8%a7%d9%84%d9%82%d8%b1%d8%a2%d9%86-%d8%a7%d9%84%d9%83%d8%b1%d9%8a/%d9%85%d9%88%d8%b3%d9%88%d8%b9%d8%a9-%d9%87%d9%84-%d8%aa%d8%b9%d9%84%d9%85/#ixzz3uKXDeOt9

مزید معلومات[ترمیم]

1- عدد النقاط في القرآن الكريم "1015030" نقطة- تقريباً- اما حروفه قيبلغ عددها "323670" تكوّن بمجموعها "77934" كلمة قرآنية 2- كل سورة تتكون من جمل او مقاطع يسمى كل منه آية 3- سور القرآن الكريم "87" منها مكية و"27" منها مدنية 4- كل السور تبدأ بالبسملة سوى سورة "التوبة" المباركة ، وسورة النمل المباركة فيها بسملتان 5- سبع سور من القرآن الكريم تحمل اسماء سبعة انبياء ، وهي سورة : يونس- هود- يوسف-ابراهيم- محمد- نوح 6- اطول السور سورة البقرة المباركة بـ"286" آية واقصرها سورة الكوثر بـ"3" آيات 7- سورة التوحيد- الاخلاص- هي السورة الوحيدة التي تحتوي على كسرة واحدة ، هذا بغير البسملة 8- سورة الحمد المباركة : هي اول سورة فيما سورة الناس آخر سورة ، وفقاً للترتيب المعروف في المصاحف الشريفة ، لاوفقاً لنزول السّور .. ففي هذه الحالة ستكون العلق اول السور النازلة على صدر نبينا محمد"صلى الله عليه وسلم" ، فيما كانت سورة النصر آخرها 9- لفظ الجلالة "الله" جل وعلا، ورد في القرآن الكريم "2707" مرات، "980" في حالة الرفع و"592" في حالة النصب و"1135" في حالة الجر 10- كلمة "وليتلطّف" تتوسط كلمة القرآن الكريم ، وحرف "التاء" فيها يتوسط حروفه 11- لكل سورة في القرآن الكريم اسم خاص بها، ولبعض السور اكثر من اسم حتى ان سورة "الحمد" المباركة لها اكثر من "20" اسماً منها : الفاتحة- ام الكتاب- السبع المثاني- الكنز- الوافية- الكافية- الشافية وغير ذلك 12- بعض السور أخذت اسماؤها من الحروف المقطعة التي في اول السورة ، كما في سور طه- يس-ص-ق..... ثم ان السور والايات المكية هي تلك التي نزلت قبل الهجرة ، والمدنية هي النازلة بعدها .. على ان بعض العلماء يعتبرون مكية الاية او مدنيتها متعلق بمكان نزولها من غير ان يكون لذلك علاقة بالهجرة 13- اقصر الايات هي: "يس" في السورة المسماة بهذا الاسم .. وقيل "مدهامتان" في سورة الرحمن، لكن اطول اية هي : الثانية والثمانون ! بعد المائتين من سورة البقرة 14- تسع وعشرون سورة تبدأ بالحروف المقطعة 15- خمس سور تبدأ بـ"الحمد لـ....." وهي : الفاتحة والانعام والكهف وسبأ وفاطر 16- سبع سور تبدأ بتسبيح الخالق جل وعلا "سبح- يسبح- سبحان" وهي : الاسراء والاعلى والتغابن والجمعة والصف والحشر والحديد 17- ثلاث سور تبدأ بـ"ياايّها النبي" وهي : الاحزاب ، والطلاق ، والتحريم 18- سورتان تبدءان بـ"ياايها المزمّل" و"ياايها المدثّر" وهما : المزمل ، والمدثر 19- ثلاث سور تبدأ بـ"ياايها الذين امنوا" وهي : المائدة ، والحجرات ، والممتحنة 20- خمس سور تبدأ بـ"قل" وهي : الجن ، والكافرون ، والتوحيد ، والاخلاص ، والفلق ، والناس 21- سورتان تبدءان بـ"ياايهاالناس" وهما : النساء ، والحج 22- اربع سور تبدْان بـ"إنّا" هي : الفتح ، ونوح ، والقدر ، والكوث 23- خمسة عشر سورة تبدأ بصيغة القسم وهي : الذاريات ، والطور ، والنجم ، والمرسلات ، والنازعات ، والبروج ، والطارق ، والفجر ، والشمس ، والليل ، والضحى ، والتين ، والعاديات ، والعصر ، والصافات 24- تحتوي (15) من سور القرآن الكريم على سجدة، (4) منها! واجبة وذلك في سور "حم فصلت" و"حم السجدة" والنجم والعلق و(11) مستحبة في سور الاعراف والنحل ومريم والحجّ- سجدتان- والنّمل والانشقاق والرّعد والاسراء والفرقان وص 25- اسماء القرآن الكريم اورد القرآن الكريم لنفسه بين اياته اسماء بالعشرات هي: الفرقان- الكتاب- النور- التنزيل- الكلام- الحديث- الموعظة- الهادي- الحق- البيان- المنير- الشفاء- العظيم- الكريم- المجيد- العزيز- النعمة- الرحمة- الروح- الحبل- القصص- المهيمن- الحكم- الذّكر- السراج- البشير- النذير- التبيان- العدل- المنادي- الشافي- الذكرى- الحكيم.

وقالوا اسماء اخرى للقرآن الكريم منها الميزان واحسن الحديث والكتاب المتشابه المثاني وحق اليقين والتذكرة والكتاب الحكيم والقيم وابلغ الوعّاظ.

القصص القرآنية

اشار القرآن الكريم الى قصص الانبياء عليهم السلام واقوامهم بهدف العبرة والاعتبار، وقد ذكر الكتاب العزيز اسماء (25) نبيا مع قصصهم وهم:

محمد- آدم- ابراهيم- اسماعيل- الياس- ادريس- ايوب- عيسى- موسى-نوح- لوط- يوسف- يعقوب- يوشع- هود-! يونس- صالح- شعيب- داوود- يحيى- زكريا- ذو الكفل- سليمان- هارون - اسماعيل صادق الوعد.

وصف القرآن الكريم لنفسه

"هدىً للمتقين" في سورة البقرة المباركة 1- المصدّق لسائر الكتب السماوية وهو الهدى والبشرى لاهل الايمان : { قل من كانَ عدواً لجبريلَ فإنّه نزّله على قلبَك بإذن الله مصدّقاً لما بين يديه وهدىً وبشرى للمؤمنين }.. سورة البقرة المباركة- الاية(97)؟ 2- المبين للناس والموعظة للمتقين : { هذا بيانٌ للناس وهدىً وموعظةٌ للمتقين } .. سورة آل عمران - الاية(138) ؟ 3- المخرج للناس من الظلمات الى النور : { آلر كتاب أنزلناهُ اليكَ لتخرجَ النّاس من الظّلمات الى النّور بإذن ربهمْ إلى صراط العزيز الحميد" سورة ابراهيم }.. الاية الاولى 4- المذكِّر : { طه. ماأنزلنا عليك القرآن لتشقى إلاّ تذكرةً لمن يخشى }.. سورة طه- الايات (1-3)، وكذلك الاية الاخيرة من سورة القلم المباركة 5- احسن الحديث والكتاب المتشابه : { اللهُ نزّلَ أحسنَ الحديث كتاباً متشابهاً مثانيَ تقشعرّ منهُ جُلود الذين يخشونَ ربّهم ثم تلين جلودُهُم وقلوبهُم الى ذ! كر الله ذلك هدى الله يهدي به من يشاءُ ومن يُضلل اللهُ فما لهُ من هاد" سورة الزمر }الاية(23) ؟ 6- هو خير من كل ثروة : { قلْ بفضلِ اللهِ وبرحمته فبذلك فيفرَحوا هو خيرٌ مما يَجمعون } .. سورة يونس.. الاية (58)؟ 7- انه الهدى ومصدر الشفاء للذين آمنوا : { ولو جعلناه قرآناً أعجمياً لقالوا لولا فُصّلت آياته أاعجمي وعربي قل هو للذينَ آمنوا هدىً وشفاء... }سورة فصلت الاية (44)؟ 8- المواضيع القرآنية وآيات القرآن الكريم تناول القرآن الكريم في آياته الشريفة مواضيع كثيرة، وقد توصلت بعض الاحصاءات الى تصنيف المواضيع في الايات وفقا للشكل التالي:

العقائد - (1443) آية التوحيد- (1102) آية التوراة- (1025) آية العبادات- (4110) آية النظام الاجتماعي- (848) آية الدين- (826) آية تهذيب الاخلاق- (803) آيات بشأن سيدنا محمد"صلى الله عليه وسلم"- (405) آيات التبليغ -(400) آية القرآن الكريم- (390) آية ماوراء الطبيعة- (219) آية النصارى- (161) آية بني اسرائيل- (110) آيات النصر- (71! ) آية الشريعة- (29) آية التاريخ- (27) آية التجارب- (9) آيات

آداب تلاوة القرآن الكريم

يتمثل في الطهارة ، والتلاوة بادب ، وطمأنينة ، وبصوت حزين ، ومسموع ، مع مراعاة قواعد التجويد ، واداء الحقوق في السجدة والاستعاذة ، قبل التلاوة ، والتصديق بعدها وما الى ذلك

القسم الأول يكمن في السعي لمعرفة عظمة قائل الكلام ، وحضور القلب ، والتدبر في معاني الآيات الشريفة ، وانه - التالي للقرآن الكريم- في موقع المخاطب بالنسبة لآيات الله تعالى ويتأثر بها ويعمل بما تأمر به.

والقسم الثاني معلومات عامة تمثل السورة جزء من آيات القرآن الكريم .. والكلمة جاءت من "سور" التي تعني الحائط الذي يحيط بالمدينة ، وبذلك تكون السورة الحصار الذي يفصل آيات معينة عن نظيراتها في سور اخرى.

اما الايات المحكمات : فهي المترابطة ترابطا وثيقا بين اللفظ والمعنى ليس فيها غموض او شبهة والمراد من ذلك الاية الواضحة التي لايمكن حملها على! معنى آخر.

لكن المتشابهات من الايات : فهي التي نجد فيها غموضا او جوانب متعددة في لفظها او معناها ، اي انها تقبل التفسير والتاويل لاكثر من معنى ، وينبغي لفهمها بصورة صحيحة : الاستعانة بالمحكمات من الايات الشريفة.

التراجم القرآنية

ترجم القرآن الكريم الى (22) لغة منها كاملة ومنها ناقصة وفيما يلي ذكر للتراجم واعدادها:

اللغة الاراكنية، ترجمة واحدة. السويدية، ست تراجم. الافريقية، ست تراجم. الالبانية، ترجمتان. لغة الخميادو- اللغة القديمة لاسبانيا- خمس وثلاثون ترجمة. اللغة الالمانية، اثنان واربعون ترجمة. الانجليزية، سبع وخمسون ترجمة. الاوكرانية، ترجمة واحدة. لغة اسبرانتو، ترجمة واحدة. اللغة البرتغالية، اربع تراجم. البلغارية، ترجمتان. لغة البوسناق، ثلاث عشر ترجمة. اللغة البولندية، عشر تراجم. البوهيمية، ثلاث تراجم. التركية، ست وثمانون ترجمة. الدانماركية، ثلاث تراجم. الروسية، احدى عشر ترجمة. الرومانية، ترجمة واحدة. الايطالية، احدى عشر ترجمة. الفرنس! ية، ثلاث وثلاثون ترجمة. الفنلندية، ترجمة واحدة. اللاتينية، اثنان واربعون ترجمة. وبذلك يكون مجموع التراجم المدونة بكافة اللغات ثلاثمائة وواحدا وثلاثين ترجمة

اسماء الحيوانات الواردة في القرآن الكريم البعير- البقر- الثعبان- الجراد- الجوارح- الحام- الحمولة- الحية- الخنازير- القردَة- القمّل- المعز- الناقة- النحل- الهدهد- الابابيل- الانعام- البحيرة- البعوضة- الدابّة- الذباب- الصافنات- الطائر- البغال- الجمال- الجياد- الحمار- الحوت- الفيل- القسورة- الكلب- الموريات- النعجة- النمل- الوصيلة- الابل- البُدن- الخيل- الذئب- دابّة الارض "الدودة"- السائبة- الضأن- العاديات- العجل- العشار- الغنم- العرم- العنكبوت- الغراب- الفراش.

اسماء الملابس في القرآن الكريم الاستبرق- الثياب- الحرير- السندس- القميص- الجلابيب- العبقري- كسوة

اسماء السّلع في القرآن الكريم الآنية- الاثاث- الاقلام- الاوتاد- الجفان- الخياط- الدِّهان- السراج- السرُر- صحاف- الفخّار- ! القدور- القلائد- الكأس- المسد- المهد- الموازين- الاباريق- الاقفال- الاكواب- الاوعية- الجواب- الدّلو- الرّفرف- السرادق- السُّلّم- الصواع- العصا- الغطاء- الفراش- القسطاس- القوارير- الكرسي- الماعون- المصباح- المنسأة- النمارق.

قرآن میں ریاضی[ترمیم]

١۔ ایک کا ہندسہ وَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ(البقرۃ٢:١٦٣)۔

٢۔دو کا ہندسہ وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ(انعام٦:١٤٤)۔

٣۔تین کا ہندسہ (ا) اٰیَتُکَ اَلاَّ تُکَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ(آلِ عمران٣:٤١)۔ (ب) ثَلَاثَۃَ قُرُوْۤئٍ(البقرۃ٢:٢٢٨)۔

٤۔ چار کا ہندسہ (ا) تَرَبُّصُ اَرْبَعَۃِ اَشْھُرٍ(البقرۃ٢:٢٢٦)۔ (ب) اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْراً(البقرۃ٢:٢٣٤)۔

٥۔ پانچ کا ہندسہ وَیَقُوْلُوْنَ خَمْسَۃٌ سَادِسُھُمْ کَلْبُھُمْ(الکہف١٨:٢٢)۔

٦۔ چھ کا ہندسہ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ(اعراف٧:٥٤)۔

٧۔سات کا ہندسہ وَیَقُوْلُوْنَ سَبْعَۃٌ وَّثَامِنُھُمْ کَلْبُھُمْ(الکہف١٨:٢٢)۔

٨۔ آٹھ کا ہندسہ ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ(انعام٦:١٤٣)۔

٩۔ نو کا ہندسہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ(بنی اسرائیل١٧:١٠١)۔

١٠۔دس کا ہندسہ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّعَشْراً(البقرۃ٢:٢٣٤)۔

١١۔گیارہ کا ہندسہ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَباً (یوسف ١٢:٤)۔

١٢۔بارہ کا ہندسہ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْناً (البقرۃ ٢:٦٠)۔

١٣۔جمع کا سوال (10=7+3) ثَلَاثَۃَ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَسَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ (البقرۃ٢:١٩٦)۔

١٤۔تفریق کا سوال (950=50-1000) فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلاَّخَمْسِیْنَ عَاماً(العنکبوت ٢٩:١٤)۔

١٥۔ضرب کا سوال (700=100x7)۔ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ (البقرۃ٢ :٢٦١)۔

١٦۔نسبت تناسب کا سوال (ا) اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ (انفال٨ :٦٥)۔ (ب) وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِائَۃٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفاً (انفال٨ :٦٥)۔

١٧۔زکوۃ ،مال ِ غنیمت اورمالِ فَی کی تقسیم کے علاوہ میراث کی تقسیم میں سو فیصد ریاضی کا دخل ہے۔ جس کی تفصیل سورۃ النساء میں موجود ہے لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (النسائ٣ :١١)۔

ٹسٹ[ترمیم]

27 جنوری 2016ء کے 17:36 بجتے ہی اردو ویکیپیڈیا کے بارہ سال مکمل ہو جاتے ہیں۔ یوں اس ایک درجن سالوں کے ایک گراس 144 مہینے یعنی بارہ درجن مہینے ہوئے ہیں۔ کل 4384 (بشمول 4 دن لیپ کے سالوں کے) دن ہیں۔ جو 105،216 گھنٹے کے برابر ہیں۔ اور 6،312،960 منٹ اور 378،777،600 سیکنڈ ہیں۔

تحقیق تاریخ[ترمیم]

٭ اردو ویکیپیڈیا کا آغاز صفحہ اول سے اور اس پر ==اردو== کے لفظ سے ہوا تھا۔ 17:36 ، 27 جنوری 2004ء کو نامعلوم صارف نے بنایا تھا۔ (ابھی کھاتہ نہیں کھل سکتا تھا)

یہ صفحہ بانی اردو ویکیپیڈیا صارف:اعلیٰ حضرت کی ان تھک شبانہ روزی محنت سے 4 مارچ 2004ء کو مکمل ہوا۔

٭ اس کے بعد ویکیپیڈیا:خوش آمدید کا صفحہ تھا جو بانی اردو ویکیپیڈیا صارف:اعلیٰ حضرت نے 23:42 ، 4 مارچ 2004ء کو بنایا۔ پھر انھوں نے

٭ معاونت:ترمیم 01:51 ، 5 مارچ 2004ء کو اور اس کے بعد

٭ ویکیپیڈیا:نيا صفحہ 01:54 ، 5 مارچ 2004ء کو بنایا تھا۔

مضامین[ترمیم]

٭ پہلا مضمون موجودہ سرگرمیاں تھا جو بانی اردو ویکیپیڈیا صارف:اعلیٰ حضرت نے 13:16 ، 5 مارچ 2004ء کو لکھنا شروع کیا۔ (برائے مہربانی اس مضمون کو محفوظ کیا جائے اور حذف نہ کیا جائے چونکہ اس وقت ابھی دیوان عام نہ ہونے کی وجہ سے ساری گفتگو اسی مضمون میں ہوتی تھی جو اس کے تاریخچہ میں محفوظ ہے۔)

٭ دوسرا مضمون جغرافیہ یہ بھی صارف:اعلیٰ حضرت نے 12:26 ، 6 مارچ 2004ء بنایا تھا۔

٭ تیسرا مضمون پاکستان یہ بھی صارف:اعلیٰ حضرت نے 12:41 ، 6 مارچ 2004ء بنایا تھا اور پھر انھوں نے۔

٭ چوتھا مضمون ریاضی 19:30, 6 مارچ 2004ء کو بنایا تھا۔ جو بعد میں صارف:کاشف عقیل نے 22:44, 24 اپریل 2010 کو ریاضی کی جانب رجوع مکرر کر دیا۔

٭ پانچواں مضمون تاریخ نامعلوم صارف جس کا اعدادی دستور شبکی پتہ (IP) (80.231.147.1) تھا نے 00:05, 7 مارچ 2004ء کو بنایا تھا۔

شجرہ‌ نامہ[ترمیم]

مسافت قصر[ترمیم]

مسافت قصرایک سوپچہتر(175)کلومیٹر: شریعت اسلامیہ میں بعض موقعوں پر مسافت قصر کا اعتبار کیاگیا ہے۔ نماز میں قصر یعنی چار رکعات کی جگہ دو رکعات پڑھنا(1) روزہ کا ترک یعنی شرعی سفر میں روزہ نہ رکھنا(2) چاند کے ثابت ہونے کےلئے مسافت قصر کا اعتبار کیاگیاہے۔(3) آج کل مسافت قصر کے سلسلہ میں بہت مختلف اقوال وآرا بیان کی جارہی ہیں اور بعض کتابوں میں بھی مختلف مسافت لکھی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مختلف اسفار میں نماز میں قصر کیاہے۔ ہرسفر کی مسافت الگ الگ تھی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول چار(4)برد کا ہے۔اور جمہور صحابہ و علما کا چار(4)برد پراتفاق ہے۔قصر کےلئے شرط یہ ہے کہ اڑتالیس(48)میل ھاشمی یعنی ایک سو پچہتر(175)کلومیٹر یا اس سے زیادہ کے سفر کی نیت ہو اور اپنے شہر کی آبادی ختم ہونے کے بعد قصر کا آغاز ہو۔ چار(4)برد یعنی اڑتالیس(48)میل ہاشمی کی تحقیق: جمہور علما امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل ،امام لیث بن سعد وغیرہم کا اس پر اتفاق ہے کہ قصر کی مسافت چار(4)برد یعنی سولہ(16)فرسخ، اڑتالیس(48)میل ہاشمی ہے۔ جمہور علما کا اتفاق اڑتالیس میل ہاشمی ہے، نہ کے اڑتالیس میل انگریزی۔ اڑتالیس میل انگریزی مراد لینا صحیح نہیں ہے، اسلئے کہ میل ہاشمی اور میل انگریزی میں بہت بڑا فرق ہے۔ میل کے تین اقسام بہت مشہور ہے۔ (1) میل اموی (2) میل ہاشمی (3) میل انگریزی اور کلومیٹر میل انگریزی سے مختلف ہے۔ ایک میل اموی 14400 فٹ کا ہوتا ہے، اور ایک میل ہاشمی 12000 فٹ کا ہوتا ہے، اور ایک میل انگریزی تقریباً 5280 فٹ کا ہوتا ہے اور کلومیٹر تقریباً تین ہزار دو سو اسی3280 فٹ کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے اڑتالیس (48) میل ہاشمی ایک سو پچہتر(175) کلومیٹر اور تقریبا ایک سو نو(109) میل انگریزی ہوتے ہیں۔لہذا اس سے کم مسافت پر نماز میں قصر کرنا اور روزہ کا چھوڑنا صحیح نہ ہوگا۔اللہ اعلم بالصواب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک تین دن کی مسافت یعنی چوبیس(24)فرسخ یعنی 263 کلومیٹر کا ہے، لیکن متاخرین احناف کا مسلک جمہور علما ہی کا ہے یعنی سولہ (16) فرسخ ہے۔ اور سولہ فرسخ ایک سو پچہتر(175)کلومیٹر ہوتے ہیں۔اس سے کم مسافت میں قصر کرنا جمہور فقہا کی تصریحات کے خلاف ہوگا اور خروج عن الجمہور ہوگا۔ اس لئے کہ ایک میل ہاشمی کی مسافت جمہور علما نے اس طرح کی ہے۔ امام غزالی، امام رافعی، علامہ مجدالدین ابن تیمیہ، علامہ شمس الدین کرمانی، علامہ ابن حجر مکی، علامہ خطیب شربینی، علامہ رملی، علامہ عبدالغنی دمشقی حنفی، علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہم اللہ وغیرہم نے ایک میل ہاشمی کی مسافت چارہزار(4000) خطوہ انسانی یعنی بارہ ہزار (12000) قدم انسانی لکھا ہے۔(بعضوں نے چار ہزار خطوہ سے چار ہزار قدم سمجھا ہے، یہ صحیح نہیں ہے) اور ایک قدم انسانی(foot) بارہ انچ (30.48) سنٹی میٹر کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے اڑتالیس میل ہاشمی (576000 ) فٹ اور(175564.80)میٹر، تقریباً ایک سو پچہتر (175)کلو میٹر ہوتے ہیں۔ بعض حضرات نے 4000 ذراع کے حساب سے 88 کلومیٹر کے قائل ہوگئے ہیں۔ یہ قول مفردات میں سے ہے اور شاذ ہے۔ اس لئے جمہور علما چار ہزار خطوہ یعنی بارہ ہزار قدم کے قائل ہیں ، نہ کہ چار ہزار(4000) ذراع کے۔ علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی چار ہزار خطوہ لکھا ہے۔ علامہ نووی اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہما نے ایک میل ھاشمی یعنی ایک میل شرعی کی مسافت چھ ہزار(6000)ذراع لکھا ہے۔ذراع سے مراد ذراع ہاشمی ہے، اور ذراع ہاشمی دو فٹ یعنی 61 سنٹی میٹر ہے۔ (معجم لغۃ الفقہا1/213) اس حساب سے بھی 6000 ذراع کی مسافت 12000 فٹ ہوئے۔ اور ایک میل ہاشمی کی مسافت 12000 فٹ ہوئے۔ لہذا ایک سو پچہتر(175) کلومیٹر ہی قصر کی صحیح مسافت بنتی ہے۔اللہ اعلم اس مسئلہ پر مزید معلومات کے لئے حضرت مولانا محمد شفیع قاسمی بھٹکلی مدظلہ کی کتاب مسافت قصر ایک سو پچہتر کلومیٹر کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ جو ادارہ رضیۃ الابرار سلمان آباد، بھٹکل، ہند سے شائع ہوچکی ہے۔


شعراء کی فہرست[ترمیم]

شاعرِ اعظم ۔۔۔۔۔

کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں

کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں

کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں

وہ کون ہیں کہ شاعرِ اعظم کہیں جسے

میں نے کہا 'جگر' تو کہا ڈیڈ ہو چکے

میں نے کہا کہ 'جوش' کہا قدر کھو چکے

میں نے کہا کہ 'ساحر' و 'مجروح' و 'جاں نثار'

بولے کہ شاعروں میں نہ کیجیے انہیں شمار

میں نے کہا ادب پہ ہے احساں 'نشور' کا

بولے کہ ان سے میرا بھی رشتہ ہے دور کا

میں نے کہا 'شکیل' تو بولے ادب فروش

میں نے کہا 'قتیل' تو بولے کہ بس خموش

میں نے کہا کچھ اور! تو بولے کہ چپ رہو

میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو

میں نے کہا 'فراق' کی عظمت پہ تبصرہ

بولے فراق شاعرِ اعظم ارا اورہ

میں نے کہا کلامِ 'روش' لاجواب ہے

کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے

میں نے کہا ترنمِ 'انور' پسند ہے

کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے

میں نے کہا 'خمار' کا بھی معتقد ہوں میں

داڑھی پہ ہاتھ پھیر کے کہنے لگے کہ "ایں"

میں نے کہا 'سحر' بھی ہیں خوش فکر و خوش مزاج

بولے کہ یوں مزاح کا مت کیجیے امتزاج

میں نے کہا کہ 'ساغر' و ' آزاد' بولے نو

پوچھا کہ 'عرش' بولے کوئی اور نام لو

میں نے کہا کہ 'فیض' کہا فن میں کچا ہے

میں نے کہا کہ 'شاد' تو بولے کہ بچہ ہے

میں نے کہا 'فنا' بھی بہت خوش کلام ہے

بولے کہ واہ نظم میں کچھ سست گام ہے

میں نے کہا کہ نظم میں 'وامق' بلند ہیں

کہنے لگے کہ وہ تو ترقی پسند ہیں

میں نے کہا کہ 'شاد' تو بولے کہ کون شاد

میں نے کہا کہ 'یاد' تو بولے کہ کس کی یاد

میں نے کہا 'قمر' کا تغزل ہے دل نشیں

کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں

میں نے کہا 'عدم' کے یہاں اک تلاش ہے

بولے کہ شاعری اسے وجۂ معاش ہے

میں نے کہا 'حفیظ' تو بولے کہ خود پسند

میں نے کہا 'رئیس' تو بولے قطعی بند
میں نے کہا 'نیاز ' تو بولے عجیب ہیں
میں نے کہا 'سرور' تو بولے کہ نکتہ چیں

میں نے کہا 'اثر' تو کہا آؤٹ آف ڈیٹ

میں نے کہا کہ 'نوح' تو بولے کہ تھرڈ ریٹ

میں نے کہا کہ یہ جو ہیں 'محشر عنایتی'

کہنے لگے کہ آپ ہیں ان کے حمایتی

میں نے کہا کہ یہ جو ہیں 'گلزار دہلوی'

بولے برہمن کو بھی ہے شوق شاعری

میں نے کہا کہ 'انور' و 'دائم' بھی خوب ہیں

بولے مری نظر میں تو سب کے عیوب ہیں

میں نے کہا کہ 'روحی' و 'مخفی' ، 'نگاہ' و 'ناز'

بولے کہ میرے گھر میں بھی ہے اک ادب نواز

میں نے کہا کہ یہ جو 'دلاور فگار' ہیں

بولے کہ وہ تو طنز و ظرافت نگار ہیں

میں نے کہا کہ طنز میں اک بات بھی تو ہے

بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے

میں نے کہا کہ آپ کے دعوے ہیں بے دلیل

کہنے لگے کہ آپ سخنور ہیں یا وکیل

میں نے کہا کہ 'فرقت' و 'شہباز' کا کلام

کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں

میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں

کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں

پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ

میں نے کہا 'حضور' تو بولے کہ شکریہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلاور فگار

اشعار میں ضرب المثل[ترمیم]

آباد مر کے کوچۂ جاناں میں رہ گئی

دی تھی دعا کسی نے کہ جنت میں گھر ملے


آباد لکھنوی

۔۔۔۔۔۔۔

ﭘﮯ ﮨﮯ ﻋﯿﺐ ﺟُﻮ ﺗﺮﮮ، ﺣﺎﺗﻢ ﺗﻮ ﻏﻢ نہ ﮐﺮ

ﺩﺷﻤﻦ ﮨﮯ ﻋﯿﺐ ﺟُﻮ ﺗﻮ ﺧﺪﺍ ﻋﯿﺐ ﭘﻮﺵ ﮨﮯ


ﺷﺎﮦ ﺣﺎﺗﻢ ـــــــــــــ


ﻓﮑﺮ ﻣﻌﺎﺵ، ﻋﺸﻖ ﺑﺘﺎﮞ، ﯾﺎﺩ ﺭﻓﺘﮕﺎﮞ

ﺍﺱ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﻮئی ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﮮ


ﺳﻮﺩﺍ ــــــــــــــــ


ﺟﻮ کہ ﻇﺎﻟﻢ ﮨﻮ ﻭﮦ ﮨﺮﮔﺰ ﭘﮭﻮﻟﺘﺎ ﭘﮭﻠﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ

ﺳﺒﺰ ﮨﻮﺗﮯ ﮐﮭﯿﺖ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﺒﮭﻮ ﺷﻤﺸﯿﺮ ﮐﺎ


ﺳﻮﺩﺍ

ـــــــــــــــــ


ﺩﻥ ﮐﭩﺎ، ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮐﭩﺎ ﻟﯿﮑﻦ

ﺭﺍﺕ ﮐﭩﺘﯽ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ


ﺳﯿﺪ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺛﺮ ــ۔۔۔۔۔۔


ﺗﺪﺑﯿﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻃﺒﯿﺐ

ﺍﺏ ﺟﺎﻥ ﮨﯽ ﮐﮯ ﺳﺎتھ یہ ﺁﺯﺍﺭ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ


ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ــــــــــ


ﺍﺏ ﺗﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺖ ﮐﺪﮮ ﺳﮯ ﻣﯿﺮ

ﭘﮭﺮ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﮔﺮ ﺧﺪﺍ ﻻﯾﺎ


ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ

ـــــــــــــــــ

ﻣﯿﺮﮮ ﺳﻨﮓ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﻓﺮﮨﺎﺩ

ﺭکھ ﮐﮯ ﺗﯿﺸﮧ ﮐﮩﮯ ﮨﮯ، ﯾﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ


ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ـــــــــــــ


ﺷﺮﻁ سلیقہ ﮨﮯ ﮨﺮ ﺍﮎ ﺍﻣﺮ ﻣﯿﮟ

ﻋﯿﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﮨﻨﺮ ﭼﺎﮨﺌﯿﮯ


ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ـــــــــــــ


ﺑﮩﺖ کچھ ﮨﮯ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮ ﺑﺲ

کہ ﺍللہ ﺑﺲ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻗﯽ ﮨﻮﺱ


ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ـــــــــــ


ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮐﻮﮦ ﮐﻦ ﺍﺳﯽ ﻏﻢ ﻣﯿﮟ

آنکھ ﺍﻭﺟﮭﻞ، ﭘﮩﺎﮌ ﺍﻭﺟﮭﻞ ﮨﮯ


ﻣﯿﺮ ﺗﻘﯽ ﻣﯿﺮ ــــــــــــ


ﯾﺎ ﺗﻨﮓ نہ ﮐﺮ ﻧﺎﺻﺢ ﻧﺎﺩﺍﮞ، ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﺎ

ﯾﺎ ﭼﻞ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﮮ ، ﺩﮨﻦ ﺍﯾﺴﺎ، ﮐﻤﺮ ﺍﯾﺴﯽ

ﻣﮩﺘﺎﺏ ﺭﺍﺋﮯ ﺗﺎﺑﺎﮞ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﭨﻮﭨﺎ کوکعبہ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﻏﻢ ﮨﮯ ﺷﯿﺦ

کچھ ﻗﺼﺮ ﺩﻝ ﻧﮩﯿﮟ کہ ﺑﻨﺎﯾﺎ نہ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ

ﻗﺎﺋﻢ ﭼﺎﻧﺪ ﭘﻮﺭﯼ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﮐﯽ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﺍﺑﺮ ﻧﮯ ﺑﻨﺪ

ﺟﻮ گنہ کیجیئے ﺛﻮﺍﺏ ﮨﮯ ﺁﺝ

ﻣﯿﺮ سوز ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﮨﺸﯿﺎﺭ ﯾﺎﺭ ﺟﺎﻧﯽ، یہ ﺩﺷﺖ ﮨﮯ ﭨﮭﮕﻮﮞ ﮐﺎ

ﯾﮩﺎﮞ ﭨﮏ ﻧﮕﺎﮦ ﭼﻮﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﻝ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﺎ

ﻧﻈﯿﺮ ﺍﮐﺒﺮ ﺁﺑﺎﺩﯼ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﭘﮍﮮ ﺑﮭﻨﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺩﺍﻧﺎ، ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﭘﻨﮉﺕ، ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺳﯿﺎﻧﮯ

ﺟﻮ ﺧﻮﺏ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﯾﺎﺭ ﺁﺧﺮ، ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ

ﺧﺪﺍ ﮨﯽ ﺟﺎنے

ﻧﻈﯿﺮ ﺍﮐﺒﺮ ﺁﺑﺎﺩﯼ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﭨﮏ ساتھ ﮨﻮ ﺣﺴﺮﺕ ﺩﻝ ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ

ﻋﺎﺷﻖ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﮨﮯ ﺫﺭﺍ ﺩﮬﻮﻡ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﮯ

ﻓﺪﻭﯼ ﻋﻈﯿﻢ ﺁﺑﺎﺩﯼ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

رکھ نہ ﺁﻧﺴﻮ ﺳﮯ ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ

ﮐﮭﺎﺭﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺩﺍﻝ ﮔﻠﺘﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﻗﺪﺭﺕ ﺍللہ ﻗﺪﺭﺕ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﺑﻠﺒﻞ ﻧﮯ ﺁﺷﯿﺎنہ ﭼﻤﻦ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺎ

ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭼﻤﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻡ ﺑﺴﮯ ﯾﺎ ﮨﻤﺎ ﺭﮨﮯ

ﻣﺼﺤﻔﯽ ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﮨﺰﺍﺭ ﺷﯿﺦ ﻧﮯ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﺑﮍﮬﺎئی ﺳﻦ ﮐﯽ ﺳﯽ

ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﺪﻥ ﮐﯽ ﺳﯽ

ﺍﻧﺸﺎ اللہ خاں انشا ــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﺍﮮ ﺧﺎﻝ ﺭﺥ ﯾﺎﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﭨﮭﯿﮏ ﺑﻨﺎﺗﺎ

ﺟﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺣﺎﻓﻆ ﻗﺮﺁﻥ سمجھ ﮐﺮ

ﺷﺎﮦ ﻧﺼﯿﺮ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﺁﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮒ، ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﮭﯽ، اٹھ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ

ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮨﯽ ﮈﮬﻮﻧﮉﮬﺘﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮦ

ﮔﯿﺎ

ﺁﺗﺶ ـــــــــــــــــ

ﻟﮕﮯ منہ ﺑﮭﯽ ﭼﮍﺍﻧﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺻﺎﺣﺐ

ﺯﺑﺎﮞ ﺑﮕﮍﯼ ﺗﻮ ﺑﮕﮍﯼ ﺗﮭﯽ، ﺧﺒﺮ ﻟﯿﺠﺌﯿﮯ ﺩﮨﻦ

ﺑﮕﮍﺍ

ﺁﺗﺶ ـــــــــــــــــــــ

ﻣﺸﺎﻕ ﺩﺭﺩ ﻋﺸﻖ ﺟﮕﺮ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ

ﮐﮭﺎؤں ﮐﺪﮬﺮ ﮐﯽ ﭼﻮﭦ، ﺑﭽﺎؤں کدھر کی چوٹ

ﺁﺗﺶ ـــــــــــــــــــــ

ﻓﺼﻞ ﺑﮩﺎﺭ ﺁئی ﭘﯿﻮ ﺻﻮﻓﯿﻮ ﺷﺮﺍﺏ

ﺑﺲ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﺼﻠّﺎ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮯ

ﺁﺗﺶ ــــــــــــــــــــــ

ﺯﺍﮨﺪ ﺷﺮﺍﺏ ﭘﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﺎﻓﺮ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ

ﮐﯿﺎ ﮈﯾﮍﮪ ﭼﻠﻮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﻤﺎﻥ بہہ ﮔﯿﺎ

ﺫﻭﻕ ــــــــــــــــــــ

ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﮔﺮچہ ﺩﮐﻦ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺑﮍﯼ ﻗﺪﺭ ﺳﺨﻦ

ﮐﻮﻥ ﺟﺎﺋﮯ ﺫﻭﻕ ﭘﺮ ﺩﻟﯽ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ

ﺫﻭﻕ ـــــــــــــــــــ

ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺗﻮ ﻗﺘﻞ ﻋﺎﺷﻘﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻨﻊ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ﯾﻮﺳﻒ ﺑﮯ ﮐﺎﺭﻭﺍﮞ ﮨﻮ ﮐﺮ

ﺧﻮﺍﺟﮧ ﻭﺯﯾﺮ ــــــــــــــــ

ﺑﻠﺒﻞ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ پہ ﮨﯿﮟ ﺧﻨﺪﮦ ﮨﺎﺋﮯ ﮔﻞ

ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﻮ ﻋﺸﻖ ﺧﻠﻞ ﮨﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﺎ

ﻏﺎﻟﺐ ــــــــــــــــــــــــــ

ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺧﻠﻖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺗﺎ ﺍﺳﮯ ﻧﻈﺮ نہ ﻟﮕﮯ

ﺑﻨﺎ ﮨﮯ ﻋﯿﺶ ﺗﺠﻤﻞ ﺣﺴﯿﻦ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ

ﻏﺎﻟﺐ ــــــــــــــــــــــ

ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺛﻮﺍﺏ ﻃﺎﻋﺖ ﻭ ﺯﮨﺪ

ﭘﺮ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﺍﺩﮬﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ

ﻏﺎﻟﺐ ــــــــــــــــــــــــــ

ﮔﻮ ﻭﺍﮞ ﻧﮩﯿﮟ ، پہ ﻭﺍﮞ ﮐﮯ ﻧﮑﺎﻟﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﻮ ﮨﯿﮟ

ﮐﻌﺒﮯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺑﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﺴﺒﺖ ﮨﮯ ﺩﻭﺭ ﮐﯽ

ﻏﺎﻟﺐ ــــــــــــــــــــــــــــ

ﺩﺍﻡ ﻭ ﺩﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﮩﺎﮞ

ﭼﯿﻞ ﮐﮯ ﮔﮭﻮﻧﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺱ ﮐﮩﺎﮞ

ﻏﺎﻟﺐ ــــــــــــــــــــــــــ

ﮐﻮچۂ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﯿﮟ ﮐﻮئی ﮨﻢ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﮯ

ﺧﻀﺮ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻧﯿﮟ ﻏﺮﯾﺐ، ﺍﮔﻠﮯ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ

ﻭﺯﯾﺮ ﻋﻠﯽ ﺻﺒﺎ ـــــــــــــــــــــــــــــ

ﺍﺫﺍﮞ ﺩﯼ ﮐﻌﺒﮯ ﻣﯿﮟ، ﻧﺎﻗﻮﺱ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻧﮑﺎ

ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﺮﺍ ﻋﺎﺷﻖ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﮑﺎﺭ ﺁﯾﺎ

ﻣﺤﻤﺪ ﺭﺿﺎ ﺑﺮﻕ ـــــــــــــــــــــ

ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ ﻧﻮ ﮐﮯ ﺍﻧﺒﺎﺭ

ﺧﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺮﻣﻦ ﮐﮯ ﺧﻮشہ ﭼﯿﻨﻮﮞ ﮐﻮ

ﻣﯿﺮ ﺍﻧﯿﺲ ــــــــــــــــــــــ

ﻭﮦ شیفتہ کہ ﺩﮬﻮﻡ ﮨﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﮐﮯ ﺯﮨﺪ ﮐﯽ

ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻮﮞ کہ ﺭﺍﺕ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺲ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ

ﻣﻠﮯ

شیفتہ ـــــــــــــــــ

ﮨﺮ ﭼﻨﺪ ﺳﯿﺮ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﻢ ﻧﮯ شیفتہ

ﭘﺮ ﻣﮯ ﮐﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﯿﮯ

شیفتہ ــــــــــــــــــ

ﻓﺴﺎﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﭻ ﮨﯿﮟ، ﭘﺮ کچھ کچھ

ﺑﮍﮬﺎ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺯﯾﺐ ﺩﺍﺳﺘﺎﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ

شیفتہ ـــــــــــــــــــــ

ﮐﯿﺎ ﻟﻄﻒ، ﺟﻮ ﻏﯿﺮ ﭘﺮﺩﮦ ﮐﮭﻮﻟﮯ

ﺟﺎﺩﻭ ﻭﮦ ﺟﻮ ﺳﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﮯ ﺑﻮﻟﮯ

ﺩﯾﺎ ﺷﻨﮑﺮ ﻧﺴﯿﻢ ــــــــــــــــــــ

ﺩﯾﻨﺎ ﻭﮦ ﺍس کا ﺳﺎﻏﺮ ﻣﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﻧﻈﺎﻡ

منہ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﺍُﺩﮬﺮ ﮐﻮ، ﺍﺩﮬﺮ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﺎ ﮐﮯ ہاتھ

ﻧﻈﺎﻡ ﺭﺍﻡ ﭘﻮﺭﯼ ـــــــــــــــــــــــ

ﮔﺮﮦ ﺳﮯ کچھ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ، ﭘﯽ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﺯﺍﮨﺪ

ﻣﻠﮯ ﺟﻮ ﻣﻔﺖ ﺗﻮ ﻗﺎﺿﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺍﻡ

ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﻣﯿﺮ ﻣﯿﻨﺎئی ـــــــــــــــــــــ

ﻭﮦ ﺟﺐ ﭼﻠﮯ ﺗﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺑﭙﺎ ﺗﮭﯽ ﭼﺎﺭ ﻃﺮﻑ

ﭨﮩﺮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺍﻧﻘﻼﺏ نہ ﺗﮭﺎ

ﺩﺍﻍ ـــــــــــــــ

ﭘﺎﻥ ﺑﻦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﻣﺮﯼ ﺟﺎﻥ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

یہ ﻣﺮﮮ ﻗﺘﻞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﻇﮩﯿﺮ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﻇﮩﯿﺮ ــــــــــــــــ

ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﺌﮯ ﻭﮦ ﻣﺴﺖ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ

ﺟﺐ ﺗﮏ ﺷﺮﺍﺏ ﺁﺋﮯ کئی ﺩﻭﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ

ﺷﺎﺩ ﻋﻈﯿﻢ ﺁﺑﺎﺩﯼ ـــــــــــــــــــ

ﺧﻼﻑ ﺷﺮﻉ ﮐﺒﮭﯽ ﺷﯿﺦ ﺗﮭﻮﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﻣﮕﺮ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﻮﮐﺘﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ

ﺍﮐﺒﺮ ﺍلہ ﺁﺑﺎﺩﯼ ـــــــــــــــ

دیکھ آؤ ﻣﺮﯾﺾ ﻓﺮﻗﺖ ﮐﻮ

ﺭﺳﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ، ﺛﻮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ

ﺣﺴﻦ ﺑﺮﯾﻠﻮﯼ ـــــــــــــــ

ﺗﻤﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﻮﮞ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭼﺎﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﻮﮞ

ﻣﺮﺍ ﺩﻝ ﭘﮭﯿﺮ ﺩﻭ، مجھ ﺳﮯ یہ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮ

ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ

ﻣﻀﻄﺮ ﺧﯿﺮ ﺁﺑﺎﺩی ـــــــــــــــــــــــ

ﺍﻓﺴﻮﺱ، ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺳﺨﻦ ﮨﺎﺋﮯ ﮔﻔﺘﻨﯽ

ﺧﻮﻑ ﻓﺴﺎﺩ ﺧﻠﻖ ﺳﮯ ﻧﺎ گفتہ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ

ﺁﺯﺍﺩ ﺍﻧﺼﺎﺭﯼ ــــــــــ

ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻋﮩﺪ ﮐﺮﻡ ﻧﺎ ﺁﺷﻨﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮯ

ﺑﻨﺪﮦ ﭘﺮﻭﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ، ﺍﭼﮭﺎ ، ﺧﻔﺎ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮯ

ﺣﺴﺮﺕ ﻣﻮﮨﺎﻧﯽ ـــــــــــــ

یہ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺯﺑﺎﮞ ﺑﻨﺪﯼ ﮨﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﺗﯿﺮﯼ ﻣﺤﻔﻞ ﻣﯿﮟ

ﯾﮩﺎﮞ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ

ﺍﻗﺒﺎﻝ ــــــــــ

ﺍﻗﺒﺎﻝ ﺑﮍﺍ ﺍﭘﺪﯾﺸﮏ ﮨﮯ ، ﻣﻦ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﮦ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ

ﮔﻔﺘﺎﺭ ﮐﺎ یہ ﻏﺎﺯﯼ ﺗﻮ ﺑﻨﺎ، ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎ ﻏﺎﺯﯼ ﺑﻦ

نہ ﺳﮑﺎ

ﺍﻗﺒﺎﻝ ـــــــــــ

کچھ سمجھ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﻣﻮﺝ ﺩﺭﯾﺎ ﮐﺎ ﺣﺮﯾﻒ

ﻭﺭنہ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ کہ ﻋﺎﻓﯿﺖ ﺳﺎﺣﻞ

ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﻭﺣﺸﺖ ﮐﻠﮑﺘﻮﯼ ـــــــــــــ

دیکھ ﮐﺮ ﮨﺮ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﻮ ﺣﯿﺮﺍﮞ ﮨﻮﻧﺎ

ﻭﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺩﺍﺧﻞ ﺯﻧﺪﺍﮞ ﮨﻮﻧﺎ

ﻋﺰﯾﺰ ﻟﮑﮭﻨﻮﯼ ــــــــــــــــ

ﭼﺘﻮﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ کچھ ﺳﺮﺍﻍ ﺑﺎﻃﻦ ﮐﺎ

ﭼﺎﻝ ﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻓﺮ پر ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺑﺮﺳﺘﯽ ﮨﮯ

ﯾﮕﺎﻧﮧ ﭼﻨﮕﯿﺰﯼ ـــــــــ

ﻭﮦ ﺁﺋﮯ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﻮ ﺑﺮﻕ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ

ﭘﮭﺮ اس کے ﺑﻌﺪ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺷﻨﯽ نہ ﺭﮨﯽ

ﻣﮩﺎﺭﺍﺝ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺑﺮﻕ ــــــــــــــــــــــ

ﮨﺮ ﺗﻤﻨﺎ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﺧﺼﺖ ﮨﻮ گئی

ﺍﺏ ﺗﻮ ﺁﺟﺎ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺧﻠﻮﺕ ﮨﻮ گئی

ﻋﺰﯾﺰ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻣﺠﺬﻭﺏ ـــــــــــــــــــ

ﺍﺏ ﯾﺎﺩ ﺭﻓﺘﮕﺎﮞ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮨﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﯽ

ﯾﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﺘﻨﯽ ﺩﻭﺭ ﺑﺴﺎئی ﮨﯿﮟ ﺑﺴﺘﯿﺎﮞ

ﻓﺮﺍﻕ ﮔﻮ ﺭﮐﮭﭙﻮﺭﯼ ـــــــــــــــ

ﺩﺍﻭﺭ ﺣﺸﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎمۂ ﺍﻋﻤﺎﻝ نہ دیکھ

ﺍﺱ ﻣﯿﮟ کچھ ﭘﺮﺩﮦ ﻧﺸﯿﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﻡ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﻣﺤﻤﺪ ﺩﯾﻦ ﺗﺎﺛﯿﺮ ـــــــــــــــــــــــــ

ﺍﻣﯿﺪ ﻭﺻﻞ ﻧﮯ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﺩﺋﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺣﺴﺮﺕ

ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎﻓﺮ ﮐﯽ ' ﮨﺎﮞ' ﺑﮭﯽ ﺍﺏ 'ﻧﮩﯿﮟ '

ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ

ﭼﺮﺍﻍ ﺣﺴﻦ ﺣﺴﺮﺕ ـــــــــــ

ﺍﻋﺘﺮﺍﻑ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻄﺎؤں ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﯽ ﭼﻠﻮﮞ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺲ ﮐﺲ ﮐﻮ ﻣﻠﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺰﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻌﺪ

ﮐﺮﺍﺭ ﻧﻮﺭﯼ ـــــــــــــــــــ

ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺗﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﮨﻨﮕﺎﻣﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺗﺮﯼ ﺑﺰﻡ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺌﮯ

ﻋﺰﯾﺰ ﺣﺎﻣﺪ ﻣﺪﻧﯽ ــــــــــــــــ

ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ

ﺑﺎﻗﯽ ﻋﻤﺮ ﺍﺿﺎﻓﯽ ﮨﮯ

ﻣﺤﺒﻮﺏ ﺧﺰﺍﮞ ـــــــــــ

ﻣﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯﮦ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﮯ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﻧﮯ

ﻣﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ، ﻭﮦ ﺭﮨﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮﺗﮯ

ﺁﺗﺶ ــــــــــــــــــ

ﺍﯾﺴﯽ ﺿﺪ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ، ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺬﮨﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ

ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﺎﻓﺮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﺎﻓﺮ ﻣﺴﻠﻤﺎﮞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﭩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﮞ

ﺑﮍﺍ ﺗﯿﺮ ﻣﺎﺭﺍ ﺟﻮﺍﻧﯽ ﻟﭩﺎ ﺩﯼ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ٹسٹ[ترمیم]

خاندان غلاماں سلاطین خاندان غلامان کے جدول میں فارسی نستعلیق

عالمی فاتح کا نام مدت

قطب الدین ایبک
1206 - 1210

آرام شاہ
1210 - 1211

شمس الدین التمش
1211 - 1236

رکن الدین فیروز
1236

رضیه سلطانه
1236 - 1240

معز الدین بھرام
1240 - 1242

علاؤ الدین مسعود
1242 - 1246

ناصر الدین محمود
1246 - 1266

غیاث الدین بلبن
1266 - 1286

معز الدین کیقباد
1286 - 1290

بوبی فشر
1290

ویشواتھن آنند
1290

گیری کیسپاروف
1290

ویشواتھن آنند
1290

ویشواتھن آنند
1290

میگنس کارلسن
1290
خلجی خاندان نے خاندان غلاماں کو ہٹا دیاـ

علم حدیث[ترمیم]

شیعہ علم حدیث
خبر متواتر متفق علیہ مشہور عزیز غریب حدیث حسن
حدیث متصل حدیث صحیح حدیث منکر
حدیث مسند سند کے لحاظ سے علم الحدیث متن کے لحاظ سے→ حدیث متروک
خبر آحاد حدیث ضعیف حدیث مدرج
حدیث منقطع حدیث مضطرب حدیث مدلس حدیث موقوف حدیث منقطع حدیث موضوع

زمره:احادیث

دستخط[ترمیم]

یہ صارف منتظم ہے(علی نقی) 

شہاب الدین سہروردی=[ترمیم]

فارس مسلم عالم
شہاب الدین یحیی ابن حبش بن امیرک ابوالفتوح سہروردی
معروفیتشہاب الدین سہروردی
عہداسلامی عہد زرین
مذہباسلام
  • ==سانچہ اسماعیلی==



رجال[ترمیم]

کتب‌ رجالی شیعہ
اصل‌های اولیه
اختیار معرفة الرجال (کشی)*
فهرست اسماء مصنفی الشیعه (نجاشی)*
رجال/ابواب (شیخ طوسی)*
فهرست (شیخ توسی)*
رجال (ابن غضائری)*
طبقات الرجال (برقی)*
مشیخهٔ تهذیب (شیخ توسی)
مشیخهٔ فقیه (شیخ صدوق)
رساله (ابوغالب زراری)
اصل‌های ثانویه
رجال (ابن داوود)*
خلاصة الاقوال (علامه حلی)*
فهرست (شیخ منتجب الدین)
معالم العلماء (ابن شهرآشوب)
جامع‌های رجالی
مجمع الرجال (عنایت‌الله قهپایی)
منهج المقال (رجال کبیر) (استرآبادی)
نقد الرجال (تفرشی)
جامع الرواة (اردبیلی)
تنقیح المقال (ممقانی)
قاموس الرجال (شوشتری)
طبقات اعلام الشیعه (آقابزرگ تهرانی)
معجم رجال الحدیث (آیت‌الله خویی)
*: هشت کتاب

رده:کتاب‌های رجال شیعه


ایشیا میں شیعہ[ترمیم]

شیعہ کتب احادیث[ترمیم]



نبوی رشتہ دار[ترمیم]

کلاب بن مره
 
 
 
 
 
 
فاطمه بنت سعد
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
زهره بن کلاب
(جد بنی زهره)
پدر پدر پدربزرگ مادری
 
 
 
 
 
 
قصی بن کلاب
پدر پدر پدر پدربزرگ پدری
 
 
حبی بنت حلیل
مادر پدر پدر پدربزرگ پدری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
عبدمناف بن زهره
پدر پدربزرگ مادری
 
 
 
 
 
 
عبدمناف
پدر پدر پدربزرگ پدری
 
 
عاتکه بنت مرة
مادر پدر پدربزرگ پدری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
وهاب بن عبد مناف
پدربزرگ مادری
 
 
 
 
 
 
هاشم
(جد بنی هاشم)
پدر پدربزرگ پدری
 
 
سلمی بنت عمر
مادر پدربزرگ پدری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
فاطمه بنت عمرو
مادربزرگ پدری
 
 
 
عبدالمطلب
پدربزرگ پدری
 
 
 
 
 
 
 
هاله دختر وهب
نامادربزرگی پدری
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
آمنه بنت وهب
مادر
 
عبدالله بن عبدالمطلب
پدر
 
ابوطالب
عمو
 
 
زبیر
عمو
 
حارث
عمو
 
حمزه بن عبدالمطلب
عمو خوانده
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ثویبه
اولین پرستار
 
 
حلیمه دختر عبدالله
دومین پرستار
 
 
 
 
عباس بن عبدالمطلب
عمو خوانده
شجره‌نامه
 
ابولهب
عمو خوانده
 
۶پسر و
۶ دختر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محمد
 
خدیجه
اولین زن
 
 
عبدالله بن عباس
پسر عمو
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
فاطمه زهرا
دختر
 
 
 
علی بن ابی‌طالب
پسر عمو
شجره‌نامه, descendants
 
 
 
 
 
قاسم
پسر
 
عبدالله
پسر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
زینب
دختر
 
رقیه دختر محمد
دختر
 
عثمان بن عفان
داماد
شجره‌نامه
 
ام‌کلثوم بنت محمد
دختر
 
زید بن حارثه
پسر خوانده
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
علی بن زینب
نوه پسر
 
امامه بنت زینب
دختر
 
عبدالله بن عثمان
نوه پسر
 
 
 
ریحانه دختر زید قرظی
(اختلاف نظر بر سر ازدواج)
 
 
اسامه بن زید
نوه خوانده پسر
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
محسن پسر علی
نوه پسر
 
حسن مجتبی
نوه پسر
 
حسین بن علی
نوه پسر
شجره‌نامه حسین بن علی
 
ام‌کلثوم دختر علی
نوه دختر
 
زینب
نوه دختر
 
 
صفیه دختر حیی بن اخطب
دهمین / یازدهمین زن*
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ابوبکر
پدر زن
شجره‌نامه
 
 
سوده
دومین / سومین زن*
 
 
عمر بن خطاب
پدر زن
شجره‌نامه
 
 
ام‌سلمه
ششمین زن
 
 
جویریه
هشتمین زن
 
 
میمونه
یازدهمین / دوازدهمین زن*
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
عایشه
دومین / سومین زن*
شجره‌نامه
 
 
زینب دختر خزیمه
پنجمین زن
 
 
حفصه
چهارمین زن
 
 
زینب بنت جحش
هفتمین زن
 
 
ام‌حبیبه
نهمین زن
 
 
ماریه
سیزدهمین زن
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
ابراهیم
پسر
ارتباط مستقیم با پررنگ نمایش داده‌شده‌است.
* ترتیب ازدواج محل اختلاف است














شجرہ نبوی[ترمیم]

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

عَدْنان

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

عَکّ

 

مَعَدّ

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

اِیاد

 

قُنُص

 

قُضاعه

 

نِزار

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

اَنمار

 

رَبیعه

 

مُضر

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

عَیلان

 

الیاس

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

قَمَعَه

 

طابِخَه

 

مُدْرِِکَه

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

هُذَیل

 

خُذَیْمه

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

هُون

 

اسدَه

 

واسَد

 

کِنانه

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

مِلکان

 

عبد منات

 

مالک

 

نَظْر

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

یَخلُد

 

مالک

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

فِهر

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

غالِب

 

حارث

 

اسد

 

مُحارب

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

تَیم

 

لُؤَیّ

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

عَوف

 

عامر

 

سامَه

 

کَعب

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

هُصَیص

 

عَدیّ

 

مُرةَّ

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

یَقَظَه

 

تَیْم

 

کِلاب

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

زُهْرَه

 

قُصَیّ
۴۰۰

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

عبدالعزی

 
 
 
 
 
 
 
 

عبد مناف
۴۳۰

 
 
 
 
 
 
 

عبدالدار

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

أسد

 
 
 

مطلب

 
 

هاشم
۴۶۴

 
 
 

نوفل

 
 
 

عبد شمس

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

خویلد

 
 
 
 
 
 
 
 

عبدالمطلب
۴۹۷

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

عوام

 

خدیجه

 

حمزه

 
 

عبدالله
۵۴۵

 
 
 

ابوطالب

 
 

عباس

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

زبیر

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

محمد
۵۷۱

 

علی
۵۹۹

 

عقیل

 

جعفر

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

فاطمه

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

مسلم

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

حسن
۶۲۵

 
 
 
 
 
 

حسین
۶۲۶

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

زمره:شجرہ نسب‌


































شیعہ لٹریچر[ترمیم]

اہل تشیع یا شیعہ

(عربی: شيعة) اہل سنت کے بعد مسلمانوں کا دوسرا سب سے بڑا فرقہ ہے۔ اہل تشیع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد فقط حضرت علی کی امامت کا قائل ہیں اور صرف انھیں رسول اللہ کا جانشین مانتے ہیں۔ شیعہ یا اہل تشیع پہلے تین خلفاء کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ نے دعوت ذوالعشیرہ اور خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر حضرت علی کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ "جو میری مدد کرے گا وہ میرا وزیر میرا وصی اور خلیفہ ہوگا"۔ تینوں دفعہ امام علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور کہا کہ اگرچہ میں چھوٹا ہوں اور میری ٹانگیں کمزور ہیں مگر میں آپ کی مدد کروں گا۔ تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ "اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے وزیر اور وصی ہو"۔ اس کے علاوہ حضور نے حجۃ الوداع کے بعد غدیر خم کے علاقے میں ایک خطبہ میں فرمایا کہ "جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں۔

شیعہ کا لفظی مفہوم

عربی زبان میں شیعہ کا لفظ دو معنی رکھتا ہے۔ پہلا کسی بات پر متفق ہونا اور دوسرا کسی شخص کا ساتھ دینا یا اس کی پیروی کرنا۔ قرآن میں کئی جگوں پر یہ لفظ اس طرح سے آیا ہے جیسے سورہ قصص کی آیت 15 میں حضرت موسی کے پیروان کو شیعہ موسی کہا گیا ہے اور دو اور جگہوں پر ابراہیم کو شیعہ نوح کہا گیا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں شیعہ کا لفظ کسی شخص کے پیروان کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے اختلافات کے زمانے میں ان کے حامیوں کو بالترتیب شیعان علی ابن ابو طالب اور شیعان معاویہ بن ابو سفیان کہا جاتا تھا۔ صرف لفظ شیعہ اگر بغیر تخصیص کے استعمال کیا جائے تو مراد شیعانِ علی ابن ابو طالب ہوتی ہے، وہ گروہ جو اس اختلاف میں حضرت علی ابن ابی طالب کا حامی تھا اور جو ان کی امامت کا عقیدہ رکھتا ہے۔ اہل تشیع کا تاریخی پہلو

شیعہ عقائد کے مطابق شیعیت کا آغاز پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور حیات میں اس وقت ہوا جب پہلی بار حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آیہ [اولئک هم خیر البریه] کے تفسیر میں علی سے خطاب کرکے کہا "تو اور ترے شیعان قیامت کے دن سرخرو ہونگے اور خدا بھی تو اور تیرے شیعوں سے راضی ہوگا۔ اس وقت صحابہ میں سے چار لوگوں کو حضرت علی کا شیعہ کہا جاتا تھا: سلمان فارسی ، ابوذر غفاری ، مقداد بن اسود اور عمار بن یاسر[حوالہ درکار] اہلسنت سے اختلاف

اہل تشیع کے اہل سنت سے اختلافات ہیں جن میں سے چند قابل ذکر ہیں۔

1) امامت
2) عدل

امامت

عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معانی راہنما یا سالار کے ہیں جو کسی بھی جماعت کی ‍قیادت کرے۔

روز مرّہ میں یہ لفظ مسجدوں میں نماز کی قیادت کرنے والے حضرات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کسی بھی فقہ کے بانی یا کسی بھی مذہبی و دیگر سوچ کے بانی کے لیے ان کے پیروکاروں کی طرف سے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

عدل عدل سے مراد کسی شئے کو اس کے اصل مقام پر رکھ دینا ہے۔ عدل کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حق دار کو اس کا حق دے دیا جائے۔ یعنی حق دار کو اس کا حق دینا عدل ہے، حق چھین لینا عدل نہیں ہے، ظلم ہے۔

خدا عادل اور انصاف کرنے والا ہے کیونکہ ظلم ایک قبیح فعل ہے اور خداوند متعال میں کوئی بھی عیب موجود نہیں ہوسکتا۔ پس کس طرح ممکن ہے کہ خداوند متعال برے کام کرنے والے کو جنت عطا کردے اور اچھے کام کرنے والے کو دوزخ میں بھیج دے۔ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خداوند متعال تمام مخلوقات سے انصاف کرے گا۔خدا کے تمام افعال حکمت اور مصلحت کے ساتھ ھوتے ھيں ۔ وہ کوئي بُرا کام نھيں کرتا اور نہ کسي ضروري کام کو ترک کرتا ہے ۔اُس ميں حسب ذيل نکات داخل ھيں :

(۱) دنيا کے تمام افعال بجائے خود يا اچھے ھيں يا برے ۔ يہ اور بات ہے کہ کسي بات کي اچھائي ، برائي ھماري عقل پورے طور پر نہ سمجہ سکے ليکن اس کے معني يہ نھيں کہ حقيقةً بھي وہ اچھے يا برے نھيں ھيں ۔ خدا جو کام کرتا ہے وہ اچھا ھي ہوتا ہے ۔ برا کام وہ کبھي نھيں کرتا ۔ خدا ظلم اور نا انصافي سے بري ہے ، يہ نھيںھو سکتا کہ وہ بندوں کو غير ممکن باتوں کا حکم دے يا ايسے کام کرنے کا حکم دے جو بالکل فضول ھوں اور جن کا کوئي فائدہ نہ ھو ۔ اس لئے کہ يہ تمام باتيں نقص ھيں اور خدا ھر نقص سے بري ہے ۔

(۲) خدا نے انسان کو اُس کے افعال ميں خود مختار بنايا ہے يعني وہ جو کچھ کام کرتا ہے اپنے ارادہ و اختيار سے کرتا ہے ۔ بے شک يہ قدرت خدا کي طرف سے عطا کي ھوئي ہے اور جب وہ چاھتا ہے تو اس قدرت کو سلب کر ليتا ہے ليکن جب وہ قدرت کو سلب کرلے تو انسان پر ذمہ داري باقي نھيں رہ سکتي يعني اُ س صورت ميں جو کچھ سرزد ھو اُس پر کوئي سزا نھيں دي جاسکتي جيسے پاگل آدمي ۔ خدا بندوں کو اچھي باتوں کا حکم ديتا ہے اور بري باتوں سے روکتا ہے ۔ اچھے کاموں پر وہ انعام عطا کرتا ہے اور برے کاموں پر سزا ديتا ہے ۔ اگر اُس نے انھيں مجبور پيدا کيا ھو يعني وہ خود ان کے ھاتھوں سب کچھ کام کراتا ھو تو احکام نافذ کرنا اور جزا و سزا دينا بالکل غلط اور بے بنياد ھو گا ۔ خدا کي ذات ايسے غلط اور بے جا طرز عمل سے بري ہے ۔

(۳) خدا کو بندوں کے تمام افعال کا علم ھميشہ سے ہے ليکن اُس کا علم ان لوگوں کے افعال کا باعث نھيں ہوتا بلکہ چونکہ يہ لوگ ان افعال کو اپنے اختيار سے کرنے والے ھيں اس لئے خدا کو ان کا علم ہے ۔
(۴) خدا کے لئے عدالت کو ضروري قرار دينے کے يہ معني نھيں ھيں کہ وہ ظلم،فعل شر يا فعل عبث پر قادر نھيں ہے بلکہ يہ معني ھيں کہ خدا کي کامل ذات اور اُس کے علم و قدرت کے لئے يہ مناسب نھيں ہے کہ وہ ظلم وفعل شر وغيرہ کا ارتکاب کرے ۔ اس لئے اُس سے ان افعال کا صادر ھونا بالکل غير ممکن ہے ۔خداوندِ متعال کی عدالت کو ثابت کرنے کے لئے متعدد دلائل هيں جن ميں سے هم بعض کاتذکرہ کريں گے:١۔هر انسان، چاهے کسی بهی دين ومذهب پر اعتقاد نہ رکهتاہو، اپنی فطرت کے مطابق عدل کی اچهائی و حسن اور ظلم کی بدی و برائی کو درک کر سکتا هے۔حتی اگر کسی ظالم کو ظلم سے نسبت ديں تو اس سے اظهار نفرت اور عادل کهيں تو خوشی کا اظهار کرتا هے۔شہوت وغضب کا تابع ظالم فرمانروا،جس کی ساری محنتوں کا نچوڑ نفسانی خواهشات کا حصول هے، اگر اس کا واسطہ محکمہ عدالت سے پڑ جائے اور قاضی اس کے زور و زر کی وجہ سے اس کے کسی دشمن کا حق پامال کر کے اس ظالم کےحق ميں فيصلہ دے دے، اگر چہ قاضی کا فيصلہ اس کے لئے باعث مسرت وخوشنودی هے ليکن اس کی عقل وفطرت حکم کی بدی اور حاکم کی پستی کو سمجه جائيں گے۔جب کہ اس کے برعکس اگر قاضی اس کے زور و زر کے اثر ميں نہ آئے اور حق وعدل کا خيال کرے، ظالم اس سے ناراض تو هو گا ليکن فطرتاً وہ قاضی اور اس کے فيصلے کو احترام کی نظر سے ديکهے گا۔ تو کس طرح ممکن هے کہ جس خدا نے فطرت انسانی ميں ظلم کو برا اور عدل کو اس لئے اچهاقرار ديا هو تاکہ اسے عدل کے زيور سے مزين اور ظلم کی آلودگی سے دور کرے اور جو <إِنَّ اللّٰہَ يَا مُْٔرُبِالْعَدْلِ وَاْلإِحْسَانِ> ٢، <قُلْ ا مََٔرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ> ٣،<يَادَاودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِيْفَةً فِی اْلا رَْٔضِ فَاحْکُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰی> ٤جيسی آيات کے مطابق عدل کا حکم دے وہ خود اپنے ملک وحکم ميں ظالم هو؟! ٢۔ظلم کی بنياد يا تو ظلم کی برائی سے لاعلمی، يا مقصد و هدف تک پهنچنے ميں عجز يالغووعبث کام هے، جب کہ خداوندِمتعال کی ذات جهل، عجز اور سفا ہت سے پاک ومنزہ هے۔لہٰذا، علم، قدرت اور لا متناهی حکمت کا تقاضا يہ هے کہ خداوند متعال عادل هو اور هر ظلم وقبيح سے منزہ هو۔٣۔ ظلم نقص هے اور خداوندِمتعال کے ظالم هونے کا لازمہ يہ هے کہ اس کی ترکيب ميں کمال ونقصان اور وجود وفقدان بيک وقت شامل هوں، جب کہ اس بات سے قطع نظر کہ يہ ترکيب کی بدترين قسم هے، کمال ونقص سے مرکب هونے والا موجود محتاج اور محدود هوتا هے اور يہ دونوں صفات مخلوق ميں پائی جاتی هيں نہ کہ خالق ميں۔ لہٰذا نتيجہ يہ هوا کہ وہ تخليق کائنات <شَهِدَ اللّٰہُ ا نََّٔہ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِکَةُ وَ ا ؤُْلُوالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ> ٥،قوانين واحکام <لَقَدْ ا رَْٔسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ ا نَْٔزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ> ٦ اور قيامت کے دن لوگوں کے حساب وکتاب <وَقُضِیَ بَيْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَ يُظْلَمُوْنَ> ١ ميں عادل هے۔ --------------2 سورہ نحل، آيت ٩٠ ۔"باتحقيق خدا وند متعال عدل واحسان کا امر کرتا هے"۔ 3 سورہ اعراف، آيت ٢٩ ۔ "کہو ميرے رب نے انصاف کے ساته حکم کيا هے"۔ 4 سورہ ص، آيت ٢۶ ۔ "اے داو دٔ (ع)!هم نے تم کو روئے زمين پر خليفہ بنايا هے تو تم لوگوں کے درميان بالکل ٹهيک فيصلہ کرو اور هویٰ وہوس کی پيروی مت کرو"۔ 5 سورہ آل عمران ، آيت ١٨ ۔"خدا نے خود اس بات کی شهادت دی کہ سوائے اس کے کوئی معبود نهيں هے و کل فرشتوں نے اور صاحبان علم نے جو عدل پر قائم هيں (يهی شهادت دی) کہ سوائے اس زبردست حکمت والے کے اور کوئی معبود نهيں هے"۔ 6 سورہ حديد ، آيت ٢۵ ۔ "هم نے يقينا اپنے پيغمبروں کو واضح و روشن معجزے دے کر بهيجا هے اور ان کے ساته کتاب (انصاف کی)ترازو نازل کی تاکہ لوگ قسط وعدل پر قائم رهيں"۔ عن الصادق (ع) :((إنہ سا لٔہ رجل فقال لہ :إن ا سٔاس الدين التوحيد والعدل، وعلمہ کثير، ولا بد لعاقل منہ، فا ذٔکر ما يسهل الوقوف عليہ ويتهيا حفظہ، فقال: ا مٔا التوحيد فا نٔ لا تجوّز علی ربک ماجاز عليک، و ا مٔا العدل فا نٔ لا تنسب إلی خالقک ما لامک عليہ)) ٢ اور هشام بن حکم سے فرمايا: ((ا لٔا ا عٔطيک جملة في العدل والتوحيد ؟ قال: بلی، جعلت فداک، قال: من العدل ا نٔ لا تتّهمہ ومن التوحيد ا نٔ لا تتوهّمہ)) ٣ اور امير المومنين (ع) نے فرمايا:((کل ما استغفرت اللّٰہ منہ فهومنک،وکل ما حمدت اللّٰہ عليہ فهومنہ))

ذیلی فرقے اثنا عشری

اثنا عشریہ (یعنی بارہ امام) ، اہل تشیع (یعنی شیعہ) کا سب سے بڑہ گروہ ماننا جاتا ہے۔ قریبا 80 فیصد شیعہ اثنا عشریہ اہل تشیع ہیں۔ ایران، آذربائجان، لبنان، عراق، اور بحرین میں ان کی اکثریت ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔ پاکستان میں اہل سنت کے بعد اثنا عشریہ اہل تشیع کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔ اثنا عشریہ کی اصطلاح بارہ آئمہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد اور داماد علی علیہ السلام سے شروع ہوتا۔ یہ خلافت پر یقین نہیں رکھتے اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد ان کے جانشین امام علی علیہ السلام ہیں اور کل بارہ امام ہیں جن کا تذکرہ احدیث میں آتا ہے۔ کم و بیش تمام مسلمان ان آئمہ کو اللہ کے نیک بندے مانتے ہیں تاہم اثنا عشریہ اہل تشیع ان آئمہ پر اعتقاد کے معاملہ خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔ ان بارہ آئمہ کے نام یہ ہیں:

1) حضرت امام علی علیہ السلام
2) حضرت امام حسن علیہ السلام
3) حضرت امام حسین علیہ السلام
4) حضرت امام زین العابدین علیہ السلام
5) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
6) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
7) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
8) حضرت امام علی رضا علیہ السلام
9) حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
10) حضرت امام علی نقی علیہ السلام
11) حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
12) حضرت امام مھدی علیہ السلام

1) حضرت امام علی بن ابی طالب علیہ السلام حضرت علی علیہ السلام (599ء (24 ق‌ھ) – 661ء (40ھ) ) رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ میں پیدا ہوۓ ۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب علیہ السّلام اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا ہے۔ آپ کی پیدائش خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو ہوئی۔ [1] حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آۓ اور وہیں پرورش پائی ۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی ۔حضرت علی علیہ السلام پہلے مرد تھے جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا ۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال تھی

فاطمہ سلام اللہ علیھا اور علی علیہ السلام کی زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت اپس میں کس طرح ایک دوسرے کے شریک ُ حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ اپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا چاہیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے، وہ گھر دنیا کی ارائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن اسانی سے بالکل علیحدہ تھا , محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور اپس کی محبت واعتماد کے لحاظ سے ایک جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی علیہ السلام صبح کو مشکیزہ لے کر جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اورجو کچھ مزدوری ملتی تھی اسے لا کر گھر پر دیتے تھے .بازار سے جو خرید کر فاطمہ سلام اللہ علیھا کو دیتے تھے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا چکی پیستی , کھانا پکاتی اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں , فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں .

1 جہاد
2 خدمات
3 اعزاز
4 بعدِ رسول
5 خلافت
6 شہادت
7 اولاد
8 حوالہ جات
9 بیرونی روابط

جہاد مدینہ میں آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ دیا . آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں بعض کو قتل کیا . بعض کو قید کیا اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں پہنچائیں .پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ مکہ نے جنگی تیاریاں کیں، یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول کے خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی , اس موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوںنے کہ آپ کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا تھا , آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا آپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن ابادی اور عورتوں اور بچوں کو بھی پریشان کرسکے. گو آپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی تھے , ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی. جو غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے . اس لڑائی میں زیادہ رسول نے اپنے عزیزوں کو خطرے میں ڈالا چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب اس جنگ میں شہید ہوئے . علی ابن ابو طالب علیہ السلام کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا . 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی علیہ السلام کے سر رہا .جتنے مشرکین قتل ہوئے تھے ان میں سے آدھے مجاہدین کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے . تقریباًان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا . اس کے علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو تنہا بھیجا اورانھوںنے اکیلے ان تمام لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ُ نفس سے کام لیاجس کا اقرار خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیا . آپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے سینے پر سے اتر ائے . صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے بعد آپ نے اس کو قتل کیا , اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام نے اس کی زرہ نہیں اُتاری اگرچہ وہ بہت قیمتی تھی . چناچہ اس کی بہن جب اپنے بھائی کی لاش پر ائی تو اس نے کہا کہ کسی اور نے میرے بھائی کوقتل کیا ہوتا تو میں عمر بھر روتی مگر مجھ یہ دیکھ کر صبر اگیا کہ اس کا قاتل حضرت علی علیہ السلام سا شریف انسان ہے جس نے اپنے دشمن کی لاش کی توہین گوارا نہیں کی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔

خدمات جہاد سمیت اسلام اور پیغمبر اسلام کے لیے کسی کام کے کرنے میں آپ کو انکار نہ تھا۔ یہ کام مختلف طرح کے تھے رسول کی طرف سے عہد ناموں کا لکھنائ خطوط تحریر کرنا آپ کے ذمہ تھا اور لکھے ہوئے اجزائے قرآن کے امانتدار بھی آپ تھے- اس کے علاوہ یمن کی جانب تبلیغ اسلام کے ليے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو روانہ کیا جس میں آپ کی کامیاب تبلیغ کا اثر یہ تھا کہ سارا یمن مسلمان ہو گیا جب سورہ براَت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ کے ليے بحکم خدا آپ ہی مقرر ہوئے اور آپ نے جا کر مشرکین کو سورئہ براَت کی آیتیں سنائیں- اس کے علاوہ رسالت مآب کی ہر خدمت انجام دینے پر تیار رہتے تھے- یہاں تک کہ یہ بھی دیکھا گیا کہ رسول کی جوتیاں اپنے ہاتھ سے سی رہے ہیں حضرت علی علیہ السّلام اسے اپنے ليے باعثِ فخر سمجھتے تھے۔

اعزاز

حضرت علی علیہ السّلام کی امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے یہ الفاظ »علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں« .کبھی یہ کہا کہ »میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے .,, کبھی یہ کہا »تم سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ کہا»علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی۔ کبھی یہ کہا»علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے۔

کبھی یہ کہ»وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ,, یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ مسجد میں سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہہ کا دروازہ کھلا رکھا گیا. جب مہاجرین و انصار میں بھائی چارہ کیا گیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیغمبر نے اپنا دنیا واخرت میں بھائی قرار دیا اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں حضرت علی کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس کا میں مولا (مددگار، سرپرست) ہوں اس کا علی بھی مولا ہیں۔

بعدِ رسول

جس نے زندگی بھر پیغمبر کا ساتھ دیا وہ بعد رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ کے جسد اطہر مبارک کو کس طرح چھوڑتا, چنانچہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تجہیز وتکفین اور غسل وکفن کاتمام کام حضرت علی علیہ السلام ہی کے ہاتھوں ہوا اورقبر میں آپ ہی نے رسول کو اتارا۔ اس کے علاوہ بطور خود خاموشی کے ساتھ اسلام کی روحانی اور علمی خدمت میں مصروف رہے . قرآن کو ترتیب ُ نزول کے مطابق ناسخ و منسوخ اور محکم اور متشابہ کی تشریح کے ساتھ مرتب کیا . مسلمانوں کے علمی طبقے میں تصنیف وتالیف کااور علمی تحقیق کاذوق پیدا کیااور خود بھی تفسیر اور کلام اور فقہ واحکام کے بارے میں ایک مفید علمی ذخیرہ فراہم کیا . بہت سے ایسے شاگرد تیار کئے جو مسلمانوں کی آئندہ علمی زندگی کیلئے معمار کاکام انجام دے سکیں , زبان عربی کی حفاظت کیلئے علم نحوکی داغ بیل ڈالی اور فن صرف اور معانی بیان کے اصول کو بھی بیان کیا اس طرح یہ سبق دیا کہ اگر ہوائے زمانہ مخالف بھی ہوا اور اقتدار نہ بھی تسلیم کیا جائے تو انسان کو گوشہ نشینی اور کسمپرسی میں بھی اپنے فرائض کو فراموش نہ کرنا چاہیے . ذاتی اعزاز اور منصب کی خاطر مفادملّی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو انسان اپنی ملّت , قوم اور مذہب کی خدمت ہر حال میں کرتا رہے .

خلافت

پچیس برس تک رسول کے بعد حضرت علی علیہ السّلام نے خانہ نشینی میں بسر کی 35ھ میں مسلمانوں نے خلافت ُ اسلامی کامنصب حضرت علی علیہ السّلام کے سامنے پیش کیا . آپ نے پہلے انکار کیا , لیکن جب مسلمانوں کااصرار بہت بڑھ گیا تو آپ نے اس شرط سے منظو رکیا کہ میں بالکل قران اور سنت ُ پیغمبر کے مطابق حکومت کروں گا اور کسی رورعایت سے کام نہ لوں گا . مسلمانوں نے اس شرط کو منظور کیا اور آپ نے خلافت کی ذمہ داری قبول کی- مگر زمانہ آپ کی خالص مذہبی سلطنت کو برداشت نہ کرسکا , آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہوگئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا , آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنااپنا فرض سمجھا اور جمل اور صفین# اور نہروان# کی خون ریز لڑائیاں ہوئیں . جن میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام نے اسی شجاعت اور بہادری سے جنگ کی جو بدر واحد و خندق وخیبر میں کسی وقت دیکھی جاچکی تھی اور زمانہ کو یاد تھی .ان لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے آپ کو موقع نہ مل سکا کہ آپ جیسا دل چاہتا تھا اس طرح اصلاح فرمائیں . پھر بھی آپ نے اس مختصر مدّت میں اسلام کی سادہ زندگی , مساوات اور نیک کمائی کے لیے محنت ومزدوری کی تعلیم کے نقش تازہ کردئے آپ شہنشاہ ُ اسلام ہونے کے باوجود کجھوروں کی دکان پر بیٹھنا اور اپنے ہاتھ سے کھجوریں بیچنا بُرا نہیں سمجھتے تھے , پیوند لگے ہوئے کپڑے پہنتے تھے , غریبوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ کر کھاناکھالیتے تھے . جو روپیہ بیت المال میں آتا تھا اسے تمام مستحقین پر برابر سے تقسیم کرتے تھے , یہاں تک کہ آپ کے سگے بھائی عقیل نے یہ چاہا کہ کچھ انہیں دوسرے مسلمانوں سے زیادہ مل جائے مگر آپ نے انکار کردیا اور کہا کہ اگر میرا ذاتی مال ہوتا تو خیر یہ بھی ہوسکتا تھا مگر یہ تمام مسلمانوں کا مال ہے . مجھے حق نہیں ہے کہ میں اس میں سے کسی اپنے عزیز کو دوسروں سے زیادہ دوں , انتہا ہے کہ اگر کبھی بیت المال میں شب کے وقت حساب وکتاب میں مصروف ہوئے اور کوئی ملاقات کے لیے اکر غیر متعلق باتیں کرنے لگا تو آپ نے چراغ بھجادیا کہ بیت المال کے چراغ کو میرے ذاتی کام میں صرف نہ ہونا چاہیے . آپ کی کوشش یہ رہتی تھی کہ جو کچھ بیت المال میں آئے وہ جلد حق داروں تک پہنچ جائے . آپ اسلامی خزانے میں مال کاجمع رکھنا پسند نہیں فرماتے تھے . شہادت

حضرت علی علیہ السّلام کو 19 رمضان40ھ (660ء) کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے، دو روز تک حضرت علی علیہ السلام بستر بیماری پر انتہائی کرب اور تکلیف کے ساتھ رہے اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔ اولاد

آپ کے بچوں کی تعداد 28 سے زیادہ تھی۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا سے آپ کو تین فرزند ہوئے۔ حضرت محسن علیہ السّلام، امام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام، جبکہ ایک صاحبزادی حضرت زینب علیہ السّلام بھی حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا سے تھیں۔ باقی ازواج سے آپ کو جو اولاد ہوئی، ان میں حضرت حنیفہ، حضرت عباس بن علی علیہ السّلام شامل ہیں۔ علی ابن طالب علیہ السلام کی اولاد یہ ہیں :

۔ سیدنا حسن علیہ السّلام ۔ سیدنا حسین علیہ السّلام ۔ زینب علیہ السّلام ۔ ام کلثوم علیہ السّلام ۔ عباس علیہ السّلام ۔ عمر ابن علی ۔ جعفر ابن علی ۔ عثمان ابن علی ۔ محمد الاکبر ( محمد بن حنفیہ) ۔ عبداللہ ۔ ابوبکر ۔ رقیہ ۔ رملہ ۔ نفیسہ ۔ خدیجہ ۔ ام ہانی ۔ جمانی ۔ امامہ ۔ مونا ۔ سلمیٰ [حوالہ درکار]

2) حضرت امام حسن ابن علی علیہ السلام

امام حسن ابن علی (15 رمضان 3ھ تا 28 صفر 50ھ) اسلام کے دوسرے امام تھے اور حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمۃ الزھرا علیہا السلام کے بڑے بیٹے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت خدیجہ علیہا السلام کے بڑے نواسے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مشہور حدیث کے مطابق آپ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کا نام حسن رکھا تھا۔ یہ نام اس سے پہلے کسی کا نہ تھا۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ ان کا نام حسن , لقب 'مجتبیٰ' اور کنیت ابو محمد تھی .

1 ولادت با سعادت
1.1 تربیت
2 خلافت
3 صلح
4 شرائط صلح
4.1 صلح کے بعد
5 اخلاق وانصاف
6 وفات

ولادت با سعادت

آپ 15 رمضان المبارک 3ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر میں آپ کی پیدائش اپنی نوعیت کی پہلی خوشی تھی . جب مکہ مکرمہ میں رسول کے بیٹے یکے بعد دیگرے دنیا سے جاتے رہے اور سوائے لڑکی کے آپ کی اولاد میں کوئی نہ رہا تو مشرکین طعنے دینے لگے اور آپ کو بڑا صدمہ پہنچا اور آپ کی تسلّی کے لیے قرآن مجید میں سورۃ الکوثر نازل ہوئی جس میں آپ کوخوش خبری دی گئی ہے کہ خدا نے آپ کو کثرتِ اولاد عطا فرمائی ہے اور مقطوع النسل آپ نہیں بلکہ آپ کا دشمن ہوگا . آپ کی ولادت سے پہلے حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جسم کا ایک ٹکرا ان کے گھر آ گیا ہے۔ انہوں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے تعبیر پوچھی تو انہوں فرمایا کہ عنقریب میری بیٹی فاطمہ کے بطن سے ایک بچہ پیدا ہوگا جس کی پرورش تم کرو گی۔ حضرت امام حسن علیہ السلام کی مدینہ میں انے کے تیسرے ہی سال پیدائش گویا سورۃ کوثر کی پہلی تفسیر تھی . دنیا جانتی ہے کہ انہی امام حسن علیہ السلام اور ان کے چھوٹے بھائی امام حسین علیہ السلام کے ذریعہ سے اولادِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وہ کثرت ہوئی کہ باوجود ان کوششوں کے جو دشمنوں کی طرف سے اس خاندان کے ختم کرنے کی ہمیشہ ہوتی رہیں جن میں ہزاروں کوسولی دے دی گئی . ہزاروں تلواروں سے قتل کیے گئے اور کتنوں کو زہر دیا گیا . اس کے باوجوداج دُنیا الِ رسول کی نسل سے چھلک رہی ہے۔ عالم کا کوئی گوشہ مشکل سے ایسا ہوگا جہاں اس خاندان کے افراد موجود نہ ہوں . جبکہ رسول کے دشمن جن کی اس وقت کثرت سے اولاد موجودتھی ایسے فنا ہوئے کہ نام ونشان بھی ان کا کہیں نظر نہیں اتا . یہ ہے قران کی سچائی اور رسول کی صداقت کا زندہ ثبوت جو دنیا کی انکھوں کے سامنے ہمیشہ کے لیے موجود ہے اور اس لیے امام حسن علیہ السّلام کی پیدائش سے پیغمبر کو ویسی ہی خوشی نہیں ہوئی جیسی ایک نانا کو نواسے کی ولادت سے ہونا چاہیے۔ بلکہ آپ کو خاص مسرت یہ ہوئی کہ آپ کی سچائی کی پہلی نشانی دنیاکے سامنے آئی۔ ساتویں دن عقیقہ کی رسم ادا ہوئی اور پیغمبر نے بحکم خدا اپنے اس فرزند کا نام حسن علیہ السلام رکھا.یہ نام اسلام کے پہلے نہیں ہوا کرتا تھا۔ یہ سب سے پہلے پیغمبر کے اسی فرزند کا نام قرار پایا . حسین علیہ السلام ان کے چھوٹے بھائی کانام بھی بس انہی سے مخصو ص تھا۔ ان کے پہلے کسی کا یہ نام نہ ہوا تھا۔ آپ کی ولادت کے بعد آپ کے نانا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت فرمانے کے بعد اپنی زبان اپنے نواسے کے منہ میں دی جسے وہ چوسنے لگے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ اسے اور اس کی اولاد کو اپنی پناہ میں رکھنا۔

تربیت

حضرت امام حسن علیہ السلام کو تقریباً آٹھ برس اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ عاطفت میں رہنے کا موقع ملا۔ رسالت مآب اپنے اس نواسے سے جتنی محبت فرماتے تھے اس کے واقعات دیکھنے والوں نے ہمیشہ یا درکھے۔ اکثر حدیثیں محبت اور فضیلت کی حسن علیہ السّلام اور حسین علیہ السّلام دونوں صاحبزادوں میں مشترک ہیں۔ مثلاً حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام جوانانِ بہشت کے سردار ہیں .»دونوں گوشوارئہ عرش ہیں .,, »یہ دونوں میرے گلدستے ہیں .,, »خداوندا میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں تو بھی ان کو محبوب رکھنا,, اور اس طرح کے بےشمار ارشادات پیغمبر کے دونوں نواسوں کے بارے میں کثرت سے ہیں , اُن کے علاوہ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ عام قاعدہ یہ ہے کہ اولاد کی نسبت باپ کی جانب ہوتی ہے مگر پیغمبر نے اپنے ان دونوں نواسوں کی یہ خصوصیت صراحت کے ساتھ بتائی کہ انھیں میرا نواساہی نہیں بلکہ میرا فرزند کہنا درست ہے . یہ حدیث حضرت کی تمام اسلامی حدیث کی کتابوں میں درج ہے .حضرت نے فرمایا خدا نے ہر شخص کی اولاد کو خود اس کے صلب سے قرار دیا اور میری اولاد کو اس نے علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کی صلب سے قرار دیا . پھر بھلا ان بچوں کی تربیت میں پیغمبر کس قدر اہتمام صرف کرنا ضروری سمجھتے ہوں گے جب کہ خود بچّے بھی وہ تھے جنھیں قدرت نے طہارت وعصمت کالباس پنا کر بھیجا تھا , ایک طرف ائینے اتنے صاف اس پر رسول کے ہاتھ کی جلا, نتیجہ یہ تھا کہ بچے کم سنی ہی میں نانا کے اخلاق واوصاف کی تصویر بن گئے , خود حضرت نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ حسن میںمیرا رعب وداب اور شان سرداری ہے اور حسین علیہ السّلام میں میری سخاوت اور میری جراYPت ہے . شان سرداری گویامختصر سالفظ ہے مگر اس میں بہت سے اوصاف وکمال کی جھلک نظر ارہی ہے . اس کے ساتھ مختلف صورتوں سے رسول نے بحکمِ خدا اپنے مشن کے کام میں ان کو اسی بچپن کے عالم میں شریک بھی کیا جس سے ثابت بھی ہوا کہ پیغمبر اپنے بعد بمنشا الٰہی حفاظت ُ اسلام کی مہم کو اپنے ہی اہلیبت علیہ السّلام کے سپرد کرنا چاہتے ہیں . اس کاایک موقع مباہلہ کے میدان میں تھا .حضرت حسن علیہ السلام بھی اپنے ناناکے ساتھ ساتھ تھے 2 1ربیع الاوّل 11ھ کوجناب رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات ہوگئی او ر امام حسن علیہ السلام اس مسرت اور اطمینان کی زندگی سے محروم ہوئے . نانا کی وفات کے تھوڑے ہی دن بعد امام حسن علیہ السلام کو اپنی مادرِ گرامی حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا . اب حسن علیہ السّلام کے لیے گہوارہ تربیت اپنے مقدس باپ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات تھی .حسن علیہ السّلام اسی دور میں جوانی کی حدوں تک پہنچے اور کمال شباب کی منزلوں کوطے کیا .پچیس برس کی خانہ نشینی کے بعد جب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں نے خلیفہ ظاہری کی حیثیت سے تسلیم کیا اور اس کے بعد جمل , صفین اور نہروان کی لڑائیاں ہوئیں تو ہر ایک جہاد میں حسن علیہ السّلام اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ بلکہ بعض موقعوں پر جنگ میں آپ نے کار نمایاں بھی دکھلائے .

خلافت

21ماہ رمضان 40ھ میںحضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کی شہادت ہوئی . اس وقت تمام مسلمانوں نے مل کر حضرت امام حسن علیہ السّلام کی خلافت تسلیم کی . آپ پر اپنے والد بزرگوار کی شہادت کا بڑااثر تھا . سب سے پہلا خطبہ جو آپ نے ارشاد فرمایا اس میںحضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے فضائل ومناقب تفصیل کے ساتھ بیان کئے . جناب امیر علیہ السّلام کی سیرت اور مال دُنیا سے پرہیز کا تذکرہ کیا . اس وقت آپ پر گریہ کااتنا غلبہ ہوا کہ گلے میں پھندا پڑگیا اور تمام لوگ بھی آپ کے ساتھ بے اختیار رونے لگے.پھر آپ نے اپنے ذاتی اور خاندانی فضائل بیان کیے . عبداللهابن عباس رض نے کھڑے ہوکر تقریر کی اور لوگوں کو بیعت کی دعوت دی . سب نے انتہائی خوشی اور رضا مندی کے ساتھ بیعت کی آپ نے مستقبل کے حالات کاصحیح اندازہ کرتے ہوئے اسی وقت لوگوں سے صاف صاف یہ شرط کردی کہ »اگر میں صلح کروں تو تم کو صلح کرنا ہوگی او راگر میں جنگ کروں تو تمھیں میرے ساتھ مل کر جنگ کرنا ہوگی , سب نے اس شرط کو قبول کرلیا . آپ نے انتظامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیا . اطراف میں عمال مقرر کئے , حکام متعین کئے اور مقدمات کے فیصلے کرنے لگے . یہ وقت وہ تھا کہ دمشق میں حاکم شام معاویہ کا تخت ُ سلطنت پر قبضہ مضبوط ہوچکا تھا .حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے ساتھ صفین میں جو لڑائیاں حاکمِ شام کی ہوئی تھیں ان کا نتیجہ تحکیم کی سازشانہ کاروائی کی بدولت حاکم ُ شام کے موافق نکل چکا تھا ادھر حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب کی سلطنت کے اندر جہاں اب حضرت امام حسن علیہ السّلام حکمران ہوئے تھے باہمی تفرقے اور بددلی پیدا ہو چکی تھی خود جناب امیر علیہ السّلام احکام کی تعمیل میں جس طرح کوتاہیاں کی جاتی تھیں وہ حضرت کے اخر عمر کے خطبوں سے ظاہر ہے ,خوارج نہروان کا فتنہ مستقل طور پر بے اطمینان کاباعث بنا ہوا تھا جن کی اجتماعی طاقت کو اگرچہ نہروان میں شکست ہوگئی تھی مگر ان کے منتشر افراد اب بھی اسی ملک کے امن وامان کو صدمہ پہنچانے پر تلے ہوئے تھے یہاںتک کہ بظاہر اسی جماعت کا ایک شخص تھا جس نے حضرت امیر علیہ السّلام کے سر پر مسجد میں ضربت لگائی اور جس کا صدمہ سے آپ کی وفات ہوئی تھی . ابھی ملک حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے غم میں سوگوار تھا اور حضرت امام حسن علیہ السّلام پورے طور پر انتظامات بھی نہ کرچکے تھے کہ حکام شام کی طرف سے آپ کی مملکت میں دراندازی شروع ہوگئی اور ان خفیہ کارکنوں نے اپنی کاروائیں جاری کردیں چنانچہ ایک شخص قبیلہ حمیر# کا کوفہ میںا ورایک شخص بنی قین میں سے بصرہ میں پکڑا گیا یہ دونوں اس مقصد سے ائے تھے کہ یہاں کے حالات سے دمشق میں اطلاع دیں اور فضا کو امام حسن علیہ السّلام کے خلاف ناخوشگوار بنائیں غنیمت ہے کہ اس کاانکشاف ہوگیا حمیر والا آدمی کوفہ میں ایک قصائی کے گھر سے اور قین والاا دمی بصرہ میں بنی سلیم کے یہاں سے گرفتار کیا گیا اور دونوں کو جرم کی سز ادی گئی .اس واقعہ کے بعد حضرت امام حسن علیہ السّلام نے معاویہ کو ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ تم اپنی دراندازیوں سے نہیں باز آتے . تم نے لوگ بھیجے ہیںکہ میرے ملک میںبغاوت پیدا کرائیں اور اپنے جاسوس یہاں پھیلا دئیے ہیں . معلوم ہوتا ہے کہ تم جنگ کے خواہشمند ہو ایسا ہو تو پھر تیار ہو , یہ منزل کچھ دور نہیں . نیز مجھ کو خبر ملی ہے کہ تم نے میرے باپ کی وفات پر طعن وتشنیع کے الفاظ کہے . یہ ہر گز کسی ذی ہوش آدمی کا کام نہیں ہے . موت سب کے لیے ہے اج ہمیں اس حادثے دوچار ہونا پڑا تو کل تمھیں ہوناہوگا اور حقیقت یہ ہے کہ »ہم اپنے مرنے والے کو مرنیوالا سمجھتے نہیں . وہ تو ایسا ہے . جیسے ایک منزل سے منتقل ہو کر اپنی دوسری منزل میں جا کر ارام کی نیند سوجائے .,,

اس خط کے بعد حاکم شام اور امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام کے درمیان بہت سے خطوط کی ردوبدلی ہوئی . حاکم شام کواپنے جاسوسوں کے ذریعہ سے اہل کوفہ کے باہمی تفرقہ اور بددلی اور عملی کمزوریوں کا علم ہوگیا . اس لیے وہ سوچنے لگا کہ یہی موقع ہے کہ عراق پر حملہ کر دیا جائے . چناچہ وہ اپنی فوجوں کو لے کر عراق کی حدود تک پہنچ گئے . اس وقت حضرت امام حسن علیہ السّلام نے بھی مقابلہ کی تیاری کی حجر بن عدی کو بھیجا کہ وہ دورہ کرکے اطراف ُ ملک کے احکام کو مقابلے کے لیے امادہ کریں اور لوگوں کو جہاد کے لیے تیار کریں مگر جو خیال تھا وہی ہوا کہ عام طورپر سردمہری سے کام لیا گیا . تھوڑی فوج تیار ہوئی تو ان میں کچھ فرقہ خوارج کے لوگ تھے کچھ شورش پسند اور مال غنیمت کے طلبگار او رکچھ لوگ صرف اپنے سردارانِ قبائل کے دباؤ سے شریک تھے , بہت کم وہ لوگ تھے جو واقعی حضرت علی علیہ السّلام اور امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام کے شیعہ سمجھے جاسکتے تھے .

ادھر معاویہ نے عبدالله ابن عامر ابن کریز کو اگے روانہ کیااور اس نے اس مقام انبار میں جاکر چھاؤنی بنائی ادھرحضرت امام حسن علیہ السّلام اس کے مقابلہ کے لے روانہ ہوئے اور مقامِ دیر کعب کے قریب ساباط# میںقیام کیا . یہاں پہنچ کر آپ نے لوگوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لیے سب کو جمع کرکے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ »دیکھو مجھے کسی مسلمان سے کینہ نہیں ہے , میں تمھارا اتنا ہی بہی خواہ ہوں جتنا خود اپنی ذات کی نسبت مجھے ہونا چاہیے . میں تمھارے بارے میں ایک فیصلہ کن رائے قائم کرتا رہا ہوں .امید ہے کہ تم میری رائے سے انحراف نہ کرو گے . میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے اکثر کی ہمت جہاد سے پست ہوگئی ہے اور میں کسی طرح یہ صحیح نہیں سمجھتا کہ تمھیں بادل ناخواستہ کسی مہم پر مجبور کروں .,,اس تقریر کاختم ہونا تھا کہ مجمع میں ہنگامہ پید اہوگیا . یقینی علی علیہ السّلام جیسے بہادر باپ کا بہادر فرزند تن تنہا اس ہنگامہ اور جماعت کا مقابلہ کرنے کے لے کافی تھا .اگر یہ کھلم کھلا دشمنوں کی جماعت ہوتی مگر اس کے پہلے خود حضرت علی علیہ السّلام بھی اس وقت بظاہر بے بس ہوگئے تھے . جب نیزوں پر قران اونچے کیے جانے کے بعد صفین میں خود آپ کی فوج کے آدمی آپ کو گھیر کر کھڑے ہوگئے تھے کہ آپ جنگ کو روکئے. نہیں تو ہم آپ کو قید کر کے دشمن کے سپرد کر دیں گے. اس وقت جناب امیر علیہ السّلام نے ایسا نہیں کیا کہ تلوار لے کر لڑنے لگتے بلکہ مجبوراً جنگ کو ملتوی فرمایا. اس سے زیادہ سخت صورت سے اس وقت امام حسن علیہ السّلام کو سامنا کرنا پڑا کہ مجمع نے آپ پر حملہ کردیا اور مصلّٰی قدم کے نیچے سے کھینچ لیا . چادر آپ کے دوش سے اتارلی .آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور اواز بلند کی کہ کہاں ہیں ربیعہ او ہمدان# , فوراً یہ دونوں جانثار قبیلے اَدھر اُدھر سے دوڑ پڑے اور لوگوں کو آپ سے دورکیا . آپ یہاں سے مدائن کی طرف روانہ ہوئے مگر جراح ابن قبیصہ اسدی ایک شخص انہی خوارج میں سے کمین گاہ میں چھپ گیااور اس نے آپ پر خنجر سے وار کیا جس سے آپ کی ران زخمی ہوگئی , حملہ اور گرفتار کیا گیا اور اسے سزا دی گئی . عرصہ تک مدائن میں علاج ہونے کے بعد آپ اچھے ہوئے او پھر معاویہ کی فوج سے مقابلہ کی تیاری کی . صلح

حاکم شام کو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی فوج کی حالت اور لوگوں کی بے وفائی کا علم ہوچکا تھا اس لیے وہ سمجھتا تھا کہ امام حسن علیہ السّلام کے لے جنگ کرنا ممکن نہیں ہے مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی یقین رکھتے تھے کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کتنے ہی بے بس اور بے کس ہوں مگر وہ علی علیہ السّلام وفاطمہ کے بیٹے اور پیغمبر کے نواسے ہیں اس لیے وہ شرائط پر ہر گز صلح نہ کریں گے جو حق پرستی کے خلاف ہوں اور جن سے باطل کی حمایت ہوتی ہو . اس کو نظر میں رکھتے ہوئے انھوں نے ایک طرف تو آپ کے ساتھیوں کو عبداللهابن عامر کے ذریعے سے یہ پیغام دلوایا کہ اپنی جان کے پیچھے نہ پڑو اور خونریزی نہ ہونے دو . اس سلسلے میں کچھ لوگوں کو رشوتیں بھی دی گئیں اور کچھ بزدلوں کو اپنی تعداد کی زیادتی سے خوف زدہ بھی کیا گیا اور دوسری طرف امام حسن علیہ السّلام کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ جن شرائط پر کہیں انہی شرائط پر میں صلح کے لیے تیار ہوں .

امام حسن علیہ السّلام یقیناً اپنے ساتھیوں کی غداری کو دیکھتے ہوئے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرور پیش نظر تھا کہ ایسی صورتِ پیدا ہوکہ باطل کی تقویت کادھبہ میرے دامن پر نہ آنے پائے . اس گھرانے کوحکومت واقتدار کی ہوس تو کبھی تھی ہی نہیں . انھیں تو مطلب اس سے تھا کہ مخلوقِ خدا کی بہتری ہو اورحدودوحقوق الٰہی کا اجرا ہو اب معاویہ نے جو آپ سے منہ مانگے شرائط پر صلح کرنے کے لیے امادگی ظاہر کی تو اب مصالحت سے انکار کرناشخصی اقتدار کی خواہش کے علاوہ اور کچھ نہیں قرار پاسکتا تھا . یہ حاکم شام صلح کے شرائط پر عمل نہ کریں گے بعد کی بات تھی . جب تک صلح نہ ہوتی یہ انجام سامنے اکہاں سکتا تھا او رحجت تمام کیونکر ہوسکتی تھی , پھر بھی اخری جواب دینے سے قبل آپ نے ساتھ والوں کو جمع کیا اور تقریر فرمائی .»اگاہ رہو کہ تم میں دو خونریز لڑائیں ہوچکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے کچھ مقتول صفین# میں ہوئے جن کے لیے اج تک رورہے ہو , اور کچھ فضول نروان کے جن کا معاوضہ طلب کر رہے ہو اب اگر تم موت پر راضی ہوتوہم ا س پیغام صلح کو قبول نہ کریں اوران سے الله کے بھروسے پر تلواروں سے فیصلہ کرائیں اور اگر زندگی کو دوست رکھتے ہو تو ہم اس کو قبول کرلیں اور تمھاری مرضی پر عمل کریں« جواب میں لوگوںنے ہر طرف سے پکارنا شروع کیا کہ »ہم زندگی چاہتے ہیں , آپ صلح کرلیجئے .,, اس کا نتیجہ تھا کہ آپ نے صلح کے شرائط مرتب کرکے معاویہ کے پاس روانہ کئے. شرائط صلح

اس صلح نامہ کے مکمل شرائط حسبِ ذیل تھے.

یہ کہ معاویہ حکومتِ اسلام میں کتاب خدااور سنتِ رسول پر عمل کریں گے.
دوسرے یہ کہ معاویہ کو اپنے بعد کسی خلیفہ کے نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا.
یہ کہ شام وعراق وحجازویمن سب جگہ کے لوگوں کے لیے امان ہوگی.
یہ کہ حضرت علی علیہ السّلام کے اصحاب اور شیعہ جہا ں بھی ہیں ان کے جان ومال اور ناموس واولاد محفوظ رہیں گے .
معاویہ حسن علیہ السّلام ابن علی علیہ السّلام اور ان کے بھائی حسین علیہ السّلام ابن ُ علی علیہ السّلام اور خاندانِ رسول میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہ کرئے گا نہ خفیہ طریقہ پر اور نہ اعلانیہ اور ان میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے گا .
جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں کلمات ُ نازیبا جو اب تک مسجدجامع اور قنوت نماز میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردیئے جائیں . اخری شرط کی منظوری میں معاویہ کو عذر ہو اتو یہ طے پایا کہ کم از کم جس موقع پر امام حسن علیہ السّلام موجود ہوں اور اس موقع پر ایسانہ کیا جائے . یہ معاہدہ ربیع الاول یاجمادی الاول41ھئ کو عمل میں ایا.

صلح کے بعد

فوجیں واپس چلی گئیں .معاویہ کی شہنشاہی ممالک اسلامیہ میںعمومی طور پر مسلّم ہوگئی اور اب شام ومصر کے ساتھ عراق وحجاز , یمن اور ایران نے بھی اطاعت کرلی . حضرت امام حسن علیہ السّلام کو اس صلح کے بعد اپنے بہت سے ساتھیوں کی طرف سے جس طرح کے دلخراش اور توہین امیز الفاظ کاسامنا کرنا پڑا .ان کابرداشت کرنا انہی کاکام تھا .وہ لوگ جو کل تک امیر المومنین کہہ کے تسلیم بجالاتے تھے اج »مُذلّ المومنین «»یعنی مومنین کی جامعت کو ذلیل کرنے والے ,, کے الفاظ سے سلام کرنے لگے پھر امام حسن علیہ السّلام نے صبرو استقلال اور نفس کی بلندی کے ساتھ ان تمام ناگوار حالات کو برداشت کیااور معاہدہ پر سختی کے ساتھ قائم رہے مگر ادھر یہ ہوا کہ حاکمِ شام نے جنگ کے ختم ہوتے ہی اور سیاسی اقتدار کے مضبوط ہوتے ہی عراق میں داخل ہو کر نخیلہ میںجسے کوفہ کی سرحد سمجھنا چاہیے قیام کیااور جمعہ کے خطبہ کے بعد یہ اعلان کردیا کہ »میرا مقصد جنگ سے کوئی یہ نہ تھا کہ تم لوگ نماز پڑھنے لگو . روزے رکھنے لگو . حج کرو یا زکوٰة ادا کرو , یہ سب تو تم کرتے ہی ہو میرا مقصد تو بس یہ تھا کہ میری حکومت تم پر مسلّم ہوجائے اور یہ مقصد میرا حسن علیہ السّلام کے اس معاہدہ کے بعد پورا ہوگیا اور باوجود تم لوگوںکی ناگواری کے خدانے مجھے کامیاب کردیا . رہ گئے وہ شرائط جو میںنے حسن علیہ السّلام کے ساتھ کئے ہیں وہ سب میرے پیروں کے نیچے ہیں ان کاپورا کرنا یا نہ کرنا میرے ہاتھ کی بات ہے »مجمع میں ایک سناٹا چھایا ہوا تھا مگر اب کس میں دم تھا کہ وہ اس کے خلاف زبان کھولتا .انتہا ہے کہ کوفہ میں امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام کی موجودگی میں حاکم شام نے حضرت امیر علیہ السّلام اور امام حسن علیہ السّلام کی شان میںکلماتِ نازیبا استعمال کیے جن کو سن کر امام حسین علیہ السّلام بھائی کی جانب سے جواب دینے کے لیے کھڑے ہوگئے مگر امام حسن علیہ السّلام نے آپ کو بیٹھا دیا اور خود کھڑے ہو کر نہایت مختصر اور جامع الفاظ میں حاکم شام کی تقریر کا جواب دیا اسی طرح جتنی معاہدہ کی شرطیں تھیں حاکم شام نے سب کی مخالفت کی اور کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا .

باوجودیہ کہ آپ بالکل خاموشی کی زندگی گزار رہے تھے مگر آپ خود بھی اس دور میں بنی امیہ کی ایذارسانیوں سے محفوظ نہیں تھے . ایک طرف غلط پروپیگنڈے اور بے بنیاد الزامات جن میں سے ان کی بلندی مرتبہ پر عام نگاہوں میں حرف ائے مثلاًکثرتِ ازدواج اور کثرتِ طلاق یہ چیز اپنی جگہ پر شریعت ُ اسلام میںجائز ہے مگر بنی امیہ کے پروپیگنڈے نے اس کو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی نسبت ایسے ہولناک طریقہ پر پیش کیاکو ہر گز قابل قبول نہیں ہے . دوسرے بنی امیہ کے ہواخواہوں کا بُرا برتاؤ , سخت کلامی اور دشنام دہی اس کااندازہ اما م حسین علیہ السّلامکے ان الفاط سے ہوتا ہے کہ جو آپ مروان سے فرمائے تھے . جب امام حسن علیہ السّلام کے جنازے کے ساتھ مروان رورہا تھا , امام حسین علیہ السّلام نے فرمایا .»اج تم روتے ہو ,حالانکہ ا سکے پہلے تم انھیں غم وغصہ کے گھونٹ پلاتے تھے جنھیں دل ہی خوب جانتا ہے.,,مروان نے کہا . ٹھیک ہے مگر وہ سب کچھ ایسے انسان کے ساتھ کرنا تھا جو پہاڑ سے زیادہ قوتِ برداشت رکھنے والا تھا . اخلاق وانصاف

امام حسن علیہ السّلام کی ایک غیر معمولی صفت جس کے دوست اور دشمن سب معترف تھے . وہ یہی حلم کی صفت تھی جس کا اقرار بھی مروان کی زبان سے آپ سن چکے ہیں . حکومت ُ شام کے ہواخواہ صرف اس لیے جان بوجھ کر سخت کلامی اور بد زبانی کرتے تھے کہ امام حسن علیہ السّلام کو غصہ اجائے اور کوئی ایسا اقدام کردیں جس سے آپ پر عہد شکنی کاالزام عائد کیا جاسکے اورا س طرح خونریزی کا ایک بہانہ ہاتھ ائے مگر آپ ایسی صورتوں میں حیرتناک قوت ُ برداشت سے کام لیتے تھے جو کسی دوسرے انسان کاکام نہیں ہے . آپ کی سخاوت اور مہمان نوازی بھی عرب میں مشہور تھی . آپ نے تین مرتبہ اپنا تما م مال راہ خدا میں لٹا دیا اور دو مرتبہ ملکیت . یہاں تک کہ اثاث البیت اور لباس تک کو ادھوں ادھ خدا میں دے دیا .

سائلوں کو ایک دفعہ میںہزاروں روپے دے دئیے ہیں اور حقیقت میںمعاویہ کے ساتھ شرائط ُصلح میں جو بہت سے مورخین کے بیان کے مطابق ایک خاص رقم کی شرط ملتی ہے کہ معاویہ کی جانب سے ہر سال امام حسن علیہ السّلام کے پاس روانہ کی جائے وہ اگر صحیح ہو تو اس کامقصد صرف یہی تھاکہ اس ذریعہ سے مسلمانوں کے بیت المال کا کچھ روپیہ مستحقین تک بھی پہنچ سکے , ہر گز اپنی ذات پرصرف کرنے کے لیے آپ نے اس رقم کی شرط قرار نہیں دی تھی چنانچہ جوکچھ پاس موجود ہوتا تھا چاہیے زیادہ سے زیادہ رقم کیوں نہ ہو آپ خود فوراً سائلوں کوعطا فرمادیتے تھے , کسی نے آپ سے پوچھا کہ باوجود کہ آپ خود ضرورت مند ہیں پھر بھی کیا بات ہے کہ سائل کو رد نہیں فرماتے , آپ نے فرمایا .»میں خود خدا کی بارگاہ کا سائل ہوں ,مجھے شرم اتی ہے کہ خود سائل ہوتے ہوئے دوسرے سائلوں کے سوال کے پورا کرنے کی تمنا رکھوں .,,

اس کے ساتھ آپ کے علمی کمالات بھی وہ تھے جن کے سامنے دُنیا سرخم کرتی تھی اگرچہ عبدالله بن عباسرض امیر المومنین علیہ السّلام سے حاصل کیے ہوئے علوم سے دُنیا ئے علم میں اپنا ڈنکا بجارہے تھے مگر امام علیہ السّلام حسن علیہ السّلام کے خدا داد علم کاسامنا ہوجاتا تھا تو خاندانِ رسالت کی بزرگی کا دنیا کو اقرار کرنا پڑتا تھا . چنانچہ ایک سائل نے مسجد نبوی میں اکر ایک ایت کی تفسیر ابن عباسرض سے بھی پوچھی.عبدالله ابن رض عمیر سے بھی پوچھی اور پھر امام حسن سے دریافت کی اور اخر میں اس نے اقرار کیا کہ امام حسن علیہ السّلام کا جواب یقیناً ان دونوں سے بہتر تھا . اکثر آپ نے اپنے دشمن معاویہ کے دربار میں اور وہاں کے مخالف ماحول میں فضائل اہلبیت علیہ السّلام اور مناقب امیر المومنین علیہ السّلام پر ایسی مئوثر تقریریں فرمائی ہیں کہ دشمنوں کے سرجھک گئے اور آپ کی فصاحت وبلاغت اورحقانیت کا ان کے دلوں پر سّکہ قائم ہوگیا .

عبادت بھی آپ کی امتیازی حیثیت رکھتی تھی بیس یاپچیس حج پاپیادہ کیے . جب موت, قبر , قیامت اور صراط کو یاد فرماتے تھے تو رونے لگتے تھے . جب بارگاہ الٰہی میں اعمال کے پیش ہونے کا خیال اتا تو ایک نعرہ مار کر بے ہوش ہوجاتے تھے اور جب نماز کو کھڑے ہوتے تھے تو جسم لرزنے لگتاتھا وفات

اس بے ضرر اور خاموش زندگی کے باوجود بھی امام حسن علیہ السّلام کے خلاف وہ خاموش حربہ استعمال کیا گیا جو سلطنت بنی امیہ میں اکثر صرف کیا جارہا تھا . حاکم شام نے اشعث ابن قیس کی بیٹی جعدہ کے ساتھ جو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی زوجیت میں تھی ساز باز کرکے ایک لاکھ درہم انعام اور اپنے فرزند یزید کے ساتھ شادی کا وعدہ کیا اور اس کے ذریعہ سے حضرت حسن علیہ السّلام کو زہر دلوایا .امام حسن علیہ السّلام کے کلیجے کے ٹکڑے ہوگئے اور حالت خراب ہوئی .آپ نے اپنے بھائی حضرت امام حسین علیہ السّلام کو پاس بلایا اوروصیت کی , اگر ممکن ہو تو مجھے جدِ بزرگوار رسولِ خدا کے جار میںدفن کرنا لیکن اگر مزاحمت ہو تو ایک قطرہ خون گرنے نہ پائے . میرے جنازے کو واپس لے انا اور جنت البقیع میں دفن کرنا۔ 28 صفر 50ھ کو امام حسن علیہ السّلام دنیا سے رخصت ہوگئے . حسین علیہ السّلام حسبِ وصیت بھائی کا جنازہ روضہ رسول کی طرف لے گئے مگر جیسا کہ امام حسن علیہ السّلام کو اندیشہ تھا وہی ہوا . ام المومنین عائشہ اور مروان وغیرہ نے مخالفت کی .نوبت یہ پہنچی کہ مخالف جماعت نے تیروں کی بارش کردی اور کچھ تیر جنازئہ امام حسن علیہ السّلام تک پہنچے , بنی ہاشم کے اشتعال کی کوئی انتہا نہ رہی مگر امام حسین علیہ السّلام نے بھائی کی وصیت پر عمل کیا اورا مام حسن علیہ السّلام کاتابوت واپس لا کر جنت البقیع میں دفن کردیا۔

3) حضرت امام حسین ابن علی علیہ السلام

حسین نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے، پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفےٰ کے چھوٹے نواسے علی و فاطمہ زہرا کے چھوٹے صاحبزادے تھے۔ ان کے بارے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ 'حسین منی و انا من الحسین' یعنی 'حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

1 ولادت
2 نشوو نما
3 رسول کی محبت
4 رسول کی وفات کے بعد
5 اخلاق و اوصاف
6 متعلقہ مضامین
ولادت

ہجرت کے چوتھے سال تیسری شعبان پنجشنبہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی . اس خوشخبری کو سن کر جناب رسالت ماب تشریف لائے , بیٹے کو گود میں لیا , داہنے کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنی زبان منہ میں دے دیدی . پیغمبر کا مقدس لعاب دہن حسین علیہ السّلام کی غذا بنا . ساتویں دن عقیقہ کیا گیا . آپ کی پیدائش سے تمام خاندان میں خوشی اور مسرت محسوس کی جاتی تھی مگر انے والے حالات کاعلم پیغمبر کی انکھوں میں انسو برساتا تھا . اور اسی وقت سے حسین کے مصائب کاچرچا اہلیبت ُ رسول کے زبانوں پر انے لگا.

نشوو نما

پیغمبراسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کاگہوارہ تھی اب دن بھردو بچّوں کی پرورش میں مصروف ہوئی ایک حسن دوسرے حسین اور اس طرح ان دونوں کا اور اسلام کا ایک ہی گہوارہ تھا جس میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے . ایک طرف پیغمبر ُ اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے تیسری طرف حضرت فاطمہ زہرا جو خواتین کے طبقہ میں پیغمبر کی رسالت کو عملی طور پر پہنچانے کے لیے ہی قدرت کی طرف سے پیدا ہوئی تھیں اس نورانی ماحول میں حسین کی پرورش ہوئی۔

رسول کی محبت

جیسا کہ حضرت امام حسن کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ حضرت محمد مصطفےٰ اپنے دونوں نواسوں کے ساتھ انتہائی محبت فرماتے تھے . سینہ پر بیٹھاتے تھے . کاندھوں پر چڑھاتے تھے اور مسلمانوں کو تاکید فرماتے تھے کہ ان سے محبت رکھو . مگر چھوٹے نواسے کے ساتھ آپ کی محبت کے انداز کچھ امتیاز خاص رکھتے تھے .ایسا ہو اہے کہ نماز میں سجدہ کی حالت میں حسین پشت ُ مبارک پراگئے تو سجدہ میں طول دیا . یہاں تک کہ بچہ خود سے بخوشی پشت پر سے علیٰحدہ ہوگیا .اس وقت سر سجدے سے اٹھایا اور کبھی خطبہ پڑھتے ہوئے حسین مسجد کے دروازے سے داخل ہونے لگے اور زمین پر گر گئے تو رسول نے اپنا خطبہ قطع کردیا منبر سے اتر کر بچے کوزمین سے اٹھایا اور پھر منبر پر تشریف لے گئے اور مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ »دیکھو یہ حسین ہے اسے خوب پہچان لو اور اس کی فضیلت کو یاد رکھو « رسول نے حسین کے لیے یہ الفاظ بھی خاص طور سے فرمائے تھے کہ »حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں,, مستقبل نے بتادیا کہ رسول کا مطلب یہ تھا کہ میرا نام اور کام دُنیا میں حسین کی بدولت قائم رہیگا .

رسول کی وفات کے بعد

امام حسین کی عمر ابھی چھ سال کی تھی جب انتہائی محبت کرنے والے کاسایہ سر سے اٹھ گیا .اب پچیس برس تک حضرت علی ابن ابی طالب کی خانہ نشینی کادور ہے .اس زمانہ کے طرح طرح کے ناگوار حالات امام حسین دیکھتے رہے اور اپنے والد بزرگوار کی سیرت کا بھی مطالعہ فرماتے رہے . یہ وہی دور تھا جس میں آپ نے جوانی کے حدود میں قدم رکھا اور بھر پور شباب کی منزلوں کو طے کیا .35ھ میں جب حسین کی عمر 31 برس کی تھی عام مسلمانوں نے حضرت علی ا بن ابی طالب کو بحیثیت خلیفہ اسلام تسلیم کیا . یہ امیر المومنین کی زندگی کے اخری پانچ سال تھے جن میں جمل صفین اور نہروان کی لڑائیں ہوئی اور امام حسین ان میں اپنے بزرگ مرتبہ باپ کی نصرت اور حمایت میں شریک ہوئے اور شجاعت کے جوہر بھی دکھلائے .40ھ میں جناب امیر مسجد کوفہ میں شہید ہوئے اور اب امامت وخلافت کی ذمہ داریاں امام حسن کے سپرد ہوئیں جو حضرت امام حسین کے بڑے بھائی تھے .حسین نے ایک باوفااور اطاعت شعار بھائی کی طرح حسن کاساتھ دیااور جب امام حسن نے اپنے شرائط کے ماتحت جن سے اسلامی مفاد محفوظ رہ سکے امیر معاویہ کے ساتھ صلح کرلی تھی تو امام حسین بھی اس مصلحت پر راضی ہوگئے اور خاموشی اور گوشہ نشینی کے ساتھ عبادت اور شریعت کی تعلیم واشاعت میں مصروف رہے مگر امیر معاویہ نے ان شرائط کو جو امام حسن کے ساتھ ہوئے تھے بالکل پورا نہ کیا خود امام حسن کو سازش ہی سے زہر دیا گیا- حضرت علی بن ابی طالب کے شیعوں کو چن چن کے قید کیا گیا- سر قلم کئے گئے اور سولی پر چڑھایا گیا اور سب سے آخر اس شرط کے بالکل خلاف کہ امیر معاویہ کو اپنے بعد کسی کو جانشین مقرر کرنے کا حق نہ ہو گا۔ معاویہ نے یزید کو اپنے بعد کے ليے ولی عہد بنا دیا اور تمام مسلمانوں سے اس کی بیعت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور زور و زر دونوں طاقتوں کو کام میں لا کر دنیائے اسلام کے بڑے حصے کا سر جھکوا دیا گیا- محمد ابن جریر طبری، ابن خلدون ، ابن کثیر غرض بہت سے مفسرین اور مورخین نےلکھا ہے کہ ابن زیاد نے خاندان رسالت کوکربلا میں قتل کیااور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا ۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے

کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئي فرشتہ آیا ہے۔

امام حسین عراق میں کربلا کے مقام پر مدفون ہیں۔

اخلاق و اوصاف

امام حسین سلسلہ امامت کے تیسرے فرد تھے- عصمت و طہارت کا مجسمہ تھے- آپ کی عبادت, آپ کے زہد, آپ کی سخاوت اور آپ کے کمال ُاخلاق کے دوست و دشمن سب ہی قائل تھے- پچیس حج آپ نے باپیادہ کئے- آپ میں سخاوت اور شجاعت کی صفت کو خود رسول اللہ نے بچپن میں ایسا نمایاںپایا کہ فرمایا» حسین میں میری سخاوت اور میری جراَت ہے-« چنانچہ آپ کے دروازے پر مسافروں اور حاجتمندوں کا سلسلہ برابر قائم رہتا تھا اور کوئی سائل محروم واپس نہیں ہوتا تھا- اس وجہ سے آپ کا لقب ابوالمساکین ہو گیاتھا- راتوں کو روٹیوں اور کھجوروں کے پشتارے اپنی پیٹھ پر اٹھا کر لے جاتے تھے اور غریب محتاج بیواؤں اور یتیم بچوں کو پہنچاتے تھے جن کے نشان پشت مبارک پر پڑ گئے تھے- حضرت ہمیشہ فرماا کرتے تھے کہ » جب کسی صاحبِ ضرورت نے تمہارے سامنے سوال کے ليے ہاتھ پھیلا دیا تو گویا اس نے اپنی عزت تمہارے ہاتھ بیچ ڈالی- اب تمہارا فرض یہ ہے کہ تم اسے خالی ہاتھ واپس نہ کرو, کم سے کم اپنی ہی عزتِ نفس کا خیال کرو-« غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ آپ عزیزوں کا سا برتاؤ کرتے تھے- ذرا ذرا سی بات پر آپ انہیں آزاد کر دیتے تھے- آپ کے علمی کمالات کے سامنے دنیا کا سر جھکا ہوا تھا- مذہبی مسائل اور اہم مشکلات میں آپ کی طرف رجوع کی جاتی تھی- آپ کی دعاؤں کا ایک مجموعہ صحیفہ حسینیہ کے نام سے اس وقت بھی موجود ہے آپ رحمدل ایسے تھے کہ دشمنوں پر بھی وقت آنے پر رحم کھاتے تھے اور ایثار ایسا تھا کہ اپنی ضرورت کو نظر انداز کر کے دوسروں کی ضرورت کو پورا کرتے تھے- ان تمام بلند صفات کے ساتھ متواضع اور منکسر ایسے تھے کہ راستے میں چند مساکین بیٹھے ہوئے اپنے بھیک کے ٹکڑے کھا رہے تھے اور آپ کو پکار کر کھانے میں شرکت کی دعوت دی تو حضرت فوراً زمین پر بیٹھ گئے- اگرچہ کھانے میں شرکت نہیں فرمائی-اس بنائ پر کہ صدقہ آلِ محمد پر حرام ہے مگر ان کے پاس بیٹھنے میں کوئی عذر نہیں ہوا- اس خاکساری کے باوجود آپ کی بلندی مرتبہ کا یہ اثر تھا کہ جس مجمع میں آپ تشریف فرماہوتے تھے لوگ نگاہ اٹھا کر بات نہیں کرتے تھے - جو لوگ آپ کے خاندان کے مخالف تھے وہ بھی آپ کی بلندی مرتبہ کے قائل تھے- چنانچہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین نے حاکم شام معاویہ کو ایک سخت خط لکھا جس میں اس کے اعمال و افعال اور سیاسی حرکات پر نکتہ چینی کی تھی اس خط کو پڑھ کر معاویہ کو بڑی تکلیف محسوس ہوئی- پاس بیٹھنے والے خوشامدیوں نے کہا کہ آپ بھی اتنا ہی سخت خط لکھئے- معاویہ نے کہا, »میں جو کچھ لکھوں گا وہ اگر غلط ہو تو اس سے کوئی نتیجہ نہیں اور اگر صحیح لکھنا چاہوں تو بخدا حسین میں مجھے ڈھونڈنے سے کوئی عیب نہیں ملتا-« آپ کی اخلاقی جراَت , راست بازی اور راست کرداری , قوتِ اقدام, جوش عمل اور ثبات و استقلال , صبر و برداشت کی تصویریں کربلا کے مرقع میں محفوظ ہیں- ان سب کے ساتھ آپ کی امن پسندی یہ تھی کہ آخر وقت تک دشمن سے صلح کرنے کی کوشش جاری رکھی مگر عزم وہ تھا کہ جان دے دی جو صحیح راستہ پہلے دن اختیار کر لیا تھا اس سے ایک انچ نہ ہٹے- انہوں نے بحیثیت ایک سردار کے کربلا میں ایک پوری جماعت کی قیادت کی- اس طرح کہ اپنے وقت میں وہ اطاعت بھی بے مثل اور دوسرے وقت میں یہ قیادت بھی لاجواب تھی-

متعلقہ مضامین

واقعہ کربلا

سانحۂ کربلا 10 محرم 61ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ء) کو موجودہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا۔ جہاں شیعہ عقائد کے مطابق اموی خلیفہ یزید اول کی بھیجی گئی افواج نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نواسے حضرت حسین ابن علی عليہ السلام اور ان کے اہل خانہ کو شہید کیا۔ حسین ابن علی عليہ السلام کے ساتھ 72 ساتھی تھے جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

1 اسباب
1.1 یزید کی نامزدگی اور شخصی حکومت کا قیام
1.2 یزید کا ذاتی کردار
1.3 بیعت پر اصرار
1.4 اہل کوفہ کی دعوت
2 واقعات
2.1 مکہ روانگی
2.2 مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
2.3 ابن زیاد کوفہ میں
2.4 مسلم کی گرفتاری اور شہادت
2.5 امام حسین کا سفر کوفہ
2.6 ابن زیاد کی تیاریاں
2.7 حر بن یزید تمیمی کی آمد
2.8 میدان کربلا آمد
2.9 المیہ کربلا اور شہادت عظمٰی
2.10 غدار کو‌فیوں کا شرمناک کردار
2.11 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی
2.12 اہل بیت کی شام کو روانگی
3 نتائج
3.1 واقعہ حرہ
3.2 عبداللہ بن زبیر کی خلافت
3.3 اموی خلافت کا زوال
3.4 عباسی تحریک
3.5 حق پرستوں کے لیے مثال
4 اہمیت
4.1 متعلقہ مضامین

اسباب یزید کی نامزدگی اور شخصی حکومت کا قیام

اسلامی نظام حکومت کی بنیاد شورائیت پر تھی ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے ادوار اس کی بہترین مثال تھے۔ حضرت حسن بن علی سے امیر معاویہ نے معاہدہ کیا تھا کہ وہ کسی کو خلیفہ نامزد نہ کریں گے مگر حضرت امیر معاویہ نے یزید کو اپنا جانشین نامزد کرکے اسی اصول دین کی خلاف ورزی کی تھی کیونہ اسلامی نقطہ حیات میں شخصی حکومت کے قیام کا کوئی جواز نہیں ۔ ابھی تک سرزمین حجاز میں ایسے کبار صحابہ اور اکابرین موجود تھے جنہوں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دور دیکھا تھا ۔ لٰہذا ان کے لیے امیر معاویہ کی غلط روایت قبول کرنا ممکن نہ تھا ۔ امام حسین عليہ السلام نے ان ہی اصولوں کی خاطر یزید کی بیعت قبول کرنے سے انکار کر دیا ۔

یزید کا ذاتی کردار

یزید کا ذاتی کردار ان تمام اوصاف سے عاری تھا جو امیر یا خلیفہ کے لیے شریعت اسلامیہ نے مقرر کیے ہیں۔ سیروشکار اور شراب و شباب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے لٰہذا ذاتی حیثیت سے بھی کسی فاسق و فاجر کو بطور حکمران تسلیم کرنا امام حسین عالی مقام کے لیے کس طرح ممکن ہو سکتا تھا۔

بیعت پر اصرار

یزید نے تخت نشین ہونے کے بعد حاکم مدینہ ولید بن عقبہ کی وساطت سے بیعت طلب کی ولید نے سختی سے کام نہ لیا لیکن مروان بن الحکم بزور بیعت لینے کے لیے مجبور کر رہا تھا۔ ان حالات میں امام حسین عليہ السلام نے سفر مکہ اختیار کیا اور وہاں سے اہل کوفہ کی دعوت پر کوفہ کے لۓ روانہ ہؤے۔

اہل کوفہ کی دعوت

جب امام حسین عليہ السلام مکہ پہنچے تو اہل کوفہ نے انھیں سینکڑوں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ خلافت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد کا آغاز کر سکیں لیکن غدار اہل کوفہ نے ان سے غداری کی اور اپنے وعدوں سے پھر کر امام حسین علیہ السلام کا ساتھ نہ دیا۔ یزید کی بھیجی ہوئی افواج نے کربلا میں نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کو ان کے اہل خانہ اور اصحاب کو شہید کر دیا۔

واقعات مکہ روانگی

ولید بن عتبہ نے امام حسین اور عبداللہ بن زبیر کو قاصد کے ذریعہ بلایا ۔ ابھی تک امیر معاویہ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام نہ ہوئی تھی ۔ تاہم بلاوے کا مقصد دونوں حضرات نے سمجھ لیا ۔امام حسین سے جب بیعت کے لیے کہاگیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے جیسا آدمی خفیہ بیعت نہیں کر سکتا۔ جب بیعت عام ہوگی اس وقت آ جاؤں گا ۔ ولید راضی ہو گیا اور انھیں واپس لوٹنے کی اجازت دے دی ۔ عبداللہ بن زبیر ایک دن کی مہلت لے کر مکہ روانہ ہوگئے۔ بعد میں ان کا تعاقب کیا گیا مگر اس اثناء میں وہ کہیں دور جا چکے تھے۔ جب مروان کو اس صورت حال کا علم ہوا تو ولید سے بہت ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے بیعت کا وقت کھو دیا ۔ اب قیامت تک ان سے بیعت نہ لے سکو گے۔ امام حسین عجیب الجھن سے دوچار تھے اگر وہ مدینہ میں مقیم رہتے تو بیعت کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ لٰہذا وہ27 رجب60 ہجری میں مع اہل و عیال مکہ روانہ ہو گئے۔ مکہ پہنچ کر شعب ابی طالب میں قیام کیا۔

مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی

امام حسین نے کوفیوں کے خطوط آنے کے بعد مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ اصل صورت حال معلوم کریں۔ مسلم کوفہ پہنچے کے پہلے ہی دن بارہ ہزار کوفیوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔ کوفہ کے اموی حاکم بشیر نے ان کے ساتھ نرمی سے کام لیا۔ کوفیوں کے جذبات سے متاثر ہو کر مسلم بن عقیل نے امام حسین کو کوفہ آنے کا لکھا۔

ابن زیاد کوفہ میں

ان حالات کی بنا پر یزید نے فوراً نعمان کو معزول کر دیا اور عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ کوفہ پہنچ کر اس نے اعلان کیا کہ جو لوگ مسلم سے اپنی وفاداریاں توڑ لیں گے انہیں امان دی جائے گی ۔ اس کے بعد ہر محلہ کے رئیس کو بلایا اور اسے اپنے اپنے علاقہ کے امن و امان کا ذمہ دار قرار دے کر مسلم بن عقیل کی جائے پناہ کی تلاش شروع کردی ۔ اس وقت مسلم ایک محب اہل بیت ہانی بن عروہ کے ہاں چلے گئے ۔ ابن زیاد نے ہانی کو بلا کر مسلم کو پیش کرنے کا حکم دیا اور ہانی نے انکار کر دیا جس پر انھیں قید میں ڈال کر مار پیٹ کی گئی۔

مسلم کی گرفتاری اور شہادت

شہر میں افواہ پھیل گئی کہ ہانی قتل ہو گئے ۔ یہ خبر سنتے ہی مسلم نے اٹھارہ ہزار ہمنواؤں کے ساتھ ابن زیاد کے محل کا محاصرہ کر لیا۔ ابن زیاد کے پاس اس وقت صرف پچاس آدمی موجود تھے۔ چنانچہ اس نے حکمت سے کام لیا اوران رئیسان کوفہ کی ترغیب سے لوگوں کو منتشر کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔آخر کام مسلم کے ساتھ صرف تیس آدمی رہ گئے ۔ مجبوراً مسلم بن عقیل نے ایک بڑھیا کے گھر پناہ لی لیکن اس بڑھیا کے بیٹے نے انعام کے لالچ میں آکر خود جا کر ابن زیاد کو اطلاع کر دی ۔ابن زیاد نے یہ اطلاع پا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ حضرت مسلم بن عقیل تن تنہا لڑنے پر مجبور ہوئے جب زخموں سے چور ہوگئے تو محمد بن اشعث نے امان دے کر گرفتار کر لیا ۔ لیکن آپ کو جب ابن زیاد کے سامنے پیش کیاگیا تو اس نے امان کے وعدہ کو پس پشت ڈالتے ہوئے آپ کے قتل کا حکم دے دیا۔ مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہ میرے قتل کی اطلاع امام حسین تک پہنچا دینا اور انھیں میرا یہ پیغام بھی پہنچا دینا کہ ’’اہل کوفہ پر ہرگز بھروسہ نہ کریں اور جہاں تک پہنچ چکے ہوں وہیں سے واپس چلے جائیں‘‘ ۔ ابن اشعث نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ایک قاصد حضرت امام حسین کی طرف روانہ کر دیا۔

امام حسین کا سفر کوفہ

اہل مکہ اور مدینہ نے آپ کو کوفہ جانے سے باز رکھنے کے لیے پوری کوششیں کیں کیونکہ کوفیوں کا سابقہ غدارانہ طرز عمل ان کے سامنے تھا۔ عمرو بن عبدالرحمن ، عبداللہ ابن عباس ، عبداللہ بن زبیر سب نے مشورہ دیا کہ ’’چونکہ کوفہ یزید کی حکومت کے تحت ہے وہاں ان کی افواج اور سامان سب کچھ موجود ہے اور کوئی قابل اعتماد نہیں اس لیے مناسب یہی ہے کہ آپ مکہ ہی میں رہیں۔‘‘ عبداللہ ابن زبیر نے تجویز کیا کہ آپ مکہ میں رہ کر اپنی خلافت کی جدوجہد کریں ہم سب آپ کی مدد کریں گے ۔ لیکن جب امام حسین رضا مند نہ ہوئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس نے آپ کو کوفہ کی بجائے یمن جانے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ’’اگر کوفہ کاسفر آپ کے نزدیک ضروری ہے تو پہلے کوفیوں کو لکھیے کہ وہ یزید کے حاکموں کو وہاں سے نکالیں پھر آپ وہاں کا قصد کریں۔‘‘ لیکن امام حسین نے کہا کہ ’’ابے ابن عمر میں جانتا ہوں کہ تم میرے خیر خواہ ہو ۔ لیکن میں عزم کر چکا ہوں۔‘‘ اس پر ابن عباس نے کہا کہ ’’اگر آپ نہیں مانتے تو کم از کم اہل و عیال کو ساتھ نہ لے جائیے مجھے ڈر ہے کہ عثمان کی طرح آپ بھی بال بچوں کے سامنے ذبح کیے جائیں گے۔ ‘‘ لیکن ان تمام ترغیبات کے باوجود امام حسین اپنے فیصلہ پر قائم رہے اور بالآخر 3 ذوالحج 60 ھ کو مکمہ معظمہ سے کوفہ کے لیے چل پڑے۔ آپ کی روانگی کے بعد آپ کے چچا زاد بھائی عبداللہ بن جعفر نے ایک عریضہ اپنے لڑکوں عون اور محمد کے ہاتھ روانہ کیا کہ : ” میں آپ کو اللہ تعالٰی کا واسطہ دیتا ہوں کہ جونہی میرا خط آپ کو ملے لوٹ آئیے کیونکہ جس جگہ آپ جارہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ وہاں آپ کی ہلاکت اور آپ کے اہل بیت کی بربادی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ ہلاک ہوگئے تو دنیا تاریک ہو جائے گی ۔ کیونکہ اس وقت آپ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کا علم اور مومنوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ آپ سفر میں جلدی کیجیے ۔ میں بھی جلد آپ کے پاس پہنچتا ہوں “

حضرت عبداللہ بن جعفر ، عمر بن سعد حاکم مکہ کا سفارشی خط لے کر امام حسین سے ملے اور انھیں بتایا کہ کوفہ کے لوگوں پر اعتماد مناسب نہیں عمر بن سعد اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ آپ مکہ لوٹ آئیں تو میں یزید کے ساتھ آپ کے معاملات طے کرادوں گا اور آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ لیکن آپ نے اس مشورہ کو ماننے سے انکار کر دیا اور اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق سفر کوفہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ مجبور ہو کر عبداللہ بن جعفر واپس ہو گئے مگر عون اور محمد کو ساتھ رہنے دیا۔ راستہ میں مشہور شاعر فرزوق آپ سے ملا اور امام حسین سے عرض کی ” لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ۔ قضاء الہی آسمان سے اتری ہے اور اللہ تعالٰی جو چاہتا ہے کرتا ہے “ لیکن آپ نے اس کے باوجود سفر کو بدستور جاری رکھا ۔

ابن زیاد کی تیاریاں

ابن زیاد کے حکم سے پولیس کے افسر حصین بن نمیر نے قادسیہ سے جبل لعل تک سواروں کو مقرر کر دیا اور تمام اہم راستوں کی ناکہ بندی کر دی ۔ امام حسین کے قاصد قیس کو ابن زیاد کے آدمیوں نے گرفتار کرکے قتل کر دیا ۔ جب آپ بطن رملہ سے آگے بڑھے تو انھیں عبداللہ ابن مطیع ملے ۔ انھوں نے آپ کو آگے جانے سے روکا محمد بن اشعث کے بھیجے ہوئے قاصد نے آپ کو مقام ثعلبیہ پر مسلم بن عقیل کے قتل کی خبر دی ۔ اب آپ سفر کوفہ کے بارے میں متردد ہوئے۔ ساتھیوں نے واپس لوٹنے کا مشورہ دیا لیکن مسلم کے بھائیوں نے اپنے بھائی کے خون کا انتقام لینے کی خاطر سفر جاری رکھنے کے لیے زور دیا۔ جس کے بعد پوزیشن واضح ہو گئی۔ آپ کے ساتھ دوران سفر بہت سے بدوی شامل ہو چکے تھے۔ آپ نے ان سب کو جمع کیا اور فرمایا جو لوگ واپس جانا چاہیں انہیں اجازت ہے۔ چنانچہ سوائے ان جان نثاروں کے جو مدینہ سے ساتھ آئے تھے سب ساتھ چھوڑ گئے۔

حر بن یزید تمیمی کی آمد

ابن زیاد نے امام حسین کی پیش قدمی روکنے کے لیے حر بن یزید تمیمی کو روانہ کیا۔ ذمی حشم کے مقام پر آپ سے اس کی ملاقات ہوئی۔ امام حسین نے اسے کوفیوں کے خطوط کے دو تھیلے منگوا کر دکھائے اور کہا کہ ’’اب آپ لوگوں کی رائے بدل گئی ہے۔ تو میں واپس جانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘ لیکن حر نے کہا کہ ہمیں تو آپ کو گرفتار کرنے کا حکم ہے۔ چنانچہ امام حسین نے اپنا سفر کوفہ جاری رکھا۔ آپ نے مقام بیضہ پر خطبہ دیا ۔ جس میں اپنےمقاصد کی وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا: ” لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے ظالم ، محرمات الہٰی کے حلال کرنے والے ، خدا کا عہد توڑنے والے ، خدا اور رسول کی مخالفت اور خدا کے بندوں پر گناہ اور زیادتی کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قول و فعل کے ذریعہ سے غیرت کا اظہار نہ کیا تو خدا کا حق ہے کہ اس شخص کو اس بادشاہ کے ساتھ دوزخ میں داخل کر دے۔ لوگو! خبردار ہو جاؤ ۔ ان لوگوں نے شیطان کی اطاعت اختیار کی اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے۔ ملک میں فساد پھیلایا ہے۔ حدود الہٰی کو معطل کر دیا ہے ۔ مال غنیمت میں اپنا حصہ زیادہ لیتے ہیں۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال اور حلال کی ہوئی حرام کر دیا ہے۔ اس لیے مجھ کو غیرت میں آنے کا زیادہ حق ہے “

کچھ دور جاکر طرماج بن عدی سے آپ کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے آپ کو یمن چلنے کی دعوت دی لیکن آپ نے یہ پیش کش شکریہ کے ساتھ ٹال دی ۔

میدان کربلا آمد

امام حسین کا قافلہ اور حربن یزید کا لشکر ساتھ ساتھ آگے کی طرف چلتے رہے جہاں کہیں آپ کے قافلہ کا رخ صحرائے عرب کی طرف ہو جاتا حر آپ کو روک دیتا اور رخ پھیر کر کوفہ کی طرف کر دیتا۔ چلتے چلتے آپ نینوا پہنچے ۔ وہاں ابن زیاد کے ایک قاصد نے حر کو ایک خط پہنچایا جس میں حکم تھا ” جونہی میرا یہ خط اور میرا قاصد تم تک پہنچیں حسین اور ان کے ساتھیوں کو جہاں وہ ہیں وہیں روک لو اور انھیں ایسی جگہ اترنے پر مجبور کرو جو بالکل چٹیل میدان ہو اور جہاں کوئی سبزہ اور پانی کا چشمہ وغیرہ نہ ہو میرا یہ قاصد اس وقت تک تمہارے ساتھ ساتھ رہے گا ۔ جب تک مجھے یہ معلوم نہ ہو جائے کہ جو حکم میں نے تمہیں دیا ہے تم نے اس کی حرف بحرف تعمیل کی “

حر نے تمام صورت حال سے امام حسین کو آگاہ کیا اور کہا کہ ’’اب میں آپ کو اس جگہ نہ رہنے دوں گا ۔ ‘‘بالآخر یہ مختصر سا قافلہ 2 محرم الحرام61 ھ بمطابق 2 اکتوبر 680ء کو کربلا کے میدان میں اترا۔ دوسرے ہی روز عمر بن سعد 6 ہزار سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچا۔ عمر بن سعد چونکہ امام حسین سے لڑنے کا خواہشمند نہ تھا س لیے قرہ بن سفیان کو آپ کے پاس بھیجا ۔ قرہ بن سفیان سے حضرت حسین نے کہا کہ ’’اگر تمہیں میرا آنا ناپسند ہے تو میں مکہ واپس جانے کے لیے تیار ہوں ۔‘‘ لیکن ابن زیاد نے اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور عمر بن سعد کو حکم دیا کہ اگر امام حسین بیعت نہ کریں تو

ان کا پانی بند کردیا:

امام حسین کو ایسی حالت میں جب کہ وہ قابو میں آچکے تھے گرفتار کرنا زیادہ مناسب اور ضروری قرار دیا۔ یہ سن کر ابن زیاد نے اپنی رائے تبدیل کر دی ۔ اور عمر بن سعد کو اس کی اس بات پر سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ. ’’اگر امام حسین اور اس کے ساتھی اپنے آپ کو حوالہ کر دیں تو بہتر ہے ورنہ جنگ کی راہ لو۔‘‘ شمر مع خط کے عمر بن سعد کے پاس پہنچا۔ عمر بن سعد اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی خاطر امام حسین کے خلاف تلوار اٹھانے کے لیے تیار ہو گیا۔ یہ 9 محرم الحرام کا دن تھا۔

المیہ کربلا اور شہادت عظمٰی

صلح کی آخری گفتگو ناکام ہونے کے بعد امام حسین نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ جو جانا چاہتے ہیں انھیں میری طرف سے اجازت ہے۔ اس پر کچھ جان نثار اور اعزہ باقی رہ گئے ۔ جنہوں نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔ ان جاں نثاروں کی تعداد صرف 72 تھی ۔ امام حسین نے اس مختصر ترین فوج کو منظم کیا۔ میمنہ پر زبیر بن قیس کو اور میسرہ پر حبیب بن مطہر کو متعین کرکے علم عباس کو مرحمت فرمایا ۔ جنگ کے آغاز سے پیشتر اللہ تعالٰی کے حضور دعا کی اور ان سے تائید اور نصرت چاہی۔ اس کے بعد اتمام حجت کے لیے دشمنوں کی صفوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ” اے لوگو! جلدی نہ کرو ۔ پہلے میری بات سن لو۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کاجو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو ۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کرو گے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی ۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے “

جونہی آپ تقریر کے اس حصے پر پہنچے تو خیموں سے اہل بیت کی مستورات کی شدت رنج سے چیخیں نکل گئیں۔ آپ تھوڑی دیر کے لیے رک گئے اور اپنے بھائی عباس کو انہیں چپ کرانے کے لیے بھیجا۔ جب خاموشی طاری ہوئی تو آپ نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ” لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ۔ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالو اور اپنے آپ کو ملامت کرو۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے۔ ہے ۔ تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو ۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے “

لیکن کوفیوں اور ان کے سرداروں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر آپ کی اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے کہ ” یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے “

حضرت امام حسین کے لشکر میں آ شامل ہوا۔ اس کے بعد شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہل بیت اطہر کا پلہ بھاری رہا۔ یہ دیکھ کر ابن سعد نے عام حملہ کا حکم دیا ۔ فدایان و اراکین اہل بیت نے دشمنوں کی یلغاروں کا پوری قوت ایمانی سے ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ فدائی ایک ایک کرکے کٹ مرے لیکن میدان جنگ سے منہ نہ پھیرا۔ دوپہر تک امام حسین کے بیشتر آدمی کام آ چکے تھے۔ چنانچہ اب باری باری حضرت علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ ، جعفر طیار کے پوتے عدی ، عقیل کے فرزند عبدالرحمن ، حضرت حسن کے صاحبزادے قاسم اور ابوبکر وغیرہ میدان میں اترے اور شہید ہوئے۔ ان کے بعد امام حسین آئے۔ دشمنوں نے ہر طرف سے آپ پر یورش کی۔ یہ دیکھ کر آپ کے بھائی عباس ، عبداللہ ، جعفر اور عثمان آپ کی حفاظت کے لیے ڈٹ گئے مگر چاروں نے شہادت پائی۔ امام حسین تنہا میدا میں جمے ہوئے تھے۔ عراقیوں نے آپ کو ہر طرف سے نرغہ میں لے لیا مگر شہید کرنے کی کسی کو بھی جرات نہ ہو رہی تھی کیونکہ کوئی نہ چاہتا تھا کہ یہ گناہ اس کے سر ہو۔ بالآخر شمر کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور ہاتھ اور گردن پر تلوار کیے۔ سنان بن انس نے تیر چلایا اور آپ گر گئے۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آپ کی طرف بڑھا تو اس کی برص زدہ شکل دیکھتے ہی امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے نانا رسولِ خدا نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ وہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے [1] ۔اے بدبخت شمر بلاشبہ تو وہی کتا ہے جس کی نسبت میرے نانا نے خبر دی تھی۔ اس کے بعد شمر نے ان کا سر پیچھے کی طرف سے(پسِ گردن سے) کاٹ کر تن سے جدا کر دیا۔ روایات کے مطابق اللہ کے نبی حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح پس گردن سے کاٹ کر جدا کیا گیا تھا۔ [2] ابن زیاد کے حکم کے مطابق آپ کا سربریدہ جسم گھوڑوں کے ٹاپوں سے روندوا دیا گیا۔ بعد میں تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جائے گئے اور بعد میں دمشق میں یزید کے دربار میں لے جائے گئے۔یزید نے امام حسین کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے

[3]

” کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئی فرشتہ آیا ہے “

اس شعر کو سن کر اور یزید کا فخریہ انداز دیکھ کر دربار میں موجود ایک یہودی سفیر نے کہا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہوں۔ میرے اور ان کے درمیان ستر پشتیں گذر چکی ہیں مگر اس کے باوجود یہودی میری بے حد عزت و تکریم کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تم نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کردیا ہے اور اب اس پر فخر بھی کر رہے ہو۔ یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ [4] گبن کے الفاظ میں “ Thus fell one of the noblest spirits of the age and with him perished all the male members of his family with the solitary exception of a sickly child named Ali who later in life received the designation of Zayn-ul-Abidin” ترجمہ : اس طرح زمانے کے پارسا ترین انسانوں میں سے ایک کا خاتمہ ہوگیا اور اس کے ساتھ اس کے خاندان کے تمام مرد بھی ختم ہو گئے سوائے امام زین العابدین علی بن حسین (جو بیماری کی وجہ سے جنگ میں شرکت نہ کر سکے) اور امام محمد باقر بن علی کے جو اس وقت بچے تھے۔ یہ دردناک واقعہ 10 محرم الحرام 61 ھ مطابق 10 اکتوبر 680ء کو پیش آیا۔

غدار کو‌فیوں کا شرمناک کردار

اس دلخراش سانحہ سے قبل بھی کو‌فیوں کا کردار نہایت ہی شرمناک رہا تھا۔ حضرت علی کے دارلخلافہ مدینہ سے کوفہ لے جانے سے ان سازشیوں کو کھل کر کھلنے کا موقع ملا۔ بظاہر یہ سازشی حب علی کا لبادہ اوڑھے رہا کرتے تھے لیکن آپ کی زات اطہر سے بھی الٹے سیدھے سوالات کرنا ان کا وطیرہ تھا۔ایک مو‏قع پر ان لوگوں نے حضرت علی سے سوال کیا۔ " مولا آپ سے پہلے کے خلفاء کے دور میں امن وامان تھا مگر آپ کے دور میں یہ کیوں عنقا ہے" اس گستاخانہ سوال پر حضرت علی نے ان منافقوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ آپ نے فرمایا " اس بدامنی کی بنیادی وجہ یہ ہے کر سابقہ خلفاء کے مشیر میرے جیسے لوگ تھے اور میرے مشیر ہیں آپ جیسے لوگ"۔ ان لوگوں کی ان ہی حرکتوں کے باعث حضرت علی بالآخر اس طبقے سے بیزار رہنے لگے تھے۔ جب حضرت حسن نے خلافت سنبھالی تو آپ اپنے والد محترم کے دور میں ان منافقوں کا بغور مشاہدہ کر چکے تھے اسے لئے آپ نے ان کو زیادہ منہ نہ لگایا اور حضرت معاویہ سے صلح کرلی۔ اس صلح سے خانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اس صلح سے ان منافقوں کی سازشوں پر پانی پھر رہا تھا اس لئے اس صلح پر بھی حضرت حسن کی زات گرامی پر اعتراض کرنے لگے۔ حضرت حسن نے فرمایا " اگر خلافت میرا حق تھا تو یہ میں نے ان ( معاویہ ) کو بخش دیا اور اگر یہ معاویہ کا حق تھا تو یہ ان تک پہنچ گیا" ۔ جن کوفیوں نے حضرت حسین کو خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت تھی ان کی تعداد ایک روائت کے مطابق 12000 اور دوسری روائت کے مطابق 18000 تھی لیکن جب جنگ کی نوبت آگئ تو ان بے وفا اور د‏غا باز لوگوں میں سے کسی نے حضرت حسین کا ساتھ نہ دیا اور کھڑے تماشا دیکھتے رہے یہاں تک کہ آپ نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا۔ حضرت حسین سے غداری کی سزا ان کو ان ہی کے ہاتھوں قیامت تک ملتی رہے گی انشا اللہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیشگوئی

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ مٹی دی تھی اور فرمایا تھا کہ اے ام سلمیٰ جب یہ مٹی سرخ ہو جائے یعنی خون میں بدل جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔ ایک دن ان کی بیٹی ان سے ملنے گئیں تو آپ زارو قطار رو رہی تھیں۔ پوچھا گیا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ ابھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خواب میں تشریف لائے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپ کے سرِ انور اور ڈاڑھی مبارک پر مٹی تھی۔ میں نے پوچھا آقا یہ گرد کیسی تو فرمایا کہ اے ام سلمہ ابھی اپنے حسین کے قتل کا منظر دیکھ کر میدانِ کربلا سے آرہا ہوں۔ جاگنے کے بعد میں نے وہ مٹی دیکھی جو انہوں نے مجھے دی تھی تو وہ خون ہو چکی تھی۔

اہل بیت کی شام کو روانگی

حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد اہل بیت اطہر کے بقیہ افراد پر مشتمل قافلہ ابن زیاد کے پاس کوفہ پہنچا ۔ یہ سیاہ بخت انسان اس خستہ حالت میں بھی افراد اہل بیت سے انتہائی بدتمیزی سے پیش آیا۔ حضرت امام حسین کا کٹا ہوا سر ابن زیاد کے سامنے پڑا ہوا تھا۔ ہر خاص و عام کو محل میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ابن زیاد سر مبارکہ کو دیکھ کر آپ کے لبوں پر بار بار چھڑی مارتا اور مسکراتا۔ صحابی رسول زید بن ارقم وہاں ایک کونے میں موجود تھے ان سے رہا نہ گیا تو فرمایا: ” ان لبوں سے چھڑی ہٹا لو۔ اللہ تعالٰیٰ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رسول اللہ ان ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھتے تھے “

یہ کہہ کر وہ رونے لگے۔ یہ سن کر ابن زیاد کے غضب کی کوئی حد نہ رہی بولا۔ ’’اللہ تعالٰیٰ دونوں آنکھیں رلائے۔ واللہ ! اگر تو بوڑھا ہو کر سٹھیا نہ گیا ہوتا اور تیری عقل ماری نہ گئی ہوتی تو میں تیری گردان اڑا دیتا ۔ ‘‘ یہ دیکھ کر زید بن ارقم مجلس سے اٹھتے ہوئے کہہ گئے: ” اے لوگو! آج کے بعد تم غلام بن گئے کیونکہ تم نے فاطمہ کے لخت جگر کو قتل اور ابن زیاد کو اپنا حاکم بنایا جو تمہارے نیک لوگوں کو قتل کرتا اور شریروں کو نوازتا ہے “

کوفہ سے ابن زیاد نے حضرت امام حسین کا سر مبارک اور قافلہ اہل بیت کو دمشق بھجوا دیا۔ وہاں یزید نے امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور فخر کا اظہار کیا۔

نتائج

واقعہ حرہ

اصل مضمون: واقعۂ حرہ

شہادت حسین کی خبر جب سرزمین حجاز میں پہنچی تو کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس سانحہ پر اشکبار نہ ہو ۔ لٰہذا حجاز میں فوری طور پر انقلاب برپا ہوگیا۔ اہل مدینہ نے اموی حکام کو صوبہ سے نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر کی بیعت کر لی۔ یزید نے ولید بن عقبہ کی ماتحتی میں شامیوں کی فوج روانہ کی۔ اس فوج میں عیسائی کثیر تعداد میں شامل تھے ۔ جب اہل مدینہ نے اطاعت قبول نہ کی تو ولید بن عقبہ نے شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا ۔ اہل مدینہ نے اگرچہ بڑی بے جگری سے لڑے لیکن شامی افواج کے ان کو شکست ہوئی ۔ اس جنگ میں بڑے بڑے اکابر مدینہ شہید ہوئے جن میں فضل بن عباس اور عبداللہ بن حنظلہ قابل ذکر ہیں۔ شہر پر قبضہ کے بعد مدینہ الرسول تین دن تک شامی فوجیوں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ مسلمانوں کی عزت و آبرو برباد ہوئی اور تین روز تک مسلسل قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تاریخ اسلام میں یہ واقعا بہت اہم ہے اور سانحہ کربلا کے بعد یزید کا دوسرا بڑا سیاہ کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

عبداللہ بن زبیر کی خلافت

اہل مدینہ نے یزید کے بجائے عبداللہ بن زبیر کو خلیفہ چن لیا۔ شہادت حسین نے لوگوں کے اندر سوئے ہوئے جذبات کو ازسرنو بیدار کر دیا اور سرزمین حجاز میں ناراضگی کی ہمہ گیر لہر اموی اقتدار کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی۔ اہل حجاز کو ابن زبیر جیسی موثر شخصیت بطور رہنما میسر آئی ۔ چنانچہ اہل مدینہ نے بھی جلد آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا اور آپ کی بیعت کر لی۔ اس انقلاب نے اموی اقتدار کے لیے بے پناہ مشکلات پیدا کر دیں۔ حجاز کی سرزمین سے مخالفت کے یہ ابلتے ہوئے جذبات درحقیقت تمام عالم اسلامی میں پیدا شدہ ہمہ گیر اضطراب کے ترجمان تھے۔

اموی خلافت کا زوال

واقعہ کربلا اموی خلافت کے زوال کا اہم سبب قرار دیا جاتا ہے۔ اموی حکومت اور اس کے عمال پہلے ہی عوام الناس میں مقبول نہ تھے۔ کیونکہ مسلمان جب ان کی حکومت کا موازنہ خلافت راشدہ سے کرتے تھے انہیں سخت مایوسی ہوتی۔ امام حسین کی شہادت نے ملت اسلامیہ کو بہت متاثر کیا۔ خود یزید کابیٹا معاویہ دل برداشتہ ہو کر خلافت سے ہی دست بردار ہوگیا۔ اگرچہ امویوں نے اپنی قوت اور استقلال کی بدولت حکومت کو وقتی طور پر اپنے خاندن میں محفوظ کرلیا لیکن خلیفہ مروان ثانی کے زمانہ تک کھلم کھلا اور زیر زمین کئی تحریکیں مسلسل اس بات کے لیے کوشاں رہیں کہ وہ امویوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔

عباسی تحریک

عباسیوں نے امویوں کے خلاف اس ردعمل سے خوب فائدہ اٹھایا ۔ ان کے داعی ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے اور اموی مظالم کی داستان اس قدر پر زور اور پر تاثیر انداز میں پیش کی کہ عوام کے جذبات بھڑک اٹھے ۔ چنانچہ عباسیوں نے بھی حسین کے انتقام کو اپنے مقاصد کے لیے نہایت کامیابی سے استعمال کیا۔

حق پرستوں کے لیے مثال

اس واقعہ کا سب سے بڑا اہم تتیجہ یہ تھا کہ امام حسین کا کردار عین حق کے لیے ہمیشہ کے لیے روشنی کا ایک مینار بن گیا۔ حریت ، آزادی ، اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جب بھی مسلمانوں نے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا تو امام حسین کی قربانی کو مشعل راہ پایا۔ آپ ہی سے مسلمانوں نے سیکھا کہ جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا عین رضائے الٰہی ہے۔

اہمیت

کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا۔ اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضور اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔ اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔ یہ تصور ہی کہ اسلام کے نام لیواؤں پر یہ ظلم یا تعدی خود ان لوگوں نے کی جو خود کو مسلمان کہتے تھے بڑا روح فرسا ہے مزید براں امام حسین کا جو تعلق آنحضور سے تھا اسے بھی ظالموں نے نگاہ میں نہ رکھا۔ نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔ اس جرم کی سنگینی میں مزید اضافہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ امام حسین نے آخری لمحات میں جو انتہائی معقول تجاویز پیش کیں انھیں سرے سے درخو اعتنا ہی نہ نہ سمجھا گیا ۔ اس سے یزید کے اعمال کی آمرانہ ذہنیت کا اظہار بھی ہوتا ہے یہاں یہ نقطہ قابل غور ہے کہ جب شخصی اور ذاتی مصالح ، ملی ، اخلاقی اور مذہبی مصلحتوں پر حاوی ہو جاتے ہیں توانسان درندگی کی بدترین مثالیں بھی پیش کرنے پرقادر ہے اور ایسی مثالوں سے تو یورپ کی ساری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ لٰہذا ان حقائق کی روشنی میں سانحہ کربلا کا جائزہ لیا جائے تو یہ واقعہ اسلام کے نام پر سیاہ دھبہ ہے کیونکہ اس سے اسلامی نظام حکومت میں ایسی خرابی کا آغاز ہوا جس کے اثرات آج تک محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اگر ہم اس سانحہ کو اسلام کے نام پر ایک سیاہ دھبہ بھی قرار دیں تو یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہوگا کیونکہ جہاں تک حق و انصاف ، حریت و آزادی اور اعلائے کلمۃ الحق کے لیے جدوجہد کا تعلق ہے یہ کہنا درست ہوگا کہ سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب بھی ہے جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس میں شخصی حکومتوں یا بادشاہت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی لٰہذا امام حسین نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کی لازوال داستان ہے۔ باطل کی قوتوں کے سامنے سرنگوں نہ ہو کر آپ نے حق و انصاف کے اصولوں کی بالادستی ، حریت فکر اور خداکی حاکمیت کا پرچم بلند کرکے اسلامی روایات کی لاج رکھ لی ۔ اور انھیں ریگ زار عجم میں دفن ہونے سے بچا لیا۔ امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔ سچ ہے کہ

” 	اسلام زندہ ہوتا ہے ہرکربلا کے بعد 	“

4) حضرت امام زین العابدین علی ابن حسین علیہ السلام

حضرت علی ابن الحسین (15 جمادی الاول یا 15 جمادی الثانی 38ھ تا 25 محرم الحرام 95ھ) جو امام زین العابدین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہیں، امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے وہ فرزند تھے جو واقعۂ کربلا میں زندہ بچ گئے تھے اور انہیں قیدیوں کے قافلے اور شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق لے جا کر یزید کے دربار لے جایا گیا تھا۔ آپ کی والدہ کا نام شہر بانو تھا جو ایران کے بادشاہ یزدگرد سوم کی بیٹی تھیں جو نوشیروان عادل کا پوتا تھا۔ آپ کے مشہور القاب میں زین العابدین اور سیدِ سجاد شامل ہیں۔

1 ولادت با سعادت
2 زہد و تقوی
3 شادی اور اولاد
4 واقعہ کربلا
5 خطبات
6 روضہ رسول پر فریاد
7 واقعہ حرہ
8 عبد الملک ابن مروان اور حجاج ابن یوسف کا دور
9 شہادت امام زین العابدین

ولادت با سعادت

آپ کی ولادت بعض روایات کے مطابق 15 جمادی الاول اور بعض روایات کے مطابق 15 جمادی الثانی کو ہوئی جبکہ سالِ ولادت 38ھ تھا اور اس وقت ان کے دادا حضرت علیرضی الله تعالٰی عنه مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔ آپ کا نام آپ کے دادا کے نام پر علی رکھا گیا جبکہ کنیت ابوالحسن اور ابوالقاسم رکھی گئی۔ ولادت کے چند دن بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا جس کے بعد آپ کی خالہ گیہان بانو جو محمد بن ابی بکر کی زوجہ تھیں اور انہوں نے محمد بن ابی بکر کے انتقال کے بعد شادی نہیں کی تھی، نے آپ کی پرورش کی۔ دو سال کی عمر میں آپ کے دادا حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ کو شہید کر دیا گیا۔

زہد و تقوی

آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا۔ وضو کے وقت آپ کا رنگ زرد ہو جاتا تھا۔ پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا تصورِ کامل اپنے خالق و معبود کی طرف ہوتا ہے اور اس کے جلالت و رعب سے میری یہ حالت ہو جاتی ہے۔[1] نماز کی حالت یہ تھی کہ پاؤں کھڑے رہنے سے سوج جاتے اور پیشانی پر گٹھے پڑے ہوئے تھے اور رات جاگنے کی وجہ سے رنگ زرد رہتا تھا۔[2] علامہ ابن طلحہ شافعی کے مطابق نماز کے وقت آپ کا جسم لرزہ براندام ہوتا تھا۔[3]۔ سجدوں کی کثرت سے آپ کا نام سید الساجدین اور سجاد پڑ گیا تھا۔ علامہ ابن حجر مکی نے لکھا کہ ایک دفعہ کسی شخص نے آپ کے سامنے آپ کی برائی کی مگر آپ خاموش رہے تو اس شخص نے کہا کہ اے علی ابن الحسین میں آپ سے مخاطب ہوں تو آپ نے فرمایا کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جاہلوں کی بات کی پروا نہ کرو اور میں اس پر عمل کر رہا ہوں۔ [4] ایک شامی نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو آپ کے سامنے گالیاں دیں تو آپ نے فرمایا کہ اے شخص تو مسافر معلوم ہوتا ہے اگر کوئی حاجت ہے تو بتا۔ اس پر وہ شخص سخت شرمندہ ہو کر چلا گیا۔

شادی اور اولاد

آپ کی شادی 57ھ میں آپ کے چچا حضرت حسن بن علی بن ابو طالب کی بیٹی حضرت فاطمہ سے ہوئی۔ آپ کے گیارہ لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جن میں سے حضرت امام محمد باقر رضی الله تعالٰی عنه اور حضرت زید شہید مشہور ہیں۔


واقعہ کربلا

واقعۂ کربلا محرم 61ھ بمطابق اکتوبر 689ء کو پیش آیا۔ 28 رجب 60ھ کو آپ اپنے والد حضرت حسین ابن علی کے ہمراہ مدینہ سے مکہ آئے اور پھر چار ماہ بعد 2 محرم 61ھ کو کربلا آئے۔ کربلا آنے کے بعد آپ انتہائی بیمار ہو گئے یہاں تک کہ 10 محرم کو غشی کی حالت طاری تھی اس لیے اس قابل نہ تھے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت پر فائز ہوتے۔ 10 محرم کی شام کو تمام خیموں کو آگ لگا دی گئی اور آپ کو آپ کی پھوپھی حضرت زینب بنت علی سلام اللہ علیہا نے سنبھالا۔ 11 محرم کو آپ کو اونٹ کے ساتھ باندھ کر اور لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر پہلے کوفہ اور بعد میں دمشق روانہ کیا گیا۔ تمام شہداء بشمول امام حسین رضی الله تعالٰی عنه کے سر نیزوں کی نوکوں پر ساتھ روانہ کیے گیے۔ خاندانِ رسالت کا یہ قافلہ 16 ربیع الاول 61ھ کو دمشق پہنچا اور دربارِ یزید میں رسیوں اور زنجیروں میں بندھا ہوا پیش کیا گیا۔ ایک سال کی قید کے بعد آپ 8 ریبع الاول 62ھ کو مدینہ واپس آئے اور تمام عمر خاندانِ رسالت کی شہادت پر گریہ کناں رہے۔ ان کی پھپھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے تمام بال سفید ہو گئے تھے اور خود ان کی حالت اچھی نہ تھی۔ آپ سے جب پوچھا جاتا کہ آپ کو سب سے زیادہ مصیبت کا سامنا کہاں کرنا پڑا تو آپ فرماتے 'الشام الشام الشام' (دمشق کو الشام کہا جاتا تھا)۔ آپ کو اس بات کس شدید دکھ تھا کہ آپ کی پھپھی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نواسی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو ننگے سر یزید جیسے فاسق کے دربار میں کھڑا ہونا پڑا۔[5][6] اہلِ مدینہ نے اس کے بعد یزید کی بیعت توڑ دی اور اس کے خلاف بغاوت کر دی۔

خطبات

آپ کے بعض خطبات بہت مشہور ہیں۔ واقعہ کربلا کے بعد کوفہ میں آپ نے پہلے خدا کی حمد و ثنا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذکر و درود کے بعد کہا کہ 'اے لوگو جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہے جو نہیں پہچانتا وہ پہچان لے کہ میں علی ابن الحسین ابن علی ابن ابی طالب ہوں۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کا سامان لوٹ لیا گیا۔جس کے اہل و عیال قید کر دیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جسے ساحلِ فرات پر ذبح کر دیا گیا اور بغیر کفن و دفن کے چھوڑ دیا گیا۔ اور شہادتِ حسین ہمارے فخر کے لیے کافی ہے ۔ ۔ ۔' ۔ دمشق میں یزید کے دربار میں آپ نے جو مشہور خطبہ دیا اس کا ایک حصہ یوں ہے:

۔ ۔ ۔ میں پسرِ زمزم و صفا ہوں، میں فرزندِ فاطمہ الزہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پسِ گردن ذبح کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ میں اس کا فرزند ہوں جس کا سر نوکِ نیزہ پر بلند کیا گیا۔ ۔ ۔ ۔ہمارے دوست روزِ قیامت سیر و سیراب ہوں گے اور ہمارے دشمن روزِ قیامت بد بختی میں ہوں گے۔ ۔ ۔[7] [8] [9] [10]

یہ خطبہ سن کر لوگوں نے رونا اور شور مچانا شروع کیا تو یزید گھبرا گیا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہو جائے چنانچہ اس نے مؤذن کو کہا کہ اذان دے کہ امام خاموش ہو جائیں۔ اذان شروع ہوئی تو حضرت علی ابن الحسین خاموش ہو گئے۔ جب مؤذن نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دی تو حضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور کہا کہ اے یزید تو بتا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تیرے نانا تھے یا میرے؟ یزید نے کہا کہ آپ کے تو حضرت علی ابن الحسین نے فرمایا کہ 'پھر کیوں تو نے ان کے اہل بیت کو شہید کیا'۔ یہ سن کر یزید یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ مجھے نماز سے کوئی واسطہ نہیں۔[11] اسی طرح آپ کا ایک اور خطبہ بھی مشہور ہے جو آپ نے مدینہ واپس آنے کے بعد دیا۔

روضہ رسول پر فریاد

آپ ربیع الاول 62ھ کو مدینہ واپس پہنچے۔ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پہنچے تو قبر مطہر پر گال رگڑ کر چند اشعار پڑھ کر فریاد پیش کی جن کا ترجمہ یوں ہے: میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اے نانا۔ اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر آپ کا محبوب 'حسین' شہید کر دیا گیا اور آپ کی نسل تباہ و برباد کر دی گئی۔ اے نانا میں رنج و غم کا مارا آپ سے فریاد کرتا ہوں کہ مجھے قید کیا گیا اور میرا کوئی حامی اور مدافعت کرنے والا نہ تھا۔ اے نانا ہم سب کو اس طرح قید کیا گیا جیسے لاوارث کنیزوں کو قید کیا جاتا ہے۔ اے نانا ہم پر اتنے مصائب ڈھائے گئے جن کو انگلیوں پر گنا نہیں جا سکتا۔

واقعہ حرہ

مزید تفصیل کے لیے دیکھیں: واقعۂ حرہ

واقعۂ کربلا کے بعد دوسرا بڑا سانحہ مدینہ پر شامی افواج کی چڑھائی تھی جس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی اور مدینہ میں قتل عام کیا گیا۔ یہ افسوسناک واقعہ 63ھ میں پیش آیا اور واقعۂ حرہ کہلاتا ہے۔ مدینہ والوں نے یزید کے خلاف بغاوت کر کے اس کے گورنر کو معطل کر دیا۔ یزید نے مسلم بن عقبہ کو جو اپنی سفاکی کے لیے مشہور تھا اہلِ مدینہ کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔ اس کی بھیجی ہوئی افواج نے دس ہزار سے زائد افراد کو شہید کیا۔ خواتین کی بے حرمتی کی گئی اور تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہو سکی۔[12] تمام لوگوں سے یزید کی زبردستی بیعت لی گئی اور جس نے انکار کیا اس کا سر قلم کیا گیا۔ صرف دو آدمیوں سے بیعت طلب کرنے کی جرات نہ کی گئی جو حضرت علی ابن الحسین اور حضرت عبداللہ ابن عباس تھے۔[13] اس واقعہ کے وقت مروان بن حکم جو اہلِ بیت کا مشہور دشمن تھا اس کو خطرہ محسوس ہوا لیکن اس کو اور اس کے اہل خانہ کو کسی نے پناہ نہ دی مگر وہ ایک کوشش کے لیے حضرت علی ابن الحسین کے پاس آیا اور پناہ طلب کی تو آپ نے یہ خیال کیے بغیر کہ اس نے واقعہ کربلا کے سلسلے میں کھلی دشمنی دکھائی تھی اسے اور اس کے اہل خانہ کو پناہ دی اور اس کو بچوں کو اپنے بچوں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی عائشہ کے ہمراہ 'منبع' کے مقام پر بھیج دیا اور مکمل حفاظت کی۔[14] مسلم بن عقبہ جو اس فوج کا سالار تھا جس نے مدینہ کو تباہ و برباد کیا، اس نے خاندانِ رسالت بشمول حضرت علی ابن الحسین کی خوب کھل کر برائیاں کیں مگر جب حضرت علی ابن الحسین کا سامنا ہوا تو ادب سے کھڑا ہو گیا۔ جب اس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میں نے قصداً ایسا نہیں کیا بلکہ ان کے رعب و جلال کی وجہ سے مجبوراً ایسا کیا۔ [15]

عبد الملک ابن مروان اور حجاج ابن یوسف کا دور

مروان ابن الحکم کے مرنے کے بعد 65ھ میں عبدالملک بن مروان تخت نشین ہوا۔ اس نے حجاج بن یوسف کو حجاز کا گورنر بنا دیا کیونکہ حجاج نے عبداللہ بن زبیر کو قتل کر کے حجاز پر قبضہ کیا تھا۔ حجاج نے کعبہ پر سنگ باری کی تھی اور اسے تباہ کر دیا تھا حتی کہ اس کی دوبارہ تعمیر کی ضرورت پیش آئی۔ اس وقت عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو حکم دیا تھا کہ حضرت علی ابن الحسین کو گرفتار کر کے شام پہنچا دیا جائے چنانچہ اس نے انہیں زنجیروں سے باندھ کر مدینہ سے باہر ایک خیمہ میں رکھوایا۔ علامہ ابن حجر مکی کے مطابق عبدالملک بن مروان کو کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ حضرت علی ابن الحسین خلافت سے کوئی غرض نہیں رکھتے اس لیے انہیں نہ چھیڑا جائے۔ عبدالملک بن مروان نے حجاج کو پیغام دیا کہ بنی ہاشم کو ستانے اور ان کا خون بہانے سے پرہیز و اجتناب کرو کیونکہ بنی امیہ کے اکثر بادشاہ انہیں ستا کر جلد تباہ ہو گئے۔ اس کے بعد انہیں حجاج نے چھوڑ دیا اور عبدالملک بن مروان کی زندگی میں زیادہ تنگ نہ کیا گیا۔ [16] جب حجاج نے کعبہ کو تباہ کیا اور اس کی دوبارہ تعمیر ہوئی تو حجر اسود کو نصب کرنے کا مسئلہ ہوا کیونکہ جو کوئی بھی اسے نصب کرنا چاہتا تھا تو حجر اسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پر نہ ٹھہرتا۔ بالآخر حضرت علی ابن الحسین زین العابدین نے اسے بسم اللہ پڑھ کر نصب کیا تو بخوبی نصب ہو گیا۔ [17]

شہادت امام زین العابدین

اگرچہ آپ گوشہ نشین تھے اور خلافت کی خواہش نہ رکھتے تھے مگر حکمرانوں کو ان کے روحانی اقتدار سے بھی خطرہ تھا اور خوف تھا کہ کہیں وہ خروج نہ کریں۔ چنانچہ ولید بن عبدالملک نے 95ھ میں آپ کو زہر دے دیا اور آپ 25 محرم الحرام 95ھ بمطابق 714ء کو درجۂ شہادت پر فائز ہو گئے۔[18]آپ کی تدفین جنت البقیع میں کی گئی۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کا ایک اونٹ آپ کی قبر پر فریاد کرتا رہا اور تین روز میں مر گیا۔ [19]

حوالہ جات

1 ^ مطالب السؤل از علامہ محمد ابن طلحہ شافعی صفحہ 262 2 ^ اعلام الوریٰ صفحہ 153 3 ^ مطالب السؤل از علامہ محمد ابن طلحہ شافعی 4 ^ صواعق المحرقہ از علامہ ابن حجر مکی 5 ^ جلا العیون صفحہ 256 6 ^ مقتل ابی مخنف صفحہ 135 7 ^ مقتل ابی مخنف صفحہ 135 ۔ 136 8 ^ بحار الانوار جلد 10 9 ^ ریاض القدس جلد 2 صفحہ 328 10 ^ روضۃ الاحباب 11 ^ مقتل ابی مخنف صفحہ 135 ۔ 136 12 ^ ابن کثیر، تاریخ الخلفاء 13 ^ تاریخ الکامل جلد 4 14 ^ تاریخ الکامل جلد 4 صفحہ 45 15 ^ مروج الذہب از مسعودی 16 ^ صواعق المحرقہ از علامہ ابن حجر المکی 17 ^ کتاب الخرائج والجرائح از علامہ اقطب راوندی 18 ^ صواعق المحرقہ از علامہ ابن حجر المکی صفحہ 120 19 ^ شواہد النبوۃ صفحہ 179

5) حضرت امام محمد باقر علیہ السلام

حضرت محمد باقر، حضرت زین العابدین کے فرزند اور اہل تشیع کے پانچویں امام ہیں. آپ کانام اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا کے نام پر محمد تھا اور باقر لقب۔ اسی وجہ سے امام محمد باقر علیہ السّلام کے نام سے مشہور ہوئے۔ بارہ اماموں میں سے یہ آپ ہی کو خصوصیت تھی کہ آپ کا سلسلہ نسب ماں اور باپ دونوں طرف حضرت رسول خدا تک پہنچتا ہے۔ دادا آپ کے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السّلام تھے جو حضرت رسول خدامحمدمصطفےٰ کے چھوٹے نواسے تھے اور والدہ آپ کی ام عبد اللہ فاطمہ علیہ السّلام حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی تھیں جو حضرت رسول کے بڑے نواسے تھے۔ اس طرح حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام رسول کے بلند کمالات اور علی علیہ السّلام وفاطمہ کی نسل کے پاک خصوصیات کے باپ اور ماں دونوں سے وارث ہوئے۔

1 ولادت
2 واقعہ کربلا
3 تربیت
4 باپ کی وفات اور امامت کی ذمہ داریاں
4.1 اس دور کی خصوصیات
4.2 عزائے امام حسین علیہ السّلام میں انہماک
4.3 علمی مرجعیت
5 علوم اہلبیت علیہ السّلام کی اشاعت
6 اخلاق و اوصاف
7 امورِ سلطنت میں مشورہ
7.1 سلطنت بنی امیہ کی طرف سے مزاحمت
8 وفات

ولادت

آپ کی ولادت روز جمعہ یکم رجب 57ھ میں ہوئی . یہ وہ وقت تھا جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات کو سات برس ہوچکے تھے . امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے اور وقت کی رفتار تیزی سے واقعہ کربلا کے اسباب فراہم کررہی تھی . زمانہ ال رسول اور شیعانِ اہل بیت علیہ السّلام کے لیے صر اشوب تھا . چُن چُن کر محبانِ علی علیہ السّلام گرفتار کیے جارہے تھے , تلوار کے گھاٹ اتارے جارہے تھے یا سولیوں پر چڑھائے جارہے تھے اس وقت اس مولود کی ولادت گویا کربلا کے جہاد میںشریک ہونے والے سلسلہ میں ایک کڑی کی تکمیل تھی .

واقعہ کربلا

تین برس امام محمد باقر علیہ السّلام اپنے جد بزرگوار حضرت امام حسین علیہ السّلام کے زیرِسایہ رہے . جب آپ کاسن پورے تین سال کا ہوا تو امام حسین علیہ السّلام نے مدینہ سے سفر کیا .ا س کم سنی میں امام محمد باقر علیہ السّلام بھی راستے کی تکلیفیں سہنے میں ا پنے بزرگوں کو شریک رہے . امام حسین علیہ السّلام نے مکہ میں پناہ لی . پھر کوفہ کاسفر اختیار کیا اور پھر کربلا پہنچے . ساتویں محرم سے جب پانی بند ہوگیا تو یقیناً امام محمدباقر نے بھی تین یوم پیاس کی تکلیف برداشت کی . یہ خالق کی منشاء کی ایک تکمیل تھی کہ وہ روز عاشور میدان ُ قربانی میںنہیںلائے گئے . ورنہ جب ان سے چھوٹے سن کا بچہ علی اصغر علیہ السّلام تیر ستم کا نشانہ ہوسکتا تھا تو امام محمد باقر علیہ السّلام کابھی قربان گاہ شہادت پر لاناممکن تھا . مگر سلسلہ امامت کادنیامیں قائم رہنا نظام کائنات کے برقرار رہنے کے لیے ضروری اور اہم تھا لٰہذا منظور الٰہی یہ تھا کہ امام محمد باقر علیہ السّلام کربلا کے میدان میں اس طرح شریک ہوئے .عاشور کو دن بھر عزیزوں کے لاشے پر لاشے اتے دیکھنا . بیبیوں میں کہرام , بچوں میں تہلکہ , امام حسین علیہ السّلام کاوداع ہونا اورننھی سی جان علی اصغر علیہ السّلام کا جھولے سے جدا ہوکر میدان میںجانا اور پھر واپس نہ انا ,امام علیہ السّلام کے باوفا گھوڑے کا درخیمہ پر خالی زین کے ساتھ آنا اور پھر خیمہ عصمت میںایک قیامت کابرپا ہونا .یہ سب مناظر امام محمد باقر علیہ السّلام کی انکھوں کے سامنے آئے اور پھر بعد عصر خیموں میں آگ کا لگنا , اسباب کا لوٹا جانا, بیبیوں کے سروں سے چادروں کا اتارا جانا اور آگ کے شعلوں سے بچوں کاگھبرا کرسراسیمہ ومضطرب اَدھر اُدھر پھرنا , اس عالم میں امام محمد باقر علیہ السّلام کے ننھے سے دل پر کیا گزری اور کیا تاثرات ان کے دل پر قائم رہ گئے اس کا اندازہ کوئی دوسرا انسان نہیں کرسکتا۔ گیارہ محرم کے بعد ماں اور پھوپھی ,دادی اورنانی تمام خاندان کے بزرگوں کو دشمنوں کی قید میںاسیر دیکھا , یقیناً اگر سکینہ علیہ السّلام کا ہاتھ رسی میں بندھ سکتا ہے تو یقین کہا جاسکتا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السّلام کاگلا بھی ریسمان ظلم سے ضرور باندھا گیا . کربلا سے کوفہ او رکوفہ سے شام اور پھر رہائی کے بعد مدینہ کی واپسی ان تمام منازل میں نہ جانے کتنے صدمے تھے جو امام محمد باقر علیہ السّلام کے ننھے سے دل کو اٹھانا پڑے او رکتنے غم والم کے نقش جو دل پر ایسے بیٹھےکہ ائیندہ زندگی میں ہمیشہ برقرار رہے۔

تربیت

واقعہ کربلا کے بعد امام زین العابدین علیہ السّلام کی زندگی دنیا کی کشمکشوں اور آویزشوں سے بالکل الگ نہایت سکون اور سکوت کی زندگی تھی , اہل دنیا سے میل جول بالکل ترک کبھی محراب عبادت اور کبھی باپ کاماتم ان ہی دو مشغلوں میں تمام اوقات صرف ہوتے تھے .یہ وہی زمانہ تھا جس میں امام محمد باقر علیہ السّلام نے نشونما پائی .16ھ سے 59ھ تک 43 برس اپنے مقدس باپ کی سیرت زندگی کامطالعہ کرتے رہے اور اپنے فطری اور خداداد ذاتی کمالات کے ساتھ ان تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے رہے جو انھیں اپنے والد ُ بزرگوار کی زندگی کے ائینہ میں برابر نظر اتی رہیں۔

باپ کی وفات اور امامت کی ذمہ داریاں

حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام بھر پور جوانی کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ساتھ جسمانی وروحانی کمال کے بلند نقطہ پر تھے اور 83 برس کی عمر تھی جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی شہادت ہوئی .حضرت نے ا پنے وقت وفات ایک صندوق جس میں اہلِ بیت علیہ السّلام کے مخصوص علوم کی کتب تھیں امام محمد باقر علیہ السّلام کے سپرد کیا نیز اپنی تمام اولادکوجمع کرکے ان سب کی کفالت وتربیت کی ذمہ داری اپنے فرزند امام محمد باقر علیہ السّلام پر قرار دی اور ضروری وصایا فرمائے اس کے بعد امامت کی ذمہ داریاں حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام پر ائیں . آپ سلسلہ اہلِ بیت علیہ السّلام کے پانچویں امام ہوئے ہیں جو رسول خدا کے برحق جانشین تھے

اس دور کی خصوصیات

یہ وہ زمانہ تھا جب بنی امیہ کی سلطنت اپنی مادری طاقت کے لحاظ سے بڑھاپے کی منزلوں سے گزر رہے تھے . بنی ہاشم پر ظلم وستم اورخصوصاً کربلا کے واقعہ نے بہت حد تک دنیا کی انکھوں کو کھول دیا اور جب یزید خود اپنے مختصر زمانہ حیات ہی میں جو واقعہ کربلا کے بعد ہوا اپنے کیے پرپشیمان ہوچکا تھا اور اس کے برے نتائج کو محسوس کر چکا تھا اور اس کے بعد اس کا بیٹا معاویہ اپنے باپ اور دادا کے افعال سے کھلم کھلا اظہار بیزاری کرکے سلطنت سے دستبردار ہوگیا تو بعد کے سلاطین کوکہاں تک ان مظالم کے مہلک نتائج کااحساس نہ ہوتا . جب کہ اس وقت جماعت توابین کا جہاد مختار رض اور ان کے ہمراہیوں کے خون حسین علیہ السّلام کا بدلہ لینے میں اقدامات اور نہ جانے کتنے واقعات سامنے اچکے تھے جن سے سلطنت شام کی بنیادیں ہل گئیں تھیں . اس کا نتیجہ یہ تھا کہ امام محمد باقر علیہ السّلام کے زمانہ امامت کو حکومت کے ظلم وتشدد کی گرفت سے کچھ آزادی نصیب ہوئی اور آپ کو خلق خدا کی اصلاح وہدایت کا کچھ زیادہ موقع مل سکا .

عزائے امام حسین علیہ السّلام میں انہماک

آپ واقع کربلا کو اپنی انکھوں سے دیکھے ہوئے تھے .پھر اپنے باپ کی تمام زندگی کا جو امام مظلوم علیہ السّلام کے غم میں رونے میں بسر ہوئی . مطالعہ کرچکے تھے . یہ احساس بھی نہایت تکلیف دہ تھاکہ ان کے والد بزرگوار باوجود اتنے غم ورنج اور گریہ وزاری کے ایسا موقع نہ پا سکے کہ دوسروں کو امام حسین علیہ السّلام کے ماتم برپا کرنے کی دعوت دیتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ امام محمد باقر علیہ السّلام کو اس میںخاص اہتمام پیدا ہوا . آپ مجالس کی بنا فرماتے تھے اور کمیت بن زید اسدی جو آپ کے زمانہ کے بڑے شاعر تھے , ان کوبلا کر مراثیہائے امام حسین علیہ السّلام پڑھواتے اور سنتے تھے .یہی وہ ابتداتھی جسے امام جعفر صادق علیہ السّلام اور اس کے بعد پھر امام رضا علیہ السّلام کے زمانہ میں بہت فروغ حاصل ہوا۔

علمی مرجعیت

دریا کا پانی بند کے باندھ دیے جانے سے جب کچھ عرصہ کے لیے ٹھہرجائے اور پھر کسی وجہ سے وہ بند ٹوٹے تو پانی بڑی قوت اور جوش وخروش کے ساتھ بہتا ہوا محسوس ہوگا .ائمہ اہل بیت علیہ السّلام میں سے ہر ایک کے سینہ میں ایک ہی دریا تھا , علم کا جو موجزن تھا مگر اکثر اوقات ظلم وتشدد کی وجہ سے اس دریا کو پیاسوں کے سیراب کرنے کے لیے بہنے کا موقع نہیں دیا گیا . امام محمدباقر علیہ السّلام کے زمانہ میں جب تشدد کا شکنجہ ذرا ڈھیلا ہوا توعلوم اہلِبیت علیہ السّلام کا دریا پوری طاقت کے ساتھ امنڈااور ہزاروں پیاسوں کو سیراب کرتا ہوا .»شریعت حقہ« اور احکام الٰہی کے کھیتوں کو سرسبز بناتا ہوا دنیا میں پھیل گیا . اس علمی تبحر اور وسعت معلومات کے مظاہرے کے نتیجے میں آپ کا لقب باقر علیہ السّلام مشہور ہوا . اس لفظ کے معنی ہیں اندرونی باتوں کامظاہرہ کرنے والا چونکہ آپ نے اپنے سے بہت سے پوشیدہ مطالب کو ظاہر کیا اس لیے تمام مسلمان آپ کو باقر علیہ السّلام کے نام سے یاد کرنے لگے . آپ سے علوم اہلبیت علیہ السّلام حاصل کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی ہوئی تھی .بہت سے ایسے افراد بھی جو عقید تاً ائمہ معصومین علیہ السّلام سے وابستہ نہ تھے اور جنھیں جماعت اہلسنت اپنے محدثین میں بلند درجہ سمجھتی ہے وہ بھی علمی فیوض حاصل کرنے امام محمد باقر علیہ السّلام کی ڈیوڑھی پر اتے تھے جیسے زہری امام اوزاعی اور عطاربن جریح، قاضی حفض بن غیاث وغیرہ یہ سب امام محمد باقر علیہ السّلام کے شاگردوں میں محسوب ہیں۔

علوم اہلبیت علیہ السّلام کی اشاعت

حضرت علیہ السّلام کے زمانہ میں علوم اہلبیت علیہ السّلام کے تحفظ کااہتمام اور حضرت کے شاگردوں نے ان افادیات سے جو انہیں حضرت امام محمدباقر علیہ السّلام سے حاصل ہوئے. مختلف علوم وفنون اور مذہب کے شعبوں میں کتب تصنیف کیں ذیل میں حضرت کے کچھ شاگردوں کا ذکر ہے اور ان کی تصانیف کانام درج کیا جاتا ہے . جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ امام محمدباقر علیہ السّلام سے اسلامی دنیا میں علم ومذہب نے کتنی ترقی کی۔

~01 . ابان ابن تغلب : یہ علم قرآت اور لغت کے امام مانے گئے ہیں- سب سے پہلے کتاب غریب القرآن یعنی قرآن مجید کے مشکل الفاظ کی تشریح انہوں نے تحریر کی تھی اور ~0141ئھ میں وفات پائی۔

~0-2 ابو جعفر محمد بن حسن ابن ابی سارہ رو اسی علم قرآت, نحو اور تفسیر کے مشہور عالم تھے۔ کتاب الفصیل معانی

القرآن وغیرہ پانچ کتب کے مصنف ہیں- ~0101ئھ میں وفات پائی۔

~0-3 عبداللّٰہ ابن میمون اسود القداح: ان کی تصانیف سے ایک کتاب مبعث بنی، رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور تاریخ زندگی میں اور ایک کتاب حالاتِ جنت و نار میں تھی- ~0105ئھ میں وفات پائی۔

~0-4 عطیہ ابن سعید عوفی- پانچ جلدوں میں تفسیر قرآن لکھی- ~0111ئھ میں وفات پائی- ~0-5 اسماعیل ابن عبدالرحمٰن الدی الکبیر- یہ مشہور مفسر قرآن ہیں- جن کے حوالے تمام اسلامی مفسرین نے سدی کے نام سے دیے ہیں ~0127ئھ میں وفات پائی- ~0-6 جابر بن یزید جعفی, انہوں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے پچاس ہزارحدیثیں سن کر یاد کیں اور ایک روایت میں ستر ہزار کی تعداد بتائی گئی ہے- اس کاذکر صحاح ستہ میں سے صحیح مسلم میں موجود ہے- تفسیر, فقہ اور حدیث میں کئی کتب تصنیف کیں- ~0128ئھ میں وفات پائی- ~0-7 عمار بن معاویہ وہنی: فقہ میں ایک کتاب تصنیف کی ~0132ئھ میں وفات پائی- ~0-8 سالم بن ابی حفصہ ابو یونس کوفی: فقہ میں ایک کتاب لکھی وفات ~0137ئھ میں پائی- ~0-9 عبدالمومن ابن قاسم ابو عبداللّٰہ انصاری: یہ بھی فقہ میں ایک کتاب کے مصنف ہیں- ~0147ئھ میں وفات پائی-

~0-10 ابوحمزہ ثمالی: تفسیر قرآن میں ایک کتاب لکھی, اس کے علاوہ کتاب النوادر اور کتاب الزمد بھی ان کی تصانیف میں سے ہیں- ~0150ئھ میں وفات پائی- ~0-11 زرارہ ابن اعین: بڑے بزرگ مرتبہ شیعہ عالم تھے ان کی علم کلام اور فقہ اور حدیث میں بہت سی کتب ہیں- وفات ~0150ئھ- ~0-12 محمد بن مسلم: یہ بھی بڑے بلند پایہ بزرگ تھے- امام محمد باقر علیہ السلام سے تیس ہزار حدیثیں سنیں- بہت سی کتب کے مصنف ہیں جن میں سے ایک کتاب تھی- چہار صد مسئلہ اور ابواب حلال و حرام- وفات ~0150ئھ ~0-13 یحیٰی بن قاسم ابو بصیر اسدی جلیل المرتبہ بزرگ تھے- کتاب مناسک حج کتاب یوم دلیلہ تصنیف کی- ~0150ئھ میں وفات پائی- ~0-14 اسٰحق قمی: فقہ میں ایک کتاب کے مصنف ہیں- ~0-15 اسماعیل بن جابر خثعمی کوفی: احادیث کی کئی کتب تصنیف کیں اور ایک کتاب فقہ میں تصنیف کی- ~0-16 اسمٰعیل بن عبدالخالق:بلند مرتبہ فقیہہ تھے- ان کی تصنیف سے بھی ایک کتاب تھی- ~0-17 بروالا سکاف الازدی: فقہ میں ایک کتاب لکھی- ~0-18 حارث بن مغیرہ: یہ بھی مسائل فقہ میں ابک کتاب کے مصنف ہیں- ~0-19 حذیفہ بن منصور خزاعی: ان کی بھی ایک کتاب فقہ میں تھی- ~0-20 حسن بن السری الکاتب: ایک کتاب تصنیف کی- ~0-21 حسین بن ثور ابن ابی فاختہ: کتاب النوادر تحریر کی- ~0-22 حسین بن حما عبدی کوفی: ایک کتاب کے مصنف ہیں- ~0-23 حسین بن مصعب بجلی: ان کی بھی ایک کتاب تھی- ~0-24 حماد بن ابی طلحہ: ایک کتاب تحریر کی- ~0-25 حمزہ بن حمران بن اعین: زرارہ کے بھتیجے تھے اور ایک کتاب کے مصنف تھے۔ یہ چند نام ہیں ان کثیر علمائ و فقہا و محدثین میں سے جنہوں نے امام محمد باقر علیہ السّلام سے علوم اہل بیت علیہ السّلام کو حاصل کر کے کتب کی صورت میں محفوظ کیا- یہ اور پھر اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور میں جو سینکڑوں کتب تصنیف ہوئیں یہی وہ سرمایہ تھا جس سے بعد میں کافی#- من لا یحضرہ, تہذیب اور استبصار ایسے بڑے حدیث کے خزانے جمع ہو سکے جن پر شیعیت کا آسمان دورہ کرتا رہا ہے-

اخلاق و اوصاف

آپ کے اخلاق وہ تھے کہ دشمن بھی قائل تھے چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام رکھتا تھا اور اکثر امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس آ کر بیٹھا کرتا تھا- اس کا بیان تھا کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپ کے اخلاق کی کشش اور فصاحت وہ ہے جس کی وجہ سے میں آپ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہوں-

امورِ سلطنت میں مشورہ

سلطنتِ اسلامیہ حقیقت میں ان اہل بیت رسول کا حق تھی مگر دنیا والوں نے مادی اقتدار کے آگے سر جھکایا اور ان حضرات کو گوشہ نشینی اختیار کرنا پڑی- عام افراد انسانی کی ذہنیت کے مطابق اس صورت میںاگرچہ حکومتِ وقت کسی وقت ان حضرات کی امداد کی ضرورت محسوس کرتی تو صاف طور پر انکار میں جواب دیا جا سکتا تھا مگر ان حضرات کے پیش نظر اعلی ظرفی کا وہ معیار تھا جس تک عام لوگ پہنچے ہوئے نہیں ہوتے- جس طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے سخت موقعوں پر حکومت وقت کو مشورے دینے سے گریز نہیں کیا اسی طرح اس سلسلہ کے تمام حضرات علیہ السّلام نے اپنے اپنے زمانہ کے بادشاہوں کے ساتھ یہی طرزِ عمل اختیار کیا- چنانچہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسی صورت پیش آئی- واقعہ یہ تھا کہ حکومتِ اسلام کی طرف سے اس وقت تک کوئی خاص سکہ نہیں بنایا گیا تھا- بلکہ روی سلطنت کے سکے اسلامی سلطنت میں بھی رائج تھے- ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں سلطنت شام اور سلطان روم کے درمیان اختلافات پیدا ہو گیا- رومی سلطنت نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سکوں پر پیغمبر اسلام کی شان کے خلاف کچھ الفاظ درج کرا دے گی اس پر مسلمانوں میں بڑی بے چینی پیدا ہو گئی- ولید نے ایک بہت بڑا جلسہ مشاورت کے ليے منعقد کیا جس میں عالم السلام کے ممتاز افراد شریک تھے- اس جلسہ میں امام محمد باقر علیہ السلام بھی شریک ہوئے اور آپ نے یہ رائے دی کہ مسلمان کو خود اپنا سکہ ڈھالنا چاہئے جس میں ایک طرف لاالٰہ الااللّٰہ اور دوسری طرف محمد رسول اللّٰہ نقش ہو- امام علیہ السّلام کی اس تجویز کے سامنے سر تسلیم خم کیا گیا اور اسلامی سکہ اس طور پر تیار کیا گیا-

سلطنت بنی امیہ کی طرف سے مزاحمت

باوجودیکہ امام محمد باقر معاملاتِ ملکی میں کوئی دخل نہ دیتے تھے اور دخل دیا بھی تو سلطنت کی خواہش پر وقارِ اسلامی کے برقرار رکھنے کے ليے- مگر آپ کی خاموش زندگی اور خالص علمی اور روحانی مرجعیت بھی سلطنت وقت کو گوارا نہ تھی چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے مدینہ کے حاکم کو خط لکھا کہ امام باقر کو ان کے فرزند امام جعفر صادق کے ہمراہ دمشق بھیج دیا جائے- اس کو منظور یہ تھا کہ حضرت کی عزت و وقار کو اپنے خیال میں دھچکا پہنچائے چنانچہ جب یہ حضرات علیہ السّلام دمشق پہنچے تو تین دن تک ہشام نے ملاقات کا موقع نہیں دیا- چوتھے دن دربار میں بلا بھیجا- ایک ایسے موقع پر کہ جب وہ تخت شاہی پر بیٹھا تھا اور لشکر داہنے اور بائیں ہتھیار لگائے صف بستہ کھڑا تھا اور وسط دربار میں ایک نشانہ تیراندازی کا مقرر کیا گیا تھا اور رؤسائ سلطنت اس کے سامنے شرط باندھ کر تیر لگاتے تھے امام علیہ السلام کے پہنچنے پر انتہائی جراَت اور جسارت کے ساتھ اس نے خواہش کی کہ آپ بھی ان لوگوں کے ہمراہ تیر کا نشانہ لگائیں- ہر چند حضرت علیہ السّلام نے معذرت فرمائی مگر اس نے قبول نہ کیا- وہ سمجھتا تھا کہ آل محمد طویل مدت سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے ہیں- ان کو جنگ کے فنون سے کیا واسطہ, اور اس طرح منظور یہ تھا کہ لوگوں کو ہنسنے کا موقع ملے- مگر وہ یہ نہ جانتا تھا کہ ان میں سے ہر ایک فرد کے بازو میں علی علیہ السّلام کی قوت اور دل میں امام حسین علیہ السّلام کی طاقت موجود ہے- وہ حکم الٰہی اور فرض کا احساس ہے جس کی وجہ سے یہ حضرات ایک سکون اور سکوت کا مجسمہ نظر آتے ہیں- یہی ہوا کہ جب مجبور ہو کر حضرت نے تیر و کمان ہاتھ میں لیا اور چند تیرپے در پے ایک ہی نشانے پر بالکل ایک ہی نقطہ پر لگائے تو مجمع تعجب اور حیرت میں غرق ہو گیا اور ہر طرف سے تعریفیں ہونے لگیں- ہشام کو اپنے طرزِ عمل پر پشیمان ہونا پڑا- اس کے بعد اس کو یہ احساس ہوا کہ امام علیہ السلام کا دمشق میں قیام کہیں عام خلقت کے دل میں اہل بیت علیہ السّلام کی عظمت قائم کر دینے کا سبب نہ ہو- اس لیے اس نے آپ کو واپس مدینہ جانے کی اجازت دے دی مگر دل میں حضرت علیہ السّلام کے ساتھ عداوت میں اور اضافہ ہو گیا۔

وفات

سلطنتِ شام کو جتنا حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کی جلالت اور بزرگی کا اندازہ زیادہ ہوتا گیا اتنا ہی آپ کا وجود ان کے ليے ناقابل برداشت محسوس ہوتا رہا- آخر آپ کو اس خاموش زہر کے حربے سے جو اکثر سلطنت بنی امیہ کی طرف سے کام میں لایا جاتا رہا تھا شہید کرنے کی تدبیر کر لی گئی- وہ ایک زین کا تحفہ تھا جس میں خاص تدبیروں سے زہر پوشیدہ کیا گیا تھا اور جب حضرت اس زین پر سوار ہوئے تو زہر جسم میں سرایت کر گیا۔ چند روز کرب و تکلیف میں بستر بیمار پر گزرے اور آخرت سات ذی الحجہ ~0114ئھ کو ~057برس کی عمر میں وفات پائی۔

آپ کو حسب وصیت تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جن میں سے ایک وہ یمنی چادر تھی جسے اوڑھ کر آپ روز جمعہ نماز پڑھتے تھے اور ایک وہ پیراہن تھا جسے آپ ہمیشہ پہنے رہتے تھے اور جنت البقیع میں اسی قبہ میں کہ جہاں حضرت امام حسن علیہ السّلام اور امام زین العابدین علیہ السّلام دفن ہو چکے تھے حضرت علیہ السّلام بھی دفن کئے گئے۔

6) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

جعفر صادق، حضرت محمد باقر کے فرزند اور اہل تشیع میں حضرت علی سے شروع ہونے والے سلسلۂ امامت کے چھٹے (6) امام تھے۔ سید خاندان کے بہت سے افراد اپنے نام کے ساتھ جعفری انہی کی نسبت سے لگاتے ہیں۔

ان کا نام جعفر، کنیت ابو عبداللہ اور لقب صادق تھا۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے بیٹے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور شہید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پرپوتے تھے۔ سلسلۂ عصمت کی آٹھویں کڑی اور آئمۂ اہلبیت علیہم السّلام میں سے چھٹے امام تھے آپ کی والدہ حضرت محمد ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی پوتی تھیں جن کی والدہ قاسم ابن محمد رضی اللہ عنہ مدینہ کے سات فقہا میں سے تھے۔

1 ولادت
2 نشوونما اور تربیت
3 انقلابِ سلطنت
4 سادات پر مظالم
5 امام کے ساتھ بدسلوکیاں
6 اخلاق واوصاف
7 اشاعت علوم
8 شہادت

ولادت

83ھ میں 17 ربیع الاول کو آپ کی ولادت ہوئی۔ اس وقت آپ کے دادا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بھی زندہ تھے۔ آپ کے والد حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی عمر اس وقت چھبیس برس تھی۔ خاندان آلِ محمد میں اس اضافہ کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔ نشوونما اور تربیت

بارہ برس آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کے زیر سایہ تربیت پائی۔ شہادت امام حسین علیہ السّلام کے بعد سے پینتیس برس امام زین العابدین علیہ السّلام کا مشغلہ عبادتِ الٰہی اور اپنے مظلوم باپ حضرت سید الشہداء کو رونے کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ واقعہ کربلا کو ابھی صرف بائیس برس گزرے تھے۔ اس مدت میں کربلا کا عظیم الشان واقعہ اپنے تاثرات کے لحاظ سے ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتا تھا امام جعفر صادق علیہ السّلام نے آنکھ کھولی تو اسی غم واندوہ کی فضا میں شب و روز شہادتِ حسین علیہ السّلام کا تذکرہ اور اس غم میں نوحہ و ماتم اور گریہ و بکا کی آوازوں نے ان کے دل و دماغ پر وہ اثر قائم کیا کہ جیسے وہ خود واقعہ کربلا میں موجود تھے. پھر جب وہ یہ سنتے تھے کہ ان کے والد بزرگوار امام محمد باقر علیہ السّلام بھی کمسنی ہی کے دور میں ہی اس جہاد میں شریک تھے تو ان کے دل کو یہ احساس بہت صدمہ پہنچاتا ہو گا کہ خاندان عصمت کے موجودہ افراد میں ایک میں ہی ہوں جو اس قابلِ فخر یاد گار معرکہ ابتلا میں موجود نہ تھا۔ چنانچہ اس کے بعد ہمیشہ اور عمر بھر امام جعفر صادق علیہ السّلام نے جس جس طرح اپنے جدِ مظلوم امام حسین علیہ السّلام کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے وہ اپنی مثال ہے۔

95ھ میں بارہ برس کی عمر میں امام زین العابدین علیہ السلام کا سایہ سر سے اٹھا۔ اس کے بعد انیس برس آپ نے اپنے والد ماجد حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کے دامنِ تربیت میں گزارے، یہ وہ وقت تھا جب سیاست بنی امیہ کی بنیادیں ہل چکی تھیں اور امام محمد باقر علیہ السّلام کی طرف فیوضِ علمی حاصل کرنے کے لئے خلائق رجوع کر رہی تھی۔ اس وقت اپنے پدرِ بزرگوار کی مجلسِ درس میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام ہی ایک وہ طالب علم تھے جو قدرت کی طرف سے علم کے سانچے میں ڈھال کر پیدا کئے گئے تھے۔ آپ سفر اور حضر دونوں میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہتے تھے چنانچہ ہشام ابن عبدالمالک کی طلب پر حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کے ساتھ تھے اس کا ذکر پانچویں امام کے حالات میں ہو چکا ہے۔

دورِ امامت 114ھ میں حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام کی وفات ہوئی۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام جعفر صادق علیہ السّلام پر عائد ہوئیں۔ اس وقت دمشق میں ہشام بن عبدالمالک کی سلطنت تھی۔ اس زمانہ سلطنت میں ملک میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہو چکا تھا۔ مظالمِ بنی امیہ کے انتقام کا جذبہ تیز ہو رہا تھا اور بنی فاطمہ میں سے متعدد افراد حکومت کے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے تھے، ان میں نمایاں ہستی حضرت زید (رض) کی تھی جو امام زین العابدین علیہ السّلام کے بزرگ مرتبہ فرزند تھے۔ ان کی عبادت زہد و تقویٰ کا بھی ملک عرب میں شہرہ تھا۔ مستند اور مسلّم حافظِ قران تھے۔ بنی امیہ کے مظالم سے تنگ آ کر انھوں نے میدانِ جہاد میں قدم رکھا۔

امام جعفر صادق علیہ السّلام کے لیے یہ موقع نہایت نازک تھا مظالمِ بنی امیہ سے نفرت میں ظاہر ہے کہ آپ زید (رض) کے ساتھ متفق تھے پھر جناب زید (رض) آپ کے چچا بھی تھے جن کا احترام آپ پر لازم تھا مگر آپ کی دور رس نگاہ دیکھ رہی تھی کہ یہ اقدام کسی مفید نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس لیے عملی طور سے آپ ان کا ساتھ دینا مناسب نہ سمجھتے تھے مگر یہ واقعہ ہوتے ہوئے بھی خود ان کی ذات سے آپ کو انتہائی ہمدردی تھی۔ آپ نے مناسب طریقہ پر انھیں مصلحت بینی کی دعوت دی مگر اہل عراق کی ایک بڑی جماعت کے اقرارِ اطاعت و وفاداری نے جناب زید (رض) کو کامیابی کی توقعات پیدا کر دیں اور آخر 120ھ میں ظالم ہشام کی فوج سے تین روز تک بہادری کے ساتھ جنگ کرنے کے بعد شہید ہوئے۔ دشمن کا جذبۂ انتقام اتنے ہی پر ختم نہیں ہوا بلکہ دفن ہو چکنے کے بعد ان کی لاش کو قبر سے نکالا گیا اور سر کو جدا کر کے ہشام کے پاس بطور تحفہ بھیجا گیا اور لاش کو دروازۂِ کوفہ پر سولی دے دی گئی اور کئی برس تک اسی طرح آویزاں رکھا گیا۔ جناب زید (رض) کے ایک سال بعد ان کے بیٹے یحیٰی ابن زید علیہ السّلام بھی شہید ہوئے۔ یقیناً ان حالات کا امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر گہرا اثر پڑ رہا تھا۔ مگر وہ جذبات سے بلند فرائض کی پابندی تھی کہ اس کے باوجود آپ نے ان فرائض کو جو اشاعت علوم اہلبیت علیہ السّلام او رنشرشریعت کے قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے برابر جاری رکھا تھا۔

انقلابِ سلطنت

بنی امیہ کا اخری دور ہنگاموں اور سیاسی کشمکشوںکا مرکز بن گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ بہت جلدی جلدی حکومتوں میں تبدیلیاںہورہی تھی اور اسی لیے امام جعفر صادق علیہ السّلام کو بہت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا۔ ہشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبدالملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اس کے بعد ابراہیم بن ولید بن عبدالملک اور اخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

جب سلطنت کی داخلی کمزوریاںقہر وغلبہ کی چولیں ہلا چکی ہوں تو قدرتی بات ہے کہ وہ لوگ جو اس حکومت کے مظالم کا مدتوں نشانہ رہ چکے ہوں اور جنھیں ان کے حقوق سے محروم کرکے صرف تشدد کی طاقت سے پنپنے کا موقع نہ دیا گیا ہو، قفس کی تتلیوں کو کمزور پا کر پھڑ پھڑانے کی کوشش کریں گے اور حکومت کے شکنجے کو ایک دم توڑ دینا چاہیں گے، سوائے ایسے بلند افراد کے جو جذبات کی پیروی سے بلند ہوں۔ عام طور پر اس طرح کی انتقامی کوششوں میں مصلحت اندیشی کادامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے کا امکان ہے مگر وہ انسانی فطرت کا ایک کمزور پہلو ہے جس سے خاص خاص افراد ہی مستثنیٰ ہوسکتے ہیں۔

بنی ہاشم میں عام طور پر سلطنت بنی امیہ کے اس اخری دور میں اسی لیے ایک حرکت اور غیر معمولی اضطراب پایا جارہا تھا۔ اس اضطراب سے بنی عباس نے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے اخری دور امویت میں پوشیدہ طریقے سے ممالکِ اسلامیہ میں ایک ایسی جماعت بنائی جس نے قسم کھائی تھی کہ ہم سلطنت کو بنی امیہ سے لے کر بنی ہاشم تک پہنچائیں گے جن کا وہ واقعی حق ہے۔ حالانکہ حق تو ان میں سے مخصوص ہستیوں ہی میں منحصر تھا جو خدا کی طرف سے نوع انسانی کی رہبری اور سرداری کے حقدار دیئے گئے تھے مگر یہ وہی جذبات سے بلند انسان تھے جو موقع کی سیاسی رفتار سے ہنگامی فوائد حاصل کرنا اپنا نصب العین نہ رکھتے تھے۔ سلسلہ بنی ہاشم میں سے ان حضرات کی خاموشی قائم رہنے کے ساتھ اس ہمدردی کو جو عوام میں خاندان ہاشم کے ساتھ پائی جاتی تھی، بنی عباس نے اپنے لیے حصول سلطنت کاذریعہ قرار دیا۔ حالانکہ انھوں نے سلطنت پانے کے ساتھ بنی ہاشم کے اصل حقداروں سے ویسا ہی یا اس سے زیادہ سخت سلوک کیا جو بنی امیہ ان کے ساتھ کرچکے تھے۔ یہ واقعات مختلف اماموں کے حالات میں ائیندہ آپ کے سامنے ائیں گے۔

بنی عباس میں سے سب سے پہلے محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نے بنی امیہ کے خلاف تحریک شروع کی اور ایران میں مبلغین بھیجے جو مخفی طریقہ پر لوگوں سے بنی ہاشم کی وفاداری کاعہدوپیمان حاصل کریں۔ محمد بن علی کے بعد ان کے بیٹے ابراہیم قائم مقام ہوئے۔جناب زیدرض اور ان کے صاحبزادے جناب یحییٰرض کے دردناک واقعات شہادت سے بنی امیہ کے خلاف غم وغصہ میں اضافہ ہوگیا۔ اس سے بھی بنی عباس نے فائدہ اٹھایا اور ابو سلمہ خلال کے ذریعہ سے عراق میں بھی اپنے تاثرات قائم کرنے کا موقع ملا۔ رفتہ رفتہ اس جماعت کے حلقئہ اثر میں اضافہ ہوتا گیا اور ابو مسلم خراسانی کی مدد سے عراق عجم کا پورا علاقہ قبضہ میںاگیا اوربنی امیہ کی طرف سے حاکم کو وہاں سے فرار اختیار کرنا پڑا۔ 129ھ سے عراق اورخراسان وغیرہ میںسلاطین بنی امیہ کے نام خطبہ سے خارج کرکے ابراہیم بن محمد کانام داخل کردیا گیا۔

ابھی تک سلطنت بنی امیہ یہ سمجھتی تھی کہ یہ حکومت سے ایک مقامی مخالفت ہے۔ جو ایران میں محدود ہے مگر اب جاسوسوں نے اطلاع دی کہ اس کا تعلق ابراہیم ابن محمد بن عباس کے ساتھ ہے جو مقام جابلقا میں رہتے ہیں۔ اس کانتیجہ یہ تھا کہ ابراہیم کو قید کردیا گیا اور قید خانہ ہی میں پھر ان کو قتل کرادیا گیا۔ ان کے پس ماندگان دوسرے افراد بنی عباس کے ساتھ بھاگ کر عراق میں ابو سلمہ کے پاس چلے گئے۔ ابو مسلم خراسانی کو جو ان حالات کی اطلاع ہوئی تو ایک فوج کو عراق کی طرف روانہ کیا جس نے حکومتی طاقت کو شکست دے کر عراق کو ازاد کرالیا۔

ابوسلمہ خلال جو وزیر ال محمد کے نام سے مشہور ہے بنی فاطمہ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے، انھوںنے چند خطوط اولاد رسول میں سے چند بزرگوں کے نام لکھے اور ان کو قبول خلافت کی دعوت دی. ان میں سے ایک خط حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کے نام بھی تھا۔ سیاست کی دنیا ہیں ایسے مواقع اپنے اقتدار کے قائم کرنے کے لیے غنیمت سمجھے جاتے ہیں مگر وہ انسانی خود داری واستغنا کامثالی مجمسہ تھا جس نے اپنے فرائض منصبی کے لحاظ سے اس موقع کو ٹھکرا دیا ور بجائے جواب دینے کے حقارت امیز طریقہ پرا س خط کو اگ کی نذر کردیا۔

ادھر کوفہ میں ابو مسلم خراسانی کے تابعین اوربنی عباس کے ہوا خواہوں نے عبداللہ سفاح کے ہاتھ پر 14ربیع الثانی 132ھ کو بیعت کرلی اور اس کو امت اسلامیہ کا خلیفہ اور فرمانروا تسلیم کر لیا۔ عراق میں اقتدار قائم کرنے کے بعد انہوں نے دمشق پر چڑھائی کردی۔ مروان حمارنے بھی بڑے لشکر کے ساتھ مقابلہ کیامگر بہت جلد اس کی فوج کو شکست ہوئی۔ مروان نے فرار کیا اور اخر میں افریقہ کی سر زمین پر پہنچ کر قتل ہوا۔اس کے بعد سفاح نے بنی امیہ کاقتل عام کرایا۔ سلاطین بنی امیہ کی قبریں کھدوائیں اور ان لاشوں کے ساتھ عبرتناک سلوک کیے گئے۔ اس طرح قدرت کاانتقام جو ان ظالموں سے لیا جاناضروری تھا بنی عباس کے ہاتھوں دنیا کی نگاہ کے سامنے ایا۔ 136ھ میں ابو عبداللہ سفاح بنی عباس کے پہلے خلیفہ کا انتقال ہوگیا۔ جس کے بعداس کا بھائی ابو جعفر منصور تخت خلافت پر بیٹھا جو منصور دوانقی کے نام سے مشہور ہے۔

سادات پر مظالم

یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ بنی عباس نے ان ہمدردیوں سے جو عوام کو بنی فاطمہ کے ساتھ تھیں ناجائز فائدہ اٹھایا تھا اور انھوں نے دنیا کو یہ دھوکا دیا تھا کہ ہم اہلبیتِ رسول کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوئے ہیں چنانچہ انھوں نے رضائے الِ محمد ہی کے نام پر لوگوں کو اپنی نصرت وحمایت پر امادہ کیاتھا اور اسی کو اپنانعرئہ جنگ قرار دیا تھا۔ اس لیے انھیں برسر اقتدار انے کے بعد اور بنی امیہ کو تباہ کرنے کے بعد سب سے بڑا اندیشہ یہ تھا کہ کہیں ہمارایہ فریب دنیا پر کھل نہ جائے اور تحریک پیدا نہ ہوجائے کہ خلافت بنی عباس کی بجائے بنی فاطمہ کے سپرد ہونا چاہیے، جو حقیقت میں الِ رسول ہیں۔ ابو سلمہ خلال بنی فاطمہ کے ہمدردوں میںسے تھے اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہ اس تحریک کی حمایت نہ کرے، لہذا سب سے پہلے ابو سلمہ کو راستے سے ہٹا یا گیا وہ باوجود ان احسانات کے جو بنی عباس سے کرچکا تھا سفاح ہی کے زمانے میں تشدد بنا اور تلوار کے گھاٹ اتارا گیا۔ ایران میں ابو مسلم خراسانی کااثر تھا، منصور نے انتہائی مکاری اور غداری کے ساتھ اس کی زندگی کا بھی خاتمہ کردیا۔

اب اسے اپنی من مانی کاروائیوں میںکسی بااثر اور صاحبِ اقتدار شخصیت کی مزاحمت کا اندیشہ نہ تھالٰہذا اس کا ظلم وستم کا رخ سادات بنی فاطمہ کی طرف مڑ گیا۔ مولانا شبلی سیر ت نعمان میں لکھتے ہیں۔»صرف بد گمانی پر منصور نے سادات علویئین کی بیخ کنی شروع کردی۔ جو لوگ ان میں ممتاز تھے ان کے ساتھ بے رحمیاں کی گئیں۔محمد ابن ابراہیم کہ حسن وجمال میںیگانہ روز گار تھے اور اسی وجہ سے دیبا#ج کہلاتے تھے زندہ دیواروں میں چنوادیئے گئے۔ ان بے رحمیوں کی ایک داستان ہے جس کے بیان کرنے کو بڑا سخت دل چاہیے۔,, حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کے دل پر ان حالات کابہت اثر ہوتا تھا۔ چنانچہ جب سادات بنی حسین طوق وزنجیر میں قید کرکے مدینہ سے لے جائے جارہے تھے تو حضرت ایک مکان کی اڑ میں کھڑے ہوئے ان کی حالت کو دیکھ دیکھ کر رورہے تھے او رفرمارہے تھے کہ افسوس مکہ ومدینہ بھی دار الامن نہ رہا۔ پھر آپ نے اولادِ انصار کی حالت پر افسوس کیا کہ انصار نے رسالت مابکی اس عہدوپیمان پر مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی تھی کہ ہم آپ کی اوراپ کی اولاد کی اس طرح حفاظت کریں کے جس طرح اپنے اہل وعیال اور جان ومال کی حفاظت کرتے ہیں مگر اج انصار کی اولاد باقی ہے اورکوئی ان سادات کی امداد نہیں کرتا، یہ فرما کر آپ بیت الشرف کی طرف واپس ہوئے اوربیس دن تک شدت سے بیمار رہے۔

ان قیدیوں میں امام حسین علیہ السّلام کے صاحبزادے عبداللہمحض بھی تھے۔ جنھوںنے کبرسنی کے عالم میں عرصہ تک قید کی مصیبتیں اٹھائیں۔ ان کے بیٹے محمد نفسِ زکیہ نے حکومت کامقابلہ کیاا ور 145ھ میں دشمن کے ہاتھ سے مدینہ منورہ کے قریب شہید ہوئے۔ جوان بیٹے کاسر بوڑھے باپ کے پاس قید خانہ میں بھیجا گیا اور یہ صدمہ ایساتھا کہ جس سے عبداللہ محض پھر زندہ نہ رہ سکے اور ان کی روح نے جسم سے مفارقت کی۔ اس کے بعد عبداللہ کے دوسرے صاحبزادے ابراہیم بھی منصور کی فوج کے مقابلہ میں جنگ کرکے کوفہ میں شہید ہوئے۔ اسی طرح عباس ابن حسن، عمر ابنِ حسن مثنیٰ, علی وعبداللہ فرزندانِ نفسِ زکیہ، موسیٰ اور یحییٰ برادران نفس زکیہ وغیرہ بھی بے دردی اور بے رحمی سے قتل کئے گئے۔ بہت سے سادات عمارتوں میں زندہ چنوادیئے گئے۔

امام کے ساتھ بدسلوکیاں

ان تمام ناگوار حالات کے باوجود جن کاتذکرہ انتہائی اختصار کے ساتھ اوپر لکھا گیا ہے امام جعفر صادق علیہ السّلام خاموشی کے ساتھ علوم اہلبیت علیہ السّلام کی اشاعت میںمصروف رہے اور اس کانتیجہ یہ تھا کہ وہ لوگ بھی بحیثیت امامت حقہ آپ کی معرفت نہ رکھتے تھے یا اسے تسلیم کرنا نہیں چاہتے تھے وہ بھی آپ کی علمی عظمت کو مانتے ہوئے آپ کے حلقئہ درس میں داخل ہونے کو فخر سمجھتے تھے۔

منصور نے پہلے حضرت کی علمی عظمت کااثر عوام کے دل سے کم کرنے کے لیے ایک تدبیر یہ کی کہ آپ کے مقابلے میں ایسے اشخاص کو بحیثیت فقیہہ اور عالم کے کھڑا کردیا جو آپ کے شاگردوں کے سامنے بھی زبان کھولنے کی قدرت نہ رکھتے تھے اور پھر وہ خود اس کا اقرار رکھتے تھے کہ ہمیں جو کچھ ملا وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام کی محبت کا دم بھرتا ہے اسے گرفتار کیا جائے۔

چناچہ معلیٰ ابن خنیس ان ہی شیعوں میں سے تھے جو گرفتار کیے گئے اور ظلم وستم کے ساتھ شہید کیے گئے۔ خود حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلامکو تقریباً پانچ مرتبہ مدینہ سے دربار شاہی میں طلب کیا گیا جو آپ کے لیے سخت روحانی تکلیف کاباعث تھا۔ یہ او ربات ہے کہ کسی مرتبہ آپ کے خلاف کوئی بہانہ اسے ایسا نہ مل سکا کہ آپ کے قید یاقتل کیے جانے کا حکم دیتا۔ بلکہ اس سلسلہ میں عراق کے اندر ایک مدت کے قیام سے علوم اہلبیت علیہ السّلام کی اشاعت کاحلقہ وسیع ہوا اور اس کو محسوس کرکے منصور نے پھر آپ کو مدینہ بھجوادیا۔ اس کے بعد بھی آپ ایذارسانی سے محفوظ نہیں رہے۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کے گھر میں اگ لگادی گئی۔ قدرت خدا تھی کہ وہ اگ جلد فرد ہوگئی اور آپ کے متعلقین اور اصحاب کوکوئی صدمہ نہیں پہنچا۔

اخلاق واوصاف

آپ اسی عصمت کی ایک کڑی تھے جسے خداوندِ عالم نے نوعِ انسانی کے لیے نمونہ کامل بناکر ہی پیدا کیا تھا۔ ان کے اخلاق واوصاف زندگی کے ہر شعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے تھے۔خاص خاص جن کے متعلق مورخین نے مخصوص طور پر واقعات نقل کیے ہیں مہمان نوازی، خیروخیرات، مخفی طریقہ یاغربا کی خبر گیری، عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک۔ عفو جرائم، صبر وتحمل وغیرہ ہیں۔

ایک مرتبہ ایک حاجی مدینہ میں وارد ہوا اور مسجد رسول میں سوگیا۔انکھ کھلی تو اسے شبہ ہوا کہ اس کی ایک ہزار کی تھیلی موجود نہیں۔ اس نے اَدھر ادھر دیکھا, کسی کو نہ پایا۔ ایک گوشئہ مسجد میں امام جعفر صادق علیہ السّلام نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ آپ کوبالکل نہ پہچانتا تھا۔ آپ کے پاس اکر کہنے لگا کہ میری تھیلی تم نے لی ہے۔ حضرت علیہ السّلام نے فرمایا، »اس میں کیا تھا ?«اس نے کہا»ایک ہزار دینار «۔ حضرت نے فرمایا۔,, میرے ساتھ میرے مکان تک اؤ وہ آپ کے ساتھ ہوگیا۔ بیت الشرف پر تشریف لاکر ایک ہزار دینار اس کے حوالے کردیئے۔ وہ مسجد میں واپس اگیا اور اپنا اسباب اٹھانے لگا تو خود اس کے دیناروں کی تھیلی اسباب میں نظر ائی۔ یہ دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوا اور دوڑتا ہوا پھر امام علیہ السّلام کی خدمت میں ایا اور غلط خواہی کرتے ہوئے وہ ہزار دینار واپس کرنا چاہے »ہم جو کچھ دے دیتے ہیں وہ پھرواپس نہیں لیتے۔

موجودہ زمانے میں یہ حالات سب ہی کی انکھوں کے دیکھے ہوئے ہیں کہ جب یہ اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ اناج مشکل سے ملے گا تو جس کو جتنا ممکن ہو وہ اناج خرید کر رکھ لیتا ہے مگر امام جعفرصادق علیہ السّلام کے کردار کاایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے وکیل معتب# سے ارشادفرمایا کہ غلہ روز بروز مدینہ میں گراں ہوتا جارہا ہے۔ہمارے ہاں کس قدر غلہ ہوگا ? معتب# نے کہا کہ »ہمیں ا س گرانی اور قحط کی تکلیف کا کوئی اندیشہ نہیں ہے، ہمارے پاس غلہ کا اتنا ذخیرہ ہے کہ جو بہت عرصہ تک کافی ہوگا۔,, حضرت علیہ السّلام نے فرمایا۔» تمام غلہ فروخت کر ڈالو۔ اس کے بعد جو حال سب کا ہو وہ ہمارا بھی ہو۔,, جب غلہ فروخت کر دیا گیا تو فرمایا.»اب خالص گیہوں کی روٹی نہ پکا کرے بلکہ ادھے گیہوں اور آدھے جو, جہاں تک ممکن ہو ہمیں غریبوںکاساتھ دینا چاہیے۔

آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرے تھے۔ مزدوروں کی بڑی قدر فرماتے تھے۔ خود بھی تجارت فرماتے تھے اور اکثر اپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ بیلچہ ہاتھ میں لیے باغ میں کام کررہے تھے اور پسینہ سے تمام جسم تر ہوگیا۔ کسی نے کہا »یہ بیلچہ مجھے عنایت فرمائیے کہ میں یہ خدمت انجام دوں۔,, حضرت علیہ السّلام نے فرمایا طلبِ معاش میں دھوپ اور گرمی کی تکلیف سہنا عیب کی بات نہیں۔,, غلاموں او رکنیزوں پر وہی مہربانی رہتے تھے جو ا س گھرانے کی امتیازی صفت تھی۔ ا س کاا یک حیرت انگیز نمونہ یہ ہے جسے سفیان# ثوری نے بیان کیا ہے کہ میں ایک مرتبہ امام جعفرصادق علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ دیکھا کہ چہرہ مبارک کارنگ متغیر ہے۔ میں نے سبب دریافت کی۔ فرمایا میں نے منع کیا تھا کہ کوئی مکان کے کوٹھے پر نہ چڑھے۔اس وقت جو گھر میںگیا تو دیکھا کہ ایک کنیز جو ایک بچہ کی پرورش پر معیّن تھی اسے گود میں لیے زینہ سے اوپر جارہی تھی۔مجھے دیکھا تو ایساخوف طاری ہوا کہ بد حواسی میں بچہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور صدمے سے جان بحق ہوا۔ مجھے بچے کے مرنے کااتنا صدمہ نہیں ہوا جتنا اس کا رنج ہے کہ اس کنیز پر اتنا رعب وہراس کیوں طاری ہوا۔ پھر حضرت علیہ السّلام نے اس کنیز کو پکا رکر فرمایا۔»ڈرو نہیں، میں نے تمھیں راہ خدا میں ازاد کردیا۔,, اس کے بعد حضرت علیہ السّلام بچے کی تجہیز وتکفین کی طرف متوجہ ہوئے۔

اشاعت علوم

تمام عالم اسلامی میں آپ کی علمی جلالت کا شہرہ تھا۔ دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہنچ گئی ان میں فقہ کے علمائ بھی تھے، تفیسر کے متکلمین بھی تھے اور مناظرین بھی، آپ کے دربار میں مخالفین مذہب ااکر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے اور ان سے مناظرے ہوتے رہتے تھے جن پر کبھی کبھی نقد وتبصرہ بھی فرماتے تھے اورا صحاب کو ان کی بحث کے کمزور پہلو بتلا بھی دیتے تھے تاکہ ائندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں۔کبھی آپ خود بھی مخالفین مذہب اور بالخصوص دہریوں سے مناظرہ فرماتے تھے۔ علاوہ علوم و فقہ و کلام وغیرہ کے علوم عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی بعض شاگردوں کوتعلیم دی تھی۔ چنانچہ آپ کے اصحاب میںسے جابر بن حیان طرسوسی سائنس اور ریاضی کے مشہور امام فن ہیں جنھوں نے چار سو رسالے امام جعفرصادق علیہ السّلام کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کئے۔آپ کے اصحاب میں سے بہت سے بڑے فقہا تھے جنہوں نے کتابیں تصنیف کیں جن کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی ہے۔

شہادت

ایسی مصروف زندگی رکھنے والے انسان کو جاہ سلطنت حاصل کرنے کی فکروں سے کیا مطلب؟ مگر آپ علمی مرجعیّت اور کمالات کی شہرت سلطنت وقت کے لیے ایک مستقل خطرہ محسوس ہوتی تھی۔ جب کہ یہ معلوم تھا کہ اصلی خلافت کے حقدار یہی ہیں جب حکومت کی تمام کوششوں کے باوجود کوئی بہانہ اسے آپ کے خلاف کسی کھلے ہوئے اقدام اور خونریزی کا نہ مل سکا تو اخر خاموش حربہ زہر کا اختیار کیا گیا اور زہر الود انگور حاکم مدینہ کے ذریعہ سے آپ کی خدمت میںپیش کیے گئے، جن کے کھاتے ہی زہر کااثر جسم میں سرایت کر گیا اور 15شوال148ھ میں 56سال کی عمر میں شہادت پائی۔ آپ کے فرزند اکبر اور جانشین حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام نے تجہیز وتکفین کی اور نماز جنازہ پڑھائی او جنت البقیع کے اس احاطہ میں جہاں اس کے پہلے امام حسن علیہ السّلام، امام زین العابدین علیہ السّلام اور امام محمد باقر علیہ السّلام دفن ہوچکے تھے آپ کو بھی دفن کیا گیا۔


7) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام

حضرت موسیٰ کاظم، حضرت جعفر صادق کے فرزند اور اہل تشیع کے ساتویں امام تھے.

اسم مبارک موسیٰ , کنیت ابو الحسن علیہ السّلام اور لقب کاظم علیہ السّلام تھا اور اسی لیے امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں . آپ کے والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام تھے جن کاخاندانی سلسلہ حضرت امام حسین علیہ السّلام شہید کربلا کے واسطہ سے پیغمبر ُ اسلام حضرت محمد مصطفےٰ تک پہنچتا ہے۔ آپ کی مالدہ ماجدہ حمیدہ علیہ السّلام خاتون ملک ُ بر بر کی باشندہ تھیں۔

1 ولادت
2 نشو ونما اور تربیت
3 امامت
4 دور ابتلا

ولادت

سات صفر 128ھئ میں آپ کی ولادت ہوئی . اس وقت آپ والد بزرگوار حضرت امام جعفر صادق علیہ السّلام مسند ُ امامت پرمتمکن تھے اور آپ کے فیوض علمی کادھارا پوری طاقت کے ساتھ بہہ رہا تھا .اگرچہ امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام سے پہلے آپ کے دو بڑے بھائی اسماعیل اور عبدالله پید اہوچکے تھے مگر اس صاحبزادے کی ولادت روحانی امانت کاحامل جو رسول کے بعد اس سلسلہ کے افراد میں ا یک دوسرے کے بعد چلی ارہی تھی , یہی پیدا ہونے والا مبارک بچہ تھا۔

نشو ونما اور تربیت

آپ کی عمرکے بیس برس اپنے والد بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کے سایہ تربیت میںگزرے. ایک طرف خدا کے دیے ہوئے فطری کمال کے جوہر اور دوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبر کے بتائے ہوئے مکارم ُاخلاق کی بھولی ہوئی یاد کو ایساتازہ کر دیا کہ انھیں ایک طرح سے اپنا بنا لیا اور جس کی بنا ئ پر »ملت جعفری « نام ہوگیا . امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام نے بچپنہ او رجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس اغوش تعلیم میں گزارا. یہاں تک کہ تمام دُنیا کے سامنے آپ کے کمالات وفضائل روشن ہوگئے اور امام جعفر صادق علیہ السّلام نے اپنا جانشین مقرر فرمادیا . باوجود کہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجود تھے مگر خدا کی طرف کامنصب میراث کا ترکہ نہیںہے بلکہ ذاتی کمال کو ڈھونڈھتا ہے . سلسلہ معصومین علیہ السّلام میں امام حسن علیہ السّلام کے بعد بجائے ان کی اولاد کے امام حسین علیہ السّلام کاامام ہونا اور اولاد امام جعفر صادق علیہ السّلام میں بجائے فرزند اکبر کے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی طرف امامت کامنتقل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ معیار امامت میں نسبتی وراثت کو مدِنظر نہیں رکھا گیا ہے۔

امامت

841ھئ امام جعفر صادق علیہ السّلام کی شہادت ہوئی , اس وقت سے حضرت امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام بذاتِ خود فرائض امامت کے ذمہ دار ہوئے . اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پر منصور دوانقی بادشاہ تھا . یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعداد سادات مظالم کا نشانہ بن چکے تھے تلوار کے گھاٹ اتار دیے گئے . دیواروں میں چنوا دیے گئے یاقید رکھے گئے تھے . خود امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اور مختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھیں یہاں تک کہ منصور ہی کا بھیجا ہوا زہر تھا جس سے اب آپ دنیا سے رخصت ہورہے تھے .ان حالات میں آپ کو اپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھاکہ حکومتِ وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے ایک اخلاقی بوجھ حکومت کے کاندھوں پر رکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیار فرمائی کہ اپنی جائداد اور گھر بار کے انتظام کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی . جن میں پہلا شخص خود خلیفہ وقت منصور عباسی تھا . اس کے علاوہ محمد بن سلیمان حاکم مدینہ اور عبدالله فطح جو امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام کے سن میں بڑے بھائی تھے اور حضرت امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلاماور ان کی والدہ حمیدہ خاتون. امام کا اندیشہ بالکل صحیح تھا اور آپ کاتحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا. چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاع منصور کو پہنچی تو اس نے پہلے تو سیاسی مصلحت کے طور پر اظہار رنج کیا. تین مرتبہ انااللهِ واناالیہ راجعون کہ اور کہا کہ اب بھلاجعفر علیہ السّلام کا مثل کون ہے ? ا س کے بعد حاکم مدینہ کو لکھا کہ اگر جعفر صادق علیہ السّلام نے کسی شخص کو اپنا وصی مقرر کیا ہوتو اس کا سر فوراً قلم کردو . حاکم مدینہ نے جواب لکھا کہ انہوں نے تو پانچ وصی مقرر کئے ہیں جن سے پہلے آپ خود ہیں . یہ جواب پڑھ کر منصور دیر تک خاموش رہا اور سوچنے کے بعد کہنے لگا تو اس صورت میں تو یہ لوگ قتل نہیں کیے جاسکتے . اس کے بعد دس برس تک منصور زندہ رہا لیکن امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام سے کوئی تعرض نہیں کیا اور آپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے . یہ بھی تھا کہ اس زمانے میں منصور شہر بغداد کی تعمیر میں مصروف تھا جس سے 751ھئ میںیعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی . اس لئے وہ امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلامکے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوا .

دور ابتلا

851ھ کے اخر میںمنصور دوانقی دنیا سے رخصت ہوا تو اس کا بیٹا مہدی تحت سلطنت پر بیٹھا . شروع میں تو اس نے بھی امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام کے عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤ نہیں گیا مگر چند سال کے بعد پھر وہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور 461ھئ میں جب وہ حج کے نام سے حجاز کی طرف ایاتو امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام کو اپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیا اور قید کردیا . ایک سال تک حضرت اس کی قید میں رہے . پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور حضرت علیہ السّلام کو مدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیا گیا , مہدی کے بعد اس کابھائی ہادی 921ھئ میں تخت سلطنت پر بیٹھا اور صرف ایک سال ایک مہینے تک اُس نے سلطنت کی . اس کے بعد ہارون رشید کازمانہ ایا جس میں پھر امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم علیہ السّلام کو آزادی کے ساتھ سانس لینا نصیب نہیں ہوا

اخلاق واوصاف

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اسی مقدس سلسلہ کے ایک فرد تھے جس کو خالق نے نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا .ا س لیے ان میں سے ہر ایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واوصاف کا مرقع تھا .بے شک یہ ایک حقیقت ہے کہ بعض افراد میں بعض صفات اتنے ممتاز نظر اتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پر نظر پڑتی ہے , چنانچہ ساتویں امام علیہ السّلام میںتحمل وبرداشت اورغصہ کوضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب »کاظم علیہ السّلام « قرار پایا گیا جس کے معنی ہیں غصے کو پینے والا . آپ کو کبھی کسی نے تر شروئی اور سختی کے ساتھ بات کرتے نہیں دیکھا اور انتہائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر ائے . مدینے کے ایک حاکم سے آپ کو سخت تکلیفیں پہنچیں . یہاں تک کہ وہ جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیا کرتا تھا مگر حضرت علیہ السّلام نے اپنے اصحاب کو ہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا . جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایات کیں اور یہ کہا کہ ہمیں ضبط کی تاب نہیں . ہمیں اس سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے تو حضرت علیہ السّلام نے فرمایا کہ » میں خود اس کاتدارک کروں گا .« اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت علیہ السّلام خود اس شخص کے پاس ا سکی زراعت پر تشریف لے گئے اور کچھ ایسا احسان اور سلوک فرما یا کہ وہ اپنی گستاخیوں پر نادم ہوا ا ور اپنے طرزِ عمل کو بدل دیا . حضرت علیہ السّلام نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھا کہ جو میں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھا تھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرنا چاہتے تھے . سب نے کہا , یقیناً حضور علیہ السّلام نے جو طریقہ استعمال فرمایا وہی بہتر تھا . اس طرح آپ نے اپنے جدِ بزرگوار حضرت امیر علیہ السّلام کے اس ارشاد کو عمل میں لا کر دکھلایا جو اج تک نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ اپنے دشمن پہ احسان کے ساتھ فتح حاصل کرو کیونکہ یہ دو قسم کی فتح میں زیادہ صر لطف کامیابی ہے. بیشک اس کے لیے فریق ُ مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے اور اسی لیے حضرت علی علیہ السّلام نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ »خبردار یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیار نہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا .,, یقیناً ایسے عدم تشدد کے موقع کو پہچاننے کے لیے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام علیہ السّلام کو حاصل تھی مگر یہ اس وقت میں ہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایسا عمل ہوچکا ہو جو اس کے ساتھ انتقامی جواز پیدا کرسکے لیکن اس کی طرف سے اگو کوئی ایسا اقدام ابھی ایسا نہ ہوا تو یہ حضرات بہر حال ا س کے ساتھ احسان کرنا پسند کرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجتقائم ہو اور اسے اپنے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش سے بھی کوئی عذر نہ مل سکے .بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جو جناب امیر علیہ السّلام کو شہید کرنے والا تھا . اخری وقت تک جناب امیر علیہ السّلاماحسان فرماتے رہے . اسی طرح محمد ابنِ اسمٰعیل کے ساتھ جو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلامکی جان لینے کاباعث ہوا , آپ برابر احسان فرماتے رہے , یہاں تک کہ اس سفر کے لیے جو اس نے مدینے سے بغداد کی جانب خلیفہ عباسی کے پاس امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی شکائتیں کرنے کے لیے کیا تھا . ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم کی رقم خود حضرت ہی نے عطا فرمائی تھی جس کو لے کر وہ روانہ ہوا تھا . آپ کو زمانہ بہت ناساز گار ملا تھا . نہ اس وقت وہ علمی دربار قائم رہ سکتا تھا جوامام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانہ میں قائم رہ چکا تھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی . بس آپ کی خاموش سیرت ہی تھی جو دنیا کو الِ محمد کی تعلیمات سے روشناس کراسکتی تھی . آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثر بالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امر کے متعلق کوئی سوال نہ کیا جائے آپ گفتگو میںابتدا بھی نہ فرماتے تھے . اس کے باوجود آپ کی علمی جلالت کا سکہ دوست اور دشمن سب کے دل پر قائم تھا اور آپ کی سیرت کی بلندی کو بھی سب مانتے تھے , اسی لیے عام طور پر آپ کو کثرت عبادت اور شب زندہ داری کی وجہ سے »عبد صالح « کے لقب سے یاد جاتا تھا . آپ کی سخاوت اور فیاضی کابھی خاص شہرہ تھااور فقرائ مدینہ کی اکثر پوشیدہ طور پر خبر گیری فرماتے تھے ہر نماز کے صبح کے تعقیبات کے بعد افتاب کے بلند ہونے کے بعد سے پیشانی سجدے میں رکھ دیتے تھے اور زوال کے وقت سراٹھاتے تھے . قران مجید اور پاس بیٹھنے والے بھی آپ کی اواز سے متاثر ہو کر روتے تھے . ہارون رشید کی خلافت اور امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام سے مخالفت 071ھئ میں ہادی کے بعد ہارون تخت ُ خلافت پر بیٹھا . سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جو سادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے سامنے تھے خود اس کے باپ منصور کارویہ جو امام جعفر صادق علیہ السّلام کے خلاف تھا اسے معلوم تھا اس کا یہ ارادہ کہ جعفر صادق علیہ السّلام کے جانشین کو قتل کر ڈالاجائے یقیناً اس کے بیٹے ہارون #کو معلوم ہوچکا ہوگا . وہ تو امام جعفر صادق علیہ السّلام کی حکیمانہ وصیت کا اخلاقی دباؤ تھا جس نے منصور کے ہاتھ باندھ دیے تھے اور شہر بغداد کی تعمیر کی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیا تھا اب ہارون کے لیے ان میںسے کوئی بات مانع نہ تھی . تخت ُ سلطنت پر بیٹھ کر اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے سب سے پہلے تصور پیدا ہوسکتا تھا کہ اس روحانیت کے مرکز کو جو مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میںقائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے مگر ایک طرف امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کامحتاط اور خاموش طرزِ عمل اور دوسری طرف سلطنت کے اندرونی مشکلا ت ان کی وجہ سے نوبرس تک ہارون کو بھی کسی کھلے ہوئے تشدد کا امام علیہ السّلام کے خلاف موقع نہیں ملا . اس دوران میں عبدالله ابن حسن علیہ السّلام کے فرزند یحییٰ کاواقعہ درپیش ہوا ور وہ امان دیے جانے کے بعد تمام عہدو پیمان کوتوڑ کردردناک طریقے پر پہلے قید رکھے گئے او رپھر قتل کئے گئے . باوجودیکہ یحییٰ کے معاملات سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلامکو کسی طرح کا سروکار نہ تھا بلکہ واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علیہ السّلام ان کو حکومت ُ وقت کی مخالفت سے منع فرماتے تھے مگر عداوت ُ بنی فاطمہ کاجذبہ جو یحییٰ ابن عبداللهکی مخالفت کے بہانے سے ابھر گیا تھا اس کی زد سے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام بھی محفوظ نہ رہ سکے . ادھر یحییٰ ابن خالد بر مکی نے جو وزیر اعظام تھا امین (فرزند ہارون رشید) کے اتالیق جعفر ابن محمد اشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیا کہ یہ امام موسی علیہ السّلام کاظم کے شیعوں میںسے ہے اور ان کے اقتدار کاخواہاں ہے . براہ راست اس کا مقصد ہارون کو جعفر سے برگزشتہ کرنا تھالیکن بالواستہ ا س کا تعلق حضرت امام موسی علیہ السّلام کاظم کے ساتھ بھی . اس لیے ہارون کو حضرت علیہ السّلام کی ضرر رسانی کی فکر پیدا ہوگئی.اسی دوران میںیہ واقعہ ہو اکہ ہارون رشید حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں ایا .اتفاق سے اسی سال امام موسی کاظم علیہ السّلام بھی حج کو تشریف لائے ہوئے تھے . ہارون نے اپنی انکھ سے اس عظمت اور مرجعیت کا مشاہدہ کی جو مسلمانوںمیں امام موسی کاظم علیہ السّلام کے متعلق پائی جاتی تھی . اس سے بھی اس کے حسد کی اگ بھڑک اٹھی اس کے بعد اس میں محمد بن اسمٰعیل کی مخالفت نے اورا ضافہ کر دیا . واقعہ یہ ہے کہ اسمٰعیل امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بڑے فرزند تھے اور اس لیے ان کی زندگی میں عام طور پر لوگوں کا خیال یہ تھا کہ وہ امام جعفر صادق علیہ السّلام کے قائم مقام ہوں گے . مگر ان کا انتقال امام جعفر صادق علیہ السّلام کے زمانے میں ہوگیا اور الوگوں کا یہ خیال غلط ثابت ہوا . پھر بھی بعض سادہ لوح اصحاب اس خیال پر قائم رہے کہ جانشینی کاحق اسمٰعیل میں منحصر ہے . انھوں نے امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی امامت کو تسلیم نہیں کیا چنانچہ اسماعیلیہ فرقہ مختصر تعداد میں سہی اب بھی دنیا میں موجود ہے- محمد, ان ہی اسمٰعیل کے فرزند تھے اور اس لئے امام موسٰی کاظم علیہ السلام سے ایک طرح کی مخالفت پہلے سے رکھتے تھے مگر چونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ افراد کوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اسی لئے ظاہری طور پر امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے یہاں آمدورفت رکھتے تھے اور ظاہر داری کے طور پر قرابت داری کے تعلقات قائم کئے ہوئے تھے- ہارون رشید نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پر غور کرتے ہوئے یحییٰبرمکی سے مشورہ لیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اولاد ابوطالب علیہ السّلام میں سے کسی کو بلا کر اس سے موسٰی بن جعفر علیہ السّلام کے پورے پورے حالات دریافت کروں- یحییٰجو خود عداوتِ بنی فاطمہ میں ہارون سے کم نہ تھا اس نے محمد بن اسمٰعیل کا پتہ دیا کہ آپ ان کو بلا کر دریافت کریں تو صحیح حالات معلوم ہو سکیں گے چنانچہ اسی وقت محمد بن اسمٰعیل کے نام خط لکھا گیا- شہنشاهِ وقت کا خط محمد ابن اسمٰعیل کو پہنچا تو انہوں نے اپنی دنیوی کامیابی کا بہترین ذریعہ سمجھ کر فوراً بغداد جانے کا ارادہ کر لیا- مگر ان دنوں ہاتھ بالکل خالی تھا- اتنا روپیہ پاس موجود نہ تھا کہ سامان سفر کرتے- مجبوراً اسی ڈیوڑھی پر آنا پڑا جہاں کرم و عطا میں دوست اور دشمن کی تمیز نہ تھی- امام موسٰی کاظم علیہ السلام کے پاس آ کر بغداد جانے کا ارادہ ظاہر کیا- حضرت علیہ السّلام خوب سمجھتے تھے کہ اس بغداد کے سفر کی بنیاد کیا ہے- حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفر کا سبب دریافت کیا- انہوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ہوئے کہا کر قرضدار بہت ہو گیا ہوں- خیال کرتا ہوں کہ شاید وہاں جا کر کوئی صورت بسر اوقات کی نکلے اور میرا قرضہ ادا ہو جائے- حضرت علیہ السّلام نے فرمایا- وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے- میں وعدہ کرتا ہوں کہ تمہارا تمام قرضہ ادا کر دوں گا- افسوس ہے کہ محمد نے اس کے بعد بھی بغداد جانے کا ارادہ نہیں بدلا-چلتے وقت حضرت علیہ السّلام سے رخصت ہونے لگے- عرض کیا کہ مجھے وہاں کے متعلق کچھ ہدایت فرمائی جائے- حضرت علیہ السّلام نے اس کا کچھ جواب نہ دیا- جب انہوں نے کئی مرتبہ اصرار کیا تو حضرت علیہ السّلام نے فرمایا کہ» بس اتنا خیال رکھنا کہ میرے خون میں شریک نہ ہونا اور میرے بچوں کی یتیمی کے باعث نہ ہونا« محمد نے اس کے بعد بہت کہا کہ یہ بھلا کون سی بات ہے جو مجھ سے کہی جاتی ہے, کچھ اور ہدایت فرمایئے- حضرت علیہ السّلام نے اس کے علاوہ کچھ کہنے سے انکار کیا- جب وہ چلنے لگے تو حضرت علیہ السّلام نے ساڑھے چار سو دینار اور پندرہ سو درہم انہیں مصارف کے لئے عطا فرمائے- نتیجہ وہی ہوا جو حضرت علیہ السّلام کے پیش نظر تھا- محمد ابن اسمٰعیل بغداد پہنچے اور وزیر اعظم یحییٰ برمکی کے مہمان ہوئے اس کے بعد یحییٰکے ساتھ ہارون کے دربار میں پہنچے مصلحت وقت کی بنا پر بہت تعظیم و تکریم کی گئی- اثنائ گفتگو میں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے- محمد نے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کا تذکرہ کیا اور یہ بھی کہا کہ میں نے آج تک نہیں دیکھا اور نہ سنا کہ ایک ملک میں دو بادشاہ ہوں- اس نے کہا کہ اس کا کیا مطلب? محمد نے کہا کہ بالکل اسی طرح جس طرح آپ بغداد میں سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں- اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتا ہے اور وہ آپ کے مقابلے کے دعوے دار ہیں- یہی وہ باتیں تھیں جن کے کہنے کے لئے یحییٰ برمکی نے محمد کو منتخب کیا تھا ہارون کا غیظ و غضب انتہائی اشتعال کے درجے تک پہنچ گیا- اس نے محمد کو دس ہزار دینار عطا کر کے رخصت کیا- خدا کا کرنا یہ کہ محمد کو اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا ایک دن بھی موقع نہ ملا- اسی شب کو ان کے حلق میں درد پیدا ہوا- صبح ہوتے ہوئے وہ دنیا سے رخصت ہو گئے- ہارون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوا لئے مگر محمد کی باتوں کا اثر اس کے دل میں ایسا جم گیا تھا کہ اس نے یہ طے کر لیا کہ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے- چنانچہ ~0179ئھ میں پھر ہارون رشید نے مکہ معظمہ کا سفر کیا اور وہاں سے مدینہ منورہ گیا- دو ایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو گرفتار کرنے کے لئے روزانہ کئے- جب یہ لوگ امام علیہ السّلام کے مکان پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت علیہ السّلام روضئہ رسول پر ہیں- ان لوگوں نے روضہ پیغمبر علیہ السّلام کی عزت کا بھی خیال نہ کیا- حضرت علیہ السّلام اس وقت قبر رسول کے نزدیک نماز میں مشغول تھے- بے رحم دشمنوں نے آپ کو نماز کی حالت میں ہی قید کر لیا اور ہارون# کے پاس لے گئے- مدینہ رسول کے رہنے والوں کی بے حسی اس سے پہلے بھی بہت دفعہ دیکھی جا چکی تھی- یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کا فرزند روضئہ رسول سے اس طرح گرفتار کر کے لے جایا جا رہا تھا مگر نام نہاد مسلمانوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو کسی طرح کی آواز بطور احتجاج بلند کرتا- یہ بیس شوال ~0179ئھ کا واقعہ ہے- ہارون نے اس اندیشے سے کہ کوئی جماعت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو رہا کرنے کی کوشش نہ کرے دو محملیں تیار کرائیں- ایک میں حضرت امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو سوار کیا اور اس کو ایک بڑی فوجی جمعیت کے حلقے میں بصرہ روانہ کیا اور دوسری محمل جو خالی تھی اسے بھی اتنی ہی جمعیت کی حفاظت میں بغداد روانہ کیا- مقصد یہ تھا کہ آپ کے محل قیام اور قید کی جگہ کو بھی مشکوک بنا دیا جائے یہ نہایت حسرت ناک واقعہ تھا کہ امام علیہ السّلام کے اہل حرم اور بچے وقت رخصت آپ کو دیکھ بھی نہ سکیں اور اچانک محل سرا میں صرف یہ اطلاع پہنچ سکی کہ حضرت علیہ السّلام سلطنت وقت کی طرف سے قید کر لئے گئے اس سے بیبیوں اور بچوں میں کہرام برپا ہو گیا اور یقیناً امام علیہ السّلام کے دل پر بھی اس کا جو صدمہ ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے- مگر آپ کے ضبط و صبر کی طاقت کے سامنے ہر مشکل آسان تھی- معلوم نہیں کتنے ہیر پھیر سے یہ راستہ کیا گیا تھا کہ پورے ایک مہینہ سترہ روزکے بعد سات ذی الحجہ کو آپ بصرہ پہنچائے گئے- کامل ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رہے- یہاں کا حاکم ہارون کا چچا زاد بھائی عیسٰی ابن جعفر تھا شروع میں تو اسے صرف بادشاہ کے حکم تعمیل مدنظر تھی بعد میں اس نے غور کرنا شروع کیا- آخر ان کے قید کئے جانے کا سبب کیا ہے- اس سلسلے میں اس کو امام علیہ السّلام کے حالات اور سیرت زندگی اور اخلاق و اوصاف کی جستجو کا موقع بھی ملا اور جتنا اس نے امام علیہ السّلام کی سیرت کا مطالعہ کیا اتنا اس کے دل پر آپ کی بلندی اخلاق اور حسن کردار کا قائم ہو گیا- اپنے ان تاثرات سے اس نے ہارون کو مطلع بھی کر دیا- ہارون پر اس کا الٹا اثر ہوا کہ عیسٰی کے متعلق بدگمانی پیدا ہو گئی- اس لئے اس نے امام موسٰی کاظم علیہ السلام کو بغداد میں بلا بھیجا- فضل ابن ربیع کی حراست میں دے دیا اور پھر فضل کا رجحان شیعیت کی طرف محسوس کر کے یحییٰبرمکی کو اس کے لئے مقرر کیا- معلوم ہوتا ہے کہ امام علیہ السّلام کے اخلاق واوصاف کی کشش ہر ایک پر اپنا اثر ڈالتی تھی- اس لئے ظالم بادشاہ کو نگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی-

شہادت

سب سے آخر میں امام علیہ السّلام سندی بن شاہک کے قید خانے میں رکھے گئے یہ شخص بہت ہی بے رحم اور سخت دل تھا- آخر اسی قید میں حضرت علیہ السّلام کوانگور میں زہر دیا گیا- ~025رجب ~0183ئھ میں ~055سال کی عمر میں حضرت علیہ السّلام کی وفات ہوئی بعد وفات آپ کی نعش کے ساتھ بھی کوئی اعزاز کی صورت اختیار نہیں کی گئی بلکہ حیرتناک طریقے پر توہین آمیز الفاظ کے ساتھ اعلان کرتے ہوئے آپ کی لاش کو قبرستان کی طرف روانہ کیا گیا- مگر اب ذرا عوام میں احساس پیدا ہو گیا تھا اس لئے کچھ اشخاص نے امام علیہ السّلام کے جنازے کو لے لیا اور پھر عزت و احترام کے ساتھ مشایعت کر کے بغداد سے باہر اس مقام پر جواب کاظمین کے نام سے مشہور ہے دفن کیا-

8) حضرت امام علی رضا علیہ السلام

حضرت علی رضا، حضرت موسیٰ کاظم کے فرزند اور اہلِ تشیع کے آٹھویں امام تھے.

علی نام , رضا لقب او ر ابوالحسن کنیت، حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام والد بزرگوار تھے اور اس لیے آپ کوپورے نام ولقب کے ساتھ یاد کیا جائے تو امام الحسن علی بن موسیٰ رضا علیہ السلام کہاجائے گا , والدہ گرامی کی کنیت ام البنین اور لقب طاہرہ تھا۔ نہایت عبادت گزار بی بی تھیں۔

1 ولادت
2 تربیت
3 جانشینی
4 دور امامت
5 علمی کمال
6 زندگی کے مختلف دور
7 ولی عہدی
8 اخلاق و اوصاف
9 عزائے حسین علیہ السلام کی اشاعت
10 وفات
11 اولاد

ولادت

11ذی القعد 148ھ میں مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی۔ اس کے تقریباً ایک ماہ قبل 15 شوال کو آپ کے جدِ بزرگوار امام جعفر صادق علیہ السّلام کی وفات ہوچکی تھی اتنے عظیم حادثہ مصیبت کے بعد جلد ہی اس مقدس مولود کے دنیا میںآجانے سے یقینًاگھرانے میں ایک سکون اور تسلی محسوس کی گئی۔

تربیت

آپ کی نشونما اور تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے زیر سایہ ہوئی اور اس مقدس ماحول میں بچپنا اور جوانی کی متعدد منزلیں طے ہوئی اور پینتیس برس کی عمر پوری ہوئی. اگرچہ اخری چند سال اس مدت کے وہ تھے جب امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم عراق میں قید وظلم کی سختیاں برداشت کررہے تھے مگر اس سے پہلے 82یا92برس آپ کو برابر پدرِ بزرگوار کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔

جانشینی

امام موسیٰ کاظم کو معلوم تھا کہ حکومت وقت آپ کو آزادی سے سانس لینے نہ دے گی اور ایسے حالات پیش آجائیں گے کہ آپ کے اخری عمر کے حصے میںاور دنیا کو چھوڑنے کے موقع پر دوستانِ اہلبیت علیہ السّلام کا آپ سے ملنا یا بعد کے لیے رہنما کا دریافت کرنا غیر ممکن ہوجائے گا۔ اس لیے آپ نے انہی آزادی کے دنوں اور سکون کے اوقات میں جب کہ آپ مدینہ میں تھے پیروانِ اہلیبت علیہ السّلام کو اپنے بعد ہونے والے امام علیہ السّلام سے روشناس بنانے کی ضرورت محسوس فرمائی۔ چنانچہ اولاد علی علیہ السّلام وفاطمہ میں سے سترہ آدمی جو ممتاز حیثیت رکھتے تھے جمع فرما کر اپنے فرزند علی رضا علیہ السّلام کی وصایت وجانشینی کااعلان فرمایااور ایک وصیت نامہ تحریراً بھی مکمل فرمایا , جس پر مدینہ کے معزز ین میں سے ساٹھ ادمیوں کی گواہی لکھی گئی , یہ اہتمام دوسرے ائمہ کے یہاں نظر نہیں اتا.صرف ان خصوصی حالات کی بنائ پر جن سے دوسرے ائمہ اپنی وفات کے موقع پر دوچار نہیںہونے والے تھے۔

دور امامت

حضرت امام علی رضا علیہ السّلام کی پینتیس برس کی عمر جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات ہوئی اور امامت کی ذمہ داری آپ کی طرف منتقل ہوئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب بغداد میںہارون رشید تخت خلافت پر تھا اور بنی فاطمہ کے لیے حالات بہت ناساز گار تھے۔ اس ناخوشگوار ماحول میں حضرت علیہ السّلام نے خاموشی کے ساتھ شریعت ُ حقہ کے خدمات انجام دینا شروع کر دیا۔

علمی کمال

آل محمد علیہ السّلام کے اس سلسلہ میں ہر فرد حضرت احادیث کی طرف سے بلند ترین علم کے درجہ پر قرار دیا گیا تھا جسے دوست اور دشمن سب کو ماننا پڑتا تھا , یہ اور بات ہے کہ کسی کو علمی فیوض پھیلانے کا زمانے نے کم موقعہ دیا اور کسی کو زیادہ , چنانچہ ان حضرات میں سے امام جعفر صادق علیہ السّلام کے بعد اگر کسی کو موقع حاصل ہوا ہے تو وہ امام رضا علیہ السلام ہیں۔ جب آپ امامت کے منصب پر نہیں پہنچے تھے اس وقت حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام اپنے تمام فرزندوں اور خاندان کے لوگوں کونصیحت فرماتے تھے کہ تمھارے بھائی علی رضا علیہ السّلام عالمِ الِ محمد ہیں۔ اپنے دینی مسائل کو ان سے دریافت کرلیا کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے یاد رکھو اور پھر حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کی وفات کے بعد جب آپ مدینہ میں تھے اور روضئہ رسول پر تشریف فرما تھے تو علمائے اسلام مشکل مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ محمد ابن عیسیٰ القطینی کا بیان ہے کہ میں نے ان کے جوابات تحریر کیے تھے اکٹھے کیے تو اٹھارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔

زندگی کے مختلف دور

حضرت امام موسیٰ علیہ السّلام کاظم کے بعد دس برس ہارون کادور رہا۔ یقیناً وہ امام رضا علیہ السّلام کے وجود کو بھی دنیا میں اسی طرح پر برداشت نہیں کرسکتا تھا جس طرح اس کے پہلے آپ کے والد بزرگوار کو رہنا اس نے گورا نہیں کیا۔ مگر یا تو امام موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے ساتھ جو طویل مدت تک تشدد اور ظلم ہوتا رہا اور جس کے نتیجہ میں قید خانہ ہی کے اندر آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اس سے حکومت ُ وقت کی عام بدنامی ہوگئی تھی اور یا واقعی ظالم کو اپنی بد سلوکیوں کا احساس ہو ااور ضمیر کی طرف سے ملامت کی کیفیت تھی جس کی وجہ سے کھلم کھلا امام رضا علیہ السّلام کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی , یہاںتک کہ کہا جاتا ہے کہ ایک دن یحییٰ ابن خالد برمکی نے اپنے کے بعداثرورسوخ کے بڑھانے کے لیے یہ کہا کہ علی علیہ السّلام ابن موسیٰ بھی اب اپنے باپ کے بعد امامت کے اسی طرح دعویدار ہیںتو ہارون نے جواب دیا کہ جو کچھ ہم نے ان کے باپ کے ساتھ کیا وہی کیا کم ہے جواب تم چاہتے ہو کہ میں اس نسل ہی کا خاتمہ کروں۔

پھر بھی ہارون رشید کااہل بیت رسول سے شدید اختلاف اور سادات کے ساتھ جو برتاؤ اب تک تھا اس کی بنا پر عام طور پر سے عمال حکومت یا عام افراد بھی جنھیں حکومت کو راضی رکھنے کی خواہش تھی اہل بیت علیہ السّلام کے ساتھ کوئی اچھا رویّہ رکھنے پر تیار نہیں ہوسکتے تھے، اور نہ امام علیہ السّلام کے پاس آزادی کے ساتھ لوگ استفادہ کے لیے اسکتے تھے نہ حضرت علیہ السّلام کو سچے اسلامی احکام کی اشاعت کے مواقع حاصل تھے۔

ہارون کا اخری زمانہ اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون کی باہمی رقابتوں سے بہت بے لطفی میں گزرا۔ امین پہلی بیوی سے تھا جو خاندان شاہی سے منصور دوانقی کی پوتی تھی اور اس لیے عرب سردار سب اس کے طرفدار تھے اور مامون ایک عجمی کنیز کے پیٹ میں سے تھا۔ اس لیے درباد کاعجمی طبقہ اس سے محبت رکھتا تھا۔ دونوں کی اپس میں رسہ کشی ہارون کے لیے سوہانِ روح بنی رہتی تھی، اس نے اپنے خیال میں اس کا تصفیہ مملکت کی تقسیم کے ساتھ یوںکردیا کہ دارالسلطنت بغداد اور اس کے چاروں طرف کے عربی حصے جیسے شام ,مصرحجاز، یمن وغیرہ محمد امین کے نام کئے گئے اور مشرقی ممالک جیسے ایران , خراسان، ترکستان وغیرہ مامون کے لیے مقرر کیے گئے مگر یہ تصفیہ تو اس وقت کار گاہوسکتا تھا جب دونوں فریق "جیو اور جینے دو" کے اصول پر عمل کرتے ہوتے۔

لیکن جہاں اقتدار کی ہوس کار فرماہووہاں اگر بنی عباس کے ہاتھوں بنی فاطمہ کے خلاف ہر طرح کے ظلم وتعدی کی گنجائش پیدا ہوسکتی ہے تو خود بنی عباس میں ایک گھر کے اندر دو بھائی اگر ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں تو کیوں نہ ایک دوسرے کے خلاف جارحانہ کاروائیاں کرنے کے لیے تیارنظر اتے۔ اور کیوں نہ ان طاقتوں میںباہم تصادم ہو جب ان میں سے کوئی اس ہمدردی اور ایثار اورخلقِ خدا کی خیر خواہی کا بھی حامل نہیں ہے جسے بنی فاطمہ علیہ السّلام اپنے پیش نظر کر اپنے واقعی حقوق سے چشم پوشی کرلیا کرتے تھے۔ اسی کانتیجہ تھا کہ ادھر ہارون کی انکھ بند ہوئی اور ادھر بھائیوں میںخانہ جنگی کے شعلے بھڑک اٹھے۔ اخر چار برس کی مسلسل کشمکش اور طویل خونریزی کے بعد مامون کو کامیابی ہوئی اور اس کا بھائی امین محرم 891ھ میں تلوار کے گھاٹ اتارا دیا گیا اور مامون کی خلافت تمام بنی عباس کے حدودسلطنت پر قائم ہوگئی۔ ولی عہدی

امین کے قتل ہونے کے بعد سلطنت تو مامون کے نام سے قائم ہوگئی مگر یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ امین ننھیال کی طرف سے عربی النسل تھا اور مامون عجمی النسل۔ امین کے قتل ہونے سے عراق کی عرب قوم اور ارکان سلطنت کے دل مامون کی طرف سے صاف نہیں ہوسکتے تھے بلکہ غم وغصہ کی کیفیت محسوس کرتے تھے۔ دوسری طرف خود بنی عباس میں سے ایک بڑی جماعت جو امین کی طرف دار تھی اس سے بھی مامون کو ہر وقت خطرہ لگا ہوا تھا۔

اولاد فاطمہ میں سے بہت سے لوگ جو وقتاً فوقتاً بنی عباس کے مقابل میںکھڑے ہوتے رہتے تھے وہ خواہ قتل کردیئے گئے ہوں یا جلاوطن کئے گئے ہوں یاقید رکھے گئے ہوں ان کے بھی موافق ایک جماعت تھی جو اگر حکومت کا کچھ بگاڑ نہ بھی سکتی تب بھی دل ہی دل میں حکومت بنی عباس سے بیزار ضرور تھی۔

ایران میں ابو مسلم خراسانی نے بنی امیہ کے خلاف جو اشتعال پید اکیا تھا وہ ان مظالم ہی کو یاد دلا کر جو بنی امیہ کے ہاتھوں حضرت امام حسین علیہ السّلام اور دوسرے بنی فاطمہ کے ساتھ ہوئے تھے۔ اس سے ایران میں اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کا پیدا ہونا فطری تھا , درمیان میں بنی عباس نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا مگر اتنی مدت میں کچھ نہ کچھ تو ایرانیوں کی انکھیں بھی کھلی ہی ہوں گی کہ ہم سے کیا کہا گیا تھا اور اقتدار کن لوگوں نے حاصل کرلیا۔ ممکن ہے کہ ایرانی قوم کے ان رجحانات کاچرچا مامون کے کانوں تک بھی پہنچا ہو۔ اب جس وقت کہ امین کے قتل کے بعد وہ عرب قوم پر اور بنی عباس کے خاندان پر بھروسہ نہیںکرسکتا تھا اور اسے ہر وقت اس حلقہ سے بغاوت کااندیشہ تھا تو اسے سیاسی مصلحت اسی میں معلوم ہوئی کہ عرب کے خلاف عجم اور بنی عباس کے خلاف بنی فاطمہ کو اپنا بنایا جائے اور چونکہ طرزِعمل میں خلوص سمجھا نہیں جاسکتا اور وہ عالمِ طبائع پر اثر نہیں ڈال سکتا۔ اگر یہ نمایاں ہوجائے کہ وہ سیاسی مصلحتوں کی بنا پر ہے ا س لیے ضرورت ہوئی کہ مامون مذہبی حیثیت سے سے اپنی شیعیت اور ولائے اہل بیعت علیہ السّلام کے چرچے عوام کے حلقوں میں پھیلائے اور یہ دکھلائے کہ وہ انتہائی نیک نیتی سے اب "حق بحق دار رسید" کے مقولے کو سچا بنانا چاہتا ہے۔

اس سلسلے میں جیسا کہ جناب شیخ صدوق اعلٰی الله مقامہ، نے تحریرفرمایا ہے اس نے اپنی نذر کی حکایت بھی نشر کی کہ جب امین کااور میرا مقابلہ تھا اور بہت نازک حالت تھی اور عین اسی وقت میرے خلاف سیستان اور کرمان میں بھی بغاوت ہوگئی تھی اور خراسان میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی اور میری مالی حالت بھی ابتر تھی اور فوج کی طرف سے بھی اطمینان نہ تھا تو اس سخت اور دشوار ماحول میں میں نے خدا سے التجا کی اور منّت مانی کہ اگر یہ سب جھگڑے ختم ہوجائیں اور میں خلافت تک پہنچوں تو اس کو اس کے اصلی حقدار یعنی اولادِ فاطمہ میں سے جو اس کااہل ہو اس تک پہنچادوں۔ اسی نذر کے بعد سے میرے سب کام بننے لگے اور اخر تمام دشمنوں پر مجھے فتح حاصل ہوئی۔ یقینایہ واقعہ مامون کی طرف سے اس لیے بیان کیا گیا کہ اس طرزِ عمل خلوص قلب اورحسن نیّت پر مبنی سمجھا جائے۔ یوں تو اہلیبت علیہ السّلام کے جو کھلے ہوئے سخت سے سخت دشمن تھے وہ بھی ان کی حقیقت اور فضیلت سے واقف تھے ہی اور ان کی عظمت کو جانتے تھے مگر شیعیت کے معنیٰ صرف یہ جاننا تو نہیں ہیں بلکہ محبت رکھنا اوراطاعت کرنا ہیں اور مامون کے طرزِ عمل سے یہ ظاہر ہے کہ وہ اس دعوائے شیعیت اور محبت اہلیبت علیہ السّلام کاڈھنڈورا پیٹنے کے باوجود خود امام علیہ السّلام کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا تھا بلکہ عوام کو اپنی منشائ کے مطابق چلانے کی کوشش کی تھی۔ ولی عہد بننے کے بارے میں آپ کے اختیارات کو بالکل سلب کردیا گیا اور آپ کو مجبور بنا دیا گیا تھا۔ اس سے ظاہرہے کہ ولی عہدی کی تفویض بھی ایک حاکمانہ تشدد تھا جو اس وقت شیعیت کے بھیس میں امام علیہ السّلام کے ساتھ کیا جارہا تھا۔

امام علیہ السلام کا اس ولی عہدی کوقبول کرنا بالکل ایسا ہی تا جیسا ہارون کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کا جیل خانہ چلے جانا,اسی لیے جب امام رضا علیہ السّلاممدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روانہ ہورہے تھے تو آپ کے رنج وصدمہ اور اضطراب کی کوئی حد نہ تھی روضئہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کا وہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السّلام کا مدینہ سے روانگی کے موقع پر تھا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ بیتابانہ روضئہ کے اندر جاتے تھے اور نالہ واہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں۔ پھر باہر اتے نکل کر گھر جانے کا ارادہ کرتے ہیں او پھر دل نہیں مانتا , پھر روضہ سے جاکر لپٹ جاتے ہیں۔ یہی صورت کئی مرتبہ ہوئی۔ راوی کابیان ہے کہ میں حضرت علیہ السّلام کے قریب گیا تو فرمایا اے محول میں اپنے جدِامجد کے روضہ سے بہ جبر جُدا کیا جارہا ہوں۔ اب مجھ کو یہاں واپس انا نصیب نہ ہوگا۔ 002ھ میں حضرت علیہ السّلام مدینہ منورہ سے خراسان کی طرف روان ہوئے , اہل وعیال اور متعلقین سب مدینہ ہی چھوڑ گئے۔ اس وقت امام محمد تقی علیہ السّلام کی عمر پانچ برس کی تھی۔ آپ بھی مدینہ میںہی رہے۔ جب حضرت علیہ السّلام مرو پہنچے جو اس وقت دارالسلطنت تھاتو مامون نے چند روز ضیافت وتکریم کے مراسم ادا کرنے کے بعد قبول خلافت کاسوال پیش کیا۔ حضرت علیہ السّلام نے اس سے اسی طرح انکار کیا جس طرح امیر المومنین علیہ السّلام چوتھے موقع پر خلافت پیش کیے جانے کے وقت انکار فرمارہے تھے , مامون کو خلافت سے دست بردار ہونا درحیقیقت منظور نہ تھا رونہ وہ امام علیہ السّلام کو اسی مجبور کرتا۔ چنانچہ جب حضرت علیہ السّلام نے خلافت قبول کرنے سے انکار فرمایا تو اس نے ولی عہدی کا سوال پیش کیا. حضرت علیہ السّلام اس کے بھی انجام سے واقف تھے۔ نیز بخوشی جابر حکومت کی طرف سے کوئی منصب قبول کرنا آپ کے مذہبی اصول کے خلاف تھا. حضرت علیہ السّلام نے اس سے بھی انکار فرمایا مگر اس پر مامون کااصرار جبر کی حد تک پہنچ گیا اور اس نے صاف کہہ دیا کہ اگر آپ اس کو منظور نہیں کرسکتے تو آپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ جان کا خطرہ قبول کیا جاسکتا ہے۔ جب مذہبی مفاد کا قیام جان دینے پر موقوف ہو ورنہ حفاظت ُ جان شریعت اسلام کا بنیادی حکم ہے۔ امام علیہ السّلام نے فرمایا یہ ہے تو مجبوراً قبول کرتا ہوں مگر کاروبار سلطنت میں میں خود دخل نہ دوں گا۔ اس کے بعد یہ ولی عہدی صرف برائے نام سلطنت وقت کے ایک ڈھکوسلے سے زیادہ کوئی وقعت نہ رکھتی تھی۔ جس سے ممکن ہے کچھ عرصہ تک کسی سیاسی مقصد میںکامیابی حاصل ہوگئی ہو۔ مگر امام علیہ السّلام کی حیثیت اپنے فرائض کے انجام دینے میںبالکل وہ تھی جو ان کے پیش روحضرت علی مرتضی علیہ السّلام اپنے زمانہ کی بااقتدار طاقتوں کے ساتھ اختیار کرچکے تھے جس طرح ان کا کبھی کبھی مشورہ دے دینا ان حکومتوں کو صحیح اور ناجائز نہیں بنا سکتا تھا ویسے ہی امام رضا علیہ السّلام کا اس نوعیت سے ولی عہدی کاقبول فرمانا اس سلطنت کے جواز کا باعث نہیںہوسکتا تھا ,.صرف مامون کیا ایک راج ہٹ تھی جو اس طرح پوری ہوگئی مگر امام علیہ السّلام نے اپنے دامن کو سلطنت ظلم کے اقدامات اور نظم ونسق سے بالکل الگ رکھا۔

بنی عباس مامون کے اس فیصلے سے قطعاً متفق نہ تھے انھوںنے بہت کچھ دراندازیاں کیں مگر مامون نے صاف کہہ دیا کہ علی رضا علیہ السّلام سے بہتر کوئی دوسرا شخص تم بتادو اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس سلسلے میں بڑے بڑے مناظرے بھی ہوے مگر ظاہر ہے کہ امام علیہ السّلام کے مقابلہ میں کس کی علمی فوقیت ثابت ہوسکتی تھی , مامون کافیصلہ اٹل تھا اور وہ اس سے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھا کہ وہ اپنے فیصلہ کو بدل دیتا۔

یکم رمضان 102ھئ روزپنجشنبہ جلسئہ ولی عہدی منعقد ہوا۔ بڑی شان وشوکت اور تزک واحتشام کے ساتھ یہ تقریب عمل میںلائی گئی۔ سب سے پہلے مامون نے اپنے بیٹے عباس کو اشارہ کیا اور اس نے بعیت کی۔ پھر اور لوگ بعیت سے شرفیاب ہوئے سونے چاندی کے سکے سرمبارک پر نثار کیے گئے اور تمام ارکانِ سلطنت وملازمین کو انعامات تقسیم ہوئے , مامون نے حکم دیا کہ حضرت علیہ السّلام کے نام کا سکّہ تیار کیا جائے , چنانچہ درہم ودینار پر حضرت علیہ السّلام کے نام کا نقش ہوا اور تمام قلمرومیں وہ سکّہ چلایا گیا , جمعہ کے خطبہ میں حضرت علیہ السّلام کانام داخل کیا گیا۔

اخلاق و اوصاف

مجبوری اور بے بسی کانام قناعت یا درویشی "عصمت بی بی از بے چادری" کے مقولہ کے موافق اکثر ابنائے دنیا کا شعار رہتا ہے مگر ثروت واقتدار کے ساتھ فقیرانہ زندگی اختیار کرنابلند مرتبہ مردانِ خدا کاحصہ ہے.اہل بیت معصومین علیہ السّلام میں سے جو بزرگوار ظاہری حیثیت سے اقتدار کے درجہ پر نہ تھے کیوں کہ ان کی فقیری کو دشمن بے بسی پر محمول کرکے طعن وتشنیع پر امادہ ہوتے اور حقانیت کے وقار کو ٹھیس لگتی مگر جو بزرگ اتفاقات روزگار سے ظاہری اقتدار کے درجہ پر پہنچ گئے۔ انہوں نے اتنا ہی فقرا اور سادگی کے مظاہرہ میںاضافہ کردیا تاکہ ان کی زندگی غریب مسلمانوں کی تسلی کاذریعہ بنے اور ان کے لیے نمونہ عمل ہو جیسے امیر المومنین حضرت علی المرتضی علیہ السّلام چونکہ شہنشاہ ُ اسلام مانے جارہے تھے ا س لیے آپ کالباس اور طعام ویسا زاہدانہ تھا جس کی مثال دوسرے معصومین علیہ السّلام کے یہاں نہیں ملتی۔ یہی صورت حضرت علی رضا علیہ السّلام کی تھی، آپ مسلمانوں کی اس عظیم الشان سلطنت کے ولی عہد بنائے گئے تھے جن کی وسعت ُ مملکت کے سامنے روم وفارس کاذکر بھی طاقِ نسیان کی نذر ہوگیا تھا۔ جہاں اگر بادل سامنے سے گزرتا تھا تو خلیفہ کی زبان سے اواز بلند ہوتی تھی کہ "جا جہاں تجھے برسنا ہو برس , بہتر حال تیری پیداواری کااخراج میرے پاس ہی ائے گا۔"

حضرت امام رضا علیہ السّلام کا اس سلطنت کی ولی عہدی پر فائز ہونا دنیا کے سامنے ایک نمونہ تھا کہ دین والے اگر دنیا کو پاجائیں تو ان کارویہ کیا ہوگا۔ یہاں امام رضا علیہ السّلام کو اپنی دینی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ضرورت تھی کہ زہد اور ترک ُ دنیا کے مظاہرے اتنے ہی نمایاں تربنادیں جتنے تزک و احتشام کے دینی تقاضے زیادہ ہیں چنانچہ تاریخ نے اپنے کو دہرایا اور وہ علی رضا علیہ السّلام کے لباس میںعلی المرتضی علیہ السّلام کی سیرت دنیا کی نگاہوں کے سامنے اگئی۔ آپ نے اپنی دولت سرا میں قیمتی قالین بچھوانا پسند نہیں کیے بلکہ جاڑے میں بالوں کا کمبل اور گرمی میں چٹائی کا فرش ہوا کرتا تھا , کھانا سامنے لایا جاتا تو دربان سائیس اور تمام غلاموں کو بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرماتے تھے۔ داب واداب ُ شاہی کے خوگر ایک بلخی شخص نے ایک دن کہہ دیا کہ حضور اگر ان لوگوں کے کھانے کا انتظام الگ ہوجایا کرے تو کیا حرج ہے? حضرت علیہ السّلام نے فرمایا خالق سب کاالله ہے۔ ماں سب کی حواّ اور باپ سب کے ادم علیہ السّلام ہیں۔ جزاوسزا ہر ایک کی اس کے عمل کے مطابق ہوگی , پھر دُنیا میں تفرقہ کس لیے ہو۔

اسی عباسی سلطنت کے ماحول کا ایک جزوبن کرجہاں صرف پیغمبر کی طرف ایک قرابتداری کی نسبت کے سبب اپنے کو خلق ُ خدا پر حکمرانی کاحقدار بنایا جاتا تھا اور اس کے ساتھ کبھی اپنے اعمال وافعال پر نظر نہ کی جاتی تھی کہ ہم کیسے ہیں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ یہ کہاجانے لگاکہ بنی عباس ظلم وستم اور فسق وفجور میں بنی امیہ سے کم نہ رہے بلکہ بعض باتوں میںان سے آگے بڑھ گئے اور اس کے ساتھ پھر بھی قرابتِ رسول پر افتخار تھا اس ماحول کے اندر داخل ہو کرامام رضا علیہ السّلام کا اس بات پر بڑا زور دینا کہ قرابت کوئی چیز نہیں اصل انسان کا عمل ہے بظاہر صرف ایک شخص کا اظہار فروتنی اور انکسار نفس تھا جو بہرحال ایک اچھی صفت ہے لیکن حقیقت میں وہ اس سے بڑھ کر تقریباً ایک صدی کی عباسی سلطنت کی پیدا کی ہوئی ذہنیت کے خلاف اسلامی نظریہ کااعلان تھااور اس حیثیت سے بڑا اہم ہوگیا تھا کہ وہ اب اسی سلطنت کے ایک رکن کی طرف سے ہورہا تھا۔ چنانچہ امام رضا علیہ السّلامکی سیرت میں اس کے مختلف شواہد ہیں , ایک شخص نے حضرت علیہ السّلام کی خدمت میںعرض کی کہ »خدا کی قسم اباؤاجداد کے اعتبار سے کوئی شخص آپ سے افضل نہیں۔ حضرت علیہ السّلام نے فرمایا۔ ,, میرے اباواجداد کو جو شرف حاصل ہوا ہے وہ صرف تقویٰ , پرہیز گاری اوراطاعتِ خداسے.,, ایک شخص نے کسی دن کہا کہ، " والله آپ بہترین خلق ہیں۔" حضرت علیہ السّلام نے فرمایا، "اے شخص حلف نہ اٹھا، جس کاتقویٰ وپرہیز گاری مجھ سے زیادہ ہو وہ مجھ سے افضل ہے۔"

ابراہیم بن عباس کابیان ہے کہ حضرت علیہ السّلام فرماتے تھے، "میرے تمام لونڈی اور غلام ازاد ہوجائیں اگر اس کے سوا کچھ اور ہو کہ میں اپنے کو محض رسول الله کی قرابت کی وجہ سے اس سیاہ رنگ غلام سے بھی افصل نہیںجانتا (حضرت علیہ السّلام نے اشارہ کیا اپنے ایک غلام کی جانب) ہاں جب عملِ خیر بجا لاؤں گا تو الله کے نزدیک اس سے افضل ہوں گا۔"

یہ باتیں کو تاہ نظر لوگ صرف ذاتی انکسار پر محمول کرلیتے ہوں مگر خود حکومت عباسیہ کا فرماں روایقیناً اتنا کند ذہن نہ ہوگا کہ وہ ان تازیانوں کو محسوس نہ کرے جو امام رضا علیہ السّلام کے خاموش افعال اور ا س طرح کے اقوال سے اس کے خاندانی نظامِ سلطنت پر برابر لگ رہے تھے۔ اس نے تو بخیال خود ایک وقتی سیاسی مصلحت سے اپنی سلطنت کو مستحکم بنانے کے لیے حضرت علیہ السّلام کو ولی عہد بنایا تھا مگر بہت جلد اسے محسوس ہوا کہ اگران کی زندگی زیادہ عرصہ تک قائم رہی تو عوام کی ذہنیت میں یک لخت انقلاب ہوجائے گا اور عباسی سلطنت کاتخت ہمیشہ کے لیے الٹ جائے گا۔

عزائے حسین علیہ السلام کی اشاعت

اب امام رضا علیہ السّلام کو تبلیغ حق کے لیے نام حسین علیہ السّلام کی اشاعت کے کام کو ترقی دینے کا بھی پورا موقع حاصل ہوگیا تھا جس کی بنیاد اس کے پہلے حضرت امام محمد باقر علیہ السّلام اور امام جعفر صادق علیہ السّلام قائم کرچکے تھے مگر وہ زمانہ ایسا تھا کہ امام علیہ السّلام کی خدمت میں وہی لوگ حاضر ہوتے تھے جو بحیثیت امام اور بحیثیت عالم دین آپ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے اور اب امام رضا علیہ السّلام تو امام روحانی بھی ہیں اور ولی عہد ُ سلطنت بھی۔ اس لیے آپ کے دربار میںحاضر ہونے والوں کا دائرہ وسیع ہے۔ مرو ##کامقام ہے جو ایران کے تقریباً وسط میں واقع ہے.ہر طرف کے لوگ یہاںاتے ہیں اور یہاں یہ عالم ہے کہ ادھر محرم کا چاند نکلا اور انکھوں سے انسو جاری ہوگئے۔ دوسروں کو بھی ترغیب وتحریص کی جانے لگی کہ الِ محمد کے مصائب کو یاد کرو اور تاثرات غم کو ظاہر کرو.یہ بھی ارشاد ہونے لگا کہ جو اس مجلس میں بیٹھے جہاں ہماری باتیں زندہ کی جاتی ہیں اس کا دل مردہ نہ ہوگا۔ اس دن کہ جب سب کے دل مردہ ہوں گے۔ تذکرہ امام حسین علیہ السّلام کے لیے جو مجمع ہو اس کانام اصطلاحی طو ر پر مجلس# اسی امام رضا علیہ السّلام کی حدیث ہی سے ماخوذ ہے۔ آپ نے علمی طور پر خود مجلسیں کرنا شروع کر دیں , جن میں کبھی خود ذاکر ہوئے اور دوسرے سامعین جیسے یان بن شیب کی حاضری کے موقع پر جو آپ نے مصائب امام حسین علیہ السّلام بیان فرمائے اور کبھی عبدالله بن ثابت یادعبل خزاعی ایسے کسی شاعر کی حاضری کے موقع پر اس شاعر کو حکم ہوا کہ تم ذکر امام حسین علیہ السلام میں اشعار پڑھو وہ ذاکر ہوا اور حضرت سامعین میں داخل ہوئے۔

دعبل# کو حضرت نے بعدمجلس ایک قیمتی حلّہ بھی مرحمت فرمایا جس کے لینے میں دعبل# نے یہ کہہ کرعذر کیاکہ مجھے قیمتی حلّہ کی ضرورت نہیں ہے اپنے جسم کااترا ہوا لباس مرحمت فرمائے تو حضرت نے ان کی خوشی پوری کی وہ حلّہ تو انھیں دیا ہی تھا اس کے علاوہ ایک جبّہ اپنے پہننے کا بھی مرحمت فرمایا۔

اس سے ذاکر کابلند طریقہ کار کہ اسے کسی دنیوی انعام کی حاضر یامعاذ الله اجرت طے کرکے ذاکری نہیں کرنا چاہیے اور بانی مجلس کاطریقہ کار کہ وہ بغیر طے کیے ہوئے کچھ بطور پیشکش ذاکر کی خدمت میں پیش کرے دونوں امرثابت ہیں مگر ان مجالس میں سامعین کے اندر کسی حصہ کی تقسیم ہر گز کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں ہوئی۔

وفات

مامون کی توقعات غلط ثابت ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ اخر امام علیہ السّلام کی جان لینے کے درپے ہوگیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین علیہ السّلام کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام علیہ السّلام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 71صفر 302ھ میں حضرت علیہ السّلام نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت علیہ السّلام کا روضہ اج تاجدارانِ عالم کی جبیں سائی کا مرکز بناہوا ہے وہیں اپنے وقت کابزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔

اولاد

امام علیہ السلام کی تعداد اولاد میں شدید اختلاف ہے۔ علامہ مجلسی نے بحا را لا نوار جلد ۱۲ صفحہ ۲۶ میں کئی اقوال نقل کرنے کے بعد بحوالہ قرب الاسناد تحریر فرمایا ہے کہ آپ کے دو فرزند تھے۔ ایک امام محمد تقی علیہ السلام دوسرے موسیٰ ۔ انوار نعمانیہ ۱۲۷ میں ہے کہ آپ کے تین اولادتھی۔ انوار الحسینیہ جلد ۳ ص۵۲ میں ہے کہ آپ کے تین اولاد تھی۔ مگر نسل صرف امام محمد تقی علیہ السلام سے جاری ہوئی۔ صواعق محرقہ ۱۲۳ میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ نو ار الابصار ۱۴۵ میں ہے کہ آپ پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ جن کے نا م یہ ہیں۔ امام محمد تقی۔حسن جعفر۔ ابراہیم ۔ حسین۔ عائشہ۔ روضتہ الشہداء ۲۳۸ میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے تھے جن کے نا م یہ ہیں ۔ امام محمد تقی ۔ حسن جعفر۔ ابراہیم۔ حسین۔ عقب اواز بزرگوارش محمدتقی است۔ مگر آپ کی نسل صرف امام محمد تقی سے بڑھی ہے۔ یہی کچھ رحمت للعالمین جلد ۲ص ۱۴۵ میں ہے۔ جنات الخلود ۳۲ میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ روضتہ الا حباب جمال الدین میں ہے کہ آپ کے پانچ لڑکے تھے۔ کشف الغمہ ۱۱۰ میں ہے کہ آپ کے چھ اولاد تھی ۵ لڑکے ایک لڑکی یہی مطالب السول میں ہے۔ کنز الانساب ۹۶ میں ہے کہ آپ کے آٹھ لڑکے تھے جن کے نام یہ ہیں امام محمد تقی، ہادی، علی نقی، حسین، یعقوب ، ابراہیم ، فضل ، جعفر۔

لیکن امام المحدثین تاج المحققین حضرت علامہ محمد بن محمد نعمان بغدادی المتوفی ۴۱۳ء ہجری المقلب یہ شیخ مفید علیہ ا لرحمتہ۔کتاب ارشاد ۲۷۱۔۳۴۵ میں اور تاج المفسرین، امین الدین حضرت ابو علی فضل بن حسن بن فضل طبرسی المشہدی صاحب مجمع البیان المتوفی ۵۴۸ء ء کتاب اعلام الوری، ۱۹۹ میں تحریر فرماتے ہیں۔ کان للرضامن الولد ابنہ ابر جعفر محمد بن علی الجواد لا غیر ۔حضرت امام محمد تقی کے علاوہ امام علی رضا علیہ السلا م کے کوئی اور اولاد نہ تھی یہی کچھ کتاب عمدة الطالب صفحہ۱۸۶ میں ہے۔

9) حضرت امام محمد تقی علیہ السلام

حضرت محمد تقی، حضرت امام علی رضا کے فرزند اور اہلِ تشیع کے نویں امام ہیں۔

فہرست

1 نام ونسب
2 ولادت
3 نشونما اور تربیت
4 عراق کا پہلا سفر
5 علماء سے مناظرہ
6 مدینہ کی طرف واپسی
7 اخلاق و اوصاف
8 تبلیغ و ہدایت
9 عراق کا آخری سفر
10 شہادت
11 رضوی سیّد

نام ونسب

محمد نام , ابو جعفر کنیت اور تقی علیہ السّلام وجوّاد علیہ السّلام دونوں مشہور لقب تھے اسی لیے اسم و لقب کو شریک کرے آپ امام محمدتقی علیہ السّلام کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں . چونکہ آپ کو پہلے امام محمد باقر علیہ السّلام کی کنیت ابو جعفر ہوچکی تھی اس لیے کتب میں آپ کو ابو جعفر ثانی اور دوسرے لقب کو سامنے رکھ کر حضرت جوّاد بھی کہا جاتا ہے۔ والد بزرگوار آپ کے حضرت امام رضا علیہ السّلام تھے اور والدہ معظمہ کانام جناب سبیکہ یاسکینہ علیہ السّلام تھا۔

ولادت

10رجب 195ھجری کو مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی . اس وقت بغداد کے دارلسلطنت میں ہارون رشید کابیٹا امین تخت حکومت پر تھا .

نشونما اور تربیت

یہ ا یک حسرت ناک واقعہ ہے کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کو نہایت کمسنی ہی کے زمانے میں مصائب اور پریشانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوجاناپڑا .انھیں بہت کم ہی اطمینان اور سکون کے لمحات میں باپ کی محبت , شفقت اور تربیت کے سائے میں زندگی گزارنے کاموقع مل سکا .آپ کو صرف پانچواں برس تھا . جب حضرت امام رضا علیہ السّلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے تو پھر زندگی میں ملاقات کا موقع نہ ملا امام محمدتقی علیہ السّلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام رضا علیہ السّلام کی وفات ہوگئی . دنیا سمجھتی ہوگی کہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے لیے علمی وعملی بلندیوں تک پہنچنے کاکوئی ذریعہ نہیں رہا اس لیے اب امام جعفر صادق علیہ السّلام کی علمی مسند شاید خالی نظر ائے مگر خلق خدا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچے کو تھوڑے دن بعد مامون کے پہلو میں بیٹھ کر بڑے بڑے علماء سے فقہ، حدیث، تفسیراور کلام پر مناظرے کرتے اور سب کو قائل ہوجاتے دیکھا . اس کی حیرت اس وقت تک دور ہوناممکن نہ تھی , جب تک وہ مادی اسباب کی بجائے ایک مخصوص خدا وندی مدرسہ تعلیم وتربیت کے قائل نہ ہوتے , جس کے بغیر یہ معمہ نہ حل ہوا اور نہ کبھی حل ہوسکتا ہے .

عراق کا پہلا سفر

جب امام رضا علیہ السّلام کو مامون نے ولی عہد بنایا اور اس کی سیاست اس کی مقتضی ہوئی کہ بنی عباس کو چھوڑ کر بنی فاطمہ سے روابط قائم کئے جائیں اور اس طرح شیعیان اہل بیت علیہ السّلام کو اپنی جانب مائل کیا جائے تو اس نے ضرورت محسوس کی کہ خلوص واتحاد کے مظاہرے کے لیے علاوہ اس قدیم رشتے کے جو ہاشمی خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے ہے , کچھ جدید رشتوں کی بنیاد بھی قائم کردی جائے چنانچہ اسی جلسہ میں جہاں ولی عہدی کی رسم ادا کی گئی . اس نے اپنی بہن ام حبیبہ کاعقد امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیاا ور اپنی بیٹی ام الفضل کی نسبت کاامام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ اعلان کیا . غالباًً اس کا خیال تھا کہ اس طرح امام رضا علیہ السّلام بالکل اپنے بنائے جا سکیں گے مگر جب اس نے محسوس کیا کہ یہ اپنے ان منصبی فرائض کو جو رسول کے وارث ہونے کی بنا پر ان کے ذمہ ہیں . کسی قیمت پر چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے اور اب عباسی سلطنت کارکن ہونے کے ساتھ ان اصول پر قائم رہنا . مدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں گوشہ نشینی کی زندگی بسرکرنے سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے . تو اسے اپنے مفاد سلطنت کی تحفظ خاطر اس کی ضرورت ہوئی کہ وہ زہر دے کر حضرت علیہ السّلام کی زندگی کاخاتمہ کردے مگر وہ مصلحت جوامام رضا علیہ السّلام کوولی عہد بنانے کی تھی یعنی ایرانی قوم اور جماعت ُ شیعہ کو اپنے قبضے میں رکھنا وہ اب بھی باقی تھی اس لیے ایک طرف تو امام رضا علیہ السّلام کے انتقال پر اس نے غیر معمولی رنج وغم کااظہار کیا تاکہ وہ اپنے دامن کو حضرت علیہ السّلام کے خون ناحق سے الگ ثابت کرسکے . اور دوسری طرف اس نے اپنے اعلان کی تکمیل ضروری سمجھی کہ جو وہ امام محمدتقی علیہ السّلام کے ساتھ اپنی لڑکی سے منسوب کرنے کا کرچکا تھا , اس نے اس مقصد سے امام محمدتقی علیہ السّلام کو مدینہ سے عراق کی طرف بلوایا . اس لیے کہ امام رضا علیہ السّلام کی وفات کے بعد وہ خراسان سے اب اپنے خاندان کے پرانے دارالسلطنت بغداد میں آچکا تھا اور ا س نے یہ تہیّہ کرلیا کہ وہ ام الفضل کاعقد اس صاحبزادے کے ساتھ بہت جلد کردے .

علماء سے مناظرہ بنی عباس کو مامون کی طرف سے امام رضا علیہ السّلام کا ولی عہد بنایا جانا ہی ناقابل برداشت تھا امام رضا علیہ السّلام کی وفات سے ایک حد تک انھیں اطمینان حاصل ہوا تھا اور انہوں نے مامون سے اپنے حسبِ دلخواہ اس کے بھائی موئمن کی ولی عہدی کااعلان بھی کرادیا جو بعد میں معتصم بالله کے نام سے خلیفہ تسلیم کیا گیا . اس کے علاوہ امام رضا علیہ السّلام کی ولی عہدی کے زمانہ میں عباسیوں کامخصوص شعار یعنی کالالباس تبدیل ہو کر سبز لباس کارواج ہورہا تھا اسے منسوخ کرکے پھر سیاہ لباس کی پابندی عائد کردی گئی , تاکہ بنی عباس کے روایات ُ قدیمہ محفوظ رہیں . یہ باتیں عباسیوں کو یقین دلا رہی تھیں کہ وہ مامون پر پورا قابو پاچکے ہیں مگر اب مامون یہ ارادہ کہ وہ امام محمد تقی علیہ السّلام کو اپنا داماد بنائے ان لوگوں کے لیے پھر تشویش کاباعث بنا . اس حد تک کہ وہ اپنے دلی رجحان کو دل میں نہ رکھ سکے اورایک وفد کی شکل میں مامون کے پاس اکر اپنے جذبات کااظہار کر دیا , انھوں نے صاف صاف کہا کہ امام رضا کے ساتھ جو آپ نے طریقہ کار استعمال کیا وہی ہم کو ناپسند تھا . مگر خیر وہ کم از کم اپنی عمر اور اوصاف وکمالات کے لحاظ سے قابلِ عزت سمجھے بھی جاسکتے ہیں مگر ان کے بیٹے محمد علیہ السّلام تو ابھی بالکل کم سن ہیں ایک بچے کو بڑے بڑے علماء اور معززین پر ترجیح دینا اور اس قدر اس کی عزت کرنا ہر گز خلیفہ کے لیے زیبا نہیں ہے پھر ام حبیبہ کانکاح جو امام رضا علیہ السّلام کے ساتھ کیا گیا تھا اس سے ہم کو کیا فائدہ پہنچا . جو اب ام الفضل کانکاح محمد ابن علی علیہ السّلام کے ساتھ کیا جارہا ہے . مامون نے اس تمام تقریر کا یہ جواب دیا کہ محمد علیہ السّلام کمسن ضرور ہیں مگر میں نے خوب اندازہ کرلیا ہے . اوصاف وکمالات میںوہ اپنے باپ کے پورے جانشین ہیں اور عالم اسلام کے بڑے بڑے علمائ جن کا تم حوالہ دے رہے ہو علم میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے . اگر تم چاہو تو امتحان لے کر دیکھ لو . پھر تمہیں بھی میرے فیصلے سے متفق ہونا پڑے گا . یہ صرف منصافانہ جواب ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا چیلنج تھا جس پر مجبوراً ان لوگوں کو مناظرے کی دعوت منظور کرنا پڑی حالانکہ خود مامون تمام سلاطین ُ بنی عباس میں یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ مورخین اس کے لیے یہ الفاظ لکھ دیتے ہیں . کان بعد من کبار الفقہاء یعنی اس کا شمار بڑے فقیہوں میں ہے . اس لیے اس کا فیصلہ خود کچھ کم وقعت نہ رکھتا تھا مگر ان لوگوں نے اس پر اکتفاء نہیں کی بلکہ بغداد کے سب سے بڑے عالم یحییٰ بن اکثیم کو امام محمدتقی علیہ السّلام سے بحث کے لیے منتخب کیا . مامون نے ایک عظیم الشان جلسہ اس مناظرے کے لیے منعقد کیا اور عام اعلان کرادیا . ہر شخص اس عجیب اور بظاہر غیر متوازی مقابلے کے دیکھنے کا مشتاق ہوگیا جس میں ایک طرف ایک اٹھ برس کابچہ تھا اور دوسری طرف ایک ازمود کار اور شہرئہ افاق قاضی القضاة . اسی کا نتیجہ تھا کہ ہر طرف سے خلائق کا ہجوم ہوگیا .مورخین کا بیان ہے کہ ارکان ُ دولت اور معززین کے علاوہ اس جلسے میں نوسوکرسیاں فقط علماء وفضلاء کے لیے مخصوص تھیں اور اس میں کوئی تعجب نہیں اس لیے کہ یہ زمانہ عباسی سلطنت کے شباب اوربالخصوص علمی ترقی کے اعتبار سے زریں دور تھا اور بغداد دارالسلطنت تھا جہاں تمام اطراف سے مختلف علوم وفنون کے ماہرین کھنچ کر جمع ہوگئے تھے . اس اعتبار سے یہ تعداد کسی مبالغہ پر مبنی معلوم نہیں ہوتی- مامون نے حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لئے اپنے پہلو میں مسند بچھوائی تھی اور حضرت علیہ السّلام کے سامنے یحییٰ ابن اکثم کے لیے بیٹھنے کی جگہ تھی- ہر طرف کامل سناٹا تھا- مجمع ہمہ تن چشم و گوش بنا ہوا گفتگو شروع ہونے کے وقت کا منتظر ہی تھا کہ اس خاموشی کو یحییٰ کے اس سوال نے توڑ دیا جو اس نے مامون کی طرف مخاطب ہو کر کہا تھا-» حضور کیا مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر علیہ السّلام سے کوئی مسئلہ دریافت کروں؟ مامون نے کہا,» تم کو خود ان ہی سے اجازت طلب کرنا چاہئے-« یحیٰی امام علیہ السّلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہا-»کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں آپ سے کچھ دریافت کروں؟« فرمایا-» تم جو پوچھنا چاہو پوچھ سکتے ہو-« یحیٰی نے پوچھا کہ »حالت احرام میں اگر کوئی شخص شکار کرے تو اس کا کیا حکم ہے?« اس سوال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یحیٰی حضرت امام محمد تقی کو علمی بلندی سے بالکل واقف نہ تھا- وہ اپنے غرور علم اور جہالت سے یہ سمجھتا تھا کہ یہ کمسن صاحبزادے تو ہیں ہی- روزمرہ کے روزے نماز کے مسائل سے واقف ہوں تو ہوں مگر حج وغیرہ کے احکام اور حالت احرام میں جن چیزوں کی ممانعت ہے ان کے کفاروں سے بھلا کہاں واقف ہوں گے- امام علیہ السّلام نے اس کے جواب میں اس طرح سوال کے گوشوں کی الگ الگ تحلیل فرمائی, جس سے بغیر کوئی جواب اصل مسئلے کا دیے ہوئے آپ کے علم کی گہرائیوں کا یحیٰی اور تمام اہل محفل کو اندازہ ہو گیا, یحیٰی خود بھی اپنے کو سبک پانے لگا اور تمام مجمع بھی اس کا سبک ہونا محسوس کرنے لگا- آپ نے جواب میں فرمایا کہ تمہارا سوال بالکل مبہم اور مجمل ہے- یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ شکار حل میں تھا یا حرم میں شکار کرنے والا مسئلے سے واقف تھا یا ناواقف- اس نے عمداً اس جانور کو مار ڈالا یا دھوکے سے قتل ہو گیا وہ شخص آزاد تھا یا غلام کمسن تھا یا بالغ پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا یا اس کے پہلے بھی ایسا کر چکا تھا۔ شکار پرندکا تھا یا کوئی اور۔ چھوٹا یا بڑا۔ وہ اپنے فعل پر اصرار رکھتا ہے یا پشیمان ہے۔ رات کو یا پوشیدہ طریقہ پر اس نے شکار کیا یا دن دہاڑے اورعلانیہ۔ احرام عمرہ کا تھا یا حج کا۔ جب تک یہ تمام تفصیلات نہ بتائے جائیں اس مسئلہ کا کوئی ایک معین حکم نہیں بتایا جا سکتا- یحییٰ کتنا ہی ناقص کیوں نہ ہوتا بہرحال فقہی مسائل پر کچھ نہ کچھ اس کی نظر بھی تھی- وہ ان کثیر التعداد شقوں کے پیدا کرنے ہی سے خوب سمجھ گیا کہ ان کا مقابلہ میرے لئے آسان نہیں ہے- اس کے چہرے پر ایسی شکستگی کے آثار پیداہوئے جن کاتمام دیکھنے والوں نے اندازہ کر لیا- اب اس کی زبان خاموش تھی اور وہ کچھ جواب نہ دیتا تھا- مامون نے اس کی کیفیت کا صحیح اندازہ کر کے اس سے کچھ کہنا بیکار سمجھا اور حضرت علیہ السّلام سے عرض کیا کہ پھر آپ ہی ان تمام شقوں کے احکام بیان فرما دیجیئے , تاکہ سب کو استفادہ کا موقع مل سکے- امام علیہ السّلام نے تفصیل کے ساتھ تمام صورتوں کے جداگانہ جو احکام تھے بیان فرمائے یحیٰی ہکا بکا امام علیہ السّلام کا منہ دیکھ رہا تھا اور بالکل خاموش تھا- مامون کو بھی کد تھی کہ وہ اتمام حجت کو انتہائی درجے تک پہنچا دے اس لئے اس نے امام علیہ السّلام سے عرض کیا کہ اگر مناسب معلوم ہو تو آپ علیہ السّلام بھی یحییٰ سے کوئی سوال فرمائیں- حضرت علیہ السّلام نے اخلاقاً یحییٰ سے یہ دریافت کیا کہ »کیا میں بھی تم سے کچھ پوچھ سکتا ہوں?«یحییٰ اب اپنے متعلق کسی دھوکے میں مبتلا نہ تھا, اپنا اور امام علیہ السّلام کا درجہ اسے خوب معلوم ہو چکا تھا- اس لئے طرز گفتگو اس کا اب دوسراہی تھا- اس نے کہا کہ حضور علیہ السّلام دریافت فرمائیں اگر مجھے معلوم ہو گا تو عرض کر دوں گا ورنہ خود حضور ہی سے معلوم کر لوں گا, حضرت علیہ السّلام نے سوال کیا- جس کے جواب میں یحییٰ نے کھلے الفاظ میں اپنی عاجزی کا اقرار کیا اور پھر امام نے خود اس سوال کا حل فرما دیا- مامون کو اپنی بات کے بالا رہنے کی خوشی تھی- اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہو کر کہا: دیکھوں میں نہ کہتا تھا کہ یہ وہ گھرانا ہے جو قدرت کی طرف سے علم کا مالک قرار دیا گیا ہے- یہاں کے بچوں کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا- مجمع میں جوش و خروش تھا- سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ بے شک جو آپ کی رائے ہے وہ بالک ٹھیک ہے اور یقیناً ابو جعفر علیہ السّلام محمد ابن علی کو کوئی مثل نہیں ہے- مامون نے اس کے بعد ذرا بھی تاخیر مناسب نہیں سمجھی اور اسی جلسے میں امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ ام الفضل کا عقد کر دیا- نکاح کے قبل جو خطبہ ہمارے یہاں عموماً پڑھا جاتا ہے وہی ہے جو کہ امام محمد تقی نے اس عقد کے موقع پر اپنی زبان مبارک پر جاری کیا تھا- یہی بطور یادگار نکاح کے موقع پر باقی رکھا گیا ہے مامون نے اس شادی کی خوشی میں بڑی فیاضی سے کام لیا- لاکھوں روپیہ خیر و خیرات میں تقسیم کیا گیا اور تمام رعایا کو انعامات و عطیات کے ساتھ مالا مال کیا گیا- مدینہ کی طرف واپسی شادی کے بعد تقریباًً ایک سال تک بغداد میں مقیم رہے اس کے بعد مامون نے بہت اہتمام کے ساتھ ام الفضل کو حضرت علیہ السّلام کے ساتھ رخصت کر دیا اور امام علیہ السّلام مدینہ میں واپس تشریف لائے- اخلاق و اوصاف امام محمد تقی علیہ السّلام اخلاق واصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا . ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا. غرباً کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا . مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اور علمی اور مذہبی پیاسوں کے لیے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت زندگی کا نمایاں پہلو تھا . بالکل ویسا ہی جیسے اس سلسلہ عصمت کے دوسرے افراد کا تھا جس کے حالات اس سے پہلے لکھے جاچکے ہیں . اہل دنیا کو جو آپ کے بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے انھیں یہ تصور ضرور ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی.حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہوسکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا .بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاہوں کا ال ُ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا . جتنا ان کے صفات سے وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے . یہ کسی طرح ٹوٹ جائے . اسی کے لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے. امام حسین علیہ السّلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ , فقط ظاہری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادات مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی . جس طرح امام حسین علیہ السّلام نے بیعت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے , اسی طرح امام رضا علیہ السّلام ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زہر کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا . اب مامون کے نقطۂ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا علیہ السّلام کا جانشین تقریباًً آٹھ برس کابچہ ہے جو تین برس سے پہلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا . حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نہایت اسان ہے او را س کے بعد وہ مرکز جو حکومت ُ وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا . مامون امام رضا علیہ السّلام کو ولی عہد ی کی مہم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کاسبب نہیں تصور کرتا تھا ,ا س لیے کہ امام رضا علیہ السّلام کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی .ا س میں تبدیلی اگر نہیں ہوتی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی علیہ السّلام جوآٹھ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر بر قرا ر رہیں . سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے .اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون ہی کا ہم خیال ہوگا . مگر دنیا تو حیران ہوگئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس عمر میں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اور اصول کا اتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار کردیتا ہے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا تو ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتے ہیں . اس سے بھی امام علیہ السّلام کی مستحکم قوتِ ارادی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے . عموماً مالی اعتبار سے لڑکی والے کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے . اس گھر میں نہ سہی تو کم از کم اسی شہر میں اس کا قیام رہے . مگر امام محمد تقی علیہ السّلام نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا . یقیناً یہ امر ایک چاہنے والے باپ اور مامون ایسے بااقتدار کے لیے انتہائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام علیہ السّلام مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے . مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وہی انداز رہا جو اس کے بعد پہلے تھا . نہ پہریدار نہ کوئی خاص روک ٹوک , نہ تزک واحتشام نہ اوقات ُ ملاقات نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤں میں کوئی تفریق . زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرات ان کی وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے . راویان ُ حدیث دریافت کرتے تھے . طالب علم مسائل پوچھتے تھے . صاف ظاہر تھا کہ جعفرصادق علیہ السّلام ہی کا جانشین ہے جو اسی مسند علم پر بیٹھا ہوا ہدایت کاکام انجام دے رہا ہے . امور خانہ داری اور ازواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے ا پنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ہی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا . آپ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہیں . چنانچہ ام الفضل کے ہوتے آپ نے حضرت عمار یاسررض کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا . یہی امام علی نقی علیہ السّلام کی ماں ہوئیں . ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی . مامون کے د ل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا . مگر اسے اب اپنے کیے کو نباہنا تھا . اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابو جعفر علیہ السّلام کے ساتھ اس لیے نہیں کیا ہے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں . مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا. جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے . ہمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لیے جناب خدیجة علیہ السّلام الکبریٰ اور حضرت علی المرتضیٰ علیہ السّلام کے لیے جناب فاطمہ زہرا علیہ السّلام مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لیے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے . اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے ال محمد محافظ تھے اس لیے امام محمدتقی علیہ السّلام نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا . تبلیغ و ہدایت آپ کی تقریر بہت دلکش اور پرتاثیر ہوتی تھی . ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو کر آپ علیہ السلام نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علماء دم بخود رہ گئے اور انھیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے ایسی جامع تقریر کبھی نہیں سنی . امام رضا علیہ السّلام کے زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا جو امام علیہ السّلام موسیٰ کاظم علیہ السّلام پر توقف کرتا تھا . یعنی آ پ کے بعد امام رضا علیہ السّلام کی امامت کا قا ئل نہیں تھا اور اسی لیے واقفیہ کہلاتا تھا . امام محمد تقی نے اپنے کردار میں اس گروہ میں ایسی کامیاب تبلیغ فرمائی کہ سب اپنے عقیدے سے تائب ہوگئے اور آپ کے زمانہ ہی میں کوئی ایک شخص ایسا باقی نہ رہ گیا جو اس مسلک کا حامی ہو بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت علیہ السّلام کی تعلیم حاصل کی . آپ کے ایسے مختصر حکیمانہ مقولوں کو بھی ایک ذخیرہ ہے جیسے آپ کے جدِ بزرگوار حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام کے کثرت سے پائے جاتے ہیں. جناب امیر علیہ السّلام کے بعد امام محمدتقی علیہ السّلام کے مقولوں کو ایک خاص درجہ حاصل ہے . الٰہیات اور توحیدکے متعلق آپ کے بعض بلند پایہ خطبے بھی موجود ہیں . عراق کا آخری سفر 218 ھجری میں مامون نے دنیا کو خیر باد کہا .اب مامون کا بھائی اور ام الفضل کاچچا موتمن جو امام رضا کے بعد ولی عہد بنایاجاچکا تھا تخت سلطنت پر بیٹھا اور معتصم بالله عباسی کے نام سے مشہور ہوا . اس کے بیٹھتے ہی امام محمد تقی علیہ السّلام سے متعلق ام الفضل کے اس طرح کے شکایتی خطوط کی رفتار بڑھ گئی . جس طرح کہ اس نے اپنے باپ مامون کو بھیجے تھے . مامون نے چونکہ تمام بنی عباس کی مخالفتوں کے بعد بھی اپنی لڑکی کا نکاح امام محمد تقی علیہ السّلام کے ساتھ کردیا تھا اس لیے اپنی بات کی پچ اور کیے کی لاج رکھنے کی خاطر ا س نے ان شکایتوں پر کوئی خاص توجہ نہیں کی بلکہ مایوس کردینے والے جواب سے بیٹی کی زبان بند کردی تھی مگر معتصم کو جو امام رضا علیہ السّلام کی ولی عہدی کاداغ اپنے سینہ پراٹھائے ہوئے تھا اور امام محمد تقی علیہ السّلام کو داماد بنائے جانے سے تمام بنی عباس کے نمائندے کی حیثیت سے پہلے ہی اختلاف کرنے والوں میں پیش پیش رہ چکا تھا . اب ام الفضل کے شکایتی خطوں کو اہمیت دے کر اپنے اس اختلاف کو جو اس نکاح سے تھا . حق بجانب ثابت کرنا تھا , پھر سب سے زیادہ امام محمد تقی علیہ السّلام کی علمی مرجعیت آپ کے اخلاقی اثر کاشہرہ جو حجاز سے بڑھ کر عراق تک پہنچا ہوا تھا وہ بنائے مخاصمت جو معتصم کے بزرگوں کو امام محمد تقی علیہ السّلام کے بزرگوں سے رہ چکی تھی او ر پھر اس سیاست کی ناکامی اور منصوبے کی شکست کا محسوس ہوجانا جو اس عقد کامحرک ہوا تھا جس کی تشریح پہلے ہوچکی ہے یہ تمام باتیں تھیں کہ معتصم مخالفت کے لیے امادہ ہوگیا . اپنی سلطنت کے دوسرے ہی سال امام محمد تقی علیہ السّلام کو مدینہ سے بغداد کی طرف بلو ابھیجا . حاکم مدینہ عبدالمالک کو اس بارے میں تاکید ی خط لکھا . مجبوراً امام محمد تقی علیہ السّلام اپنے فرزند امام علی نقی علیہ السّلام اور ان کی والدہ کو مدینہ میں چھوڑ کر بغداد کی طرف روانہ ہوئے . شہادت بغداد میں تشریف لانے کے بعد تقریباًً ایک سال تک معتصم نے بظاہر آپ کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی مگر آپ کا یہاں کا قیام خود ہی ایک جبری حیثیت رکھتا تھا جسے نظر بندی کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے اس کے بعد اسی خاموش حربے سے جو اکثر اس خاندان کے بزرگوں کے خلاف استعمال کیا جاچکا تھا۔ آپ کی زندگی کاخاتمہ کردیا گیا اور 92 ذی القعدہ 220ھجری میں زہر سے آپ کی شہادت ہوئی اور اپنے جدِ بزرگوار حضرت امام موسیٰ کاظم کے پاس دفن ہوئے .آپ ہی کی شرکت کا لحاظ کرکے عربی کے قاعدے سے اس شہر کانام کاظمین (دوکاظم یعنی غصہ کو ضبط کرنے والے) مشہور ہوا ہے۔ اس میں حضرت موسیٰ کاظم علیہ السّلام کے لقب کوصراحةً سامنے رکھا گیا جبکہ موجودہ زمانے میں اسٹیشن کانام جوادّین (دوجواد المعنی فیاض) درج ہے جس میںصراحةً حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کے لقب کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چونکہ آپ کا لقب تقی بھی تھا اور جواد بھی۔ رضوی سیّد عمومی طور پر سادات رضوی تقوی ہیں یعنی حضرت امام محمد تقی علیہ السّلام کی اولاد ہیں . امام رضا علیہ السّلام کی شخصی شہرت سلطنتِ عباسیہ کے ولی عہد ہونے کی وجہ سے جمہور مسلمین میںبہت ہوچکی تھی اس لیے امام محمد تقی علیہ السلام کی اولاد کاحضرت امام رضا علیہ السّلام کی طرف منسوب کرکے تعارف کیاجانے لگا اور رضوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ 10) حضرت امام علی نقی علیہ السلام حضرت علی نقی، حضرت محمد تقی کے فرزند اور اہلِ تشیع کے دسویں امام تھے. فہرست 1 نام ونسب 2 ولادت اور نشوونما 3 انقلابات سلطنت 4 الام ومصائب 5 وفات نام ونسب اسم مبارک علی علیہ السّلام , کنیت ابو الحسن علیہ السّلام اور لقب نقی علیہ السّلام ہے چونکہ آپ سے پہلے حضرت علی مرتضٰی علیہ السّلام اور امام رضا علیہ السّلام کی کنیت ابو الحسن ہو چکی تھی- اس لئے آپ کو ابوالحسن ثالث« کہا جاتا ہے والدہ معظمہ آپ کی سمانہ خاتون تھیں- ولادت اور نشوونما ~05رجب ~0214ئھ مدینہ منورہ میں ولادت ہوئی- صرف چھ برس اپنے والد بزرگوار کے زیر سایہ ہی زندگی بسر کی-اس کے بعد اس کمسنی ہی کے عالم میں آپ اپنے والد بزرگوار سے جدا ہو گئے- امام محمد تقی علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا اور وہیں ~029ذیعقد ~0220ئھ میں حضرت علیہ السّلام کی شہادت ہو گئی- جس کے بعد امامت کی ذمہ داریاں امام علی نقی علیہ السّلام کے کاندھے پر آ گئیں- اس صورت میں سوائے قدرت کی آغوش تربیت کے اور کون سا گہوارہ تھا جسے آپ کے علمی اور عملی کمال کی بلندیوں کا مرکز سمجھا جا سکے- انقلابات سلطنت حضرت امام علی نقی علیہ السّلام کے دور امامت میں معتصم کا انتقال ہوا اور واثق باللہ کی حکومت شروع ہوئی~0236ئھ میں واثق دنیا سے رخصت ہوا اور مشہور ظالم و سفاک دشمن اہل بیت علیہ السّلام متوکل تخت حکومت پر بیٹھا- ~0250ئھ میں متوکل ہلاک ہوا اور منتصر باللہ خلیفہ تسلیم کیا گیا- جو صرف چھ مہینہ سلطنت کرنے کے بعد مر گیا , اور مستعین بالله کی سلطنت قائم ہوئی . 353ئھ میں مستعین کو حکوت سے دست بردار ہو کر جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا اور معتز بالله بادشاہ ہوا . یہی امام علی نقی علیہ السّلام کے زمانے کااخری بادشاہ ہوا۔ الام ومصائب معتصم نے خواہ اپنی ملکی پریشانیوں کی وجہ سے جواسے رومیوں کی جنگ اور بغداد کے دارالسلطنت میں عباسیوں کے فساد وغیرہ کی وجہ سے درپیش تھیں اور خواہ امام علی نقی علیہ السّلام کی کمسنی کاخیال کرتے ہوئے بہر حال حضرت علیہ السّلام سے کوئی تعرض نہیں کیا اور آپ سکون واطمینان کے ساتھ مدینہ منورہ میں اپنے فرائض پورے کر نے میں مصروف رہے . معتصم کے بعد واثق نے بھی آپ کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا . مگر متوکل کاتخت سلطنت پر بیٹھنا تھا کہ امام علی نقی علیہ السّلام پر تکالیف کا سیلاب امڈ ایا . یہ واثق کابھائی او معتصم کابیٹا تھا , اور الِ رسول کی دشمنی میں اپنے تمام اباواجداد سے بڑھا ہوا تھا . اس سولہ برس میں جب سے امام علی نقی علیہ السّلام منصب امامت پر فائز ہوئے تھے آپ کی شہرت تمام مملکت میں پھیل چکی تھی اور تعلیمات اہل بیت علیہ السّلام کے پروانے اس شمع ُ ہدایت پر برابر ٹوٹ رہے تھے . ابھی متوکل کی سلطنت کو چار برس ہوئے تھے کہ مدینے کے حکام عبدالله بن حاکم نے امام علیہ السّلام سے مخالفت کا اغاز کیا . پہلے تو خود حضرت کو مختلف طرح کی تکلیفیں پہنچائیں پھر متوکل کو آپ کے متعلق اسی طرح کی باتیں لکھیں جیسی سابق سلاطین کے پاس آپ کے بزرگوں کی نسبت ان کے دشمنوں کی طرف سے پہنچائی جاتی تھیں . مثلاً یہ کہ حضرت علیہ السّلام اپنے گردو پیش اسباب ُ سلطنت جمع کررہے ہیں . آپ کے ماننے والے اتنی تعداد میں بڑھ گئے ہیں کہ آپ جب چاہیں حکومت کے مقابلہ کے لیے کھڑے ہوسکتے ہیں- حضرت کو اس تحریرکی بروقت اطلاع ہوگئی اور آپ نے اتمام حجت کے طور پراسی کے ساتھ متوکل کے پاس اپنی جانب سے ایک خط تحریر فرما دیا جس میں حال مدینہ کی اپنے ساتھ ذاتی مخالفت کا تذکرہ اور اس کی غلط بیانیوں کا اظہار فرمایا تھا- متوکل نے ازاراہ سیاست امام علی نقی علیہ السّلام کے خط کو وقعت دیتے ہوئے مدینہ کے اس حاکم کو معزول کر دیا مگر ایک فوجی رسالے کو یحیٰی بن ہرثمہ کی قیادت میں بھیج کر حضرت علیہ السّلام سے بظاہر دوستانہ انداز میں باصراریہ خواہش کی کہ آپ مدینہ سے درالسلطنت سامرا# تشریف لا کر کچھ دن قیام فرمائیں اور پھر واپس مدینہ تشریف لے جائیں- امام علیہ السّلام اس التجا کی حقیقت سے خوب واقف تھے اور جانتے تھے یہ نیاز مندانہ دعوت تشریف آوری حقیقت میں جلا وطنی کا حکم ہے مگر انکار کا کوئی حاصل نہ تھا- جب کہ انکار کے بعد اسی طلبی کے انداز کا دوسری شکل اختیار کر لینا یقینی تھا- اور اس کے بعد روانگی ناگزیر تھی- بے شک مدینہ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہونا آپ کے قلب کے لئے ویسا ہی تکلیف دہ ایک صدمہ تھا جسے اس کے پہلے حضرت امام حسین علیہ السّلام, امام موسٰی کاظم علیہ السّلام, امام رضا علیہ السّلام اور امام محمد تقی علیہ السّلام آپ کے مقدس اور بلند مرتبہ اجداد برداشت کر چکے تھے- وہ اب آپ کے لئے ایک میراث بن چکا تھا- پھر بھی دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ مدینہ سے روانگی کے وقت آپ کے تاثرات اتنے شدید تھے جس سے احباب و اصحاب میں ایک کہرام برپا تھا- متوکل کا عریضہ بارگاہ امام علیہ السّلام میں بڑے اخلاص اور اشتیاق قدم بوسی کا مظہر تھا- فوجی دستہ جو بھیجا گیا تھا وہ بظاہر سواری کے تزک و احتشام اور امام علیہ السّلام کی حفاظت کا ایک سامان تھا مگر جب حضرت علیہ السّلام سامرے میں پہنچ گئے اور متوکل کو اس کی اطلاع دی گئی تو پہلا ہی اس کا افسوسناک رویہ یہ تھا کہ بجائے امام علیہ السّلام کے استقبال یا کم از کم اپنے یہاں بلا کر ملاقات کرنے کے اس نے حکم دیا کہ حضرت کو »خاف الصعالیک« میں اتارا جائے,اس لفظ کے معنی ہی ہیں »بھیک مانگنے والے گداگروں کی سرائے« اس سے جگہ کی نوعیت کا پورے طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے یہ شہر سے دور ویرانے میں ایک کھنڈر تھا- جہاں امام علیہ السّلام کو فروکش ہونے پر مجبور کیا گیا- اگرچہ یہ مقدس حضرات خود فقرائ کے ساتھ ہم نشینی کو اپنے لئے ننگ و عار نہیں سمجھتے تھے اور تکلیفات ظاہری سے کنارہ کش رہتے تھے مگر متوکل کی نیت تو اس طرز عمل سے بہرحال تحقیر کے سوااور کوئی نہیں تھی- تین دن تک حضرت کا قیام یہاں رہا- اس کے بعد متوکل نے آپ کو اپنے حاجب رزاقی کی حراست میں نظر بند کر دیا اور عوام کے لئے آپ سے ملنے جلنے کو ممنوع قرار دیا- وہی بے گناہی اور حقانیت کی کشش جو امام موسٰی کاظم علیہ السّلام کی قید کے زمانہ میں سخت سے سخت محافظین کو کچھ دن کے بعد آپ کی رعایت پر مجبور کر دیتی تھی اسی کا اثر تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ بعد رزاقی کے دل پر امام علی نقی علیہ السّلام کی عظمت کا سکہ قائم ہو گیا اور وہ آپ کو تکلیف دینے کے بجائے آرام و راحت کے سامان بہم پہنچانے لگا مگر یہ بات زیادہ عرصہ تک متوکل سے چھپ نہیں سکتی تھی- اسے علم ہو گیا اور اس نے رزاقی کی قید سے نکل کر حضرت علیہ السّلام کو ایک دوسرے شخص سعید کی حراست میں دے دیا- یہ شخص بے رحم اور امام علیہ السّلام کے ساتھ سختی برتنے والا تھا- اسی لئے اس کے تبادلے کی ضرورت نہیں پڑی اور حضرت پورے بارہ برس اس کی نگرانی میں مقید رہے- ان تکالیف کے ساتھ جو اس قید میں تھے حضرت علیہ السّلام شب و روز عبادت الٰہی میں بسر کرتے تھے- دن بھر روزہ رکھنا اور رات بھر نمازیں پڑھنا معمول تھا- آپکا جسم کتنے ہی قید و بند میں رکھا گیا ہو مگر آپ کا ذکر چار دیواری میں محصور نہیں کیا جا سکتا تھا- نتیجہ یہ تھا کہ آپ تو تنگ و تاریک کوٹھڑی میں مقید تھے مگر آپ کا چرچہ سامرے بلکہ شاید عراق کے ہر گھر میں تھا اور اس بلند سیرت و کردار کے انسان کو قید رکھنے پر خلق خدا میں متوکل کے مظالم سے نفرت برابر پھیلتی جا رہی تھی- اب وہ وقت ایا کہ فتح بن خاقان باوجود الِ رسول سے محبت رکھنے کے صرف اپنی قابلیت اپنے تدبر اور اپنی دماغی وعملی صلاحیوتوں کی بنا پر متوکل کاوزیر ہوگیا , تو اس کے کہنے سننے سے متوکل نے امام علی نقی علیہ السّلام کی قیدکو نظر بندی سے تبدیل کردیا اور آپ کو ایک مکان دے کر مکان تعمیر کرنے اور اپنے ذاتی مکان میں سکونت کی اجازت دے دی مگر اس شرط سے کہ آپ سامرے سے باہر نہ جائیں اور سعید آپ کی نقل وحرکت اور مراسلات وتعلقات کی نگرانی کرتا رہے گا . اس دور میں بھی امام علیہ السّلام کااستغنائے نفس دیکھنے کے قابل تھا . باوجود دارلسلطنت میں مستقل طور پر قیام کے نہ کبھی متوکل کے سامنے کوئی درخواست پیش کی نہ کبھی کسی قسم کے ترحم یا تکریم کی خواہش کی وہی عبادت وریاضت کی زندگی جو قید کے عالم میں تھی . ا س نظر بندی کے دور میںبھی رہی . جو کچھ تبدیلی ہوئی تھی وہ ظالم کے رویّہ میں تھی . مظلوم کی شان جیسے پہلے تھی ویسی ہی اب بھی قائم رہی . اس زمانے میں بھی ایسا نہیںہوا کہ امام کو بالکل ارام وسکون کی زندگی بسر کرنے دی جاتی . مختلف طرح کی تکالیف سے آپ کے مکان کی تلاشی لی گئی کہ وہاں اسلحہ ہیں یا ایسے خطوط ہیں جن سے حکومت کی مخالفت کاثبوت ملتا ہے حالانکہ ایسی کوئی چیز ملی نہیں مگر یہ تلاشی ہی ایک بلند اور بے گناہ انسان کے لیے کتنی باعث تکلیف چیز ہے اس سے بڑھ کر یہ واقعہ کہ دربار شاہی میں عین اس وقت آپ کی طلبی ہوتی ہے جب کہ شراب کے دور چل رہے ہیں . متوکل اور تمام حاضرین دربار طرب ونشاط میں غرق ہیں . اس پر طرہ یہ کہ سرکش, بے غیرت اور جاہل بادشاہ حضرت علیہ السّلام کے سامنے جامِ شراب بڑھا کر پینے کی درخواست کرتا ہے . شریعت اسلام کے محافظ معصوم علیہ السّلام کو اس سے جو تکلیف پہنچ سکتی ہے وہ تیر وخنجر سے یقیناً زیادہ ہے مگر حضرت علیہ السّلام نے نہایت متانت اور صبروسکون کے ساتھ فرمایا کہ »مجھے ا س سے معاف کیجئے , میرا میرے اباواجداد کاخون اور گوشت اس سے کبھی مخلوط نہیں ہوا ہے.,, اگر متوکل کے احساسات میں کچھ بھی زندگی باقی ہوتی تو وہ اس معصومانہ مگر صر شکوہ جواب کا اثر کرتا مگر اس نے کہا کہ اچھا یہ نہیں تو کچھ گانا ہی ہم کو سنائیے . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا میں اس فن سے بھی واقف نہیں ہوں .,, اخر اس نے کہا کہ آپ کو کچھ اشعار جس طریقے سے بھی آپ چاہیں بہرحال پڑھنا ضرور پڑھیں گے . کوئی جذبات کی رو میں بہنے والا انسان ہوتا تو اس خفیف الحرکات بادشاہ کے اس حقارت انگیز یاتمسخر امیز برتاؤ سے متاثر ہو کر شاید اپنے توازن دماغی کو کھو دیتا مگر وہ کوہ ُ حلم ووقار , امام علیہ السّلام کی ہستی تھی جو اپنے کردار کو فرائض کی مطابقت سے تکمیل تک پہنچانے کی ذمہ دارتھی ,منہیات کے دائرہ سے نکل کر جب فرمائش اشعار سنانے تک پہنچی تو امام علیہ السّلام نے موعظہ وتبلیغ کے لیے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اپنے دل سے نکلی ہوئی پرُ صداقت اواز سے یہ اشعار پڑھنا شروع کردئے جنھوںنے محفل طرب میں مجلس وعظ کی شکل پیدا کردی . یا تو اعلٰی قلل الاجبال تحرسھم ارہے پہاڑ کی چوٹی پہ پہرے بٹھلا کر واستنز لوا بعد عز من معاقلھم بلند قلعوں کی عزت جو پست ہو کے رہی نادا ہم صارخ من بعد ماد فنوا صدا یہ ان کو دی ہاتف نے بعد دفن لحد این الوجوہ التی کانت مجعبة کہاں وہ چہرے ہیں جو تھے ہمیشہ زیر نقاب فافصح القبر عنھم حین سائلھم زبان حال سے بولے جواب میں مدفن قد طال ما اکلوا فیھا و ہم شربوا غذائیں کھائیں شرابیں جو پی تھیں حدے سوا غلب الرجال فما اغنتھم القلل بہادروں کی حراست میں بچ سکے نہ مگر الٰی مقابر ہم یا بکسما نزلوا تو کنج قبر میں منزل بھی کیا بری پائی این الاسیرة والتیجان والحلل کہاں ہیں تخت, وہ تاج اور وہ لباس جسد من دونھا تضرب الاستار و الکلل غبار جن پہ کبھی آنے دیتے تھے نہ حجاب تللک الوجوہ علیھا ادود تنتقل وہ رخ زمین کے کیڑوں کا بن گئے مسکن فاصبحوا بعد طول الاکل قد اکلوا نتیجہ اس کا ہے خود آج بن گئے وہ غذا اشعار کچھ ایسے حقیقی تاثرات کے ساتھ امام علیہ السّلام کی زبان سے ادا ہوئے تھے کہ متوکل کے عیش ونشاط کی بساط الٹ گئی . شراب کے پیالے ہاتھوں سے چھوٹ گئے اور تمام مجمع زارو قطار رونے لگا . یہاں تک کہ خود متوکل ڈاڑھیں مار مار کر بے اختیار رو رہا تھا . جوں ہی ڈارا ناموقوف ہوا اس نے امام علیہ السّلام کو رخصت کر دیا اور آپ اپنے مکان پر تشریف لے گئے . ایک اورنہایت شدید روحانی تکلیف جو امام علیہ السّلام کو اس دور میں پہنچی وہ متوکل کے تشدّد احکام تھے جو نجف اور کربلا کے زائرین کے خلاف ا س نے جاری کیے . اس نے یہ حکم دان تمام قلم رو حکومت میں جاری کردیا کہ کوئی شخص جناب امیر علیہ السّلام اور امام حسین علیہ السّلام کے روضوں کی زیارت کو نہ جائے , جو بھی اس حکم کی مخالفت کرے گا اس کا خون حلال سمجھا جائے گا- اتنا ہی نہیں بلکہ اس نے حکم دیا کہ نجف اور کربلا کی عمارتیں بالکل گرا کر زمین کے برابر کردی جائیں . تمام مقبرے کھود ڈالے جائیں اور قبر امام حسین علیہ السّلام کے گرد وپیش کی تمام زمین پر کھیت بودیئے جائیں . یہ ناممکن تھا کہ زیارت کے امتناعی احکام پر اہل بیت رسول کے جان نثار اسانی کے ساتھ عمل کرنے کے لیے تیار ہوجاتے . نتیجہ یہ ہوا کہ اس سلسلہ میںہزاروں بے گناہوں کی لاشیں خاک وخون میں تڑپتی ہوئی نظر ائیں کیا اس میں شک ہے کہ ان میں سے ہر ایک مقتول کا صدمہ امام علیہ السّلام کے دل پر اتنا ہی ہوا تھا جتنا کسی اپنے ایک عزیز کے بے گناہ قتل کیے جانے کاحضرت علیہ السّلام کو ہوسکتا تھا . پھر آپ تشدّد کے ایک ایسے ماحول میں گھیر رکھے گئے تھے کہ آپ وقت کی مناسبت کے لحاظ سے ان لوگوں تک کچھ مخصوص ہدایات بھی نہیں پہنچاسکتے تھے جو ان کے لیے صحیح فرائض شرعیہ کے ذیل میں اس وقت ضروری ہوں یہ اندوہناک صورتِ حال ایک دوبرس نہیں بلکہ متوکل کی زندگی کے اخری وقت تک برابر قائم رہی . اور سنیئے کہ متوکل کے دربار میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السّلام بن ابی طالب علیہ السّلام کی نقلیں کی جاتی تھی اور ان پر خود متوکل اور تمام اہل دربار ٹھٹے لگاتے تھے . یہ ایسا اہانت امیز منظر تھا کہ ایک مرتبہ خود متوکل کے بیٹے سے رہا نہ گیا . اس نے متوکل سے کہا کہ خیر آپ اپنی زبان سے حضرت علی علیہ السّلام کے بارے میں کچھ الفاظ استعمال کریں مگر جب آپ کو ان کا عزیز قرار دیتے ہیں تو ان کم بختوں کی زبان سے حضرت علی علیہ السّلام کے خلاف ایسی باتوں کو کیونکر گوارا کرتے ہیں اس پر بجائے کچھ اثر لینے کے متوکل نے اپنے بیٹے کافحش امیز تمسخر کیا اور دو شعر نظم کرکے گانے والوں کو دئیے جس میں خود اس کے فرزند کے لیے ماں کی گالی موجود تھی . گویّے ان شعروں کو گاتے تھے اور متوکل قہقے لگاتا تھا . اسی دور کا ایک واقعہ بھی کچھ کم قابل افسو س نہیں ہے ابن السکیت بغدادی علم نحوولغت کے امام مانے جاتے تھے اور متوکل نے اپنے دو بیٹوں کی تعلیم کے لیے انھیں مقرر کیا تھا . ایک دن متوکل نے ان سے پوچھا کہ تمھیں میرے ان دونوں بیٹوں سے زیادہ محبت ہے یا حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام سے ابن السکیت محبت اہل بیت علیہ السّلام رکھتے تھے اس سوال کو سن کر بیتاب ہوگئے اور انھوں نے متوکل کی انکھوں میں انکھیں ڈال کر بے دھڑک کہ دیا کہہ حسن علیہ السّلام وحسین علیہ السّلام کا کیا ذکر , مجھے تو علی علیہ السّلام کے غلام قمبررض کے ساتھ ان دونوں سے کہیںزیادہ محبت ہے . اس جواب کا سننا تھا کہ متوکل غصّے سے بیخود ہوگیا , حکم دیا کہ ابن السکیت کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے . یہی ہو اور اس طرح یہ ال ُ رسول کے فدائی درجہ شہادت پر فائز ہوئے . ان واقعات کابراہ راست جسمانی طور پر حضرت امام علی نقی سے تونہ تھا مگر بخدا ان کی ہر ہر بات ایک تلوار کی دھار تھی جو گلے پر نہیں دل پر چلا کرتی تھی , متوکل کاظالمانہ رویّہ ایسا تھا جس سے کوئی بھی دور یا نزدیک کا شخص ا س سے خوش یامطمئن نہیں تھا . حدیہ ہے کہ اس کی اولاد تک اس کی جانی دشمن ہوگئی تھی , چنانچہ اسی کے بیٹے منتصر# نے ا س کے بڑے مخصوص غلام باغر# رومی کو ملا کر خود متوکل ہی کی تلوار سے عین اس کی خواب گاہ میں اس کو قتل کرادیا . جس کے بعد خلائق کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور منتصرکی خلافت کا علان ہوگیا . منتصر# نے تخت ُ حکومت پر بیٹھتے ہی اپنے باپ کے متشد انہ احکاکم کو یکلخت منسوخ کردیا. نجف اور کربلا زیارت کے لیے عام اجازت دے دی اور ان مقدس روضوں کی کسی حد تک تعمیر کرادی . امام علی نقی علیہ السّلام کے ساتھ بھی اس نے کسی خاص تشدد کا مظاہرہ نہیں کی مگر منتصر کی عمر طولانی نہیں ہوئی . وہ چھ مہینہ کے بعد دنیا سے اٹھ گیا منتصر# کے بعد مستعین کی طرف سے امام علیہ السّلام کے خلاف کسی خاص بدسلوکی کا برتاوؤ نظر نہیںاتا . امام علیہ السّلام نے چونکہ مکان بنا کر مستقل قیام اختیار فرمالیا تھا اس لیے یا تو خود آپ ہی نے مناسب نہ سمجھا یا پھر ان بادشاہوں کی طرف سے آپ کے مدینہ واپس جانے کو پسند نہیںکیا گیا ہو . بہر حال جو بھی وجہ ہو قیام آپ کا سامرہ ہی میں رہا . اتنے عرصے تک حکومت کی طرف سے مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے علوم اہلبیت علیہ السّلام کے طلب گارذرا اطمینان کے ساتھ کثیر تعداد میںاپ سے استفادہ کے لیے جمع ہونے لگے جس کی وجہ سے مستعین# کے بعد معتز# کو پھر آپ سے صر خاش پیدا ہوئی اور اس نے آپ کی زندگی ہی کاخاتمہ کردیا . اخلاق واوصاف حضرت کی سیرت اوراخلاق وکمالات وہی تھے جو اس سلسلئہ عصمت کے ہر فرد کے اپنے اپنے دور میں امتیازی طور پر مشاہدہ میں اتے رہے تھے . قید خانے اور نظر بندی کاعالم ہو یا آزادی کا زمانہ ہر وقت اور ہر حال میں یاد الٰہی , عبادت , خلق ُ خدا سے استغنائ ثبات قدم , صبر واستقلال مصائب کے ہجوم میںماتھے پر شکن نہ ہونا دشمنوں کے ساتھ بھی حلم ومرّوت سے کام لینا ,محتاجوں اور ضرورت مندوں کی امداد کرنا یہی اورصاف ہیںجو امام علیہ السّلام علی نقی علیہ السّلام کی سیرت زندگی میں بھی نمایاں نظر اتے ہیں . قید کے زمانہ میں جہاں بھی آپ رہے آپ کے مصلے کے سامنے ایک قبر کھدی ہوئی تیار تھی . دیکھنے والوں نے جب ا س پر حیرت ودہشت کااظہار کیا تو آپ نے فرمایا میںاپنے دل میں موت کاخیال قائم رکھنے کے لیے یہ قبر اپنی نگاہوں کے سامنے تیار رکھتا ہوں . حقیقت میں یہ ظالم طاقت کو اس کے باطل مطالبہ اطاعت اور اس کے حقیقی تعلیمات کی نشرواشاعت کے ترک کردینے کی خواہش کا ایک خاموش اور عملی جواب تھا. یعنی زیادہ سے زیادہ سلاطین وقت کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ جان کا لے لینا مگر جو شخص موت کے لیے اتنا تیار ہو کہ ہر وقت کھدی ہوئی قبر اپنے سامنے رکھے وہ ظالم حکومت سے ڈر کر سرتسلیم خم کرنے پر کیونکر مجبور کیا جاسکتا ہے مگر اس کے ساتھ دنیوی سازشوں میں شرکت یاحکومت وقت کے خلاف کسی بے محل اقدام کی تیاری سے آپ کا دامن اس طرح بری رہا کہ باوجود دار سلطنت کے اندر مستقل قیام اور حکومت کے سخت ترین جاسوسی نظام کے کبھی آپ کے خلاف کوئی الزام صحیح ثابت نہیں ہوسکا اور کبھی سلاطین وقت کوکوئی دلیل آپ کے خلاف تشدد کے جواز کی نہ مل سکی باوجود یہ کہ سلطنت عباسیہ کی بنیادیں اس وقت اتنی کھوکھلی ہورہی تھیں کہ دارالسلطنت میں ہر روز ایک نئی سازش کافتنہ کھڑا ہوتا تھا . متوکل سے خود اس کے بیٹے منتصر کی مخالفت اور اس کے انتہائی عزیز غلام باغر# رومی کی اس سے دشمنی , منتصر کے بعد امرائے حکومت کاانتشار اور اخر متوکل کے بیٹوں کوخلافت سے محروم کرنے کا فیصلہ مستعین کے دور ُ حکومت میں یحییٰ بن عمر بن یحییٰ حسین بن زید علوی کا کوفہ میں خروج اور حسن بن زید المقلب بداعی الحق کا علاقہ , طبرستان پر قبضہ کرلینا اور مستقل سلطنت قائم کر لینا , پھر دار السلطنت میں ترکی غلاموں کی بغاوت مستعین کاسامرے کو چھوڑ کر بغدادکی طرف بھاگنا اور قلعہ بند ہوجانا , اخر کو حکومت سے دستبرادی پر مجبور ہونا او کچھ عرصہ کے بعد معتز بالله کے ہاتھ سے تلوار کے گھاٹ اترنا پھر معتزبالله کے دور میں رومیوں کا مخالفت پر تیار رہنا, معتزبالله کو خود اپنے بھائیوں سے خطرہ محسوس ہونا اور موید# کی زندگی کا خاتمہ اور موفق کا بصرہ میں قید کیا جانا- ان تمام ہنگامی حالات, ان تمام شورشوں, ان تمام بے چینیوں اور جھگڑوں میں سے کسی میں بھی امام علی نقی علیہ السّلام کی شرکت کا شبہ تک نہ پیدا ہونا کیا اس طرز عمل کے خلاف نہیں ہے جو ایسے موقعوں پر جذبات سے کام لینے والے انسانوں کا ہوا کرتا ہے- ایک ایسے اقتدار کے مقابلے میں جسے نہ صرف وہ حق و انصاف کی رو سے ناجائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کی بدولت انہیں جلاوطنی, قید اور اہانتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر وہ جذبات سے بلند اور عظمت نفس کا کامل مظہر دینوی ہنگاموں اور وقت کے اتفاقی موقعوں سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا اپنی بے لوث حقانیت اور کوہ سے بھی گراں صداقت کے خلاف سمجھتا ہے اور مخالف پرپس پشت سے حملہ کرنے کو اپنے بلند نقطئہ نگاہ اور معیارعمل کے خلاف جانتے ہوئے ہمیشہ کنارہ کش رہتا ہے۔ وفات معتز باللّٰہ کے دور میں تیسری رجب ~0254ئھ کو سامرے میں آپ نے رحلت فرمائی۔ اس وقت آپ کے پاس صرف آپ کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السّلام موجود تھے- آپ ہی نے اپنے والد بزرگوار کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ کے فرائض انجام دیئے اور اسی مکان میں جس میں حضرت علیہ السّلام کا قیام تھا۔ ایوان خاص میں آپ کو دفن کر دیا وہیں اب آپ کا روضہ بنا ہوا ہے اور عقیدت مند زیارت سے شرف یاب ہوتے ہیں۔ 11) حضرت امام حسن علی عسکری علیہ السلام حضرت حسن عسکری، حضرت علی نقی کے فرزند اور اہلِ تشیع کے گیارہویں امام تھے. ابو محمد علیہ السّلام کنیت حسن علیہ السّلام نام اور سامرہ کے محلہ عسکر میں قیام کی وجہ سے عسکری علیہ السّلام مشہور لقب ہے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام اور والدہ سلیل خاتون تھیں جو عبادت , ریاضت عفت اور سخاوت کے صفات میں پانے طبقے کے لیے مثال کی حیثیت رکھتی تھیں . ولادت 08 ربیع الثانی 232ھ مدینہ منورہ میں ہوئی۔ نشوو نما اور تربیت بچپن کے گیارہ سال تقریباً اپنے والد بزرگوار کے ساتھ وطن میں رہے جس کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ زمانہ اطمینان سے گزرا۔ اس کے بعد امام علی نقی علیہ السّلام کو سفر عراق درپیش ہوگیا اور تمام متعلقین کے ساتھ ساتھ امام حسن عسکری علیہ السّلام اسی کم سنی کے عالم میں سفر کی زحمتوں کو اٹھا کر سامرے پہنچے۔ یہاں کبھی قید کبھی آزادی , مختلف دور سے گزرنا پڑا مگر ہر حال میں آپ اپنے بزرگ مرتبہ باپ کے ساتھ ہی رہے۔ اس طرح باطنی اور ظاہری طور پر ہر حیثیت سے آپ علیہ السّلام کو اپنے والد بزرگوار کی تربیت وتعلیم سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کا موقع مل سکا۔ زمانہ امامت 254ھجری میں آپ کی عمر بائیس برس کی تھی جب آپ کے والد بزرگوار حضرت امام علی نقی علیہ السّلام کی وفات ہوئی حضرت علیہ السّلام نے اپنی وفات سے چار مہینہ قبل آپ کے متعلق اپنے وصی وجانشین ہونے کااظہار فر ما کر اپنے اصحاب کی گواہیاں لے لی تھیں۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام حسن عسکری علیہ السّلام کے متعلق جنھیں آپ باوجود شدیدمشکلات اور سخت ترین ماحول کے ادا فرماتے رہے۔ سلاطین وقت اور ان کا رویہ جیسا کہ ا س سے پہلے ضمناً بیان ہوا امام حسن عسکری علیہ السّلام کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ ان تمام تکالیف اور مصائب میںبھی شریک رہے جو آپ کے والد بزرگوور کو حراست اور نظر بندی کے ذیل میں بھی متعدد بار برداشت کرنا پڑے۔ ا س کے بعد جب آپ کا دور ُ امامت شروع ہوا ہے تو سلطنت بنی عباس کے تخت پر معتز بالله عباسی کا قیام تھا۔ معتز کی معزولی کے بعد مہدی# کی سطنت ہوئی۔ گیارہ مہینے چند روز حکومت کرنے کے بعد اس کا خاتمہ ہوا اور معتمد#کی حکومت قائم ہوئی , ان میں سے کوئی ایک بادشاہ بھی ایسا نہ تھا جس کے زمانہ میں امام حسن عسکری علیہ السّلام کو ارام وسکون ملتا , باوجود یہ کہ اس وقت بنی عباس بڑی سخت الجھنوں او رپیچیدگیوں میںگرفتار تھی مگر ان تمام سیاسی مسائل اور مشکلات کے ساتھ ہر حکومت نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کو قید وبند میں رکھنا سب سے زیادہ ضروری سمجھا۔ اس کا خاص سبب رسول خدا کی یہ حدیث تھی کہ میرے بعد بارہ جانشین ہو ں گے اور ان میں سے اخری مہدی اخر الزمان اور قائمِ الِ محمد ہوگا۔ یہ حدیث برابر متواتر طریقہ سے عالم ُ اسلام میں گردش کرتی رہی تھی۔ خلفائے بنی عباس خوب جانتے تھے کہ سلسلہ الِ محمد کے وہ افراد جو رسول کی صحیح جانشینی کے مصداق ہوسکتے ہیں وہ یہی افراد ہیں جن میں سے گیارہویں ہستی امام حسن عسکری علیہ السّلام کی ہے اس لیے ان ہی کا فرزند وہ ہوسکتا ہے جس کے بارے میں رسول کی پشین گوئی صحیح قرارپاسکے۔ لٰہذا کوشش یہ تھی کہ ان کی زندگی کادنیا سے خاتمہ ہوجائے اس طرح کہ ان کا کوئی جانشین دنیا میں موجود نہ ہو۔ یہ سبب تھاکہ امام حسن عسکری علیہ السّلام کے لیے اس نظر بندی پر اکتفا نہیں کی گئی جو امام علی نقی علیہ السّلام کے لیے ضروری سمجھی گئی تھی بلکہ آپ کے لیے اپنے گھربار سے الگ قید تنہائی کو ضروری سمجھا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ قدرتی انتظام کے تحت درمیان میں انقلاب سلطنت کے وقفے آپ کی قیدمسلسل کے بیچ میں قہری رہائی کے سامان پیدا کردیتے تھے مگر پھر بھی جو بادشاہ تخت سلطنت پر بیٹھتا تھا وہ اپنے پیش رو کے نظریہ کے مطابق آپ کو دوبارہ قید کرنے پر تیار ہوجاتا تھا. اس طرح آپ کی مختصر زندگی جو دور ُ امامت کے بعد اس کا بیشتر حصہ قید وبند ہی میں گزرا. اس قید کی سختی معتمد کے زمانے میں بہت بڑھ گئی تھی , اگر چہ وہ قتل دیگر سلاطین کے آپ کے مرتبہ اور حقانیت سے خوب واقف تھا چنانچہ جب قحط کے موقع پر ایک عیسائی راہب کے دعوے کے ساتھ پانی برسانے کی وجہ سے مسلمانوں میں ارتداد کا فتنہ برپا ہوا اور لوگ عیسائت کی طرف دوڑنے لگے تو مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے کے لیے وہ امام حسن عسکری علیہ السّلام ہی تھے جو قید خانے سے باہر لائے گئے ,آپ نے مسلمانوں کے شکوک کو دور کرکے انھیں اسلام کے جادہ پر قائم رکھا۔ اس واقعہ کااثر اتنا ہوا کہ اب معتمد کو آپ کے پھر اسی کو قید خانے میں واپس کرنے میں خجالت دامنگیر ہوئی۔ اس لیے آپ کی قید کو آپ کے گھر میں نظر بندی کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا مگر آزادی پھر بھی نصیب نہ ہوسکی۔ سفرائ کاتقرر ائمہ اہل بیت جس حال میں بھی ہوں ہمیشہ کسی نہ کسی صورت سے امامت کے فرائض کو انجام دیتے رہتے تھے۔ امام حسن عسکری علیہ السّلام پر اتنی شدید پابندیاں عائد تھیں کہ علوم ُ اہل بیت علیہ السّلام کے طلبگاروں اور شریعت ُ جعفری کے مسائل دریافت کرنے والوں کا آپ تک پہنچنا کسی صور ت ممکن نہیں تھا۔ اس لیے حضرت علیہ السّلام نے اپنے زمانہ میں یہ انتظام کیا کہ ایسے افراد جو امانت ودیانت نیزعلمی و فقہی بصیرت کے اس درجہ حامل تھے کہ امام علیہ السّلام کے محل اعتماد ہوسکیں انھیں اپنی جانب سے آپ نے نائب مقرر کر دیا تھا۔یہ حضرات جہاں تک کہ خود اپنے واقفیت کے حدود میںدیکھتے تھے اس حد تک مسائل خود ہی بتادیتے تھے اور وہ اہم مسائل جوان کی دسترس سے باہر ہوتے تھے انھیں اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے او ر کسی مناسب موقع پر امام علیہ السّلام کی خدمت میں رسائی حاصل کرکے ان کو حل کرالیتے تھے کیونکہ ایک شخص کا کبھی کبھی امام علیہ السّلام سے ملاقات کو اجانا حکومت کے لیے اتنا ناقابل برداشت نہیںہوسکتا تھا جتنا کہ عوام کی جماعتوں کو مختلف اوقات میں حضرت علیہ السّلام تک پہنچنا. ان ہی سفرائ کے ذریعے سے ایک اہم خدمت بھی انجام پائی جاتی تھی. وہ یہ کہ خمس جو حکومت ُ الٰہیہ کے نمائندہ ہونے کی حیثیت سے اس نظام ُحکومت کو تسلیم کرنے والے ہمیشہ ائمہ معصومین علیہ السّلام کی خدمت میںپہنچاتے رہے او ران بزرگوں کی نگرانی میں وہ ہمیشہ دینی امور کے انصرام اور سادات کی تنظیم وپرورش میں صرف ہوتا رہا اب وہ راز دارانہ طریقہ پر ان ہی نائبوں کے پاس اتا تھا اور یہ امام علیہ السّلام سے ہدایت حاصل کرکے انھیں ضروری مصارف میںصرف کرتے تھے یہ افراد اس حیثیت میں بڑے سخت امتحان کی منزل میں تھے کہ ان کو ہ وقت سلطنت وقت کے جاسوں کی سراغرسانی کا ا ندیشہ رہتا تھا۔ اسی لیے عثمانرض بن سعید اور ان کے بیٹے ابو جعفر محمدرض بن عثمان نے جو امام حسن عسکری علیہ السّلام کے ممتاز نائب تھے ا ور عین دارلسلطنت بغداد میں مقیم تھے اپنے اس متعلقہ افراد کی امدورفت کو حق بجانب قرار دینے کے لیے ایک بڑی دکان روغنیات کی کھول رکھی تھی۔ اس طرح حکومت جو رکے شدید شکنجہ ظلم کے اندر بھی حکومتِ الٰہیہ کا ائینی نظام چل رہا تھا اور حکومت کا کچھ بس نہ چلتا تھا۔ اخلاق واوصاف آپ اسی سلسلہ عصمت کی ایک لڑی تھے جس کا ہر حلقہ انسانی کمالات کے جواہر سے مرصع تھا , علم وحلم , عفو وکرم , سخاو ت وایثار سب ہی اوصاف بے مثال تھے۔ عبادت کا یہ عالم تھا کہ ا س زمانے میں بھی کہ جب آپ سخت قید میں تھے معتمد نے جس سے آپ کے متعلق دریافت کیا یہی معلوم ہوا کہ آپ دن بھر روزہ رکھتے ہیں اور رات بھر نمازیں پڑھتے ہیں اور سوائے ذکر الٰہی کے کسی سے کوئی کلام نہیں فرماتے , اگرچہ آپ کو اپنے گھر پر آزادی کے سانس لینے کا موقع بہت کم ملا۔ پھر بھی جتنے عرصہ تک قیام رہا اور دور دراز سے لوگ آپ کے فیض و عطا کے تذکرے سن کر اتے تھے اور بامراد واپس جاتے تھے۔آپ کے اخلاق واوصاف کی عظمت کا عوام وخواص سب ہی کے دلوں پر سکہ قائم تھا۔ چنانچہ جب احمد بن عبدالله بن خاقان کے سامنے جو خلیفہ عباسی کی طرف سے شہر قم کے اوقات وصدقات کے شعبہ کا افسر اعلیٰ تھا سادات علوی کاتذکرہ اگیا تو وہ کہنے لگا کہ مجھے کوئی حسن علیہ السّلام عسکری سے زیادہ مرتبہ اور علم دورع , زہدو عبادت ,وقار وہیبت , حیاوعفت , شرف وعزت اور قدرومنزلت میں ممتاز اور نمایاں نہں معلوم ہوا۔ اس وقت جب امام علیہ السّلام علی نقی علیہ السّلام کا انتقال ہوا اور لوگ تجہیز وتکفین میں مشغول تھے تو بعض گھر کے ملازمین نے اثاث اللبیت وغیرہ میں سے کچھ چیزیں غائب کردیں اور انھیںخبر تک نہ تھی کہ امام علیہ السّلام کو اس کی اطلاع ہوجائے گی۔ جب تجہیز اور تکفین وغیرہ سے فراغت ہوئی تو آپ نے ان نوکروں کو بلایا اور فرمایا کہ جو کچھ پوچھتا ہوں اگر تم مجھ سے سچ سچ بیان کرو گے تو میں تمھیں معاف کردوں گا اور سزا نہ دوں گا لیکن اگر غلط بیانی سے کام لیا تو پھر میں تمھارے پاس سے سب چیزیں بر امد بھی کرالوں گا اور سزا بھی دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے ہر ایک سے ان اشیا ئ کے متعلق جو اس کے پا س تھیں دریافت کیا اور جب انھوں نے سچ بیان کر دیا تو ان تمام چیزوں کو ان سے واپس لے کر آپ نے ان کو کسی قسم کی سزا نہ دی اور معاف فرمادیا۔ علمی مرکزیت باوجود یہ کہ آپ کی عمر بہت مختصر ہوئی یعنی صرف اٹھائیس بر س مگر اس محدود اور مشکلات سے بھری ہوئی زندگی میں بھی آپ کے علمی فیوض کے دریا نے بڑے بڑے بلند پایہ علمائ کو سیراب ہونے کا موقع دیا نیز زمانے کے فلاسفہ کا جو دہریت اور الحاد کی تبلیغ کر رہے تھے مقابلہ فرمایا جس میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ان میں ایک اسحٰق کندی کاواقعہ یہ ہے کہ یہ شخص قران مجید کے ایات کے باہمی تناقص کے متعلق ایک کتاب لکھ رہاتھا۔ یہ خبر امام حسن عسکری علیہ السّلام کو پہنچی اور آپ موقع کے منتظر ہو گئے۔اتفاق سے ایک روز ابو اسحٰق کے کچھ شاگرد آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں کوئی اتنا سمجھدارادمی نہیں جو اپنے استاد کندی کو ا س فضول مشغلے سے روکے جو انھوں نے قران کے بارے میں شروع کر رکھا ہے , ان طلاّب نے کہا , حضور ! ہم تو ان کے شاگرد ہیں , ہم بھلا ان پر کیا اعتراض کرسکتے ہیں ? حضرت علیہ السّلام نے فرمایا ! اتنا تو تم کرسکتے ہو جو کچھ باتیں میں تمھیں بتاؤں وہ تم ان کے سامنے پیش کردو , طلاب نے کہا !جی ہاں ہم اتنا کرسکتے ہیں۔ حضرت نے کچھ ایتیں قران کی جن کے متعلق باہمی اختلاف کا تو ہم ّ ہورہا تھا پیش فرما کر ان سے کہا کہ تم اپنے استاد سے اتنا پوچھو کہ کیا ان الفاظ کے بس یہی معنی ہیں جن کے لحاظ سے وہ تنا قص ثابت کررہے ہیں اور اگر کلام ُ عرب کے شواہد سے دوسرے متعارف معنٰی کل ائیں جن کے بنا پر الفاظ قران میں باہم کوئی اختلافات نہ رہے تو پھر انھیں کیا حق ہے کہ وہ اپنے ذہنی خود ساخة معنی کو متکلم قرآنی کی طرف منسوب کرکے تناقص واختلاف کی عمارت کھڑی کریں , اس ذیل میں آپ نے کچھ شواہد کلامِ عرب کے بھی ان طلاّب کے ذہن نشین کرائے۔ ذہین طلاّ ب نے وہ پوری بحث اور شواہد کے حوالے محفوظ کرلیے اور اپنے استاد کے پاس جا کر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد یہ سوالات پیش کر دیئے۔آدمی بہرحال وہ منصف مزاج تھا اس نے طلاّ ب کی زبانی وہ سب کچھ سنا اور کہا کہ یہ باتیں تمہاری قابلیت سے بالا تر ہیں۔ سچ سچ بتانا کہ یہ تمھیں معلوم کہاں سے ہوئیں پہلے تو ان طالب علموں نے چھپانا چاہا اور کہا کہ یہ چیزیں خو د ہمارے ذہن میں ائی ہیں مگر جب اس نے سختی کے ساتھ انکار کیا کہ یہ ہو ہی نہیںسکتا تو انھوں نے بتایا کہ ہمیں ابو محمد, حسن عسکری علیہ السّلام نے یہ باتیں بتائی ہیں یہ سن کر اس نے کہا کہ سوائے اس گھرانے کے اور کہیں سے یہ معلومات حاصل ہی نہیں ہوسکتے تھے۔پھر اس نے اگ منگوائی اور جو کچھ لکھا تھا ,نذر اتش کردیا ایسے کتنے ہی علمی اور دینی خدمات تھے جو خاموشی کے ساتھ انجام پارہے تھے اور حکومت وقت جو محافظت اسلام کی دعویدار تھی۔ اپنے عیش وطرب کے نشے میں مدہوش تھی یا پھر چونکتی تھی بھی تو ایسے مخلص حامی اسلام کی طرف سے اپنی سلطنت کے لیے خطرہ محسوس کرکے ان پر کچھ پابندیاں بڑھادیئے جانے کے احکام نافذ کرتی تھی , مگر اس کو هِ گراں کے صبرو استقال میںفرق نہ ایا تھا۔ جو امع حدیث میں محدثین اسلام نے آپ کی سند سے احادیث نقل کیے ہیں ان میں سے ایک خاص حدیث شراب خواری کے متعلق ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ شارب الخمر کعابد الصنم«» شراب پینے والا مثل بت پرست کے ہے۔,, اس کو ابن الجوزی نے اپنی کتاب تحریم الخمر میںسند ُ متصل کے ساتھ درج کیا ہے اور ابو نعیم فضل بن وکیل نے کہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ثابت ہے جس کی اہلبیت علیہ السّلام طاہرین نے روایت کی ہے اور صحابہ میں سے ایک گروہ نے بھی اس کی رسول خدا سے روایت کی ہے جیسے ابن عباس , ابو ہریرہ , احسان بن ثابت , سلمی اور دوسرے حضرات۔ سمعانی نے کتاب النساب میںلکھا ہے کہ »ابو محمد احمد بن ابراہیم بن ہاشم علوی بلاذری حافظ واعظ نے مکہ معظمہ میں امام اہل بیت ابو محمد حسن بن علی بن محمد بن علی موسیٰ الرضا علیہ السّلام سے احادیث سن کر قلم بند کیے -,, ان کے علاوہ حضرت علیہ السّلام کے تلامذہ میں سے چند باوقار ہستیوں کے نام درج ذیل ہیں جن میں سے بعض نے حضرت علیہ السّلام کے علمی افادات کو جمع کرکے کچھ کتابیں بھی تصنیف کیں۔ ~01۔ ابو ہاشم داؤد بن قاسم جعفری سن رسیدہ عالم تھے. انھوں نے امام رضا علیہ السّلام سے امام حسن عسکری علیہ السّلام تک چار اماموں کی زیارت کی اور ان بزرگواروںسے فیوض بھی حاصل کیے وہ امام علیہ السلام کی طرف سے نیابت کے درجہ پر فائز تھا. ~02۔ داؤد بن ابی زید نیشاپوری امام علی نقی علیہ السّلام کے بعد امام حسن عسکری علیہ السّلام کی صحبت سے شرف یاب ہوئے۔ ~03۔ ابو طاہر محمد بن علی بن بلال۔ ~04. ابو العباس عبدالله بن جعفر حمیری قمی بڑے بلند پائہ عالم بہت سی کتابوں کے مصنف تھے۔جن سے قرب السناد کتاب اس وقت تک موجود ہے اور کافی# وغیرہ کے ماخذوں میںسے ہے۔ ~05۔ محمد بن احمد جعفر قمی حضرت علیہ السّلام کے خاص نائبین میں سے تھے۔ ~06۔ جعفر بن سہیل صقیل۔ یہ بھی نائب خاص ہونے کا شرف رکھتے تھے۔ ~07۔ محمد بن حسن صفارقمی , بڑے بلند مرتبہ کے عالم متعدد کتابوں کے مصنف ہیں جن میں سے بصائر الدرجات مشہور کتاب ہے , انھوں نے امام حسن عسکری علیہ السّلام کی خدمت میں تحریر ی مسائل بھیج کر ان کے جوابات حاصل کیے۔ ~08. ابو جعفر ہامنی برمکی نے امام حسن عسکری علیہ السّلام سے مسائل ُ فقہ کے جوابات حاصل کرکے کتاب مرتب کی۔ ~09۔ ابراہیم بن ابی حفص ابو اسحٰق کاتب حضرت علیہ السّلام کے اصحاب میں سے ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ ~010۔ ابراہیم بن مہر یار مصنف کتاب البشارت۔ ~011۔ احمد بن ابراہیم بن اسمعٰیل بن داؤد بن حمدان الکاتب الندیم علم لغتوادب کے مسلّم استاد تھے اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے , حضرت امام حسن عسکری علیہ السّلام سے خاص خصوصیت رکھتے تھے. ~012۔ احمد بن اسحٰق الاشعری ابو علی القمی بڑے پایہ کے مستند ومسلّم عالم تھے,ان کی تصانیف میں سے علل الصوم اور دیگر متعدد کتابیں تھیں۔یہ چند نام بطور مثال درج کیے گئے ہیں اگر تمام ان افراد کاتذکرہ کیا جائے تو اس کے لیے مستقل تصنیف کی ضرورت ہے , خصوصیت کے ساتھ تفسیر قران میں ابو علی حسن بن خالد بن محمد بن علی برقی نے آپ کے افادیت سے ایک ضخیم کتاب لکھی جسے حقیقت میں خود حضرت علیہ السّلام ہی کی تصنیف سمجھنا چاہیے یعنی حضرت علیہ السّلام بولتے جاتے تھے اور وہ لکھتے جاتے تھے , علمائ نے لکھا ہے کہ یہ کتاب ایک سوبیس اجزا پر مستمل تھی۔ افسوس ہے کہ یہ علمی ذخیرہ اس وقت ہاتھوں میں موجود نہیںہے۔ممکن ہے وہ اسی سے ماخوذ ہوں لیکن ایک کتاب جو تفسیر اما م حسن عسکری علیہ السّلام کے نام سے شائع شدہ موجود ہے اگر وہ مذکورہ بالاذخیرئہ علمی سے الگ ہے۔ اس کا پتہ صرف چوتھی صدی ہجری سے چلتا ہے اور شیخ صدوق محمد بن بابو یہ قمی رحمة الله نے اس کو معتبر سمجھا ہے مگر ان کے پیش رو افراد جن سے موصوف نے اس تفسیر کو نقل کیا ہے بالکل مجہول الحال ہیں۔ بہرحال اس تفسیر کے متعلق علامہ رجال مطمئن نہیں ہیں۔ جہاں تک غور کیا جاتا ہے اس کی نسبت امام حسن عسکری علیہ السّلام طرف صحیح نہیں معلوم ہوتی , ہاں بے شک آپ کا ایک طویل مکتوب اسحٰق بن اسمٰعیل اشعری کے نام اور کافی ذخیرہ مختصر حکیمانہ مقولات اور مواعظ وتعلیمات کتاب تحف العقول میں محفوظ ہے جو اس وقت بھی اہل نظر کے لیے سرمئہ چشم بصیرت ہے۔ یہ علمی کارنامے اس حالت میںہیں جب کہ مجموعی عمر آپ کی 28 برس سے زیادہ نہ ہوسکی اور اپنے والد بزرگوار کے بعد صرف چھ برس امامت کے منصب پر فائز رہے اور وہ بھی ان مشکلات کے شکنجہ میں جن کاتذکرہ ہوچکا ہے۔ وفات اتنے علمی و دینی مشاغل میں مصروف انسان کو کہیں سلطنت وقت کے ساتھ مزاحمت کا کوئی خیال پیدا ہوسکتا ہے مگر ان کابڑھتا ہو روحانی اقتدار اور علمی مرجعیت ہی تو ہمیشہ ان حضرات کو سلاطین کے لیے ناقابل ُبرداشت ثابت کرتی رہی۔ وہی اب بھی ہوااور معتمد عباسی کے بھجوائے ہوئے زہر سے 8 ربیع الاوّل 260ھ میں آپ نے شہادت پائی اور اپنے والد بزرگوار کی قبر کے پاس سامرے میں دفن ہوئے جہاں حضرت علیہ السّلام کاروضہ باوجود نامواف ق ماحول کے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔ 12) حضرت امام مھدی علیہ السلام امام مہدی کا تصور اسلام میں احادیث کی بنیادوں پر امت مسلمہ اور تمام دنیا کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے؛ اور سنیوں میں ان کے آخرت یا قرب قیامت کے نزدیک نازل ہونے کے بارے میں متعدد روایات پائی جاتی ہیں جبکہ شیعوں کے نزدیک حضرت امام مہدی علیہ السلام، امام حسن عسکری کے فرزند اور اہلِ تشیع کے آخری امام ہیں۔ حضرت امام مہدی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات تمام مستند کتب مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں ملتے ہیں۔ حدیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ ان کے وجود کے بارے میں مسلمان متفق ہیں اگرچہ اس بات میں اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف ہے کہ آیا وہ پیدا ہو چکے ہیں یا نہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کرکے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں عقائد تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں ملتے ہیں جو آخرِ دنیا میں خدا کی سچی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں متعدد مذاہب میں پیشینگوئیاں بھی ملتی ہیں اور الہامی کتب میں بھی یہ ذکر شامل ہے۔ مسلمانوں کے عقائد کے مطابق یہ شخص امام مہدی ہوں گے اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور بھی ہوگا اور یہ دونوں علیحدہ شخصیات ہیں۔ ان کی آمد اور ان کی نشانیوں کی تفصیل حدیث میں موجود ہے پھر بھی اب تک مہدویت کے کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے اور فنا ہو گئے۔ سچے مہدی کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا نہ دعوی کریں گے نہ اعلان۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں۔ اگر دنیا کی عمر ختم ہو گئی ہو اور قیامت میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہو تو خدا اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ اس میں میرے اھلِ بیت میں سے ایک شخص کی حکومت قائم ہو سکے گی جو میرا ہم نام ہوگا ۔ وہ دنیا کو عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح اس سے پہلے وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔

حوالہ جات[ترمیم]