تقی الدین محمد ابن احمد الفاسی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
امام تقی الدین محمد ابن احمد الفاسی
(عربی میں: مُحمَّد بن أحمد بن علي الفاسي المكِّي المالكي الحسني ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشی نام تقی الدین محمد بن احمد الفاسی
پیدائش جمعرات 20 ربیع الاول 775ھ/ 8 ستمبر 1373ء
مکہ مکرمہ، حجاز، موجودہ سعودی عرب
وفات بدھ 4 شوال 832ھ/ 6 جولائی 1429ء
(57 سال قمری، 55 سال شمسی)
مکہ مکرمہ، حجاز، موجودہ سعودی عرب
مدفن مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب مالکی
عملی زندگی
استاذ حافظ ابن حجر عسقلانی،  مجد الدین فیروز آبادی،  عبد الرحیم عراقی  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث،  مورخ،  فقیہ،  مصنف  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین
باب ادب

امام تقی الدین محمد ابن احمد الفاسی (پیدائش: 8 ستمبر 1373ء— وفات: 6 جولائی 1429ء) مالکی عالم، محدث و مؤرخ ہیں۔ وہ 775ھ/ 1373ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور 832ھ میں مکہ میں وفات پائی۔ وہ بیک وقت محدث و مؤرخ تھے۔ اُن کی محدثانہ تصانیف ہنوز علمائے حدیث کے لیے شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ بحیثیت مؤرخ اُن کی تصنیف العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین نمایاں حیثیت رکھتی ہے جو مکہ کی تاریخ میں الفاکہی اور الاذرقی کے بعد نہایت محققانہ و تحقیقی کتاب تحریر کی گئی۔

نام ونسب[ترمیم]

الفاسی کا مکمل نام 'مام تقی الدین محمد بن احمد بن علی المکی الحسنی المالکی ہے۔ صاحب شذرات الذھب ابن العماد الحنبلی نے نام یوں لکھا ہے: الحافظ تقی الدین ابو الطیب محمد بن احمد بن علی الفاسی المکی المالکی۔[2]

الفاسی کا مقام و حیثیت[ترمیم]

الفاسی بحیثیتِ قومیت عرب ہیں اور مکہ المکرمہ میں ولادت کے باعث المکی کہلاتے ہیں۔ الفاسی اپنے عہد میں مکہ المکرمہ میں محدث، فقیہ، عالم، مورخ، مالکی قاضی تھے۔[3] وہ اپنے خاندانی روابط اور تربیت کے سبب اپنی زندگی بھر کے کارناموں سے اپنے پیدائشی شہر مکہ المکرمہ کے اہم ترین مورخ بننے کے خاص طور پر اہل تھے جو آٹھویں صدی ہجری کے مورخین کی فہرست میں مورخ مکہ کے لقب سے مشہور ہوئے۔

ولادت[ترمیم]

الفاسی کی ولادت بروز جمعرات 20 ربیع الاول 775ھ مطابق 8 ستمبر 1373ء کو مکہ المکرمہ میں ہوئی۔[4][5]

والدین و اِبتدائی حالات[ترمیم]

الفاسی کے والد احمد بن علی تھے جن کی ولادت 754ھ/ 1353ء میں ہوئی اور 65 سال کی عمر میں 819ھ/ 1416ء میں فوت ہوئے۔ الفاسی کے سال ولادت 775ھ میں اُن کے والد کا سن 21 سال کا تھا۔819ھ میں الفاسی 44 سال کے تھے جب اُن کے والد کا اِنتقال ہوا۔ الفاسی کی والدہ مکہ المکرمہ کے قاضی القضاۃ ابو الفضل محمد بن احمد بن عبد العزیز النُّوَیری کی دختر تھیں۔ الفاسی کی والدہ کا الفاسی کے والد احمد سے یہ عقد ثانی تھا۔ اُن کی پہلی دختر جو مورخ الفاسی کی سوتیلی بہن تھیں کا عقد امیر مکہ المکرمہ حسن بن عَجْلان سے ہوا تھا۔[6]

تحصیل علم[ترمیم]

الفاسی زمانہ لڑکپن میں مدینۃ المنورۃ میں مقیم رہ چکے تھے، تحصیل علم کے واسطے 796ھ مطابق 1393ء- 1394ء میں وہ دوبارہ مدینۃ المنورہ علم الحدیث و علم التاریخ کے اکتساب کے واسطے پہنچے جہاں انھوں نے مالکی فقیہ و مورخ علامہ ابن فرحون سے مورخ مدینۃ المنورۃ اَلمَطری کی تاریخ مدینہ پڑھی۔ علامہ ابن فرحون نے طبقات المالکیہ کے علما و فقیہ حضرات کی سوانح حیات لکھی ہے۔ ابن فرحون کے بعد انھوں نے مورخ امام الذھبی کے فرزند ابوہریر سے دمشق میں اور قاہرہ مصر میں مورخ ابن خلدون سے علم حاصل کیا۔ الفاسی ابن خلدون کواپنی تصانیف میں "ہمارے شیخ" لکھتے ہیں۔ الفاسی کو علم تاریخ و مطالعہ تاریخ سے فطری مناسبت تھی جو اُن کے اپنے عہد کی ایک خاص اور فطری خصوصیت ہوا کرتی تھی۔ روایتِ حدیث کی اِجازت الفاسی کو الشیخ نجم الدین المرجابی ابن عوض اور ابن السلار اور ابن المحب سے ملی تھی۔ مصنف حیاۃ الحیوان علامہ الدمیری بھی الفاسی کے اُساتذہ میں سے ہیں۔

شیوخ[ترمیم]

الفاسی نے اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث، مفسرین اور فقہا سے علم حاصل کیا جن میں مشہور یہ ہیں:

سیاحت[ترمیم]

الفاسی کی پیشہ ورانہ زندگی عمومی حالات کی پابند رہی، زمانہ طالب علمی اور زمانہ ما بعد العلمی انھوں نے خوب سیاحت کی۔ 797ھ مطابق 1394ء-1395ء میں انھوں نے پہلی بار مصر کا سفر اِختیار کیا اور آئندہ سال 798ھ مطابق 1395ء-1396ء میں وہ دمشق شام اور فلسطین کے علمی مراکز کی سیاحت کو پہنچے۔ 805ھ/ 1402ء-1403ء میں الفاسی نے جنوبی عرب کا سفر اِختیار کیا جہاں اُن کا بیشتر وقت جنوبی عرب کے صحراوں میں گذرا۔ اِن سفروں کا مفصل بیان اُن کی تصانیف اور تاریخ تالیف کی تصریحات میں جا بجا ملتا ہے۔

قاضی مکہ المکرمہ[ترمیم]

807ھ مطابق 1405ء میں انھیں مکہ المکرمہ کا مالکی قاضی مقرر کر دیا گیا۔ اِس دوران میں دو مختصر وقفوں کے لیے اور اُس مدت میں جب وہ بصارت سے محروم ہو گئے تھے، اِس عہدہ سے الگ رہے۔ پہلا وقفہ 817ھ مطابق دسمبر 1414ء تا جنوری 1415ء ہے، دوسرا وقفہ 819ھ تا 820ھ مطابق ماہِ جنوری تا ماہِ مئی 1417ء ہے۔ وہ 828ھ مطابق 1425ء تک قاضی المالکیہ مکہ المکرمہ کے عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے قاہرہ کے مالکی علما سے مدتِ عہدہ کی توسیع کے واسطے ایک فتویٰ لے لیا تھا جس کے مطابق وہ مزید کچھ عرصے کے لیے قاضی رہ سکتے تھے مگر جلد ہی محرومی بصارت کے سبب ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا۔ کل 21 سال تک وہ قاضی المالکیہ مکہ المکرمہ کے عہدہ پر فائز رہے۔[7][8]

وفات[ترمیم]

وفات سے 4 سال قبل یعنی 828ھ/ 1425ء میں الفاسی بصارت سے محروم ہو گئے تھے لیکن محرومی بصارت میں بھی وہ علمی کاموں میں مصروف رہے۔ الفاسی 57 سال 6 ماہ 14 یوم کی عمر میں بروز بدھ 4 شوال المکرم 832ھ مطابق 6 جولائی 1429ء کو مکہ المکرمہ میں فوت ہوئے۔[5]

تصانیف[ترمیم]

محرومی بصارت کے بعد بھی الفاسی نے اپنے علمی مشاغل کو جاری رکھا اور لوگ اُن کے علم و فضل، کردار اور مجلسی آداب کی تعریف کیا کرتے تھے لیکن ایک بات جس کا تذکرہ شاید تمام مورخین نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ اُن کے دل میں کوئی خفیہ بے چینی رہاکرتی تھی جس کا سبب معلوم نہ ہو سکا کیونکہ اُن کی تصانیف کے وقف ناموں میں یہ شرط درج تھی کہ یہ کتابیں کسی مکی کو عاریۃً نہ دِی جائیں۔

الفاسی کی کثیر التعداد تصانیف میں اُن کی اب تک محفوظ کتب کی تعداد 2 ہے جو یہ ہیں:[9][10][11]

  • جواہر الاصول فی حدیث الرسول
  • الاربعون الحدیث المتباینۃ المتن والاسناد

الفاسی نے اپنے اُستاد علامہ الدمیری کی حیاۃ الحیوان کی بھی ایک تلخیص کی تھی مگر بدقسمتی سے اب یہ موجود نہیں ہے۔

علمائے اِسلام کے تراجم کے متعلق الفاسی نے ابن نقطہ کی التقیید کا تکملہ لکھا جس میں خود اُن کی اپنی سوانح بھی موجود ہے۔ ابن العربی کی ایک کتاب کا رَد بھی لکھا ہے۔

منتخب المختار[ترمیم]

  • یہ کتاب واقعی قابل ذکر ہے، تاریخِ عنوانات کے تحت لکھی گئی ہے اور ابن الرافعی کے اُس تکملہ خلاصہ ہے جو اُس نے ابن النجار کے تکملہ تاریخ بغداد پر لکھا تھا۔ اِس کتاب کا قدیمی مخطوطہ بغداد میں 1357ھ/ 1938ء میں موجود تھا اور دوسرا قدیمی مخطوطہ مکہ المکرمہ میں مکتبۃ الشفاء میں جلد 2 ص 432 پر عدد نمبر2 کے تحت موجود ہے۔

مورخ الاسلام امام الذھبی کی سیر اعلام النبلا کا بھی ایک تکملہ لکھا تھا جو اب جزوی طور پر برلن جرمنی میں عدد نمبر 9873 کے تحت محفوظ ہے۔ اِن کتب کے علاوہ الفاسی نے امام الذھبی کی الاشارۃ کا تکملہ بھی لکھا اور الرسولیہ کی تاریخ بھی لکھی مگر یہ دونوں کتب اب ناپید ہیں۔ اِن کتب کے صرف نظر الفاسی کی شہرت کا دارومدار جس کتاب سے ہے وہ مکہ المکرمہ کی تاریخ کے متعلق ہیں اور یہ بات واقعی قابل تعجب بھی ہے کہ مورخ مکہ الاذرقی اور مورخ مکہ الفاکہی کے زمانے کے بعد مکہ المکرمہ کی تاریخ پر کوئی توجہ نہیں دِی گئی تھی۔ الفاسی کی مکہ المکرمہ پر بنیادی تاریخِ کتب یہ ہیں:

شفاء الغرام بِاخبار البلد الحرام[ترمیم]

  • یہ کتاب مکہ اور قاہرہ سے 1956ء میں شائع ہوئی اور اِس کے بعض ابواب کو وُسٹنفلٹ نے لائپزگ سے 1857 تا 1861ء کے وسطی عرصہ میں شائع کیا۔

العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین[ترمیم]

  • یہ کتاب قاہرہ مصر سے 1289ھ تا 1290ھ کے وسطی عرصہ میں شائع ہوئی اور مکہ المکرمہ میں 1314ھ میں شائع ہوئی۔ اِس کتاب کے مختلف مخطوطے موجود ہیں: مخطوطات قاہرہ، دَر کتب خانہ تیمور، منسوب تاریخ عدد نمبر 849۔ اِستنبول: کتاب خانہ فیض اللہ میں عدد نمبر 1482 کے تحت۔ قاہرہ : جامعۃ الازہر میں فہرس المخطوطات المصورۃ میں 1/2 عدد 181 اور 2/2 میں عدد 106 کے تحت۔ اِس کتاب کا مشہور و موجودہ نسخہ مکتبہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت، لبنان نے 1406ھ مطابق 1986ء میں شائع کیا۔

الزھور المقتطفۃ من تاریخ مکۃ المشرفۃ[ترمیم]

  • یہ کتاب شفاء الغرام کا خلاصہ ہے، اِس کا آغاز شہر مکہ المکرمہ کے جغرافیائی حالات سے ہوتا ہے۔ دراصل یہ تاریخ اُن اعیان کے سلسلہ تراجم کا مجوعہ ہے جو کسی نہ کسی طرح مکہ المکرمہ سے وابستہ رہے، اُن کے تراجم کی ابتدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دِگر اکابرین کے احوال سے ہوتا ہے جن کے نام محمد اور احمد تھے۔ مزید اِس میں مصنف الفاسی کی سوانح یعنی آپ بیتی بھی موجود ہے جو صیغہ غائب میں لکھی ہوئی ہے۔ تمام تراجم بلحاظِ حروفِ تہجی لکھے گئے ہیں۔

الفاسی نے شفاء الغرام کے مزید 6 مختصرات یعنی خلاصہ جات لکھے ہیں :

تحفۃ الکرام بِاخبار البلد الحرام[ترمیم]

  • یہ قابل ذکر کتاب ہے۔

تحصیل المرام من تاریخ البلد الحرام[ترمیم]

  • یہ تحفۃ الکرام کی تلخیص ہے، اِس کا ایک مخطوطہ پرنسی ٹون یونیورسٹی میں عدد نمبر 594 کے تحت محفوظ ہے جبکہ دوسرا مخطوطہ بروسہ ترکی میں کتب خانہ حسین چلبی میں عدد نمبر 794 کے تحت محفوظ ہے۔

عُجَالۃ القُریٰ للراغب فی تاریخ اُم القُریٰ[ترمیم]

  • یہ العقد الثمین کا خلاصہ ہے اور اب رام پور ہندوستان میں بصورتِ مخطوطہ محفوظ ہے۔

کتاب المُقنع فی اخبار الملوک والخلفاء و وَلاۃ مکۃ المشرفۃ[ترمیم]

  • اِسے F. Erdmann نے قازان سے 1822ء میں شائع کیا تھا۔

الرِضا والقبول فی فضائل المدینۃ و زِیارۃ الرسول[ترمیم]

  • یہ کتاب مدینۃ المنورۃ کے متعلق ہے جو العقد الثمین کے مکی طباعت والے نسخہ کے حاشیہ پر طبع ہوئی۔

الفاسی کی تصانیف کی مکمل فہرست[ترمیم]

  1. الأحاديث الأربعون المتباينة المتن والإسناد
  2. الجواهر السنية في السيرة النبوية
  3. الزهور المقتطفة من تاريخ مكة المشرفة
  4. العقد الثمين في تاريخ البلد الأمين
  5. المقنع من أخبار الملوك والخلفاء وولاة مكة الشرفاء
  6. إرشاد الناسك إلى معرفة المناسك
  7. إرشاد ذوي الأفهام لتكميل كتاب الأعلام
  8. إيضاح بغية أهل البصارة في ذيل الإشارة
  9. تجريد ذيل التقييد
  10. تجريد ولاة مكة
  11. تحصيل المرام من تاريخ البلد الحرام
  12. تحفة الكرام بأخبار البلد الحرام، وسماها أيضا عجالة القرى للراغب في تاريخ أم القرى
  13. ترويح الصدور باختصار الزهور
  14. تعريف ذوي العلا بمن لم يذكرہ الذهبي من النبلا وسماہ أيضا ذيل سير أعلام النبلا
  15. تقريب الأمل والسول من أخبار سلاطين بني رسول
  16. ذيل التقييد في رواة السنن والأسانيد
  17. ذيل العبر في خبر من غبر
  18. ذيل ذيل التقييد
  19. ذيل كتاب النبلا للذهبي
  20. شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام
  21. عجالة القرى للراغب في تاريخ أم القرى
  22. فهرس شيوخہ بالسماع والإجازة
  23. منتتخب المختار المذيل بہ على تاريخ ابن نجار
  24. ولاة مكة في الجاهلية والإسلام

حوالہ جات[ترمیم]

  1. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb14557684t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ابن العماد: شذرات الذھب، جلد 9 ص 290، تذکرۃ سنۃ 832ھ۔ طبع دارابن کثیر1406ھ/ 1985ء۔
  3. ابن فہد المکی: لحظ الحاظ بذِیل طبقات الحفاظ، تذکرۃ تقی الدین محمد الفاسی، ص 291۔
  4. محمد الحبیب الحلۃ : التاریخ والمورخون بہ مکۃ من القرن الثالث الہجری اِلی علی القرن الثالث عشر، جمع واعرد والتعریف، ص 114، طبع 1994ء۔
  5. ^ ا ب ابن العماد: شذرات الذھب، جلد 9 ص 290۔ تذکرۃ سنۃ 832ھ۔ طبع دار ابن کثیر 1405ھ/1986ء۔
  6. ابن فہد المکی: لحظ الاَلحاظ، ص 291 تا 297، طبع دمشق 1347ھ۔
  7. امام سخاوی: الضوء اللامع، جلد 7 ص 18 تا 20۔ جلد 6 ص 128۔
  8. امام سخاوی: اعلان بالتوبیخ بمن ذم التاریخ، ص 408 اور 414، طبع فرانز روزنتھال، لائیڈن 1952ء۔
  9. وُسٹنفلٹ : جلد 2 شمارہ 7 اور 16۔
  10. براکلمان: جلد 2 ص 221۔
  11. تکملۃ براکلمان: جلد 2 ص 221۔